ہمارے پڑوس میں عربی کے استاد رہا کرتے تھے۔ صفیہ ان ہی کی اکلوتی بیٹی تھی۔ وہ میری ہم عمر تھی۔ ہم نے ساتھ میٹرک کیا تھا۔ ان دنوں لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کا رواج عام نہ تھا۔ میٹرک کے بعد صفیہ کے والد نے ایک اچھا رشتہ دیکھ کر بیٹی کی شادی کر دی۔ استاد صاحب نیک آدمی تھے۔ وہ حافظ قرآن بھی تھے، محلے کی اکثر خواتین ان سے دعا اور پیار پر درود دعا اور بیمار بچوں پر دم درود کرانے آیا کرتی تھیں۔
صفیہ کے گھر کا ماحول پاکیزہ تھا۔ اس کی تربیت والدین نے مشرقی طرز پر کی تھی۔ وہ والدین کی اطاعت گزار ، صوم و صلوۃ کی پابند لڑکی۔ ہمیشہ حجاب میں رہتی۔ اسکول بھی برقعہ اوڑھ کر آتی تھی، تبھی ماسٹر صاحب نے اپنی بیٹی کارشتہ بھی اپنے جیسے دین دار گھرانے میں کیا تھا۔ شادی کے بعد صفیہ سسرال میں گم ہو گئی۔ وہ سیدھی سادی لڑکی تھی، جس کو دنیا کالالچ یا زمانے کی نمود و نمائش چھو کر بھی نہ گزری تھی۔ کبھی اپنے خاوند سے فرمائشیں نہ کرتی، نہ اپنی ذات کے لئے میک آپ کے آرائشی سامان کے تقاضے کرتی۔ وہ ان چیزوں کا سرے سے استعمال ہی نہ کرتی تھی، پھر بھی اس کا چہرہ صاف ستھرا، دُھلا دُھلا، چمکتا ہوا، پر نور نظر آتا تھا۔ میں کبھی کبھی اس سے ملنے جایا کرتی تھی۔ مجھ سے مل کر بہت خوش ہوتی، خاطر مدارت کرتی۔ وہ اپنے خاوند کے گھر بہت خوش تھی۔ اس کا گھر مجھے سکون کا گہوارہ لگتا تھا۔ اس کا شوہر بھی حافظ قرآن تھا اور ایک سرکاری دفتر میں اوسط درجے کا ملازم تھا۔ میں نے ایم اے پاس کیا تو لیکچرر شپ پائی اور پھر میری شادی ہو گئی۔ میرے شوہر محکمہ تعلیم سے وابستہ تھے۔ اتفاق سے شادی کے بعد جس فیملی کی بہو بن کر گئی، ان کی رہائش صفیہ کے گھر سے دُور نہ تھی۔ میرے خاوند کا مکان اسی محلے میں تھا، جہاں صفیہ شوہر اور بچوں کے ساتھ رہتی تھی ، اس طرح ہم سہیلیوں کی پھر سے قربت ہو گئی۔ اس دوران صفیہ کے چار بچے ہو چکے تھے تبھی میرے گھر وہ بہت کم آ پاتی۔ میں ہی ایک دو ماہ بعد اس کے پاس چلی جاتی تھی۔ میرے شوہر اور صفیہ کا خاوند قدیر ایک ہی محکمے میں تھے۔ گرچہ عہدوں کا فرق تھا تاہم میرے سسر اس گھرانے کو اچھی طرح جانتے تھے اور عزت کرتے تھے۔ مجھے انہوں نے بھی صفیہ کے گھر جانے سے منع نہیں کیا تھا۔ میری شادی کو چھ برس ہو گئے اس دوران صفیہ کے گھر دو اور بچوں کا اضافہ ہو گیا، پھر اس کے سسر کا انتقال ہو گیا۔ اس بزرگ کی وفات کے بعد گویا اس گھرانے کے بُرے دن شروع ہو گئے۔ صفیہ کے سُسر محلے کی مسجد کے امام تھے۔ ان کی تنخواہ کے علاوہ بھی لوگ اپنی خوشی اور عقیدت کے باعث ان کو نذر نیاز سے نوازتے تھے، تبھی اس گھرانے کا گزارہ اچھی طرح ہوتا تھا۔ امام صاحب کی وفات کے تھوڑے عرصے بعد صفیہ کے شوہر کی طبیعت گری گری رہنے لگی تو دفتر سے چھٹیاں کرنے لگے۔ ایک دن میرے شوہر نے بتایا کہ قدیر بیمار رہتے ہیں، تم جا کر اپنی سہیلی کا حال احوال پتا کرو کیونکہ ڈاکٹر نے اُن کو کینسر بتایا ہے۔ خبر نہیں کہ اس بات کا ان کی بیگم کو علم ہے کہ نہیں۔ اپنے شوہر کے کہنے سے میں صفیہ کے پاس گئی۔ وہ واقعی بہت پریشان تھی، تاہم ابھی تک اس حقیقت سے لا علم تھی کہ اس کا سہاگ اس دنیا میں چند ماہ کا مہمان ہے۔
پھر وہ گھڑی آگئی، جب قدیر صاحب کو اسپتال لے جایا گیا اور پندرہ روز بعد ان کی وفات ہو گئی۔ صفیہ جوانی میں بیوہ ہو گئی۔ ابھی سولہ برس پورے نہ ہوئے تھے کہ شادی ہو گئی اور اب وہ چھ بچوں کی ماں تھی کہ بیوگی کی چادر اس پر پڑ گئی۔ اس کا کوئی دیور تھا اور نہ نند۔ سُسر پہلے ہی چل بسے تھے۔ بوڑھی ساس البتہ زندہ تھی، اس بیوہ کا بوجھ بھی اُسے نے اٹھانا تھا۔ بچے سبھی زیر تعلیم تھے اور آمدنی کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ اس پر بہت ہی برے دن آچکے تھے۔ جب گھر میں فاقے ہونے لگے تو ایک دن گھبرا کر وہ ایک مولوی صاحب کے پاس گئی، جو اس کے والد اور سُسر کو جانتے تھے۔ ان سے اپنی پریشانیوں کا ذکر کیا اور بتایا کہ اب بچوں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ شرم کی وجہ سے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلا سکتی، مگر گزر بسر بہت مشکل ہو گئی ہے۔ ان بزرگ نے صفیہ کو ایک کتاب دی اور کہا کہ اس کتاب سے تمہارے علم میں اضافہ ہو گا، تعویذ لکھنے میں مدد ملے گی۔ میں تم کو اجازت دیتا ہوں کہ آج سے تم لوگوں کو دعائیں اور تعویذ لکھ کر دو گی اور وظائف بھی بتایا کرنا۔ تم پر اللہ کی رحمت ہو گی۔ اس کتاب میں وظائف لکھے ہوئے ہیں۔ اس وسیلے سے تمہاری محتاجی کٹے گی اور تم کو کسی کے سامنے دست سوال دراز کرنے کی ضرورت نہ رہے گی، لیکن بیٹی ! ایک بات میری یاد رکھنا۔ جب بھی کسی دکھی کو تعویز دو تو نیکی اور بھلائی کا دینا، حق کا ساتھ دینا، ناحق کا کبھی ساتھ مت دینا۔ بس یہی تم کو میری ہدایت ہے کیونکہ کتاب میں جہاں بھلائی کے لئے وظائف درج ہیں، برائی و دشمنی کے لئے بھی ہیں۔ لہٰذا سفلی عمل اور دشمنی نفرت جدائی والے عمل سے دور رہنا اور نہ لوگوں کو ایسے برائی کے کاموں میں مدد دینا۔ عالم صاحب نے صفیہ کو دعائیں دیں اور وہ دعائیں اور ان کی نصیحت کو گرہ میں باندھ کر گھر آگئی۔ اس نے سب سے پہلے گھر میں ایک محفل درس و دعا کا انعقاد کیا، جس میں محلے کی عورتوں کو مدعو کیا اور بتایا کہ کسی نے اگر بیمار بچے پر دم درود کرانا ہو یا اپنے شوہر کی محبت کے لئے وظائف وغیرہ پوچھنے ہوں تو بلا جھجھک میرے پاس آ جایا کریں۔ مجھے یہ علم میرے سسر صاحب کی وساطت سے ملا، لیکن میں نے اسے عام نہ کیا تھا لیکن اب میرے بچے بڑے ہو گئے ہیں اور شوہر بھی حیات نہیں ہیں، اس لئے آپ لوگوں کی خدمت کر سکتی ہوں۔اگلے دن سے ہی ضرورت مند عورتوں نے اس کے پاس آنا شروع کر دیا۔ وہ اپنا دکھ سکھ اس سے بیان کرتیں اور وہ حسب حاجت دعا یا وظائف بتاتی۔ کبھی نقش بھی لکھ کر دے دیتی۔ رفتہ رفتہ اس کی شہرت پھیلنے لگی، عورتوں کا تانتا بندھ گیا۔ ہر وقت ایک جمگھٹا سارہتا تھا۔ وہ خود کبھی کسی سے کچھ طلب نہیں کرتی تھی۔ جو ان کا دل کرتا، وہ نذرانہ دے جاتی تھیں۔ ایک طرف پریشان حال محلے کی عورتوں کا جی ہلکا ہورہا تھا تو دو سری طرف صفیہ کے بچوں کی دال روٹی چلنے لگی تھی۔ اس کی نیت اچھی تھی ، اللہ تعالی نے اس کے رزق میں برکت ڈال دی تھی۔ گھر کے اخراجات اچھے طریقے سے چلنے لگے۔
مجھے صفیہ کو دیکھ کر افسوس ہوتا تھا۔ اگر اس کے والدین اسے پڑھا لکھا دیتے تو آج وہ کہیں ملازمت کر کے اپنے یتیم بچوں کا پیٹ پال رہی ہوتی لیکن اب اُسے اس حیلے اور وسیلے کا سہارا لینا پڑ گیا تھا۔ جب میں یہ بات صفیہ سے کرتی ، وہ جواب دیتی۔ اللہ بڑا کار ساز ہے ، جب وہ کسی کی بگڑی بنانے پر آتا ہے تو اسی طرح خود بخود رزق کے در کھول دیتا ہے۔ دیکھو اس طرح دنیا کے کام بھی چلتے رہتے ہیں اور میرے بھی۔ میں نے کبھی لالچ نہیں کیا، کسی سے کچھ نہیں مانگا۔ میری کوئی فیس ہے اور نہ مانگ ہے۔ کوئی اپنی خوشی سے کچھ دے جائے تو اس میں گناہ نہیں۔ میں کسی کو گمراہ نہیں کرتی، نہ جدائی، دشمنی برائی یا نقصان کے تعویذ لکھ کر دیتی ہوں۔ یہ میری اہلیت بھی نہیں ہے۔ سب کو پتا ہے میں کوئی ماہر عالم نہیں۔ یہ بھی سب جانتے ہیں۔ بس ایک بزرگ سے دعالی اور ان کی ہدایت پر عمل کرتی رہی ہوں۔ میرے بچے اسکول سے کالج جانے لگے پھر بھی گھر میں کسی شے کی کمی نہیں ہوتی۔ اللہ تعالی اس بیوگی میں غیب سے دے رہا ہے ، مجھے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ دم درود کرانے والی عورتوں کا صفیہ پر اعتقاد بڑھتا گیا۔ ان عورتوں کے خیال میں دوا کے ساتھ دعا اور دم درود سے شفا یقینی ہو جاتی ہے۔ پریشان عورتوں کو صفیہ کی تسلی سے قرار ملنے لگا۔ وہ سمجھتی تھیں کہ ان کے بیمار بچے اسی وجہ سے جلد اچھے ہو جاتے ہیں کیونکہ صفیہ ایک نیک عورت ہے۔ اس میں شک نہیں کہ واقعی وہ ایک نیک اور اچھی عورت تھی۔ اس کو میں بچپن سے جانتی تھی۔ ایک روز صفیہ کے پاس ایک عورت آئی۔ وہ نوجوان اور خوبصورت تھی۔ اس نے کسی عورت سے کلام کیا اور نہ سلام، یہاں تک کہ تمام عورتیں چلی گئیں۔ جب آخر میں وہ عورت رہ گئی تو صفیہ اس کی طرف متوجہ ہوئی۔ بی بی ! اب تم بھی کچھ کہو۔ بڑی دیر سے بیٹھی ہو۔ وہ بولی۔ ہاں، میں تنہائی میں آپ سے کلام کرنا چاہتی تھی۔ بلا جھجھک بتاؤ، کیا پریشانی ہے؟ اس پر وہ حسینہ جس کا نام سوہا تھا، گویا ہوئی۔ میری شادی جس شخص سے ہوئی ہے، میں اس کو پسند نہیں کرتی بلکہ مجھے اس سے نفرت محسوس ہوتی ہے۔ میں اس کے ساتھ ہر گز نہیں رہنا چاہتی مگر اب میرا اس کے ساتھ رہنا محال ہو رہا ہے۔ ہیں خود پر جبر کرتے کرتے تنگ آچکی ہوں۔ بہت بار میں نے اپنے خاوند سے کہا کہ تم اور شادی کر لو ، مجھے طلاق دے دو۔ میں حق مہر بھی معاف کرتی ہوں، مگر وہ مجھے طلاق نہیں دیتا اور زبردستی اپنے گھر رہنے پر مجبور کرتا ہے۔ بتایئے میں کیا کروں؟ عدالت سے طلاق لوں؟ لیکن میرے خاندان والے عدالت بھی جانے نہیں دیتے۔ بی بی ! تم نے اپنا آدھا مسئلہ بتایا ہے۔ جب تک پوری بات نہ بتاؤ گی ، تب تک میں تمہاری مدد نہیں کر سکتی۔ شوہر سے نفرت کا کوئی نہ کوئی سبب تو ہو گا ؟ ہاں سبب تو ہے۔ میں صاف صاف بتاتی ہوں کہ شادی سے قبل میں اپنے ماموں زاد سے محبت کرتی تھی۔ ہم دونوں شادی کرنا چاہتے تھے ، لیکن میرے والد کو ماموں والوں سے بیر تھا۔
انہوں نے کہا کہ میں کسی فقیر سے تو بیٹی کی شادی کر دوں گا مگر انور سے نہیں۔ اس طرح انہوں نے مرضی کے خلاف میری شادی اپنے ایک دوست کے بیٹے سے کر دی۔ اس طرح میں سلیم کی بیوی بن گئی مگر ابھی تک میرے دل سے انور کی محبت نہیں گئی۔ اب بھی میں اور انور اسی طرح محبت کرتے ہیں جیسے پہلے دن سے ہمارے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت تھی۔ میری اس مجبوری کا علم میرے شوہر کو بھی ہے لیکن وہ مجھے پھر بھی آزاد نہیں کرتا۔ تمہارے شوہر کو اس بارے کس نے بتایا ہے سوہا بی بی ! میں نے خود اس کو بتادیا کہ میری یہ مجبوری ہے۔ دل سے مجبور ہوں اسی لئے تم سے آزاد ہونا چاہتی ہوں۔ سمجھ رہی تھی کہ حقیقت جان کر وہ خود مجھ سے بیزار ہو جائے گا اور طلاق دے دے گا مگر اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ اور سختی کرنے لگا۔ اس کا کہنا ہے کہ تم یونہی سسک سسک کر مر جاؤ گی مگر میں تم کو طلاق نہیں دوں گا تا کہ تم اپنی آرزو پوری نہ کر سکو اور اپنے چاہنے والے سے شادی نہ کر سکو۔ کیا تمہارا شوہر اچھا آدمی ہے اور تم سے وفادار ہے؟ صفیہ نے پوچھا۔ وہ بولی۔ نہیں بی بی صاحبہ ! وہ ہر گزاچھا آدمی نہیں ہے۔ وہ دوسری عورتوں کا رسیا ہے ، زیادہ تر ان کے ساتھ رہتا ہے۔ اس کے پاس بہت دولت ہے۔ وہ اپنا زیادہ وقت طوائفوں کے پاس گزارتا ہے۔ اب تم کیا چاہتی ہو ؟ شوہر سے چھٹکار ا سوہانے جواب دیا۔ صفیہ نے مجھے بتایا کہ سلمیٰ یقین کرو، میں نے گرچہ آج تک کسی عورت کو کسی ایسے کام کے لئے نقش لکھ کر نہیں دیا تھا کیونکہ مجھے وظائف کی کتاب دینے والے بزرگ کی نصیحت یاد تھی کہ صرف اچھے کاموں کے لئے کلام اللہ کو وسیلہ بنانا اور جدائی و دشمنی نیز برائی کے نقش ہر گز نہ لکھنا، مگر اس روز جانے میرے جی میں کیا آئی کہ میں نے نقش والی کتاب نکالی اور اس عورت سے پوچھا۔ اگر تم نے مراد پالی تو کیا کرو گی ؟ وہ بولی۔ آپ کو دس ہزار روپیہ نذر کروں گی۔ ان دنوں دس ہزار کی رقم بہت ہوا کرتی تھی۔ پس یقینا بے چاری صفیہ اس روز لالچ میں آگئی، کیونکہ اس عورت نے اسی وقت رقم نکال کر اس کے سامنے رکھ دی تھی۔ یہ پہلی بار تھا کہ صفیہ نے اتنی بڑی رقم لے لی تھی ، کیونکہ اس کی بیٹی کی شادی ہونے والی تھی۔ اس کو رقم کی بہت ضرورت بھی تھی۔ صفیہ نے سوہا سے کہا۔ دیکھوبی بی ! میں جدائی کے نقش نہیں دیا کرتی مگر تمہاری حالت پر نجانے کیوں مجھے رحم آگیا ہے۔ تم پہلی عورت ہو ، جس کو میں جدائی کا نقش دے رہی ہوں۔ سوہا خوش ہو کر بولی۔ تو کیا اس نقش کے اثر سے جدائی ہو جائے گی ؟ ہاں، اگر اللہ کو منظور ہوا تو ضرور تم میں اور تمہارے شوہر میں جدائی ہو جائے گی۔ اور اگر اس نے پھر بھی طلاق نہ دی تو ؟ تو بھی جدائی کسی اور صورت ہو جائے گی۔ صفیہ نے اس کو یقین دلانے کی خاطر رسان سے کہا۔ عورت صفیہ کی بات سچ جان کر چلی گئی حالانکہ صفیہ کوئی پہنچی ہوئی شخصیت نہ تھی اور نقش جدائی میں بھی شاید ایسی کوئی حکمت پوشیدہ نہ تھی۔ نقش سے بھلا کہاں کہ کسی کو طلاق یا جدائی ہو سکتی ہے یا موت واقع ہو کر جدائی کی صورت پیدا ہو سکتی ہے کیونکہ یہ تو صرف اللہ کے اختیار میں ہے ، جس کو چاہے زندگی دے، جس کو چاہے موت، مگر صفیہ موٹی رقم لے بیٹھی تھی تبھی اس عورت کو وثوق دلانے کو کہہ دیا تھا کہ جدائی کا یہ تعویذ بہت سخت ہے۔ جدائی ہو کر رہے گی، چاہے طلاق سے یا ناگہانی کسی حادثے کی وجہ سے۔
