ہم چھوٹے سے تھے جب ایک روز اماں تخت سے فرش پر پائوں رکھتے ہوئے پھسل گئیں، ان کے پائوں میں چوٹ آئی۔ وہ تکلیف سے کراہ رہی تھیں، ان کو سہارا دے کر اُٹھانے والا کوئی نہ تھا۔میں ان دنوں صرف چھ سال کی تھی۔ چاہتی تھی کسی کو پکاروں کہ اماں کی مدد کو آئے۔ تبھی گلی سے دو عورتیں آتی دکھائی دیں۔ میں نے اشارے سے بلایا۔ وہ قریب آئیں تو بتایا کہ میری اماں گری پڑی ہیں، انہیں اٹھائو۔ وہ اندر آگئیں۔
کراہتی ماں کو انہوں نے سہارا دے کر اٹھایا۔ بستر پر لٹایا، پانی پلایا۔ تبھی ماں نے کہا۔ مجھے سخت چوٹ لگی ہے۔ فون اُٹھاکر دو میں اپنے شوہر کو آفس اطلاع کروں۔ وہ مجھے ڈاکٹر کے پاس لے جائیں گے۔ ان میں سے ایک جو کم عمر تھی، اس نے فون اُٹھاکر امی کو دے دیا۔میری والدہ نے ابو سے بات کی اور کہا جلدی آئیے۔ گرنے کی وجہ سے سخت چوٹ لگی ہے۔ لگتا ہے کہ ہڈی میں کہیں فریکچر ہوگیا ہے۔
فون بند کرکے وہ ان عورتوں کی طرف متوجہ ہوگئیں۔ انہوں نے بتایا کہ گلی کے نکڑ پر جو بڑا بنگلہ کالے گیٹ والا ہے، وہاں جھاڑو پونچھا کرتی ہیں اور مزید کام ڈھونڈ رہی ہیں۔ امی نے فوراً کہا، مجھے ایک کام والی کی سخت ضرورت ہے۔ میرے لیے چھوٹے بچوں کو سنبھالنا مشکل مسئلہ ہے۔ اگر کوئی ایسی عورت یا لڑکی مل جائے جو صبح سے شام تک میرے پاس رہ سکے، بچوں اور گھر کو سنبھالنے میں مدد کرے تو اچھی تنخواہ دوں گی۔ ان میں سے ایک جو بڑی عمر کی تھی، بولی۔ میری اس بیٹی کو سارے دن کے لیے اپنے پاس رکھ لو، یہ تمہارا کام کردے گی۔ کھانا پکانا بھی جانتی ہے۔
ماں نے لڑکی کی جانب دیکھا۔ اس کی موہنی صورت پر غور کئے بغیر اماں نے اس لڑکی کو فوراً رکھنا قبول کرلیا اور جو تنخواہ اس کی ماں نے مانگی، دینے کی ہامی بھرلی کیونکہ اماں کو فوراً کسی مددگار کی سخت ضرورت تھی۔ اس وقت وہ اٹھنے بیٹھنے کے قابل بھی نہ تھیں۔ میرا چھوٹا بھائی جو ابھی صرف آٹھ ماہ کا تھا، جھولے میں سورہا تھا۔ عورت نے کہا۔ بی بی میں تمہاری تکلیف دیکھ کر اپنی بیٹی آپ کے پاس چھوڑے جاتی ہوں، کل صبح سامنے والے گھر میں جب کام پر آئوں گی تو آپ کی طرف چکر لگالوں گی۔ رشیدہ کو بھی دیکھ لوں گی۔ یہ کہہ کر وہ امی کے پاس اسے چھوڑ کر چلی گئی۔ رشیدہ نے میری ماں کے سارے کام منٹوں میں کردیئے، جب تک ابو بھی گھر آگئے۔ والدہ نے کہا اس بچی کو تھوڑی دیر پہلے ملازم رکھا ہے۔ اللہ نے فرشتہ بناکر اس مشکل گھڑی میں میرے پاس بھیج دیا ورنہ منے کو جھولے سے نکال کر فیڈر بنا کر دینے والا کوئی نہ تھا۔ خیر والد صاحب نے لڑکی سمیت ہم سب کو گاڑی میں بٹھایا اور والدہ کو اسپتال لے آئے۔
