’’مجھے احساس ہے مسعود صاحب۔‘‘
’’اگر دل میں واقعی سچائیاں اُتر آئی ہیں تو کچھ کہنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’فرمایئے۔‘‘
’’تم خودکشی کر لو۔ اس الیاس خان کو ختم کرو جو بُرا انسان تھا۔ اسے فنا کر دو ایک باپ کا سہارا بن جائو۔ ایک جوان بہن کے محافظ بن جائو۔ محنت مزدوری کر کے اس بُرے انسان کی برائیوں کا کفارہ ادا کرو۔ خود کو مٹا کر ایک اور گناہ نہ کرو۔ اس بوڑھے شخص کو جوان بیٹے کی موت کا داغ نہ دو، جو بے کس ہے بلکہ اس کے ناتواں بدن کو اپنے طاقتور جسم کا سہارا دو۔ ہو سکتا ہے اللہ تمہارے گناہ معاف کر دے۔‘‘
وہ گردن جھکائے آنسو بہاتا رہا، یہ آنسو مکر کے آنسو نہیں تھے، میں نے کچھ سوچ کر کہا۔ ’’اب وہ لوگ کہاں ہیں؟‘‘
’’اسی عمارت میں گئے ہیں۔‘‘
’’تم اب تک انہی کے ساتھ تھے؟‘‘
’’ہاں ان سے قطع تعلق کر کے آیا ہوں۔‘‘
’’وہ یہ تو نہ سوچیں گے کہ تم نے مجھے وہاں سے نکالا ہے؟‘‘
’’نہیں میں تو اسی وقت سے ان کے ساتھ تھا مگر میں نے دعویٰ کیا تھا کہ آپ وہاں قید نہیں رہ سکیں گے، نواب دلبر ہنسنے لگا تھا۔ وہ مجھے بھی وہیں لے جا رہا تھا مگر میں واپس آ گیا۔‘‘
’’نواب دلبر تمہارے لیے خطرہ تو نہیں بن جائے گا؟‘‘
’’اس میں میرے مقابل آنے کی ہمت نہیں ہے مرشد۔‘‘
’’تو پھر میری ہدایت کے متعلق کیا خیال ہے۔‘‘
’’مرشد۔ میں آپ کا مجرم ہوں۔‘‘
’’تو اسے میری طرف سے سزا سمجھ کر قبول کر لو!‘‘
’’آپ کا دل صاف ہو جائے گا میری طرف سے؟‘‘
’’ہاں مگر بعد میں تم مجھ سے سٹّے کا نمبر مت مانگ بیٹھنا۔‘‘ میں نے کہا۔
’’نہیں مرشد۔ حرام کا پیسہ اب میرے لیے حرام ہے۔ میں محنت کی کمائی کر کے اپنے ماں باپ کو کھلائوں گا۔ آپ سے وعدہ کرتا ہوں مرشد جو کر چکا ہوں وہ اب نہیں کروں گا۔ مرشد میرے حق میں دُعا کریں۔ اللہ مجھے زندگی دے تو اب اسے میرے گناہوں کے کفارے کے لیے وقف کر دے پھر سے، گناہوں کی دلدل میں پھنسوں تو مجھے موت دے دے۔‘‘ اس کے الفاظ سچائی کا اظہار کر رہے تھے میں نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’اب کچھ اور پوچھوں تم سے الیاس خان۔‘‘
’’پوچھیں مرشد۔‘‘
’’منشی ریاض سے واقعی ملے تھے؟‘‘
’’ہاں۔ وہ میں نے جھوٹ نہیں کہا تھا۔‘‘
’’ان سے میرا تذکرہ کیا تھا۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’اور ان پر وہی ردعمل ہوا تھا جو تم نے بتایا تھا۔‘‘
’’بالکل وہی۔‘‘
’’وہ فرید خاں کے پاس کام کرتے ہیں۔‘‘
’’بالکل یہی بات ہے۔‘‘
’’مجھے ان سے ملا سکتے ہو۔‘‘
’’آپ اسے میری ذمّہ داری پر چھوڑ دیں مسعود صاحب، میں کل ہی انہیں یہاں لے آئوں گا۔‘‘
’’وہ فرید خاں کے پاس رہتے ہیں؟‘‘
’’نہیں اس کے ساتھ نہیں رہتے۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’ان کا کوئی اور گھر ہے۔ شام کو چھٹی کر کے چلے جاتے ہیں۔‘‘
’’تم ان کا گھر جانتے ہو؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’کل مجھے وہاں پہنچا سکتے ہو جہاں وہ کام کرتے ہیں۔‘‘
’’فرید خاں کے گھر پر رہتے ہیں وہ۔‘‘
’’وہیں سہی۔‘‘
’’مرشد۔ فرید خاں کے گھر پر ان سے ملنا دُرست نہیں ہوگا۔ ان لوگوں کو آپ کے نکل آنے کا پتا چل چکا ہوگا۔ وہ پاگلوں کی طرح آپ کو تلاش کریں گے اس بارے میں بات ہوئی تھی۔‘‘
’’کیا…؟‘‘ میں نے چونک کر پوچھا۔
’’مرشد، میں نے نواب دلبر کو سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ میں نے کہا تھا کہ کچھ لینے کا طریقہ یہ نہیں ہوتا جو اس نے اختیار کیا ہے۔ اس کے لیے آپ کی خدمت کی جاتی۔ آپ کی محبت حاصل کی جاتی مگر اس نے کام ہی دُوسرا شروع کر دیا۔ میں نے یہ بھی کہا تھا اس سے کہ اس کا وہ قید خانہ مرشد کو نہ روک سکے گا اور وہ اپنی رُوحانی قوتوں سے کام لے کر وہاں سے نکل جائیں گے۔ اس پر فرید خان نے کہا تھا کہ ایسا ہوا تو نواب دلبر کی گردن میں پھانسی کا پھندہ فٹ ہو جائے گا کیونکہ وہ مرشد کو ان چار لاشوں کے بارے میں بتا چکے ہیں جو تہہ خانے میں دفن ہیں اور جنہیں نواب دلبر نے قتل کیا ہے۔‘‘
’’اوہ۔ ہاں۔‘‘ میں چونک پڑا۔
’’نواب دلبر اس بات پر پریشان ہوگیا تھا اسی وجہ سے وہ واپس پرانی گڑھی گیا تھا۔‘‘
’’پرانی گڑھی؟‘‘
’’اسی حویلی کا نام ہے وہ رہتا الگ ہے، پرانی گڑھی اس کے پرکھوں کی ملکیت ہے اور جائداد میں بس وہی باقی رہ گئی ہے، باقی سب وہ ختم کر چکا ہے۔ ان باتوں کے بعد وہ اُٹھ گیا اور اس نے سب سے کہا کہ پرانی گڑھی چلیں، کہیں کچھ ہو ہی نہ جائے، میں اس سے اختلاف کر کے چلا آیا تھا۔‘‘
’’تب تو اس وقت اس کی جان ہی نکلی ہوئی ہوگی۔‘‘
’’یقینا مرشد۔‘‘
’’ہوں تو پھر یوں کرنا الیاس خان کہ تم مجھے دُور سے فرید خاں کا گھر دکھا دینا۔ میں اس وقت منشی ریاض سے ملوں گا جب وہ فرید خاں کے گھر سے نکلیں گے اور اپنے گھر جائیں گے۔‘‘
