Sunday, April 20, 2025

Kala Jadu | Episode 28

میں عجیب سی نظروں سے کاشی رام جی کو دیکھتا رہا، انہوں نے اپنی بیوی کے خوف سے میرا نام پربھو رکھ لیا تھا اور اب مجھے اسی نام سے پکار رہے تھے، ویسے سیدھا سچا آدمی معلوم ہوتا تھا، کام بھی میرے سپرد کر دیا تھا، اس کے نتیجے میں اگر روٹیاں مل جائیں تو کوئی ہرج تو نہیں ہے ویسے بھی اب کون سا میرا سلیکشن رہ گیا تھا کہ یہ کام کروں اور وہ کام نہ کروں۔ زندگی اگر تھوڑی سی سکون سے گزر جائے تو کیا ہرج ہے اب تو کوئی بات بھی اپنے بارے میں سوچنا مضحکہ خیز لگتا تھا۔ یہ کروں، وہ کروں، سب بے کار ہے بس زندگی کی سانسیں پوری ہو جائیں، موت اپنی مرضی سے مجھ تک پہنچ جائے بس یہی میری زندگی کا مصرف رہ گیا ہے۔ اب اس میں کوئی تبدیلی بے کار ہے، کوئی مجھے پربھو کے نام سے پکارے یا مسعود کے نام سے، جب زندگی کا کوئی مقصد ہی نہیںرہ گیا تو ان ناموں میں بھی کیا رکھا ہے، ٹھیک ہے مسعود احمد ٹھیک ہے، اب وقت جو کچھ کہہ رہا ہے وہی مناسب ہے۔‘‘
میں نے کاشی رام سے کہا… ’’آپ کی دیا ہے مہاراج۔ دیا ہے آپ کی۔ میں تیار ہوں…‘‘
’’ارے تو پھر بات ہی کیا رہ گئی مگر ذرا ناشتہ کر لینا اس کے بعد بتائیں گے یہ بات اسے، پہلے سے پتا چل گئی تو سوچے گی کہ گھر کے نوکر کی، خاطر مدارت ہو رہی ہے اور ناشتہ اُٹھا کر لے جائے گی کھا پی لینا، بعد میں بتائیں گے اسے کہ تم کون ہو اور ہم کون ہیں…‘‘ میں نے گہری سانس لے کر گردن ہلا دی تھی۔ دونوں کردار دلچسپ تھے، دونوں خاصے پرلطف میاں بیوی معلوم ہوتے تھے۔ چلو اچھا ہے ذہن بٹانے میں آسانی ہو گی اب دل پر لدے ہوئے اس بوجھ کو کہاں تک اپنے آپ پر لادے رکھوں، ٹھیک ہے، ٹھیک ہے جیسے بھی گزرے وقت کی آواز ہے، وقت جو کچھ کہے گا وہی سب سے مناسب ہوگا، کچھ دیر کے بعد کاشی رام کی دھرم پتنی نے ناشتہ لا کر رکھ دیا، گرم پوریاں اور آلو کی بھاجی۔ بہت بھوکا تھا پل پڑا کاشی رام جی کوئی بھجن گنگنانے لگے تھے۔
’’آپ ناشتہ نہیں کریں گے پنڈت جی…؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ڈٹے رہو… ڈٹے رہو پربھو مہاراج… بھگوان نے اپنے بھاگ میں بس بھینس لکھ دی ہے اسی پر گزارا کر رہے ہیں۔‘‘ پنڈت جی نے کہا پنڈتائن مزید گرم پوریاں لے کر اندر داخل ہوئی تھیں، پنڈت جی کی پشت ان کی جانب تھی اور وہ اس وقت یہی الفاظ ادا کر رہے تھے، پنڈتائن کچھ اور سمجھیں، پوریاں بڑی زور سے سامنے رکھی ہوئی تھالی میں پٹخیں اور غرائے ہوئے لہجے میں بولی۔ ’’آج فیصلہ ہو ہی جائے پنڈت جی، اب دُوسروں کے سامنے بھی تمہاری زبان کھلنے لگی ہے، میں بھینس ہوں، بھینس پر گزارہ کر رہے ہو تم…؟‘‘