کبھی کبھی اللہ تعالی اپنے بندوں کا امتحان لیتا ہے۔ یہ بھی گویا صفیہ کے ایمان کا امتحان تھا، مگر اللہ کی کرنی کہ ایک ہفتہ بعد سوہا کے خاوند کی کار حادثے میں موت واقع ہو گئی۔ وہ تبھی ششدر رہ گئی۔ اس نے اس حادثے کو صفیہ کے لکھے ہوئے تعویذ کی کرامت سمجھا۔ خود نہ آسکی تو اپنی ایک سہیلی کو ”بی بی مرادوں والی “ کے پاس بھیج کر حالات سے آگاہ کر دیا۔ صفیہ نے بہر حال اس حادثے کو معیشت ایزدی جانا کیونکہ جانتی تھی کہ اس نقش میں ایسی کوئی کرامت نہ تھی
اور نہ وہ کوئی پہنچی ہوئی عالم ہستی تھی کہ جس کا لکھا ہوا تعویذ اچھے بھلے انسان کو موت کی نیند سلادیتا۔ بے شک ان دونوں نے کسی انسان کو مارنے کی خاطر کار حادثہ نہیں کروایا تھا اور نہ ہی کسی انسان کو موت کی نیند سلانے کی قدرت رکھتی تھیں تاہم ان کی نیتوں میں فتور ضرور تھا۔ صفیہ کی نیت میں لالچ غالب آیا اور سوہا کے ارادے بھی نیک نہ تھے ، تبھی ان کو یہ سزا ملی۔ ہوا یوں کہ سوہانے ایک کیسٹ بھرا، جس میں اپنے محبوب انور کو مخاطب کیا، جو ان دنوں ریاض میں ملازمت کر رہا تھا۔ اس کیسٹ میں اس نے تمام حالات سے انور کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ اس نے ایک بی بی سے تعویذ لیا تھا، جو شوہر سے چھٹکارا پانے کے لئے تھا۔ اس نے بی بی کی ہدایت کے مطابق زمین کھود کر تعویذ دفنادیا اور اگلے دن سلیم کی موت واقع ہو گئی۔ یہ سب تعویذ کی کرامت سے ہوا ہے کیونکہ میں نے مرادوں والی بی بی کو اس کے لئے دس ہزار روپے نذرانہ دیا تھا۔ اس نذرانے نے کام دکھا دیا ہے ، لہٰذا اب تم آجاؤ تا کہ ہم شادی کر سکیں۔ یہ کیسٹ اس نے اپنی ایک سہیلی کو چمڑے کی تھیلی میں سی کر دے دیا کہ جس کا شوہر ریاض جانے والا تھا۔ وہ دونوں ریاض میں ایک جگہ ہی کام کرتے تھے اور وہاں ، ایک ہی کرایے کے مکان میں رہتے تھے۔ صفیہ کو سہیلی اور اس کے شوہر پر اعتماد تھا، لیکن فی زمانہ کسی پر اندھا اعتماد کبھی کبھی بے وقوفی ثابت ہوتا ہے۔ سہیلی کو تجس ہوا کہ سوہانے انور کو کیا بھیجا ہے۔ اس نے تھیلی کی سلائی کھولی اور کیسٹ کو نکال کر سُنی تو خوفزدہ ہوگئی۔ جس وقت وہ محویت سے کیسٹ سن رہی تھی ، اچانک اس کا شوہر آگیا۔ اس نے بھی کیسٹ میں بھری ہوئی ساری باتیں سن لیں۔ اس شخص کو بہت غصہ آیا۔ کہنے لگا۔ اس خبیث عورت کی سنگدلی دیکھو۔ اس نے شوہر کو مروانے کے لئے ایسے تعویذ کئے ہیں کہ بندہ ہی اس جہان سے چلا گیا ہے۔ کل کو اگر میں تم کو اچھا نہ لگوں، تو کیا تم بھی اپنی سہیلی کے ساتھ جا کر اس مرادوں والی بی بی سے مجھے مروانے کے تعویذ لکھاؤ گی؟ اس نے بیوی کو بہت لعنت ملامت کی کہ تم ایسی عورت کو کیوں سہیلی بناتی ہو جو شادی شدہ ہو کر سابقہ یاروں سے رابطہ رکھتی ہو۔ کیا خبر اس نے شوہر کو زہر سے لکھے تعویذ پلائے ہوں۔ شوہر کی ایسی باتیں سن کر وہ بے چاری پریشان ہو گئی کہ یہ مرد ذات بھی کتنی جلد بد گمان ہو کر وسوسوں میں پڑ جاتے ہیں۔ بہرحال اس شخص نے کیسٹ اپنے قبضے میں لی اور کہا کہ میں اسے حوالہ پولیس کرتا ہوں۔ اس شخص نے یہ کیسٹ جا کر سوہا کے جیٹھ کو دے دی۔ جیٹھ کیسٹ لے کر صفیہ کے گھر پہنچا اور پوچھا کہ کیا تم نے میری بھابھی کو تعویذ زہر سے لکھ کر دیا تھا کہ میرا بھائی مر جائے ؟ اس نے کہا کہ میں نقش زعفران سے لکھتی ہوں، جیسا کہ میرے مرشد نے ہدایت کی تھی، زہر سے نہیں لکھتی اور تعویذ پلانے کے لئے نہیں بلکہ زمین میں دبانے کے لئے تھا۔ اس کا شوہر کار کے حادثے میں فوت ہوا ہے، میرے تعویذ پینے سے نہیں مرا۔
پولیس کا کام تو مگر کسی نہ کسی بہانے رقم اینٹھنا ہوتا ہے۔ وہ صفیہ کے سر ہو گئے، تب اس نے مجھے فون کیا اور میں نے اپنے میاں کو بتایا۔ قدیر چونکہ ان کے ماتحت رہے تھے لہٰذا انہوں نے اسی وقت اپنے دوست ایس پی کو فون کیا اور معاملہ نہ صرف رفع دفع کرادیا بلکہ وہ کیسٹ بھی ضائع کروادی، کیونکہ ان کو مرحوم قدیر کی بیوہ اور بچوں کا خیال تھا۔ اس طرح صفیہ “مرادوں والی بی بی” بن کر بال بال پولیس تھانے جانے اور خوار ہونے سے بچ گئی۔ اسی برس صفیہ اور قدیر مرحوم کے بڑے بیٹے نے گریجویشن مکمل کی تو میرے میاں نے اُسے محکمہ تعلیم میں باپ کی جگہ لگوادیا۔ صفیہ کو بیٹے کی کمائی کا آسرا مل گیا تو اس نے نقش والے کام سے توبہ کر لی۔ وہ اب بھی جب ملتی ہے تو کہتی ہے۔ سلمیٰ ! سچ کہوں تو بہت مجبور ہو کر میں نے یہ کام کیا، ورنہ میرا ارادہ نقش وغیرہ لکھ دینے کا نہیں ہوتا تھا۔ بس دم درود تک ہی رہتی تو عافیت میں رہتی اور ایسی نوبت نہ آتی کہ آج بھی جب سوچتی ہوں تو خوفزدہ ہو جاتی ہوں۔ کتاب دینے والے بزرگ نے بھی نصیحت کی تھی کہ برائی والے کاموں میں قلم مت چلانا اور اس روز میں نے دس ہزار کی رقم دیکھ کر ایسا جھوٹ موٹ کا تعویذ لکھ کر اس عورت کو دے دیا کہ اگر کیس بن جاتا میں پکڑی جاتی تو یقیناً خوار ہو جاتی۔ صد شکر کہ تم نے میرا ساتھ دیا، ورنہ مجھ بے آسرا کا اور کون تھا ؟ اب تو زندگی بھر کی نصیحت ہو گئی کہ کبھی برائی کا ساتھ نہیں دینا۔