’’جو حکم مرشد۔‘‘ مگر آپ خود کو محفوظ رکھیں۔
’’اطمینان رکھو۔‘‘ میں نے کہا اور الیاس خان نے گردن جھکا لی۔ میں نے خود ہی کہا۔ ’’اور اب تم جائو آرام کرو۔ اس نئی زندگی پر سب سے پہلی مبارک باد میں تمہیں پیش کرتا ہوں۔‘‘ وہ ایک بار پھر رو پڑا۔ میرے ہاتھ چومے اور باہر نکل گیا۔ مجھے خوشی ہو رہی تھی۔ جمال احمد خاں کا بڑھاپا سنور جائے اس سے زیادہ خوشی کی بات اور کیا ہوگی۔ دیر تک ان کی خوشیوں کا اندازہ لگاتا رہا۔ پھر آہستہ آہستہ اُداسیوں میں ڈوبتا چلا گیا، میری خوشیاں کہاں ہیں مجھے خوشیاں کب ملیں گی مجھ پر یہ نحوستیں کب تک طاری رہیں گی، وہ میری تقدیر کی صبح کب ہوگی۔ الیاس خان نے کہا تھا کہ منشی ریاض، فرید خاں کے ساتھ نہیں رہتے، ان کا کوئی گھر ہے۔ اسی گھر میں مجھے میرے ماں باپ اور بہن نظر آئیں گے۔ آہ! ماموں ریاض انہی کے لیے تو نوکری کر رہے ہوں گے آہ! صبح کب ہوگی کب صبح ہوگی۔
صبح ہوگئی دروازے سے الیاس خان اندر داخل ہوگیا۔ اس کے ہاتھ میں ناشتے کی ٹرے تھی۔ آنکھیں سرخ اور مغموم تھیں۔ میں نے حیرت سے اسے دیکھا۔ ’’جلدی جاگ گئے الیاس خان۔‘‘
’’جی!‘‘ وہ آہستہ سے بولا۔
’’خیریت۔‘‘
’’جی ہاں ناشتہ کر لیجیے۔‘‘
’’آ جائو۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’تم بھی ناشتہ کر لو۔‘‘
’’میں نے چائے پی لی ہے ابھی کچھ نہیں کھائوں گا۔‘‘
’’کب چلو گے۔‘‘
’’بتا دوں گا ابا آ رہے ہیں۔‘‘ وہ بولا۔ اسی وقت جمال خان صاحب اندر آ گئے تھے۔ انہوں نے سرد نگاہوں سے الیاس خان کو دیکھا اور وہ گردن جھکا کر باہر نکل گیا۔
’’ناشتہ کریں میاں۔‘‘ جمال خان صاحب بیٹھتے ہوئے بولے اور میں نے ٹرے سامنے سرکا لی۔ ’’آج یہ کوئی ناٹک کر رہا ہے، ضرور کوئی چکر ہے۔‘‘ وہ پُرخیال انداز میں بولے۔
’’کیا بات ہے؟‘‘
’’صبح میں جاگا تو یہ وضو کر چکا تھا۔ رات کو کسی وقت آیا اور کیسے اندر داخل ہوا پتا نہیں۔ وضو کے بعد باقاعدہ نماز پڑھی پھر ماں کے پاس جا بیٹھا اور انہیں دیکھتا رہا۔‘‘
’’خوب مگر یہ ناٹک کیسے ہوا؟‘‘
’’وہ اور نماز۔ میرے خیال میں تو اسے نماز آتی بھی نہیں، بھائی مجھے تو شبہ ہوگیا اور میں نے فوراً احتیاطی تدابیر کر ڈالیں۔‘‘
’’وہ کیا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’تم نے جو عنایت کی ہے اس نے مجھے جینے کا حوصلہ دیاہے۔ سچ جانو بیٹے! ہمارے ٹوٹے ہوئے دل جڑ گئے ہیں۔ میری اہلیہ نے تو اتنے سجدے کئے ہیں کہ گنے نہ جا سکیں، بیٹی کے چند رشتے ہیں جن پر اس لیے غور نہیں کیا تھا کہ پاس پلے کچھ نہیں تھا، ہاں یا نا کرتے تو کس برتے پر۔ مگر اب اب مجھے شبہ ہوا کہ کہیں اسے پتا نہ چل گیا ہو اس لیے میں نے تمہارے عطیے کو محفوظ کر دیا۔‘‘
’’میرا ناقص علم کچھ اور کہتا ہے محترم بزرگ۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’صبح کا بھولا شام کو واپس آ گیا ہے، ایک گزارش بھی ہے آپ سے۔‘‘
’’کیا بیٹے؟‘‘
’’وہ اگر نیکیوں کی طرف واپس آئے تو اسے سہارا دیں ماضی کو بھول جائیں، اسے طعنہ نہ دیں۔‘‘
’’آہ! مجھے اگر بیٹے کا سہارا مل جائے تو، تو کاش ایسا ہو جائے۔‘‘ جمال احمد خان آبدیدہ ہوگئے۔ بہت دیر تک وہ میرے پاس بیٹھے رہے تھے۔ پھر جب اُٹھنے لگے تو مجھے اچانک کچھ یاد آ گیا۔
’’وہ جمال احمد صاحب یہاں ایک کمبل تھا کسی کی امانت ہے وہ نظر نہیں آیا۔ ذرا چچی جان اور بہن سے پوچھ لیں دُھوپ لگانے کو تو نہیں ڈالا۔‘‘
’’کمبل، اچھا پوچھے لیتا ہوں۔‘‘ کچھ دیر کے بعد وہ واپس آئے اور بولے۔ ’’نہیں میاں کمبل یہاں سے کسی نے نہیں اُٹھایا۔ کہاں گیا، کہاں جا سکتا ہے۔‘‘ وہ پریشانی سے بولے اور دل ہولنے لگا، نہ جانے کمبل کہاں گیا۔ جمال احمد پھر باہر نکل گئے نہ جانے کیسے تفتیش ہوئی مگر کمبل نہیں ملا، وہ پریشان اور شرمندہ تھے اور میں۔‘‘
الیاس خان نے دوپہر کے کھانے کے بعد تیاری کر لی، اس بارے میں میری اس سے بات ہوگئی تھی اور طے ہوگیا تھا کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔ پھر ہم تانگے میں بیٹھ کر چل پڑے۔ کافی فاصلہ طے ہوا تھا اور پھر فرید خان کا مکان آیا تھا، شاندار مکان تھا، فرید خان کھاتے پیتے گھر کا فرد تھا۔ منصوبے کے مطابق الیاس خان مجھے چھوڑ کر فریدخان کے مکان میں چلا گیا، یہاں اس کا آنا جانا تھا اور چونکہ اس کی ابھی ان لوگوں سے باقاعدہ نہیں ٹھنی تھی اس لیے کوئی مشکل بھی نہیں تھی، دس منٹ کے بعد وہ واپس آ گیا۔
’’وہ رات سے غائب ہے واپس نہیں آیا۔ یقیناً وہ پرانی گڑھی میں ہوں گے اور آپ کے نکل جانے سے خوفزدہ ہوں گے۔ خیر منشی ریاض اندر موجود ہیں۔ کام میں لگے ہوئے ہیں پانچ بجے چھٹی کر کے نکلیں گے۔‘‘
