دوسرے لمحے میں نے چونک کر اس کا چہرہ دیکھا۔ کم بخت بے حد حسین تھی۔ کوئی بھی بری فطرت کا انسان اس کا یہ حسن جمال دیکھ کر فریب کھا سکتا تھا۔ وہ بدستور مسکراتی نظروں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ میرے ذہن میں فوراً ہی کلام الٰہی کی ایک آیت ابھری اور بے اختیار میرے ہونٹوں تک آگئی۔ آیت پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ اچانک اس نے چیخ ماری اور اچھل کر کھڑی ہوگئی۔ اس کا سانس تیز چلنے لگا تھا۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔
’’کا کرے ہے رے؟‘‘ اس نے پھولے ہوئے سانس کے ساتھ پوچھا۔ میرا ورد جاری تھا۔ اچانک اس کا تمتماتا لال بھبھوکا چہرہ تاریک پڑنے لگا۔ پھر اس کی آنکھ میں گڑھا نمودار ہوگیا، ہونٹ مڑ گئے، رنگ کوئلے کی طرح سیاہ ہوگیا۔ اس نے دوسری زوردار چیخ ماری اور کہا۔
’’ارے دیا رے دیا۔ یہ تو پاپی مسلّیٰ ہے۔ ارے او جھمبردا… رے جھمبردا رے۔ ارے دیکھ ای سسروا مسلّیٰ ہمکا مارے ہے، مارے جھمبردا…‘‘ وہ دہری ہوکر بل کھانے لگی۔ اسی وقت درخت کی ایک شاخ پر دو پائوں نظر آئے اور دوسرے لمحے کوئی درخت سے نیچے کود گیا۔ یہ ایک کالے رنگ کا توانا آدمی تھا لیکن اس کا سارا بدن موجود تھا البتہ سر، شانوں پر موجود نہیں تھا۔ وہ سرکٹا تھا۔
’’ارے دیکھ ای کا۔ دیکھ سسروا کو۔‘‘ عورت چیخی اور کٹے سر والا میری طرف لپکا لیکن دو قدم آگے بڑھ کر رک گیا۔
’’اری رام دئی ری۔ جرا ہمار کھوپڑیا دیجو۔‘‘ ایک آواز ابھری۔ چڑیل جو مسلسل بل کھا رہی تھی، رک گئی۔ اس نے ایک جھولی اٹھائی اور اس میں سے کچھ نکالنے لگی۔ یہ ایک انسانی سر تھا۔ کالا چہرہ، خدوخال موٹے اور بھدے! آنکھیں گہری سرخ، سر گھٹا ہوا، درمیان میں چوہے کی دم جیسی اٹھی ہوئی چوٹی۔ عورت نے انسانی سر اس کی طرف بڑھا دیا جسے اس نے دونوں ہاتھوں میں پکڑا اور اپنے شانوں پر رکھنے لگا۔ مگر اس نے سر الٹا رکھ لیا تھا۔ اس کا سینہ سامنے تھا اور چہرہ دوسری طرف… پھر وہ بولا۔ ’’کون ہے ری رام دئی۔ ادھر کو تو ہونا رے۔‘‘
’’ہت تیرا ستیاناس…! ارے کھوپڑیا تو الٹی ٹانگ لئی ہے تے نے… ادھر ناہیں ادھر۔‘‘ عورت نے کہا اور مرد گھوم گیا۔ وہ سرخ آنکھوں سے مجھے دیکھ رہا تھا اور میں اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ہوئے تھا۔ دلچسپ تماشا تھا۔ میری جگہ کوئی اور ہوتا تو اب تک اس کا کام تمام ہوچکا ہوتا۔ مگر میں پرسکون تھا۔ اب ایسے خوفناک مناظر میرے لیے غیر اہم ہوگئے تھے اور میرے اندر ایک انوکھی قوت بیدار ہوگئی تھی جسے میں خود بھی کوئی نام نہیں دے سکا تھا۔ مرد مجھے گھورتا رہا پھر اس کی پھٹی پھٹی آواز ابھری۔
’’کا بات ہے رے۔ کاہے ہمار جنانی کو ستائے ہے؟ ہمکا نا جانت ہے۔‘‘
’’تو بھی مجھے جان لے۔‘‘ میں نے کسی غیر محسوس قوت کے زیراثر کہا اور ایک قدم آگے بڑھا۔ اس نے گھبرا کر عورت کا ہاتھ پکڑ لیا اور خوف زدہ لہجے میں بولا۔
’’کوئی بکٹ رہے بھئی، بھاگ۔‘‘ عورت کا چہرہ بے حد بھیانک ہوگیا تھا۔ ایک آنکھ کی جگہ گہرا گڑھا نمودار ہوگیا تھا۔ دانت باہر نکل آئے تھے، بدن کے کھلے ہوئے حصوں سے ہڈیاں جھانک رہی تھیں مگر اس کے زیورات ویسے ہی تھے۔ دونوں پلٹ کر بھاگے۔ مرد الٹا ہی بھاگ لیا تھا۔ عورت اس کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھی۔ میں سکون سے دونوں کودیکھتا رہا۔ چند قدم دوڑنے کے بعد ہی وہ دونوں غائب ہوگئے۔ میں نے مسکراتے ہوئے گردن ہلائی۔ پھر اچانک ہی مجھے اپنی بے خوفی کا احساس ہوا۔ مجھے اس خوفناک صورتحال کا کوئی احساس نہیں ہوا تھا بلکہ میں نے یہ سب کچھ بہت معمولی سمجھا تھا۔ فضل بابا کی سرگوشی ابھری۔
’’اب بھی حیران ہورہے ہو مسعود…؟ بار بار بھول جانا بری بات ہے۔‘‘ یہ آواز میں نے صاف سنی تھی۔ آس پاس کوئی موجود نہیں تھا۔ آواز پھر ابھری۔ ’’تمہیں سپاہی بنایا گیا ہے۔ اپنے فرائض ذمہ داری سے سرانجام دو اور تم جانتے ہو ایک سپاہی کی ذمہ داری کیا ہوتی ہے۔ بس! اس کے بعد کسی کو آواز نہ دینا۔‘‘
میں ساکت رہ گیا۔ اس سے زیادہ کھلے الفاظ اور کیا ہوسکتے تھے۔ مجھے آخری تلقین کی گئی تھی۔ دل کی کیفیت عجیب سی ہوگئی۔ بے اختیار بیٹھ جانے کو جی چاہا اور میں بیٹھ گیا۔ درخت کے نیچے کافی ٹھنڈک تھی اور اس چلچلاتی دھوپ میں یہ ٹھنڈک بڑی دلکش لگ رہی تھی۔ وہ الفاظ جو مجھ سے کہے گئے تھے، روح میں مسرت کی لہریں بیدار کررہے تھے، ساتھ ہی ساتھ ایک سپاہی کی ذمہ داری کا احساس بھی دلا رہے تھے۔ مجھے بہت سے کام سرانجام دینے تھے۔ سب کچھ بھول کر ماضی میں جو کچھ ہوا تھا، وہ تو ایک ایسی کہانی تھی کہ اس پر ذہن دوڑایا جاتا تو ہوش و حواس ہی ساتھ چھوڑتے محسوس ہوتے۔ آہ! نجانے کیا کیا تصورات تھے، نجانے کیا کیا آرزوئیں تھیں لیکن کتنی باتوں کو اپنے ذہن میں دہراتا۔ کہا گیا تھا کہ پہلے پھل چکھوں پھر کھانے کا موقع ملے گا۔ شکر ہے کہ امتحان کا دور ختم کردیا گیا تھا۔ جو گناہ کئے تھے، ان کی سزا شاید پوری ہوگئی تھی اور اب اس کے بعد قرض چکانا تھا۔ ممکن ہے کبھی یہ قرض ختم ہوجائے اور اس کے بعد موسم بہار کا آغاز ہو۔ آہ! موسم بہار کے مہمانو…! میری آنکھیں شدت سے تمہاری منتظر ہیں لیکن ابھی پھل کھانے کا وقت نہیں آیا، ابھی قرض کی ادائیگی ہوجائے۔ چشم تصور سے ماں کو دیکھا۔ باپ اور بہن، بھائی کو دیکھا۔ ماموں ریاض بھی دل میں آئے اور ان سب کے تصور سے دل کو بڑی ڈھارس ہوئی۔ ان کے بارے میں خود سے کوئی سوال نہیں کیا تھا جبکہ سارے سوالات کے جواب اندر موجود تھے۔ یہی امتحان تھا اور یہی قرض ادا کرنا تھا۔ یہ پرچے حل ہوجائیں تو پھر اپنے آپ پر غور کروں۔ ہاں! اس وقت تک کے لیے سب کو بھلانا ضروری ہے اور یہ بات بھی مجھے ذمہ داریاں سونپنے والوں ہی کو بتانی پڑے گی کہ کب امتحان کا دور ختم ہوگا۔ مگر ابھی تو آغاز ہی ہوا ہے۔ نجانے کتنی دیر اس طرح گزر گئی۔ چلچلاتی دھوپ مسلسل حشر سامانیاں برپا کررہی تھی۔ اس کا احساس ہورہا تھا۔ کبھی کبھی چیلوں کی آواز آجاتی تھی۔ اچانک ذہن اس طلسم سے نکل آیا۔ میں بیٹھا کیوں ہوں، مجھے جائزہ لینا ہے کالی موری کے ان کھنڈرات کا جہاں ان جادوگروں نے اپنا مسکن بنا رکھا ہے۔ سفلی علوم کے یہ ماہر بھی کیا انوکھی چیز ہیں۔ ایک باقاعدہ نظام ہے ان کا اور اب اس کے بارے میں مجھے مکمل طور پر معلوم ہوچکا تھا۔ بھوریا چرن کالے علم کا سب سے بڑا ماہر بننا چاہتا تھا اور اس نے اس کے لیے اپنی تمام تر کارروائیوں کے ساتھ مجھے بھی اس جنجال میں پھنسا دیا تھا۔ سب کو دیکھ لوں گا۔ سب کو دیکھ لوں گا۔ اپنی جگہ سے اٹھا اور بے خودی کے سے عالم میں آگے بڑھ گیا۔ بہت فاصلے پر بڑ کے درختوں کا ایک طویل و عریض سلسلہ چلا گیا تھا۔ دور سے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا جیسے بہت سے درخت سر جوڑے کھڑے ہوں۔ انہی درختوں کے دامن میں گنگولی نے اپنا ٹھکانہ بنایا تھا۔ ہو کا عالم طاری تھا۔ اول تو یہ علاقہ ہی چندوسی کا ایک ایسا حصہ تھا جو بالکل بے مصرف تھا اور ادھر سے انسانوں کا گزر ہی نہیں ہوتا تھا۔ دوم یہ کہ تیز دھوپ اور شدید گرمی نے ماحول کو آگ بنا رکھا تھا اور بھلا آگ کے اس سمندر میں جھلسنے کے لیے کون گھر سے باہر نکلے۔ بڑ کے درختوں کے نیچے بڑی گھنی چھائوں تھی۔ میں نے وہاں کچھ چیزیں رکھی دیکھیں۔ برتن تھے، کالے رنگ کا ایک کمنڈل تھا، کچھ گدڑیاں سی پڑی ہوئی تھیں اور ایسی ہی نجانے کیا کیا چیزیں…! میں ابھی ان چیزوں کے سامنے ہی پہنچا تھا کہ درختوں کے عقب سے لمبے چوڑے جسم والا ایک سادھو نما شخص باہر نکل آیا۔ شکل و صورت عام سادھوئوں سے مختلف نہیں تھی۔ بکھرے ہوئے مٹی میں اٹے ہوئے بال، بڑھی ہوئی داڑھی، اس کے بدن پر ریچھ کی طرح لمبے لمبے سیاہ بال تھے۔ لباس بہت مختصر پہنا ہوا تھا۔ دھوتی ہی کا ایک پلو اٹھا کر کندھے پر ڈال لیا گیا تھا۔ لکڑی کی کھڑائوں پہنے ہوئے تھا۔ کھٹ کھٹ کرتا ہوا بڑ کے درخت کے چوڑے تنے کے پیچھے سے باہر نکل آیا اور اپنے بھنچے ہوئے پتلے پتلے ہونٹوں کو مزید بھینچ کر مجھے گھورنے لگا۔ اس کی آنکھیں بہت سفید تھیں اور پتلیاں بہت چھوٹی چھوٹی! ایک عجیب سی کیفیت ان آنکھوں میں پائی جاتی تھی۔ وہ مجھے دیکھتا رہا۔ پھر بولا۔
’’کیا بات ہے، کون ہے تو اور ادھر کیوں آیا ہے؟‘‘
’’گنگولی ہے تیرا نام…؟‘‘
’’ہاں! گنگولی ہی ہوں۔ کیسے جانتا ہے مجھے…؟‘‘
’’گنگولی میں تجھ سے سری رام کی بیٹی کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’سری رام نے بھیجا ہے تجھے…؟‘‘
’’اپنے کالے جادو سے معلوم کر۔‘‘
’’کالے جادو کا نام مت لے بے وقوف۔ اگر تو نے مجھے کالے جادو کی طرف لوٹا دیا تو تیرا کیا بنے گا؟‘‘
’’تو پھر ٹھیک ہے۔ بس یوں سمجھ لے کہ میں اسی کام سے یہاں آیا ہوں۔ تجھے جس مقصد کے لیے بلایا گیا تھا، وہ پورا کرنے کے بجائے تو سری رام کی بیٹی کے چکر میں پڑ گیا۔‘‘ میرے ان الفاظ پر گنگولی ہنس پڑا۔ بڑا مکروہ قہقہہ تھا اس کا! ہنسنے کے بعد وہ بولا۔
’’دیکھا ہے اسے؟‘‘
’’ہاں دیکھا ہے۔‘‘
’’پھر بھی یہ بات کررہا ہے۔‘‘
’’وہ تم لوگوں کی ملکیت تو نہیں ہے۔ آخر تم نے ایک شریف آدمی کو کیوں پریشان کررکھا ہے؟‘‘
’’شریف آدمی… ارے چھوڑ… چھوڑ، اپنی کہہ! میرے پاس سوداگر بن کے آیا ہے یا بیچ کا آدمی؟‘‘
’’نہ میں سوداگر بن کر آیا ہوں، نہ بیچ کا آدمی، تو یوں کر گنگولی کہ اپنا یہ سازوسامان اٹھا کر یہاں سے بھاگ جا ورنہ کیا پتا نقصان اٹھا جائے۔‘‘ اس نے گھور کر مجھے دیکھا۔ دیکھتا رہا۔ پھر ہنس پڑا اور بولا۔
’’میاں جی ہو، یہ بات ہے۔ سوچا ہی نہیں تھا ہم نے اب تک، ارے میاں جی! کس پھیر میں پڑ گئے تم۔ جادو نگری ہے یہ… جائو، جائو اپنا کام دیکھو، ہمیں ہمارا کام کرنے دو۔ جس شریف آدمی کی تم بات کررہے ہو نا، وہ ضرورت سے زیادہ ہی شریف ہے۔ جائو… جائو بھاگ جائو۔‘‘
’’دیکھ گنگولی یہ سب ٹھیک نہیں ہے۔ میں تجھے سمجھانا چاہتا ہوں۔‘‘
’’اور اس کے بعد کیا کرو گے؟‘‘
’’اس کے بعد جو کچھ کروں گا، وہ تیرے لیے اچھا نہیں ہوگا۔‘‘
’’ہمارے لیے کیا اچھا ہے، کیا برا یہ تم کیا جانو۔ جائو پہلے اپنی خیر منائو۔ ذرا یہاں سے واپس جاکر دکھا دو…‘‘