’’ہرے رام، ہرے رام، ارے کیا بک رہی ہے، کون بھینس کیسی بھینس، ارے پربھو بھیّا گڑ بڑ ہوگئی۔ ذرا سمجھائو ان دیوی جی کو ہم کیا کہہ رہے تھے، ارے دیورانی، ہم تو یہ کہہ رہے تھے کہ ہم ناشتہ واشتہ نہیں کرتے بلکہ ویدی جی نے پیٹ کی بیماری ٹھیک کرنے کے لیے ان بند کر دیا ہے اور بھینس کے دُودھ پر گزارہ ہے۔‘‘
’’پنڈت جی کسی اور کو چترائو، تمہارے منہ سے کئی بار یہ بات سن چکی ہوں۔‘‘ پنڈتائن نے غرّا کر کہا۔
’’ارے پربھو جی اب پوریاں منہ میں ٹھونسے جا رہے ہو یا کچھ بولو گے بھی، ذرا بتائو تم ان پنڈتائن کو کہ بات کس کی ہو رہی تھی ان کی یا بھینس کی…؟‘‘
’’جج جی ہاں، جی ہاں… جی ہاں، جی ہاں…‘‘
’’جی ہاں جی ہاں ارے بھائی میں ان پوریوں میں سے ایک بھی پوری نہیں چھوئوں گا، میری جان تو چھڑا دے تو، پنڈتائن بھگوان کی سوگند، میں تمہیں بھینس نہیں کہہ رہا تھا بلکہ بلکہ، ذکر ہو رہا تھا ناشتے کا، میں نے کہا بھائی اپنے بھاگ میں بس بھینس کا دُودھ لکھا ہے اس پر گزارہ کر رہے ہیں۔ ہرے رام تو تو ہوائوں سے لڑتی ہے۔‘‘
’’پنڈت جی زبان سنبھال کر بات کیا کرو اپنی، میں بھی کسی ایسے ویسے گھر کی نہیں ہوں۔ تم سے کھرے تھے میرے پتا، کیا سمجھتے ہو تم مجھے؟‘‘
’’کھرے پنڈت کی بیٹی اور کیا…‘‘ کاشی رام نے جلدی سے کہا اور مجھے ہنسی آنے لگی۔ پنڈتائن بکتی جھکتی اندر چلی گئی تھیں اور پنڈت جی سینے پر پھونکیں مار رہے تھے پھر انہوں نے مجھے گھورتے ہوئے کہا۔
’’پربھو جی تم بھی بس اپنے گن کے پکے ہو، ناشتہ کئے جا رہے ہو، میری کوئی مدد نہیں کی تم نے، اب تین دن تک اس کا منہ پھولا رہے گا، ویسے چلو اچھا ہے تم سے ذرا اطمینان سے باتیں ہو جائیں گی…‘‘
پنڈت جی کافی دلچسپ آدمی تھے، میرا بھی جی لگنے لگا پنڈتائن نے بس آ کر برتن اُٹھائے تھے اور پنڈت جی ان کا چہرہ دیکھتے رہے تھے، دیر کے بعد پنڈت جی نے کہا۔
’’تو پھر پربھو بھیّا آئو ہمارے ساتھ، گھر کے پچھواڑے ہم نے اپنی دُکان کھولی ہوئی ہے، آ جائو آ جائو، وہیں بیٹھ کر تمہارے ساتھ ساری باتیں کریں گے۔‘‘
’’گھرکا یہ پچھواڑا ایک چوڑی گلی تھا اور یہاں پنڈت جی نے واقعی اپنے بیٹھنے کے لیے ایک بڑے سے کمرے جیسی جگہ بنا رکھی تھی، ایک چھوٹا سا ڈیسک رکھا ہوا تھا وہاں پر چادر بچھی ہوئی تھی، دری چاندنی تھی، پنڈت جی ڈیسک کے پیچھے بیٹھ گئے اور میں ان سے تھوڑے فاصلے پر… پھر میں نے ان سے پوچھا…؟‘‘