’’کچھ کہا تو نہیں تم نے اُن سے۔‘‘
’’بالکل نہیں آپ نے منع کیا تھا۔‘‘
’’ہاں یہ اچھا کیا۔‘‘
’’اب کیا حکم ہے مرشد؟‘‘
’’الیاس خان تم واپس جائو جس نئی زندگی کا تم نے آغاز کیا ہے اسی پر ثابت قدم رہنا ہی ذریعۂ نجات ہے۔ برائی بہت خوبصورت ہوتی ہے مگر اس کی انتہا بے حد بھیانک، اس کے برعکس نیکیوں کا سفر مشکل ترین لیکن منزل نہایت سکون بخش۔‘‘
’’میں آپ کے حکم کی تعمیل کروں گا لیکن مرشد ابھی میں آپ کے پاس رُکنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’مرشد ان سوؤروں کو میں اچھی طرح جانتا ہوں۔ انہوں نے آپ کی تلاش شروع کر دی ہوگی۔ ان کے بہت سے گرگے ہیں وہ انہیں بھی استعمال کریں گے۔‘‘
’’اور تم میری حفاظت کرو گے؟‘‘ میں نے مسکرا کر کہا۔
’’نہیں
مرشد میں تو خود ایک کمزور انسان ہوں۔ لیکن میں ان لوگوں کو جانتا ہوں اگر کوئی نظر آیا تو آپ کو ہوشیار تو کر سکتا ہوں۔‘‘
تمہارا شکریہ الیاس خان میری نصیحت ہے کہ ان لوگوں سے تصادم کی کیفیت نہ اختیار کرنا، اب تم ایک ذمّے دار شخص ہو، تمہارے شانوں پر جوان بہن اور بوڑھے ماں باپ کا بوجھ ہے۔ بہت مشکل ہے تمہارے ماں باپ کو اپنی خوش بختی پر یقین آئے مگر انہیں یقین دلانا تمہارا فرض ہے۔ جائو دوست خدا تمہاری حفاظت کرے
’’آپ مرشد؟‘‘
’’میں آ جائوں گا میری فکر مت کرو!‘‘ بمشکل تمام میں نے اسے روانہ کیا اور جب وہ نظروں سے اوجھل ہوگیا تو فرید خان کے گھر کے دروازے کو دیکھنے لگا، اندر ماموں ریاض موجود تھے۔ میرے ماموں ریاض جنہیں معلوم تھا کہ امی ابا کہاں ہیں۔ آہ! میں انہیں دیکھ سکوں گا ان سے مل سکوں گا۔ میری امی، میرے ابا ، میری بہن دل میں سرور اُتر آیا تھا، میں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ ماموں ریاض کے سامنے نہیں آئوں گا۔ ان کے گھر تک ان کا پیچھا کروں گا اور پھر سب کے سامنے ایک دم جائوں گا، کیا کیفیت ہوگی ان کی۔ کیا ہوگا۔
بدن اینٹھ رہا تھا، اعصاب کشیدہ ہو رہے تھے کہ جانے کتنے عرصے کے بعد پانچ بجے اور پھر، پھر میں نے فرید خان کے گھر کے دروازے سے ماموں ریاض کو نکلتے دیکھا۔ ہاں وہ ماموں ریاض ہی تھے!
کھوئے کھوئے سے، مضمحل مضمحل سے، شیو بڑھا ہوا تھا، ہاتھ میں کپڑے کا بنا ہوا تھیلا تھا جس میں کوئی چیز محسوس ہوتی تھی، لباس بھی بہت معمولی تھا، ان کی پریشان حالی کا صاف احساس ہوتا تھا۔ آہ! نہ جانے کیسی زندگی گزار رہے ہیں یہ لوگ، ظاہر ہے ابو تو کچھ کرنے کے قابل نہ رہے ہوں گے، ان سب کی کفالت کا بوجھ ماموں پر ہو گا، دل بے اختیار ہو رہا تھا، جذبات مچل رہے تھے، خواہش ہو رہی تھی کہ سب کچھ بھول کر دوڑوں اور ان سے لپٹ جائوں، اتنا روئوں کہ عرصہ کے رکے ہوئے سارے آنسو بہہ جائیں لیکن خود کو سنبھالا، احتیاط ضروری ہے، مجھے ماضی کو نہیں بھولنا چاہیے۔
ماموں ریاض کافی دور نکل گئے تھے۔ میں چل پڑا، خیالات کے ہجوم میں گھرا ہوا تھا، سونے کے چند سکے میرے پاس موجود تھے، یہ ان کے کام آئیں گے اس کے بعد، اس کے بعد جس طرح بھی بن پڑا میں ان کے حالات بدل دوں گا آہ… یہ تو میرا فرض ہے، میری تو ابتدا یہیں سے ہونی چاہیے تھی مگر یہ تقدیر میں نہیں تھا، اگر امی، ابو اور شمسہ وہاں موجود ہوئے جہاں ماموں جا رہے ہیں تو مجھے دیکھ کر ان پر کیا گزرے گی، کیا کیفیت ہو گی، کہیں یہ لوگ بھی مجھ سے بددل نہ ہوں، مجھے اپنی پریشانیوں کا ذمہ دار سمجھ کر مجھ سے نفرت نہ کرنے لگے ہوں۔ یہ احساس مجھے الیاس خان کے ان الفاظ سے ہوا تھا جن میں اس نے ماموں ریاض کے بارے میں بتایا تھا کہ میرے پیغام کا ان پر کوئی رد عمل نہیں ہوا تھا۔ خیر اگر ایسا ہوا بھی تو کیا بالآخر میں انہیں خود سے راضی کر لوں گا، اپنی کہانی انہیں سنا کر بتائوں گا کہ میں نے اپنے گناہوں کا کیا کفارہ ادا کیا ہے۔ ان سوچوں نے، ان احساسات نے اس سفر کی طوالت کا احساس ختم کر دیا تھا جو ماموں ریاض نے رکے بغیر طے کر لیا تھا۔ یہ بہت طویل سفر تھا، نہ جانے کتنی سڑکیں، گلیاں، بازار، محلے عبور کر آئے تھے وہ، آبادی خال خال رہ گئی تھی جس جگہ وہ پہنچ گئے تھے وہاں کھیت بکھرے ہوئے تھے اور ان کھیتوں کے دوسرے سرے پر کچھ بوسیدہ مکانات دور دور نظر آ رہے تھے غالباً یہاں بجلی نہیں تھی، کھمبے بھی نہیں لگے ہوئے تھے، ان ٹوٹے پھوٹے مکانوں میں سے چند میں ملگجی مدھم روشنیاں ٹمٹما رہی تھیں۔ میں چونک پڑا ان روشنیوں کو دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ کتنا فاصلہ پیدل طے کیا گیا ہے کہ چلتے چلتے رات ہو گئی اور پھر یہ آبادی عجیب سی تھی۔ یہاں رہتے ہیں یہ لوگ اتنی دور اور ایسی جگہ جو زندگی کی سہولتوں سے محروم ہے! اس کی وجہ بھی غربت ہی ہو سکتی تھی۔ دل رونے لگا، کتنی بے بسی کا شکار ہیں یہ لوگ، کیا بیت رہی ہے ان پر…
