والد صاحب گائوں سے کراچی اپنے ایک دیرینہ دوست کے کہنے پر شفٹ ہوئے تھے۔ ان کا نام ذکا تھا۔ ذکا صاحب بابا جان کے ساتھ پرائمری سے میٹرک تک گائوں کے اسکول میں زیر تعلیم رہے تھے۔ میٹرک کے بعد وہ اپنی اراضی فروخت کر کے والدین کے ساتھ کراچی چلے گئے جہاں ان کے والد نے کپڑے کا بزنس شروع کر دیا، وقت گزرتا رہا۔
ابو لاہور کالج سے فارغ التحصیل ہوکر گائوں لوٹ آئے۔ ان کی شادی گائوں میں چچا زاد سے ہو گئی، ذکا نے اس شادی میں شرکت کی تھی۔ ابو کی شادی میں ایک دور کی رشتہ دار لڑکی ان کو پسند آ گئی اور وہ خالہ فرخندہ کو میری والدہ کے توسط سے بیاہ کر لے گئے۔ جب تک خالہ فرخندہ زندہ رہیں، وہ جب گائوں آتیں امی سے ملنے ضرور آتیں، پہلوٹی کے بیٹے کو جنم دینے کے بعد ان کو بیماری نے جکڑ لیا اور وہ اپنے لختِ جگر سات سالہ خاورکو اس دنیا میں افسردہ چھوڑ کر چل بسیں۔ بیوی کی وفات کے بعد چار سال تک انکل ذکا نے دوسری شادی نہ کی۔ جب خاور کی عمر گیارہ برس ہو گئی تو اس کو پالنے والی بوڑھی ’’انّا‘‘ چل بسی جس کو انکل اپنے ساتھ گائوں سے خاور کی پرورش کے لئے لے گئے تھے۔ انّا کی وفات کا صدمہ بھی خاور بیچارے نے اسی طرح جھیلا، جس طرح ماں کی دائمی جدائی کا دکھ اسے سہنا پڑا تھا۔
ذکا انکل کی دوسری شادی ان کی بہن نے کروا دی۔ دوسری شادی کے بعد ذکا انکل نے گائوں آنا تقریباً چھوڑ دیا۔ ان کی نئی بیوی کا تعلق شہر سے تھا، لہٰذا وہ مکمل وہاں کے ہو رہے۔ والد صاحب سے بھی ملنا جلنا اور رابطے کم سے کم ہوتے گئے۔ انکل کا کاروبار وقت کے ساتھ ساتھ وسیع تر ہوتا جا رہا تھا۔ ان کو اب اپنے بزنس سے ہی فرصت نہ ملتی تھی تو دوستوں سے دوستی کیسے نباہتے۔
ابو نے پہلے لاہور میں بزنس کیا۔ پھر فیصل آباد گئے لیکن انہیں کاروبار کا کوئی زیادہ تجربہ نہ تھا۔ باپ دادا کے زمانے سے زمینداری کرتے چلے آ رہے تھے جو بزنس کرتے، ناکام ہوجاتے اور پیسہ برباد ہو جاتا۔ اتفاق سے ایک روز ان کی ملاقات فیصل آباد میں انکل ذکا سے ہو گئی۔ وہ کاروبار کے سلسلے میں کپڑے کے ایک مل اونر کے پاس آئے ہوئے تھے۔ مدت بعد دیرینہ دوست ملے تو والہانہ گلے سے لگ گئے کچھ مصروفیات اور مجبوریوں کا بیان اور کچھ گلے شکوے ہوئے اور پھر حال احوال کے بعد انکل نے بابا جان کو آفر کر دی کہ تم اہل و عیال سمیت کراچی شفٹ ہو جائو۔ میں تمہاری رہائش کا بندوبست کرتا ہوں، میرے بنگلے کے برابر والا مکان بھی میرا ہے۔ وہاں رہائش اختیار کرلینا، تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ تم میرے ساتھ کاروبار میں شریک ہوجائو۔ مجھے تمہارے جیسے قابل اعتماد اور مخلص پارٹنر کی ضرورت ہے، اکیلے اتنا بڑا بزنس نہیںسنبھال سکتا۔
