Friday, September 20, 2024

Jissay Allah Rukhy | Teen Auratien Teen Kahaniyan

میں بدشکل نہ تھی لیکن جب مجھے چیچک نکل آئی تو احتیاط نہ کرسکنے کی وجہ سے صورت بری طرح مسخ ہوگئی، چہرے پر گڑھے بن گئے اور رنگت بھی سیاہ ہوگئی۔ جو دیکھتا، منہ پھیر لیتا۔ باقی ساری بہنیں گوری چٹی اور خوبصورت تھیں۔ اس وجہ سے مجھے اپنی بدصورتی کا زیادہ احساس رہنے لگا تھا۔ سب سے منہ چھپاتی، تصویر بھی نہ اترواتی۔ رشتے داروں کے گھر اور شادی بیاہ کی تقریبات میں جانا بھی ترک کردیا تھا۔ میرے دکھ کو صرف امی سمجھتی تھیں، ان کے سوا باقی سب میرا مذاق اڑاتے تھے۔ میں ہر دم رنجیدہ رہنے لگی، یہاں تک کہ گوشہ نشین ہوکر رہ گئی۔
ان دنوں ہم گائوں میں رہا کرتے تھے۔ والد صاحب مستری تھے، وہ اپنا کام بہت محنت اور لگن سے کرتے تھے۔ ہم چھ بہن، بھائی تھے اور انہیں ایک بڑے کنبے کے لئے کمانا ہوتا تھا لہٰذا وہ بچوں کے مسائل سے بے پروا بس کمائی کرنے کی فکر میں لگے رہتے تھے۔ ہم سب بہن، بھائی پڑھ رہے تھے۔ والد صاحب چاہتے تھے کہ بڑا بھائی خاص طور پر تعلیم کی طرف توجہ مرکوز رکھے اور پڑھ لکھ کر کوئی باعزت مقام حاصل کرلے اور کنبے کا سہارا بن جائے مگر ساجد کو تعلیم سے کوئی خاص لگائو نہ تھا۔ ساجد سے چھوٹی بہن حمیرا پڑھنا چاہتی تھی اور والد اسے پڑھنے کی اجازت نہ دیتے تھے۔ وہ اس وجہ سے رنجیدہ رہتی تھی۔ آخرکار دادا، دادی کے کہنے پر والد نے حمیرا کو اسکول جانے کی اجازت دے دی اور وہ لگن سے پڑھنے لگی۔ میں نے بھی اصرار کیا کہ مجھے پڑھنا ہے تو امی نے فیصلہ کیا اسے ضرور پڑھنا چاہئے۔ یہ کہیں آتی جاتی نہیں، اسکول جانے سے شاید اس کا ذہنی توازن درست ہوجائے۔
بدقسمتی سے میں آٹھویں جماعت تک پڑھ پائی کہ نظر کمزور ہونا شروع ہوگئی۔ چیچک نے آنکھوں کا ستیاناس کیا تھا۔ ڈاکٹر نے چیک کیا تو پڑھائی سے منع کیا۔ یوں میں نے اسکول جانا چھوڑ دیا اور امی کے ساتھ گھر کے کام کاج میں ان کا ہاتھ بٹانے لگی۔
اچانک ایک دن امی کی طبیعت خراب ہوگئی۔ ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ انہوں نے آپریشن تجویز کیا اور پچاس ہزار خرچہ بتایا۔ اتنی رقم والد صاحب کے پاس کہاں تھی۔ انہوں نے اپنی دکان اونے پونے فروخت کردی اور والدہ کا آپریشن کروایا۔ دکان جاتی رہی تو والد صاحب بے روزگار ہوگئے، تب بڑے بھائی کی حمیت جاگی۔ وہ محنت مزدوری کرنے لگے۔ انہی دنوں دونوں بڑی بہنوں کی شادیاں ہوگئیں۔ وہ خوبصورت تھیں، رشتے داروں نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ جہیز کا بھی مطالبہ نہ کیا۔ دو بھائی چھوٹے تھے، اسکول میں پڑھ رہے تھے۔ امی کو میری شادی کی فکر کھائے جاتی تھی مگر میرے لئے کوئی رشتہ نہ آتا۔ جب اپنوں نے بدصورت سمجھ کر ٹھکرا دیا تھا تو غیر کیوں اپناتے! قسمت پر شاکر والدین کی خدمت کیلئے خود کو وقف کردیا۔