ایکسرے وغیرہ ہوا، پھر امی جان کو انہوں نے ایڈمٹ کرلیا اور انہیں اسپتال چھوڑ کر ہمیں ساتھ گھر لے آئے۔ رات کو وہ لڑکی ہم تینوں بہن بھائیوں کے پاس رہی۔ صبح والد نے پھپھو کو فون کیا تو وہ حیدرآباد سے کراچی پہنچ گئیں کیونکہ والد صاحب ہم بچوں کے پاس انجان لڑکی کو تن تنہا نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔ پھپھو کے اپنے تین چھوٹے بچے تھے۔ ایک کو ساتھ لے آئی تھیں، دو کو انہوں نے اپنی نند کے گھر چھوڑ دیا تھا۔
دوپہر کو ہماری ملازمہ رشیدہ کی ماں آگئی۔ پھپھو نے شاباش دی کہ تمہاری بیٹی بہت اچھی ہے ورنہ اتنی عمر کی لڑکیاں کہاں اس طرح بچے سنبھالتی ہیں۔ اس نے بہت توجہ سے بچوں کو سنبھالا۔ رات کو فیڈر وغیرہ بناکر دیتی رہی اور صبح ناشتہ بھی بناکر دیا۔
رشیدہ کی ماں زبیدہ نے کہا۔ یہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو سنبھالتی رہی ہے۔ کم عمری سے ہی اس کو اس طرح کے کاموں کا سلیقہ آگیا ہے۔ میں کام پر جاتی تھی تو یہی گھر سنبھالتی تھی۔
تمہارا بھلا ہو۔ زبیدہ تم اس آڑے وقت میں مل گئیں ورنہ کون اپنی لڑکی کو کسی کے گھر چھوڑتا ہے۔
بی بی، میں اس گھر میں پہلی بار آئی ہوں لیکن آس پاس کے کئی گھروں میں کام کیا ہے۔ اس بلاک کے کافی گھروں سے واقف ہوں۔ رشیدہ کا باپ سوتیلا ہے اس وجہ سے میں اسے کسی اچھے گھر میں رات دن کے لیے ملازم کرانا چاہتی تھی۔ میرا شوہر نشہ کرتا ہے۔ وہ کوئی کام نہیں کرتا۔ زیادہ نشہ کرلے تو مجھے اور بچوں کو مارنے لگتا ہے۔ اس کی بدمزاجی سے میری یہ بچی گھبراتی رہتی ہے۔ اسے گھر میں سکون نہیں ملتا۔ آپ کی بھابی کو پہلی نظر دیکھ کر اندازہ کرلیا کہ اچھی خاتون ہیں۔ وہ تکلیف میں تھیں، اسی لیے یہاں چھوڑ دیا ہے۔
کچھ دیر وہ پھپھو سے باتیں کرتی رہی۔ ابو اسپتال گئے ہوئے تھے۔ واپس آکر بتایا کہ ماں کا آپریشن ہوگیا ہے۔ ٹخنے کی ہڈی میں سخت چوٹ آئی ہے۔ چلنے پھرنے کے قابل ہونے تک کچھ عرصہ لگ جائے گا۔ پھپھو ایک ہفتہ بمشکل رہ پائیں۔ ان کی نند کے فون آرہے تھے۔ تمہارے بچے پریشان ہیں، جلد آنے کی کوشش کرو۔ پھپھو کے جانے کے بعد گھر کے انتظام کا تمام دارومدار رشیدہ پر تھا۔ اس نے بڑی خوش اسلوبی سے اپنی ذمہ داری کو نبھایا۔ والدہ اس سے بہت خوش ہوئیں۔ وہ چار ماہ بعد چلنے کے قابل ہوگئیں۔ سارا دن لیٹی رہتی تھیں یا پھر ٹانگ پھیلا کر ٹیک لگالیتیں تو بیٹھ سکتی تھیں۔
