Monday, September 16, 2024

Kabhi Dhoop Kabhi Chaoon | Teen Auratien Teen Kahaniyan

میں نے کبھی شوبز میں آنے کا سوچا بھی نہ تھا۔ میں نے ایک اوسط درجے کے قدامت پسند گھرانے میں جنم لیا تھا۔ والدین نیک اور دیندار تھے۔ انہوں نے ہماری پرورش بھی انہی خطوط پر کی تھی۔ ہم تین بہنیں تھیں مجھے ملازمت کی تلاش میں گھر سے قدم نکالنا پڑے۔ حالانکہ والد ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے لیکن یہ خواب شرمندئہ تعبیر نہ ہوسکا۔ ایف ایس سی کا آخری پرچہ دے کر گھر آئی کہ والد کے اس جہان فانی سے کوچ کرجانے کی اطلاع آگئی۔ وہ گھر سے سودا سلف لینے مارکیٹ گئے تھے کہ ایک بم دھماکے میں چل بسے۔
آمدنی کا کوئی ذریعہ نہ رہا۔ گھر کی گاڑی کھینچنا میرے بس کی بات نہ تھی۔ ملازمت کی تلاش میں ماری ماری پھرنے لگی۔ جلد ہی معلوم ہوگیا بغیر سفارش ملازمت ملنا ممکن نہیں ہے۔ باری باری سب رشتے داروں کے گھر گئی، ان سے ملازمت کے لیے کہا، لیکن کسی نے میری بات کو اہمیت نہ دی۔ یہی کہہ دیتے تھے کہ درخواست دے جائو، کہیں جگہ نکلی تو ہم بتا دیں گے۔
کیا بتائوں ان دنوں کے ذہنی کرب کا احوال؟ اسکولوں، دفتروں میں ماری ماری پھرتی۔ ہر جگہ حالات بتاتی کہ میرے لیے نوکری کتنی ناگزیر ہے، کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگتی۔ ہوتے ہوتے تھک کر چُور ہوگئی۔ جب گھر میں ایک پیسہ نہ رہا تو نوبت فاقوں تک پہنچی۔ بہنوں کی تعلیم چھوٹ گئی، بجلی اور پانی کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ یوں لگتا تھا جیسے ہماری زندگیوں کے ٹمٹماتے دیئے آج کل میں بجھ جائیں گے۔ یہ جمعہ کا دن تھا۔ نہا دھو کر نماز پڑھی اور جائے نماز پر بیٹھ کر اللہ کے حضور دامن پھیلا دیا۔ آنسو آج تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ کل رات سے کچھ نہ کھایا تھا۔ چوبیس گھنٹے گزر چکے تھے۔ سوائے پانی کے ایک کھیل بھی اڑ کر منہ میں نہ گئی تھی۔
مجبور ہوکر اماں پڑوس میں ادھار مانگنے چلی گئیں۔ میں آج اتنی مایوس تھی کہ سوچا اب چاہے بھوکے مر جائیں، میں نوکری ڈھونڈنے نہ جائوں گی۔ اچانک در پر دستک ہوئی۔ سمجھی اماں واپس آئی ہیں۔ دیکھا تو دروازے پر بلقیس کھڑی تھی۔ وہ میری کلاس فیلو اور اسکول کے زمانے کی سہیلی تھی۔ اب ہمارے گھر دور دور تھے لہٰذا آنا جانا کم ہوگیا تھا۔ بلقیس پہلے ہمارے محلے میں ہی رہا کرتی تھی۔ اس نے میری سوجی آنکھوں کی طرف دیکھا تو سمجھ گئی کہ میں روئی ہوں۔ ایسا ویسا رونا، میں تو خوب روئی تھی۔ میری سرخ آنکھوں میں جھانک کر بولی۔ خیر تو ہے تحریم…! کیا تمہاری شادی زبردستی کسی بڈھے سے کر رہے ہیں، جو اتنی آزردہ ہو؟ کیا تم بھول گئی ہو کہ ابو کی وفات کو ابھی سال بھی نہیں ہوا ہے۔ یہ کہہ کر میں سسک پڑی۔ وہ سمجھ گئی مجھے اس وقت کسی غمگسار کی شدید ضرورت ہے۔ گلے سے لگا لیا۔ کافی دیر تسلی دیتی رہی پھر حال پوچھا۔