’’تُو تو میری بات نہیں مانے گا…‘‘
’’نہیں مانیں گے سمجھے، جائو چلے جائو۔ آگے بڑھو، دوپہر کا وقت ہے، آرام کرنے کا وقت، تم نے یہاں آکر
خواہ مخواہ ہمیں پریشان کردیا۔ جاتے ہو یا پھر واپس بھجوائیں تمہیں۔‘‘ گنگولی نے کہا اور میں پرسکون نگاہوں سے اسے دیکھتا رہا۔ پھر میں نے کہا۔
’’سات دن دے رہا ہوں تجھے گنگولی! صرف سات دن! اور یہ سات دن بہت ہوتے ہیں۔ سات دن میں اگر تو یہاں سے نہ گیا تو اسی جگہ تجھے راکھ کرکے رکھ دوں گا۔‘‘گنگولی پھر ہنسا اور بولا۔
’’ابھی غصہ نہیں آیا ہمیں، ابھی تو ہم اپنا کام کررہے ہیں اور اچھی بات ہے ذرا میاں جی تمہارے کس بل بھی دیکھ لیں گے۔ چلو بس اب جائو، بات ہوگئی نا ہماری۔‘‘ میرا انتظار کیے بغیر وہ مڑا اور واپس درخت کے پیچھے چلا گیا۔ میں چند لمحات سوچتا رہا اور پھر گردن ہلا کر وہاں سے واپس پلٹ پڑا۔ مجھے جو کہنا تھا، میں نے اس سے کہہ دیا تھا۔ ان سات دنوں کے اندر اندر اگر ان لوگوں نے اپنے ڈیرے نہ اٹھا دیے تو پھر جو کچھ بھی کرسکوں گا، ضرور کروں گا۔
دو قدم آگے بڑھا تھا کہ دفعتاً ہی ایک گہرا گڑھا نظر آیا۔ میں نے دائیں بائیں نظر دوڑائی۔ گڑھے کی چوڑائی کوئی آٹھ فٹ کے قریب تھی۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے یہ گڑھا موجود نہیں تھا، اب پڑ گیا تھا۔ مجھے حیرت ہوئی تھی لیکن پھر دوسرے لمحے میں نے ایک لمبی چھلانگ لگائی اور گڑھا عبور کرگیا۔ دس بارہ قدم آگے بڑھا تھا کہ پھر ویسا ہی ایک گڑھا نظر آیا۔ میں حیرانی سے ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ یہ گڑھا تقریباً بارہ فٹ چوڑا تھا۔ آٹھ فٹ لمبی چھلانگ تو میں نے جس طرح بھی بن پڑا، لگا ڈالی تھی لیکن اب یہ احساس ہورہا تھا کہ یہ خاصا چوڑا گڑھا ہے۔ دفعتاً ہی میرا ذہن جیسے مفلوج سا ہوگیا اور میں نے آنکھیں بند کرکے آگے قدم بڑھا دیے۔ میں اس گڑھے پر پائوں جماتا ہوا اسے عبور کر گیا۔ جب تقریباً اندازے سے بارہ، چودہ فٹ آگے بڑھ گیا تو میں نے آنکھیں کھول دیں اور پیچھے مڑ کر اس گڑھے کو دیکھنے لگا لیکن گڑھا پیچھے نہیں، آگے تھا اور اب میرے اندر ایک ایسی انوکھی قوت بیدار ہوگئی تھی جس کا میں خود کوئی تجزیہ نہیں کر پا رہا تھا۔ یہ گڑھے میرا راستہ روکتے رہے لیکن میں انہیں بڑے اطمینان سے عبور کرتا رہا۔ اب تو میں چھلانگ بھی نہیں لگا رہا تھا۔ پیروں کے نیچے زمین نہ ہوتی لیکن میرے قدم آگے بڑھتے رہتے اور تھوڑی ہی دیر کے بعد میں ان کھنڈرات کے سامنے تھا جو کالی موری کے کھنڈرات کہلاتے تھے۔ میری ذہنی قوت اس وقت کچھ عجیب سی ہورہی تھی۔ بس کام کی باتیں سوچ رہا تھا، دوسری کوئی بات ذہن تک نہیں پہنچ پا رہی تھی۔ کالی موری کے کھنڈرات دھوپ میں جل کر سیاہ ہوچکے تھے۔ غالباً شبنم کی نمی اور دھوپ کی تیزی نے انہیں یہ رنگ بخشا تھا۔ میں اندر داخل ہوا اور کھنڈرات میں ایک چوڑے در کو عبور کرکے اندر پہنچ گیا پھر میرے حلق سے آواز نکلی۔
’’گووندا… او گووندا! کہاں چھپا پڑا ہے؟ سامنے آ… سامنے آ!‘‘ میں اپنی آواز کی بازگشت محسوس کرتا رہا۔ پھر میں نے دوسری بار اسے آواز دی اور تھوڑی ہی دیر کے بعد کھڑبڑ کی آوازیں آنے لگیں لیکن جو چیز میرے سامنے آئی، وہ بڑی عجیب و غریب تھی۔ یہ ایک لمبا چوڑا بیل تھا جس کے پورے جسم پر کالے کالے دھبے پڑے ہوئے تھے لیکن اس کا چہرہ انسانی تھا البتہ اس چہرے پر دو سینگ اُگے ہوئے تھے۔ اتنے اونچے اونچے سینگ کہ کسی بیل کے سر پر اس سے پہلے نہیں دیکھے گئے ہوں گے۔ وہ نتھنوں سے آوازیں نکال رہا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ ہی پھنکاریں سی گونج رہی تھیں۔ اس نے مجھ سے کچھ فاصلے پر کھڑے ہوکر اپنے دونوں پائوں زمین پر مارے اور زمین کریدنے لگا۔ پھر اس نے بدن کو تھوڑا سا نیچے جھکایا اور اس کے بعد ایک طوفانی دھاڑ کے ساتھ میری جانب لپکا۔
اس کے لمبے چوڑے جسم کو دیکھ کر ایک لمحے میں یہ احساس ہوا تھا کہ اگر وہ مجھ پر آپڑا تو میری ہڈیاں تک سرمہ بن جائیں گی لیکن میں نے دونوں ہاتھ سامنے کئے اور اس کے قریب آنے کا انتظار کرنے لگا۔ اس نے گردن جھکا کر میرے سینے پر زور دار ٹکر مارنا چاہی لیکن اس کے دونوں سینگ میرے ہاتھوں میں آگئے اور دوسرے لمحے میرے اور اس کے درمیان طاقت آزمائی شروع ہوگئی۔ میں پوری طاقت سے اس کے سینگوں کو داہنی جانب موڑ رہا تھا اور وہ اپنے جسم کی قوت صرف کررہا تھا۔ زمین پر اس کے پیروں کے نیچے آنے والی اینٹیں چُورچُور ہوتی جارہی تھیں لیکن وہ مجھے ایک قدم بھی پیچھے نہیں دھکیل پایا تھا۔ یہاں تک کہ میں نے اس کی گردن پوری طرح موڑ دی اور اس کا قوی ہیکل جسم بڑی تیز آواز کے ساتھ زمین پر آرہا۔ میں نے اسے پٹخ دیا تھا۔ بہت زور دار آواز ہوئی تھی اور بیل گرنے کے بعد پھر نہ اٹھ سکا تھا اور ہاتھ، پائوں مار رہا تھا۔ حیران کن بات یہ تھی کہ اس کا جسم چھوٹا ہوتا جارہا تھا۔ میں اپنی جگہ کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ اچانک ہی مجھے پیچھے سے آواز سنائی دی۔
