جگنو اپنے خاندان سے سخت کبیدہ خاطر رہتی تھی۔ ہر بندہ دوسرے سے ناراض، ہر فرد شکوہ کناں، اور ناراضیاں و تلخیاں اتنی طویل ہوتیں کہ زندگی ختم ہو جاتی، مگر ناراضیاں ختم نہ ہوتیں۔ ہاں، جب کسی رشتے دار کی وفات کی خبر سننے کو ملتی تو سب روتے دھوتے، اور پیش پیش ہوتے جو زندگی بھر مرحوم کا نام لینا بھی گوارا نہ کرتے تھے۔ جگنو دل ہی دل میں اسے “مردہ پرستی” کہتی۔ وہ سوچتی، جو شخص ہر اچھے برے رویے سے بے نیاز ہو چکا ہے، اس کے لیے ہمارے آنسو کیا معنی رکھتے ہیں بھلا؟آنسوؤں کے بیچ میں حماقتوں کا ذکر ہوتا (پرنم مسکراہٹ کے ساتھ)، چن چن کر گمشدہ قصے دہرائے جاتے، اور کہیں بھی اس ماضی کا شائبہ نہ ہوتا جس کی وجہ سے زندگی کا اتنا اچھا وقت گلے شکوؤں میں ضائع ہو چکا تھا۔ ایسے موقعوں پر جگنو ہمیشہ سر جھٹک کر رہ جاتی۔ نانا سردیوں میں ہمیشہ گرم چادر اوڑھتے، اسے دھوپ لگواتے، نرمی سے ہاتھ پھیرتے جیسے کوئی لمس ڈھونڈ رہے ہوں، اور اکثر اسے لپیٹ کر یادوں میں کھو سے جاتے تھے۔ نانا بتاتے کہ یہ ان کے مرحوم بھائی کی ہے، جس سے لین دین پر جھگڑا ہوا تھا۔ یہ جھگڑا اتنا بڑھا کہ مرتے دم تک دونوں بھائی نہ مل پائے۔نانا نے جب چھوٹے بھائی کی کینسر کی خبر سنی تو اسے ڈھکوسلا سمجھا۔ بیمار بھائی بلاتا رہا، لیکن نانا ناراضی کا پیرہن اوڑھے بیٹھے رہے۔ جب بھائی کی وفات کی خبر سنی تو گویا سکتہ ہو گیا۔ خوب روئے دھوئے، پھر کچھ نہ سوجھا تو بھائی کی گرم شال ساتھ لے آئے۔ اسے اوڑھتے، دھوپ لگواتے، اور سنبھال کر رکھتے۔ کاش رشتے بھی اسی حفاظت کے ساتھ رکھے جا سکتے، دھوپ لگا کر، قہقہہ لگا کر۔ جگنو اکثر سوچتی۔ صاف گو جگنو نے ایک دن اپنے دل کی بات کو عنوان دے ہی دیا۔نانا، بہتر نہیں ہے کہ ہم جھوٹی انا پر پیر رکھ کر رشتے بچائیں؟نانا افسردگی سے سامنے دیکھتے رہے اور پھر آہستگی سے گویا ہوئے:یہ انا بہت ظالم چیز ہے، بیٹا۔ انسان کو خاکستر کر دیتی ہے اور رشتے فنا کر دیتی ہے۔ اپنے قیدیوں کو رشتوں کی موت سے پہلے رہائی نہیں دیتی۔نانا کے لہجے میں پچھتاوا اور دکھ بول رہے تھے۔ جگنو جو انہیں شرمندہ کرنا چاہتی تھی، ان کی کٹھور دلی پر بات کرنا چاہتی تھی، وہ ان کے افسردہ لہجے سے خود بھی اداس ہو گئی۔اپنے گھر میں، جگنو دیکھتی کہ پپا کے سیدھے ہاتھ کی انگلی میں فیروزے کی ایک خوبصورت ڈیزائن والی انگوٹھی ہمیشہ موجود رہتی۔ یہ انگوٹھی وہ خود سے جدا نہ کرتے تھے۔مما بتاتی تھیں کہ یہ رفو پھپھو کی تھی۔ وہ سب سے چھوٹی اور سب کی لاڈلی تھیں، بالخصوص پپا کی۔ دھوم دھام سے ان کی شادی ہوئی تھی، لیکن چند برس بعد انہوں نے جائیداد میں سے اپنا شرعی حصہ طلب کر لیا۔