بابا جان پہلے ہی پریشان تھے، جو کام کرتے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا۔ سرمایہ الگ ضائع ہو جاتا ۔انہوں نے فوراً ہامی بھرلی۔ یوں ہم لوگ گائوں سے کراچی شفٹ ہو گئے۔ انکل ذکا نے ہمیں اپنا مکان رہائش کے لئے دے دیا۔ اس میں سہولت یہ تھی کہ ان کے گھر سے ہمارے گھر کی چار دیواری ملی ہوئی تھی، اتنے بڑے شہر میں بابا جان کو تنہائی کا احساس نہ ہوتا تھا۔ ایک ہفتہ کھانا انکل کے گھر سے آیا، پھر ہمارا کچن سیٹ ہو گیا، بابا جان نے انکل کا شکریہ ادا کرتے ہوئے معذرت کر لی کہ اب کھانا بھجوانے کا تکلف نہ کریں، میری بیوی خود پکا لے گی۔
پندرہ روز بعد امی جان انکل کے گھر گئیں تاکہ ان کی بیگم کا خود شکریہ ادا کریں، وہ ابھی تک ملنے ہمارے گھر نہیں آئی تھیں اور انکل نے وجہ یہ بتائی تھی کہ میری بیگم کی طبیعت ان دنوں کچھ ناساز ہے لہٰذا نہیں آسکتیں۔ امی نے پہلی بار خاور کو وہاں دیکھا۔ ایک پھول سا مگر مرجھایا ہوا، دبلا پتلا لڑکا، زرد اور سہما ہوا سا۔ وہ سمجھیں کہ ان کا گھریلو ملازم بچہ ہے اوپر کے کام کے لئے اکثر لوگ اتنی عمر کے لڑکے ملازم رکھ لیتے ہیں۔
وہ کام بھی ایسے ہی دوڑ دوڑ کر کر رہا تھا جیسے واقعی ملازم ہو۔ انکل کے دوسرے بچے تو حلیے اور لباس سے کسی سیٹھ کے بچے لگتے تھے مگر خاور کسی طور مالک کا فرزند معلوم نہ ہوتا تھا۔ والدہ کی ذکا کی بیوی سے یہ پہلی ملاقات تھی۔ خاتون کافی فیشن ایبل تھیں اور اپنے انداز سے اعلیٰ گھرانے کی لگتی تھیں۔ ان کو پوری طرح یہ احساس تھا کہ وہ امیر زادی ہیں اور امیر شوہر کی بیگم ہیں۔
دولت کبھی کبھی انسان کو ایسا نشہ دیتی ہے کہ وہ خدا اور اس کی خدائی کو بھول جاتا ہے اور بعض مرد بھی اپنی دوسری بیوی کے ایسے غلام ہو جاتے ہیں کہ پہلی بیوی کی اولاد کو اپنی اولاد سمجھنا چھوڑ دیتے ہیں۔
امی انکل کے گھر سے آئی تو حد درجہ افسردہ تھیں، بتایا کہ آج مرحومہ فرخندہ کے بیٹے خاور کو دیکھا۔ کاش نہ دیکھتی… اس کے چہرے پر یتیمی اور بے چارگی برستی ہے۔ اس کا حلیہ اور حیثیت بھی افسوس کہ اپنے باپ کے گھر میں ایک ملازم جیسا ہے۔ وہ کسی طور کروڑ پتی باپ کا بیٹا نہیں لگتا۔ خدا جانے ذکا بھائی کو کیا ہو گیا ہے، ان کی حمیت اور غیرت مر گئی ہے۔ یا وہ تھے ہی اتنے سنگدل۔ لیکن سنگدل سے سنگدل باپ بھی اپنی سگی اولاد کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرتا۔ لگتا ہے کہ اس کی دوسری بیوی نے ان پر جادو کر دیا ہے کہ وہ اس کی الفت میں بالکل اندھے ہو گئے ہیں۔ ان کو اپنا معصوم بیٹا نظر ہی نہیں آتا حالانکہ بہت اچھے انسان ہیں۔ کئی فلاحی تنظیموں کو امداد ی رقوم دیتے ہیں لیکن ایسی نیکو کاری کا کیا فائدہ جب چراغ تلے ہی اندھیرا ہو۔