’’کون ہے تو یہاں کیا کررہا ہے؟‘‘ میں ایک دم گھوم گیا۔ تب میں نے ایک نوجوان آدمی کو دیکھا۔ باریک ململ کا کرتا اور دھوتی پہنے ہوئے تھا۔ بال سلیقے سے بنے ہوئے تھے، چہرہ بھی خوبصورت تھا۔ میں اس کی طرف رخ کرکے کھڑا ہوگیا۔ ’’تو گووندا ہے؟‘‘
’’ہاں! مگر تو کون ہے؟‘‘
’’ابھی تک تیرا دشمن نہیں ہوں، اگر تو میری بات مان لے۔‘‘ وہ میرا چہرہ دیکھتا رہا۔ پھر اچانک مسکرا پڑا اور بولا۔
’’آ اندر آجا… آجا وعدہ کرتا ہوں کہ تجھ سے بات کروں گا اور تجھے کوئی نقصان نہ پہنچائوں گا۔ آجا مرد بچہ ہوں، وچن دے رہا ہوں تجھے۔‘‘ میں نے پلٹ کر بیل کو دیکھا اور چونک پڑا۔ وہ اب وہاں موجود نہیں تھا۔ لمبا چوڑا بیل غائب ہوگیا تھا۔ گووندا نے کہا۔ ’’وہ میرا بیر تھا، تجھے نقصان نہ پہنچاتا۔ بس ڈرا رہا تھا۔ یہ وقت ہم کالے جادو والوں کے لیے گیان کا ہوتا ہے اور ہم کسی سے ملتے نہیں۔ میں نے بیر اس لیے چھوڑے ہیں کہ ضرورت مند لوگ ہر وقت آجاتے ہیں مگر تو نے میرا بیر ہی مار گرایا۔ چل آجا اندر آجا…!‘‘ وہ واپس مڑ گیا۔ میں اس کے ساتھ کھنڈرات کے دوسرے حصے میں آگیا۔ اندر ایک جگہ بالکل درست حالت میں تھی مگر وہاں کوئی چیز نہیں تھی بس چند پتھر پڑے ہوئے تھے البتہ جگہ بالکل ٹھنڈی تھی۔
’’بیٹھ جا…!‘‘ گووندا نے پھر کہا اور میں ایک پتھر پر بیٹھ گیا۔
’’میرا علم بتاتا ہے کہ تو مسلمان ہے۔‘‘
’’الحمدللہ!‘‘
’’یہاں کیوں آیا ہے؟‘‘
’’تجھ سے بات کرنے۔‘‘
’’کیا بات کرنے؟‘‘
’’تو پوجا وتی کا پیچھا چھوڑ دے۔‘‘
’’اوہ۔ تیرا اس سے کیا سمبندھ ہے؟‘‘
’’کچھ نہیں۔ بس وہ ایک انسان ہے۔‘‘
’’بس… یا اور کچھ؟‘‘
’’نہیں بس یہی بات ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’انسان تو میں بھی ہوں مورکھ! اگر بات صرف انسانیت کی ہے تو تجھے میرا بھی خیال کرنا چاہیے۔ میں بھی تو انسان ہوں۔‘‘
’’تجھے کیا تکلیف ہے گووندا۔ تو اچھا خاصا ہے۔ جو کچھ میں نے تیرے بارے میں سنا ہے، اس سے پتا چلتا ہے کہ تو نے گندے علم کا کاروبار کررکھا ہے اور لوگوں کو تجھ سے نقصان پہنچتا ہے۔‘‘ گووندا ہنس پڑا۔ پھر بولا۔
’’ایک طرف کی سن کر دوڑ پڑے مہاراج کمار گووندا پر! گووندا کے بارے میں بھی انہی لوگوں سے پوچھ لیتے جو اب کراہ رہے ہیں مگر تمہیں کیا پڑی۔ خیر اب ہمیں بتائو ہمارے پاس کیسے آئے ہو؟ ایک بیر کو پچھاڑ مارنا کوئی کارنامہ نہیں، کسی خوش فہمی کا شکار مت ہوجانا۔ ہمارا تم سے کوئی جھگڑا نہیں، ابھی تک کسی مسلمان کو ہمارے ہاتھوں کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ ہمیں اس کے لیے مجبور مت کرو۔‘‘
’’میں صرف یہ چاہتا ہوں گووندا کہ تو پوجا کا پیچھا چھوڑ دے باقی تو جو کچھ کررہا ہے، اس سے مجھے سروکار نہیں ہے۔‘‘ میں نے کہا اور وہ ہنسنے لگا۔ پھر بولا۔
’’واہ رے میاں مٹھو! جو پڑھایا گیا ہے تجھے، وہی بول رہا ہے۔ ارے کہاں سے پکڑا گیا ہے تجھے اور کس نے پکڑا ہے؟ کیا سری رام نے، اب وہ دوسرے دھرم والوں سے مدد لینے دوڑ پڑا ہے؟ ارے بھائی! ہمارے جیون کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے پوجا۔ پوجا کے لیے ہی تو ہم نے یہ ناٹک رچایا ہے سارا۔ تجھے معلوم تو کچھ ہے
نہیں بس طوطے کی طرح پڑھا اور آگیا ہمارے سامنے۔‘‘
’’تو پوجا کے پیچھے کیوں پڑ گیا ہے آخر…؟‘‘
’’عمر تو تیری بھی زیادہ نہیں ہے۔ پریم کیا ہے کبھی تو نے…؟‘‘
’’تو تو پوجا سے محبت کرتا ہے مگر کیسا عاشق ہے یار! تیری پوجا کا ایک اور دعویدار تجھ سے کچھ فاصلے پر پڑا ہوا ہے اور وہ بھی دعویٰ کرتا ہے کہ پوجا کو حاصل کرکے چھوڑے گا۔‘‘ گووندا ایک دم سنجیدہ ہوگیا۔ پھر اس نے غراتے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’وہ پوجا کے چرنوں کی دھول بھی نہ پا سکے گا۔ اس کے پاس ہے کیا۔ ایک لونا چمارن کا جاپ کرلیا ہے اس نے۔ بس یہی اس کا گیان ہے۔ جب چاہوں گا اس کا ناس کردوں گا۔‘‘
’’تو ایسا نہیں کرسکتا گووندا۔ ابھی میں اس کے پاس بھی گیا تھا۔‘‘ میں نے کہا اور وہ مجھے گھورنے لگا۔ پھر اس کا انداز بدل گیا۔
’’گن کے پکے لگتے ہو میاں جی! دیکھو سمجھا رہے ہیں تمہیں۔ ہماری کہانی دوسری ہے، اس پھیر میں مت پڑو۔ ہوسکتا ہے تمہارے پاس گیان ہو۔ ہم سے جھگڑا مت کرو۔ ہم نے بڑی تپسیا کی ہے، بڑے دکھ اٹھائے ہیں ہم نے۔ ہمارا علم کالا ہے، ہم مانتے ہیں اور ہم تمہارے علم کا احترام کرتے ہیں۔ تم سے جھگڑا نہیں کرنا چاہتے۔ جہاں تک گنگولی کا معاملہ ہے تو لگتا ہے اب بات بڑھ گئی ہے۔ سری رام اپنی ہٹ میں اپنی بیٹی کو نقصان پہنچا دے گا۔ اس لیے… اس لیے پہلے ہم گنگولی کو ٹھکانے لگائے دیتے ہیں۔ دیکھنا چاہو تو رات کو آجانا۔ نہ آسکو تو کل جاکر اس کا استھان دیکھ لینا۔ کل وہ تمہیں وہاں نہ ملے گا، جہاں ہے۔‘‘
’’اب تک تو نے ایسا کیوں نہیں کیا؟‘‘
