’’اور اگر نہ پائوں تو…؟‘‘ وہ بولا۔
’’مجھے اپنی پسند کے مطابق سزا دے لینا۔‘‘
’’کان کھول کر سن لو شہزادے! مجھے بے وقوف بنانے کی کوشش خطرناک ثابت ہوگی تمہارے لیے میرا نام الیاس خان ہے۔‘‘ اس نے کہا اور میں مسکرا دیا۔ وہ چلا گیا تھا۔
عشاء کی نماز کے بعد رات کا کھانا کھایا اور پھر بستر پر دراز ہوگیا۔ دل کمبخت بڑی ظالم چیز ہوتی ہے۔ کچھ بھی ہوجائے، یہ سرکشی ضرور کرتا ہے۔ الیاس خان کے مل جانے سے نہ جانے کیا امنگیں جاگ اٹھی تھیں۔ ایک بار پھر وہ سارے چہرے آنکھوں میں آبسے تھے۔ ایک بار پھر اسی پُر بہار زندگی کے خواب نظر آنے لگے تھے۔ ماموں ریاض نوکری کررہے ہیں۔ محمود ملک سے باہر ہے۔ ہوسکتا ہے ابو ان حالات کا شکار ہوکر صاحبِ فراش ہوگئے ہوں اور گھر کی ذمہ داریاں ماموں نے سنبھال لی ہوں۔ ایک بار، صرف ایک بار ان لوگوں کے سارے حالات معلوم ہوجائیں۔ اس کے بعد… اس کے بعد۔
دروازہ زور سے بجا اور سارے خیالات چکناچور ہوگئے۔ جلدی سے اٹھا اور دروازہ کھول دیا۔ بندو خان صاحب تھے۔ سلام کرکے بولے۔ ’’وہ حضور اچھے نواب نے سلام کہا ہے۔‘‘
’’شیخ صاحب…؟‘‘
’’جی! بلایا ہے۔‘‘
’’خیریت ہے؟‘‘
’’بٹیا کی طبیعت بگڑ گئی ہے، آپ کو بلا رہے ہیں۔‘‘
’’رکو۔ چلتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا اور جلدی سے متبرک کمبل شانے پر ڈال کر بندو خان کے ساتھ چل پڑا۔ حویلی کے اس حصے میں پہلی بار داخل ہوا تھا جو قابل دید تھا۔ بندو خان میری رہنمائی کررہے تھے۔ راستے طے کرتا ہوا اندرونی حصے میں داخل ہوگیا۔ مکمل خاموشی طاری تھی مگر ایک کمرے کے سامنے روشنی میں کئی افراد نظر آئے ان میں خواتین بھی تھیں جنہوں نے دوپٹے سر پر ڈال لیے۔ شیخ صاحب کراہتے ہوئے میرے قریب آگئے۔
’’پھر… پھر حالت بگڑی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا۔
’’کیا کیفیت ہے…؟‘‘
’’آپ کو طلب کیا ہے۔‘‘ شیخ صاحب نے کہا۔
’’مجھے…؟‘‘
’’ہاں! نام لے کر… کہا بلائو اس استاد اعظم کو۔ ذرا اس سے بات کرلوں۔ اس کی یہاں آنے کی جرأت کیسے ہوئی۔ میں نے پوچھا کسے تو جواب ملا مسعود کو اور میں نے آپ کو بلا بھیجا۔‘‘
’’خوب! مجھے انتظار تھا آیئے۔‘‘ میں نے کہا اور دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگیا۔ حسین خواب گاہ تھی۔ ایک تپائی پر مہرالنساء بیٹھی ہوئی تھی۔ دراز گھنے سیاہ بال چھتری کی طرح کھلے ہوئے تھے۔ دروازے کی طرف پشت تھی اور رخ دوسری طرف تھا لیکن اچانک گردن گھومی اور چہرہ مڑ کر پیچھے ہوگیا۔ بڑا خوفناک انداز تھا۔ یعنی جسم کا رخ دوسری طرف تھا اور چہرہ مکمل میری طرف! مہرالنساء کو شام کو بھی دیکھا تھا۔ سبک اور ملیح چہرہ، چمپئی رنگ، نرم و نازک نقوش، گہری سیاہ آنکھیں لیکن اس وقت جو چہرہ نظر آیا، یہ شام والا چہرہ نہیں تھا۔ خدوخال بگڑے ہوئے تھے، آنکھیں شرر بار تھیں اور ان میں نیلاہٹیں جگمگا رہی تھیں۔ رنگ میں تپش تھی۔
’’السلام علیکم۔‘‘ میں نے کہا۔ مگر وہ مجھے گھورتی رہی۔ میں نے ترش لہجے میں کہا۔ ’’کیا والدین نے سلام کا جواب دینا بھی نہیں سکھایا؟‘‘
’’وعلیکم السلام۔‘‘ ایک کرخت مردانہ آواز مہرالنساء کے منہ سے ابھری۔ میں مسکرا دیا۔ پھر میں نے کہا۔ ’’جب ہم ایک دوسرے کی سلامتی کے خواہاں ہیں تو دشمنی کا تصور تو خودبخود مٹ جاتا ہے۔‘‘
’’اس دشمنی کی داغ بیل تو تم ڈال رہے ہو۔‘‘
’’میں نے تو ابھی کچھ بھی نہیں کیا۔‘‘
’’یہاں سے چلے جائو۔‘‘
’’یہی مطالبہ میرا ہے۔‘‘
’’تم کون ہوتے ہو؟‘‘ وہ مردانہ آواز میں بولی۔
’’بندئہ خدا ہوں اور اس بچی کو مشکل سے بچانا چاہتا ہوں۔‘‘
’’خود مشکل میں پڑ جائو گے۔‘‘
’’اللہ مالک ہے۔‘‘
’’سوچ لو۔‘‘
’’سوچنا تو تمہیں ہے غلام جلال، مسلمان کے بیٹے ہو، سب کچھ جانتے ہو، تمہیں علم ہے کہ وہ بچپن سے ایک نوجوان سے منسوب ہے۔ نیک والدین کی نیک اولاد ہے اور اس تصور سے دور نہیں ہوسکتی جو بچپن سے اس کے ذہن میں ہے۔ تم اسے کیوں پریشان کررہے ہو؟‘‘
’’بہت کم وقت رہ گیا ہے جب اس کے دل میں میرے سوا کوئی تصور نہیں ہوگا۔‘‘
’’یہ تصور نہیں، تسلط کہلائے گا اور اس سے ایک خاندان بدترین المیے کا شکار ہوجائے گا۔‘‘
’’مجھے اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔‘‘
’’یہ بات شرافت کے منافی ہے۔‘‘
’’جو کچھ بھی ہو۔‘‘
’’میں تمہیں سمجھانا چاہتا ہوں۔‘‘
’’نہ مانوں تو۔‘‘
’’خود ذمہ دار ہوگے۔ تم نے مجھے بلایا ہے اور اب جب میرا اور تمہارا آمنا سامنا ہوگیا ہے تو پھر فیصلہ ہی ہوجانا چاہیے۔‘‘
’’میں تمہیں فنا کردوں گا۔‘‘