حال نہ پوچھو، آج ہمارے گھر میں کھانے کو کچھ نہیں ہے۔ مجھ جیسی خوددار کے منہ سے بے ساختہ حقیقت بیان ہوگئی۔ وہ حیرت سے مجھے دیکھنے لگی۔ تم نے پہلے تو کبھی ذکر نہیں کیا۔
ذکر کیا کرتی، ایسی باتیں بتانے کی نہیں ہوتیں۔ آج تم نے پوچھا تو بتا دیا۔ میرے آنسو اپنے آنچل سے پونچھتے ہوئے بولی۔ کہیں ملازمت کی کوشش کی۔ ابا کے جانے کے بعد سے گیارہ ماہ ہوگئے ہیں، کوئی دن ایسا نہیں گیا جو نوکری ڈھونڈنے نہ نکلی ہوں لیکن اب ہمت ہار دی ہے۔ جتنے اشتہار نوکری کے کاٹ کر رکھے تھے، چولہے میں ڈال دیئے ہیں۔ بھلا ایف ایس سی کو نوکری کہاں ملتی ہے۔
مایوس نہ ہو… میرے بھائی اقبال ایک ایڈورٹائزنگ کمپنی میں کام کرتے ہیں۔ کہہ رہے تھے ایک اشتہار کے لیے ماڈل لڑکیوں کی ضرورت ہے۔ اگر تم کہو تو اقبال بھائی سے تمہارے لیے بات کروں۔ تحریم… کیا تم ہمارے خاندان کو جانتی نہیں ہو۔ کیسے دقیانوسی قسم کے ہیں میرے چاچا، ماموں، امی ان کے خوف سے کب مجھے اشتہار میں آنے کی اجازت دیں گی۔
تمہارے رشتے دار چاچا، ماما اچھی ملازمتوں پر ہیں نا تو پھر ان سے کہو کہ تمہارے لیے کسی معقول نوکری کا بندوبست کردیں۔
سب کے گھر جا چکی ہوں، سب سے کہہ چکی ہوں۔ جھوٹی تسلی دے کر ٹرخا دیتے ہیں۔ ابھی تک تو کسی نے کچھ نہیں کیا تو وہ آئندہ بھی کچھ نہ کریں گے۔ یہ رشتے دار بھی خوب ہوتے ہیں۔ ان کو باتیں بنانا آتی ہیں، یہ کسی خوش نصیب کے ہی کام آتے ہوں گے۔ تم باتیں بنانے والوں کی پروا نہ کرو۔ میرے گھر آئو۔ اقبال بھائی کو جانتی ہو نا وہ اپنی کمپنی میں تمہارا ہر طرح سے خیال رکھیں گے۔ کیا پتا تمہیں ماڈلنگ نہ کرنی پڑے، کوئی اور اچھی ملازمت مل جائے۔
وہ مجھے اپنی منگنی کا بلاوا دینے آئی تھی اور میں رو کر اس کے گلے لگ گئی۔ تب وہ بچاری اپنی خوشی کو بھول کر میری پریشانیاں جھولی میں بھر کر لوٹ گئی لیکن وعدہ لے گئی ایک بار ضرور میں اس کے گھر آکر بھائی اقبال سے ملوں گی۔ جاتے ہوئے میری چھوٹی بہن کو پانچ سو روپے کا نوٹ بھی دے گئی بہانے سے کہ اپنے لیے سالگرہ کا تحفہ لے لینا۔
اگلے دن ہمت کرکے بلقیس کے گھر چلی گئی۔ چھٹی کا روز تھا، اقبال بھائی گھر پر موجود تھے۔ بہن نے ان کو حالات سے آگاہ کردیا تھا۔ وہ جیسے منتظر تھے۔ کہا میرے ذمے ایک تعلیمی اشتہار ہے، اس میں ایک لڑکی کو چھوٹے بچوں کو پڑھاتے دکھانا ہے۔ تم اس اشتہار کے لیے بالکل موزوں ہو۔ اچھے پیسے ملیں گے۔ خالہ جی سے اجازت لے لو۔ یہ اشتہار میری نگرانی میں بنے گا۔ اس میں اعتراض کی کوئی بات نہیں ہوگی۔ مجھے سوچ کر بتا دینا۔