انہی دنوں والد صاحب بیمار پڑ گئے۔ چیک اَپ کرایا تو ڈاکٹر نے کینسر بتایا۔ سن کر پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ علاج مہنگا اور مرض لاعلاج تھا۔ کوئی اپنا پیارا بستر پر پڑ جائے تو لاعلاج مرض کے باوجود علاج تو کروانا پڑتا ہے۔ ابو بستر پر پڑے تھے۔ ساجد بھائی نے پڑھا اور نہ کوئی خاص ہنر سیکھا تھا۔ محنت مزدوری سے قلیل آمدنی ہوتی، گزارہ مشکل تھا پھر بھی ہم جی رہے تھے۔ ساجد کمانے کے علاوہ گھر کی دیکھ بھال میں بھی کوتاہی نہ کرتا۔ جب فارغ ہوتا، ابو کی تیمارداری کرتا اور ان کو ڈاکٹر کے پاس لے جاتا۔ دوا دارو لاتا۔ دوستوں سے قرض لے کر گھر کی ضروریات پوری کرتا تھا حالانکہ اس وقت اس کی عمر بمشکل انیس برس ہوگی۔ اتنی کم عمری میں بھی بہت سنجیدہ اور بردبار ہوگیا تھا جیسے عمر رسیدہ آدمی ہو۔
سچ ہے حالات ہی انسان کو پختہ بناتے ہیں اور اس کی عمر کا تعین کرتے ہیں۔ بیمار والدہ تھیں مگر والد صاحب جو ہٹے کٹے لگتے تھے، انہیں ایسی ظالم بیماری نے جکڑا کہ سال بھر میں چٹ پٹ ہوگئے۔ ان کے اس جہان سے جانے کے بعد ہمارے گھر کے ماحول میں تبدیلی آگئی۔ بڑا بھائی تو صبح سے کام پر چلا جاتا، پیچھے چھوٹے بھائی آپس میں لڑتے جھگڑتے، اسکول سے ناغہ کرلیتے اور امی کو تنگ کرتے۔ ان حالات کو دیکھ کر میں کڑھتی تھی۔ ان کو سمجھاتی، وہ نہ سمجھتے، میرے قابو میں نہ آتے۔ وہ پاس پڑوس کے نکمے لڑکوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے لگے۔ والدہ، ساجد بھائی سے شکایت کرتیں تب انہوں نے ایک دوست سے کہہ کر ٹیلیفون لگوا لیا کہ اب اگر یہ اسکول سے ناغہ کریں یا محلے کے لڑکوں کے ساتھ گھر سے باہر جائیں، فوراً مجھے فون کردینا۔ میں ان کی خبر لوں گا۔
ان دنوں گھر میں اداسی اور بوریت نے گھر کرلیا تھا۔ میرا جی جینے سے بیزار رہنے لگا تھا۔ ایسے میں فون کی گھنٹی جیسے مردہ ماحول میں زندگی کی نوید ہوتی تھی۔ گھنٹی بجتی تو میں جی اٹھتی۔ دوڑ کر جاتی، ریسیور اٹھاتی۔ کسی کی بھی آواز سنتی تو زندگی کا احساس ہوتا۔ میری دو تین سہیلیوں کے گھر پر فون تھے مگر ساجد بھائی نے اجازت نہ دی کہ کسی کو اپنا فون نمبر دوں یا سہیلیوں سے بات کروں۔ جب کسی کام سے روکا جائے تو دل چاہتا ہے کہ وہ کام کریں۔ میرا بھی جی چاہتا کہ کسی سہیلی سے بات کروں مگر ساجد بھائی کا ڈر تھا لہٰذا اپنی اس خواہش کا گلا دبا دیا تھا تاہم کبھی کبھی ان سے چھپ کر سہیلیوں سے باتیں کرلیا کرتی تھی۔