’’یہ الفاظ کفر کے مترادف ہیں۔ آئو ذرا تمہاری قوت کا جائزہ لے لیا جائے۔‘‘ میں آگے بڑھا اور میں نے مہرالنساء کے چھتری کی طرح بکھرے بالوں کا کچھ حصہ اپنی مٹھی میں جکڑ لیا۔ شیخ صاحب کے ساتھ کچھ دوسری چیخیں بھی سنائی دی تھیں۔ نہ جانے کون کون اندر آگیا تھا مگر میں کسی کی طرف متوجہ نہیں ہوا۔ میں نے شانے پر پڑا کمبل مہرالنساء پر ڈال دیا۔ اس کے ساتھ ہی مہرالنساء تپائی سے نیچے آرہی۔ مگر فوراً ہی کمبل کے ایک کھلے ہوئے حصے سے ایک کالے ناگ کا پھن برآمد ہوا اور وہ برق کی سی تیزی سے باہر نکل آیا۔ باہر آتے ہی اس نے پھن اٹھا کر مجھ پر حملہ کیا مگر میں غافل نہیں تھا۔ میں نے پینترا بدل کر ایک زوردار تھپڑ اس پھن پر رسید کیا اور سانپ اچھل کر دیوار سے ٹکرا گیا۔ کمرے میں ڈری ڈری چیخیں ابھر رہی تھیں۔ سانپ ایک لمحے بے حس و حرکت پڑا رہا۔ پھر وہ ادھر ادھر رینگنے لگا جیسے نکل بھاگنے کی راہ تلاش کررہا ہو۔ میری نظر اس کھلی کھڑکی پر پڑی جو کمرے کی پشت پر تھی۔ اس کے دونوں پٹ کھلے ہوئے تھے، سانپ دیواروں سے ٹکریں مار رہا تھا جیسے اسے نظر نہ آرہا ہو۔ میں نے آگے بڑھ کر اسے اٹھایا اور کھلی کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔ اسے پھینکتے ہوئے میں نے کہا۔
’’بہتر یہ ہوگا غلام جلال کہ آئندہ ادھر کا رخ نہ کرنا۔ ورنہ اس کے بعد جو کچھ ہوگا، اس میں میرا قصور نہیں ہوگا۔‘‘
میں نے کھڑکی کے دونوں پٹ بند کیے اور واپس پلٹا۔ پھر میں نے کمبل سمیٹ کر تہہ کیا اور اسے شانے پر ڈال لیا۔ مہرالنساء بے سدھ پڑی ہوئی تھی۔ میں نے شیخ صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’انہیں مسہری پر لٹا دیں۔‘‘ میری ہدایت کی تعمیل کی گئی۔ عورتیں کمرے میں رہ گئیں۔ شیخ صاحب میرے ساتھ باہر نکل آئے۔ ان کا بدن کپکپا رہا تھا اور منہ سے آواز نہیں نکل پا رہی تھی۔ ’’خود کو سنبھالیے شیخ صاحب!‘‘
’’آپ… مسعود صاحب! آپ تو میرے لیے امداد غیبی ثابت ہوئے۔ سخت شرمسار ہوں کہ آپ کو وہ مقام نہ دے سکا جو ہونا چاہیے تھا۔ آہ! میں آپ کو آپ کے شایان شان تعظیم نہ دے سکا۔‘‘ شیخ صاحب نے کہا۔
’’گناہ گار نہ کریں شیخ صاحب! مجھے اور کیا درکار تھا۔ بڑی عزت دی ہے آپ نے مجھے! اللہ آپ کو عزت بخشے۔‘‘
’’آپ اس کا نام بھی جانتے تھے شاہ صاحب! وہ کون تھا اور…؟‘‘
’’ابھی خاموشی اختیار کریں۔ جوانی سرکش ہوتی ہے۔ اگر اس نے مزید سرکشی کی تو اسے نقصان پہنچانا پڑے گا لیکن آپ اطمینان رکھیں، ہم فیصلہ کرکے ہی واپس جائیں گے۔ اجازت ہے؟‘‘ شیخ صاحب میرے ساتھ اٹھنے لگے تو میں نے انہیں روک دیا اور خود باہر نکل کر خاموشی سے مہمان خانے کی طرف چل پڑا۔ مجھے یہی کرنا تھا اور اسی کی ہدایت کی گئی تھی مجھے۔ اپنے کمرے میں آکر لیٹ گیا۔ نہ جانے کب تک لیٹا اس بارے میں سوچتا رہا۔ غلام جلال کا نام بھی مجھے بتایا گیا تھا ورنہ میں اس کو کیا جانتا البتہ یہ نہیں کہا جاسکتا تھا کہ اس کے بعد غلام جلال کا قدم کیا ہوگا۔ پھر سونے کی کوشش کرنے لگا۔ اس کوشش میں شاید کامیاب ہوگیا تھا مگر یہ رات سونے کے لیے نہیں تھی۔ پھر دروازہ بجایا گیا تھا۔ دروازہ کھولا تو اندھیرے میں کوئی کھڑا نظر آیا لیکن جو کوئی بھی تھا، کالی چادر اوڑھے ہوئے تھا۔ میں اسے پہچان نہ پایا کہ اس کی آواز ابھری۔
’’پیر و مرشد! میں الیاس خان ہوں۔‘‘
’’الیاس خان! اندر آجائو۔‘‘ میں نے کہا اور الیاس خان اندر داخل ہوتے ہی جھک کر میرے پیروں سے لپٹ گیا۔
’’معاف کردیں مرشد! معاف کردیں شاہ صاحب! بڑی گستاخیاں کی ہیں آپ کی شان میں۔ معاف کردیں۔ آپ تو اللہ والے ہیں۔ میں نے بڑی بدتمیزی کی آپ سے۔‘‘
’’خدا کے بندے! اٹھو کیوں مجھے گناہ گار کررہے ہو۔ کیا ہوگیا ہے تمہیں…؟‘‘
’’مجھے وہ مل گیا جو آپ نے بتایا تھا۔ دلدر دور ہوگئے میرے تو… بڑا مقروض تھا مرشد! عزت پر بنی ہوئی تھی۔ قرض خواہوں سے چھپتا پھرتا تھا۔ اب آپ کی عنایت سے عزت سے جی سکوں گا۔ اتنا عاجز آگیا تھا اپنی بداعمالیوں کے نتیجے میں چڑھ جانے والے قرض سے کہ دو ہی صورتیں رہ گئی تھیں میرے لیے یا تو جرم کروں یا خودکشی! مگر مرشد! آہ آپ کتنے رحم دل ہیں۔ میری بدتمیزی کو نظرانداز کرکے آپ نے مجھے نئی زندگی دے دی۔‘‘ الیاس خان کا رنگ ہی بدلا ہوا تھا۔ نہ وہ تیکھا پن تھا، نہ اکڑفوں! مجسم نیاز بنا ہوا تھا۔
’’چلو تمہارا کام بن گیا۔ ہمیں بھی خوشی ہوئی مگر ہماری وہ شرط قائم ہے۔‘‘
’’حضور! میرے ساتھ ہی الٰہ آباد چلیے، غلاموں کی طرح خدمت کروں گا۔ سارے کام کروں گا جو آپ حکم دیں گے۔‘‘
’’ہمیں بس اپنا پتا بتا دو۔ ہم آئیں گے تمہارے پاس، ابھی یہاں کام ہے۔‘‘
’’آپ مجھے بس حکم دے دیں، خود لینے آجائوں گا دوبارہ آپ کہیں تو ریاض صاحب کی بھی خدمت کروں۔‘‘
’’جو تمہارا دل چاہے کرنا، ہمیں پتا بتا دو۔‘‘ میں نے ہنس کر کہا اور الیاس خان نے مجھے الٰہ آباد میں اپنا پتا ذہن نشین کروایا۔ اس کے بعد وہ نہ جانے کیا کیا اول فول بکتا رہا تھا۔ بمشکل تمام ٹلا۔ صبح کو جارہا تھا۔ یہ سونا چاندی بھی کیا چیز ہوتی ہے۔ انسان میں کیا کیا تبدیلیاں رونما کردیتی ہے۔
سورج کی کرنوں نے پپوٹے چیرنے شروع کر دیئے۔ نیند ایسی ٹوٹی تھی کہ آنکھ کھولنے کو جی ہی نہیں چاہ رہا تھا۔ دفعتاً ہی حواس جاگے اور ہڑبڑا کر اُٹھ گیا۔ فجر کی نماز قضا ہوگئی تھی۔ دِل ہی دِل میں لاحول پڑھتا ہوا اُٹھ گیا۔ نہ جانے آنکھ کیوں نہیں کھلی تھی۔ غسل خانے جا کر وضو کیا اور قضا پڑھنے بیٹھ گیا۔ غلطی مجھ سے ہی ہوئی تھی۔ جائے نماز بچھانے سے پہلے دروازہ کھول دینا چاہیے تھا۔ نماز شروع ہی کی تھی کہ دروازہ
