میں اپنے بھائی ریحان سے عمر میں دو سال بڑی تھی ، لیکن وہ پڑھائی میں بہت تیز تھا۔ اتنی محنت کرتا تھا کہ اس نے ایک سال میں دو کلاسیں پڑھ لیں۔ اس طرح وہ مجھ سے آگے ہو گیا۔ میں نے جب کالج میں داخلہ لیا تو اس وقت ریحان تھرڈ ائیر میں تھا۔ وہ تب بھی کلاس کا ہونہار طالب علم تھا، بہت جو شیلا ۔ اس کو لیڈری کا بھی شوق تھا۔ وہ خود کو ہر میدان میں نمایاں دیکھنا چاہتا تھا۔ والد صاحب ریحان سے خوش تھے لیکن چاہتے تھے کہ وہ پڑھائی کے ساتھ پارٹ ٹائم جاب بھی کرے، تا کہ اوائل عمر میں کمانا سیکھ لے۔ میں اس بات کے خلاف تھی، لیکن ریحان نے والد کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے گھر کے قریب ایک دکان پر شام کو چند گھنٹے کام کر نا شروع کر دیا۔ اس طرح وہ اپنی تعلیم کے اخراجات خود برداشت کرنے لگا۔
یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ میں سمجھتی تھی ریحان ایک سلجھا ہوا اور مثبت سوچ رکھنے والا لڑکا ہے۔ اس میں کوئی بری عادت نہیں تھی۔ وہ صبح سویرے تیار ہو کر کالج چلا جاتا اور شام کو دکان پر۔ ایک دن اس کے کالج میں کوئی فنکشن تھا۔ یونین کے لڑکوں نے اس کی ڈیوٹی لگائی کہ جا کر اور لڑکے جمع کر لائے۔ اس کے ساتھ اور بھی طالب علم تھے۔ جب فنکشن ختم ہو گیا تو سب لڑکے ساتھ نکلے اور بس میں چڑھ گئے۔ بس بھر گئی، تو کچھ طالب علم اس کی چھت پر چڑھ گئے ، ان میں میرا بھائی بھی تھا۔ وہ جوش میں کھڑا ہو کر نعرے لگانے لگا۔ اتفاق سے والد صاحب نے اسے دیکھ لیا۔ انہوں نے اس وقت تو کچھ نہ کہا۔ وہ گھر آیا تو والد صاحب کسی کام سے بازار گئے ہوئے تھے۔ تھوڑی دیر بعد جو نہی وہ واپس آئے تو انہوں نے ریحان سے پوچھا۔ کہ تم نے کس کی اجازت سے یونین میں حصہ لیا تھا ؟ بھیا نے کوئی جواب نہ دیا، تب انہوں نے ریحان کو بہت مارا اور کہا کہ آج کے بعد تم کالج نہیں جاؤ گے۔
اس کے بعد ریحان نے بہت کوششیں کیں لیکن والد صاحب نے اجازت نہ دی۔ اس طرح تین ماہ کا عرصہ بیت گیا۔ وہ مایوس ہو گیا۔ پہلے اس کا دل پڑھائی میں انکار ہتا تھا۔ گھر پر بھی کتابیں لئے بیٹھا رہتا تھا مگر اب ان کا دل پڑھائی کرنے کو بھی نہیں چاہتا تھا۔ میں اس کی ذہنی حالت یہاں رقم نہیں کر سکتی کہ ان دنوں وہ کتنا پریشان تھا۔ اس کے چہرے پر اداسی کے گہرے بادل چھائے رہتے اور آنکھوں میں ساون بھادوں کی نمی محسوس ہوتی تھی۔ لہجہ میں تلخی رچی ہوتی۔ یہ سب در اصل کالج نہ جا پانے کا ردعمل تھا۔ ابو بھی اپنی جگہ درست تھے۔ کہتے تھے کہ اس کو لیڈری کی چاٹ لگ گئی تو میں اپنے بیٹے سے ہی ہاتھ نہ دھو بیٹھوں۔ مجھے یہ تعلیم سے زیادہ پیارا ہے۔ یہ سب پیار کا انداز ہوتا ہے۔ شاید میرے والد کو بیٹے سے پیار کا یہی انداز ٹھیک لگا کہ انہوں نے ریحان کو گھر میں قید کر لیا۔ خدا جانے وہ زمانے کے حالات سے اس قدر خوف زدہ کیوں تھے ؟
