میں اکثر امی کے ساتھ ایک بابا صاحب کے پاس دعا کروانے جاتی تھی۔ ان کا پُر نور چہرہ دیکھ کر ایک انجانے سے سکون کا احساس ہوتا تھا۔ بابا کی عمر اس وقت میرے والد سے زیادہ ہو گی لیکن جو طمانیت ان کے چہرے پر رہتی تھی ، وہ ٹھنڈی چھائوں کے جیسی تھی۔ اس طمانیت سے میرے باپ کا چہرہ محروم تھا۔ وہ دال روٹی کے چکر میں پھنسے ، رب سے شکوہ کرتے نظر آتے تھے۔ پہلے پہل بابا کے پاس بہت کم لوگ آتے تھے ، رفتہ رفتہ اس تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ باباجی کی کرامات کا بھی چر چاہونے لگا کہ ان کی دعائوں میں اثر ہے۔ ان کی عبادت گزاری کی وجہ سے ان کا مسکن ایک چھوٹا سا کمرا تھا جو کمیٹی کی حدود میں بنا ہوا تھا۔ ان کی رہائش گاہ ہمارے گھر سے کچھ فاصلے پر تھی اور ہماری چھت سے صاف نظر آتی تھی۔ بابا کی کوٹھری کو چھت کی منڈیر سے دیکھنا میرا محبوب مشغلہ تھا۔ کوٹھری کے سامنے صحن اور پھر چاروں طرف کچا احاطہ بنا ہوا تھا، جہاں وہ ٹہلتے یا عبادت میں مصروف نظر آتے تھے۔ ان کو سجدے میں دیکھ کر مجھ کو سکون ملتا تھا۔ عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ جب میں شعور کی منازل طے کرنے لگی تو کئی سوالات میرے ذہن میں کلبلانے لگے۔ اکثر سوچتی آخر ” باباجی کون ہیں، کہاں سے آئے ہیں، ان کا گھر کہاں ہو گا، ان کے عزیز رشتہ دار کہاں ہوں گے اور یہ اکیلے یہاں کیوں رہتے ہیں؟ کیا ان کو سردیوں کی سرد راتوں سے ڈر نہیں لگتا؟ میرا معصوم ذہن ان کے سوالات کے جواب نہ ڈھونڈ پاتا۔ میں جاننا چاہتی تھی کہ آخر ایسی کیا مجبوری تھی جو بابا نے دنیا سے منہ موڑ کر اللہ سے دل لگالیا تھا۔ ایک دن اماں کو پتا چلا کہ باباجی کی طبیعت خراب ہے ، وہ مجھے لے کر فور اوہاں گئیں۔ بابا واقعی بیمار بستر تھے اور کوئی پرسان حال نہ تھا۔ اماں گھر سے یخنی بنا کر لے گئی تھیں۔ میں نے باباجی کا سرد بایا، وہ بخار میں جل رہے تھے۔ میں نے ان سے کہا۔ باباجی آپ مجھے اپنی بیٹی سمجھے اور اماں آپ کی سگی بہن جیسی ہیں ، جب کوئی تکلیف ہو آپ ہمیں بتا سکتے ہیں۔ بابا نے کہا۔ ہاں میری بچی تم ٹھیک کہتی ہو۔ اللہ تعالی نے تم کو خاص سوجھ بوجھ سے نوازا ہے ، اسی لئے تم ایسی باتیں سوچتی ہو۔ میری تم کو نصیحت ہے کہ کبھی اپنے لئے نہیں سوچنا، دوسروں کی بھلائی کے لئے سوچنا، اللہ تم کو بھی روحانی طاقت عطا کرے گا۔ خوب پڑھائی پر توجہ دینا، ہر برائی سے دور رہنا اور تعلیم حاصل کرنا۔ تمہارے گھر سے غربت ، دکھ اور مصیبتیں دور ہو جائیں گی۔ بیٹی میں بھی جاہل مطلق نہیں ہوں ، پڑھا لکھا ہوں، بس حالات نے مجھے ایسے بنادیا کہ میں نے ہمت سے کام نہیں لیا۔ اپنے پیاروں کی موت کا دکھ نہ سہ سکا تو دنیا چھوڑ کر اللہ تعالی سے لو لگالی۔ جب بابا نے خود مجھے دل کی بات کہہ دی تو میری بھی ہمت ہوئی تبھی میں نے کہا۔ بابا آپ نے مجھے سچے دل سے بیٹی کہا ہے تو آج مجھے بتادیں کہ آپ کون ہیں؟ اور وہ کیا حالات تھے جن کی وجہ سے آپ دنیا اور اپنے تمام رشتے چھوڑ کر یہاں اس مقام پر آ گئے ہیں۔ تم وعدہ کرو کہ جو میں اپنے بارے میں بتائوں، تم کسی سے نہ کہو گی۔ میں نے وعدہ کیا تو انہوں نے مجھے اپنے بارے میں سب کچھ بتا دیا۔ کہنے لگے۔ بیٹی میرا تعلق ایک ایسے گھرانے سے ہے جہاں روایتوں کی ایک چھوٹی سی دنیا آباد تھی۔ تعلیم حاصل کرنے پر شدید دشواریوں کا سامنا کر نا پڑتا تھا کیونکہ تعلیم ان کے ذہنوں کو منور کر دیتی تھی جو عام روایتوں کے غلاموں کو گوارا نہ تھا۔ ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا۔ میرے والد صاحب نے تمام مخالفتوں کے باوجود تعلیم کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ والد صاحب نے اپنے شوق کے بل بوتے پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرلی اور شہر آگئے۔ وہ اب کسی تعلیم یافتہ گھرانے میں شادی کرنا چاہتے تھے مگر یہ خواہش ، خواہش ہی رہی کیونکہ ہمارے دادا نے عزت کا معاملہ کہہ کر ان کی شادی اسی لڑکی سے کرادی، جس سے وہ منسوب کئے گئے تھے۔ والدہ ایک سیدھی سادی خاتون تھیں، ہیرا پھیری سے ان کا دور دور تک واسطہ نہ تھا۔ شادی کے بعد میرے والد نے صبر کر لیا اور اماں کو اپنے رنگ میں ڈھالنے کی بھر پور سعی کرنے لگے ، اماں نے بھی کوشش کی اور خود کو کافی حد تک بدل لیا۔ میرے بڑے بھائی بھی تعلیم یافتہ اور ایک سرکاری افسر تھے۔ وہ عمدہ خیالات کے مالک بھی تھے۔ گھر کا انتظام و مالی طور پر استحکام ان کی فراست اور کمائی پر تھا۔ ان کی شادی بھی والد صاحب نے چچا کی بیٹی سے کرادی۔ یہ لڑکی تعلیم یافتہ نہ تھی مگر دادا کی خواہش پر بھائی منصور کو اس سے شادی کرتے ہی بنی۔ اب صورت حال یہ تھی کہ گھر کی عورتیں ان پڑھ مگر مرد تعلیم یافتہ تھے۔ بھابھی نے آتے ہی ہماری زندگی کو تھوڑا سا مشکل بنادیا مگر میرا بھائی صبر اور سکون سے حالات کا مقابلہ کر رہا تھا۔ وہ بیوی کو کچھ نہیں کہتے بلکہ سمجھاتے رہتے کہ تم صبر و تحمل سے رہنا سیکھو۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر پریشان ہونے یا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جو بات ہے مجھ سے کہہ دیا کرو، میں خود تمہاری پریشانی دور کر دیا کروں گا۔ بھا بھی پر ان کی باتوں کا اثر ہوتا تھا۔ انہوں نے خود کو ہمارے گھر کے ماحول کے مطابق ڈھالنا ضرور شروع کر دیا تو ان کا رویہ ہم بہتر ہونے لگا۔ اب والد نے میری شادی کے بارے میں سوچا۔ اس وقت میں تندہی سے تعلیم حاصل کرنے میں لگا ہوا تھا۔ میرا ارادہ ڈاکٹر بننے کا تھا۔ انہی دنوں میرے چچا زاد کی شادی تھی اور ہمیں گائوں جانا تھا۔ میں نے بارہویں کے پرچے دیئے ، ابھی پریکٹیکل باقی تھے چنانچہ کتا بیں ساتھ رکھ لیں کہ گائوں میں شادی بھی اٹینڈ کرلوں گا اور جب وقت ملے گا پڑھائی بھی کرلوں گا۔ گائوں جاتے ہوئے میں ہمیشہ پر جوش ہوا کرتا تھا۔ مجھے قدرتی مناظر بہت پسند تھے اور ہمارا گائوں تو پہاڑ کے دامن میں واقع تھا جو ہماری بستی پر ایک خوبصورت سائبان کی مانند سایہ فگن تھا۔ ہم شادی سے ایک دن پہلے گائوں پہنچے۔ ہم کافی لمبا سفر طے کر کے آئے تھے اس لئے آرام کے لئے اندر چلے گئے لیکن میں گھر میں بیٹھنے نہیں آیا تھا۔ میں پہاڑ کی طرف چل پڑا ، ابھی میری رشتہ داروں سے بھی ملاقات نہ ہو سکی تھی۔ اللہ تعالی کی قدرت اور خوبصورتی میں محو چلتا چلا جارہا تھا کہ اچانک میری ٹکر ایک لڑکی سے ہو گئی۔ آس پاس کے ماحول کا اثر تھا یا وہ واقعی خوبصورت تھی۔ اجلی اجلی دودھ جیسی سفید رنگت، بڑی بڑی کالی آنکھیں اور چہرے پر حیا کی سرخی، میں نے اسے دیکھا تو دیکھتا رہ گیا اور وہ ناگواری سے مجھے دیکھتے ہوئے میرے پاس سے گزر گئی۔ مجھے اس کے خدو خال مانوس لگے۔ میں نے وہیں درخت سے ٹیک لگا کر تھوڑا سستانے کے لئے آنکھیں بند کر لیں۔ تبھی مجھے اپنے کندھے پر کسی کے ہاتھ کار با گو محسوس ہوا۔ آنکھیں کھولیں تو سامنے میرا چچازاد بھائی کھڑا تھا جو مجھے گھر میں نہ پا کر ڈھونڈتا ہوا یہاں آ گیا تھا۔ اس نے نہایت گرم جوشی سے مجھے سینے سے لگالیا۔ ہم اسی کی شادی میں یہاں آئے تھے۔ ہم باتیں کرتے ہوئے گھر پہنچ گئے۔ گھر میں داخل ہوتے ہی میں حیرت اور خوشی سے چلا اٹھا کیونکہ سامنے وہی لڑکی بیٹھی ہوئی تھی جو مجھے پہاڑ پر ملی تھی۔ وہ مجھے دیکھ کر گھبرا گئی۔ میں نے زمان سے پوچھا۔ یہ کون ہے ؟ وہ بولا۔ تم نہیں جانتے ! یہ میری چھوٹی بہن بختاور ہے۔ جب تم لوگ شہر چلے گئے تھے تب یہ بہت چھوٹی تھی۔ تبھی تم اس کو نہیں پہچان سکے ۔ میں نے اس کو بچپن میں دیکھا تھا تبھی مجھے اس کے خدو خال جانے پہچانے سے لگے تھے۔ اسی دن فیصلہ کر لیا کہ میری شریک حیات یہی لڑکی ہو گی جبکہ بھابھی کے کہنے سے بھائی صاحب نے سوچ رکھا تھا کہ وہ میری شادی اپنی بیوی کی چھوٹی بہن سے کروا دیں گے ۔ بے شک میں بختاور کو نہ دیکھ لیتا تو اپنے بھائی کی بات نہ ٹالتا۔ میں جو کتابیں لے گیا تھا وہ ویسے ہی لے آیا۔ دوروز بعد میرا پریکٹیکل تھا۔ مجھے میڈیکل کالج میں داخلے کے لئے میرٹ بنانا تھا۔ شادی کے پندرہ روز بعد زمان اپنی بیوی کے ساتھ ہمارے گھر آیا۔ والد صاحب نے ان کی دعوت کی تھی۔ زمان نے مجھے بتایا کہ وہ شہر میں کوئی کاروبار کرنا چاہتا ہے کیونکہ گائوں میں تھوڑی بہت کاشت کاری سے گزر بسر نہیں ہوتی۔ میں نے کہا۔ تم شہر آجائو۔ چچا نے بختاور کو پرائمری تک تعلیم دلوائی تھی۔ اس کی بھی خواہش تھی کہ شہر میں تعلیم حاصل کر سکے ۔ کچھ دنوں بعد زمان گائوں سے کچھ زمین بیچ کر سرمایہ لے آیا اور اپنا کاروبار شروع کر دیا۔ میں بھی اس کے کاروبار میں ہاتھ بٹانے لگا۔ ان دنوں میں ایف ایس سی کر چکا تھا اور فارغ تھا، میڈیکل کے لئے ابھی داخلے شروع نہیں ہوئے تھے۔ بابا جان نے کاروبار میں میری دلچسپی دیکھی تو اپنے سیٹھ سے مجھے کچھ سرمایہ لے کر دے دیا کہ میں بھی زمان کے ساتھ کاروبار میں شریک ہو جائوں۔ ہم نے مل کر مارکیٹ میں کپڑے اور برقی آلات کی دکان کھول لی۔ کاروبار اللہ کے فضل سے چل پڑا۔ اب زمان گھر والوں کو بھی شہر لے آنا چاہتا تھا۔ وہ اپنے کنبے کی رہائش کے لئے مکان ڈھونڈنے لگا۔ میں چاہتا تھا اسے کہیں ہمارے گھر کے نزدیک مکان مل جائے۔ ہم ایک قدیمی محلے میں رہتے تھے اور ہمارا گھر بھی داد پر دادا کے زمانے سے بنا ہوا اور پرانا تھا لیکن مضبوط اور وسیع تھا، لہذا والد صاحب نے کہا کہ تم لوگ فی الحال ہمارے مکان کے ایک حصے میں رہو۔ اگر تنگی محسوس ہو تو اطمینان وسکون سے اپنے لئے رہائش ڈھونڈ لینا۔ میں نے بھی زور دیا تو اس نے ہماری بات مان لی اور امی جان نے مکان کا آدھا حصہ جو تقریباً خالی رہتا تھا، ان کو رہنے کے لئے دے دیا۔ہم سب خوش تھے کہ ہمارے قریبی رشتہ دار آگئے تھے اور گھر میں رونق ہو گئی تھی لیکن بھابی خوشی نہیں تھیں۔ وہ اکھڑی اکھڑی رہنے لگیں۔ میں اب نتیجے کے انتظار میں تھا اور کاروبار پر بھی توجہ دے رہا تھا۔ بابا جان حیران تھے کہ ایک لا ابالی لڑکا اتنی جلدی کیسے عملی زندگی میں جذب ہو گیا۔ میرا رزلٹ اچھا آیا۔ میڈیکل کالج میں داخلے کی ٹھانی۔ والد خوش تھے کہ میں نے اتنی محنت کی تھی اور اب میرے لئے میڈیکل میں داخلہ کچھ مشکل نہ تھا۔ میں سوچ بچار میں تھا کہ کیا کروں ؟ میڈیکل میں داخلہ لیتا تو والد میری شادی چار پانچ سال تک ملتوی کر دیتے، اس مدت میں ممکن ہے کہ بختاور کے والدین اس کی شادی کہیں اور کر دیتے۔ بہت سوچنے کے بعد میں نے میڈیکل کالج میں داخلہ نہ لینے کا اعلان کیا اور والد صاحب سے کہا کہ میں کاروبار کرنا چاہتا ہوں لیکن زمان نے مجھے ایسا نہ کرنے دیا۔ اس نے کہا کہ تم کو پڑھائی کے بعد جو وقت ملے ، کاروبار کو دینا مگر پڑھائی مت چھوڑو اور کالج میں داخلہ ضرور لو۔ یہ تمہارے مستقبل کا سوال ہے۔ میرے بابا بھی یہی چاہتے تھے ، سو میں مایوس ہو گیا۔ سوچا اپنا مسئلہ کس سے بتائوں؟ میں نے ہمت کر کے بھائی جان کو دل کی بات سے آگاہ کر دیا۔ انہوں نے مجھے ہمت دی، کہا۔ رمیز خان، اس میں پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں۔ میں ہر قدم پر تمہار ا ساتھ دوں گا۔ میں تمہاری شادی بختاور سے کروادوں گا۔ میرا داخلہ میڈیکل کالج میں ہو گیا اور بھائی جان نے والد صاحب سے بات کر لی۔ وہ خوشی سے مان گئے اور بختاور کا رشتے اس کے والد سے مانگ لیا۔ انہوں نے بھی ہاں کر دی۔ میں خود کو دنیا کو خوش نصیب لوگوں میں سمجھنے لگا، لیکن بھابھی بہت برہم ہوئیں۔ کہنے لگیں کہ یہ لوگ یہاں آئے ہی یہی منصوبہ بنا کر تھے۔ میں ہر گز ایسا نہیں ہونے دوں گی ۔ میری بہن کے لئے پہلے سے میرے والدین سے بات ہو چکی ہے ، اب آپ لوگ ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔ بھائی جان نے بیوی کو سمجھایا کہ لڑکا پڑھا لکھا ہے۔ وہ تمہاری بہن سے شادی پر راضی نہیں ہے ، وہ بختاور سے شادی کرنا چاہتا ہے ۔ کیا ہو گا اگر اس نے تمہاری بہن کو ذہنی طور پر قبول نہ کیا ؟ تم آئندہ کی سوچو، قیصرہ کے لئے کوئی اور اچھا رشتہ مل جائے گا۔ زبردستی اسے ہم رمیز کے پلے کسی طرح باندھ سکتے ہیں۔ وہ خاموش تو ہو گئیں لیکن لاوا اندر ہی اندر پکنے لگا۔ کچھ دن بعد میری شادی کی تیاریاں ہونے لگیں۔ اپنے والد کے سمجھانے سے بھا بھی بھی نارمل ہو گئیں ، ان کا رویہ یکدم بدل گیا اور وہ میری شادی کی تیاریوں میں بھر پور حصہ لینے لگیں۔ اب زمان نے یہی مناسب سمجھا کہ الگ مکان لے لیا جائے تاکہ لڑکی کو اپنے گھر سے رخصتی کریں۔ میری شادی ہو گئی۔ ہم دونوں بہت خوش تھے بختاور میرے والدین، بھابھی اور خاص طور پر میرے بڑے بھائی کی بہت عزت اور خدمت کرتی ، جس پر بھائی بھی اس کی تعریف کرتے تا کہ اس کا دل خوش ہو۔ اس بات نے بھی بھا بھی کے دل میں حسد کو جنم دیا اور ان کے دل میں بختاور کے لئے نفرت کی گرہ کو مضبوط کیا۔ بھابھی کارویہ میرے ساتھ بہت اچھار ہتا تھا۔ وہ میرا پہلے سے بھی زیادہ خیال رکھنے لگیں لہذا میر اذ ہن اس طرف گیا ہی نہیں کہ وہ میری بیوی کی نفرت میں مری جارہی ہیں۔ میں دن میں پڑھائی میں مصروف ہوتا، شام کو زمان کے پاس دکان پر چلا جاتا۔ میں ہر چیز کو نارمل ہی لے رہا تھا اور بختاور کی عادت چغلیاں کرنے کی نہ تھی۔ اس کے لبوں پر کبھی کسی کے لئے شکایت کے دو لفظ بھی نہ آتے تھے۔ وہ بہت صابر و شاکر لڑکی تھی۔ گھر میں ہر کوئی خوش تھا۔ بظاہر تو بھا بھی بھی خوش نظر آتی تھیں مگر دلوں کے حال تو اللہ بہتر جانتا ہے۔ کوئی بھی بھا بھی کی مکاری کو نہ سمجھ سکا، حتی کہ ان کا شوہر بھی ان کی اداکاری سے دھو کا کھا گیا۔ بھائی ہر وقت کہتے بختاور کے قدم مبارک ثابت ہوئے ، کاروبار میں ترقی کے ساتھ میری بیوی کو بھی عقل آگئی ہے۔ میں پڑھائی اور کاروبار میں اتنا مصروف تھا کہ اپنی بیوی کے لئے کم وقت نکال پاتا تھا مگر اس نے پھر بھی گلہ نہ کیا، ایک دن بختاور کی طبیعت خراب ہو گئی۔ گھر میں امی اور بھائی جان تھے ، وہ اسے فور اڈاکٹر کے پاس لے گئے ۔ ڈاکٹر نے بچے کی نوید سنائی تو گھر بھر میں مسرت اور شادمانی کی لہر دوڑ گئی کیونکہ بڑے بھائی جان تو ابھی تک اولاد کی نعمت سے محروم تھے۔ بھا بھی اس کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ میں مطمئن تھا کہ گھر میں اسے سنبھالنے والے ہیں۔ وقت گزر گیا اور میں ایک خوبصورت بیٹے کا باپ بن گیا۔ گھر والوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ بختاور اسے جنم دینے کے بعد سے بہت کمزور ہو گئی تھی، بچے کو ماں کا دودھ پلوانے کی بہت کوشش کی گئی مگر اس نے پینے سے انکار کر دیا، بھوک سے بلکتا مگر ماں کا دودھ اسے بد مزہ لگتا کیونکہ پیدا ہوتے ہی بھا بھی نے اسے فیڈر لگا دیا تھا۔ ڈاکٹر نے کہا کہ اسے گائے کا دودھ پلا سکتے ہیں۔ بچے کو گائے کے دودھ کا ذائقہ پسند آ گیا، یوں تین ماہ میں بچے نے صحت پکڑ لی۔ بھا بھی دودھ ابالتیں اور رات کو سبھی کو پینے کو دیا کرتی تھیں۔ وہ میرے بچے کا فیڈر بنا کر اسے دیتیں اور بختاور کو بھی اپنے ہاتھ سے پلا تھیں۔ کہتیں کہ تم تو ایک کی جگہ دو گلاس پیا کرو۔ ہم سب ان کی اس عنایتوں اور محبت کے بہت شکر گزار تھے۔ وہ گھر کی بڑی بہو تھیں۔ بختاور بچے کو سنبھالتی اور بھا بھی گھر کے بیشتر کام کر لیتیں۔ ایک دن وہ حسب معمول تازہ دودھ کو جوش دے رہی تھیں کہ چھت سے ایک بڑی سی زہریلی چھپکلی اہلتے دودھ میں گرگئی۔ یہ سب بھا بھی کی نگاہوں کے سامنے ہوا۔ انہوں نے دودھ پھینک دیا۔ گھر کی ملازمہ بھی ساتھ کھڑی تھی۔رات ہونے والی تھی، ملازمہ کام سمیٹ چکی تھی۔ اس کے جانے کا ٹائم ہو رہا تھا۔ اس نے دھونے کے لیے پتیلے کا ڈھکن اٹھایا تو اس میں کچھ دودھ رہتا تھا۔ وہ بولی۔ بھا بھی آپ نے سارا دودھ نہیں گرایا ؟ اس میں تو چھپکلی پڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پتیلا گرم تھا، میرے ہاتھ جلنے لگے تھے تبھی رکھ دیا۔ ابھی گرا دیتی ہوں۔ تم جائو، میں خود دودھ گرا کر پتیل دھو دوں گی، تم کو دیر ہو رہی ہے۔ ملازمہ چلی گئی۔ اب بھابھی نے زہر یلے دودھ کو پھر سے ابالا دے کر چھانا،ٹھنڈا کیا۔ سب گھر والوں کو صحیح والا دودھ ٹھنڈا کر کے پینے کو دیا مگر میری بیوی اور بچے کو وہی زہر یلا دودھ چینی ڈالکر پینے کو دے دیا۔ بختاور کو ذائقہ بر اسا لگا۔ اس نے آدھا گلاس پی کر واپس کرنا چاہا تو بھا بھی نے اصرار کر کے زبر دستی پلادیا۔ بچے کو بھی اسی دودھ کا فیڈر اپنے ہاتھوں سے پلا دیا۔ رات کو بچے کی طبیعت خراب ہو گئی۔ اسے الٹی بھی ہوئی -اسپتال لے جانے سے قبل انہوں نے دم توڑ دیا۔ اس رات میں میڈیکل کالج میں تھا۔ صبح گھر میں کہرام بر پا تھا۔ میری بیوی اور بچہ دونوں ہی زندگی کی بازی ہار چکے تھے۔ کسی کو علم نہیں تھا کہ انہیں کیا ہوا ہے۔ میرے ساس سسر نے پوسٹ مارٹم کرانے سے منع کر دیا کہ ہماری بیٹی کی لاش کی بے حرمتی ہو گی ، وہ گائوں کے لوگ تھے ، پوسٹ مارٹم کی اہمیت کو نہیں سمجھتے تھے۔ میں میڈیکل کا اسٹوڈنٹ ، مجھے شک تھا کہ ان کی موت زہر خوردنی سے ہوئی ہے کیونکہ دونوں ایک ساتھ کیسے مر سکتے تھے ؟ ظاہر ہے دونوں نے ایک سی خوراک لی ہو گی ، ور نہ دودھ تو سارے گھر والوں نے پیا تھا، کسی کو کچھ نہیں ہوا تھا۔ بہر حال گھر کا معاملہ تھا، زمان نے بھی مجھے صبر کی تلقین کی اور خاموش کرادیا۔ کچھ دن گھر کی فضا سوگوار سی رہی۔ ایک روز ملازمہ نے مجھے موقع پا کر چپکے سے بتا دیا کہ اس روز دودھ ابالتے ایک بڑی سی زہریلی چھپکی چھت سے پیلے کے اندر ٹپک پڑی تھی ، بھابھی نے دودھ تو میرے سامنے گراد یا تھا مگر ، اس سے آگے وہ نہ بول پائی۔ میں نے لاکھ پوچھا۔ کہنے لگی۔ صاحب جی اس سے آگے میں نہیں جانتی۔ میں تو گھر چلی گئی تھی، جو بات میں نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھی ، کیسے کہہ دوں۔ کسی بے گناہ کی گردن میرے شک کی وجہ سے پھنس گئی تو کون مجھے زندہ چھوڑ دے گا۔ ملازمہ نے اس دن کے بعد ہماری ملازمت چھوڑ دی اور اپنے گائوں جانے کا کہہ کر نجانے کہاں چلی گئی مگر کہانی کا خلاصہ بتا گئی۔ کہتے ہیں کہ عاقلاں را اشارہ کافی است۔ میرے دل کا بوجھ جب بہت بڑھ گیا، میں نے یہ بات بھائی جان سے کہہ دی۔ انہوں نے بیوی کی گردن دبوچ لی۔ بالآخر بھا بھی نے اقرار کر لیا کہ انہوں نے غلطی سے چھپکلی والا دودھ بخت آور اور بچے کو پلا دیا تھا کیونکہ وہ بقیہ دودھ کو گرانا بھول گئی تھیں۔ یہ سراسر جھوٹ تھا۔ بھائی بھی اتنے بے وقوف نہ تھے ، وہ طیش میں آگئے اور انہوں نے بھابھی کو کرکٹ کے بلے سے اتنامارا کہ وہ جان بحق ہو گئیں۔ میں نے جب ان کے کمرے سے چیخ سنی تو میں دوڑ کر گیا اور ایسا منظر دیکھا کہ دل ہل گیا۔ بے شک میں بخت آور سے محبت کرتا تھا مگر اپنا بھائی بھی مجھے عزیز تھا۔ میں نے ان کو خدا کا واسطہ دے کر ڈیوٹی پر بھیج دیا۔ وہ چلے گئے تو میں ہاتھ میں بلے لئے پولیس اسٹیشن جا کر اقرار جرم کیا کہ میری بیوی اور بچے کی موت ہو گئی۔ مجھے شک تھا کہ بھا بھی نے ان کو زہر دیا ہے ، سو بدلہ لینے کے لئے میں نے ان کے سر پر بیٹ مار کر ہلاک کر دیا ہے۔ میری نیت انہیں جان سے مارنے کی نہ تھی مگر جھگڑا بڑھا تو طیش میں بیٹ ان کے زور سے لگ گیا، غرض اس طرح میں اپنے بھائی کی جگہ جیل چلا گیا۔ مجھے سات برس کی سزا ہو گئی۔ سزا کے بعد جب میں جیل سے نکالا تو میرے دل کی دنیا بدل چکی تھی۔ قید میں خدا سے قریب ہو گیا۔ مجھ میں قاتل کہلانے کی ہمت تھی۔ میں دوسرے شہر چلا گیا اور وہاںایک ڈاکٹر کی کلینک پر ملازم ہو گیا۔ ایک دن کیا جی میں سہائی، کہ جنگل ہیں متن تنہا روز و شب بسر کرنے لگا۔ اللہ نے اپنی جانب میرے دل کو کھینچا اور میں دن رات عبادت الہی میں مصروف رہنے لگا۔ پیاس لگتی تو ندی سے پانی پی لیتا، بھوک لگتی تو جنگلی پھلوں پر گزارا کر لیتا۔ میں عبادت میں سکون پانے لگا۔ ایک دن محکمہ جنگلات والے آئے اور مجھ سے تفتیش کرنے لگے۔ اس وقت تو وہ دو چار باتیں کر کے چلے گئے لیکن مجھے ڈر تھا یہ دوبارہ آئیں گے۔ میں گھر والوں کو ایک بار پھر کسی مصیبت میں نہیں پھنسوانا چاہتا تھا لہذا یہاں شہر میں آگیا اور جھگی بنا کر رہنے لگا۔ ارد گرد گزرتے لوگ مجھے عبادت میں مشغول دیکھتے تو سمجھتے کہ یہ کوئی اللہ والا بندہ ہے ، وہ مجھ سے دعا کرانے کو آنے لگے اور کچھ نہ کچھ کھانے کو دے جاتے۔ انسانوں کے دکھ، تکلیفیں اور مشکلات تو اللہ پاک دور کرتا ہے لیکن وہ یہی سمجھتے تھے کہ میری دعائوں میں تاثیر ہے جس سے ان کی مشکلات دور ہو جاتی ہیں۔ رفتہ رفتہ لوگوں میں میری شہرت پھیلنے لگی کہ یہاں کوئی نیک بابا ہے، جس کی دعا قبول ہوتی ہے اور مراد مل جاتی ہے۔ یوں لوگ میرے پاس دعا کرانے آنے لگے ، وہ میرے لئے نذرانے کے طور پر کھانے پینے کی چیزیں یا کچھ روپے دے جاتے جو میری ضروریات زندگی کو کافی ہوتے۔ میں نہ تو کسی سے نذرانہ لانے کو کہتا اور نہ رقم کا سوال کرتا ہوں۔ اب جھگی کی جگہ یہ کو ٹھری بن گئی ہے، ایک چار پائی ، پانی کا ایک گھٹڑا اور چائے وغیر ہ بنانے کے لئے چند بر تنوں کے سوا میرے پاس کوئی سامان نہیں ہے اور نہ مجھے دنیاوی سامان سے دلچسپی ہے۔ اللہ خود میری ضروریات پوری کر دیتا ہے اور میرے نصیب کا رزق میرے در پر پہنچا دیتا ہے۔ میں نے اپنے بھائی کو بچانے کی خاطر لمبی سزا کائی ہے۔ اپنے لوگوں میں جانا نہیں چاہتا کہ ماں باپ میری قید کے دوران چل بسے تھے۔ بھائی نے دوسری شادی کر لی اور وہ اپنے بچوں کے ساتھ خوش و خرم ہے۔ ۔ یہ کہتے ہوئے بابا کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ امی بھی رونے لگیں۔ اس واقعہ کے چھ ماہ بعد بابا کا انتقال ہو گیا تو علاقے کے لوگوں نے کو ٹھری میں ہی ان کی قبر بنادی اور پھول چڑھانے لگے۔ میں سوچتی ہوں کہ شاید نیک بندوں کے مزار اسی طرح بن جاتے ہوں گے اور جو خلقت ان کے مزار پر روز فاتحہ پڑھنے جاتی ہے ، اس کا ثواب تو ان میں دفن لوگوں کو ملتا ہی ہو گا۔ یہ میرے قیاس کی بات ہے لیکن جو اللہ تعالی کے راز ہیں ، وہ میرا رب العزت ہی جانتا ہے۔