’’بس نہیں کیا، اب کرلیں گے۔ مگر اس کے بعد تم ہمارا سامنا مت کرنا۔ ہم تم سے بنتی کرتے ہیں۔ ہوسکتا ہے تمہارا علم ہم سے بڑا ہو۔ ہم کبھی کسی مسلمان کے علم سے نہیں ٹکرائے۔ اگر تم نے مجبور کیا تو مقابلہ کریں گے تمہارا۔ ہاریں یا جیتیں، یہ الگ ہے مگر جان لڑا دیں گے۔ جیتے جی ہار نہ مانیں گے۔ بس اب جائو۔ ہم نے تم سے کوئی بری بات نہیں کی ہے مگر سری رام کے جھگڑے میں مت پڑو۔‘‘
’’اگر گنگولی تجھ پر بھاری پڑ گیا گووندا تو…؟‘‘
’’تو ایک یار والی بات کہیں تم سے…؟‘‘
’’کہو…!‘‘
’’تم اپنا علم گنگولی سے لڑا دینا۔ جیتا مت چھوڑنا سسرے کو۔ ورنہ پوجا کو پریشان کرے گا۔‘‘ اس نے دلسوزی سے کہا اور
جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔
’’کہاں چلا گووندا…؟‘‘
’’بس مہاراج… اجازت دو…!‘‘ اس نے کہا اور تیزی سے آگے بڑھا۔ چند قدم چلا اور پھر میری نگاہوں سے اوجھل ہوگیا۔ میں اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا تھا۔ پھر اس کے چاروں طرف دیکھا مگر گووندا نظر نہ آیا۔ میں دیر تک وہاں گم صم کھڑا رہا تھا۔ عجیب سی گفتگو کی تھی اس نے، بڑا عجیب لگا تھا وہ مجھے۔ نہ جانے کیسا احساس ہورہا تھا۔ پھر وہاں سے واپسی کے علاوہ کیا کرسکتا تھا مگر راستے بھر گووندا کے بارے میں سوچتا رہا تھا۔ اس جگہ سے بھی گزرا جہاں اس پچھل پہری کو دیکھا تھا مگر اب وہاں کچھ نہیں تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد بستی میں داخل ہوگیا مگر کالے جادو کے دونوں ماہروں سے یہ ملاقات بہت دلچسپ تھی۔ گووندا نے جو دعویٰ کیا تھا، وہ بھی بے حد دلچسپ تھا اور بھلا یہ کیسے ممکن ہوسکتا تھا کہ رات کو میں یہاں موجود نہ ہوں۔
سلامت علی صاحب کے مکان میں داخل ہوا تو سورج ڈھل رہا تھا۔ فرخندہ بیگم سامنے آگئیں۔
مجھے گھورتے ہوئے بولیں۔ ’’غضب خدا کا۔ یہ آپ کہاں آوارہ گردی کرتے پھر رہے ہیں جناب! ذرا آئینہ دیکھئے چہرہ دھوپ سے کالا پڑ گیا ہے۔ میں کہتی ہوں یہ دھوپ میں باہر نکلنے کی کیا ضرورت پیش آگئی تھی آپ کو۔ لو لگ جاتی تو کیا ہوتا۔ بیمار پڑنا ہے؟‘‘
’’بس یونہی آپ کا چندوسی دیکھنے نکل گیا تھا فرخندہ۔‘‘ میں نے معذرت آمیز لہجے میں کہا۔
’’سنئے مسعود صاحب۔ یہ نہ سمجھیں کہ یہاں آپ کا کوئی سرپرست موجود نہیں ہے۔ جو چاہیں گے، کریں گے۔ کس سے پوچھ کر باہر نکلے تھے آپ؟‘‘ فرخندہ سخت لہجے میں بولی۔
’’کیا بکواس کررہی ہے فرخندہ۔ دماغ خراب ہوگیا ہے۔ یہ تو مسعود میاں سے کس لہجے میں بات کررہی ہے؟ ارے پاگل ہوگئی ہے کیا۔‘‘ نہ جانے کہاں سے سلامت علی نکل آئے۔ انہوں نے فرخندہ کے الفاظ سن لیے تھے۔
’’کوئی غلط کہہ رہی ہوں ابو۔ آپ ان کا چہرہ خود دیکھ لیں۔ آخر یہ دھوپ میں کیوں نکلے تھے۔‘‘ فرخندہ بلاجھجھک بولی۔
’’تو کون ہوتی ہے۔ میں دماغ ٹھیک کردوں گا تیرا۔ معاف کردیں مسعود میاں، معاف کردیں۔ نہ جانے کس جھونک میں یہ بکواس کرگئی۔ آئندہ میں اسے سمجھا دوں گا۔‘‘ سلامت علی پریشانی سے بولے۔
’’نہیں سلامت علی صاحب۔ خدا کے لیے نہیں۔ آپ، آپ ان الفاظ اور لہجے کی قیمت نہیں جانتے۔ آہ! خوش نصیبوں کو یہ ڈانٹ ملتی ہے۔ مجھ سے میری یہ خوش بختی نہ چھینیں۔ آپ نے مجھے فراست کا درجہ دیا ہے۔ ہم بہن، بھائی کے درمیان نہ آئیں…!‘‘
’’اوہ! اچھا ٹھیک ہے۔ اگر ایسی بات ہے تو…!‘‘ سلامت علی شرمندگی سے کہنے لگے۔ فرخندہ اسی طرح تنی کھڑی تھی۔ اتنی پیاری لگی وہ مجھے کہ جی چاہا بڑھ کر پیشانی چوم لوں مگر یہ بھی حکم نہ تھا مجھے۔ اس نے پھر کہا۔
’’چلیے غسل کیجئے۔ میں چائے تیار کراتی ہوں۔‘‘ میں خاموشی سے اندر چل پڑا تھا اور سلامت علی سر کھجاتے رہ گئے تھے۔ غسل کرتے ہوئے میں گووندا کے کردار کے بارے میں سوچتا رہا۔ انوکھا کردار تھا۔ ایک عجیب سا احساس ہورہا تھا مجھے۔ دن بھر کی لو اور تپش کے بعد شام ٹھنڈی ہوگئی تھی۔ چائے وغیرہ پی لی گئی۔ سات بجے کے قریب سلامت علی میرے پاس آگئے۔
’’دوپہر کو کالی موری گئے تھے مسعود میاں…؟‘‘
’’جی ہاں۔ رات کو بھی جانا ہے۔‘‘
’’اوہ!‘‘ وہ آہستہ سے بولے۔ یوں لگا جیسے کچھ کہنا چاہتے ہوں مگر رک گئے ہوں۔ چند لمحات خاموش رہے۔ پھر بولے۔ ’’کیا بتائوں مسعود میاں میں خود گھن چکر بن گیا ہوں۔‘‘
’’کیوں سلامت علی صاحب؟‘‘
’’تمہارا وہ احترام نہیں ہورہا جو ہونا چاہیے بلکہ یہ بچے۔ ناواقفیت کی بنا پر اس قدر بے تکلف ہوگئے ہیں کہ مجھے خوف آنے لگا ہے۔ بیٹے! دراصل تمہارا تعارف اس انداز میں ہوا ہے کہ وہ تمہیں سمجھ نہیں پائے ہیں اور پھر تمہاری عمر بھی انہی کے لگ بھگ ہے اور پھر میں خود۔ بھلا یہ باتیں پوچھنے کی ہیں جو میں پوچھ رہا ہوں۔‘‘
’’آپ خود یہ ساری باتیں سوچ رہے ہیں جبکہ میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں۔ ان لوگوں کی بے تکلفی مجھے اپنے گھر کا ماحول یاد دلاتی ہے اور مجھے اچھا لگتا ہے میں بھی بھائی، بہن اور ماں، باپ والا ہوں۔‘‘
’’وہ لوگ کہاں ہیں؟‘‘ سلامت علی نے بے اختیار پوچھا۔
’’اللہ کی اسی زمین پر…! میں نہیں جانتا۔‘‘ میں نے جواب دیا۔ سلامت علی خاموش ہوگئے۔ کچھ دیر کے بعد پھر بولے۔ ’’کالی موری رات کو بھی جائو گے؟‘‘
’’ہاں۔ شاید کچھ ہوجائے۔‘‘