والد صاحب نے اپنی اراضی فروخت کر دی اور کاروبار میں انکل ذکا کے شریک کار ہو گئے۔ دونوں بچپن کے دوست تھے، بزنس میں بھی گاڑی ٹھیک چل پڑی۔ بابا جان کو یہاں آ کر فائدہ ہوا کہ بڑے شہر کی سہولتیں میسرآ گئیں، رزق کے در وا ہوئے۔ برکت خداوندی سے ہم پر خوشحالی مہربان ہوتی چلی گئی۔ میرے بہن بھائی شہر کے اچھے تعلیمی اداروں سے فیض حاصل کرنے لگے۔
ہم کو انکل ذکا کی ہم سائیگی راس آ گئی وہ ہر طرح سے ہمارا خیال رکھتے تھے لیکن سب سے بڑی تکلیف دہ بات خاور کے حالات تھے جس کی وجہ سے میں اور امی خاص طور پر متاثر تھے۔ اب خاور ہمارے گھر آجاتا۔ والدہ اس کو اپنے پاس بٹھا لیتیں، وہ اپنی مرحومہ ماں کے بارے سوالات کرتا۔ میری امی کیسی تھیں… آپ کی رشتہ دار تھیں تو آپ کو ان کا بچپن بھی یاد ہو گا۔
امی اس کو اس کی ماں کے بارے میں بتاتیں تو اس کی بجھی بجھی آنکھوں میں چمک آ جاتی۔ وہ میری والدہ کو پہلے خالہ کہتا تھا پھر امی کہنے لگا، امی نے بھی اسے اپنا بیٹا بنا لیا۔
خاور ماں کے پیار کو ترسا ہوا تھا۔ گھر میں اس سے جو سلوک ہوتا تھا دیکھ کر ہماری آنکھوں میں آنسو آ جاتے تھے۔ وہ نہایت شریف، خوش اخلاق اور خوبصورت لڑکا تھا۔ جب امی سے پیار ملا تو اپنے دکھ سکھ ان کے ساتھ بانٹنے لگا۔ بتاتا تھا کہ اس کی سوتیلی ماں اور بہن بھائی اس پر بہت ظلم ڈھاتے ہیں۔ وہ سارا دن بھاگ بھاگ کر ان کے کام کرتا تھا اور رات کو ان لوگوں کا بچا کھچا کھانا کھا کر اپنے ہی گھر کے سرونٹ کوارٹر میں سو جاتا۔ باپ کی شکل تو اسے کبھی کبھی دیکھنی نصیب ہوتی تھی۔ وہ اگر بھولے سے بھی بیٹے کے سر پر ہاتھ پھیر دیتے تو سوتیلی ماں کا موڈ کئی کئی دن آف رہتا۔ تب وہ اس کی الٹی سیدھی شکایت شوہر سے کرتی تھی۔ خاور کبھی کبھی اپنے بدن کے نیل امی کو دکھایا کرتا تھا۔ کہتا اگر آج میری ماں یا سگی کوئی بہن ہوتی میرے دکھتے زخموں پر مرہم رکھتی۔
امی اس کی باتیں سن کر رو دیا کرتیں اور اس کے بدن کی سکائی کرتی تھیں۔ وہ بابا جان کو بھی بتاتی تھیں کہ خاور کا یہ حال ہے، تم ذکا بھائی کو کہو کہ اس پر توجہ دیں، آخر سگے بیٹے سے وہ کیوں ا تنی غفلت برتتے ہیں۔ والد جواب دیتے کہ یہ شخص اپنے کاروباری امور میں اتنا مصروف رہتا ہے کہ اسے سر کھجانے کی بھی فرصت نہیں ہے۔ بچوں کو ان کی ماں ہی دیکھتی ہے اور تمام گھریلو امور چلاتی ہے۔ ضرور بیوی سے باز پرس کرتا ہو گا لیکن بیوی با رسوخ خاندان کی ہے تبھی دبنا پڑتا ہے ایک بچے کی خاطر دیگر چار بچوں اور بیوی کو کیسے چھوڑ سکتا ہے۔
اپنے والد کے منہ سے ایسے الفاظ سن کر دکھ ہوتا، غالباً وہ کسی مصلحت کے تحت خاور کے لئے آواز اٹھانا نہیں چاہتے تھے، ہم جب وہ آتا پیار کرتے، گلے سے لگاتے اور حسن سلوک سے پیش آتے تھے۔ اکثر چپکے سے جیب میں کچھ رقم بھی ڈال دیتے تھے کہ اسکول کی کینٹین سے کچھ کھا لینا۔
