میں بیاہ کر آئی تو سسرال کا گھر تنگ پڑنے لگا۔ کمرے کم اور افراد زیادہ تھے۔ ساس سسر نے فیصلہ کیا کہ ہم بیٹے اور بہو کو علیحدہ گھر میں شفٹ کر دیتے ہیں، چونکہ بنگلہ نیا بنا تھا۔ سسر صاحب کرائے پر اٹھانا نہ چاہتے تھے کہ کرایہ دار نئے گھر کو خراب کر دیں گے۔ اس علاقے میں سبھی بنگلے نئے تھے۔ آبادی زیادہ نہیں تھی۔ زیادہ تر پلاٹ خالی پڑے تھے۔ صد شکر کہ ہماری طرف کے چاروں بنگلے آباد تھے۔
پڑوسی اچھے ہوں تو تنہائی کا احساس نہیں ہوتا۔ ہم بھی یہاں آ کر خوش تھے۔ ہماری بائیں طرف کا ایک گھر خالی تھا اس کے بعد والا بنگلہ آباد تھا۔ اور اس میں مسز آثم رہائش پذیر تھیں۔ جو میری ہم عمر تھیں اور ان کے شوہر ایک بینک میں آفیسر تھے۔ وہ صبح جاتے تو چھ سات بجے تک لوٹتے، اس دوران وہ بھی اکیلی ہوتیں تو ناشتے کے بعد میرے پاس آجاتی تھیں۔ ہم گپ شپ کرتے، اکٹھے چائے یا کافی پیتے، دوپہر کا کھانا بنانے کا وقت ہو جاتا تو وہ چلی جاتیں، میں بھی کچن میں کھانے میں مصروف ہو جاتی۔ صفائی وغیرہ کے لئے ملازمہ تھی جو چار بجے تک کام ختم کرنے کے بعد رخصت ہوجاتی۔ تھوڑی دیر امی اور بہنوں یا پھر ساس نند سے فون پر باتیں کرتے وقت بیت جاتا، اتنے میں احفاظ آ جاتے۔ رات کا کھانا اکثر باہر کھاتے، زندگی ایسے ہی ہنسی خوشی رواں دواں تھی۔
ایک دن دس بجے شب لوٹے تو برابر والے بنگلے میں روشنی دیکھی، خوشی ہوئی کہ چلو بائیں طرف کا پڑوس بھی آباد ہوگیا۔ سوچا صبح پتہ چلے گا، کون لوگ آئے ہیں۔ برابر والے گھر میں ایک عورت مسز طیب کے پاس کام کرنے آتی تھی، اس کا نام زلیخا تھا۔ وہ کبھی کبھی میرے گھر بھی آ جاتی۔ کہتی کہ بیگم نے آج بریانی بنائی تھی آپ کو بھجوائی ہے، کبھی کسی اور بہانے آ کر تھوڑی دیر کو ٹک جاتی اور ادھر ادھر کی باتیں کر کے چلی جاتی۔
اس روز جمعہ کا دن تھا۔ زلیخا آ گئی اور اس نے بتایا کہ آج مسز طیب گھر پر نہیں ہیں۔ شاید میکے چلی گئی ہیں، میں تو وقت پر آ گئی ہوں لیکن ان کے گیٹ پر تالا ہے۔ سوچا دو گھڑی آپ کے پاس بیٹھ جاتی ہوں، شاید وہ آ جائیں۔ زلیخا یہ ہمارے برابر والے گھر میں کون لوگ آئے ہیں کچھ پتا ہے۔ وہ بولی۔ میاں بیوی ہیں، نئی شادی ہوئی ہے۔ صاحب کا نام کلیم ہے۔ صاحب صبح چلے جاتے ہیں، اور رات کو آتے ہیں۔ باجی سارا دن اکیلی رہتی ہیں۔ تبھی کسی کے بات کرنے کی آواز نہیں آتی۔ تم ملی ہو ان سے۔ جی…مجھے بلایا تھا گھر کی صفائی کرانے کے لئے۔ یہ نئی باجی کیسی ہیں؟ بہت اچھی ہیں۔ میں چار دن گئی تھی سارا گھر صاف کر دیا۔ اب ایک دن چھوڑ کر ایک دن گھنٹے بھر کو جاتی ہوں، جھاڑو پونچھا کرتی ہوں، برتن وغیرہ اور دیگر کام وہ خود کرتی ہیں۔ عمر کیا ہے ان کی؟ آپ کے جیسی ہیں، اٹھارہ برس کی ہوں گی۔ مگر سادہ رہتی ہیں نئی دلہن لگتی نہیں ہیں۔ بہت خاموش طبیعت ہیں، زیادہ باتیں نہیں کرتیں، فوزیہ نام ہے ان کا۔ اب ان کے گھر جانا تو میرا سلام کہنا۔ یہ بھی کہنا کہ کبھی ہمارے گھر ملنے آ جائیں ورنہ ہم وہاں آ جاتے ہیں۔