’’کیا…؟‘‘ وہ بولے اور میں نے انہیں عجیب سی نظروں سے دیکھا تو وہ جلدی سے بولے۔ ’’میرا مطلب ہے کہ تمہیں تو کوئی نقصان پہنچنے کا خدشہ نہیں ہے۔ افوہ بھئی! نہ جانے کیا کہنا چاہتا ہوں۔ بس اپنا بھی خیال رکھنا۔‘‘
’’جی بہتر!‘‘ میں نے ادب سے جواب دیا۔ میں سمجھ رہا تھا کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ اس خوش بختی کو میں نظرانداز نہیں کرسکتا تھا۔ ماں، باپ، بہن، بھائی جدا ہوگئے تھے مگر ان کی محبتوں کی جھلکیاں جگہ جگہ نظر آجاتی تھیں۔ کبھی کسی شکل میں، کبھی کسی شکل میں۔ سلامت علی صاحب بھی بس میرے لیے فکرمند ہوگئے تھے۔ کھل کر کچھ نہیں کہہ پا رہے تھے۔ مطلب یہی تھا کہ کالے جادوگروں سے مجھے کوئی نقصان نہ پہنچ جائے۔
عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد رات کا کھانا کھایا اور دل بے چین ہوگیا۔ کالی موری کا فاصلہ بھی زیادہ تھا، چل پڑنا چاہیے۔ فراست کے بارے میں سلامت علی صاحب نے بتایا تھا کہ وہ ایک کام سے بلند شہر گیا ہے اسی لیے وہ نظر نہیں آیا تھا۔ بالآخر میں خاموشی سے گھر سے نکل آیا اور کالی موری کے فاصلے طے کرنا لگا۔ چھوٹے شہر تاریکی کے ساتھ ہی سنسان ہوجاتے ہیں۔ یہی کیفیت چندوسی کی تھی حالانکہ ابھی رات کا آغاز ہوا تھا مگر گلیاں، بازار اس طرح سنسان اور تاریک پڑے تھے جیسے آدھی رات گزر گئی ہو۔ میں چلتا رہا۔ سڑکوں پر کتوں کا راج تھا۔ بھونک رہے تھے۔ لڑ رہے تھے، مگر کوئی مجھ پر نہیں لپکا تھا۔ شہر پیچھے رہ گیا۔ میری رفتار تیز ہوگئی۔ اس جگہ ذرا سی جھجھک ہوئی جہاں چڑیل اور سر کٹا دیکھا تھا مگر اب خاموشی تھی۔ ایک لمحے میں فیصلہ کرلیا کہ گنگولی کی طرف رخ کروں اور اسی طرف میں بڑھا۔ دونوں کے بارے میں اندازہ لگا چکا تھا کہ دونوں ہی سفلی علوم جانتے ہیں۔ اگر گووندا کا دعویٰ درست تھا تو ان کے درمیان جادو کی معرکہ آرائی زبردست ہوگی یا ممکن ہے کہ میرے آنے سے پہلے ہوچکی ہو۔ درختوں کے سلسلے کے پاس رک گیا۔ بس کچھ فاصلے پر گنگولی کا استھان تھا۔ میں ایک درخت کے نیچے کھڑا ہوگیا۔ اچانک ایک سرسراہٹ سنائی دی اور میں چونک کر آنکھیں پھاڑنے لگا مگر آواز دوبارہ نہ سنائی دی۔ ہوسکتا ہے کوئی گیدڑ یا دوسرا جانور ہو۔ پھر اچانک درختوں کے دوسری طرف روشنی سی نظر آئی اور میں ادھر دیکھنے لگا۔ روشنی متحرک تھی۔ پھر وہ درختوں کے پیچھے سے نکل آئی۔ ایک مشعل روشن تھی لیکن اس سے شعلے نہیں نکل رہے تھے۔ غور سے دیکھنے سے اندازہ ہوا کہ وہ ایک انسانی کھوپڑی تھی جو ایک ڈنڈے میں اُڑسی ہوئی تھی۔ روشنی اسی سے پھوٹ رہی تھی اور یہ مشعل گنگولی کے ہاتھ میں تھی۔ گنگولی اس وقت دن سے مختلف نظر آیا۔ وہ گلے میں بہت سی کھوپڑیاں ہار کی شکل میں پہنے ہوئے تھا۔ ان کھوپڑیوں کی آنکھوں کے گڑھے بھی روشن تھے۔ وہ تھرکتا ہوا میری طرف بڑھ رہا تھا۔ میں سنبھل گیا۔ اس کا مطلب ہے کہ اسے میری آمد کا علم ہوگیا تھا۔ اب میں نے اپنے آپ کو چھپانا مناسب نہیں سمجھا اور گنگولی کے سامنے آگیا۔ گنگولی نے ہاتھ سیدھا کیا اور مشعل کے نچلے حصے کو ایک درخت کے تنے میں زور سے مارا اور درخت کا ٹھوس اور مضبوط تنا ایسا نہیں تھا کہ کسی معمولی ضرب سے اس میں سوراخ ہوجائے لیکن مشعل کوئی آٹھ انچ کے قریب درخت کے تنے میں پیوست ہوگئی۔ گنگولی نے اسے چھوڑ دیا۔ آس پاس تیز روشنی پھیل گئی تھی۔
’’ارے میاں جی تم کیوں اپنی جان گنوانے پر تلے ہوئے ہو، بار بار آجاتے ہو۔ یہ بھیروں کا استھان ہے، نجانے کون کون یہاں آتا جاتا ہے۔ کوئی گردن مڑوڑ لے گا۔ اب کیسے آن مرے…؟‘‘
’’بس گنگولی دیکھنا چاہتا تھا کہ تم کیا کررہے ہو؟‘‘
’’ایسے کام نہ دیکھا کرو میاں جی تو ہی اچھا ہے۔ تم نجانے کیا کیا سوچ رہے ہو اپنے من میں، بالی سی عمریا ہے، کھانے پینے کے دن ہیں اور پڑ گئے ہو کالے جادو کے پھیر میں۔ اب تو آگئے ہو، ادھر آئندہ مت آنا۔‘‘
’’دراصل گنگولی تجھ سے کئی باتیں کرنا رہ گئی تھیں۔ سو وہ کرنے چلا آیا۔‘‘
’’ارے شکر کرو کالی راتوں کا موسم ہے۔ نکلا ہوتا چاند تو تمہیں مزہ آجاتا یہاں آنے کا۔‘‘
’’کیوں چاند سے کیا ہوتا…؟‘‘ میں نے سوال کیا اور گنگولی پھر ہنس پڑا۔
’’سبھالگی ہوتی ہے چاندنی راتوں میں، بیروں اور ویروں کی۔ سارے کے سارے اپنی اپنی کتھائیں کہہ رہے ہوتے ہیں، لڑتے ہیں، جھگڑتے ہیں، ایک دوسرے کو نوچتے ہیں، بھنبھوڑتے ہیں اور اگر بیچ میں کوئی آجائے تو اسے بھی چٹ کر جاتے ہیں۔‘‘
’’واقعی یہ تو اچھا ہوا گنگولی کہ چاندنی راتیں نہ ہوئیں۔ اچھا! تم ایک بات بتائو۔ تمہیں پتا ہے کہ گووندا سری رام جی کی بیٹی پوجا کو حاصل کرنے کے چکر میں ہے اور تمہیں اسی کے خلاف یہاں بلایا گیا تھا، تم خود پوجا کے چکر میں پڑ گئے اور تم نے یہاں ڈیرہ ڈال لیا۔ اس طرح ڈیرہ ڈالنے سے کیا تمہیں پوجا مل جائے گی؟‘‘