ایک دن کمرے کی صفائی کررہی تھی کہ فون کی گھنٹی بجی۔ اس وقت ساجد بھائی امی کی خیریت دریافت کرنے کے لئے فون کرتے تھے۔ میں نے اس یقین کے ساتھ ریسیور اٹھایا کہ ساجد بھائی کا ہوگا، مگر ادھر سے کوئی اور بول رہا تھا۔ یہ کسی نوجوان کی آواز تھی۔ میں نے یہ کہہ کر فون رکھ دیا کہ رانگ نمبر ہے۔ تھوڑی دیر بعد پھر اس نے فون کیا۔ کہا بات تو سن لیں۔ ساجد بھائی کا خوف اس قدر تھا کہ اس کی بات نہ سنی اور بغیر کچھ کہے، فون بند کردیا۔ اس کے بعد مسلسل گھنٹی بجتی رہی مگر میں نے نہ اٹھایا۔
اس واقعے کے ایک گھنٹے بعد دروازے پر دستک ہوئی۔ امی نے پوچھا۔ کون ہے؟ خالہ جان! میں ندیم ہوں، آپ کے محلے میں رہتا ہوں۔ یہ بتانے آیا تھا کہ آپ کے چھوٹے لڑکے فائز کی لڑائی محلے کے ایک لڑکے سلیم سے ہوگئی ہے۔ سلیم نے اسے ہاکی سے مارا ہے، سر پر چوٹ آنے سے اسے قریبی کلینک لے گئے، پٹی تو کرا لی ہے لیکن وہ وہاں لیٹا ہوا ہے۔ فائز نے نمبر دیا تھا، میں نے کافی بار فون کیا مگر کسی نے میری بات نہیں سنی اور فون بند کردیا۔
امی برآمدے میں لیٹی تھیں، میں دروازے پر کھڑی اس کی ساری باتیں سنتی رہی مگر جواب امی نے دیا۔ اچھا بیٹا! تیرا شکریہ اسے گھر پہنچا دو ورنہ ساجد آکر لے جائے گا۔ امی نے ساجد کو فون کیا مگر وہ کام پر نکلے ہوئے تھے۔ ان کے استاد نے کہا۔ دکان پر آئے گا تو بتا دوں گا۔ ہم لوگ فائز کے لئے فکرمند تھے کہ اتنے میں محلے کے کچھ لڑکے اسے لے آئے اور گھر کے اندر لا کر لٹا دیا۔ اس کا چہرہ زرد ہورہا تھا۔ والدہ کا تو جی دہل گیا۔ بولیں۔ اسی سبب ساجد منع کرتا ہے کہ محلے کے برے لڑکوں سے میل جول نہ رکھا کرو۔ اب دیکھ لیا نتیجہ…!
ماں نے ان لڑکوں کا شکریہ ادا کیا جو فائز کو لائے تھے۔ میں اس وقت ان کے سامنے نہیں گئی۔ انہوں نے مجھے دیکھا اور نہ میں نے انہیں دیکھا لیکن اس واقعے کے بعد ہر روز وہی لڑکا فون کرنے لگا۔ جب میں ریسیور اٹھاتی تو کہتا۔ فائز کی خیریت پوچھنی تھی۔ پلیز فون بند کرنے سے پہلے صرف اتنا بتا دو کہ اس کی طبیعت کیسی ہے، کسی مدد کی تو ضرورت نہیں ہے؟
جی! طبیعت ٹھیک ہے اور کسی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اتنا کہہ کر فون بند کردیا کرتی تھی۔ یہ فون اس وقت آتا جب ساجد بھائی گھر پر نہ ہوتے۔ ہفتے بھر فائز بستر پر پڑا رہا۔ جب وہ اٹھنے کے لائق ہوا تو میں نے فون ریسیو کرنا بند کردیا۔
اب فائز اسکول جانے لگا تھا۔ اس نوجوان کو علم تھا کہ اس کے بھائی گھر پر نہیں ہیں تب ایسے میں وہ فون کرتا تھا۔ میں اٹھاتی کہ خالہ کا فون ہوگا لیکن ادھر سے وہی مانوس آواز سنائی دیتی۔ مجھے غصہ آتا اور فون رکھ دیتی۔ کافی دن یونہی ہوتا رہا لیکن انسانی نفسیات عجب شے ہے جب مایوس ہوکر اس شخص نے فون کرنا چھوڑ دیا تو شدت سے زندگی میں کمی کا احساس ہونے لگا اور مجھے ایک مخصوص وقت پر انتظار رہنے لگا۔ کان فون کی گھنٹی پر لگے ہوتے۔ سوچتی اس بار اگر اس نے فون کیا تو ضرور جواب دوں گی اور فون بند نہیں کروں گی۔