’’آپ کیا کرتے ہیں پنڈت جی…؟‘‘
’’بڑے مہان ہیں ہم بس بھگوان جس کام سے دو روٹی دے دیتا ہے وہی کر لیتے ہیں، جیوتش ودیا بھی جانتے ہیں حالانکہ ستاروں سے ہماری کبھی نہیں بنی، ہمیں دیکھ کر ہمیشہ اُلٹے سیدھے ہو جاتے ہیں اور مجال ہے جو کبھی صحیح بات بتا دیں، مگر ایک بات ہے ان کا اُلٹا سیدھا پن بھی اپنے کام آ جاتا ہے ہم بھی لوگوں کو ان کے ہاتھوں کی ریکھائیں دیکھ کر اُلٹی سیدھی باتیں ہی بتا دیتے ہیں۔ بس جیسے ستارے ویسی بات، کام چل جاتا ہے اس کے علاوہ کبھی کسی کے گھر میں بھجن کیرتن ہوں تو بھلا پنڈت کاشی رام کے بغیر کیسے ہو سکتے ہیں، دچھنا بھی ٹھیک ٹھاک ہی مل جاتی ہے، کتھا کہہ دی، کام چل گیا، شادی بیاہ کی مہورتیں نکال دیں جس کا جو کام ہوا کر ڈالا، ویسے اپنا صحیح دھندہ جیوتش ہی ہے… اور پھر پربھو جی نمک کھا چکے ہو اپنا اس لیے وشواش ہے کہ نمک حرامی نہیں کرو گے۔ بتا چکے ہیں ہم تمہیں کہ ہمیں جیوتش ویوتش نہیں آتی، کہو کیسی رہی…؟‘‘ پنڈت جی ہنسنے لگے، پھر بولے… ’’اب تین دن تک تو تم عیش کی اُڑائو، مہمان کہہ ہی دیا ہے ہم نے تمہیں، اس میں ساری برائیاں ہیں مگر سب سے بڑی اچھائی یہ ہے کہ جو بات ایک بار کہہ دی جائے، اس میں منہ پھلا لے سو پھلا لے، کوتاہی نہیں کرتی، تین دن تک تو مزے سے ہمارے مہمان رہو اور چوتھے دن جب اس کا منہ بگڑے تو کام دھندہ شروع کر دینا۔‘‘
میں پنڈت جی کی باتوں پر ہنستا ہی رہا تھا۔ پھر میں نے ان کے پاس بیٹھ کر یہ بھی دیکھا کہ ان کا کاروبار ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے اِکّا دُکّا لوگ ہاتھ دکھانے بھی آ جاتے ہیں اور پنڈت جی پوری کہکشاں زمین پر اُتار کر اس کا جائزہ لے کر اس شخص کے ستارے نکالتے ہیں اور پھر ان ستاروں کے بارے میں ایسی باتیں بتاتے ہیں اپنے گاہکوں کو کہ نہ خود پنڈت جی کی سمجھ میں آئیں نہ ان کی سمجھ میں آئیں۔ بحالت مجبوری وہ بے چارے پنڈت جی کی فیس ادا کر کے اپنی جان چھڑا کر چلے جاتے تھے۔ اگر پنڈت جی کی دی ہوئی ہدایات میں سے کچھ باتیں واقعی کارآمد ثابت ہوگئیں تو بس پنڈت جی کا بول بالا۔ دن بڑا دلچسپ گزارا تھا شام کو پنڈت جی کو کتھا کہنے کہیں جانا تھا مجھ سے کہنے لگے۔
’’چلو میرے ساتھ چلو، کتھا میں بڑا مزاہ آتا ہے اپنی کتھا بھی بس ایسی ہی ہوتی ہے لوگوں کو کبھی کبھی اعتراض بھی ہو جاتا ہے، بھئی دیکھو نا اب پڑھے لکھے تو ہیں نہیں جو رامائن کا ہر صفحہ کھنگال ڈالیں گیتا کو ایک ایک لفظ کر کے پڑھ لیں جو جی میں آتی ہے سنا دیتے ہیں پبلک کو، کچھ لوگ مطمئن ہو جاتے ہیں اور کچھ تحقیقات کرنے نکل جاتے ہیں۔ ایک دو دفعہ ایسا بھی ہوا کہ تحقیقات کرنے والوں نے گلا پکڑ لیا مگر تجربہ ہے ہمارا زبانیں بند کرنا آتا ہے چلو گے کتھا میں؟‘‘
