ریل میں بہت سے مسافر تھے مگر میں سب سے لاپروا اس وقت اس تصور میں کھویا ہوا تھا۔ آہ کاش الیاس خان نے میرا پیغام ماموں ریاض کو دے دیا ہو۔ آہ کاش وہ اسے مل گئے ہوں۔ نہ جانے یہ سفر کیسے طے ہوا، نہ جانے یہ سفر کتنا طویل تھا۔ الٰہ آباد اسٹیشن کا بورڈ نظر آیا اور میں مختصر سامان سمیٹے نیچے اُتر آیا۔ بڑا تاریخی شہر تھا اور زمانۂ طالب علمی میں اس کے بارے میں بہت سی معلومات حاصل ہوئی تھیں مگر اس وقت دل کی دھڑکنیں بے ترتیب تھیں۔ اس احساس نے خوف چہرے پر جمع کر دیا تھا کہ ماموں ریاض اسی شہر میں ہیں اور ماں باپ کے بھی یہاں ہونے کے امکانات ہیں۔ آہ کیا انہیں دوبارہ دیکھنا نصیب ہو جائے گا۔ کیا میری تقدیر ایسی ہے۔ باہر تانگے کھڑے ہوئے تھے۔ ایک تانگے والے سے کہا۔
’’حویلی شاہ پور چلو گے؟‘‘
’’بیٹھو بھیا جی۔ تین روپے ہوں گے۔‘‘ میں تانگے میں بیٹھ گیا اور تانگہ سفر کرنے لگا۔ کوئی پچاس منٹ کا سفر طے کرنا پڑا تھا۔ ایک جگہ تانگہ رُک گیا۔ ’’اب کہاں چلوں؟‘‘
’’حویلی کہاں ہے…؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’کونسی حویلی…؟‘‘
’’حویلی شاہ پور۔‘‘
’’یہی محلہ ہے بھیا جی۔ حویلی تو کہیں نہیں ہے۔‘‘ تانگے والے نے کہا اور میں نے نیچے اُتر کر کرایہ ادا کر دیا۔ گھروں میں دُکانیں کھلی ہوئی تھیں۔ ایک دکاندار سے وہ پتہ پوچھا جو الیاس خان نے بتایا تھا۔
’’الیاس خان وہ سامنے والے گھر میں رہتا ہے۔‘‘ دکاندار نے خوشگواری سے بتایا۔ بڑی صحیح جگہ پہنچا تھا مگر گھر دیکھ کر عجیب سا احساس ہوا تھا۔ شیخ عبدالقدوس تو بڑے کرّوفر کے آدمی تھے اور الیاس خان ان کی بیٹی کا سُسرالی رشتے دار، ظاہر ہے شیخ صاحب نے بیٹی کسی معمولی گھر میں تو نہ بیاہ دی ہوگی۔ یہ گھر تو بہت معمولی تھا۔ میں اس کے دروازے پر پہنچ گیا۔ دستک دی تو ایک عمر رسیدہ شخص نے دروازہ کھولا۔
’’جی فرمایئے…‘‘
’’الیاس خان صاحب یہیں رہتے ہیں…؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
’’میں دہلی سے آیا ہوں، ان کا شناسا ہوں، مجھے یہاں آنے کی دعوت دے کر آئے تھے۔ اگر وہ موجود ہوں تو انہیں بتا دیجیے کہ شیخ عبدالقدوس کے ہاں سے مسعود آیا ہے۔‘‘
’’اوہو تم شیخ صاحب کے ہاں سے آئے ہو۔ بیٹا ایک منٹ رکو، ذرا بیٹھک کھول دوں۔‘‘
بزرگ اندر چلے گئے۔ پھر بڑے احترام سے مجھے اندر لے گئے۔ مجھے بٹھا کر بولے۔ ’’جوتے وغیرہ اُتار لو میں لوٹے میں پانی لے آتا ہوں، منہ ہاتھ دھو لو۔ کھانے کا وقت ہو گیا ہے پہلے کھانا کھائیں گے پھر باتیں ہوں گی۔ آرام سے بیٹھو بیٹے یہ تمہارا اپنا گھر ہے۔‘‘
’’الیاس خان موجود ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’نہیں مگر آ جائے گا۔ اوہو میرا بھی کیسا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ ستّر سال عمر ہوگئی ہے کیا کروں۔ بیٹے میں الیاس خان کا باپ ہوں۔ جمال احمد خان ہے میرا نام۔ وہ گیا ہوا ہے آ جائے گا۔ ابھی آتا ہوں۔ بزرگ باہر نکل گئے کچھ دیر کے بعد لوٹے میں پانی لے آئے۔ میں نے بھی تکلف ختم کر دیا تھا۔ کچھ دیر کے بعد کھانا آ گیا۔ بزرگ میرے ساتھ خود بھی کھانے میں شریک ہوگئے۔ اَرہر کی دال تھی، پیاز اور لیموں کی چٹنی۔ باہر سے گرم گرم روٹیاں آ رہی تھیں۔ دستک ہوتی اور بزرگ اُٹھ کر روٹیاں لے لیتے۔ کھانے میں لطف آ گیا تھا۔ پھر جب برتن وغیرہ سمٹ گئے تو بزرگ میرے پاس آ بیٹھے۔‘‘
’’ہاں میاں صاحب سنائو دلی کی داستانیں۔ شیخ صاحب کیسے ہیں۔‘‘
’’بالکل خیریت سے ہیں۔ میں نے کچھ دن وہاں قیام کیا تھا۔ میرا شیخ صاحب سے کوئی رشتہ نہیں، ایک غرض سے وہاں مقیم تھا۔ وہیں الیاس خان صاحب سے شناسائی ہوئی تھی۔ دعوت دے آئے تھے مجھے۔‘‘
’’میاں محبتوں کے رشتے سب کچھ ہوتے ہیں۔ تم اتنا فاصلہ طے کر کے یہاں آئے اتنا ہی کافی ہے۔ تو الیاس خان دلی میں تھا…؟‘‘
’’جی…؟‘‘ میں نے بزرگ کو دیکھا۔
’’ایں ہاں مجھے پتا نہیں تھا۔ خیر چھوڑو… دراصل علیم الدین خان میرے ماموں زاد بھائی ہیں۔ ان کے بیٹے جمیل الدین خان سے شیخ عبدالقدوس کی بیٹی کی شادی ہوئی ہے۔ ہم غریب لوگ ہیں مگر شیخ صاحب ایسے وضع دار آدمی ہیں کہ بیٹی کی سُسرال کے کتے کی بھی عزت کرتے ہیں۔ یہ الیاس اسی حوالے سے وہاں پہنچ جاتا ہے حالانکہ کسی کو زیر بار کرنا اچھا نہیں ہوتا۔ اچھا میاں سفر سے تھک گئے ہوگے، آرام کرو، سو جائو، شام کو باتیں ہوں گی۔ دروازہ چاہو تو اندر سے بند کر لو… اچھا خدا حافظ‘‘ وہ باہر نکل گئے۔ یہ کمرہ بھی شاید مہمان خانے کی حیثیت رکھتا تھا۔ یہاں کے حالات کا کچھ کچھ اندازہ ان چند باتوں سے ہو گیا تھا۔ حالانکہ شیخ صاحب کی حویلی میں کچھ اور ہی سنا تھا الیاس خان کے بارے میں، مگر وہ نوکروں کی بات تھی جو بس اتنا جانتے ہوں گے کہ الیاس خان بڑی بٹیا کے سُسرال والے ہیں مگر الیاس خان… وہ جو کچھ لایا ہے وہ اس گھر کی تقدیر بدل سکتا ہے، اس نے آغاز کیوں نہیں کیا۔ الیاس خان رات کے کھانے پر بھی نہیں تھا۔ بزرگ شرمندہ شرمندہ نظر آتے تھے۔ میرے اصرار پر انہوں نے بتایا۔