جوں جوں دن گزرتے جارہے تھے، میری افسردگی بڑھتی جارہی تھی۔ سوچتی تھی وہ کوئی غلط لڑکا نہ تھا۔ کبھی کوئی ایسی ویسی بات نہ کہی۔ جانے کیوں میں نے اس کو دھتکار دیا۔ اس کی بات سن لیتی، جانے مجھ سے کیا کہنا چاہتا تھا۔ اب اگر کبھی فون کیا، ضرور اس کی بات سن لوں گی۔
اسی خلش کے ساتھ کافی دن بیت گئے۔ اس نے پھر فون نہ کیا لیکن ایک دن جب میں فون کے پاس کھڑی اسی کے بارے میں سوچ رہی تھی تو اچانک گھنٹی بج اٹھی۔ بے اختیار ریسیور کان سے لگا لیا۔ یہ اسی کا فون تھا۔ کانوں کو یقین نہ آیا۔ جی چاہا کہوں اتنے دن کہاں تھے؟ فون کیوں نہیں کیا مگر ضبط کئے خاموش رہی، تبھی ادھر سے پوچھا گیا۔ کیسی ہو؟ یقین ہے کہ میرا اگلا جملہ سننے سے قبل فون رکھ دو گی۔ تمہیں کچھ کہنا فضول ہے لہٰذا میں خود فون رکھ رہا ہوں۔ کہئے جو کہنا ہے، سن رہی ہوں۔ اس کا وار کاری لگا تھا۔ انتظار کے کرب نے میرا پتھردل موم کردیا تھا۔ پہلے ہماری دوچار منٹ بات ہوتی، آہستہ آہستہ دس بیس منٹ اور پھر گھنٹے دو گھنٹے تک ہم باتیں کرتے۔ وہ کہتا۔ تم اتنی اچھی باتیں کرتی ہو، یقیناً تمہاری صورت بھی اچھی ہوگی۔ تمہارے سارے بھائی خوبصورت ہیں۔ کیا تم ان جیسی ہو یا ان سے زیادہ خوبصورت ہو؟ ان سے بھی زیادہ خوبصورت ہوں۔ میں جواب دیتی۔ آپ نے دیکھا تو بس دیکھتے ہی رہ جائیں گے۔
اب میں ندیم سے باتیں کرنے کی عادی ہوگئی۔ گھر میں مجھ سے کوئی بات کرنے والا نہ تھا، اس کے ساتھ گفتگو کرکے میری تنہائی دور ہوجاتی تھی۔ وہ اچھی باتیں کرتا۔ کبھی کوئی غلط بات نہ کی، البتہ اسے اس بات کی بہت کرید تھی کہ میں کیسی ہوں۔ کہتا۔ بس! ایک جھلک تمہاری دیکھنا چاہتا ہوں، دور سے ہی سہی!
یہ ممکن نہیں ہے۔ میں جواب دیتی۔ میں باہر جاتی ہوں اور نہ مل سکتی ہوں۔ تم میری ایک جھلک کیسے دیکھ سکتے ہو؟ مجھے دروازے سے باہر گلی میں جھانکنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ ساجد بھائی اس معاملے میں بہت سخت ہیں۔ اگر انہوں نے دیکھ لیا تو بس مار ہی ڈالیں گے۔ یوں بھی میں برقع اوڑھتی ہوں، نقاب لیتی ہوں۔ جب اسکول جاتی تھی، چھوٹی سی تھی تب بھی برقع پہنتی تھی۔ اسے کیا بتاتی کہ کیوں برقع پہنتی تھی، اپنی بدصورتی کو چھپانے کیلئے اور وہ مجھے تصور میں پری سمجھ رہا تھا۔ میں سوچتی کہ سمجھتا ہے تو سمجھتا رہے، مجھے کیا۔ مجھے کون سا اس کے ساتھ شادی کرنا ہے۔ کسی دن اس کا فون نہ آتاتو میں بے قرار ہوجاتی یہاں تک کہ رات رات بھر نیند نہ آتی۔ اس بات کا علم میرے گھر والوں کو نہیں تھا کہ میری فون پر کسی سے بات ہوتی ہے۔
