اکثر لڑکیاں خوابوں میں رہتی بستی ہیں۔ میں بھی انہی میں سے تھی۔ جو مجھ پر بیتی ایسی کہانیاں کم ہی لکھی اور بیان کی جاتی ہیں مگر ، کبھی کبھی سماج کے بد نما عناصر کو آئینہ دکھانا ہی پڑتا ہے۔ اکثر والدین اپنی بچیوں کے فرائض سے جلد سبک دوش ہونے کی خاطر ان کی منگنی یا نکاح اوائل عمر میں کر دیتے ہیں ، ان میں کچھ خوش نصیب وقت پر اپنے گھروں کی ہو جاتی ہیں اور کچھ مجھ ایسی بدنصیب، خوشیوں کا منہ دیکھنے کو ترستی رہ جاتی ہیں۔ جن دنوں چھٹی جماعت میں پڑھتی تھی، والد صاحب نے اپنے دور کے رشتہ دار کے صاحب زادے گل رخ سے میرا رشتہ طے کر کے کچھ عرصے بعد اس کے ساتھ میرا نکاح کر دیا، جبکہ رخصتی بعد میں ہونا قرار پائی کیونکہ لڑکا انجینئر نگ کر رہا تھا۔ نکاح سے چند دن قبل گل رخ ہمارے گھر آیا، میں نے کھڑکی سے دیکھا۔ وہ گورا چٹا اور بہت خوبصورت تھا۔ خوبصورت تو میں بھی تھی لیکن زیادہ پڑھی لکھی نہ تھی جبکہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ ماں نے مجھے تلقین کی کہ تم بھی تعلیم کی طرف توجہ دو تا کہ تیرے سُسرال والے یہ نہ کہیں کہ ہماری بہو کو تعلیم کا شعور ہی نہیں، لیکن میں پڑھائی کی بجائے دن رات اپنے ہونے والے جیون ساتھی کے خیالوں میں کھوئی رہنے لگی۔ سہیلیاں اور بہنیں مجھے خوش قسمت سمجھتی تھیں کہ میرارشتہ اتنے اچھے لڑکے کے ساتھ ہو گیا تھا۔ یہ رشتہ تین سال رہا، پھر کسی ظالم کی ایسی نظر لگی کہ گل رخ کو اس کے قبیلے کے دشمنوں نے گولیاں مار کر ختم کر دیا۔ ہم کو کسی نے نہ بتایا کہ یہ دیرینہ دشمنی کا نتیجہ تھا یا وہ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اس کی یاد میں ، اس کے ماں باپ ہی نہیں، ہم بھی تڑپتے رہے اور میں بد نصیب کتنا رہی ہوں گی جو شادی سے قبل بیوہ ہو گئی تھی۔ اس سانحے کے بعد میں جیسے جینا ہی بھول گئی تھی۔ بہت زیادہ غمزدہ رہنے لگی۔ ماں سے کہہ دیا کہ اب کوئی رشتہ آئے تو جواب دے دینا۔ اب میں شادی نہیں کروں گی۔ اس کے بعد کئی رشتے اور آئے مگر میں خود کو شادی کے لئے آمادہ نہ کر پائی، بالآخر والد صاحب نے ایک رشتہ میری چھوٹی بہن کے لئے قبول کر لیا اور اس کی شادی دھوم دھام سے ہو گئی۔ ہمارے گھر کے سامنے ہی والد صاحب کے بھائی کا گھر تھا۔ ان کے تین بیٹے تھے۔ یوں تو کم ہی ہمارے گھر آتے تھے لیکن میری بہن کی شادی کے موقع پر کام کاج میں ہاتھ بٹانے کو پیش پیش رہے۔ ان کا منجھلا لڑکا جس کا نام پاشا تھا، وہ زیادہ ہمارے گھر آتا تھا۔ میرے والد کے ساتھ اس نے تقریب میں بڑھ چڑھ کر ہاتھ بٹایا۔ یوں میرے والدین کی نگاہوں میں وہ بہت اچھا بن گیا۔ زرینہ کی رخصتی کے بعد بھی وہ روز آنے لگا۔ امی کا خیال کرتا اور ان کے اکثر کام کر دیا کر تا تھا، اس طرح وہ ہمارے گھر کا ایک فرد بن گیا۔ پاشا میرا بھی خیال رکھتا۔ مجھ کو کسی چیز کی ضرورت ہوتی تو دوڑ کر بازار سے لا دیتا۔ ایک دن میں کچن میں کھانا بنارہی تھی۔ اچانک میرے دوپٹے نے آگ پکڑ لی۔ اتفاق سے وہ آگیا۔ اس نے جو دیکھا میری پشت پر آگ ہے اور مجھے احساس بھی نہیں، دوڑ کر آیا اور اپنے ہاتھوں سے جلتا ہوا دوپٹہ مسل کر آگ بجھادی لیکن اس کوشش میں اس کے اپنے ہاتھ جل گئے۔ اس واقعہ کا میرے دل پر اثر ہوا۔ تبھی سوچا، ہر وقت بس اپنے ہی خیال میں نہیں ڈوبے رہنا چاہئے بلکہ کبھی کسی اور کے بارے میں بھی سوچنا چاہئے۔ رفتہ رفتہ میری سوچوں کا دھارا بدلنے لگا اور اب میں اُجالوں کے بارے میں باتیں کرنے لگی۔ جب میں نے اس کے بارے اپنی ذات سے نکل کر سوچا تو اسے بھی احساس ہو گیا کہ میں اس کو چاہنے لگی ہوں۔ اب ہم وقت کی اوٹ میں جب موقع ملتا باتیں کر لیتے ۔ جس روز وہ نہ آتا میں بے چین ہو جاتی۔ ہمارا گھر کافی بڑا تھا۔ والدہ گھر کے ایک حصے میں کام کر رہی ہو تیں تو ہم کسی دوسری طرف جابیٹھتے اور باتیں کرنے لگتے۔ ماں کو پتا بھی نہ چلتا کہ میں کدھر ہوں۔ وہ آواز دیتیں تو میں دوڑ کر ان کے پاس پہنچ جاتی۔ ان کو بالکل شک نہ ہوا کہ میں پاشا کو چاہنے لگی ہوں۔ وہ مجھے ابھی تک دُکھی اور غم زدہ ہی سمجھتی تھیں، اس لئے شادی کا ذکر تک میرے سامنے نہ کرتیں تھیں۔ مبادا اور دُکھی ہو کر رونے لگوں۔ والدین تو دل سے چاہتے تھے کہ میرے دل کی مرجھائی ہوئی کلی کھلے۔ وہ اب میری شادی کے فرض سے سبک دوش ہونا چاہتے تھے۔ میں نے میٹرک کر لیا تھا اور اب پی ٹی سی کا کورس کر رہی تھی۔ چاہتی تھی کہ ٹریننگ مکمل کر لوں تو والدین پر یہ بات کھلے کہ اب میں شادی کرنا چاہتی ہوں اور میں نے پچھلا غم بھلا دیا ہے۔ پاشا پر مجھے اعتبار تھا کیونکہ وہ اپنی تمام باتیں مجھے کہہ دیا کرتا تھا لیکن یہ میری بھول تھی کیونکہ انسانی ذات بڑی پیچیدہ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم کسی کو پوری طرح سمجھ لیں گے حالانکہ ہم برسوں کے ساتھ کے باوجود کسی کو تھوڑا سا بھی سمجھ پائیں تو بڑی بات ہے۔ ایسا ہی میرے ساتھ بھی ہوا، ہم ایک دوسرے کے رازدار بن چکے تھے لیکن اصلی راز اس نے مجھے نہیں بتائے۔ یہ مجھے بعد میں پتا چلا کہ وہ کئی لڑکیوں کو بے وقوف بنا چکا تھا۔ مسکراہٹ ہر وقت پاشا کے ہونٹوں پر رہتی تھی۔ وہ اکیس برس کا لمباتر نگا اور خوبر و نوجوان تھا۔ ظاہری طور پر مہذب اور بہت شریف النفس دکھائی دیتا تھا لیکن اس کے اندر کا انسان ظاہر کی رُوپ سے بہت مختلف تھا۔ ایک دن میں نے اُسے کہا۔ رشتے کے لئے اپنے والدین کو ہمارے ہاں بھیجو تو اس نے مالی مشکلات کا بہانہ بنا کر یہ بات کچھ وقت کے لئے ٹال دی لیکن مجھے یقین دلایا کہ شادی میں تمہارے سوا کسی سے نہ کروں گا۔ مجھے بھی اطمینان اور سکون تھا کہ گھر کی بات ہے پاشا کون سا مجھے دھوکا دینے والا ہے۔ کچھ عرصے کا انتظار اور سہی۔اس دوران میرے لئے ایک اور بہت اچھار شتہ آگیا۔ والدہ نے میری رائے لی، میں نے صاف انکار کر دیا۔ اس وقت میں ایف اے کی تیاری کر رہی تھی، جس میں پاشامد ددینے کے بہانے مجھ سے اور قریب آگیا تھا۔ وہ دیر تک مجھے پڑھاتا۔ جب والد ٹرک لے کر کئی دن دوسرے شہروں گئے ہوتے ، چھوٹی بہن اور امی سو جاتیں تو ہم رات دیر تک اکیلے رہ جاتے تھے۔ تنہائی میں برائی جنم لیتی ہے کیونکہ آگ اور کپاس کا کوئی میں نہیں۔ میں محبت کو عبادت سمجھتی تھی لیکن پاشا ایسا نہیں سمجھتا تھا، لہذا اس نے تنہائی سے فائدہ اُٹھا کر مجھ کو میرے ہی خوابوں کے جال سے شکار کر لیا۔ اب وہ دن رات یہی باتیں کرتا کہ ہم لوگوں کا ایک چھوٹا سا گھر ہو گا اور اس میں پیار کی پھلواری مہکتی ہو گی۔ میں تو سہانے خواب دیکھ رہی تھی اور وہ میرے قریب آتے آتے حد سے گزرتا جاتا تھا۔ ایک دن ہم رات کے بارہ بجے ساتھ بیٹھے تھے کہ میری والدہ جاگ گئیں۔ وہ دبے قدموں میرے کمرے میں پہنچیں، شاید انہیں کچھ شک ہو گیا تھا۔ پاشا کو میرے قریب پا کر دنگ رہ گئیں، غم و غصے سے اور تو کچھ نہ کر سکیں، پہلے اپنے گالوں پر طمانچے مارے، پھر رونے لگیں۔ انہوں نے تو پاشا کو قریبی عزیز ہونے کے ناتے اپنا سمجھا تھا، اعتبار کیا تھا مگر آج ان کا حوصلہ ٹوٹ گیا تھا۔ میں رورو کر امی سے معافی مانگنے لگی۔ پاشا نے بھی ان کے پیروں کو ہاتھ لگا کر معافی کے لئے التجا کی اور کہا کہ وہ مجھ سے شادی کرے گا۔بے شک والدین کو جہاں بیٹیوں کے اچھے رشتوں کا خیال ہوتا ہے ، وہیں ان کی عزت کا بھی پاس ہوتا ہے۔ اس واقعہ کے بعد پاشا نے شرمندگی کی وجہ سے ہمارے گھر آنا بہت ہی کم کر دیا۔ آتا بھی تو صرف ماں کو سلام کر کے چلا جاتا اور ان کے سامنے نظر نہ اُٹھاتا۔ والدہ نے اس واقعے سے بابا جان کو لاعلم رکھا۔ وہ جانتی تھیں کہ اگر شوہر کو کسی بات کی بھنک بھی پڑ گئی تو پاشا کے گھر جا کر خون خرابہ کر دیں گے۔ یوں پاشاوالوں میں کوئی خرابی نہ تھی، سوائے اس کے کہ مالی لحاظ سے ذرا کمزور تھے۔ آخر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ جوں جوں میں شادی پر اصرار کرنے لگی پاشانت نئے بہانے تراشنے لگا، یہاں تک کہ میں نے اس سے ناراض ہو کر بولنا چھوڑ دیا مگر اس دُکھ سے نڈھال تھی کہ اس نے ہمارے ہاں آنا بالکل ترک کر دیا تھا۔ مجبور ہو کر میں خود اس کے گھر گئی۔ اتفاق سے وہ اکیلا تھا اور چائے بنارہا تھا، میرے لئے بھی بنائی اور کپ میں ڈال کر لے آیا۔ ہم دونوں چائے پینے لگے اس طرح ہماری صلح ہو گئی۔ میں نے ایف اے کے پرچے دیئے۔ آخر کی پرچے میں میری طبیعت خراب ہو گئی۔ پرچہ جوں توں دیا، ہال سے باہر نکلی تو چکر آیا اور میں گر گئی۔ والدہ مجھے قریبی ڈاکٹر کے پاس لے گئیں۔ اتفاق سے ڈاکٹر نماز پڑھنے گیا ہوا تھا، کلینک میں نرس موجود تھی۔ اس نے دوادی اور میری حالت سنبھل گئی، ہم گھر آگئے۔ اس دوران پاشا کی بہن کی شادی ہونے لگی۔ وہ شادی کے کاموں میں مصروف ہو گیا مگر میری پریشانی اب نا قابل بیان تھی، جس کا پاشا کو اندازہ ہی نہ تھا۔ چچی نے مجھے بلا بھیجا کہ آلو کچھ کام کر وا جائو لیکن میں نہ گئی تو پاشا خود بلانے آگیا۔ اس وقت میں اپنے کمرے میں اکیلی بیٹھی اور ہی تھی کیونکہ امی بھی پاشا کے گھر چچی کے پاس گئی ہوئی تھیں۔ مجھے روتا پا کر وہ پریشان ہو گیا اور پوچھا کہ کیا ہوا؟ کیوں رو رہی ہو ؟ جب میں نے اُسے پریشانی کی وجہ سے آگاہ کیا تو اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ اس نے مجھے تسلی دی کہ فکر نہ کرو، بہن کی شادی ہے جو نہی فراغت ملتی ہے ، میں آمی سے اپنی اور تمہاری شادی کی بات کرتا ہوں لیکن یہ جھوٹی تسلی تھی۔ اس واقعے کے دوروز بعد خالہ خالو بھی شادی میں شرکت کرنے نزدیکی گائوں سے آگئے۔ آتے ہی خالو نے مجھے خوش خبری سنائی۔ میں نے فی الحال اپنے گائوں میں تمہاری ملازمت کرادی ہے جو ابھی عارضی ہے تاہم ہمارے گھر کے نزدیک ہی لڑکیوں کا پرائمری اسکول ہے، تم کو سہولت رہے گی۔ یہ بتا کر انہوں نے مجھے جوائننگ لیٹر بھی دیا۔ وہ محکمہ تعلیم میں ملازم تھے لہذا اتنی جلد میری بطور ٹیچر ملازمت کا بندوبست ہو گیا۔ پاشا کی بہن کی شادی ہو گئی ،اسے فراغت ملی اور مجھے جو ائننگ لیٹر ملا تو والدہ نے کہا کہ اب خالہ کے گائوں نوکری پر جائو گی کیسے ؟ کون روز تم کو چھوڑنے اور لانے جائے گا؟ پاشا نے کہا۔ تائی جی ! میں جائوں گا، میرے پاس موٹر سائیکل ہے۔ گائوں کون ساڈور ہے۔ فی الحال ملازمت جوائن کر لینے دیں، بعد میں خالو جی کسی سے کہہ سُن کر اپنے شہر میں تبادلہ کروا دیں گے۔ والدہ نے اجازت دے دی، کیونکہ میں نے بہت منت کی تھی کہ جو ائننگ نہ دی تو خالود و بارہ سفارش نہ کر سکیں گے اور مجھے سرکاری ملازمت بھی پھر کبھی نہ مل پائے گی۔ پاشار وز مجھے اپنی موٹر سائیکل پر اسکول چھوڑنے اور لینے جاتا کیونکہ والد صاحب دوسرے شہر میں ہوتے اور میرا کوئی بھائی نہ تھا۔ ہم اب دونوں ہی بہت پریشان تھے۔ ہمارے مسئلے کا واحد حل فوری طور پر شادی تھا لیکن فوری شادی پر چار اضی نہ تھے کہ بیٹی کی شادی کا قرضہ چڑھا تھا، بیٹے کی شادی کا خرچہ کہاں سے لاتے۔ فی الحال دو سال تک پاشا کی شادی کے حق میں نہ تھے۔ جب پریشانی کا کوئی حل سمجھ میں نہیں آیا تو ایک دن اسکول جانے کی بجائے پاشا مجھے ایک ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ اس سے درخواست کی کہ میری بیوی پریشان ہے۔ ہمارا ایک بچہ ابھی چھوٹا ہے اور یہ ملازمت کرتی ہے ، فی الحال دوسری ذمہ داری کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ لیڈی ڈاکٹر نے الٹراسائونڈ کیا اور بولی کہ خُدا کی جو مرضی ہے پوری ہونے دو کیونکہ وقت زیادہ ہو چکا ہے۔ اب میں آپ لوگوں کی کوئی مدد نہیں کر سکتی۔ اس دن ہم جب چھٹی کے ٹائم سے پہلے گھر واپس آگئے تو ماں پریشان ہو گئیں۔ جلد آنے کی وجہ پوچھی۔ میں نے کہا کہ آج جلد چھٹی ہو گئی تھی لیکن ماں کو شک ہو گیا، کیونکہ پریشانی ہمارے چہرے پر لکھی ہوئی تھی۔ ماں نے مجھ سے طرح طرح کے سوالات کرنا شروع کر دیئے۔ بالآخر میں نے انہیں پریشانی سے آگاہ کر دیا۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں اور مجھے لے کر خالہ کے گھر گئیں۔ خالہ نے کہا کہ اس کو میرے پاس رہنے دو۔ میں اپنے شوہر کو سنبھال لوں گی لیکن تم اپنے شوہر کو سنبھالو اور پاشا سے کہو کہ جلد از جلد شادی کا بندوبست کرے۔ انہوں نے اسکول میں بھی یہی کہہ دیا کہ میری بھانجی شادی شدہ اور پاشا اس کا شوہر ہے۔ خالو بہت نیک دل اور شریف آدمی تھے ، انہوں نے پر دو رکھ لیا اور پاشا کو بلا کر حکم دیا کہ فوراً اپنے والدین کو شادی کے لئے راضی کرو۔ جب بابا جان کار و باری امور نمٹا کر گھر آئے، میرے بارے میں پوچھا۔ ماں نے بتایا کہ روز روز گائوں آنا جانا ممکن نہ تھا۔ تمہاری بیٹی سرکاری ملازمت چھوڑنا نہیں چاہتی، تبھی اس کے خالو تبادلہ کرانے کی کوشش کر رہے ہیں تب تک ہماری بیٹی ان کے گھر رہے گی۔ وہاں سے اسکول آنا جانا آسان ہے، صرف چھٹی کے دنوں میں گھر آیا کرے گی۔ ایک دن جب مجھے محسوس ہوا کہ آج اسکول جانا ممکن نہیں ہے تو میں کمبل اوڑھ کر لیٹ گئی۔ خالو اپنے دفتری کام سے لاہور گئے ہوئے تھے۔ خالہ نے پاشا کو اپنا ملازم لڑکا بھیج کر بلوالیا۔ اس کے آنے تک میں اس بد نصیب روح کو جنم دے چکی تھی کہ جس کو میں سماج کے خوف سے گود میں نہیں لے سکتی تھی۔ پاشا آیا، خالہ نے کہا۔ ملعون تو اپنے والدین کو تو راضی نہ کر سکا۔ اب اس کو لے جا اور جہاں مرضی رکھ ۔ کسی کو دے دے یا خو د ر کھ لے ، ہمارے در پر دوبارہ مت آنا۔ جانے اس ظالم نے اس تھیلے کا کیا کیا جس میں اس کا اپنا ہی لخت جگر تھا۔ اس طرح میری زندگی میں بہار آنے کی بجائے پوری زندگی ہی برباد ہو گئی۔ اس کے بعد مجھے پاشا سے اور شاید اُسے بھی مجھ سے نفرت ہو گئی۔ چند دنوں بعد جب میں اپنے والدین کے گھر گئی تو اس نے صاف کہہ دیا کہ اب ہماری شادی نہیں ہو سکتی کیونکہ جس وجہ سے میں جلد از جلد تم سے شادی کرنا چاہتا تھا، وجہ ہی نہ رہی تو پھر اب شادی کا کیا جواز رہا ہے۔ اس نے یہ بھی نہ بتایا کہ اس نے اس تھیلے کا کیا کیا، کس کو دیا یا کہیں پھینک دیا۔ البتہ یہ کہا کہ وہ مجبور ہے۔ اس کے والدین اس کی شادی مجھ سے کرنے پر کسی طور راضی نہیں۔ اس کی ماں اپنی بھانجی کو بہو بنانا چاہتی ہے۔ جب اس نے یہ الفاظ کہے ، دل کرتا تھا کہ اس کے منہ پر تھپڑ مار دوں۔ بس اتنا ہی کہہ سکی کہ پھر مجھ کو دوبارہ اپنی صورت نہ دکھانا۔ جب معلوم تھا تیرے ماں باپ راضی نہیں ہوں گے تو مجھ کو اور میری ماں کو یقین کیوں دلایا اور ہم سے جھوٹے وعدے کیوں کئے تھے۔ آہ ! اس دن تو جی چاہتا تھا کہ زمین شق ہو جائے اور میں بد بخت اس میں سما جائوں۔ میری ماں کو تو ایسا صدمہ لگا کہ وہ اپنے خالق حقیقی کے پاس چلی گئیں۔ ان کو میری بربادی کا بہت دکھ تھا، غلطی تو میری تھی، سزا میری بے قصور ماں کو بھی ملتی تھی، سوایسا صدمہ ملا کہ وہ سہ نہ سکیں اور جان سے گئیں۔ چند دن بعد خالو کا انتقال ہو گیا۔ خالہ اکیلی رہ گئیں۔ چھوٹی بہن کی والد صاحب نے شادی کر دی تو میں خالہ کے پاس چلی گئی کیونکہ وہاں ہی میری ملازمت کی ہو گئی تھی۔ والد نے چاہا میرا بھی گھر بس جائے مگر مجھے شادی سے نفرت ہو گئی تھی۔ میں نے ان سے استدعا کی مجھے مجبور نہ کریں۔ وہ اپنی بہن کے پاس رہنے لگے جو مدت سے بیوہ تھیں۔ میں آج بھی خالہ کے گھر رہتی ہوں۔ اسکول میں ملازمت کرتی ہوں اور خالہ کے گھر کو ہی اپنا گھر سمجھتی ہوں کیونکہ اس دُنیا میں میرا اپنا گھر کوئی نہیں ہے۔