ناجیہ سے میری بچپن کی دوستی تھی۔ آٹھویں میں تھی کہ ابو نے گائوں سے شہر میں سکونت اختیار کر لی اور ہم جدا ہو گئے۔ بی اے کے بعد میری شادی ہو گئی، بیاہ کر پنڈی چلی گئی اور مجھے اس کی کچھ خبر نہ رہی۔ دوبارہ اس کے گائوں جانانہ ہو سکا کیونکہ ابونے وہ جائداد ہی فروخت کر دی تھی جو گائوں میں تھی۔ وقت گزرتا رہا یہاں تک کہ دس برس بیت گئے، مجھے اب بھی اکثر ناجیہ یاد آتی تھی۔ اس جیسی مخلص اور پیار کرنے والی سہیلیاں کم ہی کسی کو ملتی ہیں۔
ناجیہ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ سچ بولتی تھی اور جس بات کو سچ جانتی اس پر ڈٹی رہتی۔ صاف گو تھی اور یہی اس کی بڑی خرابی مانی جاتی تھی، جس باعث وہ منہ پھٹ کہلاتی تھی۔ لیکن وہ ہر اچھی طرح سے ملنے والے پر جلد اعتبار کر لیتی۔ یہ عادت اسے لے ڈوبی۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں اپنے شیر از کو اسکول داخل کرانے گئی ، وہاں اچانک بچپن کی یہ دوست مل گئی۔ اسٹاف روم سے نکل رہی تھی، مجھے دیکھ کر ٹھٹھک گئی جیسے کہ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آرہا ہو۔ لمحہ ؟ بھر بعد دوڑ کر مجھ سے لپٹ گئی۔ زاہدہ یہ تم ہو ؟ اوہ یقین نہیں آتا کہ کبھی اس طرح مل جائو گی ۔ تم کتنی یاد آتی ہو، بتا نہیں سکتی۔ میں نے اپنے بیٹے شیر از کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا۔داخلہ کے لئے آئی ہو ؟ ہاں .. یہ اسکول قریب ہے ، دونوں بڑے بچے دوسرے اسکول جاتے ہیں۔ یہ کم سن ہے سو چافی الحال نزدیک ہی داخل کرا دیتی ہوں، پہنچانے اور لے جانے میں آسانی رہے گی۔ وہ مجھے پر نسپل کے کمرے میں لے گئی اور جھٹ پٹ داخلہ کرادیا۔ دوبارہ ملنے کا وعدہ لیا۔ میں نے اسے اپنے گھر کاایڈریس سمجھا دیا اور فون نمبر بھی دے دیا۔ چار روز بعد جبکہ آدھی چھٹی کا دن آیا، ناجیہ میرے گھر آگئی۔ ہم نے خوب باتیں کیں لیکن جب میں نے پوچھا کیا شادی ہو گئی تو ایک ٹھنڈی آہ بھر کر خاموش ہو گئی۔ میں نے اصرار کیا بتائو تو کیوں نہ ہوئی شادی اور اس قدر افسردہ کیوں ؟ کیا مجھے دوست نہیں سمجھتی ہو ؟ بولی، زاہدہ مت پوچھو۔ دل میں وہ روگ لئے جی رہی ہوں کہ بیان کرنے کی تاب نہیں ہے لیکن تم سے ضرور بتا کر جی کا بوجھ ہلکا کر لوں گی، پھر یوں گویا ہوئی۔ تمہارے جانے کے بعد میرے حالات نے عجب موڑ لے لیا۔ پہلے تو ہم اکٹھے اسکول آتے جاتے تھے۔ تم روز میرے گھر سے اپنی گاڑی میں پک کر لیتیں اور واپسی میں ڈراپ کر دیا کرتی تھیں۔ تمہارے جاتے ہی یہ مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا کہ اب میں اسکول کیسے جائوں۔ ملازمت کی وجہ سے ابو خود چھوڑنے نہ جاسکتے تھے اور بھائی بھی اپنے کام پر جاتے تھے۔ ابو معمولی تنخواہ دار تھے ، وہ میرے لئے سواری کا انتظام بھی نہ کر سکتے تھے۔ بڑی مشکل آپڑی۔ ان دنوں ہمارے محلے میں ایک گھرانہ آباد ہوا تھا جن کا بیٹا سوز و کی چلاتا تھا۔ محلے کے اور بچوں کو بھی سواری کی تکلیف تھی کیونکہ ہمارا گھر مضافاتی علاقے میں تھا جہاں کہیں بھی جانے کے لئے آسانی سے سواری دستیاب نہ تھی۔ تبھی محلے والوں نے روز روز کی اس تکلیف کا یہ حل نکالا کہ سوزو کی چلانے والے سے بات کی، یوں اس کے ساتھ ماہانہ کرایہ پر اسکول کے بچوں کے لئے مل جل کر سوزو کی کروالی گئی۔ جو شخص سوزو کی چلاتا تھا اس کا نام اقبال تھا اور عمر یہی کوئی پچیس تیس کے قریب تھی لیکن ابھی تک غیر شادی شدہ تھا۔
محلے اور گردو نواح کے تقریباً ہمیں بچے اقبال کی سواری میں جانے لگے ۔ ان کے ساتھ ہی میں بھی جانے لگی۔ اقبال چونکہ محلے دار تھا، لہٰذا سبھی کے والدین کو اس پر اعتبار تھا۔ لگتا بھی شریف آدمی تھا، باقی سارے بچوں سے عمر میں ذرا بڑی تھی، لہٰذا آگے والی سیٹ پر بیٹھتی تھی، چھوٹے بچوں کی ہڑبونگ اور شور و غوغا سے بچنے سے کے لئے۔ جانتی تو ہونا کہ میرا گھر جاتے ہوئے پہلے اور واپسی میں سب سے آخر میں آتا تھا۔ اقبال کافی خوبرو نوجوان تھا۔ وہ شائستہ اور مہذب تھا، تمام بچوں کے ساتھ بہت پیار سے پیش آتا تھا۔ تمام رہتے وہ خاموش رہتا اور مجھ سے بالکل بھی مخاطب نہ ہوتا۔ البتہ ابو سے ملتا تو بہت ادب سے پیش آتا۔ وہ ان کا بے حد احترام کرتا۔ ابو بھی اسے اقبال بیٹا کہہ کر مخاطب ہوتے کہ اقبال کے والد سے اچھی خاصی دعا سلام ہو گئی تھی۔دو ماہ اسی طرح گزرے۔ بالآخر ایک روز میں نے خاموشی کا روزہ توڑ کر مخاطب کر لیا۔ بات دراصل یہ تھی کہ ایک ماہ کا کرایہ ابوادانہ کر سکے کیونکہ امی کی بیماری پر رقم خرچ ہو گئی تھی، تبھی والد صاحب نے معذرت کر لی کہ اگلے ماہ دے دوں گا۔ کوئی بات نہیں ، اپنے گھر جیسی بات ہے فکر نہ کریں۔ جب رقم ہو تب سہولت سے دے دینا۔ اس بار بھی پیسے نہ جڑ پائے ، تب میں نے اقبال سے کہا۔ ابو کہہ رہے تھے کہ دو چار دنوں میں ہی انتظام کر دیں گے ، وہ بولا ۔ بالکل فکر کی بات نہیں ہے۔ میں نے مانگے تو نہیں ہیں، کیوں پریشان ہو رہے ہیں۔ ہم نے ایک بار بات کر لی تو بس پھر آڑ باقی نہ رہی۔ اب جب سب بچے اتر جاتے اور میں آخر میں رہ جاتی، اقبال خود مجھسے مخاطب ہوتا اور میرے گھر یلو حالات پوچھتا۔ میں نے اس سے کچھ نہ چھپایا۔ سب بتا دیتی کہ ابو بڑی مشکل سے خرچہ پورا کرتے ہیں۔ ان کی تنخواہ کم ہے اور بھائی پڑھ رہا ہے ۔ امی بیمار رہتی ہیں۔ ہم لوگ تنگی سے زندگی بسر کر رہے ہیں، وغیرہ۔ اس پر وہ کہتا۔ چاناراض نہ ہو جائیں ورنہ میں تو یہی چاہتا ہوں آپ سے کرایہ نہ لوں۔ آخر محلے داری ہے، کچھ حقوق تو ہوتے ہیں اور کچھ ہمارا بھی فرض بنتا ہے۔ ایسی باتیں سنتی مگر گھر میں نہ کہتی کہیں امی ابو یا بھائی بدگمان ہو جائیں ۔ ضرور وہ سوال کرتے کہ وہ تم سے یہ باتیں کیوں کرتا ہے بلکہ بات ہی کیوں کرتا ہے۔ وہ تو اسے نہایت شریف اور بھروسے کا آدمی سمجھتے تھے۔ وہ بھروسے کا آدمی تھا۔ تمام محلے والے اس پر بھروسہ کر کے اپنے بچے اس کے سپرد کرتے تھے۔ ایک روز میں نے پوچھ لیا آپ سارے بچوں سے پیار کرتے ہیں، کیا آپ کےا۔ ، کیا آپ کے اپنے بچے ہیں ؟ اس نے بتایا کہ میں شادی شدہ نہیں ہوں، لیکن مجھے چھوٹے بچے اچھے لگتے ہیں اس وجہ سے ان سے پیار کرتا ہوں۔آپ نے ابھی تک شادی کیوں نہ کی۔
میری بھی ایک کہانی ہے۔ دراصل میں ایک لڑکی کو پسند کرتا تھا۔ وہ ایک غریب لڑکی تھی اور اسکول میں ٹیچر تھی۔ میں نے اسے حاصل کرنے کی سر توڑ کوشش کی لیکن اس کے گھر والے نہ مانے۔ انہوں نے رشتہ دینے سے منع کر دیا کیونکہ اس کی منگنی اپنے چازاد سے ہو چکی تھی۔ مجھے بہت قلق ہوا۔ آخر کار میرے ابا جان نے سمجھا بجھا کر مجھے خاموش کرادیا۔ اس لڑکی کا نام مہ ناز تھا۔ اس نے قسم کھائی تھی کہ وہ میرے سوا کسی سے شادی نہ کرے گی لیکن والدین نے اس کی نہ چلنے دی اور زبردستی اس کے منگیتر سے شادی کرادی۔ اس نے کہا تھا کہ میں شادی کے بعد یہ بندھن توڑ کر تمہارے پاس آجائوں گی لیکن دن مہینوں اور ماہ سالوں میں گزر گئے اور وہ نہ آسکی۔ اس کے انتظار میں شادی نہ کی۔ بالآخر گھر والوں نے مجبور کر دیا اور میری منگنی رشتہ داروں میں کرادی لیکن میں ابھی تک شادی سے گریز کر رہا ہوں ۔ شاید کبھی مہ ناز آجائے تو اسے کیا جواب دوں گا… اب تک مہ ناز کو نہیں بھلا سکا۔ دل کسی اور سے شادی کرنے کو نہیں چاہتا۔ سخت تکلیف میں ہوں اور اپنی تکلیف کسی کو بھی نہیں بتا سکتا۔ آج نجانے کیسے تم کو بتادیا ہے۔ یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے۔ میں نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا، اقبال کا دکھ محسوس کر کے شدید تکلیف ہوئی۔ شاید کہ اس نے اپنی داستان میرے سوا آج تک کسی سے بھی نہ بتائی تھی۔ حالانکہ ان دنوں میں نویں جماعت میں پڑھتی تھی اور میری عمر بمشکل چودہ پندرہ سال ہو گی، پھر بھی اس نے مجھے اس لائق سمجھا کہ اپنا رازداں بنا لیا اور میں بھی اس کی غمگسار بن گئی۔ مجھے لگا کہ میں بڑی ہو گئی ہوں۔ اس قابل ہو گئی ہوں کہ کوئی اپنا دکھ میرے ساتھ بانٹ رہا ہے۔ وہ تو اپنوں کا ستایا ہوا تھا اور میں حالات کی ستائی ہوئی تھی۔ ہمارے گھر اچھا کھانے کو تھا اور نہ اچھا پہنے کو بیس نوالے ہی گنے چنے مل جاتے تھے تو روز و شب گزر رہے تھے۔ اب میں بھی اپنے حالات ، اپنے دکھ اس کے ساتھ شیئر کرنے لگی۔ اسے سہارا چاہئے تھا، مجھے بھی سہارے کی ضرورت تھی۔ ماں بیمار تھی، ابو خرچہ پورا کرنے کی الجھن میں رہتے۔ بھائی بات نہ کرتے اور بہن کوئی تھی نہیں جس سے دل کی بات کہتی یا سنتی۔ ایسے میں ہر روز اقبال کا مختصر سا ساتھ میرے لئے کسی نعمت سے کم نہیں تھا۔ میری کوئی سہیلی نہ تھی، زاہدہ تمہارے سوا۔ تمہارے جانے کے بعد بھی میری کوئی سہیلی نہ بن پائی تو میں نے اقبال کو ہی سہیلی جیسا مان لیا کیونکہ وہ پختہ ذہن تھا اور میرے کم سن ذہن کو اس کی سوچیں اپنی گرفت میں کر سکتی تھیں۔ وہ یوں اداسی سے اپنی مہ ناز سے جدائی کا تذکرہ کرتا کہ میرا دل اس کے دکھ کو محسوس کر کے تڑپ جاتا۔ سوچتی تھی کیسے اس کا دکھ دور کر دوں۔ کاش میں ہی وہ لڑکی ہوتی تب اس کے درد کا مداوابن جاتی۔ وہ اتنا ہمدرد تھا کہ ہمارے حالات کے بارے میں کڑھتا اور فکر مند رہتا۔ کوشش کرتا کہ ہم کو اس کی سوزو کی کا کرایہ نہ دینا پڑے۔ دو تین ماہ گزر جاتے تو ہر گز تقاضا نہ کرتا۔ ابو رفتہ رفتہ قسطوں میں کرایہ ادا کرتے رہتے۔ اسی وجہ سے وہ میرے والد کی نظروں میں اور زیادہ پسندیدہ ہوتا گیا اور ان کے دل میں گھر کرتا گیا۔ والد اسے بیٹھک میں بٹھا لیتے، چائے پلاتے اور ادھر ادھر کی باتیں ہوتیں۔ والد صاحب اس کی باتوں سے متاثر ہوتے۔ اقبال باشعور، سلجھا ہوا اور نیک خیالات کا حامل تھا۔میں دل ہی دل میں اسے چاہنے لگی۔ ہمدردی چاہت میں بدل گئی، لیکن اظہار نہ کرتی۔ ایسی لڑکیوں کو بری نظر سے دیکھتی تھی جو تھی جو عشق و محبت کے چکر میں بد نامی مول لے لیتی ہیں لیکن جب وہ مہ ناز کا ذکر کر کے افسردہ ہو تا مجھے اس پر بہت ترس آتا۔ ایک روز اس نے خود مجھ سے اظہار محبت کر دیا تب بہت پریشان ہوئی۔ میں نے اقبال سے کہا کہ آپ منگنی توڑ دیں۔ بولا یہ ممکن نہیں ہے۔ تو پھر پہلے میرے ساتھ شادی کر لیں بعد میں اپنی منگیتر کے ساتھ بھی کر لینا۔ رشتہ لائیں گے تو میرے والدین راضی ہو جائیں گے ۔ آپ یہی بتانا کہ منگنی ختم کر دی ہے۔ میرے ابو آپ کو پسند کرتے ہیں۔ تسلی دی کہ ہاں ایسا ہی کروں گا لیکن ایسا کچھ نہ کیا۔ دسویں جماعت کے پرچے ہونے والے تھے، پندرہ دن کی ہم کو چھٹیاں ملیں امتحان کی تیاری کے لئے، تبھی اس کے گھر شادی کی تیار یاں ہونے لگیں۔
شادی کا کارڈ ہمارے گھر آیا تو سن رہ گئی۔ جیسے کسی نے مجھ پر بم گرادیا ہو۔ ایسا لگا جیسے دنیا ختم ہو رہی ہو اور جیسے یہ میرا سفر آخرت ہو۔ اب تو چھٹیاں تھیں مل بھی نہ سکتی تھی۔ چھٹیاں ختم ہو گئیں ، ان کی شادی کو ایک ہفتہ ہو گیا تھا۔ مجھے اسکول تو جانا ہی تھا، دسویں کا امتحان تھا کوئی مذاق نہ تھا۔ پہلے روز جب سب بچے سوز و کی سے اتر گئے اور میں اکیلی رہ گئی تو کہا۔ سنو ناجیہ ، مجھے وہ لڑ کی بالکل پسند نہیں، جس سے میری زبردستی شادی ہو گئی ہے۔ میرا اس کے ساتھ گزارا مشکل ہے۔ دو تین ماہ میں ہی دیکھ لینا میں اسے طلاق دے دوں گا۔ پھر شادی تو تم سے ہی کروں گا اگر تم راضی ہو جائو۔ بمشکل پرچے دیئے۔ آخری پرچے کے دن جب سوزوکی میں بیٹھی تھی۔ دل رورہا تھا، چہرہ اترا ہوا اور آنکھیں نم تھیں۔ اس نے نظر بھر کر میری جانب دیکھا۔ آج کم بچے تھے ، انہیں اتار کر اس نے سڑک سے سوزوکی کو موڑ لیا اور گھر سے کچھ دور ایک مکان کے سامنے سوزو کی روک لی۔ کہنے لگا آج تم سے ضروری بات کہنی ہے۔ اتر آئو۔ یہ میرے تایا کا گھر ہے لیکن خالی ہے ، وہ شہر شفٹ ہو گئے ہیں۔ میں نہ اتر رہی تھی ، اقبال نے کہا۔ امتحان ختم ہو گئے ہیں اب کہاں مل سکو گی ، ضروری بات رہ جائے گی۔ میری بات مان لو ، دو گھڑی کو اتر آئو۔ یہاں بیٹھ کر باتیں کرتے کسی نے دیکھ لیا تو برا ہو گا۔ میرا دل بھرا ہوا تھاد کھ سے۔ ناچار اتری، اس کی ضروری بات تو سننی تھی۔مکان کا قفل کھول کر وہ مجھے گھر میں لے آیا۔ بھاری قدموں سے وہاں گئی اور کمرے میں پڑے صوفے پر بیٹھ گئی۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی بات کر تا ضبط نہ ہو سکا اور میں پھوٹ پھوٹ کر رودی۔ اقبال نے میرا ہاتھ تھام کر اپنے سر پر رکھ دیا اور کہا۔ قسم کھاتا ہوں اگر تم سے نکاح نہ کیا تو خدا مجھے موت دے دے۔یہ بات سن کر تھرا گئی۔ بولا ، ہم چھپ کر نکاح کریں گے ۔ جب حالات ساز گار ہو جائیں گے تب تم کو لے جائوں گا اور ساتھ رکھوں گا۔ پہلے سبینہ کو طلاق دینے کا مرحلہ طے کرلوں۔ ویسے میرے ماں باپ تم کو قبول نہ کریں گے۔ سوچیں گے تمہاری وجہ سے طلاق دے رہا ہوں۔ میں رورہی تھی۔ مجھے چپ کراتے کراتے وہ جذبات کے طوفان میں پھنس گیا۔ ہم بہت نزد یک آگئے اور پھر طوفان…. تو طوفان ہوتا ہے ، سب کچھ بہا لے جاتا ہے۔ افسوس کے سوا کچھ نہ رہا۔ اس نے مجھ سے خفیہ نکاح کر لیا، اس وعدے پر کہ جب تک وہ اجازت نہ دے گا میں اپنی اور اس کی شادی کا راز افشا نہ کروں گی اور نہ اولاد کو جنم دینے کی خواہش کروں گی۔ میں نے ہر شرط کو منظور کر لیا کیونکہ جسے من کا مالک مانا تھا، تن کا مالک بھی وہی تھا۔
وقت گزرتا گیا۔ میں نے ضد کر کے پڑھائی جاری رکھی اور ہر رشتے سے انکار کرتی رہی۔ اس راز کو مگر افشانہ کیا کہ میں اقبال کی منکوحہ ہوں۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسکول میں ٹیچر لگ گئی، یوں دس سال گزر گئے ۔ اقبال نے نہ تو میرے نکاح کو ظاہر کرنے کی اجازت دی اور نہ پہلی بیوی کو طلاق دی۔ جس نے اقبال کے چار بچوں کو جنم دیا ہے وہ اسی بیوی اور بچوں کے ساتھ رہتا ہے اور میں اپنے والدین کے ساتھ رہتی ہوں۔ اقبال نے ہی میر اتبادلہ گائوں سے شہر کرایا ہے تا کہ میں اس سے مل سکوں۔ ہمارا نکاح ہے ، وہ مجھ سے یہی کہہ کر شوہر کی حیثیت سے ملتا ہے۔ ایک مکان لیا ہوا ہے۔ اسکول سے چھٹی کے بعد میں دو تین گھنٹے وہاں جاتی ہوں اور پھر گھر آجاتی ہوں۔ ہم صرف دن کو ملتے ہیں۔ کبھی ایک رات بھی میں گھر سے غیر حاضر نہیں رہی۔ وہ بھی بیوی اور بچوں سے ایک رات بھی غیر حاضر نہیں ہوا۔ یہ ہے میری زندگی۔ اس کو تم شادی شدہ زندگی کہو یا غیر شادی شدہ سمجھو۔ ٹیچنگ کر کے خود کماتی ہوں۔ خود اپنے اخراجات پورے کرتی ہوں ۔ اقبال کا کہنا ہے کہ اس پر چار بچوں کا بوجھ ہے۔ وہ مجھے خرچہ نہیں دے سکتا۔ میں ناجیہ کی زبانی اس کی کہانی سن کر دنگ رہ گئی۔ عجیب و غریب تمہاری محبت ہے اور عجب سی زندگی تم بسر کر رہی ہو۔ نکاح خفیہ رکھنے کا معاہدہ ہر گز نہیں میری دوست ۔ تم اس بندھن کو کم از کم اپنے والدین پر تو ظاہر کر دو۔ وہ رو کر کہنے لگی۔ دوست میں ایسا نہیں کر سکتی، کیونکہ جس دن میں نے اپنے اور اقبال کے نکاح کا راز افشا کیا وہ میرے اور اس کے اس بندھن کا آخری دن ہو گا۔ وہ چلی گئی اور میں سوچتی رہ گئی کہ اگر یہ بندھن ایسا ہی کچا ہے تو نجانے ناجیہ اس کو توڑ کیوں نہیں دیتی لیکن مجھے ہزار بار سوچنے کے باوجود اس سوال کا جواب سمجھ میں نہیں آیا۔