ایک بار اس نے مجھے ملنے کو کہا کہ وہ باہر جارہا ہے، پہلی اور آخری بار ملنا چاہتا ہے۔اس کے اصرار پر ڈر گئی۔ ایک تو گھر والوں کا خوف پھر میری صورت ایسی کہ اگر اس نے دیکھا تو پچھاڑ کھا کر گرے گا۔ اس کے خوابوں میں تو میں پری جیسی تھی۔ میں اس کا یہ خواب ہرگز نہ توڑنا چاہتی تھی۔ میں نے ملنے سے صاف انکار کردیا۔ اس نے مجبور کیا کہ اگر مل نہیں سکتی ہو تو کم ازکم اپنی تصویر ہی دکھا دو۔ میں ایک نظر دیکھ کر واپس کردوں گا۔ اس نے قسم کھا کر کہا۔ اگر انکار کیا تو تم میرے مرنے کی خبر سنو گی۔ اس کے پریقین لہجے سے ڈر کر میں نے تصویر کے لئے ہامی بھر لی۔
مجھے چیچک چودہ سال کی عمر میں نکلی تھی اور اس سے پہلے کی تصویر میرے پاس تھی۔ اسے بتایا کہ بہت پہلے کی ایک تصویر ہے۔ وہ میں گلی میں پھینک دوں گی، تم اٹھا لینا اور دیکھ کر ہماری ڈیوڑھی میں واپس ڈال دینا۔ میں اٹھا لوں گی۔ وہ مان گیا۔ میں نے پرانی تصویر نکالی۔ جب بارہ برس کی تھی۔ سوچ رہی تھی اگر انکار کرتی ہوں وہ خود کے ساتھ کچھ کر نہ لے اور اگر تصویر گلی میں پھینکتی ہوں تو جی ڈرتا تھا۔ اسی سوچ میں تھی کہ گھنٹی بجی۔ اس نے کہا۔ میں گلی میں آگیا ہوں، تم دروازے سے ہاتھ نکال کر تصویر گلی میں پھینکو اور پانچ منٹ بعد میں اسے تمہارے دروازے سے ڈیوڑھی میں واپس ڈال دوں گا۔ اس نے مزید سوچنے کا موقع نہ دیا۔ میں نے جلدی سے ہاتھ پر دستانہ چڑھا لیا تاکہ وہ میرے ہاتھ کی رنگت بھی نہ دیکھ سکے۔ در کو بہت تھوڑا سا کھولا اور تصویر باہر پھینک دی۔
اس نے تصویر اٹھا لی۔ میں انتظار کرتی رہی کہ اب وہ فون کرکے کہے گا کہ تصویر اٹھا لو۔ در کھلا اسی لئے رکھا تھا۔ آدھ گھنٹہ بیت گیا اس نے فون کیا اور نہ تصویر کو واپس ڈیوڑھی میں ڈالا۔ وہ فوٹو اٹھا کر چلتا بنا۔ بالآخر میرے دونوں بھائی اسکول سے آگئے اور انہوں نے در بند کردیا۔ مجھ سے کہا کہ تم نے کیوں دروازہ کھول کر رکھا ہوا تھا؟ پڑوسی بچہ پیاز مانگنے آیا تھا۔ میں در بند کرنا بھول گئی شاید…! آئندہ ایسا مت کرنا، در بند رکھا کرو، کوئی اندر گھس آئے تو کیا کرو گی اور بغیر پوچھے کبھی دروازہ مت کھولنا۔ وہ مجھے نصیحت کرکے کھانا کھانے بیٹھ گئے اور میں اس فکر میں غلطاں کہ اس کا فون آگیا تو کیسے بات کروں گی، بھائی گھر میں ہیں۔
اس کا فون نہ آیا۔ دو دن گزر گئے۔ یہ دن میں نے بڑی اذیت میں گزارے۔ اب پچھتاتی تھی کہ کیوں اپنی تصویر اس کے حوالے کی۔ جانے کیوں اس نے واپس نہیں کی۔ پتا ہوتا کہ وہ میرے ساتھ ایسا کرے گا تو کبھی اس پر اعتبار نہ کرتی۔ واقعی عورت بے وقوف ہوتی ہے، مرد کی باتوں میں آجاتی ہے۔ ہفتے بعد اس نے فون کیا۔ میں نے شکوہ کیا کہ تم نے تصویر واپس کرنے کا وعدہ کیا تھا، ابھی تک واپس نہیں کی۔ ایسا کیوں کیا تم نے…؟ بولا کہ کیسے واپس کرتا، تمہارے بھائیوں کے اسکول سے آنے کا وقت ہوگیا تھا۔ اگر وہ دیکھ لیتے تو تمہاری شامت آجاتی۔
