بچپن سے میرے ذہن میں عورت کا تصور بہت پیارا تھا کیونکہ بیٹیاں ، اپنی ماں کو ہی اپنا آئیڈیل بناتی ہے۔ ہم نے بھی ہمیشہ اپنی ماں کو شفیق ، محبت کرنے والی اور شوہر پر جان نثار کرنے والی بیوی کے روپ میں دیکھا تھا۔ میری والدہ ایک مثالی خاتون ہونے کی وجہ سے ہر دلعزیز تھیں۔ میں اور میرا بھائی دونوں ہی یہ سمجھتے تھے جس طرح وہ میرے والد کی وفادار اور خدمت گزار ہیں، ہر عورت ایسی ہی ہوتی ہوگی۔ امی کو بھائی اکرام کا سہرا دیکھنے کی بڑی آرزو تھی۔ تب بھائی پڑھ رہے تھے اور شادی کے لئے ذہنی طور پر تیار نہ تھے۔ امی کے تصور میں اپنی بہو کا حسین مکھڑا چمکتا رہتا اور اکرام بھیا کہتے۔ جب تک زندگی کی ہر آسائش اس کے لئے مہیا نہ کرلوں، بیاہ کر نہ لاؤں گا۔
اکرام کا نظریہ، یہ تھا کہ اپنی بیوی کو ہر آسائش مہیا کرنا چاہیے۔ وہ اگر کوئی فرمائش کرے تو مرد کو چاہئے کہ اسے پورا کرے تا کہ عورت کو زندگی کی چھوٹی موٹی چیزوں کی حسرت نہ رہے۔ اس طرح مرد کی برتری بھی اس پر قائم رہتی ہے اور وہ ادھر ادھر سوچنے کی بجائے صرف اپنے شوہر کی ذات کے بارے سوچتی ہے۔ سوء اکرام نے اچھے گھر اور پیاری بیوی کے تصور میں دل لگا کر محنت کی اور ہر قدم پر کامیاب رہا۔ آخر وہ دن آگیا، جب وہ ایک اچھے عہدے پر فائز ہو گئے تبھی انہوں نے یہ محسوس کیا کہ اب ان کی شادی ہو جانا چاہیے۔ والدہ نے بھی محسوس کر لیا کہ اکرام گھر بسانا چاہتا ہے۔ انہوں نے میری ماموں زاد سے اس کی شادی کروانا کروانا چاہی مگر بھائی کو وہ پسند نہ تھی۔ انہوں نے دور کے ایک رشتہ دار کی لڑکی صبا کا نام لیا، جو دراز قد اور خوبصورت تھی ۔ امی نے سوچا کہ چلو، جہاں میرا بیٹا راضی ہے، ادھر ہی رشتہ کردوں تو اس میں کیا ہرج ہے ۔ یوں صبا کے والدین کے گھر پیغام دیا۔ وہاں سے فوراہاں ہو گئی اور دو ماہ کے اندر اندر شادی ہو گئی۔ اکرام بھیا، صبا جیسی دلہن پا کر بہت خوش تھے، جو چاند کا ٹکڑا تھی۔ وہ فخر کرتے کہ مجھ کو اتنی اچھی بیوی مل گئی ہے۔ وہ جیسی شریک حیات چاہتے تھے، وہ اس سے بڑھ کر حسین تھی۔ ایک ماہ کی چھٹیاں پلک جھپکتے گزر گئیں اور وہ اپنے فرائض کی بجا آوری کے لئے راولپنڈی چلے گئے تبھی انہوں نے اچانک اپنی بیوی کے رویئے میں کچھ تبدیلی محسوس کی ۔ شروع میں اسے وقتی کیفیت خیال کیا۔ وہ پیار کا جواب بے رخی سے دینے لگی تھی۔ یہ اسے بھی ناز و انداز سمجھ رہے تھے۔ یہ تو کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ ہمارے گھر میں ایسا ڈرامہ کھیلا جائے گا۔ جس پر مرد قتل اور عورتیں خود کشی کر لیتی ہیں۔ ایک روز وہ دفتر سے گھر آئے تو انہیں لگا کہ ملازم کچھ کہنا چاہتا ہے، مگر کہ نہیں پاتا۔ وہ صاحب جی کہتا پھر چپ ہو جاتا۔ بھائی سمجھے، اس کو کچھ رقم چاہئے، تبھی دینو بابا نے وہ بات کہہ ڈالی جو کہتے ہوئے ہچکچا رہا تھا۔ بتاتی چلوں کہ بھائی کو دفتر کی طرف سے جو گھر ملا تھا، وہ الگ تھلگ کسی ایک آبادی میں تھا، جہاں ان کے ساتھ بابا دینو بھی رہتے تھے اور ہم سب گھر والے اپنے شہر میں تھے۔
