ہم صرف دو بہن بھائی تھے- میں اپنے بھائی سے تقریباً آٹھ سال بڑی ہوں- جب میرا یہ بڑا بھائی جگنو دس سال کا تھا تو ہمارے والدین فوت ہو گئے ۔ ان دنوں میری مگنی میرے چچا کے لڑکے سے ہو چکی تھی۔
ماں باپ کے انتقال کے بعد ہم دونوں بہن بھائی کا کوئی آسرا نہ رہا تو چچا چچی ہمیں اپنے گھر لے آئے اور کچھ عرصہ بعد میری شادی انہوں نے اپنے لڑکے سلیم سے کر دی- یوں مجے تو ایک جائز ٹھکانا میسر ا گیا تھا- جگنو البتہ اس وجہ سے ہمارے ساتھ رہنے لگا کہ میرے سسر کودکان میں اوپر کے کام کے لیے ایک لڑ کے کی بڑی اشد ضرورت تھی۔ جگنو
ان دنوں چوتھی جماعت میں پڑھ رہا تھا۔ انہوں نے یہ کہہ کر اس کی تعلیم بھی چھڑوا دی کہ پڑھ لکھ کر کیا کرنا ہے۔ آجکل بی اے پاس نوکریوں کے لیے دھکے کھاتے پھرتے ہیں ۔ اپنی دکان میں محنت سے کام کرے گا تو دکان میں ہی حصہ دار بنا دیں گے۔
جگنو کے لیے اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ چچا کی بات مان لے ورنہ اس کا کہاں ٹھکانا تھا۔ میں نے بھی سوچا کہ میرا ایک ہی تو بھائی ہے ،اچھا ہے میرے پاس رہے گا۔ جگنو نے بہت کہا کہ وہ تعلیم نہیں چھوڑے گا۔ ہم نے سمجھا بجھا کر اس کو دکان پر بٹھادیا۔
ہماری یہ دکان گھر کے اگلے حصے میں کھلی ہوئی تھی۔ پر چون کی اس چھوٹی سی دکان سے بس اتنا بن جاتا تھا کہ دال روٹی کا خرچہ پورا ہو رہا تھا۔ سسر سارا دن دکان پر بیٹھے بیٹھے تھک جاتے تھے۔ میرے شوہر کھلنڈرے مزاج کے آدمی تھے۔ایک جگہ ٹک کر بیٹھ رہنا ان کی سرشت میں نہیں تھا۔ شام کو ذرا دیر کے لیے سسر صاحب گھر سستانے آجاتے تو ان کے لیے دو چار گھنٹے گاہکوں کو نمٹانا دو بھر ہو جاتا۔ پھر سلیم جب گھر لوٹتے تو کنپٹیاں پکڑے چیختے چلاتے کہ کن مصیبتوں سے واسطہ پڑا ہے ، سر درد سے پھٹا جار ہا ہے ۔ ان کی ان حرکتوں سے سسر صاحب بے حد خائف رہتے تھے۔ انہیں اس بات کی بڑی فکر تھی کہ ان کے بعد ان کی دکان کا کیا بنے گا۔ بیٹا تو وہ ہے کہ پوت کے پیر پالنے میں سے نظر آرہے تھے۔
وقت کا پہیہ گردش کرتا رہا۔ سسر صاحب کا انتقال ہو گیا۔ دکان پر مستقل طور پر جگنو بیٹھنے لگا۔ سارادن بیچاراگاہکوں سے سر کھپاتا، شام کو ہمارے میاں صاحب حساب کتاب کے لیے پہنچ جاتے ۔ تازہ مال منافع سنبھال لیتے۔اکثر خود تو بے حساب خرچ کر ڈالتے اور دکان جب گھاٹے میں جانے لگتی تو سختی آجاتی بیچارے جگنو کی ۔ حالانکہ میر ابھائی غریب تو صرف دو روٹی اور کپڑے پر ان کی دکان کا ملازم تھا۔ صبح آٹھ بجے سے رات آٹھ بجے تک وہ بارہ گھنٹے لگاتار ڈیوٹی بھی دیتا تھا، کماتا نہیں کھلاتا بھی تھا اور گالیاں بھی سنتا تھا۔ یہ اس کو تایا کے پوت ہونے کی اچھی سزامل رہی تھی۔