میں حالات سے ایسی پریشان تھی۔ کہا اقبال بھائی آپ میرے بھی بھائی ہیں۔ آپ کو اطمینان ہے تو مجھے منظور ہے۔ جب تک کوئی اچھی ملازمت نہیں ملتی، ایک دو اشتہاروں میں آجانے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ گھر کی دال، روٹی کا مسئلہ حل کرنا ہے۔ گھر جاکر امی سے کہا کہ بلقیس کے بھائی کی کمپنی میں جاب مل گئی ہے۔ فی الحال وقتی ہے بعد میں مستقل ہوجائے گی۔ امی اس گھرانے کو اچھی طرح جانتی تھیں۔ انہوں نے اعتراض نہ کیا۔ بتاتی چلوں کہ زندگی کی بنیادی ضروریات کی خاطر ہمارا گھریلو سامان بھی رفتہ رفتہ بک چکا تھا۔ ٹی وی پچھلے ماہ فروخت کیا تھا۔ سوچا گھر میں ٹی وی تو رہا نہیں، اماں کیسے وہ اشتہار دیکھ پائیں گی جس میں، میں ماڈلنگ کروں گی۔ کسی نے کہا بھی تو کہہ دوں گی کوئی اور ہوگی، مجھ سے ملتی جلتی لڑکی…! کچھ دن ریہرسل کے لیے جانا تھا پھر اشتہار بن گیا اور ٹی وی پر چل بھی گیا۔ اماں کو پتا نہ چلا۔ وہ خوش تھیں کہ بلقیس کے بھائی کے توسط سے مجھے ایک اچھی ملازمت مل گئی ہے۔ جب وہ اشتہار چلا تو ایک اور اشتہار کی بھی آفر مل گئی۔ پھر تو جیسے جیسے اشتہار چلنے لگے، کام کا تانتا بندھنے لگا۔ یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب لڑکیاں کم ہی ماڈلنگ میں آتی تھیں اور اشتہارات میں لڑکیوں کو لانے کے لیے اشتہار بنانے والوں کو بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے تھے۔
شوبز کی دنیا کسی سے پوشیدہ رہنے والی چیز نہ تھی۔ جلد شہرت کے ساتھ ساتھ سب کو علم ہوگیا کہ میں نے ان اشتہارات میں ماڈلنگ کی ہے۔ اب زیادہ معاوضے کی پیشکش کے ساتھ کچھ اور طرح کے اشتہارات میں کام کی آفر ہونے لگی جس میں لباس میں جدت اور بالوں کا اسٹائل ماڈرن ہونے کے ساتھ ساتھ فیشن کے تقاضوں کو بھی پورا کرنا لازم تھا۔ ادھر میں کشمکش میں تھی، ادھر سادہ قسم کے اشتہارات میں آنے پر بھی لوگوں نے ہلہ بول دیا تھا، خاص طور پر ہمارے اپنے قریبی رشتے دار اعتراض کرنے لگے کہ حافظ صاحب کی دختر نیک اختر یہ کس راہ پر چل نکلی ہے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب فن اور فنکارہ کا کوئی تصور نہ تھا۔ ماڈلنگ میں کام کرنے والی خواتین اور لڑکیوں کو اچھا نہ جانا جاتا تھا۔ نیوز کاسٹرز لڑکیوں کو بھی اداکارہ کہا جاتا تھا۔ خاص طور پر جس طبقے سے میرا تعلق تھا اور جس جگہ ہمارا گھر تھا، وہاں ماڈلنگ ایک جرم تھا جو مجھ سی یتیم اور بے سہارا کے لیے ناقابل معافی تھا۔ پاس پڑوس سے صدائیں آنے لگیں۔ یہ کیا ہورہا ہے، جوان لڑکی کیسے اوٹ پٹانگ کپڑے پہن کر ٹی وی پر آنے لگی ہے۔ آج باپ زندہ ہوتا تو بیٹی کی آزاد خیالی پر خودکشی کرلیتا یا پھر اس کو شوٹ کردیتا۔