یہ سنتے ہی بھائی شعلہ بن گئے۔ صرف دادی تھیں جو آنے والے حالات کو تین برس تک نم آنکھوں سے دیکھتی رہیں۔جگنو کو یاد تھا کہ کیسے پپا، چاچو، مما اور چاچی نے پھپھو کو بے عزت کر کے گھر سے نکال دیا تھا۔ ہم دے چکے جو دینا تھا۔ پڑھائی لکھائی، جہیز، کپڑا لتا، زیور! پھپھو گھر کا راستہ بھول گئیں۔ جب تک دادی زندہ رہیں، ان کا فون پر رابطہ رہا۔ دادی کی وفات کے بعد یہ سلسلہ بھی ختم ہو گیا۔ برسوں بعد جب ان کی وفات کی خبر ملی تو سب لوگ گئے۔ وہاں معلوم ہوا کہ مالی حالات کی خرابی اور شوہر کی بیماری کی پریشانیوں کے باعث انہوں نے اپنا حق مانگا تھا۔ اگر بھائی حصہ نہ بھی دیتے تو کم از کم دل جوئی ہی کر لیتے، صلہ رحمی ہی کر لیتے۔پھپھو کے سوئم اور چالیسویں کے موقع پر بھائیوں نے دھوم دھام سے تقریب منعقد کی، دنیا کے سامنے واہ واہ بٹوری۔- مما آپ کو بہت یاد کرتی تھیں۔ آخری وقت تک آپ کی منتظر رہیں۔ فروا نے آہستگی سے کہا۔ پپا خاموش اور بوجھل نظر آ رہے تھے۔یہ انگوٹھی آپ نے انہیں گفٹ کی تھی، ناں؟فروا نے اپنے پرس سے انگوٹھی نکالی۔مما کو یہ بہت عزیز تھی۔ پپا نے جھٹ انگوٹھی پہن لی اور پھر کبھی جدا نہ کی۔ جگنو کو کسی سے ہمدردی محسوس نہ ہوئی۔میں بھی جھوٹی انا کو کبھی اپنی زندگی پر حاوی نہیں ہونے دوں گی۔ اگر رشتے عزیز ہیں تو جھکنے میں کوئی حرج نہیں۔” اس نے دل ہی دل میں ارادہ کر لیا۔
☆☆☆
زندگی رشتوں کی اس ناراضی اور انا پرستی کے ساتھ رواں دواں تھی۔ شاید انسان کی فطرت یہی ہے۔ دوسروں کو بدلنے کے بجائے ہمیں خود کو بدلنا ہوتا ہے۔اسی سوچ کے ساتھ وہ والدین کے گھر سے رخصت ہو کر فیصل کے گھر آ گئی۔ اس کی کشادہ دلی اور وسعتِ قلبی کے سب قائل تھے۔چاچی بھی اس سے ناراض نہ ہوتیں۔بھابھی ہمیشہ ملنے میں پہل کرتیں۔دیور اور نندیں کہا کرتیں، بیٹیوں سے بڑھ کر ہے، جیتی رہو۔جب بھی ساس سر پر ہاتھ پھیرتیں تو یہی دعا دیتیں۔وقت آگے بڑھ رہا تھا۔ جگنو کو شروع سے سلیم بھائی کی فضہ پسند تھی۔ بیٹے نے بھی ماں کی پسند کا احترام کیا اور یوں فضہ اور رضا کی نسبت طے ہو گئی۔انہی دنوں فیصل اور سلیم بھائی میں کسی معاملے پر ایسی تلخی پیدا ہوئی کہ جینا مرنا ختم ہو گیا۔اگر تم نے میکے کا نام بھی لیا تو۔۔۔فیصل مٹھیاں بھینچ کر کہتا۔رشتے بھی ٹوٹ گئے اور دل بھی۔سلیم بھائی نے فضہ کا رشتہ فوراً اپنے دوست کے بیٹے سے طے کر کے گویا اینٹ کا جواب پتھر سے دیا۔ یوں جگنو، شوہر اور بیٹے کا مان رکھنے کے لیے انا کے کھیل کا شکار ہو گئی۔بعض اوقات ہم اپنی انا کو سر اٹھانے نہیں دیتے، لیکن ہم سے وابستہ رشتے داروں کی انا ہمیں مجبور کر دیتی ہے۔ جگنو کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ سب میکے والوں نے سلیم بھائی کا ساتھ دیا۔میکے کی خبریں کبھی کبھار اسے ملتی رہتیں—کسی کی بیماری، پریشانی یا خوشی کا حال۔ جگنو دل مسوس کر رہ جاتی۔