’’بس میاں تقدیر کا کھوٹا ہوں… بری صحبتوں میں رہتا ہے وہ، حالانکہ میرا اکیلا بیٹا ہے، ایک بہن ہے اس کی جو ہماری غربت کا شکار ہو کر کنواری بیٹھی ہے۔ مگر وہ توجہ نہیں دیتا۔ بالاخانے میں برے دوستوں کی صحبت ہے اور…‘‘
مجھے بے حد افسوس ہوا تھا۔ میرے خیالات کی تصدیق ہوگئی تھی۔ بزرگ سے کچھ نہ کہا رات کے بارہ بجے ہوں گے کہ دروازے پر آہٹیں ہوئیں اور پھر الیاس خان اندر داخل ہوگیا۔ نشے میں دُھت تھا، قدم لڑکھڑا رہے تھے، چہرہ لال بھبھوکا ہو رہا تھا۔ میرے قدموں میں بیٹھ گیا۔
’’پیر و مرشد آپ آ گئے۔ میرے مرشد…‘‘ وہ میرے پائوں چومنے کی کوشش کرنے لگا اور میں نے اسے زور سے دھکا دے دیا۔
’’تم اتنے گرے ہوئے ہو الیاس خان، ایک بوڑھے باپ کے بیٹے، ایک جوان بہن کے بھائی ہو کر تمہیں شرم نہیں آتی۔ وہ کہاں ہے جو تمہیں ملا تھا۔‘‘
’’آپ نے میری تقدیر بنا دی ہے۔ میری عزت بنا دی ہے۔ ایک بار پھر لوگ مجھے جھک جھک کر سلام کرنے لگے ہیں۔ کملا وتی نے میرے لیے ناچنا شروع کر دیا ہے۔ گلنار مجھ پر جان چھڑکنے لگی ہے۔ پیر و مرشد خوش آمدید… خوش آمدید۔‘‘ وہ نشے میں لڑکھڑاتی آواز میں بولا۔ اسی وقت بزرگ اندر آ گئے۔
’’اسے لے جائوں مسعود میاں۔ اب یہ صبح ہی کو ہوش میں آئے گا۔‘‘ وہ الیاس خان کا بازو پکڑ کر اسے گھسیٹتے ہوئے باہر لے گئے۔ مجھے سخت دُکھ ہوا تھا۔ اس گھر کی کسمپرسی کا عالم آنکھوں سے دیکھ لیا تھا۔ الیاس خان کے چند جملوں سے مکمل صورت حال میرے علم میں آ گئی تھی۔ میں سمجھ گیا تھا کہ اشرفیوں سے بھرا وہ کلسا کہاں گیا۔ دفعتاً ہی مجھے ایک عجیب احساس ہوا، ایک فاش غلطی کا احساس، برگد کی جڑ میں مدفون وہ خزانہ مجھے نظر آیا تھا، اس کی کہانی بھی مجھے پتا چل گئی تھی۔ لیکن وہ خزانہ میری ملکیت کہاں سے ہوگیا۔ مجھے یہ حق کہاں تھا کہ میں اسے اپنی مرضی سے کسی کو دے دوں۔ یہ جانے بوجھے بغیر کہ یہ کہاں استعمال ہوگا پھر الیاس خان کی شخصیت کسی حد تک میرے علم میں آ گئی تھی جو شخص سٹّہ کھیلتا ہو وہ اچھا آدمی تو نہیں ہو سکتا۔ اس کے بارے میں تو مجھے اندازہ ہو جانا چاہیے تھا مگر میں نے یہ سب سوچے بغیر اسے کلسے کا پتا بتا دیا صرف اس لیے کہ میری اس سے ذاتی غرض تھی۔ میں اس کے ذریعے ماموں ریاض کا پتا معلوم کرنا چاہتا تھا۔ ایک دم اس سنگین غلطی کا احساس ہوا تھا یہ تو… یہ تو بالکل غیر مناسب بات تھی۔ مجھے بے اختیار ہو کر یہ قدم نہیں اُٹھانا چاہیے تھا۔ مگر اب تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ اب کیا کر سکتا تھا۔ دل بڑا بے چین رہا۔ رات بھر سکون سے سو نہ سکا، علی الصباح جاگ گیا، نماز پڑھی اس دوران جمال احمد خان صاحب وہاں آ گئے۔ مجھے دیکھ کر آبدیدہ ہوگئے۔
’’نماز پابندی سے پڑھتے ہو بیٹے؟‘‘
’’کوشش کرتا ہوں محترم۔‘‘
’’اللہ قبول کرے۔ جوانی کی عبادت قبول ہوتی ہے۔ نیک والدین کی اولاد ہو۔ ہم اس خوشی سے محروم ہیں ہمارے صاحب زادے خراٹے بھر رہے ہیں۔‘‘
’’ایک نذرانہ پیش کرنا چاہتا ہوں محترم انکار نہ کیجیے گا۔‘‘ میں نے کہا اور ہرجانے کی تھیلی سے مٹھی بھر اشرفیاں نکال کر انہیں پیش کر دیں۔ باقی اس لیے رہنے دی تھیں کہ مجھے ضرورت تھی۔
’’یہ کیا ہے…؟‘‘ بزرگ لرز کر بولے۔
’’ایک ناچیز نذرانہ… اپنی بہن کے لیے آپ کے بوجھ میں حصہ بٹانا چاہتا ہوں۔‘‘
’’نہیں بیٹے ہمارا تو صحیح تعارف بھی نہیں ہے۔ اس پر ہمارا حق نہیں ہے۔‘‘
’’آپ نے فرمایا تھا کہ محبتوں کے رشتے سب کچھ ہوتے ہیں، مجھ سے یہ رشتہ توڑ رہے ہیں؟‘‘
’’مگر بیٹے…‘‘
’’انکار نہ کریں اور انہیں محفوظ رکھیں۔‘‘ بڑے جتن کے بعد جمال احمد نے یہ اشرفیاں قبول کی تھیں۔ ہم ناشتہ کر چکے تھے جب الیاس خان کی صورت نظر آئی، مجھے دیکھ کر خوشی سے بے قابو ہوگیا تھا۔
’’رات کو بھی آپ کی خدمت میں حاضری دی تھی مرشد مگر اس وقت…‘‘
وہ باپ کو دیکھ کر خاموش ہوگیا۔
’’ہوش میں نہ تھے۔‘‘ جمال احمد خان نے کہا اور اُٹھ کر باہر چلے گئے۔
’’ساری رات آپ کو خواب میں دیکھتا رہا۔ اس وقت بھی یہ دیکھنے آ گیا تھا کہ رات کی وہ کیفیت بھی تو خواب نہیں تھی۔ مرشد آپ کے آنے سے نئی زندگی ملی ہے مجھے بھی اور میرے دوستوں کو بھی۔ مرشد آپ دیکھیے گا کہ یہاں آپ کا کیسا استقبال ہوتا ہے۔ وہ لوگ تو مسلسل اصرار کر رہے تھے کہ آپ کو لینے دہلی چلا جائے سب غائبانہ مرید ہوگئے ہیں آپ کے۔‘‘
’’کون لوگ…؟‘‘ میں نے حیرانی سے کہا۔
’’وہ فرید خان، نواب دلبر، رحمت یار خان، بڑی مشکل سے باز رکھا اور یقین دلایا کہ مرشد یہاں ضرور آئیں گے۔ انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا ہے اور اللہ والے جھوٹا وعدہ نہیں کرتے۔‘‘
’’تم نے سب کو بتا دیا ہمارے بارے میں…‘‘
’’وہ میرے بہترین دوست ہیں مرشد، آپ نے کیا میرے ابا کو اس دولت کے بارے میں بتا دیا جو آپ نے مجھے عطا فرمائی ہے۔‘‘
