پچھلے دنوں جگاڑ نام سے ایک لطیفہ پڑھا جو کہ ہمارے سر سے گزر گیا۔ پر ایک خوش گوار ماضی جسے بچپن کہتے ہیں آنکھوں کے سامنے لہرا گیا۔ پاکستانی عوام میں جگاڑیے پیدائشی ہوتے ہیں اور تقریباً ہر گھر میں پائے جاتے ہیں۔ ویسے کسی اور کا جگاڑ قابل داد ہو یا نہ ہو پاکستانی ماں کا جگاڑ بے مثال ہوتا ہے۔ لفظ جگاڑ سے بھی عجیب تر۔ بچپن میں امی جان کے جگاڑ ہمارے اوپر کسی بھوت کی طرح سوار رہے۔ ہم امی جان کے زیر عتاب رہنے کے ساتھ ساتھ ہمہ وقت زیر جگاڑ بھی رہتے تھے۔ ہر مسئلے سے نمٹنے کا جگاڑ امی جان اپنی دانش مندی و صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لگا ہی لیتی تھیں۔ چلیے کچھ جگاڑ آپ کی گوش گزار کرتے ہیں محظوظ ہوئے اور امی جان کی صلاحیت جگاڑی صلاحیت کو د اور بیجیے۔
امی ! میرا موزہ نہیں مل رہا۔ سب اسکول جانے کے لیے بالکل تیار کھڑے تھے اور میں روہانسی شکل لیے امی کے حضور اپنا رونا رورہی تھی۔ کہاں گیا؟ شوز میں ہی ہوگا۔ تمہاری آنکھیں بھی بٹن بن جاتی ہیں چیزیں ڈھونڈتے ہوئے ۔ دیکھو اندر جا کر – امی جان نے جھٹ سے پراٹھا توے پر پلٹا نہیں بلکہ پٹخا تھا اور میں جلدی پھر کمرے میں گھس گئی ۔ پر موزہ نہیں ملا۔ نہیں مل رہا “ میں پھر سے امی جان کے سامنے کھڑی تھی- زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا ۔ جوتا تو غائب نہ ہوا۔ ایک موزے کو ہی ڈاکو اڑا کر لے گئے ۔ امی نے زور سے چمٹا نیچے مارا اور اٹھ کھڑی ہوئیں اور مجھے ایسا لگا جیسے میرا سر ہیپٹخا ہو کسی چیز پر- کھینچ تان کر چار آنسو گالوں پر لڑھکا دیے۔ امی جان سے کیا بعید تھا کہ میرا حشر ہی نشر کر دیتیں ۔ اور میرا رونا کارگر ثابت ہو گیا۔ امی اٹھیں تو کافی غصے میں تھیں پر میرے آنسو دیکھ کر شاید ترس آگیا تھا۔ پھر پندرہ منٹ تک ساکس سرچنگ کے نام پر کمرے کو کھنگالا گیا پر موزہ نہ ملا۔ البتہ ابا جان کے خطوط کے لفافے ، بھائی کے تسمے ، چھوٹی کی نوٹ بک ( یہ سب چیزیں کافی دنوں سے غائب تھیں) دستیاب ہوگئے۔ نہ ملا تو ایک موزہ نہ ملا اور دوسرا کوئی نیا جوڑا بھی نہ تھا۔ باقی سب اپنے اپنے پہنے کھڑے تھے۔ ہمیں بھی لیٹ کروا دیا تم نے اب آ بھی جاؤ”
بڑی بہن نے دہائی دی اور میں نے بھری آنکھوں سے امی جان کو دیکھا تھا۔ بنا موزے اسکول جانے کا مطلب اپنی شامت کو خود بلانا تھا۔ میڈم آنکھوں پر موٹے موٹے عدسے چڑھائے ہر ایک کے جوتوں سے لے کر بالوں کی پونی تک کا پوسٹ مارٹم کرتی تھیں اور مجھے سخت شکایت ہے شو میکرز سے آخر یہ لڑکیوں کے جوتوں میں اوپر سے خالی خانہ کیوں چھوڑ دیتے ہیں جہاں سے موزوں کا پتا چل جاتا ہے۔ لڑکے اچھے رہتے ہیں پورا جوتا بند نہ موزے نہ پہنے ہونے کا راز فاش ہونے کی فکر نہ کوئی مسئلہ پر اس بات کا بھی میڈم نے حل نکال لیا۔ وہ ہر لڑکے کی پینٹ کا پائنچہ اٹھا کر چیک کرتی تھیں موزے اور جس کا موزه نہ ہوتا یاں دوسرے رنگ کا ہوتا مانو لال پیلا ہو کر گھر جائے گا (تھپڑوں، گھونسوں، چھڑیوں کی بدولت ) – فی الحال تو میرا مسئلہ تھا۔ موزے بغیر جانا قیامت اور چھٹی کرنا امی کے غصے کو دعوت -میں دونوں کے درمیان کھڑی تھی۔ جیسے رسہ کشی کے کھیل میں بیچارہ رسہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ جائے تو جائے کدھر؟” میں لگاتی ہوں کوئی جگاڑ “ امی جان نے اپنے دماغ کے پرزے کسے اور لگیں دماغ دوڑانے ۔ جگاڑی صلاحیت کو استعمال کیا جا رہا تھا اور میرا بہن بھائیوں کی نظروں سے ہی ملیدہ بنے جا رہا تھا ۔ آخرامی جان کی صلاحیت کام کر گئی۔ کچھ دیر بعد وہ ایک کالا کپڑا لائی تھیں اور ساتھ ایک کالی نمکی۔ میں دم بخود امی جان کو دیکھتی رہ گئی تو کیا اب امی موزہ سلائی کریں گی۔ پاؤں اوپر کر امی جان نے نیچے بیٹھ کر کہا تو میں ڈر گئی۔ “کیا پاؤں کے ساتھ کپڑا سلائی کریں گی ۔ سوچ کر ہی درد کی لہر دوڑ گئی سارے جسم میں، پھر بھی مرے ہوئے انداز میں پاؤں آگے کیا ۔ امی نے دھاگے کی مدد سے کپڑا پاؤں کے اوپر والے حصے میں باندھ دیا۔ “خالی جگہ ہے جو تمہارے شوز میں وہاں آجائے گا ، ٹیچر کو لگے گا موزہ ہے۔ تمہاری کون سی شلوار اٹھا کر دیکھے گی ٹیچر ” امی جان نے شوز پاؤں میں پہنایا اور اٹھ کر ہاتھ جھاڑے ۔ اللہ اللہ کر کے اسکول پہنچے ۔ امی جان کی جگاڑ تو کام کرگئی لیکن ہم اسکول پورا آدھا گھنٹہ لیٹ گئے تھے اور ہماری جو دھلائی ہوئی سو ہوئی ۔ – میری وجہ سے باقی سب کو بھی مار پڑی۔ (ہاہاہا) یہ کوئی دو ہفتے بعد کی بات ہے میرا بیگ شاید زمین نکل گئی تھی یا آسمان کھا گیا تھا۔ سارے گھر والے سمیت میرے حیران کہ آخر میری ہی چیزیں کم ہوتی ہیں۔ ایسے تو پھینک دیتی ہو۔ بیگ ایک جگہ پر سنبھال کر نہیں رکھا جاتا ۔“ امی جان نے دو دھمو کے رکھ کر میری کمر پر جڑ دیئے اور میں بھاں بھاں کرنے لگی ( کاش پہلے ہی آنسو بہانا شروع کر دیتی )۔ پھر بے چارے کمرے کا مکمل طور پر چیک اپ کیا گیا ۔ کتا بیں ، نوٹ بک سب مل گیا پر بیگ کا کچھ اتا پتا نہ تھا (شاید چو ہے کھا گئے ہوں ہا ہا ہا) قسمت کی خوبی دیکھیئے ٹوٹی کہاں کمند دو چار ہاتھ آگے جبکہ لب بام رہ گیا میں جو چھٹی کرنے کا سوچے کھڑی تھی اور-
خیالوں ہی خیالوں میں امرود کے درخت میں چڑھی – ایک شاخ سے دوسری شاخ پر لنگور کی طرح چھلانگیں لگارہی تھی حق دق رہ گئی۔ امی جان نے کتابیں ایک پلاسٹک کی تھیلی میں ڈال کر میرے ہاتھ میں تھا میں اور دھکیلتے ہوئے کہا۔ میں لگالوں کی جگاڑ بستے کا بھی ابھی جاؤ تم” اور میں روتے ہوئے دل کے ساتھ اسکول پہنچ گئی۔ کلاس میں میڈم موٹے موٹے عد سے آنکھوں پر چڑھائے میرے ود آؤٹ بیگ آنے کا راز پا چکی تھیں۔ بیگ کہاں ہے؟ انہوں نے چشمہ آنکھوں پر سے نیچے سرکایا ۔ وہ مل نہیں رہا تھا میڈم جی ۔“ میں منمنائی ۔ گھر ہے یا جنگل جہاں ملا نہیں ۔ میڈم نے زور سے چھڑی میرے بازو پر ماری اور یہ جا وہ جا۔ چھڑی مارنے سے بیگ تو واپس نہیں آ گیا۔ مارنے سے میں نے آنکھوں سے بہتے آنسو صاف کرتے ہوئے سوچا تھا۔ خراب دن تھا ۔ صبح صبح ہی مار پڑ گئی اور آنسو بھی بہائے بمشکل بارہ بجے اور چھٹی ہونے کا گھنٹا بجا ۔ ہانپتے کانپتے گھر پہنچے ۔ سامنے امی جان کو سلائی مشین سے الجھے پایا۔ ایک کپڑے کا تھیلا وہ سلائی کر چکی تھیں ۔ ہماری ایک بکرتی تھی جو صرف اپنے ایک بجے کو دودھ پلاتی تھی اور دوسرا بچہ بے چارا سارا دن بھوکا رہتا۔ شاید اس کے لیے تھیلا بنا رہی تھیں کہ بکری سے باندھ دیں گی اور پھر دونوں بچوں کو اکٹھا دودھ پلایا کریں گی ۔ امی پہلے بھی اکثر ایسا کرتی تھیں۔ امی ! کیا سلائی کر رہی ہیں؟“ مجھ سے ہضم نہ ہوا ( میرے اندر اٹھتا سوال ) تو پوچھ ہی ڈالا ۔ جواب میں امی نے ایسے دیکھا کہ مجھے وہاں سے کھسکتے ہی بنی۔ تھوڑی دیر بعد امی نے خود آواز لگا کر مجھے بلایا اور وہ تھیلا مجھے پکڑا دیا جس کے ایک طرف دو اسٹریپ لگے ہوئے تھے اور اوپر نیفے ڈال کر لاسٹک ڈال دیا گیا تھا اور میری کتابیں اس کے اندر میرا د ل دھاڑیں مار مار کر رونے کو کیا۔ آخر ایسی کون سی غلطی سرزد ہو گئی تھی مجھ سے جو ایسی سزا ( جگاڑ جگاڑ ) مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق میں نے بیگ ( نہیں تھیلا ) تھاما اور اندر چلی گئی۔ یہ اگلی صبح کا ذکر ہے ۔ بڑی بہن ربڑ بینڈ ختم ہو اپنا بینڈ بجا رہی تھی۔ میں جو اپنی چوٹی دوربڑ بینڈوں سے باندھے ہوئے تھی بالکل بھی نہ ہلی اور دوپٹہ اچھے سے سر پر لپیٹ لیا۔ لیٹ کروانے پر انہوں نے مجھے خوب دھویا تھا اس کا بدلہ ۔ سمجھا کریں نا ) نہ تو ہیئر کیچر ملا اور نہ ہیئر بینڈ، ربڑ بینڈ تو – بے چارے دہائیاں دے دے کر ختم ہو چکے تھے۔
امی جان کا پارہ ہائی ہو گیا۔ رکھ کر ایک تھپڑ واویلا مچاتی بہن کے گال پر دیا اور اندر گم ہوگئیں۔ میں پھر بھی نہ ہلی۔ بیگ پشت سے چپکائے الگ ہی سین بنا رہی تھی تھوڑی دیر بعد امی ایک نلکی لیے چلی آئیں۔ تھوڑا سا دھاگا لے کر چوٹی باندھی اور ڈنڈا دکھا کر سب کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ میری بیگ پر جو عزت افزائی کلاس میں ہوئی، مت پوچھیے ۔ پر میڈم کے عدسے شاید بالکل بے کار ہو گئے تھے۔ حیرت کہ انہیں میرا ایسا بیگ قابل تنقید لگتا ہی نہ تھا (یا شاید امی جان سے ڈرتی تھیں میڈم یا پھر رشتہ داری تھی۔ یا وہ بھی جگاڑی صلاحیت سے مالا مال تھیں ۔ آج تک پتا نہ چلا ) پر وہ دھاگے سے چوٹی باندھنے والی جگاڑ کافی کام آئی ہمارے ۔ ربڑ بینڈ نہ ہوتے تو ہماری دور سلائی مشین تک ہوتی ۔