☆☆☆
پانچ برس بیت گئے۔ انہی دنوں اسے فضہ کی منگنی ٹوٹنے کی خبر ملی۔ قدرتی بات تھی۔ دل افسردہ ہو گیا۔ پھر سلیم بھائی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ۔ وہ تڑپیں جانا چاہتی ہیں۔ لیکن فیصل کی انا ابھی بھی تو انا تھی۔ ہر گز نہیں نہیں ۔ فیصل اس وقت صرف ایک مرد تھا۔ جھوٹی انا کا قیدی ۔ سلیم بھائی کی حالت سیریس تھی۔سب بہن بھائی اسے بلا رہے تھے۔ بھائی ، بار بار تمہارا نام لے رہے ہیں جگنو ۔ وہ تڑپ اٹھتی ۔ مگر بے بس تھی۔ کیا وہ بھی بھائی کی چیزوں کے سہارے زندگی کے دن گزارے گی ؟ اس کی نظروں میں شکست خوردہ نانا اور پچھتاؤں کے مارے پپا کے چہرے آ جاتے۔ رو رو کر وہ خود بھی بیمار ہو چکی تھی۔ فیصل اپنی انا کو نفرت کا پانی دے رہے تھے۔رضا نے جب ماں کی حالت دیکھی تو دل پانی پانی ہو گیا۔ اس نے کتنے عرصے بعد خالہ کو فون کیا۔خالہ، مما بیمار ہیں، بہت بیمار… وہ اپنی آواز کی لرزش پر قابو نہ پا سکا۔رضا، میں آ رہی ہوں، جسٹ ویٹ! اچانک فون پر کسی کے قبضے کی آواز آئی۔ یقینا خالہ کے ہاتھ سے سیل فون لے لیا گیا تھا۔ اور آدھے گھنٹے بعد فضہ اس کے گیٹ پر کھڑی تھی۔فضہ سیدھی فیصل کے پاس گئی۔انکل، میں پیا کے رویے کی معافی مانگتی ہوں۔ آپ پھپھو کو ان کے قصور کی اتنی بڑی سزا نہ دیں۔ ہم ملنے کے لیے موت کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟ میں بیٹی بن کر آئی ہوں، براہ کرم میرا مان نہ توڑیں۔ اس نے ہاتھ جوڑ دیے۔کتنے پل خاموشی کی نذر ہو گئے۔ فیصل جھوٹی انا کا شکار ضرور تھے، لیکن کٹھور ہرگز نہ تھے۔ وہ جگنو کی خدمات کے معترف تھے اور فضہ بھی انہیں پسند تھی۔انہوں نے چپ چاپ فضہ کے سر پر ہاتھ رکھا اور بیٹے کو گاڑی کی چابی لانے کا اشارہ کیا۔ کچھ دیر بعد وہ سلیم بھائی کے پاس موجود تھے۔جگنو رو رہی تھی، جبکہ بھائی کا ہاتھ تھامے کھڑی تھی۔ فیصل سنجیدہ تھے، اور رضا اور فضہ مطمئن نظر آ رہے تھے۔فیصل نے کہا، میں بڑا ہوں مگر معافی مانگتا ہوں۔ جھکنے میں کوئی عار نہیں ہوتی، ورنہ رشتے خاک میں مل جاتے ہیں – سلیم بھائی کی آواز نقاہت زدہ تھی، لیکن انہوں نے آگے بڑھ کر ہاتھ کھول دیے۔ دونوں گلے لگ گئے۔جھوٹی انا نے تڑپ کر آخری بار سر اٹھایا، پھر زمین پر گر کر ریزہ ریزہ ہو گئی۔آج رشتوں کی محبت نے انا کو شکست دے دی تھی۔ ہر جدائی کی تکلیف دہ گھڑیاں بیت چکی تھیں۔