’’پھر کسی دن چلوں گا پنڈت جی، آج رہنے دیجئے۔‘‘
’’اچھا ٹھیک ہے تمہارے آرام کی جگہ بتا دیتے ہیں۔‘‘ پیپل کا ایک درخت جو پنڈت جی کے گھر کے صحن کے ایک گوشے میں تھا میری رہائش گاہ قرار دیا گیا۔ اس کے نیچے بانوں کی چارپائی بچھا دی گئی ایک لٹیا رکھ دی گئی۔ بس اس کے علاوہ اور کیا درکار تھا لیکن اسی شام میں نے یہاں اپنی کارکردگی کا مظاہرہ شروع کر دیا، صحن میں پیپل کے درخت کے پتے بکھرے ہوئے تھے۔ جھاڑو لے کر ان کی صفائی پر تل گیا اور پنڈتائن کے چہرے کی لکیروں میں کچھ کمی واقع ہوئی۔ میں نے پورا صحن صاف کر دیا تھا اور رات ہونے پر چارپائی پر جا لیٹا تھا۔ دماغ کو ایک عجیب سی بند بند سی کیفیت کا احساس ہو رہا تھا اور میں ہر احساس کو ذہن سے جھٹک کر آنکھیں بند کر کے سونے کی کوشش کر رہا تھا۔ پنڈت جی کے گھر دُوسرا، تیسرا اور چوتھا دن گزر گیا۔ بڑے دلچسپ آدمی تھے، میں انہی تک محدود تھا اور میں نے باہر جا کر کچھ دیکھنا ضروری نہیں سمجھا تھا جو کچھ دیکھ چکا تھا وہی کافی تھا، چوتھے دن پنڈتائن ، ساڑھی کا پلّو کمرے کے گرد اُڑسے پنڈت جی کے سامنے آ کھڑی ہوئیں۔
’’ایک دن کا مہمان، دو دن کا مہمان، تین دن کا مہمان، کیا تمہارا یہ مہمان ہمارے لیے بلائے جان نہیں ہوگیا۔‘‘ انہوں نے آنکھیں نکالتے ہوئے کہا۔
’’ارے ارے ارے بکے جا رہی ہے بکے جا رہی ہے یہ بات پیچھے بھی تو کی جا سکتی تھی۔‘‘
’’میں عورت ہوں کھری، جو کہتی ہوں سامنے کہتی ہوں کب تک یہ مہمان رہے گا ہمارے ہاں؟‘‘
’’یہ مہمان ہے کہاں پنڈتائن میں نے تو اسے گھر کے کام کاج کے لیے رکھ لیا ہے، دو روٹی کھائے گا سال سوا سال میں ایک دو جوڑی کپڑے بنا دیں گے اور بس۔‘‘ پنڈت جی نے کہا اور پنڈتائن اس بات سے خوش ہوگئیں۔ انہوں نے اس حقیقت سے مجھے بخوشی قبول کرلیا تھا کیا برا تھا ویسے بھی کون سے تیر مار رہا تھا بس بیکار زندگی کا بوجھ جسے کہیں بھی رہ کر گھسیٹا جا سکتا تھا۔ اب تو آرزوئیں بھی مرتی جا رہی تھیں۔ کب تک زندہ رکھتا اپنے آپ کو کیسے زندہ رکھتا صحن کی جھاڑو اس کے بعد بھینس کی دیکھ بھال اس کے لیے کٹی کرنا، سانی بنانا، اسے نہلانا۔ پھر گھر کی ساری صفائی بازار کا سودا سلف لانا۔ یہ میری ذمہ داری بن چکی تھی ویسے ذمہ داری معمولی نہیں تھی۔ صبح منہ اندھیرے اُٹھتا تو شام ہی ہو جاتی تھی اب تو پنڈت جی کا ساتھ بھی مشکل ہی سے ملتا تھا۔ البتہ وہ جب بھی