’’نہیں…‘‘ میں نے افسردگی سے کہا۔ یہ ساری باتیں سن کر مجھے افسوس ہو رہا تھا، سب کچھ میری حماقت کے سبب ہوا۔ میں نے کہا۔ تم نے میرا کام بھی کیا الیاس خان۔
’’بھلا بھول سکتا تھا۔‘‘
’’ماموں ریاض ملے…؟‘‘
’’منشی ریاض آپ کے ماموں ہیں۔‘‘
’’ہاں…‘‘ میں نے ٹھنڈی سانس لے کر
کہا۔
’’ہاں وہ مل گئے۔‘‘
’’میرے بارے میں انہیں بتایا؟‘‘ میں نے پھولے ہوئے سانس کے ساتھ پوچھا۔
’’آپ کا پیغام دے دیا تھا انہیں…‘‘
’’کچھ بولے… کچھ کہا انہوں نے…؟‘‘
’’نہیں خاموشی سے مجھے دیکھتے رہے پھر ٹھنڈی سانس لے کر بولے۔ اچھا۔‘‘
’’اچھا…؟‘‘ میں حیران رہ گیا۔ ’’اور کچھ نہیں کہا انہوں نے، کچھ خوشی نہیں ہوئی انہیں اس خبر سے…؟‘‘
’’اندازہ تو نہیں ہوتا تھا۔‘‘
’’تم نے انہیں وہی سب کچھ بتایا تھا جو میں نے کہا تھا۔‘‘
’’من و عن…؟‘‘ الیاس خان نے کہا اور میرا دل ڈوبنے لگا، ایسا کیوں ہوا، اس کی کیا وجہ ہے۔ ماموں ریاض کو کوئی خوشی نہیں ہوئی میرے بارے میں سن کر … کیوں آخر کیوں۔
’’اس وقت وہ کہاں ہوں گے…‘‘
’’فرید خان کے ساتھ ہی ملیں گے۔‘‘
’’مجھے وہاں لے چلو، الیاس خان مجھے فوراً وہاں لے چلو۔‘‘ میں نے دل گرفتہ لہجے میں کہا۔
’’بس ذرا ناشتہ کر لوں اتنی دیر میں آپ تیار ہو جایئے۔‘‘ الیاس خان بولا اور میں نے گردن ہلا دی۔ ایک ایک لمحہ شاق گزر رہا تھا، ہزاروں پریشان کن خیالات نے گھیر رکھا تھا۔ آہ کیا ہوا ہے ایسا کیوں ہوا کچھ دیر کے بعد الیاس خان تیار ہو کر آ گیا اور میں اس کے ساتھ گھر سے باہر نکل آیا۔
ماموں ریاض مجھ سے اس قدر بے گانہ ہو گئے۔ انہیں کوئی خوشی نہیں ہوئی میرے بارے میں سن کر۔ کیوں؟ کیا انہیں الیاس خان کی بات پر یقین نہیں آیا۔ یا پھر وہ لوگ۔ وہ لوگ میری وجہ سے اس قدر پریشان ہوئے ہیں کہ ان کے دِلوں میں میرا کوئی مقام نہیں رہا، وہ مجھ سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ کیا امی بھی، ابو بھی اور میری بہنیں۔ حلق میں گولا سا اَٹک گیا۔ الیاس خان نے تانگہ روک لیا تھا۔
’’آپ نے پہلے کیوں نہیں بتایا تھا۔‘‘ الیاس خان نے کہا۔
’’کیا؟‘‘ میں نے چونک کر پوچھا۔
’’یہی کہ منشی ریاض آپ کے ماموں ہیں۔‘‘
’’ہاں بس یونہی۔‘‘
’’آپ کا پورا خاندان ہو گا مرشد۔‘‘
’’ہاں ہے۔‘‘
’’کہاں کے رہنے والے ہیں آپ؟‘‘
’’الیاس خان میں خاموش رہنا چاہتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا اور الیاس خان نے گردن ہلا دی تانگہ دوڑتا گیا۔ الیاس خان نے تانگے والے کو ایک پتا بتایا تھا مگر میں نے اس پر غور نہیں کیا تھا۔ الٰہ آباد کے گلی کوچے نگاہوں سے گزرتے رہے مگر میں نگاہ بھر کر انہیں نہیں دیکھ سکا، دماغ بجھا ہوا تھا۔ دل میں آرزوئوں کی کسک تھی۔ ماں باپ کا احساس ہو رہا تھا۔ وہ یہاں ماموں ریاض کے ساتھ ہیں بھی یا نہیں۔ ویسے اُمید تو یہی تھی کہ وہ بھی ماموں ریاض کے ساتھ ہوں گے۔
ماموں ریاض بچپن ہی سے امی کے ساتھ تھے۔ مشکل حالات میں وہ کبھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ آہ! کاش وہ سب یہاں ہوں۔
بہت فاصلہ طے ہوگیا پھر تانگہ ایک بہت بڑے مکان کے سامنے رُکا اور الیاس خان نیچے اُتر گیا۔ اس نے تانگے والے کو پیسے دیے اور میں نیچے اُتر آیا۔ وسیع و عریض مکان کا احاطہ پکی اینٹوں سے بنا ہوا تھا۔ لکڑی کا بڑا دروازہ نظر آ رہا تھا۔ اندر کی عمارت احاطے کی بلند دیواروں میں چھپی ہوئی تھی۔ دروازہ اندر سے بند نہیں تھا۔ الیاس خان نے اسے کھولا اور اندر داخل ہوگیا۔ ’’آیئے مرشد بے دھڑک چلے آیئے۔‘‘ وہ بولا۔
’’کیا یہ فرید خان کا گھر ہے؟‘‘ میں نے دروازے سے اندر قدم رکھتے ہوئے پوچھا۔
’’نہیں یہ نواب دلبر کی حویلی ہے۔‘‘
’’یہاں کیوں آئے ہو۔‘‘
’’سب یہیں ملیں گے۔‘‘
’’ماموں ریاض بھی۔‘‘
’’ہاں۔‘‘ وہ آگے بڑھتا ہوا بولا۔ میں جھجھکتے قدموں سے آگے بڑھا۔ احاطے کی یہ دیوار بعد میں بنوائی گئی تھی۔ اندر کی عمارت بوسیدہ تھی۔ وسیع احاطے میں جگہ جگہ جھاڑ جھنکاڑ اُگے ہوئے تھے۔ ٹوٹی دیواروں کے ڈھیر نظر آ رہے تھے، سامنے ہی ایک بڑا دروازہ تھا جسے کھول کر الیاس خان نے مجھے اندر آنے کا اشارہ کیا۔
’’یہاں خواتین نہیں ہیں؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ الیاس خان بولا ۔ہم دروازے سے اندر داخل ہوئے تھے کہ ہمیں دو افراد نظر آئے۔ وسیع ہال میں کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ سامنے میز پڑی ہوئی تھی جس پر خالی بوتل اور خالی گلاس رکھے ہوئے تھے۔ وہ چونک کر ہمیں دیکھنے لگے۔ میں نے ان دونوں کو بھی پہچان لیا تھا۔ یہ بھی اس وقت موجود تھے جب میں نے ماموں ریاض کو دیکھا تھا۔ انہوں نے مجھے دیکھا اور پھر سوالیہ نظروں سے الیاس خان کو دیکھنے لگے۔
’’مرشد ہیں۔‘‘ الیاس خان بولا۔
’’کون مرشد۔‘‘ ان میں سے ایک نے پوچھا۔
’’کمال ہے مرشد کو نہیں جانتے، میں نے بتایا تھا تمہیں کہ آنے والے ہیں۔‘‘