’’واہ میاں جی واہ! اچھی سوچی، جو یہ سارے بائولے نہیں سوچ سکے۔ میاں جی! گووندا کا اور ہمارا ابھی تک آمنا سامنا نہیں ہوا۔ جانتے ہو کیوں…! ارے ہم نے بھی گووندا کو آزاد چھوڑ رکھا ہے۔ نہ اس نے ہم پر وار کیا نہ ہم نے اس پر۔ ہم انتظار کررہے ہیں کہ گووندا سری رام کو پریشان کرے اور جب ان کی ناک میں دم آجائے تو وہ دوڑیں ہماری طرف اور ہم پوجا کو ان سے مانگ لیں۔ اگر ہم نے گووندا کو کوئی نقصان پہنچا دیا تو پھر بھلا سری رام کو کیا پڑی کہ ہماری مانے۔ جب تک گووندا ہمیں نہیں چھیڑتا، ہم اسے نہیں چھیڑیں گے۔‘‘
’’اور اگر گووندا کو یہ بات معلوم ہوگئی کہ تمہارا کیا ارادہ ہے تو کیا وہ تمہیں چھوڑ دے گا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’یہ تو ہونا ہے میاں جی! جھگڑا تو رہے گا ہمارا اس سے… اگر ہمارے من میں پوجا کو حاصل کرنے کا خیال نہ آجاتا تو ہم اس کام کے لیے تو آئے تھے۔ گووندا سے ہماری ٹکر ہوتی مگر تم نے اگر پوجا
کو دیکھا ہے تو تمہیں بھی اندازہ ہوگیا ہوگا کہ وہ کیسی سندر ہے۔ بات ہم نے بیچ میں اس لیے چھوڑ دی کہ اب اگر جھگڑا ہو گووندا سے، تو پوجا کے لیے ہو۔‘‘
دفعتاً ہی ایک عجیب سی آواز فضا میں ابھری اور ایک بھیانک منظر نگاہوں کے سامنے آگیا۔ گنگولی کی گردن میں کھوپڑیوں کا جو ہار پڑا ہوا تھا، اس میں پروئی ہوئی کھوپڑیوں کے منہ سے طرح طرح کی آوازیں نکلنے لگی تھیں۔ منمناتی ہوئی آوازیں جو کچھ کہہ رہی تھیں۔ کوئی بھاری آواز، کوئی باریک آواز، کسی کھوپڑی کے منہ سے معصوم بچے جیسی آواز نکل رہی تھی، تو کوئی نسوانی آواز میں چیخ رہی تھی۔ ان کے الفاظ تو سمجھ میں نہیں آئے مگر گنگولی کے انداز سے یہ پتا چلتا تھا جیسے اسے کوئی خاص اطلاع ملی ہو۔ وہ اچانک ہی اچھل کر تھوڑے فاصلے پر پڑے ہوئے ایک بڑے سے پتھر پر چڑھ گیا اور اس نے اِدھر اُدھر گردن گھمانا شروع کردی اور پھر ایک جانب کچھ دیکھنے لگا۔ میری نظریں بھی اسی طرف اٹھ گئی تھیں۔ مدھم تاریکی میں، میں نے بھی اس متحرک ہیولے کو دیکھ لیا جو اس سمت آرہا تھا اور پھر وہ ہیولا میری نگاہوں میں روشن ہوگیا۔ کالے رنگ کے ایک بھینسے پر گووندا سوار تھا اور بھینسا اس سمت بڑھ رہا تھا۔ گووندا نے اپنے سر پر ایک پروں کا تاج پہن رکھا تھا لیکن جو چیز میں نے انوکھی دیکھی، وہ اس کے بہت سے ہاتھ تھے جو اس کے جسم سے لگے ہوئے تھے۔ ان ہاتھوں میں طرح طرح کے ہتھیار دبے ہوئے تھے۔ کسی میں لمبی سی ہڈی، کسی میں کلہاڑی، کسی میں نیزہ! وہ بھینسے کو دوڑاتا اس سمت آرہا تھا۔ گنگولی پتھر سے نیچے اتر آیا۔ اس نے دونوں ہاتھ فضا میں بلند کئے، زمین کی طرف چہرہ جھکایا اور چکر سے کاٹنے لگا۔ پھر ایک دم سیدھا ہوگیا۔ اس کے حلق سے ایک ہولناک چیخ نکلی۔ دو بار وہ اسی انداز میں چیخا اور پھر اس کا بدن بری طرح کانپنے لگا۔ ایک لمحے میں وہ دوبارہ ساکت ہوگیا اور پھر میری طرف گردن گھما کر بولا۔
’’تو بھاگ جا یہاں سے، چل بھاگ جا یہاں سے… اس حرام خور کو مستی آگئی ہے آج، لڑنے آرہا ہے ہم سے، جان بچانا چاہتا ہے میاں جی تو بھاگ جا یہاں سے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ خود درختوں کے پیچھے بھاگ گیا۔ البتہ میں اپنی جگہ تبدیل کرنے پر مجبور ہوگیا تھا۔ میں نے ایک چوڑے تنے کی آڑ لے لی۔ اتنی دیر میں گووندا قریب پہنچ گیا۔ وہ بڑا پروقار نظر آرہا تھا۔ پھر میں نے گنگولی کو بھی درختوں کی آڑ سے نکلتے ہوئے دیکھا۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھ سیدھے کئے ہوئے تھے، گردن جھکائی ہوئی تھی اور اس کی آنکھوں سے خوفناک نیلی شعاعیں نکل رہی تھیں۔
’’جے … جے بھدرنا مچنڈا۔‘‘ گنگولی نے کہا۔
’’کالی کنتھوریا کلکتے… کا باز! تجھے ہمارے بارے میں پتا کرلینا چاہیے تھا۔‘‘
’’کرلیا تھا پتا تیرے بارے میں گووندا بھدرنا مچنڈا بھی کالی کا داس ہے اور جب بات من کے پھیر میں آجائے تو سب کچھ جائز ہوجاتا ہے، ہو سکتا ہے ہم کالی کنتھوریا کو مان لیتے، پر پرتھوی راج نے سنجوگتا کے لیے کنتھوریا کنٹھ کیا تھا۔ سو ہم بھی اسی کا بنس دہرا رہے ہیں۔‘‘
’’موت آئی ہے تیری تو میں بھدرنا بھینٹ دے دوں گا۔‘‘ دفعتاً ہی گووندا کے ہاتھ سے ایک نیزہ سنسناتا ہوا نکلا اور گنگولی کے سینے میں جا لگا… لیکن گنگولی کے سینے میں بڑا سا سوراخ ہوا اور نیزہ اس کے دوسری طرف سے نکل کر عقب میں موجود درخت میں پیوست ہوگیا۔ گنگولی نے ایک بھیانک قہقہہ لگایا اور بھیانک آواز میں چیخا۔ ’’جے بھدرنا مچنڈا۔‘‘ اور پھر وہ دونوں ہاتھ زمین پر ٹکا کر ہاتھوں اور پیروں کے بل چکر لگانے لگا۔ اسی وقت گووندا نے اپنے بھینسے کو اس پر دوڑا دیا۔ شاید گنگولی کو اس کا احساس نہیں تھا، وہ خود بھی کوئی جادوئی عمل کرنے کو جارہا تھا۔ اس نے غالباً یہ سوچا ہوگا کہ اب گووندا اس پر کوئی دوسرا ہتھیار پھینک کر مارے گا اور وہ اس سے بچائو کرے گا مگر گووندا نے بھی چالاکی سے کام لیا تھا اور بھینسے ہی کو اس پر دوڑا دیا تھا۔ نتیجے میں گنگولی بھینسے کی لپیٹ میں آگیا اور بھینسا اسے روندتا ہوا دوسری طرف نکل گیا۔ گنگولی زمین پر جا پڑا تھا۔ گووندا نے کچھ فاصلے پر جاکر بھینسے کا رخ تبدیل کیا اور ہاتھ میں پکڑا ہوا ہتھیار جو کلہاڑی کی شکل میں تھا، گنگولی پر کھینچ مارا۔ نشانہ سچا تھا، کلہاڑا گنگولی کی گردن پر لگا اور گنگولی کی گردن کٹ کر کئی فٹ دور جا پڑی۔ اس کا دھڑ اپنی جگہ سے اٹھا اور تیزی سے ایک سمت دوڑنے لگا۔ سامنے ایک لمبے تنے والا درخت نظر آرہا تھا۔ گنگولی کے بے سر کا جسم درخت کے تنے پر پھرتی سے چڑھنے لگا۔ گووندا نے فوراً ہی بھینسے کو دوڑایا اور اس درخت کے قریب پہنچ گیا اور پھر اس نے گنگولی کے جسم پر مختلف ہتھیاروں سے بے شمار وار کئے اور اسے نیچے گرا لیا لیکن میری آنکھوں نے اس ہولناک منظر کے ساتھ ساتھ ایک اور خوفناک منظر بھی دیکھا۔ گنگولی کا کٹا ہوا سر آہستہ آہستہ میری جانب سرک رہا تھا۔ پھر وہ تقریباً چار فٹ اونچا بلند ہوگیا اور اس کے منہ سے ایک سرگوشی سی نکلی۔