امی اکثر کہتی تھیں کہ تم ہمارے پاس آ جائو رشتے کے بھانجے ہوتے ہو، ہم پر حق بنتا ہے تمہارا… وہ جواب دیتا، ابو راضی نہ ہوں گے۔ میری وجہ سے آپ لوگوں سے بھی ان کے تعلقات خراب ہو جائیں گے اور امی تو کبھی یہ نہ چاہیں گی۔ میں یہاں رہوں گا تو ان کے کام کون بھاگ بھاگ کر کرے گا۔
اس کے لئے نوکر تو ہیں نا۔ میں کہتی تو جواب ملتا، ارے بہنا تم نہ سمجھو گی، نوکر بے شک ہیں مگر امی کے کام جیسے میںکرتا ہوں ویسے کوئی نہیں کرسکتا۔
جب وہ مجھے بہنا کہتا۔ انجانی سی خوشی کا احساس ہوتا تھا۔ ایک روز میں نے کہا، خاور تم سچ مچ کے بھائی بن جائو، یہ ایک مقدس رشتہ ہے۔ میرے بھائی تو مجھ سے لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔ مجھے تم جیسے امن پسند بھائی کی ضرورت ہے۔
میں آپ کا پکا بھائی ہوں بالکل سگے جیسا۔ اس نے خوش ہو کر کہا۔ دراصل میں اسے بہن کے رشتے کی خوشی دینا چاہتی تھی جو اس کی سو تیلی ماں اور سگے باپ کی بیٹیاں نہ دے سکی تھی۔ مجھے اس کے دکھی چہرے سے محبت ہو گئی تھی۔ اس کی پیار کے لئے ترستی آنکھوں اور تشنہ مسکراہٹوں میں میرے لئے انمول چاہت کا جذبہ موجزن رہتا تھا۔
ایک روز جب امی ڈاکٹر کے پاس گئی ہوئی تھیں کسی نے گیٹ پر بیل دی، میں نے پوچھا کون ہے، جواب ملا، بہنا میں ہوں خاور، اس کی آواز میں عجب سی لڑکھڑاہٹ اور عجلت تھی۔ میں نے گیٹ کھول دیا۔
وہ پلک جھپکتے ہی اندر آگیا اور گیٹ بند کردیا۔ اس کی حالت غیر تھی جیسے کسی نے اس کے چہرے پر لگا تار کئی تھپڑ مارے ہوں۔ چہرہ سرخ تھا اور ٹانگیں لڑکھڑا رہی تھیں۔ اس حالت میں دیکھ کر پریشان ہو گئی۔ خاور بھیا۔کیا ہوا ہے۔ کیا کسی نے مارا ہے۔
ہاں ابو نے مارا ہے۔ امی نے میری جھوٹی شکایت کی کہ میں نے ان کے ساتھ بدتمیزی کی ہے حالانکہ میں نے نہیں کی تھی۔ بس اسی قدر کہا تھا کہ مجھے پڑھنے دیں۔ بار بار آوازیں دیتی ہیں، پڑھنے سے اٹھاتی ہیں۔ میں پیپر کی تیاری نہیں کرسکتا۔ کل میرا پرچہ ہے۔ بس اس بات پر
انہوں نے ابو سے ایسی شکایتیں لگائیں کہ ان کو غصہ آ گیا۔ انہیںکسی ضروری کام سے جانے کی جلدی تھی، مجھ سے کچھ پوچھا اور نہ سنا، منہ پر تھپڑ لگائے اور دھکا دیا تو میں زمین پر گر پڑا، بہت چوٹ آئی ہے۔ چلا نہیں جارہا تھا۔ وہ چلے گئے تو ادھر آ گیا امی کے پاس، ان سے کچھ کہنا ہے۔
امی سے جو کہنا ہے مجھ سے کہہ دو، وہ گھر پر نہیں ہیں۔ امی ڈاکٹر کے پاس گئی ہیں۔
مجھے کچھ رقم چاہیے۔ رقم کا کیا کرنا ہے تمہیں۔ اپنے استاد کے گھر جانا ہے۔ ان کو میں نے گھر کے سارے حالات بتائے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر تمہیں گھر پر پڑھنے نہ دیا جائے تو میرے پاس آ جانا۔ سالانہ پرچے میں غفلت نہ کرنا، میں تمہاری تیاری کروا دوں گا اور تمہارے والد سے خود اجازت لے لوں گا۔ میں بس سر منیر کے پاس جانا چاہتا ہوں۔
