نعیم کی میرے بھائی سے دوستی تھی۔ دونوں نے ساتھ کالج میں داخلہ لیا تھا چونکہ اس کے رشتہ دار عرصے سے ہمارے پڑوس میں رہ رہے تھے، لہٰذا دُکھ سکھ میں ہمارا بھی ان کے ہاں آنا جانا رہتا تھا۔ ایک رات نعیم ایک پرائیوٹ اسپتال میں گھر والوں کے ساتھ تھا اور بڑی بے چینی سے کسی خوشخبری کا منتظر تھا کہ نرس نے روم سے نکل کر بتایا۔ مبارک ہو لڑکا ہوا ہے۔ نعیم نے نرس کو اس خوش خبری سنانے کے عوض کچھ رقم دی اور میرے بھائی کے ساتھ اسپتال سے باہر نکلا۔ ہوسٹل وہاں سے تقریباً ایک کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔ ادھر کوئی ٹیکسی ملی اور نہ رکشہ ، رات کے تقریباً نو بجے تھے۔ انہوں نے پیدل ہی جانے کا فیصلہ کر لیا۔ اس وقت سڑک سنسان تھی اور یہ سو قدم چلے تھے کہ گولیاں چلنے کی آواز سنی۔ ایک موٹر سائیکل دندناتی ہوئی آگے نکل گئی۔ اگر نعیم اچھل کر ایک طرف نہ ہو گیا ہو تا یقیناً موٹر سائیکل والا اسے کچلتا ہوا نکل جاتا۔ دونوں دوست اس صور تحال سے بوکھلا گئے۔ ابھی کچھ سمجھ نہ پائے تھے کہ سامنے سے ایک موٹر کار آتی دکھائی دی۔ بہت جلد انہوں نے محسوس کر لیا کہ کار نارمل انداز سے نہیں چلائی جارہی، بلکہ بے قابو ہو کر ادھر اُدھر ڈول رہی ہے۔ آناً فاناً وہ فٹ پاتھ کے کنارے درخت سے جا ٹکرائی۔ کار الٹے ہی اس میں آگ لگ گئی، تبھی یہ دونوں دوست دوڑ کر گئے ، کار چلانے والے کو کھڑکی کے شیشے توڑ کر نکالا۔ زخمی تو وہ ہو چکا تھا، نعیم نہیں چاہتا تھا کہ وہ آگ کی لپیٹ میں آ جائے۔ کار میں موجود شخص بے ہوش ہو چکا تھا، اس وقت اندازہ کرنا مشکل تھا کہ گولیاں اُس کی کار کے ٹائروں پر ماری گئی تھیں، پیٹرول کی ٹنکی پر یا وہ شخص ہی ان کا ٹارگٹ تھا کیونکہ وہ زخمی تھا اور اُس کا خون بہہ رہا تھا۔ کار کا دھما کہ سن کر کچھ اور لوگ چند لمحوں بعد ادھر اُدھر سے بھاگتے ہوئے جائے حادثہ پر پہنچ گئے۔ تب تک نعیم میرے بھائی صلاح الدین کی مدد سے زخمی کو گاڑی سے نکال چکا تھا اور اب وہ فٹ پاتھ پر پڑا تھا تبھی ایک وین قریب آکررکی۔ انہوں نے زخمی کو وین میں لٹا دیا اور قریبی اسپتال لے گئے۔ یہ بڑا سرکاری اسپتال تھا۔ جبکہ نعیم کی بیوی اور نومولود بچہ ، اس جگہ سے تقریباً چھ سات کلو میٹر دور ایک پرائیویٹ اسپتال میں تھے۔ صلاح الدین اور نعیم نے زخمی کو شعبہ حادثات میں موجود ڈاکٹروں کے حوالے کر دیا۔ ڈاکٹر نے پوچھا کہ اس مریض کا رشتے دار کون ہے ؟ انہوں نے بتایا کہ ہم میں سے کوئی نہیں ہے۔ ہم تو سڑک سے گزر رہے تھے۔ انسانی ہمدردی کے تحت ہم ان کو یہاں لے آئے ہیں۔ میرے بھائی کو گھر پہنچنے کی جلدی تھی، لہٰذا اس نے اجازت چاہی اور اور زخمی زخم کا معاملہ نعیم کے سپرد کر کے وہ گھر چلا آیا مگر نعیم و پیں موجود رہا۔ ذرا دیر بعد ڈاکٹر نے اسے ایک کارڈ دیا جوزخمی کی جیب سے نکلا نکا تھا اور کہا۔ آ۔ آپ ان کے گھر والوں کو فون کر کے اطلاع کردیں۔ یہ شناختی کارڈ ان کی جیب سے نکلا ہے اس پر ان کے گھر والوں کا نمبر بھی درج ہے ۔ مریض بے ہوش تھا۔ نعیم نے کارڈ پر درج نمبر پر فون کیا مگر کال ریسیو نہ ہو سکی۔ اُس نے کارڈ جیب میں رکھ لیا اور ڈاکٹر کو بتا دیا کہ اس کی اپنی بیوی بھی اسپتال میں ہے۔ وہ تو ان کے لئے کھانا لینے نکلا تھا، لہٰذا اس نے ڈاکٹر سے اجازت لی کیونکہ اس کو اپنے گھر والوں کی فکر لگی تھی۔