ماموں ریاض ایک دروازے پر رک گئے، ایک لمحے رکے رہے پھر اندر داخل ہو گئے۔ میرا دل بند بند سا ہو گیا۔ منزل آ گئی تھی وہ جگہ آ گئی جس کی مجھے صدیوں سے تلاش تھی۔ قدم من من بھر کے ہو گئے نہ جانے کتنی مشکل سے یہ بقیہ راستہ طے کیا تھا، ان مکانوں کو قریب سے دیکھا۔ زمانہ قدیم کے بنے ہوئے تھے، دیواروں میں ایک اینٹ سلامت نہیں تھی اس کے باوجود مضبوط تھے جس دروازے میں ماموں ریاض داخل ہوئے تھے، اس کی زنجیر بجائی اور دھڑکتے دل کے ساتھ انتظار کرنے لگا، دروازہ کون کھولے گا شمسہ، امی، ابو… یا ماموں ریاض… کس سے کیا کہوں گا، کیا وہ لوگ مجھے ایک نگاہ میں پہچان لیں گے، مشکل ہو جائے گا۔ کچھ دیر انتظار کے بعد زنجیر دوبارہ بجائی پھر تیسری بار بہت زور سے لیکن کوئی جواب نہیں ملا، جگہ شاید بہت بڑی ہے، یہ لوگ دروازے سے دور ہوتے ہوں گے یا کوئی اور یہاں آتا نہ ہو گا…؟ یا ماموں ریاض اکیلے… اس خیال سے دل لرز گیا اگر ماموں ریاض یہاں اکیلے ہیں تو امی، ابو… ایک دم بے چینی طاری ہو گئی، زور زور سے زنجیر بجانے لگا پھر دروازے کو زور سے اندر دھکیلا تو دروازہ کھل گیا، بے صبری سے اندر قدم رکھ دیا، گھپ اندھیرا چھایا ہوا تھا، جگہ بھی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔
’’ماموں ریاض۔‘‘ میں نے آواز لگائی اور میری آواز گونج کر رہ گئی۔ دل پر وحشت چھانے لگی تھی۔ اس بار پہلے سے زیادہ زور سے چیخا مگر کوئی جواب نہ ملا۔ ’’یہاں کوئی ہے۔‘‘ میں نے پھر حلق پھاڑا اور اس بار روشنی کی ایک مدھم سی کرن ابھری۔ یہ کرن کسی دروازے کی جھری سے ابھری تھی۔ اسے دیکھ کر میں اندھوں کی طرح اس طرف لپکا بہت مدھم کرن تھی لیکن اس کی نشاندہی میں، میں دروازے تک پہنچ گیا۔ اس دروازے کو بھی دھکا دے کر میں نے کھول دیا اور دوسری طرف نکل آیا۔ یہاں زیادہ تاریکی نہیں تھی۔ گول سا بڑا صحن نظر آ رہا تھا جس کی زمین اینٹوں سے بنی ہوئی تھی لیکن وہی کیفیت یہاں بھی موجود تھی۔ ٹوٹی پھوٹی اینٹیں درمیان میں کیاریوں جیسی جگہ چھوڑ دی گئی تھی جن میں درخت اُگے ہوئے تھے۔ بہت اونچے اونچے چار درخت نظر آ رہے تھے جو اوپر جا کر آپس میں ایک دوسرے سے پیوست ہو گئے تھے اور انہوں نے اس صحن پر سایہ کر لیا تھا لیکن چونکہ آسمان پر ابھی تھوڑی بہت مدھم مدھم روشنی تھی اس لیے یہ صحن زیادہ تاریک نہیں ہوا تھا۔ روشنی کی وہ کرن جس نے دروازہ اجاگر کیا تھا، اس دروازے کے عین سامنے ایک اور دروازے سے ابھر رہی تھی اور ایک چھوٹی سی کھڑکی سے اس کی روشنی باہر چھن رہی تھی۔ خوف و دہشت کا ایک ہولناک احساس میرے وجود پر طاری ہو گیا، ہاتھ پائوں پھولنے لگے اور کانوں میں شائیں شائیں کی آوازیں گونجنے لگیں۔ شاید یہ خوف کا احساس تھا جو میرے ذہن پر مسلط ہو گیا تھا۔ ماموں ریاض کہاں گئے، کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ میرے ہاتھ پائوں لرز رہے تھے اور دل چاہ رہا تھا کہ بیٹھ جائوں، سانس بے حد تیز ہو گیا تھا۔ اس حالت میں کئی منٹ یہاں کھڑے کھڑے گزر گئے، نہ جانے کس طرح میں نے ایک بار پھر اپنے حلق سے آواز نکالی اور ماموں ریاض کو پکارا لیکن جواب ندارد۔ دل کے کسی گوشے میں یہ احساس ابھر رہا تھا کہ جو کچھ ہوا ہے وہ غیرحقیقی ہے۔ کچھ ہو گیا ہے، کوئی ایسی بات جو آنے والے وقت میں میرے لیے خطرناک ہو سکتی ہے۔ آہ یہ کیا ہوا، سوچا تو کچھ تھا اور ہو کچھ رہا تھا، کیسے کیسے احساس لے کر یہ طویل اور تھکا دینے والا سفر کیا تھا۔ کیا کیا امیدیں باندھیں تھیں۔ کیا ہونے والا ہے۔ آخر کیا ہونے والا ہے۔
لرزتے قدموں سے اس دروازے کی جانب بڑھا جہاں سے روشنی آ رہی تھی۔ یہاں پہنچ کر دروازہ زور زور سے بجایا۔ میرے ہاتھوں سے پیدا ہونے والی آواز کئی گنا زیادہ ہو کر پھیل رہی تھی۔ اس میں ہوا کی شائیں بھی شامل تھی۔ درختوں کے پتے ایک دوسرے سے ٹکرا کر بج رہے تھے اور ماحول پر ایسا دہشت ناک سناٹا پھیلتا جا رہا تھا کہ دل کی دھڑکنیں چیخ اٹھیں۔ میرے زور زور سے دروازہ بجانے سے یہ دروازہ بھی اندر کو دب گیا اور میں نے کسی انوکھے جذبے کے تحت اندر قدم رکھا۔ اس بار میں ایک وسیع و عریض کمرے میں داخل ہوا تھا جس کی قدامت کا اندازہ اس میں موجود اشیاء سے ہوتا تھا۔ گرد کی ایک دبیز اور بدبودار تہہ اس کے فرش پر جمی ہوئی تھی۔ اونچی چھت کے درمیان میں ایک بہت بڑا جھاڑ لٹک رہا تھا۔ دیواروں پر چاروں طرف جالے لگے ہوئے تھے اور ایک طرف آتش دان میں مدھم مدھم سی زرد روشنی ہو رہی تھی۔ اسی آتش دان کے اوپر ایک شمع روشن تھی۔ میں نے اس کمرے کی فضا میں ہلکی ہلکی گرمی محسوس کی اور میرا بدن ایک بار پھر دہشت سے لرز اٹھا کیونکہ اچانک ہی کمرے کی روشنی میں اضافہ ہونے لگا تھا۔ میری آنکھوں کے سامنے کوئی سات فٹ کے فاصلے پر آتش دان کے اوپر رکھی چند شمعیں خود بخود روشن ہو گئی تھیں۔ یہ شمعیں پرانے قسم کے ایک شمع دان میں لگی ہوئی تھیں۔ سفید سفید لمبی لمبی خدا جانے ان شمعوں کو روشن کس نے کیا تھا، میں اب شدید دہشت کا شکار ہو چکا تھا۔ آہستہ آہستہ آگے بڑھ کر میں ان شمعوں کے قریب پہنچ گیا۔ میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ پہلے تو صرف ایک ہی موم بتی جل رہی تھی لیکن اب یہ شمعیں کس نے روشن کیں۔ وہ نادیدہ ہاتھ مجھے نظر نہیں آ رہے تھے جنہوں نے یہ حرکت کی تھی۔ موم بتیوں کے شعلے بالکل سیدھے اوپر اٹھ رہے تھے جیسے ہوا سے محفوظ ہوں۔ میں غیر ارادی طور پر ان پر پھونکیں مارنے لگا اور ایک بار پھر میری آنکھوں میں خوف ابھر آیا۔ میری پھونکوں سے کسی نہ کسی شعلے کو بجھ تو جانا چاہیے تھا لیکن وہ جنبش بھی نہیں کر رہے تھے۔ دل بری طرح دھک دھک کرنے لگا۔ پورا بدن پسینے میں ڈوب گیا اور اب اس کے علاوہ اور کچھ نہیں سوچا جا سکتا تھا کہ جو کچھ ہوا وہ فریب نظر تھا۔ ماموں ریاض حقیقت نہیں تھے بلکہ کوئی خوفناک دھوکا تھے جس کا تعاقب کرتا ہوا میں اس ہولناک مکان میں پہنچ گیا ہوں لیکن اس دھوکے کی بنیاد کیا ہے، یہ سب کچھ، یہ سب کچھ کیوں ہوا ہے، بہت عرصے تک میں اس سے محفوظ رہا تھا بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ میری ایک حیثیت بن گئی تھی آہ … اس کے بعد اس کے بعد یہ سب کچھ، یہ سب کچھ، کیا کروں، کیا کرنا چاہیے مجھے، بے شک شدید ترین حالات کا شکار رہ چکا تھا، ان حالات میں رہنے کی عادت پڑ گئی تھی لیکن کچھ عرصے سے، صورتحال ذرا مختلف ہو گئی تھی اور اب یہ سب کچھ میرے لیے بڑا دہشت ناک
تھا۔ میں نے پریشان نگاہوں سے چاروں طرف دیکھا۔ دروازہ در دروازہ، ایک کے اندر ایک۔ ایک اور دروازہ نظر آ رہا تھا۔ ماموں ریاض کا تصور تو اب دل سے نکلتا ہی جا رہا تھا۔ میری تقدیر میں بھلا یہ روشنی کہاں ہے، میں تو تاریک اندھیروں کا مسافر ہوں، مجھے انہی تاریکیوں میں زندگی بھر کا سفر کرنا ہے، ان خوشیوں سے بھلا میرا کیا واسطہ جو انسان کی زندگی میں آتی ہیں مگر اب یہ نیا جال، نیا فریب کیا معنی رکھتا ہے۔ آہ! پچاس بار غور کر چکا تھا اس بات پر کہ غلطی ہوئی ہے مجھ سے اور میری اس غلطی نے مجھ سے میرا سائبان چھین لیا ہے، وہ کمبل جو میرے لیے ایک بزرگ کا عطیہ تھا، مجھ سے واپس مانگا گیا تھا، صاف کہا گیا تھا کہ میں اس کی حفاظت کرنے میں ناکام رہا تھا، میں نے اسے چھوڑ دیا، ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ جو کچھ ہوا تھا اس میں میری غلطی نمایاں تھی لیکن اب اب کیا کرنا چاہیے۔ اپنی اس غلطی کو تسلیم کر کے کیا ایک بار پھر موت کی آرزو کرنے لگوں یا زندگی کی جانب رخ کیے رہوں جیسا بھی ہو جو کچھ بھی ہو گزاروں اسی میں گزاروں۔ زندگی کتنی قیمتی شے ہے کوئی جینے والوں سے پوچھے جو کسی بھی طور مرنا نہیں چاہتے۔ میں بھی مرنا نہیں چاہتا ہوں ہاں بے شمار بار دل اس دنیا سے اکتایا، اپنے آپ سے اکتایا لیکن جب موت کو گلے لگانے کی آرزو کروں گا تو نہ جانے کیا احساس ہو گا دل میں، کافی دیر تک میں اسی طرح اس پراسرار کمرے میں کھڑا سوچوں میں گم رہا اور اس کے بعد میں نے سوچا کہ کم از کم یہاں کا تھوڑا سا جائزہ اور لے لوں اور اس کے بعد اس گھر سے باہر نکل جائوں جہاں میں صرف ایک دھوکے کے تعاقب میں آیا تھا۔ سامنے ہی جو کمرہ نظر آ رہا تھا اس کے دروازے کے قریب پہنچ گیا۔ میں اس دروازے کے رنگ کو دیکھ رہا تھا۔ صاف محسوس ہو رہا تھا کہ اسے مدت سے نہیں کھولا گیا ہے۔ ہو سکتا ہے دوسری طرف تاریکی ہی تاریکی ہو کیونکہ روشنی نظر نہیں آ رہی تھی اس لیے میں واپس پلٹا۔ ایک شمع ہاتھ میں اٹھائی اور دوبارہ دروازے کے قریب پہنچ گیا۔ پھر میں نے دروازے کو آہستہ سے دھکیلا اور ایک لمحے میں دروازہ کھل گیا۔ شمع کی روشنی میں مجھے ایک اور بڑا اور وسیع کمرہ نظر آیا۔ یہاں بھی فرش بالکل ایسا لگ رہا تھا جیسے اس پر صدیوں سے انسانی قدموں کا گزر نہ ہوا ہو۔ دیواریں پلاسٹر کے بغیر تھیں اور ان سے ٹوٹی پھوٹی اینٹیں جھانک رہی تھیں۔ ایک سمت ایک زینہ سا بنا ہوا تھا جو اوپر جا کر چھت میں گم ہو گیا تھا۔ یہ کمرہ پہلے کمرے سے بھی زیادہ پراسرار تھا۔ ابھی میں یہیں کھڑا ہوا ادھر ادھر دیکھ رہا تھا کہ دفعتاً ہی مجھے اوپر قدموں کی سی آہٹ سنائی دی اور میرا دل دہشت سے اچھل پڑا۔ میرے حلق سے ڈری ڈری آواز نکلی۔