بجایا جانے لگا۔ جو شخص بھی دروازہ بجا رہا تھا نہایت احمق تھا۔ اسے جواب نہ ملنے پر رُکنا چاہیے تھا۔ مگر وہ ہاتھ ہٹانے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ سخت غصّہ آیا مگر کیا کرتا۔ خدا خدا کر کے سلام پھیرا اور غصّے سے دروازے کی طرف بڑھا، اندازہ ہوگیا تھا کہ فتح محمد کے علاوہ کوئی نہیں ہو سکتا۔ مجھے دیکھتے ہی بولا۔
’’شکر ہے اللہ کا زندہ ہو۔ ہمیں تو اندیشہ ہو گیا تھا کہ چل بسے۔ اماں کیا ازار بند نکل گیا تھا؟‘‘
’’فتح محمد، تم نہایت بے وقوف انسان ہو۔‘‘
’’لو اول لو، ماں بھائی جی یہ تو سب ہی کہتے ہیں تم نے کونسی نئی کئی، کچھ خبر بھی ہے بسنت کی؟‘‘
’’کیا ہوا بندئہ خدا؟‘‘
’’بھائی پھوٹ لیے نہار منہ، خبر دینے آئے ہیں۔‘‘
’’کون؟‘‘
’’الیاس خاں، منہ اندھیرے بسترا بغل میں دبا کر نکل لیے۔ اللہ خیر کرے اچھے نواب کو دَبی زبان سے بتا تو دیا ہے، کچھ بولے نہیں، بس اتنا کہا کہ فتح محمد انہیں جانا تھا مگر قسم اللہ کی دال میں کچھ کالا ضرور ہے ورنہ وہ… دو دن پہلے سے کہتے ہیں جانا ہے۔ ناشتے کے بعد جانے کا فیصلہ کرتے ہیں پھر سوچتے ہیں کھا کر جائیں گے۔ مگر اس مرتبہ تو وہ چپ چاپ نکل لیے۔ ضرور کچھ دال میں کالا ہے۔‘‘
’’اماں کچھ ہاتھ لگ گیا، لے کر نکل لیے بھائی کے سُسرال کا مال سمجھ کے۔‘‘
’’کیا تمہیں ایسی باتیں کرنی چاہئیں فتح!‘‘ میں نے ملامت کرتے ہوئے کہا۔
’’اماں تو کونسی کسی غیر سے کر رئے ہیں، تم اتے شریف آدمی ہو کہ دل کی کہہ لیتے ہیں۔ پر ایک بات ہے بھائی میاں، غریب کا کوئی نئیں ہوتا، گھٹنے پیٹ کی طرف ہی مڑتے ہیں۔ کل تم نے بھی انہیں سٹّے کا نمبر بتاتے ہوئے ہمیں بھگا دیا۔ اماں ان کی کیا ہے خود بھی گھر کے کھاتے پیتے ہیں اور پھر اِدھر اُدھر سے مارتے کھاتے رہتے ہیں۔ اماں بھائی میاں ہمیں بھی کچھ دے دو بڑے غریب آدمی ہیں۔ بال بچوں کو دُعا دیں گے۔‘‘
’’میں نے انہیں سٹّے کا نمبر نہیں دیا فتح محمد!‘‘ میں نے کہا۔
’’اماں ہم سے اَڑ رہے ہو۔ اُڑتے کبوتر کے پر گن لیتے ہیں، ہم بھی تاڑ میں لگے رئے تھے ان کی، رات کو برگد کی جڑ میں تعویذ گاڑتے ہوئے بھی دیکھ لیا تھا ہم نے۔‘‘
’’تعویذ گاڑتے ہوئے…؟‘‘ میں حیرت سے بولا۔
’’قسم اللہ کی برگد کی جڑ میں گڑھا کھود رئے تھے۔ پھر برابر بھی کر دیا۔ جب چلے گئے تو ہم نے قریب جا کر بھی دیکھا مٹی برابر کی گئی تھی۔ تعویذ کی بات نہ ہوتی تو کھود کر دیکھتے۔‘‘
’’اوہ۔‘‘ میں نے گہری سانس لی بات سمجھ میں آ گئی تھی، باہر سے آواز آئی۔
’’فتح محمد، او فتے لگ گئے باتیں بنانے میں۔‘‘
’’لو وہ آ گئے نصیحت علی خاں، اب نصیحتیں کریں گے۔‘‘
’’اماں آ رہا ہوں بندو خاں پوچھ رہا تھا کہ…‘‘
’’ناشتے کی پوچھنے آئے تھے تم… اور یہاں جم گئے… لو چلو ناشتہ رکھو سنبھال کر۔‘‘ بندو خاں خود ناشتے کی ٹرے لے آئے تھے۔ فتح محمد نے جلدی سے ٹرے سنبھال لی۔ ’’ناشتے کے بعد رحیم الدین کے پاس چلے جانا۔‘‘
’’اور کچھ…؟‘‘ فتح محمد نے پوچھا۔
’’اور یہ کہ میاں صاحب کا بھیجہ مت کھایا کرو۔‘‘
’’بہت بڑھ بڑھ کر بولنے لگے ہو بندو خاں صاحب… برابر کے عہدے ہیں ہمارے تمہارے۔ حکم مت چلایا کرو میرے پر…!‘‘
’’عہدے برابر ہیں فتح محمد، مگر عمر تم سے زیادہ ہے سمجھے۔‘‘ بندو خاں مسکرا کر بولے اور پھر کہنے لگے۔ ’’اچھا یوں کرو تم میاں کو ناشتہ کرائو، میں رحیم الدین کے پاس چلا جاتا ہوں۔‘‘ اچھا چلتا ہوں۔ ’’بندو خاں مسکرا کر باہر نکل گئے۔ فتح محمد نے گردن ٹیڑھی کی، منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑایا اور اس کے بعد میرے لیے ناشتہ لگانے لگا۔ میں نے اسے بھی ناشتے کی پیشکش کی تو وہ کہنے لگا۔‘‘
’’نہیں میاں صاب، آپ کر لو آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے ہمیں پوچھا، مگر شکایت یہی کرتے رہیں گے غریب آدمی کی بھی سننی چاہیے، اصل ضرورت ہماری ہے ان کا کیا ہے، سٹّہ لگائیں گے، مال کمائیں گے، عیاشی کریں گے، یہاں تو بارہ بچوں کا معاملہ ہے۔‘‘ میں خاموشی سے ناشتہ کرتا رہا پھر میں نے کہا۔
’’برتن لے جائو…‘‘ وہ شاید مزید کچھ کہنے کی ہمت نہیں کر سکا تھا۔ برتن اُٹھا کر باہر نکل گیا۔ میں تھوڑی دیر تک بیٹھا سوچتا رہا اور اس کے بعد خود بھی باہر نکل آیا۔
حویلی کے ملازم اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ مالی کیاریاں دُرست کر رہا تھا۔ دُوسرے لوگ اِدھر اُدھر آ جا رہے تھے۔ صفائی کرنے والا، صفائی کر رہا تھا، میں ٹہلتا ہوا دُور تک نکل آیا اور اتفاق سے ہی اس وقت برگد کے اسی درخت کے قریب پہنچ گیا، جس کی جڑ سے الیاس خاں کا کام بنا تھا، یونہی نگاہ اس کی جڑ پر جاپڑی اور بس، قدرت نے یہ عطیہ عطا فرما دیا تھا، جس کا احساس اس وقت پھر ہوا، آنکھوں نے ان گہرائیوں میں دیکھا، کلسا غائب تھا لیکن مٹی میں چند اشرفیاں نظر آ رہی تھیں، دس بارہ سے کم نہیں ہوں گی، فوراً ہی اندازہ ہوگیا کہ یہ وہ اشرفیاں ہیں جو مٹی میں مل جانے کی وجہ سے الیاس خاں کو نظر نہیں آ سکیں، ویسے بھی اس نے یہ کام رات میں کیا تھا اور یقینی اَمر ہے کہ افراتفری کے عالم میں کیا ہوگا، چنانچہ یہ اشرفیاں رہ گئیں۔ دل خوش ہو گیا بیچارے فتح محمد کے کام آ سکتی ہیں۔ یہ بتا دوں گا اسے پھر وہاں سے تھوڑے ہی فاصلے پر چلا تھا کہ فتح محمد نظر آ گیا، میں اسے دیکھ کر مسکرایا اور وہ بھی مسکراتا ہوا وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ میں نے ابھی اسے کچھ بتانا مناسب نہیں سمجھا تھا۔ چھوٹا آدمی تھا، چھوٹی طبیعت کا مالک، میرے منہ سے یہ الفاظ سنتے ہی پاگل ہو جاتا اور پھر خواہ مخواہ کہانی عام ہو جاتی، دُوسروں کو پتا چلتا تو نجانے کیا کیا قیاس آرائیاں ہوتیں۔ ٹہلتا ہوا حویلی کے عقبی حصے میں جا نکلا اور اس وقت پیچھے سے مہرالنساء، نورجہاں کے ساتھ آتی ہوئی نظر آئی، دونوں تیز تیز قدموں سے میری طرف آ رہی تھیں، نورجہاں نے مجھے سلام کیا۔ مہرالنساء البتہ عجیب سی نگاہوں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ میں بھی رُک گیا، سلام کا جواب دے کر میں نے ان دونوں کی خیریت پوچھی، اور مہرالنساء کہنے لگی۔
’’مسعود صاحب، ہم مہمان خانے میں آپ کی قیام گاہ تک گئے تھے۔ آپ اس طرف چہل قدمی کے لیے نکلے ہوئے تھے۔‘‘
’’اب آپ کی طبیعت کیسی ہے مہرالنساء؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’بہت عرصے کے بعد میں اپنے آپ کو زندہ محسوس کر رہی ہوں اور مجھے یوں لگ رہا ہے جیسے میں بھی جینے والوں میں شامل ہوں، مطلب یہی ہے کہ جو کچھ مجھ پر بیت رہی تھی میں صحیح الفاظ میں تو ان لوگوں کو نہیں بتا سکتی تھی لیکن، لیکن زندگی سے بیزار تھی۔ میں آہ کاش میری یہ کیفیت مستقل ہو، میں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی اور اسی لیے آپ کے پاس پہنچی تھی۔‘‘
’’اللہ تعالیٰ آپ کو مکمل صحت عطا فرمائے، میری یہی دُعا ہے۔‘‘
’’اب جبکہ مہرالنساء نے آپ کو، آپ کے نام سے مخاطب کیا ہے مسعود صاحب، تو میں بھی اس میں کوئی ہرج نہیں سمجھتی، براہ کرم آپ ہماری گستاخی کا برا نہ مانئے گا۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ آپ ہماری ہی عمر کے ہیں، اور اگر ہم آپ کو کسی احترام کے نام سے پکاریں تو بڑا مضحکہ خیز لگے گا۔‘‘
’’کوئی ہرج نہیں ہے نورجہاں صاحبہ آپ کو میرا نام معلوم ہے، بس اتنا کافی ہے۔ آپ مجھے میرے نام سے پکار لیجیے۔‘‘
’’بے حد شکریہ، دراصل مہرالنساء چاہتی ہیں کہ اگر آپ کسی بھی طرح یہاں قیام کے لیے کچھ وقت نکال سکیں تو ان کا خوف دُور ہو جائے۔ مجھ سے باتیں کرتی رہی ہیں اور شیخ صاحب سے بھی، انہوں نے یہی کہا ہے۔ اوہو دیکھیے وہ شیخ صاحب آ گئے۔‘‘ نورجہاں ایک دَم بولی اور میری نظریں بھی اس جانب اُٹھ گئیں، شیخ عبدالقدوس ادھر ہی چلے آ رہے تھے۔ سلام کر کے مجھ سے ہاتھ ملایا اور پھر کہنے لگے۔
’’یہ اچھا ہوا کہ یہ لڑکیاں خود ہی آپ کے پاس آ گئیں مسعود میاں، کیا انہوں نے اپنا مقصد بتایا آپ کو؟‘‘
’’جی جی، مہرالنساء صاحبہ کا کہنا ہے کہ اگر میں یہاں کچھ عرصے قیام کروں تو ان کے دل سے خوف نکل جائے گا، لیکن اچھا ہوا آپ تشریف لے آئے، آپ کے سامنے کچھ حقیقتیں عرض کر دوں۔ میں بے شک ابھی کچھ وقت یہاں ہوں، لیکن جائوں گا تو ایک ایسا اطمینان بخش حل چھوڑ جائوں گا جس کے بعد یہ خطرہ موجود نہ رہے گا۔ اس سے زیادہ قیام ظاہر ہے کسی بھی طرح میرے لیے ممکن نہیں ہوگا۔‘‘
مہرالنساء اور نورجہاں اس اطمینان کے بعد واپس لوٹ گئیں کہ ابھی میں یہاں قیام کروں گا۔ نورجہاں واقعی بڑی شوخ و شریر تھی، نجانے کیا کیا مہرالنساء کے کان میں بدبداتی رہی تھی، لیکن مہرالنساء سنجیدہ لڑکی تھی۔ بہرحال شیخ صاحب بھی چلے گئے اور میں واپس اپنی آرام گاہ میں آ گیا۔ اب یہاں قیام کرنا واقعی ایک مشکل اَمر تھا۔ دِل میں یہ سوچ رہا تھا کہ ایسا کیا عمل ہو جس کی بنیاد پر مہرالنساء مکمل محفوظ سمجھی جائے، اور میں یہاں سے الٰہ آباد کا رُخ کروں۔ وہاں ہو سکتا ہے ماموں ریاض کے ساتھ ساتھ امی، ابو اور بہن بھی مل جائیں، آہ کیا ایسا ہو سکے گا۔ کیا میری زندگی میں ایک بار پھر وہی دن لوٹ آئیں گے۔ بس حسرتوں کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ نجانے کیوں تقدیر پر اتنا بھروسہ نہیں رہا تھا کہ وہ مجھے میری لٹی ہوئی دُنیا واپس کر دے۔
شام کو تقریباً ساڑھے آٹھ بجے میں نے خود فتح محمد کو اپنے پاس بلایا اور وہ میرے قریب آ گیا۔
’’لگتا ہے فتح محمد کچھ ناراض ہوگئے ہو مجھ سے۔‘‘
’’کیا لے لیں گے میاں جی آپ سے ناراض ہو کر ہم نے تو پہلے بھی کہا تھا کہ بس شکایت ہے ہمیں تم سے۔‘‘
’’فتح محمد دیکھو، میں نے تم سے پہلے بھی کہا تھا کہ الیاس خان کو میں نے کوئی نمبر وغیرہ نہیں بتایا، وہ وہاں کیا کر رہا تھا، یہ وہ جانتا ہے لیکن میرے علم نے مجھے بتایا ہے کہ برگد کے اسی درخت پر، اس کے نیچے نظر آنے والے مٹی سے ڈھکے ہوئے گڑھے میں کوئی ایسی چیز موجود ہے، جو تمہارے کام آ سکتی ہے۔‘‘
’’ایں…‘‘ فتح محمد نے منہ پھاڑ کر کہا۔
’’ہاں فتح محمد تم بھی اسی وقت جب الیاس خاں نے درخت کی جڑ میں گڑھا کھودا تھا وہاں پہنچنے کے بعد وہ گڑھا کھودنا اس کی مٹی کو اچھی طرح تلاش کر لینا، ممکن ہے تمہیں اس میں کوئی ایسی چیز مل جائے جو تمہارے لیے کارآمد ہو۔ بڑی احتیاط کی ضرورت ہے اگر واقعی کچھ مل جائے تو اسے اپنے پاس پوشیدہ کر کے