زلیخا نے میرا پیغام پہنچا دیا۔ فوزیہ نے جواب دیا۔ جب چاہے آ جائیں، مگر شام کے بعد میرے شوہر گھر ہوتے ہیں، میں ان کے ساتھ باہر گھومنے چلی جاتی ہوں۔ میں نے سوچا کہ فوزیہ نئی دلہن ہے اس لئے کہیں آنے جانے سے شرماتی ہے، کیوں نہ میں پہل کر لوں اور اس سے مل آئوں۔ کیک منگوایا اور گیارہ بجے دن اس کے گیٹ پر پہنچ گئی۔ بیل بجائی۔ اس نے جھری سے دیکھا اور پوچھا کون ہے؟ مسز احفاظ، میں آپ کے برابر والے گھر سے آئی ہوں۔ فوزیہ نے گیٹ کھول دیااور دھیمی سی مسکراہٹ سے استقبال کیا۔ میں نے کیک کا ڈبا اس کی طرف بڑھا دیا۔ اتنے روز ہو گئے آپ تو آئی نہیں، میں ملنے چلی آئی۔ بہت اچھا کیا۔ اس نے خوش ہو کر کہا۔ میں بھی تنہائی سے گھبراتی تھی لیکن نئی جگہ، نئے لوگوں سے ملنے سے جھجھک تو ہوتی ہے۔ وہ چائے بنا کر لے آئی۔
فوزیہ کافی خوبصورت تھی لیکن خوش نظر نہیں آتی تھی۔ کتنے دن ہوئے ہیں شادی کو؟ تھوڑے دن ہوئے ہیں، میکہ دوسرے شہر میں ہے کیا؟ لاہور میں ہے۔ تبھی اداس لگتی ہو۔ میرے گھر آ جایا کرو۔ فوزیہ پھر بھی ہمارے گھر نہ آئی۔ دو ہفتے بعد میں دوبارہ گئی۔ اسے یاد دلایا کہ تم نے آنے کا وعدہ کیا تھا کیوں نہیں آئیں۔ ملنا جلنا رکھنا چاہئے نا۔ تم اکیلی ہوتی ہو اور میں بھی…مجھے اپنی بڑی بہن سمجھو۔ وہ سر ہلاتی رہی۔ ہاں آپ ٹھیک کہتی ہیں میں آؤںگی، ضرور آؤں گی۔
ایک ماہ اور بیت گیا، موصوفہ پھر بھی نہ آئیں۔ مجھے قلق ہوا۔ احفاظ سے کہا۔ عجیب عورت ہے، بہت پیار سے ملتی ہے، آنے کا وعدہ بھی کرتی ہے لیکن نہیں آتی۔ شاید شوہر اجازت نہیں دیتا۔ تم کلیم صاحب سے ملو تو ان سے کہنا کہ میری بیگم کئی بار آپ کی بیگم سے مل آئی ہیں مگر وہ نہیں آتیں، کیا وجہ ہے۔ کیا آپ نے انہیں آنے جانے سے روکا ہوا ہے۔ اتفاق سے اگلے روز ہی کلیم صاحب کی مڈبھیڑ گیٹ پر میرے شوہر سے ہو گئی۔ دونوں دفتر جانے کو گھروں سے نکلے تھے۔ احفاظ نے سلام دعا کی اور پھر میرا پیغام ان کے گوش گزار کر دیا۔ وہ بولے۔ میں نے انہیں نہیں روکا، ذرا سست ہیں۔ کاہلی سے کام لیتی ہیں… میں بھیجوں گا انہیں۔
اگلے دن فوزیہ ہمارے گھر آ گئی۔ بولی کہ کلیم نے مجھے کہا کہ پڑوس میں جاتی تم خود نہیں ہو اور لوگ تمہیں میرا قیدی سمجھتے ہیں۔ وہ چند منٹ مشکل سے بیٹھی، میں نے چائے بنانے کو ملازمہ سے کہا تو بولی، تکلف نہ کرو۔ کلیم گھر پر ہیں اور ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ پھر کسی وقت آئوں گی۔ یوں وہ دوبارہ آنے کا کہہ کر چلی گئی۔ اس کے محبت بھرے رویئے پر میں حیران رہ گئی۔