گھر کہاں ہے ان کا۔ زیادہ دور نہیں ہے۔ ان کا فون نمبر ہے تمہارے پاس؟ نہیں، لیکن تمہیں فون پر بتا دوں گا۔
ٹھیک ہے میں نے اپنے گھر کا فون نمبر اسے ایک پرچے پر لکھ کر دے دیا اور جتنی رقم اس نے کہی وہ بھی دے دی۔ وہ فوراً ہی رقم لے کر چلا گیا۔
معلوم ہوتا کہ رقم لے کر وہ غائب ہو جائے گا اور پھر کبھی گھر نہ لوٹے گا تو میں اسے ایک روپیہ بھی نہ دیتی، میں نے بغیر سوچے سمجھے اسے پیسے دے دیے کہ اس نے پہلی بار اپنی ضرورت کا اظہار کیا تھا۔ اس کے جانے کے بعد انکل ذکا کافی پریشان ہوئے۔ بہت ڈھونڈا خاور کو ملنا تھا نہ ملا۔ ابو امی کو میں نے کچھ نہ بتایا کہ کہیں ڈانٹ نہ پڑ جائے۔ جانتی تھی وہ جس حال میں آیا تھا اس نے گھر سے جانا ہی تھا۔ وہ گھر جہاں وہ رہتا تھا کسی ایک جہنم سے کم نہ تھا۔ انکل تلاش کر کے تھک گئے اور تھک کر خاموش بیٹھ گئے۔ ان کا اپنا کیا دھرا تھا ،کسی سے کیا گلہ کرتے۔
وقت گزرتا جاتا ہے، زخموں کو مندمل کرتا جاتا ہے۔ کہتے ہیں وقت گھائو بھر دیتا ہے۔ لیکن خاور کا گھائو میرے دل میں تازہ ہی رہا۔ وقت سے نہ بھر سکا، پچھتاوا ناسور بن گیا۔ ہر نماز کے بعد دعا کرتی تھی یا اللہ خاور جہاں ہو، اچھے حالات میں ہو، ٹھیک ہو، سلامت رہے، اس کو کوئی غم نہ ستائے۔ اے اللہ اس مسکین غریب بن ماں باپ کے بچے کو خوشیاں اور سکون دے دے۔
وہ وقت بھی آ گیا، جو ہر لڑکی کی زندگی میں آتا ہے۔ میرا رشتہ ایک بہت اچھے گھرانے سے آ گیا اور میں بیاہ کر سسرال آگئی۔ سال بعد میرے شوہر امریکہ چلے گئے اور تین سال بعد انہوں نے مجھے بلوا لیا ۔ شوہر انجینئر تھے۔ امریکہ میں اچھی ملازمت مل گئی۔ معقول رہائش کا انتظام بھی ہو گیا تو مجھے انہوں نے وہاں بلوا لیا تاکہ سکون کی زندگی بسر کر سکیں۔
ہمارا وطن جانا پانچ برس بعد ہو سکا۔ والد صاحب نے اپنا ذاتی مکان خرید لیا تھا۔ میرے پاکستان آتے ہی انہوں نے میری بہن اور بھائی کی شادیاں طے کر دیں کہ میں بھی شریک ہو سکوں۔
بہن کی شادی غیروں میں ہوئی اور بھائی کی دلہن امی گائوں سے لائی تھیں۔ بھابھی ہماری خالہ زاد بہن تھیں۔ بھابھی نے ہی بتایا کہ سالانہ پیپرز دینے کے بعد خاور گائوں آیا تھا۔ باپ کا گھر چھوڑنے کے بعد وہ اپنی خالہ سے ملنے گیا تھا جو فرخندہ کی سگی بہن تھی۔ اس نے بڑی سختی سے منع کیا تھا کہ کسی کو اس کے آنے کا نہ بتائے۔ وہ صرف ایک رات گائوں میں رہ کر دوسرے روز صبح ہی واپس شہر چلا گیا۔ اپنی خالہ کو بتا دیا تھا کہ اب وہ کبھی باپ کے گھر لو ٹ کر نہ جائے گا۔ اس کے استاد نے اس کی ہر طرح مدد کی ہے۔ اور اسے وہی پڑھائے گا لیکن کراچی میں نہیں بلکہ اسلام آباد میںجہاں سر منیر کی ماں اور بھائی رہتے تھے۔