برابر کر دینا سمجھ رہے ہو ناں۔‘‘
’’ابھی چلا جائوں۔‘‘ فتح محمد نے کہا۔
’’ابھی تمہیں وہاں دیکھ لیا جائے گا اور جو کچھ تمہارے ہاتھ لگا وہ اس گھر کے مالکوں کی ملکیت ہوگا تم اسے اپنے قبضے میں نہیں لے سکو گے۔‘‘
’’اماں تو کیا الیاس کو بھی وہاں کچھ مل گیا تھا؟‘‘ فتح محمد نے پوچھا۔
’’اب یہ تو مجھے نہیں معلوم، الیاس خاں نے مجھ سے ایسی کوئی بات نہیں کی مگر تم یہ کام احتیاط کے ساتھ کر لینا، بعد میں مجھ سے یہ مت کہنا کہ میں نے تمہارے لیے کچھ نہیں کیا۔‘‘
’’ارے بھائی میاں تم نے تو دِل ہولا دیا ہے قسم اللہ کی، اب میرے کو صبر کیسے آئے گا، ابے کیا کروں پیارے بھائی، بب… بس، خدا جانے رات کس وقت ہوگی۔‘‘
’’جائو جائو سکون سے اپنا کام سرانجام دینا، جلد بازی کی تو جو نقصان اُٹھائو گے اس کے خود ذمّے دار ہو گے۔‘‘
’’نہیں، نہیں، میاں صاحب جو آپ نے کہہ دیا ہے وہی کروں گا قسم اللہ کی۔‘‘ فتح محمد نے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔ بس اس کے بعد کوئی خاص مشغلہ نہیں تھا… لیکن یہاں اس حویلی میں گھسے رہنا بھی ایک مشکل کام تھا۔ رات کو دل میں یہ آئی کہ یہاں دہلی میں جو مقدس مزارات کا شہر ہے۔ کیوں نہ مزارات کی زیارتیں کروں اور کچھ نہیں تو کم از کم دل کو سکون ہی ملے گا۔ زیادہ تو نہیں سن سکا تھا، لیکن تھوڑی بہت باتیں کانوں تک پہنچی تھیں کہ دہلی میں بڑے بڑے جیّد بزرگوں کے مزارات ہیں، اب مجھے ان تمام چیزوں سے دلچسپی ہوگئی تھی۔
دُوسرے دن صبح معمول کے مطابق جاگا۔ ناشتہ فتح محمد لایا تھا۔ آنکھیں جھکی ہوئی تھیں۔ زبان بند تھی۔ چہرے پر سرخی چھائی ہوئی تھی۔ میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس کا مقصد ہے کہ فتح محمد کا کام ہوگیا۔ اس نے ناشتہ میرے سامنے رکھا، حیرت انگیز طور پر خاموش تھا، میں نے ہی اسے مخاطب کیا۔
’’فتح محمد!‘‘ اور وہ اس طرح اُچھل پڑا جیسے بچھو نے ڈنگ مار دیا ہو۔
’’کتنی تھیں؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’تیرہ۔‘‘ وہ بے اختیار بولا اور پھر چونک کر کہنے لگا۔ ’’کیا میاں صاحب کیا؟‘‘
’’کام ہو جائے گا تمہارا؟‘‘ میں نے پوچھا اور فتح محمد ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔ چند لمحات سوچتا رہا پھر جلدی سے آگے بڑھا اور جھک کر میرے پائوں پکڑ لیے۔
’’قسم اللہ کی، زندگی بھر غلام رہوں گا آپ کا میاں صاحب، دن پھیر دیے آپ نے میرے، معاف کر دیجیے مجھے معاف کر دیجیے، رات کو یہ سوچ رہا تھا بلکہ ساری رات سوچتا رہا تھا کہ آپ سے قبول کر ہی نہیں دوں گا چپ لگا جائوں گا مم… مگر غلطی تھی گستاخی تھی میری، معاف کر دیجیے۔‘‘
’’ارے فتح محمد ہم سے چھپانے کی کیا ضرورت تھی۔ بھئی ہم بھلا کس سے کہنے جا رہے ہیں۔ ٹھیک ہے اب تم جانو اور تمہارا کام۔‘‘
’’میاں صاحب آپ نے، آپ نے…‘‘
’’بس بس بیکار باتوں سے گریز کرو۔ اچھا ہاں ذرا ہمیں یہ بتائو یہاں کون کون سے بزرگوں کے مزارات ہیں اور کہاں سے کہاں جانا ہوگا ہمیں…؟‘‘
’’مزارات! ابے لو یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ دلی کی کسی بھی سڑک پر نکل جائو، کسی چلتے پھرتے سے پوچھ لو، وہ سارے کے سارے مزاروں کے پتے بتا دے گا۔ پہلے تو حضرت سلطان جی ہی ہیں ان کے دربار میں جائو، میاں صاحب مزا آ جائے گا۔ قسم اللہ کی کیا جگہ ہے۔ اس کے بعد فتح محمد تمام بزرگوں کے نام گنانے لگا اور میں نے انہیں ذہن نشین کرلیا۔ فتح محمد بولا…‘‘
’’جانے کا ارادہ ہے کیا…؟‘‘
’’ہاں فتح محمد، جی چاہتا ہے۔‘‘
’’تو پھر موٹر نکلوا لو شیخ صاحب کی، ڈرائیور سارے میں گھما دے گا۔‘‘
’’نہیں فتح محمد ،میں پیدل ہی جائوں گا۔‘‘
’’تمہاری مرضی ہے میاں صاحب۔‘‘ فتح محمد بولا۔ آج اس نے ایک بھی فضول بات نہیں کی تھی اور میں جانتا تھا کہ اس کی وجہ کیا ہے۔ پھر ناشتے سے فراغت حاصل کرنے کے بعد میں وہاں سے باہر نکلا، فتح محمد سے کہہ دیا تھا کہ اگر شیخ صاحب پوچھیں تو بتا دے کہ میں سیر کرنے نکلا ہوں، شام تک واپس آ جائوں گا۔ دہلی کی سڑکوں پر آ گیا۔ پتے پوچھتا رہا، روایتوں کا شہر تھا، وقت کتنا ہی گزر جائے دلی کی قدیم روایتیں کبھی دم نہیں توڑیں گی۔ اس کی ادائوں میں فرق نہیں آئے گا۔ ایک جگہ رُک کر ایک شخص سے حضرت نظام الدین اولیاؒ کے مزار کا پتہ پوچھا اور اس نے حیرت سے منہ کھول دیا۔
’’اماں نئے لگتے ہو، دلی میں کہیں باہر سے آئے ہو۔‘‘
’’یہی بات ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا اور وہ سر ہی پڑ گیا، مجھ سے پوچھے بغیر تانگہ روکا اور مجھے سوار ہونے کا اشارہ کیا۔
’’کیوں؟‘‘