جو بات بابا دینو نے کہی، اس سے میرے بھائی کو شدید ذہنی صدمہ پہنچا۔ اس نے بتایا کہ اکرام صاحب آپ کی غیر موجودگی میں اکثر ایک شخص صبا بی بی سے ملنے آتا ہے اور آپ کے آنے سے پہلے چلا جاتا ہے۔ ان الفاظ نے اکرام بھائی کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ دوسرے روز انہوں نے دفتر سے چھٹی لی اور وقت سے پہلے گھر پہنچ گئے ۔ انہوں نے دروازہ بجایا۔ صبا سمجھی کہ دینو بابا ہے۔ اس نے دروازہ کھولا تو سامنے شوہر کو پا کرفق رہ گئی، حالانکہ اس نے دینو کو کہہ رکھا تھا کوئی آئے تو مجھے فوراً باہر سے فون کر کے اطلاع کرنا۔ شاید اسے اس بوڑھے بابا پر اعتماد تھا حالانکہ یہ اس کی بھول تھی۔ وہ ملازم تو اکرام بھائی کا تھا۔ بہرحال بھائی کا غصہ آسمان پر تھا مگر ارد گرد کے گھروں کا خیال تھا، لہذا غصے پر قابو پایا کیونکہ اپنی بدنامی ان کو کسی صورت گوارہ نہ تھی ، ورنہ شاید وہ اسی وقت دونوں کو شوٹ کر دیتے ۔ انہوں نے بیوی کو دوسرے کمرے میں بلا کر پوچھا۔ اندر کون ہے اور تم نے کمرے کو لاک کیوں کر رکھا تھا؟ یہ میرا مہمان ہے۔ کیا آپ کو کوئی اعتراض ہے؟ ہاں، اس لئے کہ تم نے پہلے اس کے بارے بھی مجھے نہیں بتایا اور میں یہ بھی جان چکا ہوں کہ یہ میری غیر موجودگی میں ہی آتا ہے۔ اب وضاحت کرو کہ تمہارا اس کے ساتھ کیا لینا دینا ہے۔ مہمان ہے تو ڈرائنگ روم میں کیوں نہ بٹھایا ؟ اس پر صبا بھابھی نے اندازہ کر لیا کہ اب جھوٹ سے کام نہیں چلے گا کیونکہ جب وہ دونوں دوسرے کمرے میں بات کر ہے تھے تو مہمان صاحب گھر سے بھاگ نکلے اور بھائی کے سامنے آنے یا اپنا تعارف کروانے کی جرات بھی نہ کی ۔ معاملہ سامنے تھا تبھی صبا نے صاف کہہ دیا کہ میں اس شخص سے محبت کرتی ہوں ۔ اس کے ساتھ شادی کرنا چاہتی تھی ، مگر میرے والدین نے زبردستی تمہارے ساتھ شادی کرادی۔ انہوں نے مجھ پر ظلم کیا۔ میرا ذہن اس جبر کو برداشت نہیں کر سکا۔ میں ایک دو ماہ تو برداشت کرتی رہی ، اس کے بعد دل پر قابو نہ رکھ سکی۔ میرا دل تمہارے ساتھ جیون بتانے کو ہرگز تیار نہیں ہے۔ اس نے یہ باتیں دیدہ دلیری سے کہیں اور پر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
اب اکرام بھائی کے لئے شک و شبہ کی گنجائش کہاں باقی رہ گئی تھی کہ جس کی آڑ میں وہ حالات سے سمجھوتہ کرنے کی کوشش کرتے ۔ بلک بلک کر رونے کے سبب وہ بیوی کے ساتھ سختی سے بھی پیش نہیں آسکتے تھے۔ کبھی کبھی ، صاف گوئی اور اقرار جرم بھی اگلے کو بے بس کر دیتا ہے کہ وہ مجرم کے ساتھ سختی کرے یا نہ کرے۔ صبا نے سچ بات کہہ کر اکرام بھائی کو اتنا بے بس کر دیا کہ ایک لفظ بھی ان کی زبان سے ادانہ ہو پایا۔ ظاہر ہے، ایک پڑھا لکھا آدمی اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ اگر کسی لڑکی کے ساتھ زبردستی ہوئی ہو تو اس میں قصور لڑکی کا نہیں ، اس کے والدین کا ہوتا ہے۔ پس انہوں نے بھی یہی سوچا کہ بیوی کی بجائے ، اس کے والد سے بات کرنا چاہیے۔ انہوں فوراً سسر کو ساری صورت حال سے آگاہ کر دیا۔ یہ بھی بتایا کہ آپ آکر اپنی بیٹی کو لے جائیے ، میں اس کو طلاق دے رہا ہوں۔ وہ میرے ساتھ زندگی بسر کرنے پر آمادہ نہیں۔ بہتر ہے آپ اس کی شادی اسی شخص کے ساتھ کر دیں جس کو یہ پسند کرتی ہے۔ سسر صاحب فورا آپہنچے۔ بھائی نے کہا۔ بزرگوار میں آپ کا احترام کرتا ہوں مگر آپ کی بیٹی نے مجبور کر دیا ہے۔ آپ ہی انصاف کیجئے ۔ وہ اپنی زبان سے کہہ رہی ہے کہ بطور شوہر اس کا ذہن مجھے قبول کرنے پر تیار نہیں ہے، پھر ایسی عورت کو اپنا پابند بنا کر رکھنے کا کیا فائدہ، جو مجھ کو دل سے اپنا شوہر تسلیم ہی نہ کرتی ہو۔ اکرام بھائی کا اتنا کہنا تھا کہ صبا کے باپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ اس بوڑھے شخص نے جس کا سر روئی کے گالے کی مانند سفید تھا، اپنے کانپتے ہاتھوں سے ٹوپی اتار کران کے قدموں میں رکھ دی اور ہاتھ جوڑ کر التجا کی۔ میرے بیٹے ! یہ بے وقوف اور نادان ہے ۔ وہ آدمی غلط قسم کا ہے ، خدا کے واسطے ایسا مت کرنا۔ اگر تم نے طلاق دے دی تو بڑھاپے میں، میں خاندان والوں کو کیا منہ دکھاؤں گا۔ تم صبر سے کام لو۔ اچھے ہی بروں کو سنبھال لیا کرتے ہیں تو وہ کھائی میں گرنے سے بچ جاتے ہیں۔ ابھی میں اسے ساتھ لے جاتا ہوں سمجھاتا بجھاتا ہوں، مگر طلاق دینے میں عجلت سے کام نہ لو۔ گویا وہ کہہ رہے تھے کہ آنکھوں دیکھی مکھی کو نگل لو۔ میرے والدین کو بھی بلوالیا گیا۔ ان کے سامنے سارا معاملہ رکھا گیا۔ انہوں نے بھی صبا کے باپ کی حالت پر ترس کھاتے ہوئے بیٹے سے کہا۔ تم کبھی بھی طلاق دے سکتے ہو۔ فی الحال ایک بار انہیں سمجھانے کی مہلت دو۔ گھر بار بار نہیں بستے۔ صبا سے بڑی چار بیٹیاں اور بن بیاہی ہیں۔
ابھی صبا کو ان کے ساتھ جانے دو اور ہم کو بھی سوچنے دو۔ اکرام بھائی کا دل ہرگز آمادہ نہ تھا کیونکہ جس تن لاگے وہ ہی جانے ۔ انہوں نے پھر بھی اپنے والدین کے کہے کی لاج رکھی اور فوری طلاق نہ دی۔ سر کی بے بسی کا خیال کرتے ہوئے ان کا بھرم رکھ لیا۔ صبا باپ کے ساتھ چلی گئی اور اکرام بھائی کی نیندیں بھی اپنے پلو میں باندھ کر لے گئی۔ کچھ عرصہ بعد سسر صاحب ہمارے والد کے پاس صبا کے ساتھ لاہور آگئے۔ انہوں نے کہا۔ میں نے بیٹی کو سمجھایا ہے، اب یہ بھی ایسا نہ کرے گی۔ صبا نے بھی میرے والدین کے قدموں پر ہاتھ رکھ کر معافی مانگی اور بڑی قسم کی ضمانت دی کہ وہ آئندہ ہمیشہ اپنے شوہر کی وفادار رہے گی، اس شخص سے کبھی نہیں ملے گی۔ یہ بھی باور کرایا کہ وہ صرف اس سے ملاقات کر کے چلا جاتا تھا۔ وہ دونوں گناہ سے دور تھے۔ اس بات پر بھی اس نے کلام پاک کی قسم کھائی۔ میرے والدین ان کو ساتھ لے کر اکرام بھائی کے پاس روالپنڈی پہنچے۔ ان کو سمجھایا بجھایا کہ صبا نے قسم کھائی ہے اور اس کے والد ضمانت دے رہے ہیں کہ اب ایسی غلطی نہ کرے گی۔ اگر دوبارہ شکایت کا موقعہ دیا تو بے شک طلاق دے دینا۔ بھائی نے بھی بزرگوں کی شرم رکھ لی اور صبا نے شوہر سے بھی قسمیں کھا کر معافی تلافی کر لی ، تو انہوں نے اس کو رکھ لیا۔ صبا نے صریحاً فریب سے کام لیا تھا۔ اس کے دل میں تو ایسی آگ بھڑک رہی تھی ، جس کو نہ بوڑھے باپ کے آنسو بجھا سکتے تھے، نہ شوہر کی وفا راکھ کر سکتی تھی۔ ایسے باز آنا تھا اور نہ باز آئی، بلکہ اور زیادہ دیدہ دلیری سے اس شخص سے ملنے لگی۔ اب وہ اسے گھر میں نہ بلاتی کسی راز داں سہیلی کے ذریعہ باہر ملتی ۔ کہتے ہیں انسان کے پیروں پر کوئی پہرہ نہیں دے سکتا۔ جس نے جو کرنا ہو کر گزرتا ہے۔ جتنے دن وہ بھائی کے گھر رہی ، وہ جہنم کی آگ میں جلتے رہے۔ رات بھر انگاروں کے بستر پر لوٹتے تھے اور وہ قریب پڑی محو خواب ہوتی ۔ اکرام بھائی کو ایسا محسوس ہوتا جیسے کوئی ناگن ان کے بستر میں لیٹی ہو۔ انہوں نے ایک بار امی سے کہا تھا کہ میں اس اذیت کو بیان کرنے سے قاصر ہوں جس کی تپش پگھلے ہوئے سورج سے بھی زیادہ تھی۔ کبھی جی چاہتا ، اس کو اور اس کے چاہنے والے کو شوٹ کر دوں اور بھی سوچ آتی کہ اپنی ہی کنپٹی پر پستول چلا کر ان کے راستے سے ہٹ جاؤں۔
دو ماہ انہوں نے بغیر کچھ کہے صبا کو اپنے گھر پناہ دی لیکن ان کا دل اسے رکھنے کا راضی نہ ہوا کیونکہ ان کے دل سے شریک حیات کی قدر ہی جاتی رہی تھی۔ دوسری طرف ان کے سسر جو بزرگ آدمی تھے، ان کے آنسوان کے ارادے کو کمزور کئے ہوئے تھے، تاہم یہ ایک جھوٹا بندھن ہی تھا، جس کا ٹوٹ جانا ہی اچھا تھا۔ یہ مسئلہ اس طرح حل ہوا کہ ایک روز انہوں نے پیارسے صبا کو اعتماد میں لے کر کہا۔ دیکھو تم اگر اب بھی والدین کی وجہ سے مجبور ہوئی ہو تو مجھے سچ بتا دو۔ میں تم کو آزاد کر دیتا ہوں۔ زبردستی کی زندگی جینا ظلم ہے۔ یہ ٹھیک بات نہیں ہے۔ کل کیا ہو، یہ تو خدا جانتا ہے لیکن فیصلہ ایک ہی بار کرنا چاہیے۔ اگر تم آزاد ہونا چاہتی ہو، اپنا ماضی نہیں بھلاسکتی ہو تو مجھے دوست سمجھ کر دل کی بات بتا دو اور مجھ پر اعتبار کرو۔ میں ہر گز تم کو رسوا نہیں کروں گا بلکہ تم کو تمہاری مرضی سے جینے کا راستہ دوں گا۔ صبا کم سن تھی، ان کی باتوں میں آگئی اور دل کی بات کہہ دی کہ وہ یہاں دل پر جبر کر کے رہ رہی ہے۔ وہ اپنے والد کی آہ وزاری سے مجبور ہو جاتی ہے مگر دل سے ناخوش ہے۔ کہنے لگی۔ مجھ پر احسان ہوگا اگر مجھے تم آزاد کر دو گے۔ تب اکرام بھائی نے اس کو طلاق دے دی اور کہا کہ اپنے والدین کو خود اطلاع کرو، جہاں چاہے جاسکتی ہو۔ آج ایک بڑی مشکل حل کر کے تم نے بھی مجھ پر احسان کر دیا ہے۔ بھائی اکرام نے تو اس صدمے کو جوں توں جھیل ہی لیا تھا۔ ان پڑھوں کی طرح دنگا فساد یا کسی قسم کا خوفناک ردعمل کر گزرنے کی بجائے تحمل سے تعلیم یافتہ فرد کی طرح فیصلہ کر دیا۔ کسی بات کو آنا کا مسئلہ بھی نہیں بنایا۔ مگر صبا نے جو کیا اپنے حق میں برا کیا کیونکہ اس کے والد کا کہنا صحیح تھا۔ جس شخص کے جال میں وہ گرفتار تھی، وہ واقعی غلط آدمی تھا۔ اس نے صبا کو چند دن رکھا اور پھر خوار کر کے چھوڑ دیا۔ بالآخر اسے پناہ اپنے بوڑھے باپ کی چھت تلے ہی ملی، جس کے دل کو لہو لہو کر کے وہ جھوٹی خوشیوں کے پیچھے بھاگی تھی۔ اب وہ اکرام بھائی کو یاد کر کے بہت روتی تھی، مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت-