’’وہ کیسے بھوریا چرن۔‘‘ میں نے خود کو سنبھال کر پوچھا۔
’’بتائیں گے سسر۔ سب کچھ بتائیں گے، تجھے بھی تو کچھ دکھ ہو، تو بھی تو ہماری طرح کلسے۔‘‘
’’بتائو بھوریا چرن۔‘‘
’’دیوتا بن رہے تھے مہاراج مہان پرش بن رہے تھے، سنسار کو دکھوں سے دور کرنے جا رہے تھے، اپنے دین دھرم کے بارے میں کچھ جانتے ہو۔‘‘
’’تم جانتے ہو…؟‘‘
’’کیوں نہیں ہمیں سب سے پہلے دشمنوں سے ہوشیار رہنے کی سکھشا دی جاتی ہے اس کے لیے دوسرے دھرموں کے بارے میں جاننا ہوتا ہے۔‘‘
’’میرے دین کے بارے میں تم کیا جانتے ہو؟‘‘
’’جتنا جانتے ہیں وہ تجھ سے زیادہ ہے۔ تیرے دھرم میں ایک نکتہ ہے، سب سے بڑی چیز ایک نکتہ ہے۔‘‘
’’وہ کیا…؟‘‘
’’ساری ہم سے پوچھ لے گا کیوں بتائیں تجھے۔‘‘
’’اس لیے کہ تم نے میرے دین کو جاننے کا دعویٰ کیا ہے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’ہاں ہم جانتے ہیں نکتے کی بات بالکل ٹھیک کہی ہم نے، تیرے دھرم میں واسنائوں کی گنجائش نہیں، نفس کی موت کو پہلا درجہ حاصل ہے اور جو نفس کے جال میں پھنسا ڈوب گیا، تجھے ڈبونا ضروری ہو گیا تھا ہمارے لیے دھن کے چکر سے تو نکل گیا، سندر ناریاں تجھے متاثر نہیں کر سکتی تھیں اور ہمارا کام اس سمے تک نہیں بن سکتا تھا جب تک تو ایسے کسی پھیر میں نہ پڑے۔ سو ہم لگے رہے تیری تاک میں اور موقع مل گیا ہمیں، بڑا دین دیال بنا ہوا تھا تو اور لوگوں کے بڑے کام آ رہا تھا، ہم نے حساب کتاب لگایا اور کام میں مصروف ہو گئے، بائولے وہ مٹکا جو تجھے درخت کی جڑ میں نظر آیا تھا کسی کا دبایا ہوا خزانہ نہیں تھا وہ تو ہم نے سونے کی مہروں سے بھر کر وہاں گاڑ دیا تھا سو تجھے وہ نظر آ گیا، وہیں پر ہمارا کام بن گیا، تو وہ نکتہ بھول بیٹھا، تجھے بتایا گیا تھا یاد ہے نا تجھ سے کہا گیا تھا کہ پہلا کام انسانوں کے کام آنا ہے، دوسرا کام اپنے نفس کو مار کر اپنی منزل کی تلاش۔ اس کے بغیر مہانتا مکمل نہیں ہوتی، اگر تو اپنی خواہشوں کے جال میں پھنس گیا تو کچھ نہیں حاصل کر سکے گا اس سنسار میں۔ بول یہی بتایا گیا تھا ناں تجھے سو یوں ہوا کہ تو نے دیکھا اس آدمی الیاس خان کو اور تجھے یاد آ گئے اپنے ماماجی۔ ارے ہم نے سوچا کہ اس سے بڑھیا موقع ملنا تو ممکن ہی نہیں ہے۔ ماما جی کے پھیر میں تو لمبے سے لمبے پھیر میں پڑ سکتا ہے اور بات بن گئی بھیا ہماری۔ سونے کا وہ مٹکا تو نے الیاس خان کو دے دیا اس لیے کہ وہ تیرے ماما جی کا پتا تجھے بتا دے، بس کام تو وہیں سے ہو گیا تھا ہمارا۔ تو خود سوچ دھرتی تو بہت بڑی ہے نہ جانے کتنے خزانے بھرے ہوئے ہیں اس دھرتی میں اور سب کے سب آ جاتے تیری آنکھوں میں کیونکہ تجھے آہستہ آہستہ روشنی مل رہی تھی تو تو بہت بڑا بن جاتا بھائی مگر راستے روکنا ہی تھے سو تو نے وہی کیا جو ہم نے چاہا اور نکل گیا تو ان پابندیوں سے جو تجھ پر قائم کی گئی تھیں بس ایک کے بعد ایک، ہمارا کام بنتا رہا اور پھر بن گئے ہم تیرے ماما جی۔
’’تم!‘‘ میں خوف سے آنکھیں پھاڑ کر بولا۔
’’ہاں رے اس سمے تو یہی سب کچھ کرنا تھا، لگا لائے تجھے اپنے پیچھے ہم اور سب کچھ بھول گیا تو جو کچھ تجھے دیا گیا تھا اسے بھول کر تو پڑ گیا اپنے ماماجی کے پھیر میں، ماتا پتا کے جال میں اور یہی ہم چاہتے تھے اور یہ جگہ اب جہاں تو آیا ہے، کہلاتی ہے بیر منڈل۔ یہاں سارے کے سارے ہمارے بیر رہتے ہیں۔ وہ مکڑیاں جو تیرے ماما جی کی لاش سے چمٹی ہوئی تھیں، تیرا کیا خیال ہے مار دیں تو نے، ارے جا بائولے بیر کہیں مرتے ہیں وہ تو اپنا کام کر رہے تھے ہمارے کہنے سے اور پھر ہم نے وہ خون تیرے شریر میں اتار دیا جو ہم نے سات پورن ماشیاں منتر پڑھ پڑھ کر تیار کیا تھا۔ سترہ آدمیوں کا خون جنہیں ہم نے اپنے ہاتھوں سے مارا تھا اور جن پر سات پورن ماشیاں منتر پڑھا تھا ہم نے، کالے جادو کا وہ سب سے بڑا منتر جس سے بڑا منتر اور کوئی نہیں ہوتا اور جو ایک شنکھا ہی کو معلوم ہوتا ہے بس وہ خون پانی سمجھ کر پی لیا تو نے اور تیرے اندر سے سب کچھ صاف ہو گیا، کچھ نہیں ہے اب تیرے پاس، سمجھا، تو ایک کورے مٹکے کی طرح ہے جو اندر سے خالی ہے اور کورا ہے۔ یقین نہ آئے تو آزما لے اپنی کسی بھی بات کو۔ ارے پاگل تیری ساری تپسیا ایک لمحے میں ختم ہو گئی، اس طرح کم از کم ہمارا ایک کام تو بنا، ایک کام سے تو فارغ ہوئے ہم، نہ تو اپنے دھرم کا رہا اور نہ اس سنسار کا… اب جا بھاڑ چولہے میں ہمارا کام کر دیتا تو بہت کچھ مل جاتا، نہیں کیا تو ہمارا کیا بگاڑ لیا ہم شنکھا تو ہیں نا مگر تو کیا ہے، تو کیا رہ گیا اب اگر کہے تو کتا بنا کر باہر نکال دیں تجھے یہاں سے۔ بول کیا کریں تیرے ساتھ…؟‘‘ میں بھوریا چرن کو دیکھتا رہا جو کچھ اس نے بتایا تھا، دل میں اتر رہا تھا۔ کمبخت اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا تھا، نہ جانے کیا کیا جتن کئے اس نے اپنے کام کے لیے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اس کا کہنا بالکل درست تھا۔ ایک نکتہ صرف ایک نکتہ ہی تو اصل حیات ہوتا ہے۔ بڑے بڑے عالم دین، بڑے بڑے ولی، درویش، قلندر اپنے آپ کو تیاگ کر کچھ حاصل کرتے ہیں۔ اپنی خواہشوں کے آگے سر جھکا دیا، اپنی محبتوں کے ہاتھوں دیوانے ہو گئے تو پھر کیا باقی رہ گیا۔ عام انسان بھی تو یہی سب کچھ کرتا ہے۔ میرا تو آزمائشی دور تھا اور میں اس امتحان میں نامکمل رہ گیا۔ میں نے وہ نعمتیں ٹھکرا دیں جو مجھے دی گئی تھیں، اتنی ساری نعمتیں دے کر صرف ایک ہدایت کی گئی تھی مجھے کہ اپنی خواہشوں کا غلام نہ بنوں، وہ نہ مانگوں جن کا دینا ابھی آسمانوں میں منظور نہیں ہوا ہے لیکن کر ڈالا میں نے وہ سب کچھ ماموں ریاض کے چکر میں پڑ کر وہ کمبل بھی وہیں چھوڑ آیا جس نے میری آنکھوں کو روشن کر دیا تھا، جس نے میرے دل و دماغ کو منور کر دیا تھا۔ بھوریا چرن قہقہے لگانے لگا۔ پھر بولا۔
’’اور اب جا مر اس سنسار میں۔ جا دیکھوں آگے تو کیا کرتا ہے، چھوڑوں گا نہیں تجھے پاپی، ہتھیارے تو نے میرے راستے روکے ہیں، میں سنسار کے سارے راستے تجھ پر بند کر دوں گا، چل بھاگ رے یہاں سے اب تو مٹی کا ڈھیر ہے میرے لیے کچھ نہیں رہا۔‘‘
میں گردن جھکائے وہاں سے واپس پلٹ پڑا۔ اندر سے یہ احساس ہو رہا تھا کہ درحقیقت خالی ہو چکا ہوں اور اب کچھ نہیں ہے میرے پاس۔ ایک بار پھر یہ دنیا میرے لیے امتحان گاہ بن گئی تھی اور اس بار میں نے خود کو اس امتحان میں ڈالا تھا، بلاشبہ یہی ہوا تھا یہی سب کچھ ہوا تھا آہ… میں نے اپنے ہاتھوں اپنے منصب گنوا دیئے تھے، یہ میرا گناہ تھا صرف میرا گناہ اس میں کسی کا قصور نہیں تھا، مجھے تو جگہ جگہ سمجھایا گیا تھا، مجھ سے کہا گیا تھا کہ پہلے پھل چکھوں پھر کھانے کو ملے گا۔ بھوریا چرن نے بالکل درست کہا تھا میرا مذہب سچا ہے، انہیں چھوٹ ہے جو کچھ نہیں جانتے لیکن جو واقف ہوں ان پر ذمہ داری ہوتی ہے۔ مجھے بتایا گیا تھا مگر میں نے اپنی خواہشوں کو اوّل قرار دیا، اس بار سارے راستے کھلے ہوئے تھے۔ میں باہر نکل آیا۔ باہر گہری رات چھا چکی تھی نہ جانے کیا بج گیا تھا، چاروں طرف ہُو کا عالم طاری تھا، جگہ جگہ درخت بکھرے ہوئے تھے۔ میں آگے بڑھتا رہا کچھ سوچے بغیر اب تو کچھ سوچنے کی ہمت بھی نہیں تھی۔ کچھ فاصلے پر دریا کا شور ابھر رہا تھا۔ آواز میرے کانوں تک آ رہی تھی مگر احساس کچھ نہیں تھا۔ تھک گیا تو جہاں تھا وہیں لیٹ گیا، وہیں سو گیا، خوب گہری نیند آ گئی تھی۔ صبح کو اس وقت جاگا جب کہیں دور سے اذان کی آواز سنائی دی۔ اس آواز نے اعضاء میں تھرتھری سی پیدا کر دی۔ بے اختیار اٹھ گیا، دماغ کھویا کھویا سا تھا، دل کچھ چاہ رہا تھا، اعضاء کچھ طلب کر رہے تھے مگر کیا… یاد نہیں آ رہا تھا۔ کھڑا ہو گیا اسی جگہ کھڑا ہو گیا، دونوں ہاتھ نیت کے انداز میں بندھ گئے مگر اب اب کیا کروں آہ… اب کیا کروں کچھ یاد نہیں آ رہا تھا، کچھ بھی یاد نہیں آ رہا تھا، بہت کوشش کی مگر سب کچھ بھول گیا تھا، جھکا پھر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر سجدے میں گر پڑا، آنکھوں سے آنسو ابل پڑے، بلک بلک کر رونے لگا، بھول جانے کا غم تھا، یاد کرنا چاہ رہا تھا مگر یادداشت ساتھ چھوڑ چکی تھی، سارے آنسو بہہ گئے، آنکھیں خشک ہو گئیں تو اٹھ کھڑا ہوا، کانوں میں ایک آواز ابھری۔
گیا شیطان مارا ایک سجدے کے نہ کرنے سے
اگر لاکھوں برس سجدے میں سر مارا تو کیا مارا
میری عمر ہی کیا ہے آہ… چند لمحے میری بخشش کا ذریعہ تو نہیں بن سکیں گے مگر یہ زندگی جو ایک سزا ہے، یہ تو میرے لیے مزید گناہوں کا باعث بن جائے گی… مزید گناہ نہیں اور گناہ نہیں اور گناہ نہیں اس سزا کو ختم ہو جانا چاہیے، برائی میرے لیے نہیں ہے، میں برائی کے قابل نہیں ہوں اور گناہ کرنے کے لیے مجھے اس دنیا میں نہیں رہنا چاہیے، مر جانا چاہیے… مجھے مر جانا چاہیے… ہاں مجھے مر جانا چاہیے۔ میں نے وحشت ناک نظروں سے چاروں طرف دیکھا پھر میری سماعت نے مجھے اس شور کی طرف متوجہ کیا جو مجھ سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھا۔ میرے قدم تیزوتند دریا کی طرف بڑھ گئے۔ میں عالم بے خودی میں اس طرف چل پڑا۔ وسیع و عریض چوڑا پاٹ میرے سامنے تھا۔ پانی برق رفتاری سے اپنا سفر طے کر رہا تھا، مٹیالی لہریں جھاگ اڑا رہی تھیں۔ میں دریا میں اتر گیا، آگے اور آگے اور آگے اور پھر پانی نے میرا وزن سنبھال لیا، ایسی پٹخی لگائی کہ سر نیچے، پائوں اوپر ہو گئے، دوسری پٹخنی اور اس کے بعد تاریکی گہری اور پرسکون تاریکی پھر روشنی دھندلی روشنی پھر ایک آواز۔
’’ہل رہا ہے کاکا…‘‘
’’ہل رہا ہے…؟‘‘
’’کراہ بھی رہا ہے۔‘‘
’’ماتھو… ارے دیکھ بٹو… اوکا ہوس آئے رہے۔‘‘
’’آت رہیں کاکا… ابھو آت رہیں۔‘‘
’’اب کا کرت ہے جانکی۔‘‘
’’آنکھیں پٹپٹا رہا ہے۔‘‘
’’ہیں… اب آئی سسروا کو ہوس… اری جانکی دودھ گرم کر لئی ہے کا؟‘‘
’’ہاں کاکا… ہنڈیا چولہے پر رکھی ہے۔‘‘
’’بھر دو کٹورے ماں…وید جی اے ہی کہہ گئے تھے، جاری جلدی کر…‘‘
یہ ساری باتیں سن رہا تھا۔ ہوش میں تھا، سوچ رہا تھا کہ اب کہاں ہوں، یہ بھی یاد آ گیا کہ دریا میں کود کر جان دینا چاہی تھی۔ یہ بھی سمجھ میں آ گیا تھا کہ موت نے قبول نہیں کیا ہے۔ یہ بھی یاد تھا کہ مسعود احمد نام ہے میرا اور بھوریا چرن بھی یاد تھا۔
’’کہاں ہوس آئی کاکا۔‘‘ ایک مردانہ آواز سنائی دی۔
’’نا آئی۔
جانکی ہی بولت رہی۔‘‘ دوسری آواز نے کہا اور میں نے آنکھیں کھول دیں۔ اتنی دیر میں ایک لڑکی بڑا سا کٹورا لیے اندر آ گئی جس سے بھاپ اٹھ رہی تھی۔ نوجوان مجھے دیکھ کر مسکرا دیا پھر بولا۔
’’جائو کاکا دودھ کی کھس بو پڑتے ہی ہوس آ گئی انجائی کو۔ چل ببوا دودھ پی لے۔‘‘ اس نے سہارے سے مجھے اٹھاتے ہوئے کہا۔ سخت بھوکا تھا۔ لڑکی نے کٹورا میرے ہاتھ میں دیتے ہوئے اپنی اوڑھنی کا ایک حصہ گرم کٹورے کے نیچے رکھ دیا۔ باقی اوڑھنی اس کے شانوں پر تھی اور اسے نیچے اس طرح جھکنا پڑا تھا کہ اس کا چہرہ میرے عین سامنے آ گیا تھا۔ دودھ کا گھونٹ لیتے ہوئے میں نے اسے دیکھا سانولا سلونا چہرہ سادہ سے نقوش، انیس بیس سال کی عمر، جوانی کی تمازت سے تپتے ہوئے سانس، کاجل بھری آنکھوں میں دوڑتی زندگی۔ مجھے اپنی طرف دیکھتے پا کر آنکھیں ’’جھکیں‘‘ چہرے کا رنگ بدلا پھر آنکھیں اٹھیں، کڑے انداز میں مجھے دیکھا، پرکھا اور پھر جھک گئیں۔ ہونٹ آہستہ سے کپکپائے جیسے انہوں نے کچھ کہا ہو۔ مگر بے آواز۔ میں کچھ بدحواس ہو گیا مگر گرم دودھ کے دو بڑے گھونٹوں نے سنبھال لیا، آنتیں تک جل گئی تھیں۔
’’دودھ پیوت ہے کہ نا؟‘‘ کاکا پھر بولا۔
’’ہرے سب ڈکوس گئی سسر۔‘‘ نوجوان نے ہنستے ہوئے کہا۔ لڑکی نے جلدی سے کٹورا میرے ہاتھ سے لے کر اپنی اوڑھنی سنبھال لی اور پھر کٹورا لیے باہر نکل گئی۔ میری نظروں نے اس کا تعاقب کیا تھا۔ بہت سی لڑکیاں دیکھی تھیں، شکنتا نے مجھ سے اظہار عشق کیا تھا، کشنا میری دیوانی تھی، یہ لڑکی ان کے مقابلے میں کچھ نہیں تھی مگر نہ جانے دل اس کی طرف مائل کیوں ہو رہا تھا۔ وہ باہر نکل گئی تو اس کی جگہ کا جائزہ لیا، کچی مٹی کی دیواروں سے بنا کمرہ تھا۔ چھت پھونس کے چھپر سے بنی ہوئی تھی۔ تین چارپائیاں کل کائنات تھیں جن میں سے ایک پر ایک بوڑھا شخص بیٹھا تھا، وہ غالباً اندھا تھا، یہی احساس ہوا تھا۔
’’ہاں بھائی ٹیسو رام۔ اب بولو جمنا ماں کا کر رئے تھے۔‘‘ نوجوان نے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’جمنا میں؟‘‘
’’ارے تو اور کا۔ کا اندر مہاراج کے رتھ ماں سیر کر رئے تھے۔‘‘
’’نہیں بس کنارے پر تھا پائوں پھسل گیا۔‘‘
’’بھلے پھسلے ببوا۔ اور ہم نا نکالتے تو…‘‘
’’مر جاتا۔‘‘ میں نے کہا اور ایک بیکس مسکراہٹ میرے ہونٹوں پر پھیل گئی۔ اس نے عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھا۔
’’لیو کاکا۔ ببو مرن لیے گرے تھے جمنا ماں۔‘‘
’’کاہے ٹبؤ۔ جیون بھاری ہو گیا کا۔‘‘
’’ہاں چاچا۔‘‘
’’دکھی لاگو ہو۔ ارے نا تھورے۔ مہمان بنالو اپنا اسے جی بہل جائے تو جان دینا۔‘‘
’’ارے ای کہاں جائے رہے اب کاکا۔ ہم محنت کری ہے اس پر، ایسے کاہے جانے دیں گے سسروا کو۔‘‘
’’بس ٹھیک ہے۔‘‘ بوڑھے نے کہا۔
دھوبیوں کی آبادی تھی۔ جمنا گھاٹ پر آباد تھی۔ بستی کا نام تھا پوریا۔ کوئی سو گھر تھے پوری بستی میں۔ بوڑھے شخص کا نام راگھو تھا۔ بیٹے کا ناتھو اور لڑکی کا نام جانکی تھا۔ ناتھو گھاٹ پر چھیؤرام کر رہا تھا کہ میں بہتا ہوا اس کے سامنے سے گزرا اور اس نے مجھے نکال لیا۔ جانکی کی نگرانی میں پیٹھ پر لادھ کر مجھے اپنے جھونپڑے میں لے آیا۔ کچھ فاصلے پر ایک بڑا شہر تھا جہاں سے یہ لوگ بیل گاڑیوں پر گھروں کے کپڑے دھونے لاتے تھے اور پھر وقت پر انہیں ان کے مالکوں کے پاس پہنچا دیا کرتے تھے۔ سادہ سی زندگی۔ جو روکھا سوکھا ملا کھا لیا اور خوش۔ کیا عجیب بات ہے بس اسے تقدیر ہی کہا جا سکتا ہے۔ نمود ہوتی ہے اور کوئی طلب نہیں ہوتی کہ کون کہاں پیدا ہو۔ لیکن اس کے بعد کی کہانیاں انوکھی ہوتی ہیں۔ سادگی کی حد یہ تھی کہ مجھ سے میرا نام تک نہ پوچھا گیا اور ناتھو نے مجھے ٹیسو کہا تو سب اس نام سے پکارنے لگے۔ یہ بستی بڑی اچھی لگی تھی۔ میں یہاں رہ پڑا۔ کہاں جاتا، کیا طلب کرتا جو مانگا وہ گناہ بن گیا۔ اور اب یہ سوچا تھا کہ کچھ نہیں مانگوں گا جو ملے گا قبول کر لوں گا۔ بھول جائوں گا سب کو۔ کوئی فائدہ نہیں کسی کو یاد کرنے سے، وہ بھی مجھے بھول گئے ہوںگے۔ صبر کر لیا ہو گا، مجھے خدا کرے محمود اپنی کوشش میں کامیاب ہو جائے، خدا کرے اس کا ماں باپ سے رابطہ ہو جائے۔ خدا کرے میری بہن شمسہ اپنا مستقبل پا لے، میں تو ان کا قاتل تھا۔ اب کیا کروں گا ان کے پاس جا کر۔ جو چھن گیا تھا وہ نہیں ملا تھا۔ آہ جب بھی وقت ملتا جب دوسروں کی نظروں سے محفوظ ہوتا قبلہ رو کھڑا ہو جاتا، ہاتھ باندھ لیتا پھر سجدے میں چلا جاتا لیکن جو چھن گیا تھا یاد نہ آتا۔ ایسے لمحوں میں ذہن سو جاتا تھا۔
’’راگھو بابا۔ میں کپڑے دھوئوں گا۔‘‘
’’کاہے بٹؤ؟‘‘
’’اسی بستی میں رہوں گا میں۔‘‘
’’رہو بٹؤ!‘‘
’’تمہارا کھاتا رہوں۔‘‘
’’سو کا ہے۔‘‘
’’ٹھیک تو کہے ہے کاکا۔ دئی مٹی ہو جاوے گی۔ کام کرنے دے اسے۔‘‘ ناتھو نے کہا اور وہ میرا استاد بن گیا۔ میں اس کے ساتھ کپڑے دھونے لگا۔ اس کا کام بڑھ گیا تھا۔ ایک دن جانکی نے شرماتے ہوئے کہا۔
’’کچھ معلوم ہے تجھے ٹیسوا۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’کاکا اور بھیا ہمارے بیاہ کی بات کر رہے تھے۔ کاکا کہہ رہا تھا کہ چھورا بڑھیا ہے، کام بھی کرے ہے۔ جانکی کے ساتھ پھیرے کرا دیں اس کے چوکھا رہے گا۔‘‘
میرے ہاتھ رک گئے۔ میں عجیب سی نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔ جانکی مجھے اچھی لگتی تھی، اس کی قربت سے ایک نشہ سا چھایا رہتا مجھ پر۔ وہ بھی میرا بہت خیال رکھتی تھی، مجھے چاہتی تھی جس کا صاف اظہار ہوتا تھا مگر وہ میری ہم مذہب نہیں تھی۔ کچھ بھی تھا، مجھے اپنا نام یاد تھا، اپنا مذہب یاد تھا اور مجھے اس سے محبت تھی۔ جو کچھ مجھ سے چھن گیا تھا وہ میری بدقسمتی تھی لیکن باقی سب… کیا… کیا خود کو بھول جائوں۔
جانکی نے کہا۔ ’’کیا سوچنے لگا۔‘‘
’’کچھ نہیں جانکی۔‘‘
’’اپنے یاد آ رہے ہوں گے۔‘‘
’’ہاں!‘‘
’’سب کچھ بھلا دوں گی تجھے۔ سب کچھ۔‘‘ میں نے کوئی جواب نہیں دیا مگر میں بہت بے چین ہو گیا تھا۔ اس رات میں بہت بے کل تھا۔ ساری رات بے کلی میں گزری۔ صبح کو اٹھا۔ دل کی بے چینی کسی طور دور نہیں ہو رہی تھی۔ ایک گوشہ تلاش کیا اور بے کسی سے کھڑا ہو گیا، ہاتھ باندھ لیے پھر سجدے میں گر گیا۔ بہت دیر گزر گئی، چہرہ آنسوئوں سے بھیگا ہوا تھا۔ اٹھا تو… ناتھو پر نظر پڑی۔ وہ اچنبھے سے مجھے گھور رہا تھا۔ اس کے منہ سے سرسراتی آواز نکلی۔ ’’کیا تو مسلمان ہے؟‘‘
پورا وجود مجسم آواز بن گیا۔ رُواں رُواں پکارنے لگا۔ ’’ہاں، ہاں، ہاں۔‘‘ اور یہ کہتے ہوئے جو سکون ملا تھا اس کی قیمت کائنات کے سارے خزانے نہیں تھے۔ یہ الفاظ میری گمشدہ بینائی تھے۔
’’مسلمان ہے تو۔‘‘ ناتھو نے اس بار کڑک کر پوچھا۔
’’ہاں میں مسلمان ہوں۔ میں مسلمان ہوں۔‘‘ میں نے عجیب سی کیفیت میں کہا۔
’’ہم کا دھوکا کاہے دیت رہے تے۔ ہمارے سامنے ٹیسو کاہے بنا رہے۔‘‘
’’نہیں ناتھو۔ نہیں۔ میں کچھ نہیں بنا۔ میں تو مصیبت کا مارا ہوں ناتھو میں نے تو… میں نے تو…‘‘
’’ہمار بہنیا سے بیاہ کرنے لاگا تھا تے۔ ارے ہم سب کی آنکھن ما دُھول جھونک رہے رے۔‘‘
’’ناتھو، تم لوگوں نے جمنا سے مجھے اس وقت نکالا جب میں بیہوش تھا۔ میں تو خود اپنی زندگی ختم کرنے کے لیے دریا میں گرا تھا، میں کسی اور کو اپنی زندگی میں شامل کیسے کر سکتا ہوں۔ تمہیں معلوم ہے ناتھو، تم جانتے ہو کہ مجھے اس بارے میں کچھ نہیں معلوم تھا۔ کل جانکی نے مجھے بتایا کہ تم لوگ ایسا سوچ رہے ہو۔ میں ایسا کبھی نہ کرتا۔ اپنے اُوپر احسان کرنے والوں کو میں کبھی دھوکا نہ دیتا۔ اگر میں تمہیں حقیقت نہ بتاتا تو کم از کم یہاں سے چلا جاتا۔‘‘
’’اور جانکی سے بیاہ نہ کرتا۔‘‘
’’کبھی نہیں ناتھو، کبھی نہیں۔‘‘ ناتھو میرا چہرہ دیکھتا رہا۔ وہ ان سچائیوں پر غور کر رہا تھا، بات اس کی سمجھ میں آ گئی تھی۔ اس نے پریشانی سے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
’’بڑی بکٹ بات ہوگئی رہے ٹیسوا۔ جانکی تیرے سپنے دیکھن لاگی رہے اس نے اپنی سکھیوں کو بھی بتا دیا ہے۔ اب بات برادری ما نکل جئی ہے تو ہم پر کرپا کر بیرا۔ کرپا کر ہم پر رے۔ تو یہاں سے چلا جا، چپ چاپ چلا جا۔ سب سوچیں گے کہ تے بھاگ گیا۔ ہم کہہ دئی ہے کہ تے ہمارے روپے لے کر بھاگ گیا۔ ہماری عجت بچ جئی ہے۔ لوگ تو کا برا بھلا کہہ کر کھاموس ہو جئی ہے۔ تیرا کچھ نا بگڑے گا۔ ہماری مان لے، ہماری عجت بچا لے بیرا۔‘‘ ناتھو نے ہاتھ جوڑ دیئے۔
’’میں جا رہا ہوں۔ ابھی جا رہا ہوں ناتھو میرے بھائی۔ تیری عزت مجھے زندگی سے زیادہ پیاری ہے۔ ابھی چلا جاتا ہوں میں۔ ابھی زیادہ وقت بھی نہیں گزرا ہے۔‘‘ میں نے اس کے جڑے ہوئے ہاتھ الگ کئے اور پھر وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ وہ اپنی جگہ ساکت کھڑا تھا۔ میں نے پلٹ کر اسے نہیں دیکھا تھا۔
بستی بہت چھوٹی تھی۔ میں آخری مکان سے بھی گزر گیا، آگے کھیت بکھرے ہوئے تھے اِکّا دُکّا لوگ نظر آ رہے تھے کسی نے توجہ نہیں دی۔ میں نے رفتار تیز رکھی تھی کسی رُخ کا تعین نہیں کیا تھا۔ رُخ کدھر کرتا، کہاں جاتا۔ بس چل پڑا تھا، ناتھو اور دُوسرے دھوبی کسی بستی کا تذکرہ کرتے تھے کہتے تھے کوئی بڑا شہر ہے جہاں سے وہ کپڑے لاتے ہیں اور دھو کر ان کے مالکوں کو پہنچا دیتے ہیں۔ مگر میں نے کبھی اس شہر کے بارے میں کسی سے نہیں پوچھا تھا۔ اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ چلتا رہا اس وقت صرف ناتھو رام کی عزت پیش نگاہ تھی اور کچھ نہیں سوچ رہا تھا۔ چلتے چلتے دوپہر ہوگئی۔ اب ویران جنگلوں کے سوا کچھ نہیں تھا، درخت نظر آ رہے تھے، پرندے پرواز کر رہے تھے، آسمان شفاف تھا، دُھوپ پھیلی ہوئی تھی۔ جب پیروں نے جواب دے دیا تو ایک درخت کے نیچے پناہ لی اور زمین پر بیٹھ کر آنکھیں بند کرلیں۔ نیند تو نہیں آئی تھی البتہ نقاہت نے غنودگی طاری کر دی تھی، بدن کو سکون ملا۔ پچھلے کچھ دن آرام سے گزارے تھے اس لیے برداشت کی قوت میں کمی نہیں ہوئی تھی۔ سورج ڈھلے اُٹھا اور پھر چل پڑا۔ شام جھلک آئی اور پھر میں نے سیاہ رنگ کی ایک عمارت دیکھی۔ ٹوٹی دیواریں، بکھری ہوئی زمینوں کے ڈھیر، ایک بڑا سا گنبد۔ قدم اسی جانب بڑھ گئے۔ کچھ دیر کے بعد وہاں پہنچ گیا۔ کوئی قدیم مسجد تھی۔ سیڑھیاں تک سلامت نہیں تھیں۔ بڑا سا صحن تھا جو میری طرح اُدھڑا ہوا تھا۔ چاروں طرف پتّے بکھرے
تھے۔ دل میں عقیدت کا ایک جذبہ اُبھر آیا۔ پیار اُبھر آیا یہ سب مجھ سے رُوٹھے ہوئے تھے۔ گناہ گار تو تھا میں لیکن… لیکن مجھے پیار تھا اس احساس سے پیار تھا کہ میں مسلمان ہوں۔ کوئی ایسی چیز نظر نہیں آئی جس سے یہ صحن صاف کرتا۔ قمیض اُتاری اورصحن کی صفائی میں مصروف ہو گیا۔ وسیع و عریض صحن کو صاف کرتے کرتے اتنی دیر ہوگئی کہ رات ہوگئی۔ سوکھے پتّے سمیٹ کر میں نے مسجد کے پچھلے حصے میں پھینکے اور وہاں ایسے پتّوں کے انبار دیکھ کر حیران رہ گیا۔ یوں لگا جیسے کوئی باقاعدگی سے صحن صاف کر کے یہ پتّے یہاں پھینکتا ہو۔ نہ جانے کون، کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ زیادہ غور بھی نہیں کیا۔ اب کوئی کام نہیں تھا۔ سیڑھیوں کے پاس آ کر ایک جگہ صاف کی اور لیٹ گیا۔ بھوک لگ رہی تھی، دن بھر پیاس کی شدت بھی رہی تھی کہیں سے پانی بھی نہیں پیا تھا۔ بس چلتا رہا تھا اور یہاں آ کر اس مسجد کے پاس کام میں مصروف ہوگیا تھا۔ بھوک پیاس بے شک تھی لیکن اسے رفع کرنے کا کوئی ذریعہ سامنے نہیں آیا تھا۔ لیٹے لیٹے ایک بار پھر غنودگی کی سی کیفیت طاری ہوگئی اور شاید سو گیا۔ نجانے کتنا وقت گزرا تھا عالم ہوش میں نہیں تھا کہ دفعتاً کچھ آہٹیں سنائی دیں۔ شاید ان آہٹوں سے نہیں جاگا تھا کہ بلکہ کسی نے پائوں پکڑ کر جھنجھوڑا بھی تھا۔ چونک پڑا، اِدھر اُدھر دیکھا۔ تین چار آدمی نزدیک کھڑے ہوئے تھے۔ چاند نکلا ہوا تھا اور مسجد کا پورا ماحول روشن تھا ان میں سے ایک نے کہا۔
’’یہ سونے کی جگہ نہیں ہے میاں صاحب، یہاں کیوں سو رہے ہو، راستہ ہے گزر گاہ ہے۔‘‘ میں ہڑبڑا کر کھڑا ہو گیا اس ویرانے میں اس وقت مسجد میں آنے والے کون ہیں، جن لوگوں نے مجھے جگایا تھا، وہ آگے بڑھ گئے تھے۔ میں ادھر اُدھر نگاہیں دوڑانے لگا۔ سفید لباسوں میں ملبوس پاکیزہ نورانی چہرے والے بزرگ، نوجوان اور چھوٹی عمر کے لوگ جوق دَر جوق مسجد کی جانب آ رہے تھے اور اندر مسجد میں بڑا اہتمام تھا، میں پُرشوق انداز میں آگے بڑھ گیا۔ اس وقت یہ اجتماع کیوں ہوا ہے۔ یہ تجسس میرے دل میں جاگ اُٹھا تھا۔ لوگ صفیں بنا کر بیٹھے تھے، میں بھی ایک سمت بیٹھ گیا۔ سامنے ہی ایک منبر لگایا گیا تھا، پہلے یہاں موجود نہیں تھا، غالباً یہاں آنے والے اپنے ساتھ لائے تھے۔ میں نے قریب بیٹھے ہوئے ایک نوجوان آدمی سے جس کی داڑھی سیاہ تھی اور رنگ سفید تھا مدھم لہجے میں پوچھا۔
’’یہاں کیا ہو رہا ہے؟‘‘ اس نے چونک کر مجھے دیکھا اور بولا۔
’’درس، کیا تم درس میں شرکت کے لیے نہیں آئے؟‘‘ میں نے نہ سمجھنے والے انداز میں گردن ہلا دی تھی، پھر میں نے ایک معمر شخص کو دیکھا، ٹخنوں تک چغہ پہنا ہوا تھا۔ سر پر سفید عمامہ تھا۔ براق سفید داڑھی جو سینے تک لٹکی ہوئی تھی۔ بھنویں تک سفید تھیں، وہ منبر کی جانب بڑھے اور پھر منبر پر جا بیٹھے اور اس کے بعد انہوں نے وہاں موجود تمام لوگوں کو سلام کیا سب نے بلند آواز میں جواب دیا اور معمر بزرگ کہنے لگے۔
’’اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آج تو مسجد پوری بھری ہوئی ہے سبھی آ گئے ہیں۔‘‘
’’جی امام صاحب، آج ایک عجیب واقعہ بھی ہوا ہے۔‘‘ ایک شخص نے کہا۔
’’کیا؟‘‘
’’ہمارے آنے سے پہلے ہی کسی نے مسجد کا صحن صاف کر دیا ہے۔ جب ہم یہاں پہنچے تو صحن صاف ملا تھا۔‘‘
’’ہوگا کوئی بندئہ خدا، خدا کے بندے کہاں موجود نہیں ہوتے۔‘‘