مجھ سے ملتے ان کی آنکھوں میں تاسف کے آثار نظر آنے لگتے تھے میرا حلیہ خراب سے خراب تر ہوگیا تھا پنڈت جی نے ایک شام مجھ سے کہا۔
’’ایسے تو تیری اَرتھی نکل جائے گی پربھو، مرجائے گا تو تو کام کاج کرتے کرتے یہ آج کل کچھ زیادہ ہی کام ہونے لگا ہے دیکھا تو نے عورتیں ایسی ہوتی ہیں، شادی مت کریو، کبھی بالک یہ ہماری ہدایت ہے تجھے ورنہ اس سے زیادہ کام پڑ جائیں گے مگر کچھ کرنا پڑے گا تیرے لیے کچھ کرنا پڑے گا، تجھے اتنا کام کرتے دیکھ کر تو ہمیں بڑا ہی افسوس ہوتا ہے۔‘‘
’’نہیں پنڈت جی ایسی کوئی بات نہیں۔ کاموں میں تو جی لگ جاتا ہے اور دن گزرنے کا پتا بھی نہیں چلتا۔‘‘
’’انگ انگ جو ٹوٹ جاتا ہوگا اس کی بات کبھی نہیں کرے گا ویسے آدمی تو شریف ہے پربھو، اس میں کوئی شک نہیں ہے سوچیں گے تیرے لیے سوچیں گے کہ کیا کریں؟‘‘
پنڈت جی اگر سوچ رہے ہوں تو سوچ رہے ہوں۔ میں کچھ نہیںسوچ رہا تھا۔ یہاں رہ کر دل و دماغ کو ایک عجیب سا سکون ملا تھا میں نے ساری سوچیں بھی ذہن سے نکال ڈالی تھیں۔ وہ رشتے وہ ناتے جن کی تڑپ نے دل کو مایوسیوں کے اندھیروں میں ڈبو دیا تھا سب کچھ بھلا دیا تھا میں نے صبح جاگتا اور اپنے کاموں کا آغاز کر دیتا۔ پنڈت جی کے بھجن سننے کو ملتے اور پنڈتائن کی جھڑکیاں اور گالیاں، انہوں نے سب کچھ بھول کر بس ایک مالکن کا رویہ اختیار کرلیا تھا۔ ایک بے حد بدمزاج مالکن کا، ہر کام میں کیڑے نکالتی تھیں۔ بات بات پر جھڑکیاں سناتی تھیں لیکن مجھے کوئی بات بری نہیں لگتی تھی۔ میں جانتا تھا کہ میری تذلیل ہو رہی ہے اور ہو سکتا ہے یہی چیز میرے لیے باعث نجات بن جائے مگر پنڈت کے انداز میں اب سنجیدگی پیدا ہوگئی تھی۔ پنڈتائن سے عموماً ڈرے ڈرے رہتے تھے۔ کچھ کہنے کی مجال نہیں ہوتی تھی کوئی ایسی ترکیب سوچ رہے تھے شاید جس سے بقول ان کے میرا کلیان ہو سکے۔
پھر ایک دن چھٹی کا دن تھا غالباً کوئی ہلکا پھلکا تہوار بھی تھا۔ پنڈتائن نے صبح ہی صبح مجھ سے سارے گھر کی صفائی کرائی تھی اور میرے سر پر کھڑے ہو کر ایک ایک چیز کی نگرانی کرتی رہی تھیں۔ پنڈت جی بیٹھے ہوئے تھے اچانک ہی انہوں نے مجھ سے کہا۔
’’پربھو، تو نے اپنا ہاتھ نہیں دکھایا کبھی مجھے؟‘‘
’’ہاتھ؟‘‘ میں نے پنڈت جی کو دیکھا۔
’’ہاں دیکھیں تو سہی تیری ریکھائیں کیا کہتی ہیں؟‘‘
’’بس بس ، دماغ مت خراب کرو اس کا پنڈت جی اس کی ریکھائیں جوکچھ کہتی ہیں وہ تمہیں کبھی نہیں معلوم ہوگا، بیکار اس کا من خراب کرو گے کام کرنے دو اسے۔‘‘