کڑا وقت گزر جاتا ہے۔ امی ٹھیک ہوگئیں لیکن رشیدہ اب گھر کا لازمہ بن گئی۔ وہ ایسی تھی جیسے لنگڑے کی لاٹھی یا اندھے کی آنکھیں ہوتی ہیں۔ میری ماں کو ایسی ہی معاون کی ضرورت تھی۔ انہوں نے رشیدہ کا اتنا خیال رکھنا شروع کردیا جتنا کوئی ماں بیٹی کا رکھتی ہے اور رشیدہ بھی چھوٹی بہنوں کی طرح محبت اور توجہ سے میری اماں کا سہارا بن گئی تھی۔
اس کی ماں کو تو بس تنخواہ سے غرض تھی۔ ہر ماہ آکر بیٹی کی محنت کے روپے لے جاتی اور کہتی۔ بیگم صاحبہ چاہے اس کو تمام عمر کے لیے رکھ لو، مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ بے شک اس کی شادی اپنی مرضی سے کردینا۔ مجھے آپ پر بھروسا ہے۔ اب آپ ہی اس کی وارث ہو۔ انسان سوچتا کیا ہے اور ہوتا کیا ہے۔ ماں جس لڑکی کو اپنے لیے رحمت کا فرشتہ سمجھ رہی تھیں، معلوم نہ تھا کہ ایک دن وہی اُن کی دربدری کا سامان بنے گی۔ وقت تیزی سے گزرتا گیا، یہاں تک کہ رشیدہ کو ہمارے گھر آئے پانچ سال بیت گئے۔ لگتا تھا کہ یہ پانچ سال پانچ دن تھے جو پلک جھپکتے گزر گئے تھے۔
ایک روز اس کی ماں آئی تو کافی بیمار لگ رہی تھی۔ اس نے امی سے کہا۔ رشیدہ کا اب آپ کے سوا کوئی نہیں ہے۔ دراصل یہ چھوٹی سی تھی جب میرا خاوند اس کو کہیں سے اُٹھایا لایا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ یہ ایک ویران جگہ روتی ملی تھی لیکن مجھے شک تھا کہ وہ اس کو اغوا کرکے لایا ہے۔
اس وقت میں امید سے تھی۔ میں نے بچی کو اپنے پاس رکھ لیا۔ میرا خاوند اس کو لایا ہی اس لیے تھا کہ پہلے وہ ہماری خدمت کرے گی اور پھر جب سیانی ہوجائے گی تو اسے کسی امیر گھر میں اپنی بیٹی ظاہر کرکے رکھوا دیں گے اور اس کی تنخواہ بٹورتے رہیں گے۔ میں نے اس کو اس وقت سے پالا ہے جب یہ صرف دو سال کی تھی۔ مجھے اپنی اولاد کی طرح اس سے پیار ہے۔ اب جبکہ یہ بڑی ہوگئی ہے، ڈر ہے میرا خاوند اسے بیچ نہ ڈالے، جس سے شادی کرے گا، رقم لے گا تو بیچنا ہی ہوگیا نا… باجی میں نہ رہوں تو آپ اس کی شادی کردینا، اس کو کبھی اپنے گھر سے نہ نکالنا، کبھی بے آسرا نہ کرنا اور نہ ہی میرے خاوند کے حوالے کرنا۔
اس کے بعد زبیدہ کبھی واپس نہ آئی۔ یقیناً وہ مرگئی ہوگی ورنہ کبھی تو پلٹ کر آتی۔ امی، رشیدہ کی جوانی اور خوبصورتی سے بے نیاز بس اس سے خدمت لیے جاتی تھیں۔ رشیدہ نے میری ماں کو اتنا آرام دیا کہ وہ اس کی شادی کے بارے میں سوچنے سے کتراتی تھیں۔ ہوش جب آیا جب والد صاحب نے اس گھریلو ملازمہ سے شادی کرلی۔ تب اماں اپنی اس توہین کو برداشت نہ کرسکیں اور والد سے جھگڑ کر میکے چلی گئیں۔