’’ارے وہ! ارے توبہ یہ ہیں وہ۔ معاف کیجئے گا محترم ہم پہچان نہیں سکے تھے۔‘‘ وہ آگے بڑھے اور میرے ہاتھ پکڑ پکڑ کر چومنے لگے۔
’’مرشد یہ فرید خان صاحب ہیں اور یہ رحمت یار خان میں نے آپ کو بتایا تھا۔‘‘
’’اوہ ہاں۔ فرید خان صاحب ہمیں منشی ریاض صاحب سے ملنا ہے۔‘‘
’’کام سے گئے ہوئے ہیں۔ آتے ہی ملوا دیا جائے گا آپ سے مرشد۔‘‘ فرید خان نے کہا اور بولا۔ ’’آپ تشریف رکھیے۔‘‘
’’شکریہ۔ کب تک آ جائیں گے۔‘‘ میں نے بے صبری سے پوچھا۔
’’ہمیں آپ کی آمد کا علم نہیں تھا عالی حضور، ورنہ انہیں نہ جانے دیتے۔ چند کاموں سے گئے ہوئے ہیں واپسی میں کچھ دیر لگ جائے گی۔ آپ تشریف رکھیں، رحمت تم نواب صاحب کو خبر دے دو۔‘‘ رحمت یار خاموشی سے اُٹھ کر اندر چلا گیا تھا۔ فرید خان بار بار مجھے دیکھنے لگتا تھا۔ پھر دو آدمی اندر داخل ہوئے۔ ایک رحمت یار تھا دُوسرا یقیناً نواب دلبر ہوگا، یہ شخص ان سب میں نمایاں نظر آ رہا تھا۔ گہری سرخ آنکھیں، نکیلی مونچھیں، بلند و بالا قد، مضبوط ہاتھ پائوں، موٹے ہونٹوں پر پان کی دھڑی جمی ہوئی اس کے دو دانت سونا چڑھے تھے۔
’’تو یہ ہیں تمہارے مرشد الیاس خان۔‘‘ نواب دلبر نے کہا۔
’’ہاں یہی ہیں۔‘‘
’’ہمیں تو اب بھی یقین نہیں آیا۔‘‘ وہ بولا۔
’’کیا مطلب؟‘‘
’’سکھا پڑھا کر لائے ہوگے کونسا مشکل کام ہے۔‘‘
’’تم لوگوں نے انہیں سمجھایا نہیں، پہلے بھی انہوں نے ایسی ہی باتیں کی تھیں، برداشت کی ایک حد ہوتی ہے، اب مرشد کے سامنے بھی یہی باتیں ہو رہی ہیں۔ میری غلطی یہی ہے کہ دوبارہ تم لوگوں کے پاس آ گیا اور سب کچھ ایمانداری سے تمہارے حوالے کر دیا۔‘‘
’’نواب دلبر یہ تمہاری زیادتی ہے۔‘‘ رحمت یار بولا اور دلبر نے قہقہہ لگایا۔
’’اچھا زیادتی ہے تو کمی کئے دیتے ہیں مگر بڑے چھوٹے سے ہیں مرشد ابھی تو ان کے گلی ڈنڈا کھیلنے کے دن ہیں۔ خیر ہمیں کیا یاروں کا کہنا ہے مان لیتے ہیں، اماں کچھ خاطر مدارت کرو ان کی، الیاس خان اندر لے چلو انہیں یہاں چوراہے پر کیوں بٹھا رکھا ہے۔‘‘
’’الیاس خان تم مجھے یہاں کیوں لائے ہو۔‘‘ میں نے کہا۔
’’یہ سب آپ سے ملنا چاہتے تھے مرشد۔ میں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ مرشد آئے تو ان سے ضرور ملائوں گا۔‘‘
’’مگر میں صرف منشی ریاض سے ملنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’ان سے بھی مل لینا میاں خان پریشانی کی کیا بات ہے، ہم بھی اتنے بُرے نہیں ہیں۔‘‘ نواب دلبر تمسخرانہ انداز میں بولا۔ مجھے بے چینی کا احساس ہونے لگا۔ سب کچھ غلط ہوتا جا رہا تھا۔ یہ لوگ بُرے لوگ معلوم ہوتے تھے۔ ان کا اندازہ مجھے پہلے کر لینا چاہیے تھا۔ ابتدا ہی سے اندازہ ہو جانا چاہیے تھا۔ وہ مجھے کسی بہتر جگہ نہیں ملے تھے۔ طوائفوں کے کوٹھوں پر نظر آنے والے لوگ اچھے تو نہیں ہوتے۔ میں اتنا فیاض ہو گیا کہ زیر زمین نظر آنے والا خزانہ الیاس خان کے سپرد کر دیا۔ اپنی ملکیت کی طرح اور پھر۔ آہ بڑی غلطی ہوگئی اس کا احساس تو پہلے ہی ہو گیا تھا۔
’’اُٹھیے مرشد۔‘‘ الیاس خان نے کہا۔
’’میں واپس جانا چاہتا ہوں ماموں ریاض مل جائیں تو بعد میں مجھے ان سے ملا دینا۔‘‘ میں نے اُٹھتے ہوئے کہا۔
’’ارے کہاں میاں خان۔ مہمان آتے اپنی مرضی سے ہیں جاتے میزبان کی مرضی سے ہیں۔ ابے تم لوگ آنکھیں پھاڑ رہے ہو، لے چلو انہیں اندر۔‘‘ اس بار نواب دلبر کا لہجہ سخت تھا، وہ کھڑے ہوگئے۔ الیاس خان کے انداز میں جھجھک نظر آ رہی تھی اس نے کہا۔
’’چلیے مرشد۔‘‘
’’گویا تم لوگ میرے ساتھ سختی پر آمادہ ہو۔‘‘
’’اماں ہم سے بات کرو خان، ہمارا نام ہے دلبر، چھری کا کھیل کھیلتے ہیں اور پکے دوزخی ہیں۔ جنت تو ہمیں ملنے کی نہیں ہے گناہ ہی اتنے کیے ہیں۔ تم جانو ہو ایک قتل کی سزا بھی موت ہے اور دس قتل کی بھی، سمجھ گئے ہوگے۔ سو پچاس گناہ اور کریں گے سو بھی دوزخ میں جائیں گے۔ یہ بے چارے کچے ہیں تم سے ڈر رہے ہیں، اُٹھو اور اندر چلو ورنہ چھری بھونک دیں گے اور انتڑیاں نکال کر الگنی پر لٹکا دیں گے۔‘‘ اس نے نیفے سے چھری نکال لی۔ مجھے اُٹھنا پڑا تھا۔ میں نے گہری سانس لے کر کہا۔
’’ٹھیک ہے الیاس خان۔‘‘
’’آپ کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہوگی مرشد ،بلکہ ہم تو آپ کو آسمان پر بٹھا دیں گے۔ خلقت آپ کے پائوں چومے گی۔ آپ دیکھیں تو سہی۔ نواب صاحب آپ سے کچھ باتیں کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ الیاس خان بولا۔
’’اور تم ہمیں دھوکا دے کر یہاں مجرموں کے درمیان لے آئے۔ خیر حساب ہو جائے گا بعد میں۔‘‘ اُٹھ کر ان لوگوں کے ساتھ اندر آ گیا باہر سے بُرے حال نظر آنے والی یہ عمارت اندر سے بہت بہتر تھی۔ مجھے کافی اندر ایک کمرے میں لایا گیا یہاں خوب روشنی تھی، کچھ قدیم فرنیچر بھی پڑا ہوا تھا۔ نواب دلبر نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا پھر خود بھی میرے سامنے بیٹھ گیا۔