’’اپنا شریر مجھے ادھار دے دو میاں جی واپس کردوں گا، اس پاپی گووندا کو نیچا دکھانے کے بعد! جلدی کرو، اپنا شریر مجھے دے دو۔ ہاتھ بڑھا کر میرے سر کو اپنے سر پر رکھ لو۔ ارے دیر ہورہی ہے۔ اگر وہ پلٹ پڑا تو برا ہوجائے گا۔‘‘ گنگولی کا سر آہستہ آہستہ میری جانب بڑھنے لگا اور پھر میرے چہرے سے اس کا فاصلہ ایک فٹ سے زیادہ نہ رہ گیا۔ میں نے دایاں ہاتھ سیدھا کیا اور ایک زوردار تھپڑ اس کٹے ہوئے سر کے رخسار پر رسید کردیا۔ سر بہت دور جاکر گرا تھا اور گووندا اس کی جانب متوجہ ہوگیا تھا لیکن اس کے ساتھ ہی میرے کانوں میں ایک گھٹی گھٹی سی چیخ ابھری اور عقب میں یوں محسوس ہوا جیسے کوئی چیز گری ہو۔ توجہ ایک لمحے کے لیے بٹ گئی اور میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا لیکن کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ دوسری طرف گووندا نے گنگولی کے سر کو اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے دوسرے نیزے میں پرو لیا تھا۔ اس کے مختلف ہاتھ اپنے ہتھیاروں سے گنگولی کے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کرچکے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے گووندا کو میری یہاں موجودگی کا علم نہ ہو۔ اس نے اپنا کام سرانجام دیا۔ گنگولی کا سر نیزے میں سنبھالا اور بھینسے کا رخ تبدیل کردیا اور پھر بھینسا اسی جانب دوڑ پڑا، جدھر سے آیا تھا۔ میں سنسنی خیز نگاہوں سے جاتے ہوئے بھینسے کو دیکھتا رہا۔ بھوریا چرن بھی ایک بار اسی طرح بابا فضل کے مقابلے پر آیا تھا۔ کالا بھینسا، کالے جادو کے ماہروں کی خاص سواری معلوم ہوتا تھا۔ اور گووندا یقینی طور پر کنگولی سے بڑا جادوگر تھا۔ وہ اپنے قول میں کامیاب ہوگیا تھا۔ اگر میرا اندازہ غلط نہیں تھا تو اب گنگولی کا وجود ختم ہوگیا تھا۔ عجیب لڑائی تھی۔ بے حد بھیانک، بڑی دہشتناک۔ فضا میں ایک عجیب سی بدبو پھیلی ہوئی تھی۔ بغور جائزہ لینے کے بعد انکشاف ہوا کہ یہ بدبو گنگولی کے جسم کے ان ٹکڑوں سے اٹھ رہی تھی جو اب پانی کی طرح پگھل رہے تھے اور گٹر کے کالے پانی کی طرح زمین پر بہہ رہے تھے۔ بدبو ناقابل برداشت تھی۔ یہاں اب کچھ نہیں رہ گیا تھا چنانچہ واپسی کے سوا اور کیا کرتا۔ واپس پلٹا ہی تھا کہ پھر کچھ سرسراہٹیں سنائی دیں۔ پھر ایک ہانپتی ہوئی آواز سنائی دی۔
’’مسعود میاں۔ مسعود میاں مجھے، مجھے بھی ساتھ لے چلو۔ مجھے بھی۔‘‘ میں بری طرح اچھل پڑا۔ وہ چیخ اور کچھ گرنے کی آواز یاد آگئی۔ اس وقت ذہن میں ہیجان تھا اس لیے پوری توجہ نہیں دے سکا تھا لیکن یہ آواز… یہ شناسا تھی۔ میں اس درخت کے پیچھے پہنچ گیا جہاں سے آواز آئی تھی۔ وہ سلامت علی ہی تھے جو زمین پر بیٹھے ہوئے تھے۔
’’آپ؟‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔
’’معاف کردینا مجھے۔ معاف کردینا تمہارے پیچھے چلا آیا تھا۔ آہ! میرا بدن بیکار ہوگیا ہے، مجھ سے اٹھا نہیں جارہا۔‘‘
’’نہیں۔ آپ ٹھیک ہیں۔ آیئے میرا سہارا لے لیجئے۔‘‘ میں نے ان کے جسم کا بوجھ سنبھالا اور انہیں کھڑا کردیا۔ وہ چونک کر مجھے دیکھنے لگے تھے۔
’’میں۔ میں اب چل سکتا ہوں۔ میں چل سکتا ہوں۔ یہ دیکھو میں!‘‘ وہ دو قدم آگے بڑھے۔ میں نے ان کا ہاتھ تھامے رکھا تھا۔
’’آپ بالکل ٹھیک ہیں۔ آیئے واپس چلیں۔‘‘ سب کچھ چھوڑ دیا میں نے، اگر سلامت علی نہ ہوتے تو شاید میں گووندا کے پاس جاکر اسے مبارک باد دیتا مگر اب گھر واپس جانا ضروری تھا۔
’’میں پھر معافی چاہتا ہوں۔ نہ جانے تمہارے کس کام میں حرج ہوا۔ بس تجسس پیدا ہوگیا تھا۔ چھپ کر تمہارا پیچھا کیا اور… آہ! میں نے یہ سب کچھ، اس سے پہلے میں نے یہ سب کچھ سوچا بھی نہیں تھا۔‘‘
’’آئندہ خیال رکھئے سلامت علی صاحب۔ یہ جادو کی کالی دنیا ہے اور ایسے مناظر جان لے لیتے ہیں۔ خدا کے لیے مجھے میرا کام کرنے دیں۔ اس میں مداخلت سے آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے۔‘‘
’’سخت۔ سخت شرمندہ ہوں۔ آئندہ کبھی… مگر۔ میرے خدا یہ… یہ سب…! یہ سب کیا تھا۔‘‘
’’آپ کے دوست سری رام کی ایک مشکل کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ گنگولی کا کھیل تو ختم ہوگیا ہے اور اب گووندا رہ گیا ہے، صرف گووندا۔ وہ بھی ختم ہوجائے گا اطمینان رکھیں۔‘‘ میں نے کہا۔
(جاری ہے)