کبھی کبھی تو وہ میرے پاس بیٹھتا اور بے اختیار رودیتا کہ آپا- تمہارا رشتہ نہ جڑا ہوتا تو میں تو کب کا یہاں سے بھاگ چکا ہوتا۔ مگر اب کیا کروں تیری وجہ سے مجبور ہوں۔ میں اس کو دلاسہ دیتی کہ بھیا- اللہ تجھے اس محنت کا اجر دے گا۔ میرا نہیں تو ان معصوم بھانجے بھانجیوں کا خیال کر ،ا گر تو دکان پر نہیں بیٹھے گا تو ان کو دودھ کہاں سے ملے گا ؟ گھر کی دال روٹی کا خرچہ کیسے چلے گا؟ سلیم کا کیا ہے وہ سارادن اڈے پر بیٹا اپنے اوباش دوستوں کے ساتھ تاش کھیلتارہتا ہے ۔ دکان کا آدھا منافع تو وہ جوئے میں اڑاد یتا ہے ۔ چی تو خود بھی کہتی ہے کہ یہ ناحق تجھ سے لڑتار ہتا ہے ، جب پیسہ جوئے میں ہار آتا ہے تو آکر غصہ تم پر نکالتا ہے۔ ہم سب ہی یہ بات سمجھتے ہیں۔ بھیا- اب نکھٹو سے پالا جو پڑ گیا ہے تو اس طوق کو گلے سے اتار تو نہیں سکتے نا؟
میری ان باتوں سے جگنو نرم پڑ جاتا اور پھر کولہو کے بیل کی طرح غم روز گار کی چکی میں جت جاتا، پر ظلم کی بھی آخر ایک حد ہوتی ہے۔ آخر کب تک کوئی کسی کے لیے اپنے آپ کو مار سکتا ہے ۔ جب اچھائی اور دیانت داری کے صلے میں گلے میں جو توں کے ہار پڑنے لگیں تو کوئی کب تک نیکی کرے اور دریا میں بہاتا رہے؟
ایک روز سلیم ، جگنو سے پھر الجھ پڑا اور کہنے لگا کہ ہماری دکان تم نے بٹھادی، نجانے منافع کد ھر جار ہا ہے ۔ سارادن دکان پر بیٹھتے ہو ، ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ۔اگر نہیں چلتی دکان تو کیا مکھیاں مارتے ہو ؟ جس قدر ہیرا پھیری کی ہے سب نکالو ، ورنہ تھانے لے جا کر بند کرادوں گا۔ یہی نہیں میرے شوہر نے میرے چھوٹے بھائی پر گالیوں کے ساتھ ساتھ ہاتھ بھی اٹھالیا۔ اس روز حد ہی کر دی انہوں نے ۔ جگنو روتا ہوا میرے پاس آیا۔ بولا… آپا- دیکھا تم نے بھائی صاحب کو آٹھ سال کی میری شب وروز کی محنت کا یہ ثمر دیا ہے ۔ اگر آٹھ سال میں کوئی اور کام کرتا تو آج میرا اپنا بزنس ہوتا۔ میری اپنی دکان ہوتی اور میں اس کا مالک ہوتا۔ میں نے یہ دکان بہنوئی کی امانت سمجھ کر سنبھالے رکھی۔ کبھی ایک دھیلا بھی اپنی ضرورت سے اوپر نہیں لیا۔ ملازم رکھتے تو بھی اس کو تنخواہ دیتے، حصہ دار بٹھاتے تو آدھا حصہ دیناپڑتا اور مجھے کیا ملا؟ سوائے اس کے کہ میں بے ایمان ، چور، لٹیرا ٹہرا۔ اللہ کے واسطے آپا- اپنی دکان سنبھالئے، اب مجھے چھوڑ دیجئے۔
یہ تور وز کا رونا تھا مگر اس روز میں اپنے بھائی کو یوں ہچکیوں سے روتا نہ دیکھ سکی۔ میں نے سوچا جگنو د کان سنبھالتا ہے تومیرے میاں نے ساری ذمہ داری اس پر ڈال رکھی ہے ، خود گھر کا بار اٹھانے سے آزاد پھر رہے ہیں- تبھی تو بد معاشوں کی صحبت میں جا بیٹھتے ہیں ،اگر اپنی دکان سنبھالنی پڑے، فکر معاش سے فرصت ہی نہ ملے پھر کیسے جائیں گے ان بھو کے نگے اور او باش دوستوں کے پاس وقت گزاری کرنے، یہ سوچاتوذ ہن میں خیال آیا کہ بھائی اگر جانا چاہتا ہے تو جانے دوں ، میں اس کو اب نہ روکوں تو بہتر ہو گا۔ تب میں نے جگنو سے کہا… آچھا توا گر جاناچاہتا ہے تو جہاں تیرا جی چاہے جاء پر بتا کہ تو کہاں جاۓ گا اور کرے گا کیا؟ اتنا سرمایہ ہے تیرے پاس؟اگر دکان سے لے گا تو ساری نیکی برباد اور گناہ لازم والا حساب ہو جائے گا۔ یہ تو یہی کہیں گے کہ جاتے ہوئے ہماری دکان کی ساری جمع پونجی لوٹ کر لے گیا۔ جگنو کہنے لگا ! آپ تم اس کی فکر نہ کرو، اللہ رازق ہے ، مجھے تو بس تمہارے اذن اور اجازت کی ضرورت ہے ۔ میں نے جواب دیا۔ جا بھیا- رب راضی ہو ۔ جگنواسی دن شام کو سلیم کے آنے سے پہلے ہی دکان بند کر کے چلا گیا۔
سلیم کو جب جگنو کے جانے کی خبر ملی تو وہ سخت بر ہم ہوا، مجھ پر برس پڑا۔ طلاق کی دھمکیاں دینے لگا۔ میں کیا کرتی رو کر چپ ہو گئی۔ میں جانتی تھی کہ یہ تو ہو گا ہی، سلیم کیوں نہیں بگڑے گا، مفت کا نو کر جو چلا گیا، وہ بھی ایسا فرمانبر دار اور بے زبان کہ ہر ستم چپ کر کے سہتا تھا اور منہ سے اف تک نہ کہتا تھا۔ حق دار تھا مگر اپنا حق طلب نہیں کرتا تھا۔ اتنا آرام اس کے ہونے سے سلیم کو تھا کہ مدتوں اس نے جگنو کودکان پر بٹھا کر خود چین کی بانسری بجائی تھی۔ اب وہ پہلے سے آرام بھرے دن رات کہاں؟
مجبور میرے شوہر کو دکان سنبھالنی پڑی۔ بال بچوں کا پیٹ بھی تو بھرنا تھا۔ ایک نوکر بھی رکھا مگر ایک ماہ کے اندر اندر ہی اندازہ ہو گیا کہ دکانداری بھی ہر کسی کے بس کی بات نہیں ، دھیلے دھیلے اور دمڑی دمڑی سے گہرا ناتا جوڑنا پڑتا ہے ، خوش اخلاقی اور جی حضوری علیحدہ گاہک کو پیار کے چند میٹھے بولوں اور ہنستی چتون سے باندھ کر رکھنا بھی ایک فن ہے ۔ ادھر سلیم کا مزاج ایسا کہ بات بات پر غصہ آ جاتا۔ چڑچڑی طبیعت شخصیت کا خاصا بن جاۓ تو خوش اخلاقی کا خول چڑھانے سے کتنا دم گھٹتا ہے ، یہ تو صرف وہی جان سکتا ہے جس کو کاروباری تقاضوں کی خاطر ایسا کرنا پڑتا ہو۔ دو ماہ بھی سلیم اس سخت جانی کی تاب نہیں لا سکا اور اس نے جگنو کی تلاش شروع کر دی کہ کسی طرح اس کو منا کر واپس لے آۓ۔ سلیم اب کہتا تھا کہ مجھے جگنو کی ایمانداری اور محنت کشی کا اندازہ ہو چکا ہے اب وہ ایک بار مل جائے تو گلے لگالوں گا۔
ادھر جگنو چند روز تو شہر میں غم روزگار کے لیے بھٹکتا پھرا۔ پھر ایک دوست نے اس کو ایک تانگہ گھوڑا دلوا دیا۔ تھوڑی سے مشق کے بعد جگنو کوچوان بن گیا۔ اس بات کی خبر سلیم کو ہوئی تو وہ بہت جز بز ہوا، مجھ پر خوب چلاتا کہ تمہارا بھائی کو چوانی کر رہا ہے ۔ ہم اعلی خاندان نہ سہی شہر میں تھوڑی بہت عزت تو تھی جو اس نے تانگہ گھوڑا ہانک کر خاک میں ملادی۔ جب لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تمہارا سالا کوچوان ہے تو میں شرم سے زمین میں گڑھ جاتا ہوں۔ مینوسچ کہتا ہوں کہ اپنے بھائی کو بلا کر سمجھا دو، اگر اس نے یہ کوچوانی نہ چھوڑی تو میں کسی دن غصے میں آ کر اس کو شوٹ ہی کر ڈالوں گا یا پھر خود گلے میں پھندا لگا لوں گا۔