میں دس سال کی ہوچکی تھی اور میری چھوٹی بہن چھ سات برس کی ہوگی۔بھائی چھوٹا تھا۔ ماں صرف اُسی کو ہمراہ لے گئیں۔ جب گھر کی نوکرانی مالکہ بن جائے تو اصل مالکہ کو صدمہ تو ہوتا ہی ہے۔ تب گھر بھی عقوبت خانہ لگتا ہے۔
اس لاغر سی لڑکی نے ہمارے گھر رہ کر کچھ ایسا رنگ روپ نکالا کہ دیکھنے والا دیکھتا رہ جاتا۔ لیکن اماں کو ہم بچوں اور گھر داری سے فرصت نہ تھی جو نظر بھر کر اس سروقامت پر غور کرلیتیں۔ وہ اسے ابھی تک وہی بے بس اور لاچار چھوکری ہی سمجھ رہی تھیں جو ان کے ٹکڑوں پر پل رہی تھی۔ اس کی نوخیزی گھر میں کیا قیامت لانے والی ہے، اس کا انہیں احساس نہ ہوا اور پانی سر سے گزر گیا۔ ہوش آیا اس وقت تک اماں کی خوشیاں اس طوفان بلاخیز میں ڈوب گئی تھیں اور تدبیروں کے سب سرے ان کے ہاتھ سے نکل گئے تھے۔
ماں کے احتجاج پر ابا نے فیصلہ سنا دیا۔ رشیدہ یہاں ہی رہے گی، میری دوسری بیوی بن کر، تم رہو نہ رہو تمہاری مرضی۔ یہ گھر میرا ہے، تم اسے جہیز میں نہیں لائی ہو۔ ابا کے کڑے تیور دیکھ کر میری ماں کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے۔ سوچا بھی نہ تھا کہ ان کا جیون ساتھی ایک ادنیٰ سی چھوکری کی خاطر کسی دن یوں طوطے کی طرح آنکھیں پھیرلے گا۔ جس گھر کو وہ ہمیشہ کے لیے اپنا سمجھتی رہیں، ایک روز اچانک پتا چلا کہ یہ گھر ان کا نہیں ہے، یہ سخت صدمے والی بات تھی لیکن ان کا کلیجہ جانے کس مٹی کا بنا تھا کہ مری نہیں، بس گھر چھوڑ کر چلی گئیں۔
عورت اپنا گھر چھوڑ دے تو کوئی گھر اس کو پناہ نہیں دیتا۔ ماں کا بھی یہی حال ہوا، کبھی ایک بھائی کے گھر تو کبھی دوسرے کے، جب بھابھیاں جینا دوبھر کردیتیں تو کسی رشتے دار کے گھر چند دن کے لیے جاکر سر چھپا لیتیں۔ کئی گھربدلے مگر لوٹ کر اپنے گھونسلے میں واپس نہ آسکیں۔ رشیدہ ابا سے ڈرتی تھی، تبھی ہمارا خیال رکھتی۔ اس نے ہم دونوں بہنوں کو اچھی طرح سنبھال لیا۔ اس کے بچے ہوگئے تو اب ہمیں ان کو سنبھالنا پڑا۔ ہماری جگہ اس نے اور اس کی جگہ ہم نے لے لی۔ اب گھر کا سارا کام ہمارے کندھوں پر آگیا تھا۔