’’اری بھاگوان کچھ پتا تو چلنا چاہیے کہ کون کتنے پانی میں ہے، میں تو یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ اس کے ہاتھ میں چوری کی لکیر ہے یا نہیں۔‘‘
’’چوری کی؟‘‘
’’تو اور کیا گھر کھلا رہتا ہے کسی دن بھینس لے کر نکل گیا تو بتا کیا تو مجھے دُوسری بھینس خرید کر دے سکے گی؟‘‘ پنڈتائن ہول کر خاموش ہو گئیں، پنڈت جی نے ایک آنکھ دبائی اور میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر سامنے کرلیا، کان سے پینسل نکال کر کاغذ پر لکیریں کھینچنے لگے اور پھرایک دَم اُچھل پڑے۔
’’ہے بھگوان، ہے بھگوان یہ میں نے کیا کیا۔‘‘ پنڈتائن قریب ہی کھڑی ہوئی تھیں چونک کر بولیں۔
’’ہائے رام کیا ہوگیا؟‘‘
’’اری تیرا ستیاناس، تو نے اپنے ساتھ میری بھی لٹیا ڈبو دی۔‘‘ پنڈت جی انتہائی خوف زدہ لہجے میں بولے، پنڈتائن کے چہرے کا رنگ بھی بدل گیا تھا، قریب آ کر بیٹھ گئیں اور بولیں۔
’’کیا ہو گیا کیا ہوگیا؟‘‘
’’بس یہ سمجھ لے جو ہو گیا وہ بہت بُرا ہوگیا اور … جو ہو چکا ہے اس سے آگے کچھ نہیں ہونا چاہیے، ہے پربھو جی ہے معاف کر دیں ہمیں شما کر دیں غلطی ہوگئی پربھوجی غلطی ہوگئی جو کچھ ہوا اس کی غلطی ہوگئی۔‘‘
میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے پنڈت جی کو دیکھنے لگا تو پنڈت جی اپنی پتنی کی جانب رُخ کر کے بولے۔ ’’پربھو مہاراج کا ہاتھ تو دیکھ ذرا، نظر تو ڈال ایک اس پر سات ستارے جگمگا رہے ہیں ان کی ریکھائوں میں یہ دیکھ ایک دو تین۔‘‘ وہ پینسل سے اشارہ کر کے ستارے گنوانے لگے اور پنڈتائن میرے ہاتھوں میں ستارے تلاش کرنے لگیں جبکہ مجھے خود ان ستاروں کی جھلک کہیں نظر نہیں آ رہی تھی۔
’’ایسے لوگ مہان ہوتے ہیں سات پورنیاں ہیں ان کی ریکھائوں میں اور کسی بھی سمے ساتوں پورنیاں ان کا گھیرا کرسکتی ہیں اور ایسے لوگ اچانک ہی دیوتا بن جاتے ہیں پربھو مہاراج! آپ تو دیوتا ہیں، ہمارے لیے ہمارے بھاگ بھی بدل دیں پربھو مہاراج جے بھگوتی جے بھگوتی۔ پنڈت جی دونوں ہاتھ جوڑ کراوندھے ہوگئے، پنڈتائن کے چہرے پر بھی کسی قدر خوف کے آثار نظر آنے لگے تھے، انہوں نے آہستہ سے کہا۔‘‘
’’مجھے کیا معلوم تھا یہ تو ہیں ہی ایسے مگر مگر یہ سات پورنیاں ارے تمہاری ایسی تیسی، مجھے بھی اُلّو بنا رہے ہو تمہاری جیوتش اور میں اسے مان لوں کبھی کوئی بات سچ بھی کہی ہے تم نے۔‘‘ پنڈت جی سیدھے ہو کر پنڈتائن کو گھورتے ہوئے بولے۔