میں نے اپنی خوشی سے ماڈلنگ کے پیشے کو نہیں اپنایا تھا۔ اچھی صورت اور موزوں قدکاٹھ کی وجہ سے انہوں نے مجھے منتخب کیا اور میں نے یہ سوچ کر پہلا اشتہار قبول کیا تھا کہ آگے چل کر جب اچھی نوکری مل جائے گی تو یہ کام چھوڑ دوں گی۔ مجھے شوبزنس میں جانے کا شوق نہ تھا، خودنمائی کا بھی شوق قطعی نہ تھا۔ میری مجبوری یہ تھی کہ گھر کا چولہا ٹھنڈا پڑا تھا۔ جب میں نے اس دنیا میں پہلا قدم رکھا اور اقبال بھائی کی تسلی نے ہمت بندھائی۔ وہ میرا بہت خیال رکھتے تھے۔ مجھے اس کام سے ڈر نہ لگا تھا تاہم اپنے اردگرد کے ماحول اور سماج سے بغاوت کرنا، دل گردے کا کام تھا۔ جوں جوں لوگوں کو پتا چلتا جا رہا تھا میں پریشانیوں کے منجدھار میں پھنستی جارہی تھی۔
اماں کو پتا چلا تو وہ دنگ رہ گئیں۔ ایک روز پڑوس میں بیٹھی تھیں۔ ان کا ٹی وی کھلا تھا کہ وہ اشتہار چل گیا جس میں، میں نے ماڈلنگ کی تھی۔ بس پھر کیا تھا ان کے سارے گھر میں شور ہوگیا۔ وہ دیکھو تحریم کو…! واہ بھئی واہ… تمہاری بیٹی نے تو بڑی اونچی اڑان بھری ہے۔ پڑوسن خالہ نے طنزیہ کہا۔ سنبھال کر رکھنا، کہیں ایسا نہ ہو کہ ٹی وی سے فلموں میں نظر آنے لگے، محلے والے جینے نہ دیں گے تمہیں۔
اماں بیچاری پریشان گھر آئیں۔ بولیں تم کہاں کام کرنے جاتی ہو۔ تمہارے تو اشتہار چل رہے ہیں۔ بڑے بھیا اس روز سے کہہ رہے تھے کہ بیٹی نہیں سنبھلتی تو اس کی شادی کردو آپا! تب بھی میں نادان نہ سمجھی مگر آج اپنی آنکھوں سے تمہیں ایک جوتے کے اشتہار میں دیکھ لیا۔ جوتوں کی نمائش کررہی تھیں تم…! اونچی ایڑی کے سینڈل پہن کر مٹک مٹک کر چل رہی تھیں۔ تم کو ذرّہ بھر بھی شرم نہ آئی۔ یہ کیسا کام ڈھونڈ لیا ہے تم نے اور مجھے بتایا بھی نہیں۔
اماں…! آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں کوئی غلط کام نہیں کررہی ہوں۔ تھوڑا سا کام ہے اور معاوضہ زیادہ ہے۔ صرف صاف ستھرے اشتہار میں کام کرنا ہی قبول کرتی ہوں۔ آپ لوگوں کی پروا نہ کریں۔ یہ کسی کے کام آتے نہیں مگر باتیں بنانے کے ماہر ہوتے ہیں۔ خاص طور پر ہمارے رشتے دار، آپ ہی بتایئے کبھی انہوں نے ہمارے برے وقت میں ایک کوڑی کی بھی مدد کی ہے پھر ان کو حق کیا پہنچتا ہے ایسی باتیں کرنے کا۔
اب کوئی چارہ نہ تھا۔ کام چھوڑ دیتی تو چولہا ٹھنڈا پڑ جاتا۔ ستارہ اور ایمان کی تعلیم بھی ادھوری رہ
جاتی۔ شروع شروع میں تو محلے میں باتیں بنیں پھر وہ ہمارے گھر آنے اور طرح طرح کے سوالات کرنے لگیں۔ اشتہار کیسے بناتے ہیں… ٹی وی میں کیسے آتے ہیں، کتنے پیسے ملتے ہیں۔ وہاں لوگ تنگ تو نہیں کرتے وغیرہ وغیرہ۔
کچھ مجھے دیکھتے ہی منہ بنا لیتیں کہ وہ دیکھو آزاد خیال لڑکی اب اشتہاروں تک جا پہنچی ہے۔ غیر مردوں کے ساتھ آتی جاتی ہے۔ بے پردہ ہوگئی ہے، بے لحاظ کہیں کی۔ میں ایسی باتوں کو ایک کان سے سنتی، دوسرے سے اڑا دیتی مگر اماں بیچاری بجھ کر رہ جاتیں۔ ان کو دکھ ہوتا آہ بھر کر کہتیں۔ اگر کچھ اور دن کوئی اور نوکری ڈھونڈتی تو مل ہی جاتی، کم ازکم زمانے کی ایسی باتیں تو مجھے نہ سننی پڑتیں۔ تو… تو آزاد ہوگئی، اب تیری چھوٹی بہنوں کا کیا ہوگا، ان سے کون شادی کرے گا۔