اس صورت حال کو میرا ذہن قبول نہ کرتا تھا۔ سولہ برس کی تھی کہ دل میں بغاوت کے جذبات نے جنم لیا۔ اب رات بھر نیند نہ آتی اور دن کو خواب و خیال کے پردوں میں لپیٹ کر گزارنے کی کوشش کرتی۔ رشیدہ کم عقل کو ہمارے عمر کے تقاضوں کو سمجھنے کی کیا ضرورت تھی، ہم صحیح کرتے یا غلط، وہ ہمیں روکتی ٹوکتی نہ کبھی کچھ کہتی۔ میں نے محلے میں سہیلیاں بنالیں، جی چاہتا تو ان کے پاس چلی جاتی اور گھنٹوں گھر سے غائب رہتی۔ اس طرح ماں کی یاد سے چھٹکارا پانے کی کوشش کرتے کرتے آوارہ مزاج ہوگئی۔ انہی دنوں ابا نے ایک ملازم رکھا، وہ عمر میں ابا سے دو
چار برس چھوٹا ہوگا۔ اسے ہم چچا کہتے کیونکہ والد کا دور پرے کا رشتے دار بھی تھا۔
والد کو اپنے کاروبار کے لیے کسی مددگار کی ضرورت تھی، سوچا یہ بے گھر ہے، بیروزگار ہے، چلو اسے رکھ لیتا ہوں، ٹھکانہ بھی دے دوں گا اور آسرا بھی۔ انہوں نے گھر کے پچھواڑے اسٹور میں اسے رہائش دے دی۔ یہ چھوٹا سا کمرا خالی پڑا ہوا تھا۔ میں بور ہوتی تو کوٹھڑی کا رخ کرتی۔ کبھی ٹھنڈے پانی کی بوتل دینے اور کبھی کھانا دینے کے بہانے۔ دراصل میں اس سے باتیں کرکے اپنی تنہائی کو دور کرتی تھی۔ لیکن وہ ایک چالاک اور شاطر آدمی تھا۔ مجھے اچھے برے کی تمیز نہ تھی۔ ایک روز ابا اچانک گھر آگئے، انہوں نے مجھے اس کی کوٹھری سے نکلتے دیکھ لیا۔ میرا حلیہ کسی آنے والے برے وقت کی چغلی کھارہا تھا۔ والد کو مجھے دیکھ کر غش آگیا۔
آج ان کو احساس ہوا کہ بدنظری اور بددیانتی کی سزا کیا ہوتی ہے۔ انہوں نے کھڑے کھڑے غضنفر کو نکال دیا۔ مجھ کو بھی چند تھپڑ رسید کئے اور میری سوتیلی ماں رشیدہ پر تو غضب ڈھایا کہ تم نے دھیان کیوں نہ رکھا، گھر میں کیا ہورہا ہے۔ لڑکی اس مردود کے پاس کوٹھری میں گھسی کیا کرتی ہے۔ کچھ ہوش ہے تمہیں؟ اتفاق سے اسی دن پشاور سے میرے سگے چچا آگئے، انہوں نے جو مجھے روتے بلکتے پایا، ابا سے کہا کہ اسے کچھ دن کے لیے میرے گھر بھیج دو، اس کی چچی خیال رکھے گی ورنہ تمہاری بچی ذہنی پریشانی کا شکار رہے گی۔
والد تو غصے میں تھے ہی، کہا لے جائو اس منحوس کو، یہ میری نظروں سے دفع ہوجائے تو اچھا ہے۔ امی کو چچی نے فون کیا کہ تمہاری بیٹی ہمارے گھر ہے، ملنا چاہو تو آکر مل جائو۔ ماں نے ماموں کو بھیجا، جاکر اس کو لے آئو۔ دو چار دن میری بیٹی میرے پاس رہ لے گی ورنہ اس کا باپ کبھی ملنے نہ دے گا۔ کسی کو علم نہ تھا کہ میں کتنے بڑے خطرے میں گھر چکی ہوں، میں اب ہر حال میں غضنفر کو ڈھونڈنا اور اس سے ملنا چاہتی تھی کیونکہ یہ مصیبت اسی کی لائی ہوئی تھی ورنہ میری موت یقینی تھی۔ اپنا راز بتاتی تو کس کو بتاتی۔