’’اماں آ جائو تکلف نہ کرو، ہمارے سلطان جی کی زیارت کو آئے ہو، چلو ہم پہنچا دیں ان کے کنے۔‘‘ لاکھ منع کیا نہ مانا، تانگہ چل پڑا اور وہ مجھے راستوں کے بارے میں بتانے لگا۔ ’’یہ ببر کا تکیہ ہے، یہ مٹکوں والے پیر کا مزار ہے اور یہ نیلی چھتری۔ یہاں سے تانگہ دائیں ہاتھ کو مڑ گیا۔ یہ بائیں ہاتھ والی سڑک ہمایوں کے مقبرے کو جاتی ہے۔ میرے راہنما نے بتایا… بالآخر درگاہ شریف پہنچ گئے۔ وہ اسی تانگے میں واپس چلا گیا۔ اس کی محبت نے دل پربڑا اَثر کیا تھا، اندر داخل ہوگیا۔ زیارت سے دل شاد ہوگیا۔ فاتحہ خوانی کی اور بہت دیر تک یہاں رُکا رہا۔ اُٹھنے کو جی ہی نہیں چاہتا تھا۔ بہرحال آگے بڑھنا تھا۔ وہاں سے نکلا، کوٹلہ، پرانا قلعہ شیر منڈل پھر مہر ولی اور پھر قطب صاحب، دوپہر کا وقت تھا، تیز دُھوپ پڑ رہی تھی، ہوا کے جھکڑ چل رہے تھے۔ گرمی اور دُھوپ کی وجہ سے کوئی نظر نہیں آ رہا تھا۔ ہوائوں کے مرغولے ریت کو بلند کرتے اور بعض جگہ بھنور کی شکل میں بلند ہوتے اور چکراتے دُور نکل جاتے۔ بچپن کی کچھ باتیں یاد آ گئیں۔ اکثر دوپہر کو کھیلنے نکل جاتا تھا ایسے ہی جھکڑ چل رہے ہوتے، اماں دیکھ لیتیں تو کہتیں۔
’’ایسی دوپہر میں گھر سے نہ نکلا کرو چمر بائولے اُٹھا لے جاتے ہیں۔‘‘
’’یہ کیا ہوتا ہے۔‘‘ میں نے پوچھا تو ماں نے مجھے چمر بائولے دکھائے، ہوا کے بھنور جو ریت کو رول کرتے ہوئے انسانوں کی طرح چلتے نظر آتے تھے۔
’’ان میں کیا ہوتا ہے۔‘‘
’’جنوں کی سواری، جن اِن پر سوار ہو کر سیر کو نکلتے ہیں اور اگر کوئی ان کے راستے میں آ جائے تو انہی میں لپٹ کر چلا جاتا ہے اور جن اُسے اُٹھا کر لے جاتے ہیں۔ بچپن کی باتیں شاید عمر کے آخری حصے تک یاد رہتی ہیں اور انہیں بھلانا ناممکن ہوتا ہے۔ ان بگولوں کو دیکھ کر دل میں وہی خوف طاری ہوگیا جو بچپن میں ہو جایا کرتا تھا۔ اس خوف میں بھی ایک لذت کا احساس ہوا۔ ماں یاد آ گئی تھی اور یہ یاد تو اب ایک ایسی کیفیت اختیار کر چکی تھی جسے الفاظ میں منتقل کرنا ممکن نہیں۔ آگے بڑھتا رہا اور پھر ایک چمربائولے کی زد میں آ گیا۔ اچانک ہی ہوا کا ایک زوردار جھکڑ عقب میں نمودار ہوا، اِس جھکڑ نے ایک وسیع دائرے کی شکل اختیار کرلی۔ گہری اور گاڑھی مٹی کئی فٹ اُونچی بلند ہوئی اور چکراتی ہوئی اس برق رفتاری سے میری جانب بڑھی کہ میں اس کی لپیٹ سے نہ نکل سکا۔ یوں لگا جیسے زمین سے پائوں اُکھڑ گئے ہوں۔ بڑا شدید دبائو تھاہوا کا۔ میں نے دونوں ہاتھ آنکھوں پر رکھ لیے اور تیز ہوائوں کا یہ زوردار جھکڑ مجھے زمین سے بلند کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ تمام محسوسات جاگ رہے تھے اور کسی بھی قسم کے وہم کا گمان نہیں تھا بس میں یہی سوچ رہا تھا کہ اب زمین پر گرا تب گرا… سنبھلنے کی کوششیں ناکام ہوگئی تھیں۔ ہوا کا یہ جھکڑ پلک جھپکتے مجھے میری جگہ سے کافی دُور لے گیا اور اس کے بعد میں گر پڑا۔ گھٹنوں میں چوٹ لگی تھی۔ باریک باریک پتھروں کے ٹکڑے ہتھیلیوں میں چبھ گئے تھے اور میں گرد کی وجہ سے آنکھوں میں کڑواہٹ محسوس کر رہا تھا۔ ہوا کا یہ تیز جھکڑ مجھ پر سے گزر گیا۔ کئی فٹ دُور لا پھینکا تھا اور اب وہ مجھ سے آگے نکل گیا تھا۔ آنکھیں کھولیں تو مٹی چبھنے لگی۔ بمشکل تمام شانے سے کمبل اُتار کر ایک سمت رکھا اور قمیض کے دامن سے آنکھیں صاف کرنے لگا۔ بڑی مشکل سے آنکھیں اس قابل ہوگئی تھیں کہ زمین نظر آ سکے۔ مسکراہٹ آ گئی تھی چہرے پر اور بدستور ماں کی ہدایت یاد کر رہا تھا، پھر زمین پر ہاتھ ٹکا کر اپنے آپ کو سنبھالا اور سیدھا کھڑا ہوگیا، لیکن دماغ کو جو خوفناک جھٹکا لگا تھا اس نے آنکھیں تاریک کر دیں۔ جو منظر نظر کے سامنے آیا تھا اس پر یقین کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا، چند لمحات تک جھنجھناتے ہوئے دماغ کو قابو میں کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ پھر پھٹی پھٹی آنکھوں سے اردگرد کا ماحول دیکھا۔ خدا کی پناہ یہ وہ جگہ ہی نہیں تھی جہاں اب سے چند لمحے پیشتر موجود تھا۔ یہ تو ماحول ہی بدلا ہوا تھا۔ لکھوری اینٹوں کی بنی ہوئی ایک انتہائی بوسیدہ اور وسیع عمارت، ٹوٹی پھوٹی دیواریں، بڑے بڑے جھروکے، عجیب سے فصیل نما ستون اور جگہ جگہ لکھوری اینٹوں کے ہیبت ناک ڈھیر، کہیں ٹوٹے ہوئے دروازے تو کہیں محرابیں۔ کہیں چبوترے جو صاف ستھرے اور کشادہ اور کہیں کچھ منبر نما جگہ، کوئی ایک بات جو سمجھ میں آئی ہو نگاہوں کا دھوکا تو ہو نہیں سکتا اور اگر دماغ کی کوئی خرابی ہے تو ان باتوں کو محسوس کرنے کی قوت ذہن میں کیسے موجود ہے۔ لیکن کچھ بھی نہیں تھا۔ جنوں کی سواری گزر رہی تھی اور میری ماں کے کہنے کے مطابق جن مجھے یہاں اُٹھا لائے تھے۔ بھلا اس کے علاوہ اور کیا سوچ سکتا تھا۔ بچپن کی حدود سے گزرا تھا اور ماں کی ہدایات پر غور کیا تھا تو یہی سوچا تھا کہ ماں دُھوپ سے بچانے کے لیے یہ الفاظ ادا کر کے خوف زدہ کرنا چاہتی ہے تا کہ دُھوپ مجھ پر اثرانداز نہ ہو، لیکن وہ کہانی اس وقت مجسم تھی۔ چمر بائولوں میں سفر کرنے والی جنوں کی سواری کے بیچ آ گیا تھا اور انہوں نے مجھے یہاں لا پٹخا تھا۔ کیا اسی بات پر یقین کر لوں مگر جگہ کونسی ہے اور جو کچھ ہوا ہے وہ کیا واقعی سچ ہے۔ ایک انوکھا سچ، اب کسی شبے کی گنجائش نہیں رہ گئی تھی۔ اُٹھا، کمبل احترام سے اُٹھا کر شانے پر ڈالا، اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ یہ ٹوٹی عمارت کہاں ہے کچھ اندازہ تو ہو۔ آس پاس ٹوٹی دیواریں، جھاڑیاں اور ویران اور ہیبت ناک مناظر کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ اینٹوں سے بنے ہوئے اس چبوترے کی جانب بڑھ گیا جس کی سیڑھیاں بھی ٹوٹی ہوئی تھیں۔ ہو سکتا ہے بلندی پر کھڑے ہو کر کچھ اندازہ ہو سکے۔ چبوترے پر پہنچا اور ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔
� دُور تک ویران میدان بکھرے ہوئے نظر آ رہے تھے جن میں جگہ جگہ چھدرے درخت سنسان کھڑے ہوئے تھے۔ پتھریلے چبوترے کے ایک گوشے میں ایک کنواں نظر آیا جس کے کنارے اینٹوں سے بنے ہوئے تھے۔ وہاںپانی کا ایک ڈول رکھا ہوا تھا اور رسّی کا لچھا بہت بڑا نظر آ رہا تھا جس سے یہ اندازہ ہوتا تھا کہ کنواں بہت گہرا ہے، لیکن جگہ، یہ جگہ کونسی ہے، دفعتاً ہی قدموں کی آہٹیں سنائی دیں اور سمت کا اندازہ کر کے دہشت زدہ سا اس طرف مڑ گیا۔ تین در ایک ساتھ بنے ہوئے تھے اور ان کے دُوسری طرف اندھیرا سا چھایا ہوا تھا اس طرف کا حصہ سالم نظر آ رہا تھا۔
آنے والے انہی دروں سے برآمد ہوئے تھے۔ تینوں دروں سے ایک ایک فرد باہر نکلا تھا۔ شانوں سے لے کر ٹخنوں تک کے سفید لباس میں ملبوس چہروں پرداڑھیاں تھیں اور یہ چہرے عام انسانوں جیسے ہی تھے۔ میں ان کے مخصوص لباس سے یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرنے لگا کہ یہ کون ہو سکتے ہیں۔ یوں محسوس ہوا تھا جیسے وہ میری یہاں موجودگی سے واقف ہیں اور میرے ہی لیے اندر سے نکل کر آئے ہیں۔ بہرطور انسان تھے، خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔ میں انہیں دیکھنے لگا اور وہ تینوں قدم بڑھاتے ہوئے میرے نزدیک پہنچ گئے۔ پھر ان میں سے ایک نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے آگے بڑھنے کے لیے کہا، لیکن میں نے فوراً ہی انہیں سلام کیا تھا۔ سلام کا جواب تینوں نے دیا اور اس کے بعد اس شخص نے جس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے آگے بڑھنے کے لیے کہا تھا مدھم لہجے میں کہا۔‘‘
’’اندر چلو تمہیں طلب کیا گیا ہے۔‘‘ میں کچھ اور سوال پوچھنا چاہتا تھا لیکن ان میں سے دو میرے عقب میں آ کھڑے ہوئے اور انہوں نے ہاتھ سے میرے شانوں کو ڈھکیلا، خاصا طاقتور دھکا تھا۔ میں کئی قدم آگے بڑھتا چلا گیا اور اس کے بعد یہی مناسب سمجھا کہ خاموشی سے ان کی ہدایت پر عمل کروں، ان کا انداز سخت تھا۔ وہ لوگ مجھے لیے ہوئے درمیان کے بڑے در سے اندر داخل ہوگئے۔ یہاں چھت تھی اور یہ جگہ خاصی وسیع تھی، اس کے دُوسری جانب ایک دروازہ نظر آ رہا تھا جس سے روشنی چھن رہی تھی اور یہ روشنی قدرتی تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ دُوسری طرف بھی کوئی کھلی جگہ موجود ہے۔ وہ لوگ مجھے اسی دروازے کی سمت لے چلے اور پھر میں اس دروازے سے بھی دُوسری طرف نکل گیا۔ تب میں نے اس کھنڈر نما عمارت کا وہ صحیح و سالم حصہ دیکھا جو بہت خوبصورتی سے بنا ہوا تھا۔ غالباً عمارت کا بیرونی حصہ ٹوٹ پھوٹ کر تباہ و برباد ہو گیا تھا لیکن یہ اندرونی حصہ بالکل دُرست تھا اور یہاں بڑے بڑے دروازے نظر آ رہے تھے۔ کچی زمین تھی اور اس پر گھاس اُگی ہوئی تھی۔ اسی گھاس سے گزار کر مجھے ایک بڑے دروازے تک لایا گیا اور پھر وہاں دو آدمی رُک گئے۔ البتہ ان میں سے ایک مجھے اسی طرح لیے ہوئے دروازے سے اندر داخل ہوگیا۔ یہ ایک وسیع و عریض کمرہ تھا جس پر دری اور چاندنی بچھی ہوئی تھی۔ سامنے ہی بڑا سا گائو تکیہ لگائے ہوئے ایک عمر رسیدہ شخص بیٹھا ہوا تھا۔ سر پر صافہ بندھا ہوا تھا۔ شانوں پر خاص طریقے سے چادر ڈالی گئی تھی۔ ڈھیلے ڈھالے سفید لباس میں ملبوس تھا۔ براق داڑھی سینے تک پھیلی ہوئی تھی۔ سرخ و سفید چہرے کے ساتھ بڑی پُر رعب شخصیت کا مالک نظر آتا تھا۔ اس کے دونوں سمت نیم دائرے کی شکل میں دس بارہ افراد بیٹھے ہوئے تھے۔ کچھ لوگ کچھ فاصلے پر ہٹ کر بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھے لانے والے نے بڑھنے کا اشارہ کیا اور اس شخص نے گردن اُٹھا کر مجھے دیکھا۔ پھر انگلی سے ایک سمت اشارہ کر دیا۔ مجھے ایک الگ گوشے میں بٹھا دیا گیا۔ لیکن معمر شخص سے میرا فاصلہ زیادہ نہیں تھا۔ اس وسیع و عریض کمرے میں اور بھی دروازے تھے۔ ایک دروازے سے چند افراد اندر داخل ہوئے اور پھر ایک اور دروازے سے جو شخص اندر آیا وہ میرے لیے بڑا حیران کن تھا۔ ایک خوبصورت سی شکل کا نوجوان جس کی پیشانی پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور جس کی تیز نگاہیں مجھے گھور رہی تھیں۔ معمر شخص کے قریب آ کر وہ دوزانو بیٹھ گیا۔ اس کے برابر ہی ایک اور کالی داڑھی والا شخص آ کر بیٹھ گیا تھا۔ معمر شخص نے گردن اُٹھا کر گہری نگاہوں سے مجھے دیکھا پھر کالی داڑھی والے شخص کو اور اس کے بعد اس کی آواز اُبھری۔
’’ثابت جلال اپنے بیٹے غلام جلال سے پوچھو کہ کیا یہی وہ شخص ہے جس پر غلام جلال نے اپنے آپ کو زخمی کرنے کا الزام لگایا ہے۔‘‘ جس شخص کو ثابت جلال کہہ کر پکارا گیا تھا، اس نے خونی نگاہوں سے مجھے دیکھا اور پھر پاس بیٹھے ہوئے نوجوان کو لیکن غلام جلال کا نام سن کر میں خود چونکا تھا، میری جس قدر رہنمائی ہوئی تھی اس میں غلام جلال کا نام تو شامل تھا لیکن اس کی صورت سے آشنائی نہ ہو پائی تھی۔ ایک لمحے میں مجھے ساری حقیقت کا اندازہ ہو گیا تھا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہی دل سے خوف بالکل ختم ہو گیا تھا۔ نوجوان لڑکے نے مجھے گھورتے ہوئے مؤدب انداز میں کہا۔