اب ایک ہفتہ گزر گیا ہے، ابھی تک نہیں دی۔ ہاں! اس لئے نہیں دی کہ جی بھر کر دیکھ لوں۔ اب ایک شرط پر واپس کروں گا اگر تم ملو گی تب ورنہ تصویر کو بھول جائو۔ میں روز اسے دیکھ کر دل بہلاتا ہوں۔ دل میں ٹھنڈک سی پڑ جاتی ہے۔
یہ سن کر میرے ہاتھ، پائوں پھول گئے۔ اپنی بری شکل اسے کیسے دکھاتی۔ کیونکر اس سے ملتی کہ تصویر واپس لیتی تب میں نے سچ سچ اسے بتا دیا کہ میں خوبصورت نہیں ہوں بلکہ انتہائی بدشکل ہوں۔ چہرہ چیچک زدہ ہے۔ ایک آنکھ چھوٹی، ایک بڑی ہے۔ تم دیکھو گے تو ڈر جائو گے۔ یہ تصویر بہت پرانی ہے جب میں بارہ سال کی تھی۔ اس نے کہا۔ یہ جھوٹ ہے۔ تم مجھ سے ملنا نہیں چاہتی ہو تبھی دامن بچا رہی ہو۔ تم تو مجھے فون بھی نہیں کرتیں۔ میں نے کہا۔ میرے پاس تمہارا نمبر نہیں ہے، کیسے کروں؟ اس نے اپنا نمبر دیا اور کہا۔ رات کو ضرور مجھے فون کرنا۔ اگر فون کرو گی تو تصویر واپس کردوں گا۔
میں روز رات کو اسے فون کرنے لگی جب سب سو جاتے۔ بدقسمتی سے ایک روز ساجد بھائی کی آنکھ کھل گئی۔ وہ دبے قدموں آئے اور خاموشی سے میرے پیچھے کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے مجھے ندیم سے باتیں کرتے دیکھ لیا۔ بھائی نے پوچھا۔ یہ کون ہے اور کس سے اتنی رات گئے بات کررہی تھیں؟ میں نے کہا۔ ایک سہیلی سے! وہ بولے۔ مجھے اس کا نمبر دو۔ میں کیسے دیتی۔ جھوٹی قسمیں کھانے لگی کہ میرا کسی لڑکے سے تعلق نہیں ہے، لڑکی کا نمبر ہے، آپ کو نہیں دے سکتی۔ وہ ناراض ہوگی۔ اس پر وہ بولے۔ تم کیا سمجھتی ہو جھوٹ بول کر مجھے بے وقوف بنا لو گی۔ سیدھی طرح بتا دو اس کا کیا نام ہے؟ بھائی کے تیور دیکھ کر ڈر گئی اور اس کا نمبر اور نام بتا دیا۔ وہ غصے میں آگ بگولا ہوگئے۔ بولے۔ مجھے زندہ دیکھنا چاہتی ہو یا مردہ! اگر زندہ دیکھنا چاہتی ہو تو کبھی اس سے دوبارہ فون نہ کرنا اور کوئی تعلق نہ رکھنا۔ میں نے جواب دیا۔ جی! ایسا ہی ہوگا لیکن ان کو یقین نہ آیا۔ امی کو جگایا، ساری بات بتا کر کہا۔ یہ قسم کھائے کہ آئندہ اس لڑکے سے کوئی واسطہ اور رابطہ نہ رکھے گی۔ مجھے ایسا ہی کرنا پڑا۔ بھائی کی بات نہ مانتی تو کیا کرتی۔ وہی تو ہمارا سہارا تھا۔ روتے روتے میں نے قسم کھائی کہ اب کبھی اس سے رابطہ نہ رکھوں گی۔ تب بھائی نے میری جان بخش دی۔ ان دنوں موبائل فون عام نہیں تھے۔ میرے پاس موبائل فون نہیں تھا۔ اس کے ساتھ کوئی رابطہ نہ کرسکتی تھی۔ تصویر کیسے واپس لیتی۔ بھائی نے گھر والا فون بند کرا دیا۔ ندیم نے ضرور رابطے کی کوشش کی ہوگی۔ جب رابطہ نہ کرسکا تو اس نے محلے میں جگہ جگہ میری باتیں شروع کردیں اور میری تصویر لوگوں کو دکھاتا۔ دوستوں کو بتاتا کہ یہ ساجد کی بہن ہے جو بڑی مدت سے میری محبوبہ ہے۔ آج کل مجھ سے ناراض ہے۔ غرض اس طرح کی بے ہودہ باتوں کا جب مجھے پتا چلا تو میں بہت پریشان ہوئی۔ محلے کی دو چار عورتوں نے گھر آکر امی جان کو بتایا کہ ندیم ہمارے لڑکوں کو تصویر دکھا کر کہتا ہے کہ یہ ساجد کی بہن اور میری محبوبہ ہے۔ اگر ساجد کو کسی نے بتا دیا تو کیا انجام ہوگا۔ امی بچاری بھی ڈر گئیں۔ بالآخر بات ساجد کے کانوں تک پہنچ گئی۔
ساجد نے محلے کے دوچار دوستوں کو ساتھ لیا اور ایک دن ندیم کو جاگھیرا۔ اس کی خوب مرمت کی اور تصویر واپس لے لی۔ بھائی تصویر لے کر آئے۔ امی کو دی اور کہا کہ یہ لو اپنی بیٹی کے کرتوت دیکھو۔ امی تصویر دیکھ کر بہت روئیں، مجھے بھی لعن طعن کی لیکن اب کیا ہوسکتا تھا اس نے ہماری عزت خاک میں ملا دی تھی، مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا تھا۔ چونکہ تصویر کافی پہلے کی تھی اس لئے موجودہ صورت سے مختلف تھی۔ میری چیچک زدہ صورت کی وجہ سے کچھ بچائو ہوگیا۔ جنہوں نے تصویر دیکھی، یہی سمجھا کہ اس نے کسی اور لڑکی کی تصویر میرے نام سے دکھائی ہے کیونکہ یہ تصویر مجھ سے بالکل نہیں ملتی تھی۔ کسی نے یقین کیا، کسی نے نہیں کیا لیکن محلے کی عورتوں نے ندیم کو خوب برا بھلا کہا۔ کہتی تھیں۔ یہ بچی ایسی نہیں ہے، ہم نے کبھی اسے گھر سے باہر قدم دھرتے نہیں دیکھا۔ اتنی بڑی بات کیسے ہوگئی۔
کہتے ہیں کہ عزت سنبھال کر رکھنا ایسا ہی مشکل ہے جیسے پانی پر لکھنا اور عزت کا مٹ جانا بھی اتنا ہی آسان ہے جیسے مٹی پر لکھنا۔ اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے، وہ بڑا قادر و کریم ہے۔ اس واقعے سے محلے کی ایک خالہ کے دل میں میرے لئے ہمدردی کے جذبات پیدا ہوگئے۔ انہوں نے کہا۔ یہ بچی اتنی بدصورت ہوچکی ہے کہ کوئی اس کا رشتہ لینے نہیں آتا، کجا ندیم خبیث اس سے اپنے عشق کی من گھڑت کہانیاں سناتا پھرتا ہے۔ میں اللہ کی خوشنودی کیلئے اس بچی کا رشتہ لیتی ہوں۔ میرا بیٹا نیک اور شریف ہے، وہ میرا فرمانبردار ہے۔ صورت میں کیا رکھا ہے۔ اللہ نے چاہا تو اسی بدصورت لڑکی کی قسمت سے اس کی قسمت میں چار چاند لگ جائیں گے۔
خالہ آمنہ نے اللہ پر یقین کے ساتھ مجھ بدصورت کو بہو بنانا قبول کیا تو اس کے بیٹے کی قسمت واقعی شادی کے بعد ایسی کھلی کہ معمولی مزدور تھا۔ جب دبئی گیا تو لاکھوں کمائے اور محلے کا ایک معزز اور امیر آدمی ہوگیا۔ سچ ہے جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔ ندیم کے منہ پر اس کی بری نیت کی وجہ سے خاک پڑنی تھی، سو پڑ گئی۔ اس نے مجھے رسوا کیا، اللہ نے اسی کو رسوا کردیا۔
(یاسمین … پشاور)

Latest Posts

Do Humsafar

Related POSTS