ماموں کے آنے پر خوش تھی کہ کسی صورت نکل بھاگنے کا موقع ملے گا۔ ماموں نے بس میں عورتوں والی سیٹوں کی جانب بٹھا دیا اور خود مردانے حصے میں جا بیٹھے۔ ایک جگہ بس رکی وہ کچھ لینے اترگئے۔ میں بھی اس بس سے اترکر دوسری میں چڑھ گئی جو جانے کو تیار تھی۔ میرے بیٹھتے ہی وہ بس چل پڑی۔ ماموں جب واپس لوٹے ہوں گے تو مجھے بس میں نہ پاکر یقیناً سر پیٹ لیا ہوگا۔ میں نے یہ بھی نہ سوچا کہ ماں اور ماموں کا کیا بنے گا اور چچی چچا اور ابا کو کیا جواب دیں گی۔ لڑکی کدھر گئی۔ مجھے تو بس جلد از جلد غضنفر کے پاس پہنچنے کی جلدی تھی تاکہ اسے اس راز سے آگاہ کرسکوں جو میرے لیے موت کی پکار بننے والا تھا۔ بس آخری اڈے پر رکی تو میں نے اترکر رکشہ والے کو بلایا۔ وہ سواری سمجھ کر دوڑا آیا لیکن مجھ کم عمر لڑکی کو تنہا دیکھ کر ہچکچایا، تبھی میں نے کہا، بھائی میں مصیبت زدہ ہوں اور سوتیلی ماں کے ظلم سے بھاگ کر گھر سے نکلی ہوں، تم مجھے راولپنڈی فلاں جگہ پہنچادو، وہاں میرے ایک رشتہ دار کا گھر ہے۔ میں اس کے پاس چلی جائوں گی۔
رکشہ والا صحیح آدمی نہ تھا۔ اس نے مجھے اپنے رکشے میں بٹھالیا اور ایک ایسی جگہ لے گیا جہاں ہم جیسی بھٹکی ہوئی لاوارث اور کم سن لڑکیوں کے ذریعے دولت کمائی جاتی تھی۔ یہ بازار حسن تھا جہاں روحیں کچلی مگر جسم تر و تازہ تھے۔ سجاوٹ میں بناوٹ اور ہنسی میں سسکیاں لپٹی ہوئی تھیں۔ جس عورت نے خریدا، اس نے مجھے دیکھا تو میں نے کہہ دیا کہ میں شادی شدہ ہوں اور امید سے ہوں، شوہر جوا کھیلتا تھا، مارتا پیٹتا تھا، اس کے ظلم سے تنگ آکر نکل بھاگی۔ یہ رکشے والا مل گیا اور یہاں لے آیا ہے۔ مہربانی کرو مجھے میری ماں کے پاس پہنچا دو۔ وہ بولی۔ ابھی نہیں کچھ دن ٹھہرو، انتظار کرو، بعد میں پہنچا دوں گی۔
وہ مجھے لیڈی ڈاکٹر کے پاس لے گئی اور الٹرا سائونڈ کرایا، جب بچی ہونے کی نوید ملی تو بہت خوش ہوئی۔ بولی آرام سے رہو۔ یہ مشکل مرحلہ طے ہوجانے دو، بعد میں تم جہاں کہو گی، پہنچا دیں گے۔ میرے پاس اس کے یہاں رہنے کے سوا کوئی اور چارہ نہ تھا۔ سوچتی تھی اے کاش غضنفر کے پاس جانے کا خیال نہ کرتی اور ماموں کے ساتھ ماں کے پاس چلی جاتی تو اچھا تھا، کم از کم اس گندی جگہ تو نہ پھنستی۔
بیٹی نے جنم لیا تو ماہ جبیں کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا، اس نے سارے محلے میں مٹھائی بانٹی، خوشی منائی اور بولی، اس کی پرورش نازو نعم سے کرو۔ تم نے ہمیں جو انعام دیا ہے، ہم اس کی پوری قدر کریں گے۔ میں اچھی طرح جان چکی تھی کہ وہ کیوں خوش ہے، ظاہر ہے اصل کے ساتھ سود بھی وصول ہوگیا تھا۔ دن رات یہاں سے نکلنے کی تدبیریں سوچتی رہتی تھی۔ آخر ایک دن ایک پھول بیچنے والے کے ذریعے اس دوزخ سے نجات کا راستہ مل گیا۔