’’دیکھ دیورانی ساری باتیں مان لیں میں نے تیری جیون بھر تیری مانتا رہا ہوں مگر مگر اس بات میں تو نے کوئی برائی نکالی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔‘‘
’’کیوں اسے بہکا رہے ہو کام کاج سے بھی جائے گا سُسرا۔‘‘ پنڈتائن نے کہا۔
’’تیری مرضی ہے۔ سوچ لے دیکھ لے جتنا اسے ستائے گی بعد میں اتنا ہی نتیجہ بھگتنا ہوگا تجھے، اب تو جانے اور تیرا کام، مجھے ضرور شما کر دیں مہاراج بلکہ پورن مہاراج، پورنیاں آپ کا گھیرا ضرور ڈالیں گی، کسی بھی دن کسی بھی سمے، یہ میں کہے دیتا ہوں مگر اس سمے آپ صرف دیورانی کی طرف رُخ کریں گے جو آپ کے ساتھ زیادتی کرتی ہے میرا کوئی دوش نہیں ہوگا اس میں۔‘‘
’’لو میں کونسی زیادتی کرتی ہوں گھر کے کام کاج ہی تو کرا لیتی ہوں، ٹھیک طریقے سے، نہ کریں ہم کونسا کہتے ہیں ان سے ہم خود کرلیا کرتے ہیں اپنا یہ کام، ارے واہ سات پورنیاں گھیرا ڈالیں گی دیکھیں گے کیسے گھیرا ڈالیں گی؟‘‘ پنڈتائن نے کہا اور پائوں پٹختی ہوئی چلی گئیں میں پنڈت جی کا چہرہ دیکھ رہا تھا، پنڈت جی بولے۔
’’بس سمجھ لے تیرا کام بن گیا، خود تھوڑا بہت کام کر دیا کر بلکہ ہماری بھینس سنبھال لے تو گھر کے کام کاج سے تو چھٹی مل گئی پنڈتائن سامنے کی بہادر ہیں اندر جا کر جب سوچیں گی تو حلیہ خراب ہو جائے گا کیا سمجھا۔‘‘ اور پنڈت جی کا کہنا کافی حد تک دُرست ہی ثابت ہوا، پنڈتائن کی زبان ایک دم بند ہوگئی تھی مجھے خود بھی گھر کے کام کاج سے دلچسپی تھی اپنی پسند سے سارے کام کر لیتا تھا لیکن اب پنڈتائن نے میرا پیچھا کرنا چھوڑ دیا تھا اور عموماً مجھ سے دُور ہی دُور رہنے لگی تھیں۔ پنڈت جی کے اس ناٹک پر مجھے اکثر ہنسی آ جاتی تھی مگر میں خود گھر کے کاموں میں اُلجھ کر اپنا ذہن بٹائے رکھتا تھا، پنڈت جی سچے جیوشی تھے یا نہیں میں نہیں جانتا تھا، دال روٹی البتہ کما لیا کرتے تھے اور لوگ ان کے پاس آتے رہتے تھے۔
مگر پورن ماشی کی رات عجیب واقعہ ہوا، پورے چاند کی روشنی بکھری ہوئی تھی۔ میں پیپل کے درخت کے نیچے بیٹھا ہوا تھا پنڈت جی پوتھی سجائے بیٹھے تھے، پنڈتائن کسی بات پر ان سے اُلجھ رہی تھیں کہ اچانک صحن میں عجیب سی روشنی پھیل گئی۔ اتنی روشنی کہ پورا گھر جگمگانے لگا۔ دھنک کے سات رنگوں میں بٹی ہوئی سات حسین دوشیزائیں نہ جانے کہاں سے نمودار ہوئی تھیں ان کے ہاتھوں میں طرح طرح کے غیرمانوس ساز تھے اور ہونٹوں پر دلفریب مسکراہٹ، میں نے آنکھیں پھاڑ کر پنڈت جی کو دیکھا کہ یہ شاید میرا وہم ہو۔ مگر پنڈت جی اور پنڈتائن کی آنکھیں بھی پھٹی ہوئی تھیں اور دونوں تھر تھر کانپ رہے تھے۔