کلیم صاحب کے مکان کے دائیں طرف والے گھر سے ایک روز مسز طیب آئیں بتایا کہ کل ان کے گھر سے فوزیہ کے رونے کی آواز آ رہی تھی، کیا تم نے کچھ سنا ہے۔ میں نے کہا۔ نہیں مجھے تو آواز نہیں آئی۔ شاید میں سو گئی تھی کیا وقت تھا۔ رات کے بارہ بجے ہوں گے۔
اگلے روز میں فوزیہ کے گھر چلی گئی۔ سوچ کر ہو سکتا ہے کہ کسی تکلیف کے باعث روئی ہو۔ انسان بیمار بھی ہو سکتا ہے۔ بیل دی زلیخا نے گیٹ کھولا۔ فوزیہ اپنے کمرے میں بستر پر لیٹی تھی۔ اور اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ میں نے پوچھا۔ رات تم روئی تھیں کیا بات تھی۔ کہنے لگی۔ کچھ نہیں پیٹ میں درد تھا، کلیم نے دوا کھلائی تو آرام آ گیا اور میں سو گئی۔ فوزیہ کے بیان سے لگا کہ جیسے وہ جھوٹ بول رہی ہو، زیادہ کریدنا مناسب نہ سمجھا۔
اگلے روز زلیخا آئی اس نے بتایا کہ کلیم نے رات کو اسے مارا تھا جس سے فوزیہ کے جسم پر نیل پڑ گئے تھے۔ میں نے استری گرم کر کے ٹکور کی ہے بیچاری ہل جل بھی نہیں سکتی۔ کس وجہ سے مارا تھا؟ یہ بات زلیخا کو معلوم نہ تھی، مجھے کیا بتاتی، بہرحال افسوس ہوا کہ بظاہر کلیم ایسا نہ لگتا تھا، بہت مہذب نظر آتا تھا، اللہ جانے کیوں بیوی پر ہاتھ اٹھایا۔
پوچھنے کی نوبت نہ آئی پھر یہ روز کا معمول ہو گیا۔ روز ہی فوزیہ کے رونے کی آواز آتی جیسے کلیم اسے مارتا ہو۔ پتہ نہیں ان کے بیچ ایسا کیا جھگڑا چل رہا تھا جو ختم ہونے کا نام نہ لیتا تھا۔ مجھ سے نہ رہا گیا، دن کے وقت کلیم صاحب آفس چلے جاتے تھے۔ میں فوزیہ کے گھر گئی۔ وہ بے سدھ پلنگ پر پڑی تھی۔ اس سے اٹھا نہیں جاتا تھا۔ زلیخا نے در کھولا وہ فوزیہ کی پائنتی بیٹھی تھی۔ جاتے ہی پوچھا۔ کیا پھر مارا ہے اس نے تمہیں۔ میرے اپنائیت بھرے لہجے پر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔ کہنے لگی۔ روز ہی مارتا ہے، سارے بدن پر نیل پڑ گئے ہیں۔ میرا بدن اب تو پھوڑے کی طرح دکھتا ہے۔ آخر مارنے کی وجہ کیا ہے۔ کوئی خاص وجہ نہیں ہوتی، پیار بھی بہت کرتے ہیں ذرا سی بات پر موڈ بھی خراب کر لیتے ہیں، مارنے پر اتر آتے ہیں۔ معافی مانگ کر منا لیتے ہیں۔ یہ کیسا پیار ہے بھئی، یہ تو سراسر اذیت پسندی ہے۔ شاید نفسیاتی مریض ہے تمہارا شوہر، ہمارے صاحب تو کبھی ایسا نہیں کرتے۔ فوزیہ نے مجھے یہ کہہ کر چپ کرا دیا کہ چھوڑیئے اس بات کو… کلیم دل کے بہت اچھے انسان ہیں، بس غصے کے تیز ہیں ان کا غصہ وقتی ہوتا ہے۔ فوزیہ کے حوصلے اور صبر پر میں اس کا منہ تکتی رہ گئی۔ ایک شام کو اس کے برابر والی پڑوسن مسز آثم آگئیں، کہنے لگیں۔ ربیعہ فوراً آئو آج تو وہ شقی القلب فوزیہ بیچاری کو مار ہی ڈالے گا۔ مجھ سے اس کی کراہیں برداشت نہیں ہوتیں۔ اب ہم لوگوں کو کوئی ایکشن لینا چاہئے۔ انہوں نے ہمارا سکون برباد کر دیا۔ میں مسز آثم کے کہنے پر اپنے صحن سے نکلی اور کلیم کی دیوار پر کان لگائے تو فوزیہ کی درد ناک سسکیاں سنائی دینے لگیں۔ پھر سسکیاں رونے کی بلند آواز میں تبدیل ہو گئیں، تب لگا کسی نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا ہو۔