’’ایک اجنبی شخص کو ہم نے سیڑھیوں کے پاس پڑے پایا، سو رہا تھا۔ غالباً اسی شخص نے صحن صاف کیا ہوگا۔‘‘
’’کہاں ہے وہ…؟‘‘ جن بزرگ کو امام صاحب کہہ کر پکارا گیا تھا انہوں نے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا اور پھر کسی کے بتائے بغیر ان کی نگاہیں میری جانب اُٹھ گئیں۔ فاصلہ کافی تھا لیکن مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ان آنکھوں سے روشنی کی ایک لکیر نکل کر آگے بڑھی ہو اور مجھ تک پہنچ گئی ہو۔ اس روشنی نے میرا احاطہ کرلیا تھا اور اس کے بعد مجھے امام صاحب کی گونج دار آواز سنائی دی تھی۔
’’آگے آئو۔ کون ہو تم؟‘‘ مجھے یوں لگا جیسے کچھ نادیدہ ہاتھوں نے میری بغلوں میں ہاتھ ڈال کر مجھے اُٹھا کر کھڑا کیا ہو۔ قدم بھی خودبخود ہی آگے بڑھے تھے۔ درمیان میں آنے والوں نے مجھے امام صاحب تک پہنچنے کا راستہ دیا تھا اور میں وہاں تک پہنچ گیا تھا۔ جونہی میں امام صاحب کے قریب پہنچا، انہوں نے عمامے کا لٹکتا ہوا حصہ بائیں ہاتھ میں پکڑ کر ناک پر رکھ لیا۔ پیشانی پر ناگواری کی شکنیں نمودار ہوگئی تھیں۔ انہوں نے کڑی نگاہوں سے مجھے گھورتے ہوئے کہا۔
’’کون ہے تو، اور یہاں کیا کر رہا ہے؟‘‘ میں نے بولنے کی کوشش کی لیکن آواز نہیں نکل سکی تھی، امام صاحب کہنے لگے۔
’’کیا تو نے اس مسجد کا صحن صاف کیا تھا؟‘‘ میرے منہ سے تو آواز نہ نکل سکی البتہ گردن ہل گئی تھی۔
’’کیا تجھے علم نہیں ہے کہ یہ مسلمانوں کی مسجد ہے؟‘‘ میں نے امام صاحب کو دیکھا ان کی نگاہیں مجھ پر گڑھی ہوئی تھیں میری آنکھوں میں نجانے کیا کیا کیفیات تھیں، وہ چونک کر بولے۔
’’مسلمان ہے تو…؟‘‘
’’ہاں، ہاں…‘‘ میرے حلق سے جیسے رُکی ہوئی بے شمار آوازیں نکل گئیں۔
’’مگر تیرے جسم سے تو بدبو اُٹھ رہی ہے، ایک ایسی بدبو جو کبھی کسی مسلمان کے جسم میں نہیں ہوتی۔ ایسا کیسے ہوا، نہیں نوجوان تو صاحب ایمان نہیں ہے، یہ بدبو جو تیرے بدن سے اُٹھ رہی ہے، کسی ایمان والے کے جسم سے نہیں اُٹھ سکتی، یہ تو ، یہ تو غلاظت کی بو ہے، براہ کرم صحن مسجد سے باہر نکل جا، یہاں درس الٰہی ہوگا اور اس کے بعد نماز تہجد، تجھ جیسے کسی بے ایمان شخص کوہم اپنے درمیان جگہ نہیں دے سکتے۔ براہ کرم باہر نکل جا اس سے پہلے کہ تجھے مسجد کے صحن کو ناپاک کرنے کی سزا دی جائے۔ یہ سزا تجھے صرف اس لیے نہیں دی جائے گی کہ تو نے کسی بھی جذبے کے تحت سہی، صحن مسجد کو صاف کیا ہے مگر تجھے اپنے درمیان جگہ نہیں دیں گے ہم۔‘‘ میں بلک بلک کر رو پڑا میں نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر کہا۔
’’سارے زمانے کا ٹھکرایا ہوا ہوں میں، میں ایک بدنصیب انسان ہوں، مجھے سہارا چاہیے، میں قصوروار ہوں، لاکھوں گناہ کیے ہیں میں نے، تائب ہو رہا ہوں۔ میری مدد کرو، خدا کے لیے میری مدد کرو۔‘‘ تمام لوگ اپنی اپنی جگہ سے کھڑے ہوگئے تھے کسی نے چیخ کر کہا۔
’’اس ملحد کو دھکے دے کر مسجد سے باہر نکال دو، اس بدنما شخص کو مسجد میں داخل ہونے کی سزا دو، آخر یہ یہاں آیا کیوں ہے نکالو اسے، نکالو اسے۔‘‘
امام صاحب نے ہاتھ اُٹھا کر کہا۔ ’’ایمان والو! ایمان والوں جیسی باتیں کرو، وہ جو کچھ بھی ہے اس نے کوئی دُشمنی نہیں کی ہے، کوئی بھولے سے اگر خدا کے گھر میں داخل ہوگیا ہے تو خدا کے گھر سے اسے دھکے دے کر نہیں نکالا جا سکتا، کیسی باتیں کر رہے ہو تم لوگ؟‘‘
چاروں طرف سناٹا چھا گیا، لوگ خاموش ہوگئے کسی کے منہ سے ہلکی سی آواز بھی نہیں نکلی، امام صاحب نے کہا۔
’’اور تو کہتا ہے کہ تو مسلمان ہے، مگر کیا یہ بتا سکے گا کہ یہ بدبو تیرے جسم میں کیسے داخل ہوئی؟‘‘
’’یہ میرے گناہوں کا پھل ہے۔ یہ میرے گناہوں کا پھل ہے، میری مدد کرو، میری مدد کرو۔‘‘ میں گڑگڑا کر بولا۔
’’گناہوں کے لیے توبہ کے دروازے کھلے ہوئے ہیں، مگر یہ کیسا گناہ ہے جس سے تیرے جسم میں کفر کی بدبو پھیل گئی ہے۔ خدا کے لیے ہمارے ان لمحات کو ضائع نہ کر۔ ہم نے اپنے طور پر جو انتظام کیا ہے اور جس مقصد کے لیے کیا ہے ہمیں اس کی تکمیل کرنے دے تو باہر جا، تیرے لیے توبہ کے دروازے کھلے ہوئے ہیں اور یہ دروازے کبھی بند نہیں ہوتے۔ جب بھی بارگاہ ایزدی میں تیری توبہ قبول ہوگئی تجھے تیری مشکلات کا حل مل جائے گا لیکن تو جا یہاں سے۔ یہاں سے چلا جا، فوراً چلا جا۔ ہم اپنی عبادت میں تیری مداخلت پسند نہیں کرتے، اسے راستہ دو…‘‘ امام صاحب نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ اب مجھے ان کے درمیان جگہ نہیں ملے گی۔ پھر یہاں رُکنا بے مقصد ہی ہے۔ نڈھال اور مضمحل قدموں سے وہاں سے واپس پلٹا تو امام صاحب نے کہا۔
’’سیدھے راستے پر چلے جانا کافی دُور جا کر تجھے ایک درخت نظر آئے گا اس درخت میں پھل ہوں گے۔ ان پھلوں سے تو اپنی شکم سیری کر سکتا ہے بس اس سے زیادہ اور تیری کوئی مدد نہیں کی جا سکتی۔‘‘ میں نے کچھ نہ سنا نجانے کیسے کیسے خیالات دِل میں آ رہے تھے، جو کچھ ہوا تھا اس پر غور بھی نہیں کر پا رہا تھا۔ بس یہ احساس تھا کہ میرے جسم سے ایک ایسی بو اُٹھنے لگی جو کسی مسلمان کے جسم میں کبھی نہیں پیدا ہوتی اور اس بو کی وجہ میں جانتا تھا، بھوریا چرن نے میرے وجود میں کفر اُتار دیا تھا۔ یہ کفر میرے دل پر تو اثرانداز نہیں ہو سکتا تھا، میرے دماغ تک نہیں پہنچ سکا تھا لیکن جسم غلیظ ہوگیا تھا اور بقول امام صاحب اس جسم سے وہ بُو اُٹھ رہی تھی جو ان کے لیے ناقابل برداشت تھی، آہ جو کچھ ہوا ہے، جو کچھ بھی ہوا ہے اس میں کافی حد تک میرا قصور ہے بلکہ قصور ہی میرا ہے، بلاشبہ انسان کو اس کی حیثیت سے زیادہ مل جائے تو وہ بھول جاتا ہے اپنے آپ کو کھو جاتا ہے، لیکن ایک لمحہ صرف ایک لمحہ ایسا آتا ہے جس کے بعد ساری عمر کی توبہ بھی ناکافی ثابت ہوتی ہے، جو ہوگیا تھا وہ ہو گیا تھا، بے عزت کر کے ہر جگہ سے نکالا جا رہا تھا، پوریا بستی سے بھی اور اب اس مسجد سے بھی، آہ یہ سب کچھ میرے لیے ازحد ضروری تھا، گناہوں کی سزا میں جس قدر تذلیل ہو کم ہے۔ وہاں سے بھی چل پڑا کوئی منزل تو تھی نہیں بس چلتا رہا اور پھر کسی شہری آبادی کے آثار نظر آئے تھے، اُجالا پھیل رہا تھا۔ قدم اس طرف بڑھ گئے بستی کے پہلے مکان سے سنکھ بجنے کی آواز سنائی دی، اس کے بعد پیتل کا گھنٹہ کئی بار بجا اور پھر ایک موٹی بھدّی آواز سنائی دی۔
بھجن قسم کی کوئی چیز تھی، لیکن اس کے بول بڑے دل ہلا دینے والے تھے اور ان کا مفہوم میری سمجھ میں آ رہا تھا۔
جب تک ہنس ریو چولا میں، چولا جب تک بنوریو، (جسم میں جب تک رُوح رہی، جسم برقرار رہا)
اڑگیو ہنس رہ گئی ماٹی بولن ہارو کدر گیو، (رُوح جسم سے نکل گئی تو بس مٹی کا بدن رہ جاتا ہے، اور جب تک چراغ میں تیل رہتا ہے چراغ جلتا رہتا ہے، تیل ختم ہوا چراغ کی بتی جل گئی، تب پھر اس روشنی کو پیدا کرنے والا کون ہو سکتا ہے؟)
بھجن کے ان الفاظ نے ذہن کے نجانے کون سے گوشوں کو چھو لیا تھا۔ دیر تک وہیں
کھڑا ان الفاظ پر غور کرتا رہا جب گردن گھمائی تو اُوپر سے برہنہ جسم کے مالک، دھوتی باندھے ہوئے، ماتھے پر تلک لگائے، ایک بھاری بدن کے شخص کو دیکھا، چہرے پر شوخی سی چھائی ہوئی تھی، دونوں ہاتھ کمر پر رکھے مجھے گھور رہا تھا، مجھ سے نگاہ ملی تو گردن مٹکاتے ہوئے بولا۔
’’آج بھی رہ گئے مہاراج، آج بھی کامیابی نہیں ہوئی تمہیں۔‘‘
’’جی!‘‘ میں نے حیران نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’بھینس کھولنے آئے تھے نا پنڈت کاشی رام کی، ارے بہت دن سے تم ہماری بھینس کی تاک میں ہو اور ہم تمہاری تاک میں، آج ملاپ ہو ہی گیا، ارے دیا کرو مہاراج دیا کرو۔ غریب آدمی ہیں، اس بھینس کے علاوہ اس سنسار میں اپنا کوئی نہیں ہے، ارے اسی کے دُودھ پر اپنا جیون گزار رہے ہیں، کیا کرو گے اسے لے جا کر۔‘‘ ہنسی آ گئی، میں نے آہستہ سے کہا۔
’’نہیں پنڈت جی، میں نے تو آپ کی بھینس دیکھی بھی نہیں بھلا اسے چرانے کا خیال کیسے آتا میرے دل میں۔‘‘
’’تو پھر کیا یہاں پوجا کررہے ہو کھڑے ہوئے۔‘‘ وہ کسی قدر طنزیہ لہجے میں بولا۔
’’آپ بھجن گا رہے تھے، اسے سننے کھڑا ہوگیا تھا۔‘‘
’’ارے ارے ارے ، بھجن سننا ہے تو بیٹھ کر سنو بھیّا، ایسے کیوں کھڑے ہو، جیسے بھینس چرانے آئے ہو، آئو آئو تمہیں اور بھی بہت سے بھجن سنائیں گے، ایک تم ہو کہ ہمارا بھجن سن کر چلتے چلتے رُک گئے اور ایک وہ ہے جو کہتی ہے کہ بھینس کی اور ہماری آواز میں کوئی فرق ہی نہیں ہے، ذرا آئو بتائو اسے، کیا بھجن گاتے ہیں ہم‘‘ اس نے آگے بڑھ کر میرا ہاتھ پکڑا اور احاطے سے اندر لے گیا۔ چھوٹا سا مکان تھا بڑا سا دروازہ، اسی چھوٹے سے احاطے کے ایک گوشے میں بھینس بندھی ہوئی تھی، اس کے آگے کھانے پینے کا سامان پڑا ہوا تھا، ایک طرف بانوں سے بنی ہوئی جھلنگا چارپائی جو بیٹھنے کے لیے تھی اور کاشی رام جی نے مجھے اسی چارپائی پر بٹھا دیا اور خود مجھ سے کچھ فاصلے پر پتھر سے بنی ہوئی ایک سل پر بیٹھ گئے اور اس کے بعد انہوں نے لہک لہک کر پھر سے اپنا بھجن شروع کر دیا۔ کافی زوردار آواز میں گا رہے تھے، آواز میں ذرّہ برابر دلکشی نہیں تھی لیکن بول مست کر دینے والے تھے پھرکاشی رام جی اس وقت چپ ہوئے، جب اندر سے ایک دھاڑ سنائی دی۔
’’کسے پکڑ لائے تم صبح ہی صبح۔ اور کیوں بھینس کی طرح ڈکرائے جارہے ہو، میں کہتی ہوں تمہاری کھوپڑی بالکل ہی خراب ہوگئی ہے… ارے تو کون ہے رے؟‘‘ میں نے اور کاشی رام دونوں ہی نے چونک کر اس بھیانک آواز کو سنا تھا اور گردن موڑ کر دیکھا تھا، چہرہ تو اتنا بھیانک نہیں تھا، لیکن آواز اور جسامت خوفزدہ کر دینے والی تھی، سفید دھوتی باندھے، ماتھے پر تلک لگائے، آنکھیں نکالے کھڑی، وہ ہم دونوں کو گھور رہی تھی۔ کاشی رام اُچھل کر کھڑے ہوگئے اور خاتون آگے بڑھ کر ہمارے سامنے پہنچ گئیں، پھر ایک پوز بنا کر دونوں ہاتھ کمر پر رکھے اور باری باری ہم دونوں کو گھورتے ہوئے بولیں۔