’’ہاں معزز قاضی صاحب، حقیقت یہی ہے کہ یہی وہ شخص ہے جس نے مجھے زخمی کیا۔‘‘
’’اے شخص تیرا نام کیا ہے…؟‘‘ جس شخص کو قاضی کہہ کر مخاطب کیا گیا تھا اور جس کی سفید داڑھی اس کے سینے پر لہرا رہی تھی اس نے کرخت لہجے میں مجھ سے پوچھا۔
’’میرا نام مسعود احمد ہے اور میرے والد کا نام محفوظ۔‘‘
’’ہم تجھ سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ غلام جلال سے تیرا کیا اختلاف تھا اور اس جھگڑے کی بنیاد کیا تھی۔ کیا تجھے اس بات کا علم تھا کہ غلام جلال ہمارے قبیلے سے ہے اور کیا تو یہ نہیں جانتا تھا کہ ہمارے قبیلے کے ایک نوجوان کو زخمی کرنے کا نتیجہ کیا نکل سکتا ہے۔‘‘
’’معزز قاضی صاحب نہایت احترام کے ساتھ تفصیل عرض کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔‘‘ میں نے بے خوفی سے کہا۔
’’ملاحظہ فرمایا آپ نے قاضی محترم یہ شخص کتنا سرکش ہے۔ اس کا انداز گفتگو ایسا ہے جیسے یہ ہمیں گردانتا ہی نہ ہو…‘‘ ثابت جلال نے کہا۔
’’تمہیں خاموش رہنے کا حکم دیا جاتا ہے ثابت جلال۔‘‘ باریش بزرگ نے کہا اور سیاہ داڑھی والا ثابت جلال خاموش ہوگیا۔ باریش بزرگ نے مجھے دیکھا تو میں نے کہا۔
’’غلام جلال نے ایک ایسی پاکباز لڑکی پر تسلط قائم کرلیا تھا جو بچپن سے ایک نوجوان سے منسوب تھی اور اسے چاہتی تھی۔ اس نے اس کے اہل خاندان کو خوفزدہ کر رکھا تھا اور وہ نیک مسلمان گھرانہ غمزدہ اور پریشان تھا۔ میں نے اس سے درخواست کی مگر اس نے مجھے ضرر پہنچانا چاہا اور میں نے اپنے دفاع کے لیے اسے جھٹک دیا۔ یہ سانپ کی شکل میں مجھے ڈسنا چاہتا تھا۔ یہ دیوار سے جا ٹکرایا اور زخمی ہو گیا۔ کیا یہ میرا قصور ہے۔‘‘
’’کیا یہ سچ ہے غلام جلال۔‘‘
’’ہاں قاضی محترم۔ وہ دوشیزہ میرے جی کو بھا گئی تھی۔‘‘
’’وہ تجھے کہاں ملی تھی؟‘‘
’’اسی بوسیدہ حویلی میں، یہ حویلی اس کے باپ کی ملکیت ہے۔ وہ چاندنی رات میں کلیلیں کر رہی تھی اور اچانک میرے سامنے آ گئی تھی۔‘‘
’’گویا وہ شیخ عبدالقدوس کی بیٹی ہے۔‘‘
’’دُرست ہے قاضی محترم۔‘‘
’’مگر یہ تو گناہ کبیرہ ہے۔ اوّل تو شیخ عبدالقدوس ایک دیندار اور خدا ترس انسان ہے۔ مسلمان ہے، سخی اور پابند احکامات الٰہی ہے۔ دوم وہ دوشیزہ نسبت رکھتی ہے۔ تجھے یہ لازم نہ تھا غلام جلال کہ اس پر فریفتہ ہوتا اور اسے گمراہ کرتا۔ پس یہ ثابت ہوا کہ یہ شخص بے قصور ہے اور جو کچھ ہوا اس میں غلام جلال کی نادانی تھی۔ چنانچہ ثابت جلال تجھ پر لازم ہے کہ اسے ہرجانہ ادا کرے اور وہیں پہنچائے جہاں سے اسے لایا گیا ہے۔‘‘
’’قاضی محترم میرا بیٹا غمزدہ ہو جائے گا۔‘‘ ثابت جلال نے کہا۔
’’تو کیا تو چاہتا ہے کہ کوئی غیر شرعی فیصلہ کیا جائے۔‘‘ دُوسرے احتجاج پر تو بھی سزا کا حق دار ہوگا۔ تیرا فرض ہے کہ تو اپنے سرکش بیٹے کی نگرانی کرے، اگر اسے نافرمانی کا مرتکب پایا گیا تو اس کے لیے سزائے موت تجویز کی جائے گی۔
’’قاضی کا فیصلہ سر آنکھوں پر۔‘‘ ثابت جلال نے کہا اور قاضی صاحب اپنی جگہ سے اُٹھ گئے۔ ان کے ساتھ بقیہ افراد بھی اُٹھ گئے تھے۔ ثابت جلال نے ایک تھیلی ہرجانے کے طور پر مجھے دی جو مجھے لینا پڑی۔ پھر وہ مجھے ساتھ آنے کا اشارہ کر کے چل پڑا۔ حویلی کے بیرونی صحن میں ایک گھوڑا کھڑا ہوا تھا۔
’’یہ جانتا ہے تجھے کہاں جانا ہے۔ اس پر سوار ہوجا۔‘‘ میں نے رکاب پر پائوں رکھا اور گھوڑے کی پشت پر بیٹھنا چاہا مگر دُوسری سمت جا گرا۔ بڑی خفت ہوئی تھی مگر معاملہ دُوسرا ہی تھا، جگہ ایک دم بدل گئی تھی۔ وہی دُھوپ، وہی ہوائیں، وہی ماحول جہاں سے میں ہوائوں کا قیدی بنا تھا۔ واپس چل پڑا اور شیخ صاحب کی حویلی پہنچ گیا۔ یہاں کے ماحول میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تھی۔ اپنی آرام گاہ میں آکر میں اس پورے واقعے پر غور کرنے لگا۔ کیا کچھ عطا ہوگیا تھا مجھے۔ جنوں کی نگری پہنچ گیا تھا۔ ان کی عدالت میں حاضری ہوئی تھی اور مقدمہ جیت گیا تھا۔ جو کچھ ظہور پذیر ہوا تھا اس کے بعد مہرالنساء بالکل محفوظ ہوگئی تھی۔ چنانچہ اب شیخ صاحب کی حویلی میں قیام بے معنی تھا۔ یہ لوگ خدشے کے پیش نگاہ مجھے اجازت نہیں دیں گے اور میرے دل کو اب الٰہ آباد کی لگن لگی ہوئی تھی۔ ثابت جلال نے ہرجانے کی جو تھیلی دی تھی اس میں ضرورت کے لیے بہت کچھ تھا، چنانچہ حویلی کے مکینوں سے غائبانہ معذرت کرکے ایک بار پھر وہاں سے نکل آیا۔ کمبل شانے پر موجود تھا لیکن چند جوڑے لباس درکار تھے جو بازار سے خریدے انہیں یکجا کرکے ایک سوٹ کیس میں رکھا اور اسٹیشن پہنچ گیا۔ الٰہ آباد جانے والی ریل کے بارے میں معلوم کیا اور جب ریل آئی تو اس میں بیٹھ گیا۔ اب دل والدین میں اُلجھ گیا تھا۔ ایک عجیب ہوک اُٹھ رہی تھی۔ کانوں میں ان کی آواز اُبھر رہی تھی۔
(جاری ہے)