’’ماموں ریاض، ماموں ریاض کہاں ہیں آپ، ماموں ریاض کیا آپ یہاں اس گھر میں موجود ہیں۔‘‘ اپنی آواز کے کھوکھلے پن کا خود بھی احساس ہوا تھا، جسے پکار رہا تھا اب اس کی موجودگی سے مایوس ہو گیا تھا لیکن کوئی اوپر ہے ضرور۔ یہ مکان خالی نہیں ہے، یہاں یقینی طور پر زندگی ہے۔ آہ کوئی نظر تو آئے، کوئی دکھائی تو دے اس سے پوچھوں کہ مجھے اس طلسم خانے میں لانے کا مقصد کیا ہے۔ آخر میں یہاں کیوں آیا ہوں بس دماغ پر ایک دھند سی طاری ہو گئی اور میرے قدم ان سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئے۔ گیارہ سیڑھیاں تھیں اور اس کے بعد لکڑی کی بنی ہوئی چھت۔ اوپر پہنچا شمع کی روشنی نے ایک اور دروازہ اجاگر کیا لیکن اس دروازے کے دوسری جانب روشنی تھی، یقینی طور پر وہاں کوئی موجود تھا۔ کچھ سرسراہٹوں کی سی آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔ میں نے دروازے کو دھکا دیا۔ یہ دلچسپ بات تھی کہ یہاں کوئی دروازہ اندر سے بند نہیں تھا۔ یہ دروازہ بھی میرے دھکا دینے سے کھل گیا اور وہاں مجھے تیز روشنی نظر آئی۔ یہ روشنی بالکل نیچے لگی ہوئی شمعوں کی جیسی روشنی تھی۔ یہاں بھی پانچ شمعیں جو بہت لمبی لمبی تھیں، روشن تھیں اور یوں لگتا تھا جیسے انہیں ابھی ابھی روشن کیا گیا ہو کیونکہ ان کا موم پگھلا نہیں تھا لیکن کمرے کے منظر میں کچھ ایسی انوکھی باتیں تھیں جنہیں دیکھ کر میرا دل اینٹھنے لگا، اعصاب میں عجیب سی کھنچاوٹ پیدا ہوئی۔ سامنے ہی ایک تابوت جیسی شے رکھی ہوئی تھی اور سرسراہٹوں کی آوازیں وہیں سے آ رہی تھیں۔ کمرہ روشن تھا لیکن میں نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی شمع پھینکی نہیں اور آہستہ آہستہ اس تابوت کے قریب پہنچ گیا۔ میرے خدا، میرے خدا میں نے جو کچھ دیکھا وہ ناقابل یقین تھا۔ تابوت خاص قسم کا بنا ہوا تھا۔ اس کے کنارے اونچے اونچے تھے اور اس کے اندر ایک لاش نظر آ رہی تھی۔ ایک انسانی لاش جس کی بے نور آنکھیں مجھے گھور رہی تھیں اور یہ چہرہ، یہ چہرہ ماموں ریاض کا چہرہ تھا۔ ہاں میں اس چہرے کو صاف پہچانتا تھا۔ ماموں ریاض ہی تھے لیکن جو چیز مجھے ایسی نظر آئی جو میرے حواس کو بالکل ہی بے قابو کر رہی تھی وہ ماموں ریاض کی لاش سے چمٹی ہوئی لاتعداد پیلی پیلی مکڑیاں تھیں جو ان کے جسم پر ادھر سے ادھر پھر رہی تھیں اور جگہ جگہ ان کے کھلے جسم میں اپنے پنجے جمائے ان کا خون چوس رہی تھیں۔ آہ ماموں ریاض… ماموں ریاض… میرے منہ سے بے اختیار چیخ نکل گئی۔ شمع میرے ہاتھ سے چھوٹ کر کھلے ہوئے تابوت میں جا گری۔ مکڑیاں ایک دم منتشر ہونے لگیں۔ ان کی تعداد بے پناہ تھی، ان کا سائز بھی مختلف تھا۔ شمع گرنے سے ان میں سے کچھ مکڑیاں جل بھی گئی تھیں۔ وہ ایسے انداز میں اوپر کی جانب لپکیں جو بے حد لرزہ خیز تھا۔ میں بدحواس ہو کر پیچھے ہٹا لیکن پائوں کسی چیز میں الجھ گیا اور میں چاروں شانے چت نیچے گر گیا۔ دفعتاً ہی مجھے ایک دھماکہ سا سنائی دیا اور اس کی وجہ بھی مجھے معلوم ہو گئی۔ وہ دروازہ جس سے میں اندر داخل ہوا تھا، زوردار آواز کے ساتھ بند ہو گیا تھا، ہوا بالکل نہیں چل رہی تھی اگر ہوا چلتی تو شمعوں کے شعلے بھڑکتے۔ اس کا مقصد ہے کہ کسی نادیدہ شیطانی قوت نے یہ دروازہ بند کیا ہے۔ میں ادھر ادھر ہاتھ مارنے لگا۔ سہارا لے کر اٹھنے کی کوشش کرنا چاہتا تھا لیکن جسم جیسے مفلوج ہو گیا تھا۔ آن واحد میں لاتعداد سفید اور پیلی مکڑیاں میرے جسم تک پہنچ گئیں اور میں اپنے جسم کے کھلے ہوئے حصوں پر ان کے نوکدار پیروں کی گردش محسوس کرنے لگا۔ وہ میرے جسم سے چمٹ رہی تھیں، جسم کے کھلے ہوئے حصوں میں باریک باریک سوئیاں سی چبھنے لگیں اور درد کی شدت سے میرے حلق سے بے اختیار چیخیں نکلنے لگیں، اعصاب اچانک ہی قابو میں آ گئے تھے۔ میں نے جوش وحشت میں ان مکڑیوں کو ہاتھ مار مار کر دور کرنا چاہا مگر بے سود ان کی نوکیلی ٹانگیں میری کھال میں پیوست ہو رہی تھیں اور وہ اپنے باریک باریک دانت میرے جسم میں چبھو رہی تھیں۔ آہستہ آہستہ وہ میری گردن تک پہنچ گئیں اور اس کے بعد انہوں نے میرے چہرے پر چڑھنے کی کوشش کی۔ ایک خوفناک دھاڑ میرے منہ سے نکلی اور میں نے ایک دم کروٹ بدل کر زمین پر ہاتھ ٹکائے اور اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ جسم میں انتہائی خوف کے عالم میں قوتیں بیدار ہو گئی تھیں۔ میں نے بہت زور زور سے ہاتھ اور پائوں جھٹک جھٹک کر ان مکڑیوں کو نیچے گرایا اور اس کے بعد دروازے کی جانب دوڑ لگائی۔ پوری قوت سے میں نے دروازے کو پکڑ کر کھینچا۔ دروازہ کھل گیا لیکن میں باہر نکلتے نکلتے ایک بار پھر گر پڑا تھا۔ چند مکڑیاں جو میرے لباس پر چڑھ گئی تھیں، میرے ساتھ ہی باہر آ گئی تھیں۔ میں ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگا۔ مکڑیوں نے میرے جسم کے کھلے حصوں کی طرف دوڑنا شروع کر دیا اور وہاں پہنچ کر مجھے کاٹنے لگیں۔ میں بار بار چیخ رہا تھا اور ان مکڑیوں کو چٹکیوں سے پکڑ پکڑ کر نیچے پھینک رہا تھا، ساتھ ہی میں انہیں پائوں سے مسلتا بھی جا رہا تھا۔ یہ ایک بے حد گھنائونا کام تھا لیکن اس وقت زندگی بچانا سب سے زیادہ اہمیت رکھتا تھا۔ مکڑیاں اپنا کام کر رہی تھیں مگر میری کوششوں سے ان کی تعداد کم ہوتی جا رہی تھی۔ یہاں تک کہ آخری مکڑی بھی میرے پائوں کے نیچے آ کر مر گئی۔ اس مصیبت سے چھٹکارا پاتے ہی میں اس راستے کی طرف دوڑا جہاں سے اندر داخل ہوا تھا۔ سامنے ایک دروازہ کھلا نظر آیا اور میں اس میں گھس گیا مگر وہ ایک کمرہ تھا اور اس میں کوئی دروازہ نہیں تھا۔ وہاں سے نکل کر ایک راہداری میں بھاگا جو آگے جا کر دوسری طرف گھوم گئی تھی لیکن دوسری طرف مڑ ہی رہا تھا کہ سامنے بند دیوار آ گئی اور بمشکل دونوں ہاتھوں کا سہارا لے کر ٹکرانے سے بچا۔ آہ وہ راستہ کہاں گیا جہاں سے اندر آیا تھا، کہاں گیا وہ راستہ… وہاں سے پلٹا اور پھر جہاں تک بھاگ سکا، بھاگا لیکن جہاں پہنچتا راستہ بند ملتا۔ حلق میں کانٹے پڑ رہے تھے، آواز نہیں نکل رہی تھی۔ پھر ایک تاریک کمرے میں داخل ہو گیا۔ گہرا گھپ اندھیرا تھا، پانی گرنے کی آواز آ رہی تھی۔ غالباً غسل خانہ تھا، میں ٹٹول ٹٹول کر آگے بڑھنے لگا، ایک جگہ پانی کی دھار گر رہی تھی پانی ہلکا گرم تھا مگر پیاس اتنی شدت کی تھی کہ میں نے منہ کھول دیا۔ پانی کے کئی گھونٹ حلق سے اتارے مگر یہ پانی ہلکا نمکین تھا اور اس میں پانی جیسا پتلا پن نہیں تھا۔ اس کے علاوہ ایک عجیب سی بو ایک عجیب سی سڑاند… میں ایک دم پیچھے ہٹ گیا، دونوں ہاتھوں کا چلو بنایا، پانی اس میں لیا اور اسے انگلیوں سے مسل کر دیکھنے لگا، ایک عجیب سی چپکن تھی اس میں مگر تاریکی میں کچھ نظر نہیں آ رہا تھا، اس سڑاند سے الٹی آ رہی تھی، پیٹ اور سینے پر ایک دم بڑا بھاری پن پیدا ہو گیا تھا، میں کراہتا ہوا وہاں سے بھی نکل آیا، کوئی شیطانی جال تھا جس میں میں بری طرح جکڑ گیا تھا۔ آہ کیا ہے یہ سب کچھ۔ کہاں جائوں کئی جگہ روشنی نظر آئی، اس سے پہلے یہ روشنی نہیں تھی مگر اس طرف رخ کرتے ہوئے خوف محسوس ہو رہا تھا۔ ادھر کلیجہ تھا کہ حلق کے راستے باہر نکل آنا چاہتا تھا۔
’’راستہ کہاں ہے… کوئی ہے اس منحوس گھر میں۔ ارے کوئی ہے، ماموں ریاض، ابو، امی، شمسہ… کوئی ہے، کوئی ہے۔‘‘ میری آواز گھٹ گئی، متلی آ گئی تھی اور میری حالت خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی تھی، سر چکرا رہا تھا، آنکھوں کے سامنے ستارے ناچ رہے تھے لگ رہا تھا یہی آخری وقت ہے، مر جائوں گا۔ آہ پھر وہی سب کچھ آہ… آگے بڑھا، رخ ایک روشنی کی طرف تھا نہ جانے وہاں کیا ہے، نہ جانے وہاں کیا ہے۔ کھلا ہوا دروازہ تھا، چوکور کمرہ تھا، کھردرا فرش دیواریں، کارنس پر روشن شمع،
سامنے ایک اور دروازہ بھی تھا، نقشہ بدل گیا تھا اس گھر کا میرے داخل ہونے کے بعد۔ کیسے، آخر کیسے۔ روشنی میں ہاتھوں پر نظر پڑ گئی، ایک اور چیخ حلق سے بلند ہو گئی، دونوں ہاتھ سرخ ہو رہے تھے انگلیاں ایک دوسرے سے چپک گئی تھیں، خون، آہ خون، پورا جسم خون میں ڈوبا ہوا تھا، وہ دھار جو نہ جانے کہاں سے گر رہی تھی پانی کی نہیں خون کی دھار تھی اور … اور میں نے کئی گھونٹ خون پیا تھا۔ اس بار تو یوں لگا جیسے آنتیں حلق کے راستے باہر نکل رہی ہوں۔ بری طرح متلی ہورہی تھی اور مجھے بیٹھ جانا پڑا تھا۔ آنکھیں بند کر لی تھی تاکہ حلق سے نکلنے والی آلائش نظر نہ آئے۔ سر بالکل خالی ہو گیا تھا۔ جب حالت کچھ بہتر ہوئی تو اپنی جگہ سے اٹھا اور سامنے نظر آنے والے دروازے سے اندر داخل ہو گیا۔ بے نور سی آنکھوں سے کمرے کے ماحول کو دیکھا، وہی کمرہ تھا جہاں تابوت دیکھا تھا اور اس تابوت میں ماموں ریاض کی لاش نظر آئی تھی مگر اب وہاں مکڑیاں نہیں تھیں، فرش صاف پڑا تھا۔ مکڑیاں یقیناً دوبارہ تابوت میں جا گھسی تھیں۔ ماموں ریاض مر گئے۔ میں نے دل میں سوچا۔ بے اختیار قدم آگے بڑھے، تابوت میں جھانکا، لاش موجود تھی مگر مکڑیاں نہیں تھیں، ایک بھی مکڑی نہیں تھی، البتہ ماموں ریاض کی لاش خون سے عاری تھی بالکل زرد، بے رونق، سرد…! تابوت میں جھکا دونوں ہاتھ نیچے کئے ان کے شانوں کو مضبوطی سے پکڑا اور اوپر اٹھایا بالکل ہلکا جسم تھا مگر اچانک یوں محسوس ہوا جیسے ماموں ریاض نے پائوں اٹھایا ہو۔ یہ صرف احساس نہیں تھا ایسا ہوا تھا میرے ہاتھوں کے سہارے وہ تابوت سے باہر نکلنے کی جدوجہد کر رہے تھے۔ میں نے دہشت زدہ نظروں سے ان کا چہرہ دیکھا اور پھر جلدی سے انہیں چھوڑ دیا۔ یہ ماموں ریاض نہیں تھے بلکہ اب یہ چہرہ مکروہ صورت بھوریا چرن کا چہرہ بن چکا تھا۔ وہ سو فیصد بھوریا چرن تھا، اس کی شکل نامعلوم سے انداز میں کسی مکڑی کی شکل سے مشابہ تھی۔ ہاتھ پائوں بھی اسی طرح مڑے مڑے تھے۔ اب اسے میرے سہارے کی ضرورت نہیں تھی، وہ اچھل کر تابوت سے باہر نکل آیا۔