’’ہاں میاں خاں، کہانی یہ ہے کہ یہ الیاس خان دلی گیا، واپس آیا تو سونے کے ڈھیر لایا تھا۔ ہم لوگ پرانے ساتھی ہیں، کبھی اچھے خاندانوں کے تھے مگر وہ پرانی بات ہے۔ وقت نے جو دکھائی دیکھنی پڑی اور جو کرایا کرنا پڑا، اب تو ماضی کی ساری باتیں بھول گئے ہیں، جہاں سے جو کچھ مل جائے ہے سارے مل کر کام چلا لیویں ہیں۔ سو جب الیاس خان گنیّوں کے توڑے لے کر آیا تو سیدھا ہمارے پاس پہنچا، دوستوں میں یہ معاہدہ ہے مگر اس نے کہانی بڑی عجیب سنائی۔ ہمیں تو خیر ایسی باتوں پر یقین نہیں آتا مگر یہ سب لگو ہوگئے کہ ایسے میاں صاحب مل جائیں تو پانچوں گھی میں اور سر کڑھائی میں۔ ہم بھی چپ ہوگئے کہ چلو تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو مگر یہ تمہیں پکڑ ہی لایا بھائی جی، پہلے تو یہ
تم ہو کون۔ تم نے ہمیں شکتی پور میں دیکھا تھا؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔
’’کہاں؟‘‘
’’شکنتا نامی طوائف کے کوٹھے پر۔‘‘
’’تم وہاں کیا کر رہے تھے؟‘‘
’’کچھ کر رہا تھا تمہیں بتانا ضروری نہیں ہے۔‘‘
’’یہی تو کانٹے کی بات ہے، یہیں سے تو پول کھلتی ہے، ایسے شوقین درویش کہاں ملتے ہیں۔ چلو مان لیا مگر وہ گنّیاں کہاں سے آئیں، کیا سچی مچی تم نے وہ خزانہ بتایا تھا؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’تب تو پیارے اور بھی خزانے معلوم ہوں گے تمہیں؟ کیوں؟‘‘
’’کچھ نہیں معلوم مجھے۔‘‘
’’وہ کیسے معلوم ہوگیا جو الیاس خان کو دیا تھا۔‘‘
’’تمہیں بتانا ضروری نہیں ہے۔‘‘
’’گویا شرافت سے کام نہیں نکلے گا، تمہاری مرضی ہے میاں خاں۔ آئو ہم تمہیں اپنا خزانہ دکھائیں۔ لے کر آئو مرشد کو۔‘‘ نواب دلبر نے کہا۔
’’میری جدوجہد بیکار تھی، اندازہ ہوگیا تھا کہ ایک بار پھر دلدل میں پھنس گیا ہوں۔ جو کیا ہے اس کا خمیازہ شروع ہوگیا ہے۔ اب نقصانات کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ جانا پڑا۔ بڑی پُراسرار حویلی تھی۔ کمرے در کمرے سب کے سب ویران پڑے تھے۔ ایک کمرے میں قید خانے کا دروازہ تھا۔ یہ دروازہ ایک الماری کے پیچھے تھا جسے دو آدمیوں نے پوری قوت سے سرکایا تھا، تب وہ دروازہ نمودار ہوا تھا، الماری سرکانے سے جو جگہ پیدا ہوئی تھی اس میں کواڑ کھلا تھا اور گہری تاریکی تھی، رحمت یار خان نے میرا ہاتھ پکڑا، الیاس خان نے ماچس نکال کر تیلی جلائی اور مجھے وہ زینہ نظر آ گیا جو نیچے جاتا تھا۔ بارہ سیڑھیاں تھیں، اس کے بعد کوئی لامحدود جگہ جو تاریک پڑی تھی۔ نواب دلبر پہلے ہی نیچے اُتر گیا تھا۔ پھر اس نے ایک شمعدان میں لگی لمبی لمبی شمعیں روشن کر دیں۔ شمع دان ایک بلند اسٹینڈ پر رکھا ہوا تھا جس کی وجہ سے روشنی پھیل گئی تھی۔ یہاں ایک بیڈ پڑا ہوا تھا اور بید کی کچھ آرام کرسیاں پڑی ہوئی تھیں مگر یہ تہہ خانہ وسیع لگتا تھا۔ روشنی بہت دُور تک نہیں جا رہی تھی۔‘‘
’’بٹھا دو انہیں!‘‘ دلبر نے کہا اور مجھے ایک کرسی پر بٹھا دیا گیا، دُوسرے لوگ بھی بیٹھ گئے۔ ’’تو میاں مرشد۔ اصل بات تو تم ہی جانو ہو بیرا۔ ہم سے جو کچھ کہا گیا ہے ہمیں تو وہی معلوم ہوگا!‘‘
’’تم اچھا نہیں کر رہے نواب دلبر۔‘‘
’’زندگی بھر نہیں کیا اب کیا کریں گے۔ مگر تم نیکی کرلو!‘‘
’’کیا چاہتے ہو؟‘‘
’’خزانہ۔ خزانے۔ سٹّے کے نمبر۔ ڈربی کی ریس میں انعام۔ سترہ تاریخ کو بمبئی میں ڈربی ہو رہی ہے۔ گھوڑوں کے نمبر بتائو۔ سٹّے کے دو چار نمبر بتا دو۔ کوئی خزانہ دبا پایا ہو تو وہ بتا دو۔ ہماری ضرورت پوری ہو جائے تو ہم تمہیں چھوڑ دیں گے۔‘‘
’’منشی ریاض کہاں ہیں؟‘‘
’’ان سے بھی ملا دیں گے۔‘‘
’’مجھے ان سے ملا دو۔‘‘
’’ہمارا کام ہونے کے بعد۔‘‘
’’تمہارا کوئی کام میرے لیے ممکن نہیں ہے۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’بس وہ خزانہ مجھے زمین میں دفن نظر آ گیا تھا، میں نے الیاس خان کو بتا دیا۔‘‘
’’زمین میں خزانوں کی کیا کمی ہے۔ تمہیں سیر کرا دیں گے چندا۔ یہاں بڑے بڑے راجوں مہاراجوں کے محل دو محلوں کے کھنڈر بکھرے پڑے ہیں۔ کہیں تو کچھ ملے گا۔ ویسے چندا یہ تو تمہیں کرنا ہی ہوگا۔ ہم بڑے سر پھرے ہیں، زمین میں چھپے خزانے دیکھ سکتے ہو تو اس تہہ خانے کے فرش کے نیچے بھی جھانک لینا، چار بندوں کی ہڈیوں کے ڈھانچے نظر آ جائیں گے تمہیں۔ ان سے لگی ہوئی تھی ہماری۔ گلا دبا کر یہیں قبرستان بنا دیا سسروں کا۔ پوچھ لینا ان سے ساری رام کہانی سنا دیں گے تمہیں۔ پانچویں تم ہو گے ہماری نہ مانی تو ویسے بھی تم اللہ والے ہو یہاں دفن ہوگئے تو برکت رہے گی کیا سمجھے؟‘‘
’’ٹھیک ہے جو تمہارا دل چاہے کرو!‘‘
’’مذاق سمجھ رہے ہیں میاں صاحب ہماری بات کو۔ چلو تھوڑا سا آرام کرنے دو۔ دو تین دن کے بعد دیکھیں گے۔‘‘
’’نہیں نواب دلبر، ایسے کہیں کام ہوتا ہے۔‘‘ الیاس خان بولا۔