چند دن کی پریشانی تھی۔ اب تو میں شکر ادا کرنے لگی کہ اچھا ہوا شوبز میں آگئی۔ چھوٹی موٹی نوکری مل بھی جاتی تو کیا معاوضہ ملتا۔ کیسے بہنیں پڑھ پاتیں۔ اتنی مہنگائی میں گزارہ کیونکر ہوتا اور اب ٹی وی ڈراموں میں شرکت کا بھی موقع مل گیا تھا۔ ہر جگہ جانی اور پہچانی جانے لگی۔ میرے بہت سے کام آسانی سے ہوجاتے تھے۔ بہن، بھائی کے اسکول جاتی، استانیاں اور اساتذہ میرے اردگرد جمع ہوجاتے، طالبات آٹوگراف لینے دوڑتیں۔ جہاں جاتی تھی، لوگ پہچان کر پذیرائی کرنے لگتے۔ میرے پاس آکر طرح طرح کے سوالات کرنے لگتے۔ ٹی وی پروڈیوسرز سے واقفیت بڑھی۔ ڈراموں میں کام ملنے لگا۔ معاشی حالات خوب تر ہوتے گئے۔ شوبز میں ایک حلقۂ احباب بنا تو ان لوگوں نے میرے گھر بھی آنا جانا شروع کردیا۔ ان میں خواتین کے ساتھ مرد حضرات بھی ہوتے تھے۔ وہ میرے ساتھی تھے۔ ہم ٹی وی پروگراموں میں حصہ لیتے اور دوستوں کی طرح ایک دوسرے کی خوشیوں اور دکھوں میں شریک ہوتے تھے۔
ہمارے محلے کے تقریباً تمام لوگ دقیانوسی قسم کے تھے۔ ان کو میرے گھر پر مردوں کا آنا جانا کھلتا تھا۔ جب بھی میرے ساتھ کام کرنے والے ساتھی آجاتے، ان کا منہ بن جاتا۔ وہ لوگ گاڑیوں پر آتے۔ جب ان کی گاڑیاں میرے دروازے کے سامنے کھڑی ہوتیں، محلے والوں کو تکلیف شروع ہوجاتی۔ وہ ناک بھوں چڑھانے لگتے۔
جلد ہی انہوں نے کہنا شروع کردیا کہ ان کے گھر غیر مرد آتے ہیں، یہ بہت نامناسب بات ہے۔ یہ لڑکی جانے کدھر جارہی ہے۔ ماں کو تو گردانتی نہیں ہے۔ کمانے کیا لگی ہے، کسی کو خاطر میں نہیں لاتی۔ رشتے داروں نے ان لوگوں سے رشتے ختم کردیئے ہیں۔ میں نے اپنے کام سے کام رکھا۔ اتنی مصروف رہتی تھی کہ محلے میں آنا جانا باقی نہ رہا۔ مجھے اب کسی سے کیا لینا دینا تھا۔ صفِ اوّل کے آرٹسٹوں میں جگہ بنانا چاہتی تھی۔ سوچا جو جیسا کہے، کہتا رہے، میری صحت پر کیا اثر پڑتا ہے۔ اماں البتہ تنہا تنہا سی ہوگئی تھیں۔ محلے والیوں نے میل جول بند کردیا تھا کہ اس کی لڑکی ماڈل گرل بن گئی ہے۔
ایک روز محلے کے دو تین شرفا مل کر آئے اور اماں سے بات کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ انہوں نے ان کو ڈرائنگ روم میں بٹھا دیا اور آنے کا مقصد دریافت کیا۔ وہ بولے ہم کو اب آپ کے یہاں رہنے پر اعتراض ہے، کہیں اور مکان لے لیں تو بہتر ہے۔ آپ بیوہ خاتون ہیں اور بچیاں غیر شادی شدہ ہیں، وہ جوان ہیں۔ آپ کے گھر غیر لوگوں کا آنا جانا ہم سے برداشت نہیں ہوتا۔ امی نے سمجھایا۔ بھائیو…! میرے گھرانے کی شرافت