دیکھا…میں نے کہا تھا نا کہ وہ اسے مار رہا ہے۔ احفاظ سے پوچھے بغیر میں ان حالات میں کسی کے گھر نہیں جا سکتی۔ میں نے انہیں صاف بتا دیا وہ افسوس کر کے گھر لوٹ گئیں۔
دوسرے روز صبح جب کلیم دفتر چلا گیا میں اور مسز طیب فوزیہ کے پاس گئیں۔ اس کی بری حالت تھی منہ پر نیل تھے اور وہ بستر پر پڑی تھی۔ ہمیں دیکھ کر بے اختیار رو پڑی۔ ایسے ظالم آدمی کے ساتھ تم کیوں کر رہتی ہو۔ میں نے کہا۔ عورت کا کوئی نہ ہو تو وہ کہاں جائے اپنے گھر کے سوا۔
یہ تمہارا گھر ہے؟ یا عقوبت خانہ۔ مسز طیب غصے سے بولیں۔ تم بھی اذیت پسند ہو، میکے کیوں نہیں چلی جاتیں، چھوڑ دو ایسے ظالم شخص کو اگر میں تمہاری جگہ ہوتی تو اس کی پولیس میں رپورٹ کرا دیتی۔
پولیس کا نام سن کر فوزیہ کا رنگ فق ہو گیا، پریشان دکھائی دینے لگی۔ میں نے چائے بنا کر اسے پلائی۔ اس دن مجھے اس پر بہت ترس آیا، سوچا کہ اس کے میکے اطلاع کر دوں کہ آکر اپنی بیٹی کو لے جائو۔ کس ظالم کے حوالے کر دیا ہے کم از کم آ کر اس کا حال تو دیکھو۔ فوزیہ نے ہمیں ہر طرح کا ایکشن لینے سے منع کر دیا تو مجبور ہو کر ہم واپس گھر لوٹ آئے۔
دو دن خاموشی رہی، لیکن میرے دل کو اس معصوم صورت لڑکی کا غم گھن کی طرح لگ گیا تھا، کسی کل آرام نہ تھا، ہر لمحہ فوزیہ کے بارے میں سوچتی رہتی تھی۔ ہفتہ بھر زلیخا نہیں آئی۔ دعا کر رہی تھی کہ زلیخا آ جائے۔ بارے دعا قبول ہوئی گیٹ کی بیل بجی… زلیخا آئی تھی۔ وہ حسب عادت باتیں بھی کرنے لگی۔ بی بی میں تو فوزیہ بی بی کا حال دیکھ کر پریشان ہوں۔ جانے کیسا آدمی ہے اس کا، ہر وقت مارتا رہتا ہے اسے۔ ایسا تو کوئی جانوروں سے بھی سلوک نہیں کرتا۔ بیچاری کی مار کھا کھا کر بری حالت ہو گئی ہے۔ ہاں، زلیخا مجھے بھی اس بات کا دکھ ہے۔
کیا کریں کیسے اس کی مدد کریں، جبکہ وہ مدد پر راضی نہیں ہے۔ منع کر دیتی ہے۔ اللہ جانے کیا معاملہ ہے، میری تو سمجھ سے باہر ہے۔ ہمارا سکون برباد ہو کررہ گیا ہے۔ کاش یہ لوگ ہمارے پڑوس میں نہ آتے، یہ گھر خالی رہتا تو اچھا تھا۔ میں نے سوچا کہ ان کے گھر کی صفائی کا کام چھوڑدوں۔ کل کی بات ہے جب میں گئی تو وہ رو رہی تھی۔ آنکھیں سوجی ہوئی سرخ تھیں۔ بولی رات پھر ہمارا جھگڑا ہوا اور کلیم نے مجھے بہت مارا ہے۔ پہلے مارتے رہے پھر غسل خانے میں لے جا کر نلکے کے نیچے کھڑا کر دیا اور پانی کھول دیا۔ اتنی سردی میں بھلا کوئی ٹھنڈے پانی میں نہانا برداشت کر سکتا ہے۔ وہ بخار میں پڑی ہے میں نے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا۔ بی بی مجھے بتادو کیوں جھگڑا ہوتا ہے روز روز، وہ کیوں آپ پر سختی کرتا ہے۔ اتنابتایا کہ کلیم شادی شدہ ہے اور چار بچے ہیں اس کے، میں اس کی دوسری بیوی ہوں، اب کہتا ہےکہ تم میرے گھر سے چلی جائو۔ کہاں جائوں۔ جہاں مرضی چلی جائو۔ میں نہیں جا سکتی میرا کوئی گھر ہے اور نہ رشتے دار، ماں باپ، کوئی بھی نہیں ہے میں کلیم کے گھر کو نہیں چھوڑ سکتی۔
مجھے تو یہ کہانی لگتی ہے، زلیخا بات کچھ اور ہے لیکن ہم ذہنی اذیت میں مبتلا ہیں، ان کی اذیت پسندی اب برداشت نہیں ہوتی۔ بے شک یہ ان کا گھریلو معاملہ ہے مگر ظلم کی ایک حد ہوتی ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ محلے کے سارے مرد مل کر اس کے پاس جائیں اور کلیم سے پوچھیں کہ وہ روز اپنی بیوی کو کیوں مارتا ہے۔ میں نے اپنے شوہر کو منا کر راضی کیا، پہلے تو وہ راضی نہ ہوتے تھے، پھر طیب صاحب کے ہمراہ کلیم سے ملے اور کہا کہ آپ ہمارے پڑوسی ہیں، بے شک آپ کا یہ گھریلو معاملہ ہے لیکن ہمارا سکون برباد ہوگیا ہے آخر آپ اپنی بیوی سے ٹھیک طرح سے کیوں نہیں پیش آتے۔ بہرحال ان دونوں نے اسے کافی سمجھایا کہ یہاں رہنا ہے تو صحیح طریقے سے رہنا ہوگا، ورنہ آپ یہاں سے چلے جائیں، ایسا نہ ہو کہ آپ کا کوئی پڑوسی پولیس والوں سے تعاون مانگنے پر مجبور ہو جائے۔
اس واقعے کے اگلے دن کلیم صاحب نے اپنا سامان پیک کرنا شروع کر دیا۔ فوزیہ کو چند منٹ موقع ملا تو وہ مجھ سے ملنے آئی۔ گلے لگ کر بہت روئی۔ بولی۔ واقعی آپ کو میں اپنی بڑی بہن جیسا جانتی ہوں، دکھ سکھ غمگساری آپ سے کرتی تھی لیکن اب ہم واپس جا رہے ہیں۔ اللہ جانے دوبارہ کبھی ملاقات ہوتی ہے یا نہیں۔ آنسو اس کی آنکھوں سے رواں تھے، میری آنکھوں میں بھی نمی آ گئی۔ فوزیہ جا تو رہی ہو تم کم از کم اتنا تو بتا دو کہ تم میاں بیوی کا کیا جھگڑا ہے۔
باجی انسان خطا کا پتلا ہے، مجھ سے بھی خطا ہو گئی، اپنوں کو دھوکا دے کر ایک اجنبی پر بھروسہ کر لیا۔ کتنا ماں نے روکا تھا کہ کالج سے دیر سے گھر نہ آیا کرو۔ اللہ جانے کیوں اتنی دیر کر دیتی ہو۔ انہیں شک ہو گیا تھا، اور ماں کا شک صحیح تھا۔ میں اپنے ایک کلاس فیلو کی محبت میں گرفتار ہو گئی تھی۔ وہ ایک امیر زادہ تھا مجھے شادی کے خواب دکھا کر لوٹ لیا اور ایک روز میں اس کے لئے گھر سے فرار ہو کر اس کے گھر پہنچ گئی۔ اس کی ماں نے مجھے سخت ناپسند کیا اور کھڑے کھڑے گھر سے نکال دیا تو اس نے کہا فی الحال تم میرے ایک دوست کے گھر پناہ لے لو۔ میں بعد میں حالات ہموار ہوتے ہی تمہیں اپنا لوں گا۔ اس کے دوست کا نام کلیم تھا۔ اس نے کلیم کو فون کر کے مجھے اس کے حوالے کر دیا۔ کلیم مجھے اپنے ساتھ لے آیا۔ جس کی محبت میں گھر چھوڑا تھا اس نے ہی بنگلہ کرائے پر لیا اور کلیم نے مجھے یہاں پناہ دی۔ بعد میں میرے دھوکے باز محبوب نے اپنے دوست کو کہہ دیا کہ میں فوزیہ سے شادی نہیں کر سکتا، تم اسے اس کے والدین کے حوالے کر دو۔ والدین کے پاس نہیں جا سکتی تھی، میرے تین جواں سال بھائی ہیں وہ مجھے قتل کر ڈالتے۔ وہاں کس منہ سے لوٹ کر جاتی، جن کی عزت مٹی میں ملا کر بھاگ آئی تھی۔ اللہ جانے میرے بعد ان پر کیا قیامت گزری اور کیسے انہوں نے بدنامی کو برداشت کیا۔ کلیم نے مجھے پناہ دی لیکن جب اس کے دوست نے بتا دیا کہ میں کبھی فوزیہ سے شادی نہیں کر سکتا تم اسے کسی طرح چلتا کرو تو وہ شش وپنج میں پڑ گیا۔ اس نے دوست کو سمجھایا مگر اس نے کورا ہی جواب دیا تو کلیم نے کہا کہ چلو تمہارے والدین کے حوالے کر آتا ہوں۔ میں راضی نہ ہوئی۔ مجھے اس شخص سے انسیت ہوگئی۔ کلیم مجھے قابل بھروسہ لگتا تھا۔ میں نے کہا کہ تم مجھ سے نکاح کر لو، اس نے بتایا کہ میں شادی شدہ اور چار بچوں کا باپ ہوں، تم سے شادی نہیں کرسکتا اور مزید تمہیں پناہ میں بھی نہیں رکھ سکتا۔ کب تک اپنے گھر بار بیوی بچوں کو چھوڑ کر تمہارے ساتھ رہوں۔ محض تمہاری نگرانی کی خاطر اور معاشرے سے جھوٹ بولتا رہوں کہ تم میری بیوی ہو، حالانکہ تم میری بیوی نہیں ہو۔ تم اپنے والدین کے گھر جائو یا جہاں جی چاہے چلی جائو۔ بس روز یہی جھگڑا ہوتا ہے میں ڈھیٹ بن کر یہاں رہ رہی ہوں۔ ہر روز وہ جانے کا کہتا ہے اور میں دروازے کی چوکھٹ پکڑ لیتی ہوں، روتی ہوں، پہلے وہ دھکے دیتا ہے پھر اسے ترس آ جاتا ہے لیکن مجھے مار کر غصہ نکالتا ہے۔ میری تکرار ہے کہ تم مجھ سے نکاح کرلو اور اس کی تکرار ہے کہ تم چلی جائو۔ میری جان چھوڑ دو۔ میں کیسے اس پناہ کو چھوڑ کر چلی جائوں اور کہاں جائوں۔ جو پناہ دے گا، وہ صرف مجھ سے عارضی خوشی کے لئے کچھ عرصہ پاس رکھے گا… میں اور رکنا چاہتی ہوں، مر جائوں گی یا کلیم سے نکاح کروں گی۔
اب تم لوگ کہاں جا رہے ہو۔ کلیم مجھے اپنی والدہ کے پاس لے جا رہے ہیں کیونکہ انہوں نے مجبور ہو کر ماں کو اعتماد میں لیا ہے۔ عورت کا دل نرم ہوتا ہے وہ مجھ سے کلیم کے نکاح پر رضا مند ہو گئی ہیں۔ اب اسے اپنے والد کو راضی کرنا ہے کیونکہ کلیم کی بیوی ان کی سگی بھتیجی ہے۔ کیا وہ راضی ہو جائیں گے۔ اگر نہ ہوئے تو کلیم کی والدہ نے کہا ہے کہ وہ اپنے شوہر کو راضی کر لیں گی۔ میرے حق میں دعا کرنا۔ اس کے بعد اس نے کبھی مجھ سے رابطہ نہیں کیا۔ نہیں معلوم اس کی منزل اسے ملی یا نہیں، لیکن آج بھی میرے لبوں پر اس کے لئے یہی دعا ہے کہ اللہ کرے اسے منزل مل جائے اور وہ جہاں ہو عزت بھری زندگی گزار رہی ہو۔ (ر…کراچی)