’’ابے رحمت یار۔ فرید خاں۔ یہ الیاس خان کچھ زیادہ نہیں بولنے لگا ہے، کئی دفعہ دیکھ چکا ہوں۔ میاں چار گنّیوں پر اکڑ رہے ہو تو حساب کتاب کرلو۔ لاکھوں خرچ کر چکا ہوں تم پر۔ تمہیں جو کرنا تھا وہ تم کر چکے اب ہمیں اپنا کام کرنے دو۔ آئو۔‘‘ نواب دلبر نے سخت لہجے میں کہا اور اس بار الیاس خان کچھ نہ بولا۔ وہ سب سیڑھیاں عبور کر کے باہر نکل گئے اور دروازہ بند ہوگیا۔
میرے بدن میں ٹھنڈی لہریں پیدا ہو رہی تھیں۔ دماغ پر ایک عجیب سا سکوت چھایا ہوا تھا، جو کچھ ہوا تھا وہ ہونا چاہیے تھا، بلکہ یہ تو کم ہے اس سے زیادہ ہونا چاہیے تھا۔ پھل چکھنے کے دور سے گزر رہا تھا، پھل کھانے کی اجازت ملی تھی مگر میں نے باغ لٹانے شروع کر دیے تھے۔ مجھے اس کا حق کہاں پہنچتا تھا۔ اس غلطی کا احساس تو پہلے ہی ہو چکا تھا نہ جانے کیوں میں نے یہ سوچ لیا تھا کہ اب میرا کوئی محاسب نہیں ہے، یہی غلطی کی تھی۔ اب؟ کچھ ذہن میں نہیں تھا، کچھ بھی نہیں تھا۔ دیر تک بیٹھا سوچتا رہا۔ شمعیں روشن تھیں ان کی لو لرز رہی تھی، ماحول بڑا ہولناک ہو گیا تھا۔ آہ۔ الفاظ نہیں تھے میرے پاس۔ اب تو معافی بھی نہیں مانگ سکتا تھا۔ فرش پر لیٹ جانے کو جی چاہا اور میں نے اس پر عمل کر ڈالا۔ تھک گیا تھا، شدید تھکن کا احساس ہو رہا تھا۔ دماغ کو خالی کر دیا تھا میں نے اس عالم میں، کافی دیر گزر گئی۔ شمعیں آنکھوں کے سامنے تھیں پلکوں پر پیلی روشنی پڑ رہی تھی۔ مگر اتنی ہمت نہیں تھی کہ اُٹھ کر شمعیں بجھا دیتا، جیتا جاگتا انسان تھا، اندھیرے سے ڈرتا تھا۔ پھر اپنی جگہ سے اُٹھا، شمع دان اُٹھایا اور اس وسیع تہہ خانے کے دُوسرے گوشے دیکھنے لگا۔ بہت بڑے حصے میں تھا، خالی پڑا ہوا تھا سوائے ان چند چیزوں کے فرش جگہ جگہ سے کھدا ہوا تھا اور چار ایسے نشانات صاف مل گئے تھے جن سے نواب دلبر کے بیان کی تصدیق ہوتی تھی۔ یعنی اس نے چار انسانوں کو ہلاک کر کے یہاں دفن کر دیا تھا۔ مگر میں اس سے خوفزدہ نہیں تھا، وہ کیا اور اس کی اوقات کیا، میں تو خود سے ڈر رہا تھا جو کیا تھا اس سے دہشت زدہ تھا۔
بہت وقت گزر گیا کوئی آواز نہیں تھی۔ احتیاطاً چند شمعیں بجھا دی تھیں، بس ایک روشن رہنے دی تھی۔ زیادہ وقت گزارنا پڑا تو تاریکی میں رہنا پڑے گا۔ نواب دلبر تو کئی دن کی بات کر گیا تھا۔ شاید رات ہوگئی۔ تہہ خانے میں اس کا تعین تو نہیں کیا جا سکتا تھا بس وقت سے اندازہ ہو رہا تھا۔ تھکن سے نڈھال ہو رہا تھا، فرش سے اُٹھ کر بیڈ پر جا لیٹا بستر سے بدبو اُٹھ رہی تھی، مگر اس پر پڑا رہا۔ پھر اچانک سرسراہٹیں سنائی دیں اور میں اُچھل کر اُٹھ بیٹھا۔ نگاہیں دروازے پر ہی تھیں مگر کوئی تحریک نہیں ہوئی۔ آوازیں پھر سنائی دیں۔ سمت کا بھی اندازہ ہوگیا پھرتی سے پلٹا اور تاریکی کی عادی آنکھوں نے اس انسانی سائے کو دیکھ لیا جو ایک گوشے میں نظر آ رہا تھا، میں ششدر رہ گیا۔ یہ کون ہے اور کہاں سے آیا۔ دروازہ تو بند ہے۔ ہمت کر کے آواز دی۔ ’’کون ہے؟‘‘
’’ہم ہیں۔‘‘ جواب ملا۔
’’کون؟‘‘
’’ارے ہم اور کون تمہارے پاس ہمارا ایک کمبل ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘ میرے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوئے۔
’’ریل میں تھے تم۔ ہمارا کمبل لے گئے تھے۔ واپس نہیں دیا تم نے۔‘‘ یہ وہی آواز تھی جس نے کہا تھا۔ ’’آرام بڑی چیز ہے منہ ڈھک کر سویئے اور اس کے بعد کمبل میرے چہرے پر ڈھک دیا تھا۔ کمبل ہٹا تو میں دہلی میں تھا۔ وہی آواز تھی مگر کمبل۔ واقعی میں دیوانہ ہوگیا تھا، اپنی لگی میں سب کچھ بھول گیا تھا، کمبل میں الیاس خان کے گھر پر ہی چھوڑ آیا تھا اور وہ کمبل۔ وہ تو میری رہنمائی کرتا تھا اسے میں نے ہر لمحہ ساتھ رکھا تھا، اس سے مجھے ہمیشہ مدد حاصل ہوئی تھی اس نایاب چیز کو میں اس طرح چھوڑ آیا تھا۔‘‘
’’ہمارا کمبل واپس دو گے بھائی۔ ہمیں ضرورت ہے۔‘‘
’’اس وقت وہ میرے پاس نہیں ہے۔‘‘
’’کہاں گیا؟‘‘
’’میں اسے وہاں بھول آیا ہوں جہاں میں تھا۔‘‘
’’تم ایک اچھے امانت دار نہیں ہو بھائی، ارے واہ ہمارا کمبل ہی کھو بیٹھے۔ یہ کوئی بات ہوئی۔‘‘
’’معافی کا کوئی راستہ ہے میرے لیے، جو غلطی ہوگئی ہے اس کا ازالہ ہو سکتا ہے کسی طرح؟‘‘ میں نے سرد لہجے میں پوچھا۔
’’راستے مشکل سے ملتے ہیں۔ نظر آ جائیں تو یاد رکھنا ضروری ہوتا ہے، بھول بھلیّاں ہیں سب بھول بھلیّاں ہیں۔ سورج تو بڑا روشن ہے ایک دھبّے کو سورج سمجھ لینا دانشمندی تو نہیں ہے، جو دانشمند نہیں وہ کچھ نہیں ہے۔‘‘
’’معافی کا کوئی راستہ ہے میرے لیے۔‘‘ میں چیخ کر بولا۔
’’ارے ہمیں کیا معلوم، ہم پر کیوں بگڑ رہے ہو، ایک تو ہمارا کمبل کھو دیا اُوپر سے بگڑ رہے ہو۔‘‘
’’دیکھو، انسان ہوں، گوشت پوست کا بنا ہوا انسان ہوں، بہت تھک گیا ہوں، بھٹک جائوں گا، مجھے سہارا دو۔ مجھے سہارا چاہیے ورنہ راستہ بھول جائوں گا۔‘‘
’’ہمیں کچھ نہیں معلوم ہمارا کمبل دے دو۔‘‘
’’سہارا چاہیے مجھے سہارا چاہیے مجھے سہارا دو۔‘‘