’’کیسے ہو میاں جی…؟‘‘ اس نے چہکتی آواز میں پوچھا۔
’’بھوریا چرن‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔
’’پہچان لیا نا…؟ ہاہا… چلو اچھا ہے ہم تو سمجھے بھول گئے ہو گے ہمیں، بہت سمے بیت گیا تھا۔‘‘
’’ماموں ریاض کہاں ہیں بھوریا چرن…؟‘‘
’’سب مل جائیں گے میاں جی… سب مل جائیں گے، اب کیا رہ گیا ہے مگر تم بھی دھن کے پکے نکلے۔‘‘
’’وہ کیسے بھوریا چرن…‘‘
’’ہمارا کام ہی کر کے نہ دیا۔‘‘
’’اب بھی نہیں کروں گا بھوریا چرن۔ اب بھی نہیں کروں گا۔‘‘
’’اب…؟‘‘ اس کے لہجے میں طنز تھا۔
’’ہاں تو کیا سمجھتا ہے ہار مان لی میں نے تجھ سے، تو پاگل ہے بھوریا چرن۔‘‘
’’ڈوب مرو میاں جی کہیں چلو بھر پانی میں… ڈوب ہی مرو تو اچھا ہے اب تم ہو کیا میاں جی ذرا اس پر تو غور کرلو۔‘‘
’’میں تو کبھی کچھ نہیں تھا بھوریا چرن مگر تو دیکھ لے آج تک تو اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکا۔‘‘
’’مقصد میں تو ہم ایسے کامیاب ہوئے ہیں میاں جی کہ جانو گے تو جی خوش ہو جائے گا تمہارا…‘‘
’’اچھا… کیا تو کھنڈولا بن گیا…؟‘‘
’’ہم تو کھنڈولے نہ بنے… پر تم بھی دھرماتما نہ بن سکے۔ یہ ہے تمہارا دھرم، جیون بھر کشٹ اٹھائے، پر ایک غلطی کری اور مارے گئے۔‘‘ اس نے مسرور لہجے میں کہا اور میں اسے گھورنے لگا۔ ’’اب تم ہم میں سے ہو میاں جی… نام اور بدل لو اپنا…! دھرم داس رکھ لو یا کالی چرن، مسعود احمد تو نہ رہے اب تم۔‘‘ وہ خوشی سے دیوانہ ہو رہا تھا اور میں اس کے الفاظ پر غور کر رہا تھا، کیا کہہ رہا ہے، یہ کیوں کہہ رہا تھا، اتنا عرصہ دور رہا تو دل میں یہ خیال پیدا ہو گیا تھا کہ اب اس سے جان چھوٹ گئی جو ذمہ داری مجھے دی گئی ہے اگر اسے پورا کر لوں تو شاید اس کرب کی زندگی سے نجات پا لوں مگر … اور اب اسے برا بھلا کہہ لوں تو کیا ملے گا۔ کم از کم معلومات ہی حاصل کروں، کچھ سمجھ میں ہی آئے۔
’’تم کس مقصد میں کامیاب ہوئے ہو بھوریا چرن۔‘‘
’’ہا…بھاگ ہوتے ہیں منش کے شنکھا بنے تو من میں آئی کہ کھنڈولے بنیں مگر بھاگ میں نہیں تھا، ملا بھی تو تم جیسا پاگل دھرم کے پیچھے بھاگنے والا، ارے پاپی تو دھرم داس بننے تو نہیں آیا تھا، ہمارے پاس برے کاموں کے لیے ہی تو آیا تھا ریس کے گھوڑے، سٹے کے نمبر، دولت کے انبار، ابلائوں کی قربت یہی سب مانگنے آیا تھا تو ہم سے، ہم نے کب منع کیا تھا تو ہمارا کام کر دیتا تو ہم تجھے وہ دیتے کہ جیون بھر مزے کرتا، دھرم ضرور بھرشٹ ہوتا تیرا مگر دھرم داس تو ہی بتا کیا تیرے ہی دھرم میں یہ سب جائز ہے ریس میں دوڑے ہوئے گھوڑوں کے کھیل سے جو دولت ملتی ہے وہ نیک کمائی ہے پھر تیرے من میں نیکیاں کیوں پھوٹ پڑیں… ہمارا ستیاناس مار دیا تو نے اور اس کے بعد جو کچھ تو کرتا رہا وہ مرے پر سو درے تھے، طرح طرح کے لوگوں سے دہائی دی تو نے اور ہمیں نقصان پہنچایا، تو کیا سمجھتا تھا چھوڑ دیتے ہم تجھے۔‘‘
’’تو تم میرے پیچھے لگے رہے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’پہلے تو یہی سوچا تھا ہم نے کہ ایک دن راستے پر آ جائے گا مگر اس مُسلے نے کھیل بگاڑ دیا۔‘‘
’’کس نے…؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ارے اسی فضل نے۔‘‘
’’بابا فضل کی بات کر رہے ہو۔‘‘
’’ہاں اس نے جیون دان دے کر تیری رکھشا کی نہ صرف رکھشا کی بلکہ بلکہ…!‘‘
’’بلکہ…؟‘‘ میں نے رندھی ہوئی آواز میں پوچھا۔
’’رستے کھول دیے تیرے تو نے جو گناہ کئے تھے اپنے دھرم کی نگاہ میں اس نے انہیں دھونے کے لیے اپنی قربانی دے دی اور تو بچ گیا، تیری گھٹنائیں دور ہونے لگیں مگر ہمارے لیے مشکل پیدا ہو گئی۔‘‘
میرے حلق میں گولا سا آ پھنسا۔ بڑا روح فرسا انکشاف تھا، بابا فضل نے میری مشکلات دور کرنے کے لیے جان کا نذرانہ دیا تھا، اتنا بڑا ایثار کیا تھا انہوں نے اتنا بڑا ایثار… بھوریا چرن میری کیفیت سے بے نیاز بولا۔
’’ہماری بھی کچھ مشکلیں ہوتی ہیں، کچھ بھید بھائو ہوتے ہیں اگر تو مہان بن جاتا اگر تیرے ہاتھوں کالے جادو والوں کو نقصان پہنچتا تو وہ ہمارے حساب میں لکھا جاتا۔ ہمیں جواب دینا ہوتا اس کا اور ہمارے درجے کم ہوتے جاتے۔ مصیبت گلے پڑ گئی تھی ہمارے تو، لینے کے دینے پڑ گئے تھے، اپنا کام بھولنا پڑا تیری تاک میں لگے رہے، تجھے دیکھتے رہے، تیرے راستے روکنے تھے ہمیں اور ہم کامیاب ہو گئے۔ چولہے میں جاگھسی تیری مہانتا۔‘‘ وہ پھر ہنس پڑا۔
(جاری ہے)