میں نے سلیم کو کہا۔ سچ تو یہ ہے سلیم کہ اس کو اس حال میں پہنچانے کے تم ذمہ دار ہو۔ ایک شخص سے برسوں کام لیا اور پھر اس کی محنت کا کبھی کوئی صلہ بھی نہ دیا۔ یہ کہاں کا انصاف ہے وہ بیچارا ان پڑھ ہے، کسی نہ کسی حیلے سے رزی تو کما کر کھاۓ گا۔ کوچوانی نہیں کرے گا تومزدوری کرے گا، گار اور اینٹیں ڈھوۓ گا یا پھر قلی بن جاۓ گا، اس کے سوا وہ اور کیا کر سکتا ہے ۔
بات درست تھی۔ سلیم دل میں تو مانتا تھا، منہ سے اقرار نہیں کرتا تھا۔ تاہم اس نے کئی لوگوں سے کہلوایا۔ یہ کوشش ضرور کی کہ کسی طرح جگنو واپس آ جاۓ اس کو یہ پیشکش بھی کی کہ اگر اب وہ دوبارہ آ کردکان سنھبال لے تو وہ اس کو آدھی دکان کا حصہ دار بنادے گا مگر جگنو کے دل میں تو شاید برسوں کی نفرت اور جبر بھرا ہوا تھا۔ اس نے صاف انکار کر دیا اور کہلوا دیا کہ اس غلامی سے یہ آزادی لاکھ درجہ بہتر ہے ۔ میں کوچوان ہی ٹھیک ہوں اب مجھے نہ بلائے ۔
ابھی سلیم جگنو کو گھر لانے کا منصوبہ بنا ہی رہا تھا کہ ایک دن ایک عجیب حادثہ پیش آ گیا۔ ہوا یہ کہ جمعرات کا دن اور دو پہر کا وقت تھا، میری سب سے بڑی بیٹی صائمہ جس کی عمر چھ سال تھی، اسکول سے جلد آگئی۔ وہ مجھ سے کھاناما نگ رہی تھی کہ امی جلدی کرو، مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے۔ میں نے کہا بیٹا بستہ تو گلے سے نکالو ، ہاتھ منہ دھولوں میں
اتنے میں کھانا نکالتی ہوں۔ ابھی میں یہ بات کر ہی رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی ، بچی دوڑتی ہوئی گئی کہ دیکھوں کون ہے ؟ الٹے قدموں آئی اور کہنے لگی امی ایک آدمی ہے ، وہ کہتا ہے باہر کا سامان ہے ، کوئٹہ اور پشاور سے لا یا ہے۔ استری، شیشے کے برتن اور بہت سی چیزیں ہیں ، لینی ہیں تو دکھاؤں؟ مجھے اشتیاق ہوا، قیمہ بنانے کی الیکٹرک مشین لینے کا بہت دنوں سے ارمان ہور ہا تھا اور کہیں سے مل نہیں پارہی تھی۔ میری پڑوسن نے بھی ایسے ہی پھیری والے سے لی تھی ۔ میں نے صائمہ سے کہا، جا پوچھ قیمہ بنانے کی مشین ہے ، میری بیٹی دروازے پر گئی اور پوچھا تو وہ بولا ،ہاں ہے ۔ وہ سامنے والے گھر کے دروازے پر جو میر ابھائی بیٹھا سامان دکھا رہا ہے اس کے پاس ہے ، چلو میں اس سے لا کر د کھادوں۔اس آدمی نے بچی کو ساتھ لے لیا۔ میرے کان منتظر تھے کہ ابھی صائمہ کے اندر آنے کی آہٹ
آۓ گی ، کئی منٹ یونہی گزر گئے مگر صائمہ نہ آئی تو میرا جی گھبرانے لگا۔ میں اٹھ کر دروازے پر گئی ، دور سے جھانکا تونہ صائمہ تھی اور نہ ہی پھیری والا تھا۔ گلی سنسان پڑی تھی۔ اب تو کلیجہ منہ کو آنے لگا۔
یاالله خیر- میں دل ہی دل میں دعا مانگتی اندر دوڑی۔ ساس اپنے کمرے میں سورہی تھیں ، انہیں اٹھایا، وہ بیچاری ہڑ بڑا کر اٹھیں- برقع اوڑھ کر گلی میں نکل گئیں۔ ذرا دیر بعد ہانپتی کانپتی ہوئی واپس آ گئیں کہ بہو، بیٹی تو کہیں بھی نہیں ہے۔ اب میں سینہ پیٹنے اور رونے لگی۔ پھیری والے کی آواز میں نے خود سنی تھی جو کہہ رہا تھا وہ دیکھو سامنے والے دروازے پرمیرا بھائی بیٹا سامان د کھارہا ہے ۔ قیمہ بنانے والی مشین اس کے پاس ہے ، چلو میں تمہیں لے دوں۔اب مجھے یقین ہو گیا کہ یہ پھیری والا چیزیں بیچنے والا نہ تھا یہ میری صائمہ کو اغوا کر کے لے گیا ہے ۔