’’سہارا دینے کا کام ہمارا نہیں ہمارے بھائی کا ہے۔‘‘ انسانی ہیولا غائب ہوگیا۔ مجھ پر دیوانگی سوار ہوگئی تھی، جنون طاری ہوگیا تھا، میں چیختا رہا مگر اب میری آواز سننے والا کوئی نہیں تھا۔ پھر میں خاموش ہوگیا۔ دماغ بند بند سا ہوگیا تھا۔ میں نے تند نظروں سے چاروں طر ف دیکھا، آگے بڑھا، اکلوتی شمع سے ساری شمعیں روشن کر دیں۔ تبھی میری نظر شمع دان کے اسٹینڈ پر پڑی۔ وزنی فولاد کا بنا ہوا تھا، کوئی تین فٹ لمبا اور ٹھوس شمع دان اس پر سے اُتار کر میں نے ایک طرف پھینک دیا۔ وزنی اسٹینڈ اُٹھا کر میں دروازے کی طرف بڑھا۔ نیچے گری ہوئی شمعیں روشن تھیں اور مجھے دروازہ نظر آ رہا تھا۔ آخری سیڑھی پر کھڑے ہو کر میں نے اسٹینڈ ہاتھوں میں تولا اور پھر پوری قوت سے اسے دروازے پر مارا۔ لکڑی تڑخنے کی آواز سنائی دی اور دروازے میں سوراخ ہوگیا۔ میرے ہاتھ مشینی انداز میں چلتے رہے اور تہہ خانہ میں دھماکے گونجتے رہے۔ میں نے دروازے کے پرخچے اُڑا دیے تھے جب اس کے دونوں کواڑ ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے تو میں نے اس اسٹینڈ سے الماری پر وار شروع کر دیے، الماری ٹوٹ تو نہیں سکی مگر کھسک ضرور گئی۔ تھوڑی سی جگہ بنی تو میں نے اس میں ہاتھ ڈال کر اسے مزید سرکایا اور اتنی جگہ بنا لی کہ باہر نکل آئوں
اور میں باہر نکل آیا۔ اتنے زوردار دھماکے ہوئے تھے، اتنی آوازیں ہوئی تھیں مگر کوئی متوجہ نہیں ہوا تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ کوئی موجود نہیں ہے، اچھا ہی تھا ورنہ۔ نہ جانے میری دیوانگی کہاں تک جاتی۔ راستہ تلاش کرتا باہر نکل آیا، آسمان پر چاند چمک رہا تھا۔ خاموش چاندنی تا حدِ نگاہ بکھری ہوئی تھی۔ لوہے کا اسٹینڈ پھینک دیا، دماغ تاریک ہو رہا تھا، اس عمارت سے باہر نکل آیا اور آگے بڑھ گیا۔ چلتا رہا بے مقصد۔ کوئی منزل نہیں تھی۔ نہ جانے کونسی قوت سیدھے راستے پر لے آئی، چونک کر دیکھا تو الیاس خان کے مکان پر کھڑا تھا، یقین نہیں آیا، کسی راستے کا تعین نہیں تھا، نہ جانے یہاں تک کیسے پہنچا تھا، اگر حواس کے عالم میں ہوتا تو راستہ تلاش کرنا ناممکن تھا۔ لیکن بے حواسی رہنما بن گئی تھی اب کیا کروں۔ اس مکان سے میرا کیا واسطہ ہے۔ مجھے اب دوبارہ یہاں نہیں آنا چاہیے مگر یہاں میرا کمبل تھا۔ دُوسرا سامان تھا اور پھر الیاس خان۔ آہ کچھ بھی ہو جائے الیاس خان ہی مجھے ماموں ریاض کے پاس پہنچا سکتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو وہ میرا بدترین دُشمن ہے۔ اس کی وجہ سے مجھے راندئہ درگاہ ہونا پڑا ہے۔ وہ بھی ان کا شریک کار ہے اس نے بدعہدی کی ہے مجھ سے۔ حالانکہ رات بہت ہوگئی تھی مگر دستک دینا پڑی۔ دُوسری دستک پر دروازہ کھل گیا۔ جمال احمد خاں صاحب تھے چونک کر بولے۔
’’ارے بیٹے آپ۔ آ جائو۔ الیاس کہاں ہے؟‘‘
’’گھر نہیں آئے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’نہیں۔‘‘
’’صبح ہی کے گئے ہوئے ہیں؟‘‘
’’ہاں آپ کے ساتھ ہی گیا تھا۔‘‘
’’وہ اپنے دوستوں کے ساتھ تھے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’ہاں۔ دوستوں نے تو اسے تباہ کیا ہے۔ آئو میاں اندر آئو۔ آرام کرو اس کا کیا انتظار کرنا۔‘‘ میں اندر داخل ہوگیا، مجھے بہرحال اس کا انتظار کرنا تھا۔ ’’کسی چیز کی ضرورت ہو بیٹے تو بتا دو۔‘‘
’’نہیں بے حد شکریہ۔‘‘ میں نے کہا اور وہ چلے گئے۔ میں اس کمرے میں داخل ہوگیا جو میری آرام گاہ تھا۔ سب سے پہلے میں اپنے سامان کی طرف لپکا۔ مجھے کمبل کی تلاش تھی۔ مگر کمبل موجود نہیں تھا۔ سارا سامان اسی طرح موجود تھا سوائے کمبل کے۔ کمبل کہاں گیا۔ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کمبل کسی نے غائب کر دیا ہوگا کوئی اور ہی معاملہ تھا۔ اس وقت پوچھ گچھ بھی نہیں کر سکتا تھا بہرحال صبح ہونے کا انتظار کرنا تھا۔ نیند کا تو اب تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ جاگتا رہا، سوچتا رہا۔ رات شاید آخری پہر میں داخل ہوگئی تھی۔ دروازے پر ہولے ہولے دستک ہوئی اور میں اُچھل پڑا۔ الیاس خان۔ میرے ذہن میں گونجا۔ اندر سے سارا وجود کھول اُٹھا۔ آنکھوں سے شرارے اُبل پڑے۔ میں جلدی سے اُٹھ کھڑا ہوا، کہیں اندر اس دستک کو نہ سن لیا جائے، اس سے پہلے ہی الیاس خان کو چھاپ لینا ضروری تھا۔ برق رفتاری سے ننگے پائوں باہر نکلا دروازے پر پہنچ گیا، آہستہ سے زنجیر کھولی وہی تھا۔ اس نے اندر قدم رکھا تو میں اس پر ٹوٹ پڑا۔ ایک ہاتھ اس کی گردن میں ڈالا دوسرے سے منہ بھینچ لیا تاکہ وہ چیخ نہ سکے اور اس طرح دبوچے ہوئے اسے اپنے کمرے میں لے آیا۔ الیاس خان کچھ نہ سمجھ سکا تھا، میں نے اسے فرش پر لا پٹخا۔ پوری زندگی میں مجھ پر یہ کیفیت کبھی طاری نہیں ہوئی تھی جو اس وقت محسوس ہو رہی تھی۔ آنکھوں میں خون اُترا ہوا تھا۔ الیاس خان نے پلکیں پٹپٹا کر مجھے دیکھا اوراس کے چہرے پر خوف کے آثار پھیل گئے۔
’’تم۔‘‘ اس کے منہ سے سرسراہٹ نکلی۔