صبح وہ دوبارہ اُس زخمی کی مزاج پرسی کے لئے سرکاری اسپتال گیا۔ ڈاکٹر نے بتا یا مریض آئی سی یو میں ہے۔ ابھی کسی کو اس سے ملنے کی اجازت نہیں ہے۔ نعیم نے دوبارہ اس کے گھر فون کیا۔ اس بار ایک خاتون نے فون اُٹھا لیا۔ ان کو ان کے زخمی مریض کی حالت زار اور حادثے کے بارے میں آگاہی دی۔ جواب میں ہائے اللہ کے الفاظ سنائی دیئے اور فون بند کر دیا گیا۔ نعیم کو اپنے اہل خانہ کی فکر تھی تاہم وہ صبح و شام اجنبی زخمی کی طرف بھی چکرلگاتا رہا۔ تیسرے دن اس کی بیوی کو اسپتال سے رخصت مل گئی۔ اس نے ان کو چچا کے گھر پہنچایا اور اس زخمی کی مزاج پرسی کے لئے چلا گیا تا کہ معلوم کرے کہ اُسے ہوش آیا کہ نہیں۔ جب وہ اسپتال پہنچا تو معلوم ہوا کہ اس اجنبی مریض کو ہوش آچکا ہے۔ اُس کا نام سلیمان تھا۔ اس نے نعیم کے سلام کا مسکرا کر جواب دیا اور پوچھا۔ بیٹا تم کون ہو ؟ میں نے پہچانا نہیں۔ انکل میں نے ہی آپ کو جلتی کار سے نکال کر اسپتال پہنچایا تھا۔ میں نے اس موٹر سائیکل سوار کو بھی دیکھا تھا جس نے آپ کی کار پر گولیاں چلائی تھیں۔ بیٹا ! نجانے وہ کون تھا، میری تو کسی سے دشمنی نہیں ہے۔ بہرحال مارنے والے سے بچانے والا بڑا ہے۔ اس بزرگ نے شکریہ ادا کیا۔ اُن کے گھر کی خواتین بھی وہاں موجود تھیں۔ انہیں بھی کہا کہ تم لوگ بھی ان کا شکریہ ادا کرو۔ اس نوجوان کی وجہ سے میری زندگی بچ گئی ہے۔ ان خواتین میں ، ایک ادھیڑ عمرعورت تھی جو انکل کی بیگم بھی ، دوسری سترہ برس کی دوشیزہ تھی۔ ایک گولی ان بزرگ کے کندھے پر لگی تھی جو ڈاکٹروں نے سرجری کر کے نکال دی تھی۔ وہ پیٹیوں میں لیٹے ہوئے تھے ، تب بھی ہشاش بشاش لگ رہے تھے، گرچہ نقاہت کے آثار چہرے سے ظاہر تھے۔ نعیم نے سمجھ لیا کہ یہ شخص بڑی ہمت والا ہے، تبھی دل میں اُس کی قدر زیادہ ہو گئی۔ نعیم نے تھوڑی دیر بزرگ کے پاس رکنے کے بعد رخصت طلب کی تو ان کی بیوی نے کہا۔ باہر ہماری گاڑی موجود ہے اور ڈرائیور بھی۔ تم نے جہاں جانا ہو وہ تم کو پہنچا دے گا۔ آپ تکلیف نہ کریں۔ اس پر انکل سلیمان کی بیٹی عصمت کہنے لگی۔ ہمارا بھی تو انسانی فرض بنتا ہے جبکہ آپ رکشے پر آئے ہیں۔ ہم آپ کو چھوڑ دیں گے ، ہمارا ڈرائیور ساتھ ہے۔ میں بابا جان کے لئے سوپ بنانے جارہی ہوں۔ ہم آپ کو ڈراپ کر دیں گے۔ راستے میں عصمت نے پوچھا۔ نعیم صاحب آپ کہاں رہتے ہیں ؟ میں کالج میں پڑھتا ہوں اور کالج ہاسٹل میں رہتا ہوں۔ میرا گھر ایک پہاڑی گاؤں میں ہے ، البتہ چچا جان یہاں شہر میں رہتے ہیں۔ جب میرے گھر والے شہر آتے ہیں تو وہ چچا کے گھر قیام کرتے ہیں۔ تب میں ہوسٹل چھوڑ کر چچا جان کے گھر میں عارضی طور پر قیام پذیر ہو جاتا ہوں۔ اچھا تو آپ پہاڑ کے رہنے والے ہیں، تبھی آپ کا دل اتنا نرم اور رنگ اس قدر سُرخ و سفید ہے ، اس نے مذاق میں یہ بات کہہ کر نعیم کی طرف دیکھا۔ وہ ایک لڑکی کے منہ سے اپنی تعریف سن کر جھینپ گیا۔ نعیم کا اس طرح جھینپ جانا اس کو لبھا گیا اور وہ ہنسنے لگی ، بولی۔ آپ کتنے رحم دل اور اچھے ہیں۔ واقعی گائوں کے لوگ مخلص اور سادہ دل ہوتے ہیں۔ نعیم کے کالج کا ہوسٹل نزدیک آ گیا تھا۔ وہ کار سے اتر گیا۔ لڑکی پوچھنے لگی۔ نعیم صاحب آپ بابا جان کو پوچھنے پھر کب آئیں گے ؟ وہ آپ کا انتظار کریں گے۔ جب تک انکل اسپتال میں ہیں، میں ان کی عیادت کو آتا رہوں گا۔ نعیم نے جواب دیا۔ عصمت ، اُس کو اُتار کر چلی گئی اور وہ اس کے بارے میں سوچنے لگا کہ اس لڑکی کے خیالات ہم گائوں والوں کے بارے میں کتنے اچھے ہیں۔
عصمت بڑی پر کشش لڑکی تھی۔ وہ نعیم کو اچھی لگی۔ اس سے قبل اس نے کبھی کسی لڑکی کے متعلق اس طرح نہیں سوچا تھا۔ یہ ایسی لڑکی ثابت ہوئی جس نے خود بخود اس کے خیالوں میں جگہ بنا لی تھی، اپنے اپنائیت بھرے لہجے اور پر لطف انداز گفتگو کے باعث … اس نے کئی بار اپنے خیال کو جھٹکا لیکن رہ رہ کر جب عصمت کا خیال آنے لگا تو وہ خود کو بے بس محسوس کرنے لگا۔ نعیم پہلے تو انسانیت کے جذبے سے سرشار ہو کر اسپتال جاتا تھا لیکن اب ضمیر نے پائوں میں زنجیر ڈال دی۔ سوچا کہ عصمت کو خیالوں میں بسا کر اس کے باپ کی عیادت کو جانا اخلاقا گری ہوئی بات ہے۔ بہتر ہے کہ اب اُدھر کا رخ نہ ہی کیا جائے۔ اُس نے خود کو لاکھ روکا مگر نہیں رک سکا۔ انکل سلیمان کا چہرہ اس کی نگاہوں میں پھرنے لگا، جن سے وعدہ کر آیا تھا کہ جب تک آپ اسپتال میں ہیں ، میں آتا رہوں گا۔ وہ اب ایک دن چھوڑ کر اگلے دن عیادت کو جاتا تھا۔ کبھی کبھی اُن کے لئے فروٹ بھی لے جاتا وہ خوش ہوتے اور کہتے۔ اگر میرا کوئی بیٹا ہوتا تو بالکل تمہارے جیسا ہی ہوتا۔ مجھ کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے عصمت میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ویسے ہی تم بھی ہو۔ بیٹا تم گانوں سے شہر پڑھنے آ گئے ہو ، خوب دل لگا کر پڑھو تا کہ تمہارا مستقبل روشن ہو۔ تم جیسے طالب علموں پر ہی تو وطن کو فخر ہے۔ ان کی باتیں جذبوں سے مہکتی ہوئی ہوتی تھیں۔ انکل واقعی پیاری باتیں کرتے تھے۔ اتنی پیاری باتیں اس نے پہلے کبھی نہیں سنی تھیں۔ ان کی باتیں سن کر وہ جھوم جاتا تھا، اسے سرور سا آ جاتا۔ وہ بہت پڑھے لکھے اور شائستہ انسان لگتے تھے۔ اکثر نعیم جب اُن کے پاس سے جانے کو رخصت لینے لگتا، عصمت بھی اٹھ کھڑی ہوتی۔ کہتی ، ہمارا ڈرائیور آپ کو ڈراپ کر دے گا۔ وہ مجھے گھر پہنچانے جا رہا ہے۔ وہ دن بھی آ گیا جب سلیمان صاحب مکمل طور پر صحت یاب ہو گئے۔ جس دن نعیم گیا، وہ اسپتال سے رخصت ہو کر گھر جارہے تھے۔ انہوں نے اصرار کر کے نعیم کو گاڑی میں بٹھا لیا اور کہا کہ ہمارے گھر چلو۔ تمہیں ہم سے ملنے ہمارے گھر بھی تو آتے رہنا ہے یا اسپتال تک جان پہچان تھی، ایسا تو نہیں ہونا چاہئے۔ یہ امیر لوگ تھے ، بہت پوش علاقے میں ان کا بنگلہ تھا، تقریباً چار کنال کا گھر جس میں بڑا سا لان تھا۔ نعیم ان کے گھر کی سجاوٹ اور رکھ رکھا تو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ انہوں نے اس کی بڑی خاطر کی اور کھانا بھی پُر تکلف کھلایا۔ وہ جان چکا تھا کہ انکل اُس کو داماد دیکھنا چاہتے ہیں۔ تبھی سوچا کہ اب ان سے واسطہ رابطہ ختم ہی کر دینا چاہئے ۔ بھلا میں کہاں اور یہ کہاں، گرچہ یہ بات نہ تھی۔ بات تو وہی تھی جس سے وہ خائف تھا۔ عصمت اُس میں غیر معمولی دلچسپی لے رہی تھی جبکہ وہ بات کو آگے بڑھانا نہیں چاہتا تھا۔ اُن سے رابطے کی وجہ سے اس کی تعلیم پر اثر پڑ رہا تھا اور پھر وہ پہلے ہی شادی شدہ اور دو بچوں کا باپ تھا۔ یہ بات ان لوگوں کو اب بتا دینا چاہئے تھی۔ وہ کالج کا بہترین طالب علم تھا اور آئندہ بھی بطور انسان بہترین رہنا چاہتا تھا۔ جانتا تھا کہ سچ ہی افضل ہوتا ہے مگر ان لوگوں کو جانے کیوں وہ نہ بتا سکا۔ اُس دن عصمت اس کو گیٹ تک خدا حافظ کہنے آئی۔ جب وہ ان کی گاڑی میں بیٹھ رہا تھا، اس نے کہا۔ نعیم صاحب کتنا اچھا ہوا گر میرے تمہارے جیون کے راستے ایک ہو جائیں۔ وہ چپ رہ گیا۔ وہ ٹھہر گئی، پوچھا۔ کیا میری بات کا جواب نہیں دو گے ؟ وہ بس اتنا کہہ سکا۔ آپ بہت اچھی ہیں میں آپ کو بھی دھوکا نہیں دوں گا۔ پھر وہ تیزی سے اُن کی گاڑی میں بیٹھ گیا۔ اُن کا ڈرائیور نعیم کو کالج ڈراپ کرنے جارہا تھا اس کے بعد تقریباً ایک ماہ نعیم کا ان کی طرف جانا نہیں ہو سکا۔ وہ کسی ایسی الجھن میں پڑنا نہیں چاہتا تھا، جس سے اس کی یا عصمت کی پُر سکون زندگی میں کوئی طوفان آ جاتا۔ ایک دن نعیم اپنے روم میں بیٹھا تھا کہ ہاسٹل کے چوکیدار نے بتایا کہ اس کا فون آیا ہے۔ وہ سوچتے ہوئے اُٹھا کہ کس کا فون ہو سکتا ہے ؟ ریسیور اٹھایا تو عصمت بول رہی تھی۔ نعیم تم کتنے سنگ دل نکلے ۔ تم کیوں نہیں آئے؟ اتنے دن ہو گئے ، ڈیڈی بھی تمہیں یاد کرتے رہتے ہیں۔ ایک ہی سانس میں وہ اتنی باتیں کہہ گئی۔ نعیم نے بہانہ کیا کہ میں گائوں چلا گیا تھا، پھر اگلے روز وہ ان کے گھر چلا گیا۔ جو نہی بیل بجائی ملازم نے دروازہ کھولا۔ اُس نے اپنا نام بتایا۔ نام سنتے ہی عصمت دوڑی ہوئی گیٹ پر آئی، والہانہ طریقے سے استقبال کیا اور اس کو ڈرائنگ روم میں لے گئی۔ اتنے دنوں بعد آئے ہو ؟؟ کیا ہم سے کوئی غلطی ہو گئی۔ وہ شکوہ شکایت کے پلندے کھول کر بیٹھ گئی۔ نعیم کو کچھ کہنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ بالآخر اسے کہنا ہی پڑا۔ عصمت، میرا دل تو یہاں ہر روز آنے کو چاہتا تھا۔ کیا کرتا کچھ ایسی مجبوریاں ہیں۔ کوئی مجبوری نہیں ہوتی، اگر آدمی چاہے تو ۔ تبھی اس نے اپنی ماں کو پکارا۔ امی جان دیکھئے تو کون آیا ہے۔ تھوڑی دیر میں اُس کے والدین ڈرائنگ روم میں آکر اس کے پاس بیٹھ گئے اور اس طرح پیار و محبت سے باتیں کرنے لگے جیسے کہ نعیم سچ مچ ان کا بیٹا ہو۔ وہ اُداس تھے ، نعیم سے شکوے کر رہے تھے کہ تم اتنے دن ہمارے پاس کیوں نہیں آئے۔ کچھ دیر تک اُن لوگوں سے اس طرح باتیں ہوتی رہیں پھر انکل بولے۔ بیٹا یہ تمہارا اپنا گھر ہے، بیٹھو ، مگر مجھے تمہاری آنٹی کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس جانا ہے۔ میں بھی چلتا ہوں انکل۔ ارے نہیں تم بیٹھو ، رات کا کھانا ہمارے ساتھ کھا کے جانا۔ اتنے دنوں بعد آئے ہو۔ پھر دختر سے مخاطب ہوئے۔ عصمت بیٹی ! ان کے لئے رات کا کھانا ملازمہ سے مل کر بنوا لو ، ہم ابھی آ جاتے ہیں۔ ان کے جانے کے بعد عصمت آکر اس کے پاس بیٹھ گئی۔ وہ ملازمہ کو رات کے کھانے بارے ضروری ہدایات دے آئی تھی۔ کہنے لگی۔ تمہارا جی گھر کا کھانا کھانے کو چاہتا تو ہو گا۔ نعیم سچ بات یہ ہے کہ جب تم میرے سامنے ہوتے ہو مجھے بہت فکر مند نظر آتے ہو۔ آخر ایسا کیوں ہے ؟ انسان کی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں۔ نعیم نے جواب دیا۔ آخر ایسی کیا مجبوریاں ہوتی ہیں شاید تم کسی اور کو پسند کرتے ہو۔ عصمت تم غلط سوچتی ہو ، ایسی کوئی بات نہیں ہے –
تو پھر کیا بات ہے ؟ کیا میں تم کو بہت بری لگتی ہوں۔ مجھے تو تم بہت اچھی لگتی ہو۔ تم تو ہر وقت میرے خیالوں میں رہتی ہو۔ بے اختیار یہ الفاظ اُس کے ہونٹوں سے ادا ہو گئے ، حالانکہ وہ ایسی کوئی بات ہر گز کہنا نہیں چاہتا تھا۔ نعیم تم میرے دل میں بس گئے ہو۔ کاش میں تمہارے ساتھ ساری زندگی بسر کر سکوں ۔ ہاں، اے کاش! کہ میں بھی اپنی باقی تمام زندگی تمہارے ساتھ گزار سکتا۔ یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا اور دروازے کی طرف قدم بڑھائے تو عصمت اس کے سامنے رستہ روک کر کھڑی ہو گئی۔ بولی۔ نعیم ! امی ابو سے مت ڈرو۔ وہ تمہاری طرف منتظر نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ تمہارے گھر والوں سے مل لیں۔ جب تم پڑھائی ختم کر لو گے تو وہ گائوں جا کر ان سے ملیں گے تاکہ ہمارے رشتے کی بات چیت چلے۔ میں بھی ایسا ہی چاہتا ہوں لیکن ہماری شادی نہیں ہو سکتی۔ ہماری شادی کے بیچ ایک دیوار ہے عصمت۔ پہیلیاں نہ بجھوائو ، صاف صاف بتا تو کیا معاملہ ہے؟ پھر کبھی بتائوں گا۔ ابھی کچھ ضروری کام ہے ، دیر ہو رہی ہے۔ مجھے جانے دو۔ ایک شرط پر کہ تم مجھے فون کیا کرو گے؟ ٹھیک ہے۔ نعیم نے یہ کہہ کر جان چھڑائی اور وہاں سے چلا گیا لیکن اس ملاقات کا اس پر گہرا اثر ہوا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ یہ کیا ہو گیا۔ یہ لڑ کی تو سچ مچ مجھ سے زندگی بھر کی آس لگا بیٹھی ہے اور اُس کے والدین بھی۔ ان کو تو میری شخصیت کے ساتھ میرے تعلیمی کیریئر سے بھی پیار ہو گیا۔ کیونکہ وہ مستقبل کا انجینئر تھا۔ ہاسٹل آ کر وہ اپنے کمرے میں بستر پر گر گیا۔ آج وہ بہت پریشان تھا ، سوچ رہا تھا کہ اب وہ عصمت کو ہر بات سچ سچ بتا دے کہ یہی مناسب وقت تھا۔ آخر کار رات ہو گئی۔ تقریباً نو بجے عصمت کا فون آگیا۔ نعیم نے پوچھا۔ کیا بات ہے ، تم سوئی نہیں ابھی تک ؟ نہیں، نعیم تم نے مجھے کس مصیبت میں ڈال دیا ہے کہ مجھے نیند نہیں آتی، پلیز مجھے سچ سچ بتا دو کیا بات ہے ؟ دیکھو عصمت یہ ہاسٹل کا فون ہے ، یہاں سے زیادہ دیر بات نہیں ہو سکتی۔ مگر اس لڑکی کی ضد تھی کہ نہیں ابھی اور اسی وقت بتائو گے ۔ تنگ آکر نعیم نے کہہ دیا۔ دیکھو یہ بات سُن نہیں سکو گی۔ یہ تمہاری برداشت سے باہر ہے۔ رات بھر سو بھی نہ سکو گی، لہٰذا اب آرام سے سو جائو۔ کل صبح بات کر لیں گے۔ ہر گز نہیں نعیم ! مجھے چین نہیں ہے۔ میں تم سے پوچھ کر رہوں گی۔ تم مجھے ضرور بتائو گے پھر ہم مل کر ہر دیوار کو توڑ دیں گے۔ اگر تم غریب ہو تو مجھے دولت کی ضرورت نہیں ہے۔ جیسا بھی کٹھن وقت ہو گا ثابت قدمی سے تمہارے ساتھ گزارا کروں گی، تمہارے ساتھ رہوں گی، ہمیشہ تمہارا ساتھ دوں گی۔ وہ بہت جذباتی ہو گئی۔ نعیم نے اندازہ کر لیا کہ وہ فون پر رورہی ہے۔ تب اُس سے نہ رہا گیا، بولا ۔ میں نے تم کو کہا تھا نا کہ میں تمہیں کبھی دھوکا نہ دوں گا۔ تو سنو ! میں شادی شدہ ہوں۔ میرا ایک بیٹا ہے اور ایک بیٹی بھی ہے۔ یہ سننا تھا کہ عصمت نے فون بند کر دیا۔ اسی وقت نعیم نے اس کا نمبر ڈائل کیا، کئی مرتبہ فون کیا مگر اس نے نہیں اُٹھایا۔ اُسے رات بھر نیند نہ آئی۔ جانتا تھا وہ بھی نہیں سوئی ہوگی۔ وہ تمام رات آنکھوں میں کٹ گئی۔ وہ کبھی کتاب اُٹھاتا، کبھی گانے لگاتا، کبھی اُٹھ کر ٹہلنے لگتا۔ گھڑی کی سوئی بھی جیسے ٹھہر گئی تھی۔ وقت تھم گیا تھا، رات گزرتی نہ تھی۔ جب میری یہ کیفیت ہے تو جانے اس کا کیا حال ہوا ہو گا۔ یہ سوچ سوچ کر نعیم پریشان ہوتا رہا۔ دو دن تک یہی کیفیت رہی تیسرے روز وہ صبر نہ کر سکا اور عصمت کے گھر چلا گیا۔ وہ سامنے آئی تو اس کی عجیب حالت تھی۔ اس کی آنکھیں سوجی ہوئی اور بے خوابی سے سُرخ ہو رہی تھیں۔ وہ بھی کئی راتوں سے نہیں سوئی تھی اور وہ بالکل خاموش کھڑی تھی۔
نعیم ہی گویا ہوا۔ عصمت مجھے معلوم ہے تم نے بھی یہ ساری راتیں جاگ کر گزاری ہیں۔ وہ اداس ہو کر بولی۔ اب یہاں کیا لینے آئے ہو، کیا چاہتے ہو ؟ تم کو دیکھنے آیا ہوں۔ تم مجھ سے دھوکا کر رہے تھے۔ دیکھو، عصمت میرے دل میں کھوٹ ہوتا تو میں تم کو حقیقت سے آگاہ کیوں کرتا۔ میں سچ کہتا ہوں۔ تم چاہتی ہو تو میں تمہارا جیون ساتھی بننے کو تیار ہوں لیکن سچ بتا کر تا کہ بعد میں مجھ پر کوئی الزام نہ آئے۔ میرا نام بھی اب اپنی زبان پر مت لانا۔ وہ نعیم کو دروازے پر چھوڑ کر اپنے کمرے کی طرف بھاگی کیونکہ وہ بے تحاشہ رورہی تھی اور اپنے آنسو چھپانا چاہتی تھی۔ اس کو روتا د دیکھ کر نعیم کا دل بند ہونے لگا۔ ان دنوں وہ کالج سے بھی فارغ ہو گیا تھا، کیونکہ امتحان قریب تھے۔ اس نے ہاسٹل چھوڑ دیا تھا اور ایک پرائیویٹ کمرہ کرایے پر لے لیا۔ وہ اپنے چچا کے گھر بھی رہنے نہیں آیا جو ہمارے گھر کے برابر میں تھا۔ نعیم نے عصمت کو فون کر کے بتایا کہ اُس نے رہائش تبدیل کر لی ہے یہاں فون کی سہولت موجود ہے۔ اس کے بعد وہ تمام وقت عصمت کے فون کا منتظر رہتا۔ اُس لڑکی کا دُکھ اس کے دل میں انگاروں کی طرح سلگتا رہتا تھا۔ کتابیں اٹھاتا تو پڑھ نہیں پاتا تھا۔ اسی طرح دو دن اور گزر گئے ، اُس نے فون نہیں کیا۔ تیسری رات تقریباً دو بجے شب فون کی گھنٹی بجی۔ اُس نے ریسیور اٹھا کر ہیلو کہا تو فون کرنے والے نے کال کاٹ دی۔ پھر وقفے وقفے سے یہی ہوتا رہا۔ وہ فون کرتی، نعیم ہیلو کہتا، وہ کال کاٹ دیتی۔ سوچا اب کال ریسیو نہ کروں گا۔ اس بار مسلسل گھنٹی بجتی رہی نعیم نے نہ اٹھایا۔ جب گھنٹی بجنا بند ہوئی تو اس نے کال ریسیو کر کے غصے سے کہا۔ کون ہو تم؟ کچھ تو بولو ! میں کئی دن سے سویا نہیں۔ اب مہینوں یونہی بیٹھا رہوں گا۔ تم جب چاہے فون کر سکتی ہو، میں موجود رہوں گا۔ خدا حافظ ۔ جب اس نے خدا حافظ کہا تو ادھر سے گھبرائی ہوئی آواز آئی۔ نعیم ! ہاں بولو عصمت ! میں جانتا ہوں یہ تم ہی ہو۔ بولو کیا بات ہے ؟ اگر تم مجھ پر ناراض ہو کہ میں شادی شدہ ہوں تو سنو میری میری شادی میری مرضی سے نہیں ہوئی تھی۔ میں اُن دنوں صرف پندرہ برس کا تھا، جب والدین نے میری شادی کر دی، گائوں میں ایسا ہی رواج ہے۔ اب بتا تو اس میں میرا کیا قصور ؟
میں نے بہت سوچا۔ بہتر ہے کہ میں آپ سے شادی کر لوں، بجائے اس کے کہ میں عمر بھر آپ کے دیئے ہوئے اس غم کی پرورش کرتی رہوں۔ کیا تم نے اچھی طرح سوچ لیا ہے ؟ نعیم نے پوچھا۔ اچھی طرح سوچ لو۔ یہ زندگی بھر کا سودا ہے۔ میں کل گائوں جارہا ہوں ، دو دن بعد آئوں گا ، پھر امتحان ہے۔ اس کے بعد میں تمہارے گھرآؤں گا آخری جواب لینے۔ اگر تمہاری مرضی ہو گی تو پھر میں تمہارے ساتھ عمر بھر کا بندھن باندھنے کو تیار ہوں۔ اُس نے خوب غور سے نعیم کی بات سنی اور کہا۔ تم آج آئو ، کل آئو ، ایک سال بعد یا صدی بعد ۔ میرا ایک ہی جواب ہو گا۔ میں شادی تم سے ہی کروں گی۔ یہ کہہ کر اس نے فون رکھ دیا۔ نعیم بے چین تھا لیکن اس بے چینی میں بھی اسے سکون مل رہا تھا کہ وہ کسی نتیجے کسی فیصلے پر تو پہنچی ہے۔ نعیم کے پیپرز شروع ہوئے تو وہ اس میں مصروف ہو گیا۔ تقریباً دو ماہ بعد ایک دن وہ عصمت کے گھر جانے کے لئے تیار ہوا۔ آج یہ راستہ اسے بہت لمبا لگ رہا تھا۔ ختم ہونے میں نہیں آتا تھا۔ سوچیں سانپوں کی طرح ڈس رہی تھیں۔ دوسری شادی کے بارے میں گھر والوں کو کیا جواز پیش کرے گا۔ پہلی بیوی کا سامنا کیوں کر ، کر پائے گا اور سب سے بڑھ کر جو بات نعیم کو کھائے جارہی تھی یہ تھی کہ وہ انکل سلیمان کو کیا جواب دے گا کہ شادی شدہ ہو کر بھی اُن کی بیٹی سے محبت کی پینگیں بڑھاتا رہا، ان کو دھوکا دیتا رہا۔ وہ جو اُسے ایک فرشتہ صفت انسان سمجھتے تھے اور وہ کیسا نکلا؟ کاش میں اُن لوگوں سے نہ ملا ہوتا۔ اس نے خود پر افسوس کیا، اُس کا جی چاہا کہ سارے وعدے بھلا کر بھاگ جائے اور پھر کبھی عصمت کا عمر بھر سامنا نہ کرے لیکن سوچوں کے بر عکس قدم اُسی گھر کی طرف جارہے تھے، وعدہ خلافی مردوں کی شان نہیں۔ خیالات میں گم جب در محبوب پر پہنچا تو گم صم تھا۔ اچانک ہی وہاں کے شوروغوغا سے وہ ہوش میں آ گیا۔ کیا دیکھتا ہے کہ وہاں کی تو دنیا ہی اور ہے، سراسر حالات بدلے ہوئے ہیں۔ جو نہی اس کو عصمت کے والد اور والدہ نے دیکھا انہوں نے منہ پھیر لیا۔ وہ غم و صدمے سے نڈھال تھے۔ کوئی اس کی جانب دیکھنا نہ چاہتا تھا۔ یا الہی یہ کیا ماجرا ہے؟
