میری ہم عمر سبھی لڑکیوں کی شادیاں ہو گئیں اور خوب سے خوب تر کی تلاش میں امی جان کو میرے لئے کوئی رشتہ نہ جچا، یہاں تک کہ میں چھبیس سال کی ہو گئی ، اب جب کسی جانب سے شادی کا بلاوا آتا، میں افسردگی کا شکار ہو جاتی، میری ہم عمر تو کیا، مجھ سے چھوٹی لڑکیاں بھی باری باری سہاگن ہوئی جاتی تھیں اور میں حسرت سے ان کو باری باری سہاگن جوڑے میں لپٹا ہوا د یکھتی رہ جاتی تھی۔ میرے دل میں بھی ارمان بھرے تھے ، کچھ آرزویں کچھ حسرتیں تھیں۔ والدہ کو بھی میری تنہائی کا احساس تھا۔ لہذا اب انہوں نے جی میں ٹھان لی کہ جو مناسب رشتہ آئے گا، مین میخ نکالے بغیر بس ہاں کر دیں گی۔ آذر چھوٹی بھابھی کے کزن تھے ، کبھی کبھار کا آنا جانا تھا، میں انہیں کئی بار دیکھ چکی تھی ، مگر خواب و خیال میں نہ تھا کہ زندگی ان کے ساتھ گزارنی پڑے گی۔ کبھی آذر کو اس نظر سے نہیں دیکھا تھا کہ یہ شخص میرا جیون ساتھی بن جائے گا۔ میں تو اس کو لا ابالی پن سے دیکھا کرتی تھی لیکن قسمت میں اسی شخص کا ساتھ لکھا تھا۔ ایک دن میرے رشتہ بارے امی کو پریشان دیکھ بھابھی نے کہا۔ اماں جی، میرا خالہ زاد آذر شادی کا خواہش مند ہے۔ آپ کہیں تو میں اپنی زہرا کے لئے بات چلائوں ؟ امی بولیں ۔ تمہارا کزن کرتا کیا ہے ؟ گاڑیوں کا بڑا شور وم ہے ، کافی کماتا ہے اور اچھا بزنس ہے ، دولت کی کمی نہیں ہے۔ آگے آپ خود معلومات کروا لیں۔ لڑکے کا نیک چال چلن اور تعلیم یافتہ ہونا بھی تو معنی رکھتا ہے۔ امی جان آذر میرا دور کا کزن ہے ، میری والدہ کی خالہ زاد بہن کا بیٹا ہے ، ابھی تک تو اس کے چال چلن بارے کوئی غلط بات نہیں سنی، تعلیم یافتہ بھی ہے، مزید معلومات اپنی والدہ سے لے لوں گی۔ رشتہ مناسب لگے تو ہاں کرنے میں اب دیر نہ کریں۔ ہماری زہرا کی عمر بھی کافی ہو گئی ہے ، کب تک اسے بٹھائے رکھیں گی ، ایک وقت آجاتا ہے جب رشتے آنے بند ہو جاتے ہیں تو پھر لڑکیوں کو شادی شدہ اور بچوں والے مردوں سے بیاہنا پڑتا ہے۔ غرض کچھ دنوں کے غور و خوض کے بعد امی جان نے میرا رشتہ آذر سے طے کر دیا اور یوں میں زہرا سے مسز آذر بن گئی۔ شادی کے بعد میں پُر سکون ہو گئی۔ آذر کے پاس کسی شے کی کمی نہ تھی، شروع دنوں مجھے گھمایا پھر ایا بھی خوب۔ بعد میں جب بیٹی نے جنم لیا، میں بچی میں مصروف ہو گئی اور ہم نارمل زندگی گزارنے لگے ۔ دو سال بعد ایک اور بیٹی کی ماں بن گئی۔ میری مصروفیت بڑھی تو وقت کے ساتھ ساتھ میرے شوہر کی مصروفیات بھی بڑھتی گئیں۔ وہ اب صبح سویرے نکل جاتے تو تین چار روز بعد گھر آتے۔ میں پوچھتی تو کہتے کہ کاروبار کے سلسلے میں دوسرے شہروں جانا پڑتا ہے۔ اچھی کمائی تبھی ہوتی ہے جب مالک خود کاروبار کی نگرانی کرے۔ سچ تھا کہ ان کی کمائی روز بہ روز بڑھ رہی تھی اور اسی کمائی پر ہم عیش کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ لیکن دل کبھی کبھی اندر سے ڈرتا تھا اور دُعا کرتی تھی اے خُدا ہمیشہ ایسار کھنا اور کبھی آزمائش میں نہ ڈالنا۔ اللہ کی آزمائش کڑی ہوتی ہے اور دولت بھی اللہ پاک کی آزمائش میں سے ایک ہے جو کبھی راحت تو کبھی عذاب بن جاتی ہے۔ میرے دل میں گرہ ہی تھی، تبھی خیر کی دعائیں کرتی رہتی تھی۔ آخر کار ہماری بھی آزمائش کے دن شروع ہو گئے۔ ہوا یوں ، ایک دن میرے بڑے بھائی نے کہا۔ آذر تم گاڑیوں کا بیو پار کرتے ہو، میری پرانی گاڑی بکوا دو اور کوئی اس سے بہتر دلوا دو۔ دوسرے روز میرے خاوند ایک پارٹی لے کر گئے اور بھائی کی گاڑی بکوا دی۔ دونوں طرف سے اپنا کمیشن لے کر جیب میں ڈالا اور پھر کچھ دنوں بعد بھائی کو پانچ لاکھ میں ایک اچھی گاڑی دلوا دی۔ گاڑی اچھی ہے۔ بھائی نے کہا۔ آذر میاں مجھے تو اس گاڑی میں کچھ ہیر پھیر لگتا ہے، مگر انہوں نے بھائی جان کو مطمئن کر دیا۔ ایک رات آذر نے مجھے بتایا کہ دراصل گاڑی صرف تین لاکھ پچاس ہزار کی تھی ، باقی پیسے میں نے اپنی جیب میں رکھ لئے۔ اس انکشاف پر میں سہم کر رہ گئی مگر کیا کرتی ایک طرف بھائی اور دوسری طرف خاوند ، اپنی دو معصوم بچیوں کا باپ شوہر کی چغلی بھائی سے لگاتی تو بھی ماری جاتی۔ چند دن گزرے تو میرے بھائی سے آذر نے کہا کہ ایک دن کے لئے آپ کی گاڑی چاہئے۔ ان بیچارے نے دے دی۔ یہ گاڑی لے کر ایسے غائب ہوئے کہ پندرہ روز بعد آئے مگر گاڑی کی جگہ صرف ایک لاکھ دے کر بولے۔ یہ بھائی کو دے دینا اور کہنا کہ وہ گاڑی ٹھیک نہیں تھی میں بعد میں اور اچھی گاڑی دلوادوں گا۔ تھوڑا انتظار کرنا ہو گا، بعد میں نہ رقم دی اور نہ گاڑی دلوائی۔ وہ انتظار ہی کرتے رہ گئے۔ اس واقعہ کے دوماہ بعد ہی ایک دن دروازہ بجا۔ ایک شخص نے آکر کہا کہ میں آذر کا دوست ہوں ان کو کسی غلط گاڑی کو بیچنے کے کیس میں پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔ آپ فکر نہ کرنا ہم کو شش کر رہے ہیں ضمانت ہو جائے گی مگر یہ بات آپ کسی کو نہ بتانا۔ یہ سُن کر میں دنگ رہ گئی، عزت کا سوال تھا خاوند کے لوٹ آنے کا انتظار کرنا تھا۔ کسی سے ذکر نہ کیا اپنے میکے میں بھی نہیں کہ باپ اور بھائیوں کی نظروں سے میرے خاوند کی عزت گر جائے گی۔ چھے ماہ گزر گئے ، وہ لوٹ کر نہ آئے۔ اب میں گھبرائی جو جمع پونچھی تھی سب ختم ہو گئی تھی۔ زیور بھی کچھ فروخت کر کے عزت کی خاطر گھر کو سنبھالا ہر وقت گاڑی میں گھومنے والی اب بسوں میں دھکے کھاتی تھی، مگر شوہر کی عزت بنانے کے لئے ہر کسی سے کہتی تھی۔ وہ خود مجھے گاڑی پر چھوڑ گئے ہیں۔ بچوں کی فیس نہ دے پائی تو ان کو اسکول سے اُٹھالیا۔ جیٹھ اور جیٹھانی کو بتادیا کہ ایسا معاملہ ہے۔ وہ الگ پریشان تھے مگر وہ کسی کو بتاتے نہیں تھے۔ عزت کا مسئلہ تھا۔ پڑوسیوں سے قرض لینا پڑا مگر واپسی کی کوئی راہ سجھائی نہ دیتی تھی۔ آٹھ ماہ بعد ایک رات وہ چوروں کی طرح گھر آئے۔ آتے ہی بولے۔ ضمانت کروائی تھی کسی سے رقم لی اب وکیل کو پیسے ادا کرنے ہیں۔ تم اپنے بھائیوں سے کسی طرح پچاس ہزار روپے کا بندوبست کر دو ورنہ مجھے جیل جانا پڑے گا۔ ان دنوں پچاس ہزار بہت قیمت رکھتے تھے۔ پچاس ہزار میں گھر آ جاتا تھا۔ میں حیرت سے ان کا منہ تکنے لگی۔ اتنی مدت بعد شکل دکھائی تھی۔ یہ تک نہ پوچھا کیسی ہو۔ بچے کس حال میں ہیں؟ کیسے گزارہ کرتی رہی ہو… بس آتے ہی روپوں کا تقاضا کرنے لگے ، جیسے ان کو کسی بات کی پروا نہ ہو۔ میں ان ہی کے آسرے پر تھی۔ بھلا اتنی رقم کہاں سے لاتی ، مگر وہ دل کی بات زبان پر لے ہی آئے اور بولے۔ کل گھر چلی جائو اور کل تک رقم بہر حال مجھے چاہئے ۔ مجبور جا کر ان سے حال کہا اور منت کی کہ کسی کو نہ بتا ئیں۔ امی کے پاس کل جمع پونجی بس یہی پچاس ہزار پڑے تھے۔ وہ انہوں نے میرے پلے باندھ دیئے کہ بیٹی اچھے وقت کی ساتھی بیوی ہوتی ہے تو بُرے وقت کی بھی وہی ہوتی ہے۔ کوئی بات نہیں کبھی اچھے دن بھی آجائیں گے تو واپس کر دینا۔ گھر آکر رقم ان کو دی۔ باز کی طرح جھپٹ کر نو دو گیارہ ہو گئے اور میں کھلے دروازے کو تکتی رہ گئی۔ انہوں نے پلٹ کر بھی نہ دیکھا۔ میں جو بچوں کو بہلاتی تھی کہ تمہارے ابو آئیں گے پھر ہم اچھے اچھے کھانے بنائیں گے مگر دو پہر کو پھر وہی فاقہ نصیب میں تھا۔ مجبور جیٹھانی کو فون کیا اور تمام احوال بتایا۔ تو وہ اللہ کی بندی فوراً اپنے شوہر کے ہمراہ لدی پھندی چلی آئیں اور چند ایام کا راشن دے گئیں۔ دل کو کچھ ڈھارس ہوئی۔ اب خلوت و جلوت کے قصہ پارینہ بن چکے تھے۔ رات رات بھر ان کا انتظار کرتی مگر وہ نجانے کون سی دُنیا میں تھے۔ میں شوہر پرستی میں اس قدر آگے نکل چکی تھی کہ کبھی بھولے سے بھی کسی سے تذکرہ نہیں کیا۔ لے دے کر جیٹھ جیٹھانی کو علم تھا مگر وہ بچارے کس منہ سے میرے گھر والوں کو بتاتے کہ ان کی اولاد پر کیا گزر رہی ہے۔ یہی لوگ تو مجھ کو بیاہ کر لائے تھے۔ میں بھی سوچتی تھی کہ اپنا راز کہہ کر کہیں میکے میں ذلیل ور سوانہ ہو جائوں، بہنوئی کیا سوچیں گے ؟ بھابھیاں اور ان کے میکے والے کیا خیال کریں گے۔ بس اسی وجہ سے اکیلی گھلتی رہی اگر کوئی اور لڑکی ہوتی تو خود کشی کر لیتی یا پھر کم از کم اپنے بھائیوں، بہنوں کو ضرور آگاہ کرتی۔ میں بد نصیب گھر بچانے کی خاطر کچھ بھی تو نہ کر سکی اور خاموشی سے یہ اُفتاد و مصیبت سہتی رہی۔ پھر ہوا یوں کہ قرض خواہوں نے گھر دیکھ لیا۔ روز صبح شام وہ دروازہ بجانے لگے۔ کسی کے لاکھ روپے تھے کسی کے دو لاکھ کسی کے ہزاروں تھے میں چونکہ مقروض شوہر کی بیوی تھی سب کی باتیں اور جملے سُننے پڑتے تھے۔ بسا اوقات تو قرض خواہ ایسی گندی گالیوں سے میرے میاں کو میرے منہ پر نواز رہے ہوتے کہ مجھ میں سننے کی تاب نہ رہتی۔ وہ بکتے رہتے میں دروازہ بند کر دیتی۔ اس صورت حال سے گھبرا کر آخر کار بھائیوں کو بتادیا۔ وہ لوگ مجھے لینے گھر آگئے مگر مالک مکان بھی اسی وقت آگیا کہ مسز آذر آپ ایسے گھر چھوڑ کر نہیں جاسکتیں۔ آپ کے شوہر کے ذمے سال بھر کا کرایہ ہے۔ جب تک آپ لوگ کرایہ ادانہ کریں گے آپ کو سامان اٹھانے نہیں دیں گے۔ اتنی بڑی رقم میرے بھائی کہاں سے ادا کرتے اور جیٹھ بھی کتنا دیتے۔ آذر کا کل قرضہ چار لاکھ بنتا تھا۔ متفقہ طور پر سب نے یہی فیصلہ کیا کہ گھر کی تمام اشیاء قرض خواہوں کو دے دی جائیں۔ فریج، ٹیلیفون، بستر ، الماریاں ، بر تن، قیمتی تمام اشیاء سب کی سب دے دی گئیں۔ میرا بھرا ہوا گھر لٹ رہا تھا، یہ قیامت خیز منظر تھا۔ حتی کہ میرے جہیز کی اشیاء بھی وہ لوگ لے گئے ، چھوٹے موٹے قرضے نمٹ گئے۔ جیٹھ نے بڑے قرض خواہوں سے کہا کہ میں تم کو قسطوں میں قرضہ ادا کر دوں گا۔ اس کے بعد میں والدین کے گھر آ گئی، مجبور محلے کے ایک اسکول میں ملازمت کرلی۔ اللہ کا احسان ہے کہ اپنے بچوں کا پیٹ پالنے لائق ہو گئی۔ دن جیسے تیسے گزرنے لگے اب کچھ سکون سے وقت کٹ رہا تھا، اور میں نے دل و دماغ سے شوہر کے تصور ہی کو ختم کر دیا تھا کیونکہ وہ نہ رابطہ کرتے تھے، نہ خرچ ادا کرتے تھے اور نہ احول بتاتے تھے۔ عورت بے سہارا ہو جائے ، شوہر کے ہوتے بیوہ جیسی ہو جائے، کوئی پرسان حال نہ رہے۔ لوگ اُلٹی باتیں بنائیں عورت بیچاری کیا کرے۔ ارادہ کر لیا اب کبھی آذر کے بارے نہ سوچوں گی۔ اپنی باقی ماندہ زندگی بچوں کی پرورش اور ان کے مستقبل پر لگادوں گی۔ چھ برس یونہی گزر گئے خُدا جانے آذر کہاں چلے گئے۔ کچھ پتا نہ تھا کبھی فون آیا اور نہ خط۔ نہ خود ہی آئے۔ اچانک ایک رات ان کا فون آگیا کہ تم آجائو اور بچوں کو بھی لے آئو۔ میں نے جیٹھ کو فون کیا۔ انہوں نے کہا بھابھی اب ہماری ذمے داری نہیں ہے۔ خدا جانے کل کیا ہو ۔ آپ ہی اپنی مرضی سے جاتی ہیں تو جائیں۔ بھائی سے پوچھا، انہوں نے بھی منع کر دیا مگر میں شش و پنج میں تھی کہ کیا کروں ؟ کیا شوہر پر اعتماد کر لوں۔ نوکری چھوڑ دوں۔ کیا اپنے خاندان حتی کہ ماں جیسی ہستی سے بھی کنارہ کش ہو جائوں۔ شوہر نے پھر وہی حال کیا تو کیا کروں گی ؟ ملازمت بھی دوبارہ نہیں ملے گی۔ انہیں سوچوں میں روز جینے اور مرنے لگی۔ بھائی کہتے اگر اب ہماری مرضی کے بغیر شوہر کے ساتھ جائو گی تو کل کو ہم بھی تمہارا ساتھ نہیں دیں گے۔ سوچ لو ایسے شوہر کا کوئی اعتبار نہیں۔ کبھی اپنے بچوں کے بارے سوچتی بغیر باپ کی محبت کیسے بن جائیں گے۔ عورت کے لئے تو ہر وقت ہی آزمائش کا ہوتا ہے۔ وہ دکھ میں ہو کہ سکھ میں۔ جب وہ بچوں کی ماں بن جاتی ہے تو اس کے لئے آزمائش کا کڑا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ اتنے عرصے کی جدائی کے بعد بھی میرے بچے باپ کو نہیں بھولے تھے۔ آذر جب ساتھ ہوتے تھے بچوں سے محبت کرتے تھے ، ان کو سیر کراتے اور شاپنگ پر لے جاتے۔ بچے تو معصوم ہوتے ہیں، وہ ان یادوں کو فراموش نہیں کرتے۔ میں خود بھی یہی سوچتی تھی کہ اگر آذر غلط طریقے سے دولت نہ کماتے صحیح طریقے سے کام کرتے تو آج ہم کتنے سکھی اور خوش ہوتے۔ میں یہ بھی سوچتی اے کاش! ہم یہ چند دنوں کی بادشاہت، یہ دولت مندی نہ دیکھتے ہم درمیانے درجہ کے لوگ ہی رہتے۔ آذر کی ملازمت ہوتی یا کوئی چھوٹا موٹا کاروبار ہوتا، بے شک دو وقت کی روکھی سوکھی میسر آتی لیکن چین تو رہتا۔ بچے باپ سے جدا نہ ہوتے اور یہ رُسوائیاں ہمارے دامن میں نہ ہو تیں۔ جب آذر کے بار بار پیغامات آنے لگے تو ایک روز مجبور ہو کر میکے اور سسرال والوں سے چوری چھپے ان کے پاس چلی گئی۔ وہ ایک دوسرے شہر میں تھے۔ رہنے کو کوٹھی تھی ، نوکر چاکر تھے۔ خوشحال لگتے تھے۔ میں نے پوچھا۔ اپنے شہر میں کیوں نہیں آتے ، اپنے علاقے سے اتنے دور کراچی میں یہ جہاں کیسے آباد کر لیا ہے۔ بولے۔ یہ مت پوچھو، بس تمہیں آنا ہے تو بچوں کو لے کر آجائو اور یہاں رہو۔ پہلے بتائو کہ تم کیا کاروبار کرتے ہو اور پھر سے یہ دولت تم نے کیسے بنائی ہے ۔ جب تک یہ نہ بتائو گے میں نہیں آئوں گی۔ جواب دیا۔ یہ نہیں بتا سکتا، تم کو آنا ہے تو آجائو ، نہیں آنامت آئو ، جیسے جی رہی ہو جیتی رہو۔ بچوں کی خاطر میں آذر سے جدا نہیں رہنا چاہتی تھی۔ اس وقت تو واپس لوٹ آئی ، اب سوچ میں تھی ان کے پاس چلی جائوں کہ نہ جائوں میکے اور سسرال والے کہتے اب آذر کے پاس جائو گی تو اپنی مرضی سے جائو گی ہم ذمہ دار نہیں۔ بعد کے حالات کی تم خود ذمہ دار ہو گی۔ بُرا وقت دوبارہ آگیا تو ہم تیرا اور تیرے بچوں کا ساتھ نہیں دیں گے۔ اکیلے فیصلہ نہ کر پا رہی تھی۔ میں نے آذر کو فون کیا کہ مجھے دوماہ کی مہلت دو، تنخواہ کے ساتھ عید کا بونس ملے گا پھر نوکری چھوڑ دوں گی۔ ابھی ڈھائی ماہ گزرے تھے کہ خبر لگی ان کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔ وہ ایسے افراد کے ساتھ کام کر رہے تھے جو مصنوعی زرعی ادویات بنارہی تھیں۔ چھاپہ پڑا اوران کے ساتھ یہ بھی اندر ہو گئے اب کی سزا لبی ہو گئی اور سب نے کہا کہ صد شکر تم نہ گئیں۔ یہ شخص تو سدھرنے والا نہیں، ایسے بندے کے ساتھ رہنا جو اپنی جعل سازی اور دھوکے بازی کی فطرت سے باز نہ آئے تمہارے بچوں پر اور ان کے مستقبل پر کیا اثر پڑے گا؟ یہ پولیس، یہ بار بار اس کی مجرمانہ سر گرمیاں اور جیل جانا۔ ایسے آدمی سے وفا کی کیا امید رکھ سکتے ہیں۔ میں نے بھی سوچا۔ یہ ٹھیک کہتے ہیں اب تو سبھی ہمدردی کرتے ہیں، ساتھ دیتے ہیں بُرے بھلے کے ذمے دار بنے ہوئے ہیں، کل کو اگر میکے اور سسرال والوں کا سہارا بھی جاتارہتا تو میں کہاں کی رہ جاتی ؟ نوکری بھی چھوٹ جاتی۔ اللہ تعالی جو کرتا ہے انسان کے بھلے کو کرتا ہے، میں نے ہمت کی۔ بی اے تھی بی ایڈ کیا تو سرکاری اسکول میں کچی نوکری مل گئی اپنے بچے پال لئے۔ وہ تعلیم پا گئے اور اپنے مقام پر جو قسمت میں تھا پہنچ گئے۔ آذر جب جیل سے رہا ہو کر آئے روپوش ہو گئے، گھر نہ لوٹے۔ کس منہ سے گھر لوٹتے اب رہا ہی کیا تھا ان کے لئے ، گھر میں۔ بچے بھی باشعور ہو کر سمجھ گئے کہ باپ سے جُدائی کا سبب کوئی اور نہیں خود ان کا اپنا باپ تھا۔