’’ہاں الیاس خان۔ تمہیں گمان بھی نہیں ہوگا کہ میں تمہارے قید خانے سے نکل آئوں گا‘‘
’’نہیں مجھے یقین تھا۔‘‘ وہ بولا۔ اور پھر سہارا لے کر اُٹھ کر بیٹھ گیا۔
’’میں نے ان لوگوں سے بھی کہہ دیا تھا۔‘‘
’’تم نے میرا برسوں کا مجاہدہ ختم کر دیا الیاس خان۔ صرف تم ہو جس نے مجھ سے بہت کچھ چھین لیا۔ نہ جانے کیا کیا جتن کئے تھے میں نے، نہ جانے کیا کیا مگر تم نے الیاس خان۔ تم نے!‘‘
’’کچھ کہنا چاہتا ہوں سن لو گے؟‘‘ وہ بولا اور میں اسے گھورتا رہا۔ ’’صدیوں کے بعد جاگا ہوں۔ برسوں کے بعد آنکھ کھلی ہے، بے ہوش تھا یا سو گیا تھا تمہاری وجہ سے آنکھ کھلی ہے۔ ایک اور بات بھی سن لو۔ سزا چاہتا ہوں، ہر قیمت پر سزا چاہتا ہوں۔ بدترین سزا بہتر ہے وہ موت ہو۔ تمہارا احسان ہوگا اتنا کچھ کھو چکا ہوں کہ ہوش میں آنے کے بعد جینا مشکل ہوگا۔ بے حد مشکل۔ تمہیں بہلا نہیں رہا یہ سب کچھ کہہ کر رعایت نہیں مانگ رہا بلکہ کچھ سن لو۔ ایک تھکا ہوا بے بس انسان ہوں۔ میرا اختتام ہو چکا ہے۔ آخری باتیں کہہ رہا ہوں تم سے۔ وہ لوگ تمہیں نہیں جانتے مگر میں جانتا ہوں۔ نواب دلبر نے جو کچھ کیا وہ اس کا قدم تھا مجھے اس کی خبر نہیں تھی جو کچھ ہوا مجھے اس کا اندازہ نہیں تھا مگر میں نے ان سے کہہ دیا تھا کہ وہ ہوا کو قید نہیں کر سکتے۔ یہ ان کی بھول ہے۔‘‘
’’میں فضول کہانیاں نہیں سننا چاہتا الیاس خان۔‘‘
’’سن لو۔ خدا کے لیے سن لو۔ اس کے بعد میں مر جانا چاہتاہوں، تم نے مجھے چھوڑ بھی دیا تو میں خودکشی کر لوں گا، دل اُکتا گیا ایک دم سے۔ دُنیا بہت بُری ہے، میرے تصور سے بھی زیادہ بُری۔ میں خود بھی اتنا ہی برا ہوں۔ ایک بُرے انسان سے دُنیا کو چھٹکارا دلانا چاہتا ہوں۔‘‘
میں الیاس خان کو گھورنے لگا، اس کا لہجہ عجیب تھا جیسے۔ جیسے وہ سچ بول رہا ہو، جیسے وہ فریب نہ کر رہا ہو وہ کہنے لگا۔
’’جتنی برائیوں کا تصور کیا جا سکتا ہے وہ مجھ میںموجود ہیں۔ بوڑھا باپ ہے جوان بہن ہے مگر میں نے کبھی ان کے بارے میں نہیں سوچا۔ اپنے تعیشات میں مگن رہا۔ میرے گھر والے فاقے کرتے رہے اور میں اعلیٰ درجے کے کھانے کھاتا رہا۔ میری بہن کے پا س دو جوڑے کپڑے بھی نہ تھے اور میں طوائفوں کو تحفوں سے خوش کرتا رہا، یہ سب کچھ کیا ہے میں نے۔ آج تک یہی کیا ہے مگر نہ جانے کیسے ہوش آ گیا نہ جانے کیسے۔‘‘
’’الیاس خان۔ میں کچھ نہیں سننا چاہتا۔‘‘ میں نے غرا کر کہا اور اس نے ہاتھ جوڑ دیئے۔ وہ سسک کر روتے ہوئے بولا۔
’’خدا کے لیے مسعود صاحب، خدا کے لیے آپ کو اللہ نے بڑا بنایا ہے، میری سن لیجیے دل ہلکا کرنا چاہتا ہوں، بڑا بوجھ ہے سینے پر۔ آپ کے ساتھ جو کچھ ہوا مجھے اس کا اندازہ نہیں تھا۔ نواب دلبر ہم پر حاوی ہے۔ حالانکہ ہم بچپن کے دوست ہیں۔ وہ بگڑا ہوا رئیس ہے۔ پہلے اس کے پاس بہت کچھ تھا مگر عیاشیوں میں گنوا بیٹھا، ہم تینوں ہمیشہ سے اس کے شریک تھے جب اس کے اپنے پاس سب کچھ ختم ہوگیا تو ہم چھوٹے موٹے جرائم کرنے لگے۔ جوا، سٹّہ کھیلنے لگے، ہمیں پیسہ درکار تھا جس کے حصول کے لیے سب کوششیں کرتے تھے، ہر وہ جگہ تلاش کرتے تھے جہاں سے کچھ ہاتھ لگ جائے۔ سب یہی کرتے تھے میں اکیلا نہیں تھا۔ میں نے اپنے گھر میں چوری کی، ماں باپ کو رُلایا، میں رشتے داروں سے قرض لیتا رہا جسے میرے والد ادا کرتے رہے، بے چارے شیخ عبدالقدوس صاحب سے بھی میں نے بہت کچھ لیا۔ وہ مجھے صرف اس لیے یہ رقم دیتے رہے کہ میں ان کی بیٹی کا سسرالی رشتے دار تھا۔ ہم سب جو بھی حاصل کرتے اسے یکجا ہو کر خرچ کرتے تھے، یہی وجہ تھی کہ آپ نے مجھے جو قیمتی خزانہ دیا وہ میں نے لا کر ان کے سامنے رکھ دیا۔ وہ دنگ رہ گئے۔ پھر میں نے انہیں آپ کے بارے میں بتایا مرشد۔ اور وہ بضد ہوگئے کہ آپ کو لینے دلی چلا جائے، میں نے انہیں منشی ریاض کے بارے میں بتایا اور یقین دلایا کہ آپ منشی ریاض سے ملنے ضرور آئیں گے۔ اس دن سے سب آپ کا انتظار کر رہے تھے مگر میں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ وہ آپ کے ساتھ یہ سلوک کرے گا۔ اس نے آپ کو قید کر دیا اور اس وقت میرے ضمیر پر ضرب پڑی۔ مجھے احساس ہوا کہ خدا کے ایک برگزیدہ بندے کے ساتھ یہ سلوک میری وجہ سے ہوا۔ بعد میں، میں ان سے لڑ گیا، میں نے کہا کہ انہوں نے غلطی کی ہے، اچھا خاصا جھگڑا ہوگیا ہمارا اور میری آنکھیں اچانک کھل گئیں۔ میں اسی احساس میں ڈوبا ہوا اس وقت گھر میں داخل ہوا تھا۔ راستے بھر میں یہ سوچتا رہا تھا کہ اب کیا کروں، کچھ کرنا تو میرے بس میں نہیں ہے مگر خودکشی تو کر سکتا ہوں۔‘‘
میں خاموشی سے اس کی کہانی سنتا رہا۔ سچ بول رہا ہے یا جھوٹ یہ تو اللہ جانے مگر اب میں اس کا کیا کروں۔ اب میں اس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ کیا کر سکتا ہوں۔ غصّہ اُتر گیا تھا میں نے اسے اُٹھا کر بٹھا دیا۔
’’میں نے تمہارے ساتھ نیکی کی تھی الیاس خان مگر تم نے!‘‘
(جاری ہے)