وہاں گھر میں موجود ایک نوجوان نے بتایا کہ شاید آپ کو علم نہیں ہے ، کل انکل سلیمان کی بیٹی عصمت کی وفات ہو گئی ہے۔ وفات ! کیا کہہ رہے ہو ؟ نعیم کو جیسے بجلی کا جھٹکا لگا۔ ہاں ، سب لوگ اس کی تدفین سے ابھی لوٹے ہیں۔ انکل اور آنٹی کسی کی دُعا و سلام کی پوزیشن میں نہیں ہیں ، آپ دو چار دن بعد آ کر پرسہ کر لینا۔ آپ کون ؟ وہ بمشکل اتنا پوچھ پایا۔ میں انکل سلیمان کا بھانجا ہوں شہزاد اور آپ؟ انکل سلیمان کے دوست کا بیٹا ہوں میں۔ وہ اسی قدر کہہ پایا اورالٹے قدموں وہاں سے چلا آیا۔ نعیم وہاں سے سیدھا ہمارے گھر آیا۔ میرا بھائی، گھر میں موجود تھا۔ وہ آتے ہی بھائی کے گلے لگ کر رونے لگا۔ بھیا گھبرا گئے، پوچھا۔ خیریت تو ہے، کیا ہوا ہے ؟ کچھ بولو تو یا ایسے ہی روتے رہو گے۔ کافی دیر دل کا غبار نکالنے کے بعد نعیم نے بتایا کہ عصمت اب اس دُنیا میں نہیں ہے صلاح الدین اور مجھے اُس کے مرنے کا بہت غم ہوا ہے۔ ٹھیک ہے غم تو سب کو ہوتا ہے۔ اس نوخیز عمر میں اس کی موت کا مجھ کو بھی دُکھ ہو رہا ہے لیکن تم تو ایسے رو رہے ہو جیسے تمہارا کوئی عزیز ، وہ عزیز سے بڑھ کر تھی۔ نعیم نے ہچکیاں لے کر کہا۔ دو دن چھٹی تھی۔ بھائی نے اسے ہاسٹل نہ جانے دیا بلکہ اصرار کر کے اپنے گھر روک لیا حالانکہ اس کے چچا کا گھر برابر میں تھا۔ بہر حال بھائی نے اگلے دن انکل کے گھر فون کیا۔ فون ان کے کسی رشتہ دار لڑکی نے اٹھایا۔ بہن میں انکل سلیمان سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ فی الحال آپ ان سے بات نہ کریں تو بہتر ہے ، ان کی طبیعت کافی ناساز ہے۔ دراصل عصمت بہن کے پرسے کو میرے والدین آنا چاہ رہے تھے۔ انکل فی الحال کسی کا پر سہ نہیں لے رہے۔ ایسا کیوں ؟ آپ کو نہیں معلوم کیا ! عصمت نے خود کشی کی ہے۔ لڑکی بولی۔ خود کشی ! مگر خود کشی کیوں ؟ عصمت تو بہت اچھی اور تابعدار بیٹی کی تھی سلیمان صاحب کی۔ اسی وجہ سے تو خود کشی کر لی اس نے۔ وہ کسی شادی شدہ شخص سے شادی کرنا چاہتی تھی اور انکل اس پر راضی نہ تھے۔ جب انہوں نے بیٹی کو سمجھایا کہ تم اپنے فیصلے سے باز رہو اور جہاں ہم چاہتے ہیں وہاں شادی پر راضی ہو جائو تو عصمت نے … اس سے آگے اُس لڑکی نے کچھ کہے بنا فون بند کر دیا۔ شاید اسے احساس ہو گیا تھا کہ وہ کسی اجنبی کو ایسی باتیں بتارہی ہے جو شاید اُس کو نہ بتانا چاہئیں۔ یہ علم ہو جانے کے بعد کہ عصمت نے خود کشی کر لی نعیم کا غم دو چند ہو گیا۔ وہ امتحان بھی نہ دے سکا اور افسردہ و ملول گائوں چلا گیا۔ دو ماہ تک وہ نہ لوٹا تو بھائی اس کے چچا زاد کے ہمراہ گائوں گئے۔ نعیم کی حالت غم نا گفتہ تھی کیونکہ وہ عصمت کی خود کشی کا ذمہ دار خود کو سمجھ رہا تھا۔ عصمت کی وفات کے چار ماہ بعد اس نے سلیمان انکل کے گھر فون کیا۔ آنٹی نے فون اٹھایا اور افسردہ لہجے میں بولیں۔ بیٹا جو ہونا تھا ہو گیا۔ اب کسی کے پر سہ کرنے سے میری بیٹی تو واپس نہیں لوٹ سکتی، مگرتم نے اچھا نہیں کیا۔ اس کا جھکاؤ اپنی طرف دیکھ رہے تھے تو تم کو ہٹ جانا چاہئے تھا۔ لڑکیاں تو جلد دل میں کسی کو بسا لیتی ہیں۔ جب اُس کے ابو نے اسے بتایا کہ وہ اس کی شادی اس کے ماموں زاد سے کرنا چاہ رہے ہیں تو اس نے کہا کہ میں نعیم سے وعدہ کر چکی ہوں ، وہ شادی شدہ بچوں والا سہی مگر اب میں اُس کے سوا کسی اور سے شادی نہیں کر سکتی۔ باپ نے ناراضی کا اظہار کیا اور بتایا کہ یہ ممکن نہیں ہے تو اس نے مایوس ہو کر زہریلی دوا کھالی۔ یوں میری بیٹی ناکام و نامراد اس دنیا سے چلی گئی۔ کاش تم ہم سے نہ ملے ہوتے….