شکر ہے سلیم اس وقت دکان پر تھے۔ اس کے پاس اماں دوڑی گئیں ، وہ اندر آۓ مجھ پرآنکھیں نکالیں کہ کیوں ہر پھیری والے کی آواز سے ہی سودا طے کرنے بیٹھ جاتی ہو ، دماغ خراب ہے تمہارا۔ پھر وہ صائمہ کی تلاش میں چلے گئے ۔ شہر کی ہر مسجد میں اعلان کرایا، تھانے میں رپورٹ لکھوائی ، گلیوں بازاروں میں تلاش کرایا، رشتہ داروں کے گھروں میں پاس پڑوس میں ہر جگہ بچی کا پوچھا،ا گر صائمہ ہوتی تو کہیں ملتی ۔ میرا رو رو کر برا حال تھا۔ کبھی صائمہ کے ابواندر آتے ،گھر میں دومنٹ ہڑ بڑا کر پوچھتے، کوئی صائمہ کی خبر لا یا پھر بوکھلا کر باہر چلے جاتے ۔ سچ کہتی ہوں وہ گھڑیاں ہمارے لیے موت سے بھی کڑی تھیں۔
رات سر پر آگئی۔ مجھے غش آنے لگے۔ یہ سوچ کر کہ نجانے صائمہ اس وقت تک کس حال میں ہو گی۔ میں نے مصلی اٹھا لیا اور سجدے میں جا کر صائمہ کی واپسی کے لیے رورو کر دعا مانگنے لگی۔ سلیم بھی سر جھکائے چارپائی پر مایوس بیٹھے تھے ۔ رات کے بارہ بجے کا وقت ہو گا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ سلیم نے دوڑ کر دروازہ کھولا۔ جگنو بازوؤں میں صائمہ کو اٹھائے کھڑا تھا۔
سلیم صائمہ کو لے کر اندر آۓ ، ان کے پیچھے جگنو تھا۔ کہنے لگا اللہ نے معجزہ دکھا دیا۔ آج آخری گاڑی چمن کوئٹہ جانی تھی۔ نو بجے کا وقت تھا مگر دو گھنٹے لیٹ ہو گئی۔ دو پٹھان ایک بچی کو لیے اسٹیشن پر بیٹھے تھے ، میں گاڑی کے انتظار میں اسٹیشن پر تانگہ لیے کھڑا تھا۔ ریل کے لیٹ ہو جانے سے نیند ستانے لگی تو چاۓ پینے کے لیے کینٹین پر آیا۔ وہ دونوں پٹھان فرش پر بیٹھے تھے۔ بچی ان کے در میان لیٹی تھی اور اس کو انہوں نے اچھی طرح چادر میں لپیٹ رکھا تھا۔ اچانک یہ رونے لگی، اس کے رونے کی آواز پر میں متوجہ ہوا، پٹھان مجھے اپنے قریب کھٹر دیکھ کر گھبرا گئے۔ میں نے ایسے ہی پوچھ لیا کہ لالہ بچی کیوں رورہی ہے ۔ میری آواز سنتے ہی صائمہ نے چادر کی بکل سے منہ نکال کر مجھے دیکھا اور دوڑ کر مجھ سے لپٹ گئی۔ ماموں مجھے گھر لے چلو۔ یہ مجھے پکڑ کر لے جار ہے ہیں۔ میں نے صائمہ کو اٹھا کر کلیجے سے لگالیا اور وہ دونوں بھاگ گئے مگر انہیں تو لوگوں نے پکڑ لیا۔ پہلے ہم تھانے گئے،صائمہ کو انہوں نے کچھ نشہ آور شے کھلادی تھی۔ یہ ابھی تک غنودگی کے عالم میں ہے اور اب میں اسے لے آیا ہوں۔ دیکھا آپاتم نے ، آج میری کو چوانی کتنی کام آئی۔ ورنہ یہ تیری بچی تو گئی تھی ہمیشہ کے لیے… سلیم نے جگنو کو گلے سے لگالیا۔ بولے۔ جنگو ! تیرے سب احسانوں میں یہ احسان تو سب سے بڑا ہے، اتنا بڑا کہ میں اپنی جان کی قیمت دے کر بھی اس کا بدلہ نہیں چکا سکتا۔