پر بات نہ کریں، سب جانتے ہیں کہ ہم یہاں مدت سے رہتے ہیں اور کیسے لوگ ہیں۔ میری بچی کی ملازمت مجبوری ہے، وہ اشتہار کی کمپنی میں کام کرتی ہے تو وہ لوگ کام کے سلسلے میں آتے جاتے ہیں۔ وہ بھی شریف لوگ ہیں۔ آپ خواہ مخواہ کسی کو اچھا یا برا کیسے کہہ سکتے ہیں۔ ہم کو کچھ وقت چاہئے، کوئی موزوں مکان کا سودا ہوگیا تو ہم بے شک یہ مکان بیچ کر چلے جائیں گے۔ بہن! آپ کی بات صحیح ہے۔ آنا جانا کس گھر میں نہیں ہوتا، آپ کی بچی کا تعلق شوبز سے ہے تو اس شعبے سے متعلق لوگ تو آئیں گے ہی۔ ہم کو اعتراض اس وجہ سے ہے کہ آپ کے گھر میں کوئی مرد نہیں ہے اور بچیاں جوان ہیں۔ امی جان کو اس روز بہت صدمہ ہوا۔ انہوں نے مجھ سے کہا۔ بیٹی! اب تمہارا کافی نام ہوچکا ہے، تم اپنے شعبے کو نہیں چھوڑ سکتیں لیکن یہ بات سوچو آج انہوں نے طریقے سے بات کی ہے، کل کسی اور طرح پیش آئیں گے۔ میں ایک بیوہ عورت کیونکر سارے محلے والوں کا مقابلہ کر پائوں گی۔ میں ان کی مخالفت مول نہیں لے سکتی۔ بہتر ہے ہم یہ گھر فروخت کرکے کسی اور جگہ چلے جائیں۔
ان دنوں دل کی عجیب حالت تھی۔ میں کوئی جرم نہ کرکے بھی احساس جرم میں مبتلا کردی گئی تھی۔ اب اگر کوئی رائٹر یا پروڈیوسر یا پھر ساتھی فنکار آجاتا تو عجب سے کرب میں مبتلا ہوجاتی، آنے والا بھی محسوس کرتا تھا۔ ایک دن جبکہ میں گھر سے باہر تھی، ایک ڈرامہ نویس آئے۔ انہوں نے امی کو پریشان دیکھ کر سوال کیا۔ آنٹی! آپ کیوں پریشان ہیں۔ امی نے ان کو ساری بات بتا کر کہا۔ بیٹا…! یہ مکان بکوا دیں، کسی اور جگہ گھر خرید لیں گے۔ وہ بولے۔ آنٹی! یہ سستا جائے گا اور دوسرا گھر مہنگا ملے گا یا پھر کسی دور کی جگہ پر آپ کی بچیوں کے ساتھ رہنا دشوار ہوگا۔ بہرحال میں آپ کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کروں گا۔ ان کا نام رضا تھا۔ میں کافی دنوں سے محسوس کررہی تھی کہ رضا مجھ میں غیر معمولی دلچسپی لے رہے ہیں۔ ہمارا مسئلہ جان کر جب وہ دوبارہ آئے تو امی سے میرے رشتے کی بات کی اور یوں میری شادی رضا سے ہوگئی۔ انہوں نے ہمیں بہت سہارا دیا۔ میرے خاندان کو سپورٹ کیا، بہنوں کی شادیوں میں بہت بڑا کردار ادا کیا کہ وہ اچھے گھروں میں بیاہی گئیں۔ میری والدہ کی زندگی میں ایک بیٹے کی جو کمی تھی، وہ رضا نے داماد بن کر پوری کردی۔ مجھے صفِ اوّل کی فنکارہ کا درجہ بھی انہی کی کاوشوں سے ملا۔
آج والدہ حیات نہیں ہیں، بہنیں اپنے گھروں میں آباد ہیں۔ میں نے بھی عرصہ ہوا ٹی وی اور شوبز کی دنیا کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ ہماری اپنی ڈرامہ پروڈکشن کمپنی ہے اور میں رضا کے ہمراہ خوش و خرم زندگی بسر کررہی ہوں۔ صد شکر کہ میں پہلے بھی نیک نام تھی، آج بھی نیک نام ہوں۔ اللہ تعالیٰ دکھ کے بعد سکھ دیتا ہے بشرطیکہ انسان ثابت قدم رہے۔ (ت… کراچی)

Latest Posts

Related POSTS