حالانکہ زندگی اور موت تو خدا کے اختیار میں ہے مگر وہ ہر ایک سے کہتے تھے کہ ریحان نو عمر ہے ، نوجوان ہے ، جو شیلا ہے، میں اس کو حالات کے سپرد نہیں کر سکتا۔ حالات بے رحم ہوتے ہیں، یہ بوڑھے والدین پر مہربان نہیں ہو سکتے۔ میں تعلیم کی خاطر بچے کو کھونا نہیں چاہتا۔ ریحان بھائی نے مایوس ہو کر پڑھائی کا خیال دل سے نکال دیا۔ اب وہ صبح سے رات نو بجے تک ڈیوٹی دیتے۔ انہی دنوں ایک لڑکی جس کا نام فرحانہ تھا، دکان پر آنے لگی۔ اس نے میرے بھائی کو غالباً پسند کر لیا تھا۔ بہانے بہانے دکان پر آتی ، ریحان نے بھی اس کا نوٹس لے لیا۔ وہ ان دنوں بہت بھجھا ہوا تھا غالباً کسی ذہنی سہارے کا متلاشی تھا۔ فرحانہ اس کے لئے ایک اچھا سہار ا ثابت ہوئی۔ وہ اسے تحفے دینے لگا۔ وہ بھی ریحان کے لئے کچھ نہ کچھ لاتی۔ اس کا گھر ہماری گلی میں تھا، اسی وجہ سے ان کی دوستی مجھ سے چھپی نہ رہ سکی۔ مجھے پتا تھا کہ میرا بھائی روزانہ دس بجے رات کو اس سے ملنے جاتا ہے۔ وہ اپنے گھر کے دروازے پر آکر بھائی سے باتیں کر لیتی ہے اور جب کھٹکا سنتی تو اندر چلی جاتی۔ ریحان ایسا نہ تھا، مگر اس کو تعلیم چھٹنے کا غم تھا۔ میں جانتی تھی کہ اس نے فرحانہ کی ذات میں وقتی سہارا لیا ہے۔ ابو کو اس کے جذبات کا کچھ احساس نہ تھا۔ ان کو تو بس اس بات سے غرض تھی کہ بھیا کسی کی نظروں میں نہ آجائے۔ ان کو صرف اپنے بیٹے کی زندگی پیاری تھی اور میں سمجھتی ہوں کہ ابا بھی کچھ غلط نہیں تھے۔ ہر باپ اپنے جوان بیٹے کی خیر چاہتا ہے۔ وہ جانتے تھے کہ ریحان کو خود نمائی کا شوق ہے اور وہ جو شیلا بھی ہے۔ اگر انہوں نے اس کو کالج جانے دیا تو وہ اپنے شوق سے باز نہ رہ سکے گا اور ایک دن کسی کا آلہ کار بن کر بے مقصد جان گنوا بیٹھے گا۔
ریحان کی دکان کا مالک کسی کام سے پندرہ دن کے لئے باہر چلا گیا۔ اب دکان اس کی ذمہ داری تھی۔ وہ رات کے گیارہ بجے دکان بند کرتا، پھر گلی میں جا کر کھڑا ہو جاتا۔ فرحانہ اپنے کمرے سے بات کرتی تھی۔ اس وقت اس کے بھائی بہن سو جاتے تھے۔ ایک روز ریحان نے دیکھا کہ فرحانہ کے والدین نہیں جارہے ہیں تو وہ اس سے ملنے گیا۔ وہ دروازے پر موجود تھی۔ اس نے بھائی سے گھر کے اندر آنے کو کہا۔ تو وہ اندر چلا گیا اور تھوڑی دیر اس سے باتیں کر کے گھر آگیا۔ گھر آکر یاد آیا کہ دکان کی چابی تو و ہیں میز پر رہ گئی ہے۔ وہ دوبارہ فرحانہ کے گھر گیا اور کھڑکی سے جھانکا کہ فرحانہ نظر آجائے تو اس کو چابی لانے کا کہے ، مگر اندر جھانکتے ہی اس کا دل بجھ گیا۔ فرحانہ محلے کے ایک اور لڑکے تنویر سے باتیں کر رہی تھی۔ اس کے والدین ابھی تک گھر نہیں آئے تھے۔ گویا وہ ہر کسی سے یونہی بات کر لیتی تھی۔ وہ یہ دیکھ کر پریشان ہو گیا اور اس کے دماغ سے محبت کا خمار اتر گیا۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ لڑکی بس ایسی وہی ہی ہے کہ جو مل جائے اسی سے بات کر لیتی ہے۔ اس نے چابی بھی نہ لی اور الٹے قدموں لوٹ آیا۔ سارا وقت وہ پریشان رہا۔ صبح اس نے مجھ سے کہا۔ ماہم فرحانہ کے گھر میری دکان کی چابی رہ گئی ہے ، وہ لے آؤ۔ میں گئی تو فرحانہ نے چابی مجھے تھمادی لیکن کچھ نہ کہا ۔ اس کے بعد بھائی نے پھر بھی اس لڑکی سے بات نہیں کی۔ انہوں نے تو اس کے ساتھ ناتا اس لئے باندھا تھا کہ وہ عمر بھر کا ساتھ چاہتے تھے۔ انہوں نے اسے میلی آنکھ سے نہیں دیکھا تھا۔ وہ اپنے جذبوں میں سچے تھے مگر فرحانہ جیسی لڑکی نے ان کے سچے جذبوں کا مذاق اڑایا تو انہوں نے اپنے قدم موڑ لئے۔ کہتے تھے کہ میں راستہ بھٹک گیا تھا۔ اب راہ راست پر آ گیا۔
انہی دنوں امی کی طبیعت خراب ہو گئی۔ انہیں اسپتال داخل کرنا پڑا۔ ریحان نے دکان کے مالک سے امی کے علاج کی خاطر کچھ رقم قرض لی۔ یہ صرف تین ہزار روپے تھے۔ اس کو پتا نہ تھا کہ یہ قرض سود پر ہے۔ سال گزر گیا اور ریحان رقم نہ لوٹا سکا۔ تب مالک نے کہا کہ تم پر سات ہزار روپے کا سود بن چکا ہے ، یوں آٹھ ماہ تک اس نے بھیا کو تنخواہ کا ایک پیسہ بھی نہ دیا۔ بھائی اپنے دوستوں سے اُدھار لیتے اور تنخواہ کا کہہ کر ابا جان کو دیتے۔ گھر میں اس معاملے کا کسی کو علم نہ تھا۔ آٹھ ماہ بعد بھیا نے مالک سے کہا کہ اب میں بغیر تنخواہ کے آپ کی دکان پر کام نہیں کروں گا۔ اس پر مالک بولا۔
اب تم پر بارہ ہزار روپے بنتے ہیں کیونکہ سود پر جو رقم لی جاتی ہے وہ ہر ماہ زیادہ ہو جاتی ہے۔ ریحان ، مالک دکان کے اس ظلم سے تنگ آگیا تھا۔ اس نے دکان پر جانا چھوڑ دیا مگر والد صاحب کے ڈر سے اس معاملے کو کسی پر کھلنے نہ دیا بلکہ گھر سے ہی چلا گیا۔ جاتے ہوئے وہ صرف مجھے بتا کر گیا کہ ماہم آپا، یہ حالات ہیں۔ اس وجہ سے میں کچھ دنوں کے لیے لاہور خالہ کے گھر جارہا ہوں۔ حالات سنبھل گئے تو آ جاؤں گا۔ تم گھبرانا نہیں اور میرے بارے میں کسی کو کچھ مت بتانا۔ یہ کہہ کر انہوں نے مجھے قسم دی۔ جاتے ہی اُنہوں نے میری سہیلی کے گھر فون کر کے مجھ سے بات بھی کی۔ بولے۔ اگر خالہ نہیں ہوتیں تو میں کب کا مر گیا ہوتا۔ بس انہی کی وجہ سے زندہ ہوں۔ ابا جان بہت پریشان تھے۔ مجھ سے ان کی پریشانی دیکھی نہ جاتی تھی۔ ان کو میں نے بتادیا کہ ریحان خالہ کے گھر پر ہے۔ آپ پریشان نہ رہا کریں۔ وہ بولے۔ وہ چلا گیا ہے ، تو بس اسے وہیں رہنے دو۔ اس ماحول سے نکل گیا ہے تو اچھا ہی ہوا ہے۔ میں بار بار سہیلی کے گھر فون کرنے نہیں جا سکتی تھی، لہٰذا اسے خط لکھنے لگی۔ وہ بھی جوابی خط لکھ کر بھیجنے لگے۔ اکثر لکھتے کہ گھر والوں سے ملنے کو دل چاہ رہا ہے۔ امی بھی اسے خط لکھتی تھیں، جس سے ان کو بہت سکون ملتا تھا۔ وہ آنا چاہتا تھا لیکن اباجان کے ڈر سے نہیں آتا تھا، حالانکہ وہ خود بھی یہی کہتے۔ ہتے تھے کہ اسے وہاں کچھ دن رہنے دو۔ اپنے گھر کے آرام کی قدر ہونے دو۔ جیسے گیا ہے ، کسی دن ویسے ہی آبھی جائے گا۔
باپ کی محبت اپنی جگہ مگر ماں کی ممتا اور چیز ہوتی ہے۔ ماں سے زیادہ دن صبر نہ ہو سکا، وہ ابا جان کے منع کرنے کے با وجود خالہ کے گھر چلی گئیں۔ یہاں بیٹے کو خوش و خرم پایا، اس میں زندگی کی ایک نئی رمق دیکھی۔ وہ یہاں پڑھ رہا تھا اور نوکری بھی کر رہا تھا۔ تنخواہ ساری خالہ کے ہاتھ میں تھما دیتا تھا۔ خالہ کی بیٹی آصفہ نے اس کو زندگی سے پیار کرنا سکھا دیا تھا، جو اس سے دو برس چھوٹی تھی۔ ریحان کو ایک بار پھر ذہنی سہارا مل گیا۔ انہیں اس کی ضرورت بھی تھی۔ آصفہ نے اس کے مردہ دل میں اپنی توجہ اور محبت سے نئی روح پھونک دی تھی اور وہ خوشی خوشی زندگی کی مصروفیات میں کھو گیا تھا۔ امی نے جب یہ صورت حال دیکھی تو ان کی دور رس نگاہوں نے بھانپ لیا۔ اُنہوں نے تبھی خالہ سے رشتے کی بات کی۔ وہ تو خود یہ چاہتی تھیں کہ ریحان جیسے شریف، ہو نہار اور اچھے لڑکے سے ان کی بیٹی کا رشتہ ہو جائے۔ اُنہوں نے بھی انکار نہیں کیا ، امی مطمئن ہو کر لوٹ آئیں کہ یہاں سے بیٹا وہاں بھلا تھا۔ وہ کما بھی رہا تھا اور پڑھ بھی رہا تھا اور اس کی دیکھ بھال بھی اچھی ہو رہی تھی۔ بھیا کے خط آتے تھے۔ وہ بہت خوش تھے ، لکھا کہ ماہم جب گھر لوٹوں گا ، تو تمہارے لیے بہت سے تحفے لاؤں گا، تم فکر مت کرنا۔ بہت جلد آؤں گا، ذرا امتحان سے فارغ ہو لوں لیکن وہ دن نہ آیا کہ میرا بھائی گھر لوٹ کر آتا۔ ہوا یوں کہ انہی دنوں ہمارے ماموں انگلینڈ سے آگئے۔ ساتھ ممانی اور ان کے صاحبزادے بھی تھے۔ مدت بعد یہ لوگ پاکستان آئے تھے اور خالہ کے گھر ٹھہرے تھے۔ ماموں کے بیٹے عالم کو آصفہ پسند آ گئی۔ اس نے اس کے ناز اٹھانے شروع کر دیئے اور یہ ناز پروری باتوں تک نہ تھی بلکہ انگلینڈ سے لائے ہوئے بیش قیمت تحفے بھی ساتھ تھے۔ کچھ لڑکیاں واقعی وعدوں کی پکی نہیں ہو تیں کیونکہ وہ ایمان کی کچی ہوتی ہیں۔ ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ آصفہ ایسی نکلے گی۔ انگلینڈ جانے کے خواب سجا کر اس نے اپنی توجہ ریحان سے ہٹا کر اپنے ماموں زاد عالم پر مرکوز کر دی۔ بس پھر کیا تھا، ایک اور نئی کہانی نے جنم لے لیا۔ عالم اور آصفہ گاڑی میں گھومنے پھرنے جانے لگے اور ریحان ایک بار پھر گیلی لکڑی کی طرح سلگنے لگا۔ اب وہاں اس کا رہناد و بھر ہو گیا، پھر بھی وہ اپنی شکست تسلیم کرنے پر تیار نہ تھا۔ عالم ، آصفہ اور اس کی چھوٹی بہن شانی، تینوں ساتھ سیر کو نکل جاتے اور ریحان کو کوئی نہ پوچھتا۔ جب پردیس میں بے رخی کی جلتی ہو ا جھلساتی ہے تو اپنے گھر کے کچے بھانڈے یاد آنے لگتے ہیں اور ٹوٹی ہوئی چھت بھی ایک نعمت محسوس ہوتی ہے۔ ریحان کو پہلی بار احساس ہوا کہ میں کسی اور کے در پر پڑا ہوں۔ اب مجھے گھر جانا چاہیے۔ اگر گھر نہیں جا سکتا تو کم از کم خالہ کے گھر اور نہیں ٹھہر نا چاہیے۔ تاہم جانے سے پہلے وہ آخری بار آصفہ سے بات کرنا چاہتا تھا، جس نے عمر بھر ساتھ نبھانے کی قسمیں کھائیں اور عالم کے آتے ہی بدل گئی تھی۔ کافی دنوں تک وہ کوشش کرتا رہا کہ آصفہ اس سے بات کرلے مگر وہ موقع ہی نہ دیتی تھی۔
ماموں نے لاہور میں ایک اچھی سوسائٹی میں گھر لے لیا۔ اب آصفہ ادھر زیادہ رہنے لگی۔ خالہ بھی چاہنے لگیں کہ وہ ماموں کی بہو بنے، کیونکہ وہ زیادہ امیر تھے۔ یہ صورتحال ریحان کے لیے بہت اذیت ناک تھی۔ اس نے تنگ آکر آصفہ کی چھوٹی بہن کا سہارا لیا اور اس سے کہا کہ شانو تم ہی مجھے اس گرداب سے نکالو۔ مجھے آصفہ کا آخری جواب چاہیے پھر میں یہاں سے چلا جاؤں گا۔ شاہین نے کہا کہ تم آصفہ کو خط لکھ کر مجھے دے دو، میں اس کا جواب تم کو لا دوں گی۔ ریحان نے اسے خط لکھ کر دے دیا، تب موبائل فون تو تھے نہیں ، اس نے خط کا ہی سہار ا لیا۔ چند گھنٹوں میں شانو جواب لے کر آگئی۔ تحریر کی صورت میں نہیں، زبانی۔ اس نے کہا۔ ریحان بھائی کیوں اس بے وفا کے لیے اپنی جان گھلاتے ہو ؟ وہ بدل چکی ہے۔ ماضی میں کیے گئے وعدے بھلا چکی ہے۔ وہ لالچی ہے۔ اس نے تمہار اخط پڑھے بغیر پھاڑ کر ہوا میں اچھال دیا۔ تم کسی خود فریبی کے سہارے اس کے جواب کے منتظر ہو۔ جواب یہی ہے جو تم کو مل چکا ہے۔ ریحان کے لیے یہ جواب کافی تھا، پھر بھی دل خود فریب تھا۔ وہ آصفہ سے ملنے ماموں کے گھر چلا گیا لیکن اس نے سلام کا جواب تک نہیں دیا، نہ بات کرنا گوارہ کیا۔ اب بھی شانو نے ہی ریحان کو اخلاقی سہارا دیا۔ ریحان بھائی بہت مضمحل ہو گئے تھے۔ ان کو اُداس دیکھ کر شانو بھی رونے لگی، بولی۔ بھیا! بہتر ہے ، آپ واپس اپنے گھر چلے جاؤ۔ میری بہن کو تم سے نہیں، قیمتی تحفوں سے پیار ہے۔ وہ دولت سے محبت کرتی ہے۔ تم اس کا خیال چھوڑ دو۔ ریحان کے دل کو دوسری بار چوٹ لگی۔ اس کو لڑ کی ذات سے ہی نفرت ہو گئی اور وہ خالہ کے گھر سے چلا گیا، خدا جانے کہاں۔ اس کے بعد میر ابھائی بھی لوٹ کر نہیں آیا۔ ابا جان اس کی راہ تکتے تکتے بیمار پڑ گئے۔ امی کی آنکھوں میں موتیا اتر آیا۔ میں رورو کر دیوانی ہو گئی۔ دن رات دعائیں مانگتی، مگر بھیا کو نہ آنا تھا، وہ نہ آیا۔