’’یہ تم دونوں صبح ہی صبح کیا کر رہے ہو؟‘‘
’’ارے وہ، دیورانی، دیورانی جی، یہ بے چارہ مسافر ہے، بھجن سن کر کھڑا ہوگیا تھا کہنے لگا کہ من کھنچ رہا ہے، یہ بھجن سن کر، اب سب تیرے جیسے ہی تو نہیں ہوتے کہ کاشی رام کی آواز پسند ہی نہ آئے اب اس سے پوچھ کیا حال ہوا ہے اس کا میرا بھجن سن کر۔‘‘
’’اور جو حال میں کروں گی اس کا وہ کون دیکھے گا پنڈت جی۔‘‘ خاتون نے کہا اور اِدھر اور اُدھر کوئی چیز تلاش کرنے لگی، اصولاً تو مجھے بھاگ جانا چاہیے تھا، لیکن کاشی رام جی میرے سامنے آ گئے۔
’’دیکھو دیومتی، گھر کی بات گھر تک رہنی چاہیے، بے چارہ باہر سے آیا ہے، کیا سوچے گا ہمارے بارے میں۔ ارے پربھو بھیّا یہ دیومتی جی ہیں دیورانی، پرنام کرو انہیں۔ کہنے کو تو ہماری دھرم پتنی ہیں، مگر… مگر اصل میں یہ ہمارے دھرم پتی ہیں، سمجھ رہے ہو نا، ارے پرنام کر لو انہیں پرنام کرو۔‘‘
’’کون ہو تم، کیوں آئے ہو یہاں؟‘‘
’’بس وہ دیوی جی، میں، میں۔‘‘
’’تو اور کیا، صورت سے نہیں لگتا تمہیں، کچھ شرم کرو دیومتی، بھگوان نے صبح ہی صبح تمہارے گھر مہمان بھیجا اور تم اس کے ساتھ یہ سلوک کر رہی ہو۔‘‘
’’اور تم بڑا اچھا سلوک کر رہے ہو اس کے ساتھ اپنی پھٹے ڈھول جیسی آواز سے اسے بھجن سنائے جا رہے ہو، کاشی رام جی بھینس نے دُودھ دینا چھوڑ دیا ہے، جب سے تم نے یہ بھجن وجن گانے شروع کیے ہیں۔‘‘
’’ہرے رام ہرے رام، سن رہے ہو پربھو بھیّا، بھینس نے دُودھ دینا چھوڑ دیا ہے۔ اچھا اب تو جا، زیادہ باتیں نہیں کرتے، پتنی ہے، پتنی ہی رہ، میری ماتا بننے کی کوشش مت کر جا مہمان کے لیے بھوجن تیار کر، اری جاتی ہے یا نہیں۔‘‘ کاشی رام جی غرّائے اور خاتون کچھ ڈھیلی پڑ گئیں، اس کے بعد مڑیں اور پائوں پٹختی ہوئی اندر چلی گئیں۔ کاشی رام انہیں جاتے دیکھ رہے تھے۔ پھر انہوں نے رازداری سے کہا۔
’’ایسا بھی کبھی کبھی ہی ہوتا ہے، پتا نہیں کیوں تم بتا سکتے ہو کہ اس وقت میرے چہرے پر کیسے تاثرات تھے؟‘‘ کاشی رام کا انداز عجیب سا تھا، میں کچھ نہیں سمجھ پایا تھا، میں نے آہستہ سے کہا۔
’’سمجھا نہیں کاشی رام جی۔‘‘
’’ارے بھائی یہ دیومتی ہے میری دھرم پتنی، مگر دیومتی ہی نہیں دیونی بھی ہے، تم نے دیکھا، ایک ہاتھ کسی پر پڑ جائے تو بھگوان کی سوگند گھنٹوں بیٹھا گال سہلائے، وہ تو کبھی کبھی میری دھونس میں آ جاتی ہے، پر کبھی کبھی ہی ایسا ہوتا ہے، اس سمے بھی ایسا ہی ہوا ہے، میں یہی تو پوچھ رہا تھا تم سے کہ میں نے کیسا چہرہ بنایا تھا جس کی وجہ سے یہ ڈر کر اندر چلی گئی، ایسا کم ہی ہوتا ہے، ارے بیٹھو، بس اب سب ٹھیک ہوگیا ہے، اب ہمت نہیں پڑے گی اس کی، تو تمہیں میرا بھجن پسند آیا؟‘‘
’’ہاں کاشی رام جی۔‘‘
’’بھگوان تمہیں سکھی رکھے، کچھ دن ہمارے مہمان رہو، ارے لیکن یہ صبح ہی صبح تم آئے کہاں سے ہو؟‘‘
’’مسافر ہوں، بس اس بستی میں نکل آیا، دراصل یہاں نوکری کی تلاش میں آیا ہوں، کچھ کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’نوکری… کیسی نوکری؟‘‘
’’صرف ایسی نوکری کاشی رام جی، جس میں دو روٹیاں اور بدن ڈھکنے کے لیے لباس مل جائے…‘‘
’’لو تو پھر تم کون سی غلط جگہ آئے، سیدھے نوکری کے پاس چلے آئے… نوکری مل گئی تمہیں۔‘‘ کاشی رام جی بولے۔
’’جی…؟‘‘ میں نے حیرانی سے منہ پھاڑ کر کہا۔
’’جی…‘‘ کاشی رام نے گردن جھکا کر مسخرے پن سے کہا۔
’’کاشی رام جی اگر… اگر مجھے واقعی نوکری مل جائے تو میں ہر قسم کی نوکری کر لوں گا۔‘‘
’’دیکھ پربھو بھیّا بات اصل میں یہ ہے کہ ہم تو بڑے اچھے آدمی ہیں لیکن عورتیں عام طور سے بُری ہوتی ہیں اور دھرم پتنیاں بن کر تو وہ بہت ہی بُری ہو جاتی ہیں، بس یوں سمجھ لو کہ دھرم پتنی بن کر دھرم کے علاوہ اور سب کچھ ہوتا ہے ان کے پاس، تو ایسا کرتے ہیں پربھو جی کہ ہم تمہیں نوکر کہہ کر اپنے گھر میں رکھ لیتے ہیں، روٹی اور کپڑے کی تو بالکل چنتا مت کرنا۔ خرچ کے پیسے بھی لے لیا کرنا ہم سے، کوئی مشکل بات نہیں، مگر ذرا ان دیومتی کو برداشت کرنا ہوگا۔ بھینس کے کام کرنا آتے ہیں تمہیں…؟‘‘
’’آپ فکر نہ کریں، میں بھینس کا کام تمام کر دوں گا۔‘‘ میں نے کہا…
’’ارے ارے ارے، نا بھیا نا، اس بھینس پر تو جیتے ہیں ہم، کچھ نہیں کھاتے پیتے بس دُودھ پیتے ہیں اور جیتے ہیں۔ تھوڑی سی گھر کی صفائی ستھرائی، بازار کا سودا سلف اور کوئی کام نہیں ہے، رسوئی میں وہ اپنے علاوہ اور کسی کو نہیں جانے دیتی، پکاتی کھاتی بھی اپنا ہی ہے، بچہ وچہ کوئی نہیں ہے ہمارے ہاں، بس یہ کام ہوگا تمہارا اور اس کے بعد مزے ہی مزے… ہم تمہیں بھی بھجن سکھا دیں گے پربھو بھیّا۔‘‘
(جاری ہے)