وہ باقاعدگی سے یہاں کے ہر گھر میں مہکتے ہوئے گجرے دینے آیا کرتا تھا۔ ایک روز آیا، میں رو رہی تھی۔ آنگن میں بیٹھی اپنی معصوم بچی کو سلارہی تھی۔ اس نے مجھے روتا دیکھ کر ترس کھایا، اس وقت کوئی قریب موجود نہ تھا، سرگوشی میں بولا۔ اگر کسی کو پیغام بھجوانا ہے تو بتادے، میںپہنچا دوںگا۔ تبھی میں نے اپنے والد کا نام پتا اس کو بتاکر کہا۔ ان کو جاکر احوال کہنا، اگر قبول کریں گے تو آکر لے جائیں گے۔ ایک ہفتہ بعد اس نے آکر بتایا۔ تمہارے والد کو بتا دیا ہے، اگر تم مارکیٹ میں فلاں صراف کی دکان پر کل کسی بھی وقت پہنچ جائو تو وہ تمہیں وہاں سے گھر لے جائیں گے۔
یہ صراف والد کا بچپن کا دوست تھا۔ دونوں نے پہلی جماعت سے میٹرک تک ساتھ پڑھا تھا اور ماہ جبیں زیورات ادھر سے لیا کرتی تھیں۔ گجرے والا اس صراف کو جانتا تھا، اگلے روز جبکہ ماہ جبیں دوپہر کا کھانا کھاکر قیلولہ فرمارہی تھی، گجرے والے نے محافظ کو ایک موٹی رقم دی جو والد نے اسے دی تھی۔ یوں پولیس کو درمیان میں ڈالے بغیر ماہ جبیںکے محافظ کی مدد سے میں وہاں سے نکل کر صراف کی دکان تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئی۔ افسوس کہ بیٹی کو ساتھ نہ لاسکی، اگر لے آتی تو شاید والد مجھے قبول نہ کرتے۔ کر بھی لیتے تو زمانے کو کیا منہ دکھاتے کہ غیرشادی شدہ بیٹی کی گود میں کس کی اولاد ہے۔
بیٹی کا دکھ عمر بھر سلگاتا رہے گا مگر اس کو اللہ اور اس کے نصیب کے حوالے کرکے میں والد کے گلے آلگی، صد شکر کہ انہوں نے مجھے ٹھکرایا نہیں اور گھر لے جانے کی بجائے میری ماں کے حوالے کردیا۔ کچھ دنوں بعد میری چھوٹی بہن کو بھی لے آئے اور امی سے کہا۔ مجھ سے ناراض ہو تو رہو، لیکن ان بچیوں کو اپنے پاس رکھو، ان کو تمہاری ضرورت ہے، سگی ماں سے بڑھ کر کوئی جوان بیٹیوں کی حفاظت نہیں کرسکتا۔ شاید باپ بھی نہیں، میں اگر حفاظت کرسکتا تو آج مجھے یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔
والد نے کافی رقم بینک میں امی کے نام جمع کرادی تاکہ وہ عزت کے ساتھ ہماری شادی کرسکیں۔ ماموں کو ہمارے رشتوں کی تلاش کا فرض سونپا، اللہ تعالیٰ نے جہاں قسمت لکھی تھی ہم دونوں بہنوں کے رشتے ہوگئے اور شادی کے بعد ہم اپنے گھروں میں آباد ہیں لیکن مجھے اپنی بیٹی کی جدائی کا غم بھولتا نہیں۔ خدا جانے وہ کس حال میں ہے۔ (ل۔ح…لاہور)