آج جب رمشا کے پاگل خانے جانے کی اطلاع ملی تو میرا دل ڈوب گیا۔ ایک بار قسم کھائی تھی کہ اپنی اس خالہ زاد بہن سے کبھی نہ ملوں گی مگر آج خود اس قسم کو توڑ دیا اور اس سے ملنے کو بے قرار ہوگئی ۔ بہرحال یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب ہم گوجرانوالہ کے ایک گاؤں میں مقیم تھے تھے میری خالہ ، امی سے دو برس چھوٹی تھیں اور نام شاہانہ تھا۔ ان کے شوہر کو عرصہ سے ٹی بی کا مرض لاحق تھا۔ یہ متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ رفته رفته خالو کی صحت جواب دے گئی اور وہ اس روگ کے باعث کام کاج سے محروم ہو گئے تھے۔ وہ سارا دن بستر پر پڑے رہتے ۔ بیوی اور بچیاں خدمت کرتیں۔ ذریعہ آمدنی کوئی نہ رہا کہ کنبے کا سربراہ تو علیل تھا۔ چار بچے تھے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ان کی ذمہ داری بھی خالہ شاہانہ کے ناتواں کندھوں پرتھی۔ حالات ایسے ہو گئے کہ چولہا ٹھنڈا رہنے لگا تب خالہ جان لوگوں کے گھروں میں محنت مزدوری کرنے نکلیں، کسی کے گھر کی رضائیاں سیتیں اور کسی کا اناج پھکتیں، کسی کے ملبوسات سلائی کرنے کو لاتیں، غرض اس طرح وہ اپنے بچوں کی ضروریات پوری کرنے لگیں۔ اس قلیل آمدنی میں بیمار شوہر کا علاج معالجہ لازم تھا۔ ان کو پریشان دیکھ کر امی جان کا دل کڑھتا، بہانے بہانے جاتیں اور کچھ نہ کچھ سوغات دے آتیں تا کہ خالہ شاہانہ کی مدد ہو جائے جس پر خالہ، امی کی مشکور رہتی تھیں کہ برے وقت میں اپنے ہی کام آتے ہیں۔ انہی دنوں بڑی بیٹی رمشا نے مڈل کا امتحان پاس کیا تھا۔ وہ گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول جانا چاہتی تھی مگر حالات کی وجہ سے تعلیم کو خیرباد کہنا پڑا۔ تب ہی پڑوسن کی وساطت سے اسے ایک فیکٹری میں ملازمت مل گئی۔ رمشا ان دنوں بمشکل پندرہ سولہ برس کی تھی جب وہ پہلی بار فیکٹری میں کام کرنے گئی۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ پندرہ سولہ برس کی کم سن بچی میں کیا عقل ہوتی ہے۔ بے شک وہ ذہین تھی مگر تجربہ کار نہ تھی۔ زمانے کی اونچ نیچ کو نہیں سمجھتی تھی۔ تب ہی بہک گئی۔ بہن بھائیوں سے کم مشکل تھی ۔ وہ صرف قبول صورت تھی جبکہ خالہ جان کے باقی تینوں بچے خوبصورت اور گورے چٹے تھے۔ خدا جانے شاہانہ کس پر گئی تھی۔ رنگت سانولی مگر قد کاٹھ خوب شاندار تھا۔ اس کو بچپن سے یہی کمپلیکس تھا کہ وہ خوبصورت نہیں ہے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ خود کو بنا سنوار کر رکھتی اور شوخ رنگ کے لباس پہنتی تھی تا کہ نمایاں نظر آئے۔ رشتے دارلڑکیوں میں اسے فیشن ایبل سمجھا جاتا تھا۔ غربت کے باوجود وہ غریب گھر کی نہیں لگتی تھی۔ جس فیکٹری میں کام کرتی تھی ، وہ گھر سے ایک میل کے فاصلے پر تھی۔ یہ فاصلہ وہ پیدل ہی طے کرتی تھی۔ تینوں بہن بھائی چھوٹے تھے اور سرکاری اسکول میں زیر تعلیم تھے۔ کچھ لڑکیوں کو گھریلو مسائل کا کم عمری سے احساس ہو جاتا ہے۔ رمشا بھی چاہتی تھی کہ اپنی آمدنی سے گھر کے مسائل کو سنبھال لے اور غربت کے عذاب سے نجات پائے۔ محنت مشقت کے باوجود ماں بیٹی کی قلیل آمدنی سے گھر کا گزارہ اچھی طرح نہیں چل پا رہا تھا اور رمشا اس فکر میں کھلی جارہی تھی کہ کسی طور اوور ٹائم وغیرہ کر کے آمدنی کو بڑھائے تا کہ بیمار باپ کو وقت پر دوا دارو کی سہولت حاصل ہو جائے۔ فیکٹری میں ایک شخص حسنین نامی کام کرتا تھا- جس کی عمر اٹھائیس سال کے لگ بھگ ہو گی۔ وہ کافی خوبصورت، اونچا لمبا نوجوان تھا۔ ورکرز کے کام کی نگرانی اسی کی ذمےتھی۔ رمشا بھی اس کے انڈر کام کرتی تھی۔ چونکہ وہ ایک پرکشش اور محنتی ورکر تھی لہذا حسنین اس کو دوسری ورکر لڑکیوں پر ترجیح دیتا تھا۔ یوں دونوں کا ایک ذہنی رشتہ قائم ہو گیا جو بات حسنین سمجھاتا ، دوسروں سے پہلے رمشا سمجھ جاتی۔ ہوتے ہوتے دونوں میں اپنائیت بڑھتی گئی۔ ایک دن رمشا نے حسنین کو اپنے مسائل سے آگاہ کر دیا اور استدعا کی کہ وہ اس کو فیکٹری میں اوور ٹائم ، دلوا دے تا کہ آمدنی مزید بہتر ہو جائے حسنین نے وعدہ کیا کہ وہ منیجر سے بات کرے گا۔ یوں کوشش کرنے سے رمشا کو اوور ٹائم تو مل گیا مگر اب ڈیوٹی کے اختتام پر رات ہو جاتی تو گھرواپس لوٹنے کا مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ وہ اکیلی رات کے وقت گھر جانے سے ڈرتی تھی، اس نے اپنے خوف کا ذکر حسنین سے کیا تو وہ بولا۔ میں بھی اسی ٹائم چھٹی کر کے گھر جاتا ہوں اور میرے راستے میں تمہارا گھر ہے۔ میں تم کو روز گھر چھوڑ دیا کروں گا۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں ویسے بھی رمشاء حسنین کو پسند کرتی تھی، اس نے ہامی بھر لی۔ دونوں کو روز به وقت چھٹی ایک ساتھ فیکٹری سے نکلتے۔ حسنین کبھی موٹر سائیکل پر اور بھی پیدل رمشا کو گھر چھوڑنے جاتا ۔
اس بات پر خالہ کو تو اعتراض نہیں ہوا لیکن کچھ پڑوسیوں کو اعترض ضرور تھا اور رشتہ دار بھی چیں بہ چیں تھے، جن میں میرے والدین بھی شامل تھے۔ ان کو اعتراض تھا کہ رمشا ایک غیر لڑکے کے ساتھ کیوں موٹرسائیکل پر گھر آتی ہے۔ بہتر ہے کہ وہ یہ ڈیوٹی نہ کرے اور وقت پر گھر آ جایا کرے جبکہ رمشا کا کہنا تھا کہ اس کے گھریلو مسائل کا حل تو اسی کو نکالنا ہے۔ لوگ اعتراض کرنا جانتے ہیں مگر مدد کرنا نہیں جانتے اور اگر کوئی مدد کرنا چاہے تو اس کو نشانہ بنا دیتے ہیں لہذا اسے کسی کی پروا نہیں ہے کیونکہ حسنین ایک اچھا انسان ہے اور فیکٹری میں اس کا سپروائزر ہے۔ اگر اس نے برائی کرنی ہوگی تو کیا فیکٹری میں کوئی اس کو روک سکے گا بڑی باتیں ہوئیں مگر رمشا نے ہر کسی کے اعتراض اور بدگمانی کو پس پشت ڈال دیا کیونکہ اس کو اپنے کنبے کے دن بدلنے کا جنون تھا جو کسمپرسی کی زندگی گزار رہا تھا جبکہ باقی رشتے دار کھاتے پیتے اور خوشحال تھے۔ ان کی خوشحالی اسے احساس کمتری کے سمندر میں دھکیل دیتی تھی۔ جب دو جوان سال فرد ملتے ہیں تو آپس میں اپنائیت لازم ہو جاتی ہے۔ مخالف جنس کی صورت میں اپنائیت کوئی دوسرا رخ بھی اختیار کر سکتی ہے۔ رمشا اپنے سپروائزر کو گھر کا حال احوال بتاتی تو آزردہ بھی ہو جاتی تھی۔ اس کی آزردگی حسنین کا دل گداز کر دیا کرتی تھی۔ یوں وہ اس کا اور زیادہ خیال کرنے لگا۔ ادھر رمشا کو اس شخص کا حسن اخلاق ہی نہیں ، گورا رنگ اور دلکش نقوش پسند تھے کیونکہ وہ حسن پرست تھی۔ وہ خود بچپن سے احساس کمتری کا شکار تھی ۔ تب ہی خوبصورت لوگ اس کی کمزوری تھے۔ خدا جانے کیوں میری اس خالہ زاد کو گمان تھا کہ وہ خوبصورت نہیں ہے حالانکہ وہ لاکھوں لڑکیوں سے اچھی تھی۔ بڑی بڑی آنکھیں، ستواں ناک اور سروقد دبلی پتلی رمشا جب چلتی تھی تو کوئی فیشن ماڈل معلوم ہوتی تھی۔ ایک دن وہ موڑ آگیا جب رمشا اور حسنین ایک دوسرے کے بغیر نہ رہ سکتے تھے۔ وہ گھر میں خالو جان کی عیادت کے بہانے آجاتا اور ان کو دوائیں دے جاتا تھا۔ جس کی وجہ سے خالہ جان بھی اس کی عزت کرنے لگی تھیں۔ بہرحال جب ان کی دوستی محبت میں بدلنے لگی تو یہ شادی کے خواب دیکھنے لگے۔ ایک دن موقع دیکھ کر رمشا نے اپنے گھر والوں سے بات کی۔ پہلے تو والدین خفا ہوئے مگر جب کوئی دوسرا مناسب رشتہ نہ ملا تو حسنین کے رشتے پر غور کیا۔ بات چیت ہونے لگی۔ حسنین کے گھر والے رمشا کو دیکھنے آئے تو منگنی کی تاریخ دے کر چلے گئے ۔ اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی کیونکہ اس کی زندگی کی آرزو پوری ہورہی تھی۔ وہ بہت خوش تھی ۔ اچانک ایک دن خالہ جان نے سوچا کہ حسنین کے گھر جائیں تا کہ شادی کے بارے میں معاملات طے کریں ۔ انہوں نے امی سے بات کی اور دونوں وہاں چلی گئیں۔ اس روز حسنین فیکٹری سے چھٹی پر تھا۔ جونہی خالہ اور امی اس کے گھر کے اندر داخل ہوئیں، ان کے ارمانوں کا جنازہ نکل گیا۔ حسنین صحن میں جھولے پر نشے میں چور پڑا تھا اور صحن میں دو عدد ننگ دھڑنگ بچے گھوم رہے تھے جبکہ اس کی بیوی سر پر پٹی باندھے چولہے کے پاس بیٹھی کچھ پکا رہی تھی ۔ حسنین کی ماں موجود نہ تھی۔ امی نے ان کا پوچھا تو اس عورت نے بتایا میری ساس لڑ کر بیٹی کے گھر چلی گئی ہے کیونکہ وہ مجھے گھر لانا نہ چاہتی تھی۔ اس کا اصرار ہے کہ حسنین مجھے طلاق دے لیکن میں طلاق نہیں لینا چاہتی کیونکہ میں بچوں کی ماں ہوں۔ انہوں نے جھگڑا کر کے مجھے کو گھر سے نکال دیا تھا۔ بڑی مشکل سے میرے والدین ہاتھ پاؤں جوڑ کر مجھے چھوڑ گئے ہیں۔
امی اور خالہ حیرت سے اس عورت کا منہ تک رہی تھیں۔ وہ اسی وقت پلٹ آئیں اور منگنی توڑ دی۔ رمشا نے احوال سنا تو اس کے تمام خواب چکنا چور ہو گئے۔ وہ فیکٹری جا کر حسنین سے خوب لڑی اور پھر خاموشی اختیار کرلی۔ اب وہ ہنستی تھی اور نہ کسی سے بات کرتی تھی۔ غم صم رہتی تھی ، کھانا پینا بھی برائے نام رہ گیا۔ رنگت پیلی پڑتی جارہی تھی ۔ در حقیقت اس کو حسنین سے اس قدر دھوکے کی توقع نہ تھی۔ اس نے خود کو کنوارہ ظاہر کر کے رمشا کو رام کیا اور پھر بیوی کو جھگڑا کر کے گھر سے چلتا کر دیا۔ اس کا ارادہ بیوی کو طلاق دینے کا تھا لیکن کچھ رشتے داروں نے بیچ میں پڑ کر معاملہ رفع دفع کرا دیا تا ہم رمشا کے ساتھ دوسری شادی نہ کر سکنے پر وہ بھی صدمے سے نڈھال تھا۔ رد عمل کے طور پر اپنی بیوی سے اور برا سلوک کرتا تھا۔ رمشا کا حال دیکھ کر اس کی ماں نے سوچا کہ اس کی شادی کر دی جائے۔ خالہ جان بیچاری تو اس واقعہ سے بے حد رنجیدہ اور حواس باختہ ہو رہی تھیں۔ بار بار آنسو ان کی آنکھوں سے ٹپک پڑتے تھے۔ بہن کو رنجیدہ دیکھ کر امی کا دل پسیج گیا۔ خالہ جان سے بھائی کاشف کے لئے بات کر دی کہ غیروں سے اپنے بھلے ہوتے ہیں ہم بہنیں ہیں، آپس میں ایک دوسرے کے دکھ سکھ کی شریک ہو جائیں گی- خالہ تو دل سے چاہتی تھیں لیکن رمشا نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ کاشف خوبصورت نہیں ہے اور اس کا قد بھی چھوٹا ہے جبکہ مجھے ایسے جیون ساتھی کی آرزو ہے جس کا قد لمبا ہو اور وہ خوبصورت بھی ہو۔ ہم لوگ کیونکہ گاؤں میں رہتے تھے لہذا رمشا کو یہ بھی اعتراض تھا کہ ہم میں شہری خوبو کم ہے اور پینڈو ٹائپ زیادہ ہیں حالانکہ میرے بھائی جان کاشف سعودیہ میں تھے اور اچھی جاب کر رہے تھے اور ہمارے گھر کے حالات بھی بہت اچھے تھے۔ بلاشبہ نادان رمشا کو اس سے بہتر رشتہ نہیں مل سکتا تھا۔ امی کو رمشا کے انکار کا بہت دکھ ہوا اور اس سے زیادہ کاشف بھائی مایوس ہوئے کیونکہ انہوں نے خالہ کی مصیبت بھری زندگی دیکھتے ہوئے ان کی مدد کا ذہن بنا لیا تھا۔ یوں رمشا ان کو بھی اچھی لگتی تھی۔ رمشا ان دنوں جوانی کے نشے میں چور تھی، اسے اپنے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ کچھ عرصے بعد عامر نامی ایک شخص کا رشتہ آ گیا۔ وہ میری خالہ زاد سے دس سال بڑا تھا لیکن اس میں شک نہیں کہ کافی خوبصورت تھا، بالکل فلمی ہیرو لگتا تھا۔ نیلی آنکھیں ، گورا رنگ اور قد چھ فٹ سے اوپر تھا۔ رمشا تو اس کی ایک جھلک دیکھ کر مرمٹی عمروں کے فرق کا بھی خیال نہیں کیا۔ اور ہاں کہہ دی۔ خالو قریب المرگ تھے۔ خالہ نے سوچا ایک فرض سے تو سبکدوش ہو جاؤں، آگے اللہ مالک ہے۔ عامر کی تین بہنیں شادی شدہ تھیں اور ماں فوت ہو چکی تھی جبکہ باپ ٹھیک آدمی نہ تھا۔ وہ شراب کا رسیا اور جوئے کا عادی تھا۔ شادی کے بعد چند ماہ آرام سے گزرے، پھر مسائل کا دروازہ کھل گیا۔ مکان اتنا بڑا تھا کہ ایک حصہ میں یہ رہتے تھے اور باقی کرایہ پراٹھایا ہوا تھا۔ اس کرائے سے عامر اور رمشا کا اچھا گزارہ ہو جاتا تھا۔ جب رمشا کے سسر نے جوئے میں مکان ہار دیا تو یہ سب لوگ بے گھر ہو گئے اور کرائے کے گھر میں رہنے لگے۔ رمشا نے اس بربادی سے بھی سمجھوتہ کرلیا کیونکہ وہ زندگی کے نشیب وفراز بچپن سے سہتی آئی تھی۔ زندگی میں اب تک دکھوں کے سوا کچھ نہیں ملا تھا۔ اسی دوران ان کے گھر بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام اقصیٰ رکھا گیا۔ اب اخراجات بڑھ گئے جبکہ عامر شروع سے ہی نکما تھا۔ یہ بہت ہی ذلت کا وقت تھا۔ بیچاری رمشا اپنی ماں کی طرح کسی کے گھر کا کام کاج کرنے لگی۔ عامر نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ اُلٹا نشہ کرنا شروع کر دیا۔ سب ہی جانتے ہیں کہ نشہ انسان کو بے حس اور بے غیرت بنا دیتا ہے۔ وہ تھوڑا بہت کمانے سے بھی رہ گیا تو مکمل بوجھ رمشا پر ڈال دیا گیا۔ ایسے حالات میں گھر آکر اسے احساس ہوا کہ کاشف بھائی سے شادی نہ کر کے کتنی بڑی غلطی کی ہے محض خوبصورت شوہر کی خواہش کے پیچھے خود کو غیر محفوظ کر لیا حالانکہ میرا بھائی بھی قبول صورت تھا مگر رمشا کے خیالوں میں تو کوئی فلمی ہیرو نما آئیڈیل بسا ہوا تھا۔ وقت گزرتے دیر نہیں لگتی۔ اسی دوران دوسری بیٹی بھی دنیا میں آگئی تو زندگی اور زیادہ کٹھن ہو گئی۔ خاله جان خود مسائل میں گھری ہوئی تھیں۔ وہ بیٹی کی مدد نہیں کرسکتی تھیں۔ اس کو اپنی مدد آپ کے تحت ہی جینا مرنا تھا اور دو بچیاں بھی پالنا تھیں۔
اب دہری ذمہ داری ہوگئی۔ وہ کام پر بھی باقائدگی سے نہیں جاسکتی تھی۔ اس وجہ سے گھریلو حالات مزید خراب ہو گئے- آفتاب، عامر کا بچپن کا دوست تھا۔ اس کا آنا جانا تھا اور وہ اپنے دوست کو بہت سمجھاتا تھا مگر وہ کسی کی نہ سنتا تھا۔ ایک روز مالک مکان گھر آیا اور زور زور سے دروازہ پیٹنے لگا۔ وہ کرائے کا مطالبہ کر رہا تا رمشا گھبرا گئی۔ وہ دروازے پر کھڑی اس سے مہلت مانگ رہی تھی۔ اسی دوران آفتاب آگیا۔ عامر گھر پر موجود نہ تھا اور رمشا کے گڑ گڑانے سے آفتاب کو افسوس ہوا۔ اس نے مالک مکان کو کرایہ دیا اور گھر سے چلا گیا۔ اب آفتاب اکثر آنے لگا۔ وہ بچیوں کو بلکتا دیکھتا کر رنجیدہ ہو جاتا۔ ان کے لئے دودھ کے ڈبے، بسکٹ اورکبھی گھر کا سودا سلف اور روپیہ پیسہ دے جاتا۔ یوں عامر اور رمشا اس کے احسان تلے آگئے ۔ عامر دن بہ دن نشے میں ڈوبتا گیا۔ زندگی کے تلخ حقائق سے فرار کی خاطر وہ ہیروئن پیتا اور ہر ایک سے قرض کی بھیک مانگتا، کام کاج بالکل چھوڑ دیا تھا، جب کوئی قرض کی واپسی کا مطالبہ کرتا تو یہ گھر سے بھاگ جاتا۔ ایک روز ایک سود خور نے اپنی رقم کا مطالبہ کیا تو عامر مجبور ہو گیا۔ کہنے لگا رمشا سے لے لو۔ اگر نہ دے تو اسے اپنے ساتھ لے جاؤ۔ تمہارے پیسے پورے ہو جائیں گے۔ وہ بدمعاش گھر کے اندر آگیا۔ رمشا سے کہا، رقم دو یا میرے ساتھ چلو کیونکہ تیرے شوہر نے اجازت دے دی ہے۔ بد معاش کے بدلتے تیور اور سرخ آنکھیں دیکھ کر وہ ڈرگئی اور گھر سے نکل کر اپنی عزت بچائی ۔ وہ سرپٹ گلی میں بھاگ رہی تھی کہ سامنے آتے ہوئے شخص سے ٹکراگئی اور وہ شخص آفتاب تھا جو اس کے گھر آ رہا تھا۔ رمشا کو یوں دیوانہ وار گلی میں بھاگتے دیکھ کر حیران ہوا۔ روک کر پوچھا کہ کیا بات ہے، کیا ہوا ہے تم کو ؟ رمشا نے روتے ہوئے بات بتائی۔ آفتاب آگ بگولہ ہو گیا۔ وہ عامر کی طرف گیا مگر وہ جاچکا تھا۔ اس واقعہ کے بعد ایک ماہ تک وہ گھر نہ آیا۔ بڑی تلاش کے بعد ملا تو آفتاب نے اس پر لعنت ملامت کی جس پر بولا رمشا میری بیوی ہے۔ میں اپنی بیوی کا سودا کر رہا تھا، تیری بیوی کا نہیں، پھر تو کیوں اتنا جزبز ہے؟ اس بات پر آفتاب نے اس کے منہ پر تھپڑ مار دیا اور کہا۔ بے غیرت کسی غیر مرد کو اپنی عورت پیش کرتے ہوئے تجھ کو شرم نہیں آتی ۔ اس طرح یہ دوستی دشمنی میں بدل گئی۔ اس واقعہ کے بعد رمشا نے گھر چھوڑ دیا اور وہ آفتاب کی پناہ میں چلی گئی۔ اس نے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کیا لیکن جب عامر نے طلاق نہ دی تو رمشا نے آفتاب کے ذریعے کورٹ سے طلاق لے لی۔ اس پر عامر نے ہر جگہ یہ مشہور کر دیا کہ آفتاب اور رمشا کے درمیان ناجائز تعلقات ہیں۔ دونوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ بدنامی تو ہو چکی ، اب کیوں نہ ہم کوئی فیصلہ کرلیں۔ تمہارے بچوں کو اور تمہیں سہارے کی ضرورت ہے۔ ہم نکاح کرلیتے ہیں تو دنیا کی زبانیں خاموش ہو جائیں گی۔ آفتاب کی بات مان کر رمشا نے اس کے ساتھ نکاح کر لیا کیونکہ اس کے سوا دونوں کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ رمشا کو ماں کی آغوش کے بعد کوئی دوسری آغوش نہ ملی۔ وہ سسک سسک کر زندگی گزار رہی تھی آفتاب کے گھر آکر اس کو سکون ملا مگر وہ عامر سے ابھی تک خوفزدہ تھی کہ اس کی دو بیٹیاں ان کے پاس تھیں اور وہ برے لوگوں میں اٹھنے بیٹھنے لگا تھا۔ کئی بار اس نے بچیوں کو اٹھا لے جانے کی دھمکیاں دی تھیں مگر قدرت نے اس خوف کو ہمیشہ کیلئے صف ہستی سے یوں نابود کیا کہ عامر کے ایک جرائم پیشہ گروہ سے مراسم ہو گئے اور وہ اس گینگ میں ملوث ڈکیتی میں مارا گیا، تاہم کچھ عرصہ تک یہ الزام بھی آفتاب اور رمشا کے سر رہا کہ انہوں نے اپنے رستے سے ہٹانے کے لئے اسے قتل کرایا ہے۔ رمشا سے شادی کے بعد آفتاب کے گھر والوں نے اس کے ساتھ قطع تعلق کر لیا۔ خرچہ وغیرہ دینا بند کر دیا اور بھائیوں نے اس کو کاروبار اور دکان سے نکال دیا کیونکہ وہ اس کی شادی اپنے خاندان کی لڑکی سے کرانا چاہتے تھے۔ یہ اس کی بچپن کی منگیتر تھی اور ماں کی بھانجی تھی۔ اس صدمے سے ماں فوت ہو گئی تو ہر ایک نے کہا کہ رمشا بری منحوس ہے، اس کی وجہ سے ماں فوت ہوئی ہے۔ ایک مرتبہ پھر وہ حالات کے دوراہے پر کھڑی تھی ۔ فریاد کرتی تو کس سے، ماں بے بسی کی تصویر تھی، باپ کو ٹی بی نکل گئی۔ بہن بھائی اس کے دکھ بانٹنے کے قابل نہ تھے۔ اس جہاں میں اس کا کوئی نہ تھا سوائے امی جان اور کاشف بھائی کے، جن کو وہ نخوت بھرے دنوں میں ٹھکرا چکی تھی۔ تب ہی میں نے بھی قسم کھائی تھی کہ اس مغرور لڑکی سے اب کبھی نہ ملوں گی ۔ رمشا نے اپنے لب سی لیئے اور اپنا ہر معاملہ خدا پر چھوڑ دیا مگر شاید کچھ لوگ بری قسمت لے کر اس دنیا میں آتے ہیں۔ رفتہ رفتہ حالات خراب ہونے لگے۔ آفتاب کا سب سرمایہ بھائیوں کے قبضے میں تھا، وہ کوئی بزنس بھی نہیں کر سکتا تھا اور بھائیوں کی یہی شرط تھی کہ رمشا کوطلاق دو پھر روپیہ دیں گے۔ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق رمشا اور آفتاب آپس میں جھگڑنے لگے۔ اب وہ خرچے کے لئے کہتی تو جواب ملتا کہ تمہاری وجہ سے میرا خرچہ بند ہوا ہے اور اس حال پر آ آگیا ہوں۔ عامر نے کبھی اس پر ہاتھ نہ اٹھایا مگر آفتاب نے یہ حد بھی کراس کر دی- وہ اسے بات بات پر مارتا، چار بچوں کی زنجیر نے رمشا کولاچار کر دیا تھا۔ آفتاب اب سوتیلے بچوں پر ظلم کرتا اور وہ کسی سے شکوہ نہ کر سکتی کیونکہ یہ کانٹے خود اس نے اپنی راہ میں بچھائے تھے، وہ ہر پل اپنی قسمت کو کوستی۔ اپنے پرائے سب ہی نے اس سے منہ موڑ لیا تھا۔ ان کے نزدیک وہ شوہر کی قاتل، ایک بد چلن عورت تھی جو محبوب کی خاطر گھر چھوڑ گئی تھی۔
وہ گہری دلدل میں پھنس گئی تھی ، نکلنے کا کوئی رستہ نہ رہا تھا۔ اب رونے دھونے اور سسکیوں کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ پہلی سی ہمت بھی نہ رہی تھی کہ حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی۔ ادھر آفتاب کی اجازت نہ تھی کہ کسی سے ملے یا کسی کے گھر جائے۔ گھر کے اندر گھٹ گھٹ کر وہ ذہنی مریض بنتی جارہی تھی جب کوئی حل نہ نکلا۔ وہ بھوکی پیاسی گھر میں بستر مرگ پر پڑی موت کا انتظار کرنے لگی۔ تب ہی ایک روز خالہ شاہانہ جا کر اس کی دونوں بچیوں کو لے آئیں کیونکہ پڑوسیوں نے ان کو فون کیا تھا کہ تمہاری بیٹی اور داماد میں بہت جھگڑا ہوتا ہے لہذا بیٹی کے پہلے خاوند کی بچیاں لے جاؤ ۔ ایسا نہ ہوان بچیوں کو نقصان ہو کیونکہ یہ بھوکی پیاسی رہتی ہیں۔ آفتاب کی دو بچیاں اس کی بڑی بہن آکر لے گئی اور رمشا گھر میں اکیلی رہ گئی۔ اب اس کے رونے کی آواز آتی اور پڑوس والے سن کر افسوس کرتے ۔ رفتہ رفتہ وہ چیخنے چلانے لگی اور اس پر ہسٹریائی انداز کے دورے پڑنے لگے۔ ایک روز اس کے چیخنے چلانے سے تنگ آکر آفتاب نے اس کے سر پر کوئی سخت چیز دے ماری جس سے اس کی نظر ختم ہوگئی اور آواز بھی بند ہوگئی ۔ اب وہ ایک لاش کی طرح بستر پر پڑی آخری سانسیں گن رہی تھی ۔ ان حالات کا علم کسی طرح حسنین کو ہوا تو ایک روز وہ رمشا کو دیکھنے اس کے گھر پہنچا۔ اس وقت آفتاب گھر پر نہیں تھا۔ رمشا کی ایسی حالت دیکھ کر وہ رونے لگا اور اس نے مجھے فون کیا۔ امی جان اسی وقت کاشف بھائی کو لے کر گئیں اور شاہانہ خالہ کو بھی منا کر ساتھ لے لیا۔ سب نے ایمبولینس میں ڈالا اور اسپتال میں داخل کرا دیا۔ کچھ دن زیر علاج رہ کر وہ دیکھنے لگی مگر بہکی بہکی باتیں کرتی۔ وہ اپنے بچوں کو پکارتی اور کہتی کہ وہ مر گئے ہیں۔ ذہنی حالت ایسی تھی کہ ڈاکٹر نے اس کو ذہنی امراض کے اسپتال بھجوانے کا مشورہ دیا اور رمشا کو ذہنی امراض کے اسپتال جس کو عرف عام میں پاگل خانہ کہا جا تا تھا، بھجوا دیا گیا۔ امی روز جاتی تھیں ۔ کاشف بھائی بھی جاتے تھے اور آکر حال بتاتے تھے۔ میں رمشا کا حال سن کر دکھی ہوتی مگر جاتی نہ تھی کیونکہ قسم کھائی تھی کہ لبھی اس کی صورت نہ دیکھوں گی ۔ آخر کا امی نے کہا کہ قسم کا کفارہ ادا کرو اور رمشا کو دیکھنے جاؤ، وہ تمہیں یاد کرتی ہے۔ جب میں وہاں گئی تو اس کی حالت دیکھ کر میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی کیونکہ اس کا سر گنجا تھا اور صورت پر وحشت برس رہی تھی۔ مجھ کو پہلی نظر میں اسے دیکھ کر ڈر لگنے لگا اور میں جہاں کھڑی تھی وہیں جم کر رہ گئی، تاہم اس نے چھلانگ لگا کر مجھے آلیا اور میرے گلے سے چمٹ گئی۔ بولی راشی ڈرو نہیں میں اب بالکل ٹھیک ہوں اور ہر بات سوچ اور سمجھ سکتی ہوں۔ میری یہ حالت ان لوگوں نے کی ہے۔ شاید مجھ ایسے مریضوں کا علاج یونہی ہوتا ہے۔ تم بہت جلد مکمل طور پر اچھی ہو جاؤ گی ، پھر میں تم کو اپنے گھر لے جاؤں گی ۔ وعدہ کرو تم مجھ کو میرے بچوں سے ملاؤ گی۔ وعدہ رہا۔ میں نے اس کے بڑھے ہوئے ہا تھ کو تھام لیا، جب اس نے کہا۔ وعدہ کرو کہ روز آیا کرو گی یہ بھی وعدہ رہا ہے افسوس کہ اس کی زندگی کے دن تمام ہو چکے تھے اور میں دونوں وعدے نہ نباہ سکی ۔ ایک روز جبکہ نرس اس کو دوا کھلانے لگی، وہ اپنے بستر پر آرام سے آنکھیں موندے پڑی تھی ، لگتا تھا سورہی ہے۔ اس کو ایسی دوائیں دی جاتی تھیں جس سے وہ بھر پور نیند لے تاکہ زندگی کی تلخ یادیں اور دکھ بھلا کر جی سکے۔ نرس یہی سمجھی کہ گزشتہ رات جو دوائیں دی تھیں، یہ اسی کا اثر ہے اور رمشا ابھی تک مدہوش ہے۔ نرس نے جب کندھا ہلا کر نام پکارا تو رمشا نے کوئی جواب نہ دیا اور حرکت بھی نہ کی بلکہ اس کا سر ایک طرف لڑھک گیا جیسا کہ بے جان لوگوں کا سر ڈھلک جاتا ہے۔ نرس نے غور سے اس کے پپوٹے کھول کر دیکھے اور ڈاکٹر کو بلا لائی جس نے تصدیق کردی که رمشا زندگی کے دکھوں سے جان چھڑا کر اس ظالم دنیا سے بہت دور اگلے جہاں کو جاچکی ہے جب اس کی موت کی خبر سنی ، میں سکتے میں رہ گئی اور آنسو آنکھوں سے بہنے لگے۔ دکھ تھا تو یہ کہ اے کاش میں اسے اس کی بچیوں سے ایک بار ملا دیتی، آخری بار مگر سب ہی کہتے تھے کہ ابھی نہیں ، بچیاں ماں کو اس حال میں دیکھیں گی تو ڈر جائیں گی ، وہ ہمیشہ یہی سوچیں گی کہ ان کی ماں پاگل تھی حالانکہ رمشا جتنی بھی پاگل تھی ، وہ ایک لمحے کو بھی اپنی بچیوں کو نہ بھولی تھی۔ ہمارے وطن میں غربت کی شرح بہت بڑھ گئی ہے اور جو طبقہ عوام کو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ دراصل رمشا اور ایسے بہت سے معصوم انسانوں کا اصل قاتل وہی طبقہ ہے شاید ان لوگوں کو خوف خدا نہیں ہے کیونکہ جرائم اور ذہنی امراض کی ایک بڑی وجہ غربت بھی ہے۔ رمشا کی دو بچیاں خالہ جان کے پاس ہیں اور دو کا پتہ نہیں ، یقینا ان کو ان کے ددھیال والوں نے پالا ہوگا کیونکہ وہ بیٹیاں آفتاب سے تھیں لہذا خالہ جان نے ان سے ملنے کی کوئی کوشش نہیں کی کیونکہ وہ آفتاب سے اب کوئی واسطہ نہیں رکھنا چاہتیں۔ خدا ایسی تقدیر کسی کی نہ بنائے جیسی رمشا کی تھی۔ امی اور خالہ کہتی ہیں تو میں سوچتی ہوں کہ اگر رمشا میرے بھائی کاشف کا رشتہ قبول کر لیتی تو کیا پھر بھی اس کی تقدیر ایسی ہی ہوتی ؟