بھائی ان کا یونی ورسٹی میں پروفیسر تھا، بعد میںخاور کو انہی لوگوں نے پڑھنے کے لئے بیرون ملک بھیجا تھا اور استاد صاحب کی بیٹی سے خاور کی شادی ہو گئی۔ یہ حالات جان کر میں نے سوچا اے کاش کہ مجھے علم ہو جائے خاور امریکہ میں کہاں رہتا ہے۔ اس نے مجھے نہیں بتایا تھا تو اللہ تعالیٰ اس مقدس رشتے کے واسطے سے اس زندگی میں ہماری ملاقات بھی کروا دے۔
کہتے ہیں دل سے نکلی دعا ضرور قبول ہو تی ہے۔ میری دعا بھی قبول ہو گئی۔ امریکہ آئے دس برس گزر چکے تھے۔ ایک روز میں ایک شاپنگ مال میں کچھ اشیائے صرف خرید رہی تھی کہ اچانک وہاں ایک کائونٹر پر خاور نظر آ گیا۔ وہ کافی بدل چکا تھا۔ پہلے تو پہچان نہ سکی کہ ایک دبلا پتلا لڑکا اب صحت مند ادھیڑ عمر شخص کے روپ میں ملا تھا۔ میرے بچے اور شوہر بھی ہمراہ تھے۔ جب ذہن پر زور دیا تو دوڑی ہوئی اس کی طرف گئی اور کہا… آپ خاور بھائی ہی ہیں نا۔
وہ لمحہ بھر کو ٹھٹکا پھر خوشی سے جیسے اس کا چہرہ گلنار ہو گیا۔ ہاں میں… بے اختیار وہ بھی میری طرف بڑھا۔ تب میرے پیچھے آتے شوہر کو دیکھ کر اس نے خود کو روکا اور کہا۔ میری بہنا، تمہیں آج اپنے سامنے دیکھ کر اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا کہ یہ تم ہی ہو۔ کتنی بدل گئی ہو آفرین۔
ہاں بھیا! تم بھی تو بدل گئے ہو، دراصل وقت ہر ایک شے کو بدل دیتا ہے۔ ہاں مگر محبت کے سوا۔ میری بہن میرے ساتھ گھر چلو۔ تبھی اس نے میرے شوہر کی طرف دیکھا جو بت کی مانند ساکت ہمیں محوِ گفتگو دیکھ رہے تھے۔ اوہ… میں تو تعارف کروانا ہی بھول گئی۔ یہ میرے شریکِ زندگی ہیں نصیر بختیار اور یہ میرا بھائی ہے خاور جو مدتوں بعد ملا ہے۔ نہ جانے کہاں کھو گیا تھا۔ میں ابھی تک جذباتی ہو رہی تھی لیکن نصیر نے پتھریلے چہرے کے ساتھ سرد مہری سے اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ سے مصافحہ کیا تو میں اور وہ دونوں سمجھ گئے کہ میرے شوہر کو میرا اس کے ساتھ یوں والہانہ انداز سے بات کرنا اچھا نہیں لگا ہے۔ تبھی خاور نے ہمیں یہ کہہ کر خدا حافظ کہا۔ اچھا بہنا پھر ملیں گے۔
لیکن اس کے بعد ہم پھر کبھی نہ ملے۔ اس نے جو کارڈ میرے شوہر کو تھمایا تھا۔ وہ انہوں نے لاپروائی سے جانے کہاں گرا دیا۔
میرے اصرار کرنے پر بولے۔ میری عزیز از جان شریک حیات… بہن بھائی صرف سگے ہوتے ہیں، باقی رشتوں کو دنیا داری کی خاطر نباہنا پڑتا ہے لیکن ہمیں اب اتنی فرصت کہاں ہے کہ یہ رشتے نباہ سکیں۔ خاور صاحب کو جیسے پہلے بھلا دیا تھا اب بھی بھول جائو۔ اتنے بڑے امریکہ میں ہم اب اس کو کیسے ڈھونڈ پائیں گے۔ میں ان کا مطلب سمجھ گئی، تاہم یہ انہیں نہ کہہ سکی کہ میرے جیون ساتھی میں کبھی خاور کو نہیں بھلا سکتی۔ اس کو سچے دل سے بھائی بنایا تھا۔ زندگی نے پھر کبھی ملا دیا وہ میرا بھائی ہی ہو گا اور بھائی ہی رہے گا۔ (ک۔ ا… امریکہ)