پہلا سال تو ہمارا انگاروں پر گزر گیا۔ ایک سال کے بعد ہمیں اس کا خط ملا کہ وہ روس میں ہیں۔ خدا جانے وہ روس کیا کرنے گیا تھا۔ جہاں سخت سردی ہوتی ہے ، وہاں کوئی اپنا نہیں ہوتا، پھر بھی ہم نے خدا کا شکر ادا کیا کہ اس کی طرف سے ہمیں خیر و سلامتی کا خط تو ملا ہے۔ اس کے بعد امید بندھی کہ وہ کسی نہ کسی دن آ جائے گا۔ اس آس پر دن گزرتے گئے، لیکن اس کو نہیں آنا تھا ، وہ نہ آیا۔ شاید اس کا اپنوں پر سے اعتماد ہی اُٹھ گیا تھا۔ پہلے اس کا اپنے والد پر سے , جنہوں نے اپنی محبت کی وجہ سے اسے تعلیم سے دور کر دیا، پھر اس کا محبت کی سچائی سے ہی اعتماد جاتا رہا کہ لڑکیاں ہوتی ہی دولت کی پجاری ہیں۔ یہ محبت نہیں کرتیں ، مالدار حیوان ساتھی ڈھونڈتی ہیں، جن کی محبت کے سہارے اسنے زندگی کی تلخیوں کو کم کرنے کی کوشش کی انہوں نے ہی دھوکا دیا۔ فرحانہ کی حقیقت عیاں ہو گئی تو میرے بھائی کے دل پر چوٹ لگی، لیکن اس نے اپنی خالہ اور ان کی بیٹی کو اپنا غمگسار سمجھ کر تمام محرومیوں کو بھلا دیا۔ کاش وہ اس کے ساتھ وفا کرتی تو آج میر ابھائی ملک چھوڑ کر کسی گمنام سرحد کی سمت نہ جاتا۔
خدا جانے آج میرا بھائی کہاں ہے ؟ اس کو گئے کئی برس ہو چکے ہیں۔ امی اس کو یاد کر کے ٹھنڈی آہیں بھرتی اور ابا ہاتھ ملتے ہیں کہ کاش میں اسے کالج سے نہ ہٹاتا۔ بے شک وہ طالب علم لیڈر بن جاتا، ہم سے اس طرح تو جدانہ ہوتا۔ ریحان بھائی نے شروع میں ہم کو دو چار خط لکھے ، اس کے بعد ان کا کوئی خط نہ آیا۔ ان کے دوستوں کا خیال ہے کہ روس سے بھی آگے کسی اور ملک چلا گیا ہے۔ کوئی قیاس کرتا کہ شاید کسی ملک کی سرحد غیر قانونی طریقے سے پار کرتے پکڑا گیا ہو۔ جیل میں ہو گا یا خدا نہ کر کے سرحد پار کرتے ہوئے گولی مار دی گئی ہو گی۔ ایسی باتیں تو ہو سکتی ہیں، لیکن ہم گھر والے تو ان باتوں کا تصور بھی نہیں کرنا چاہتے۔ میری تو دعا ہے کہ میر ا بھائی جہاں بھی ہو خیریت سے ہو۔ انسان زندہ سلامت ہو تو کبھی نہ کبھی واپس آہی جاتا ہے۔ جب میں اپنے بھائی کی زندگی پر نظر ڈالتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ اس کو کچی عمر میں ذہنی دھچکے ملے ، جب وہ ابھی پوری طرح باشعور نہ تھا، تبھی وہ ہم سے اور گھر سے دور چلا گیا۔ خدا کرے ہمارے ملک کے حالات ٹھیک رہیں اور یہاں نوجوان نسل کو سکون ملے تو وہ کبھی اپنا گھر، اپنا شہر اور اپنا وطن چھوڑ کر کہیں نہ جائیں گے ، نہ والدین کو جدائی کا درد سہنا پڑے گا۔