میں نے پریشان نظروں سے ان عورتوں کو دیکھا۔ ایک سے ایک بڑھ کر حسین تھی، انہوں نے جگمگاتے ہوئے لباس پہن رکھے تھے۔ سب کی آنکھیں مجھ پر جمی ہوئی تھیں۔ وہ پیپل کے درخت کے نیچے میرے چاروں طرف دوزانو ہو کر بیٹھ گئیں۔ اپنے ساز انہوں نے سامنے رکھ لیے اور پھر فضا میں ان سازوں کی آوز اُبھرنے لگی۔ ایک ایسا سحرانگیز نغمہ پھوٹنے لگا کہ دِل کھنچ جائے۔ کچھ دیر سازوں کی آواز اُبھرتی رہی۔ پھر ان کی آوازیں بلند ہوئیں۔ وہ کچھ گا رہی تھیں۔ سُر حسین تھے، آوازیں درد بھری لیکن بول نامعلوم۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا، بس دماغ سوتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ پنڈت کاشی رام اور دیومتی جی بھی نگاہوں سے اوجھل ہوگئی تھیں۔ دیر تک یہ نغمہ جاری رہا۔ پھر وہ اُٹھ کھڑی ہوئیں۔ انہوں نے ساز بلند کیے اور وہ ان کے ہاتھوں سے غائب ہوگئے۔ پھر اچانک ان کے ہاتھوں میں چراغوں سے جگمگاتی چاندی کی تھالیاں آ گئیں۔ تھالیوں میں سات سات چراغ روشن تھے۔ وہ تھالیاں کندھے تک بلند کیے میرے گرد رقص کرنے لگیں۔ رقص کا یہ انداز بھی بے حد دلنشیں تھا۔ ایک ایک میرے سامنے آتی تھالی کو میرے سر سے چھوتی پیروں تک لے جاتی، پھر دُوسری کے لیے جگہ خالی کر دیتی۔ یہ شغل بھی خوب دیر تک جاری رہا۔ چاند آدھے سے زیادہ سفر کر چکا تو انہوں نے اپنا یہ مشغلہ ختم کر دیا اور پھر میں نے آخری حیرت انگیز منظر دیکھا۔ وہ اچانک زمین سے بلند ہونے لگیں، ان کے پیروں نے زمین چھوڑ دی۔ ساتوں کی ساتوں بلند ہورہی تھیں۔ وہ پیپل کے درخت سے اُونچی ہوگئیں اور اُونچی۔ پھر اور اُونچی یوں لگ رہا تھا جیسے سات قندیلیں فضا میں اُوپر اُٹھتی چلی جا رہی ہوں۔ یہاں تک کہ وہ ٹمٹماتے ہوئے مدھم ستاروں کی مانند ہوگئیں پھر یہ ستارے بھی ڈُوب گئے۔
میں خود بھی اس انوکھے منظر میں اتنا کھو سا گیا تھا کہ باقی سب میری نظر سے اوجھل ہوگیا تھا۔ پنڈت کاشی رام اور ان کی دھرم پتنی بھی یاد نہیں رہے تھے۔ جب سب کچھ نظروں سے دُور ہوگیا تو مجھے وہ دونوں یاد آئے اور میری نظریں ان کی طرف اُٹھ گئیں۔ پنڈتائن تو اوندھی پڑی ہوئی تھیں اور پنڈت جی کو جاڑا چڑھا ہوا تھا۔ بالکل ایسے ہی کانپ رہے تھے وہ جیسے سخت سردی لگ رہی ہو۔ میں اپنی جگہ سے اُٹھا اور پنڈت جی کی طرف چل پڑا۔ جیسے جیسے میں آگے بڑھ رہا تھا پنڈت جی سمٹتے جا رہے تھے۔ وہ منہ ہی منہ میں کچھ بُدبُدا بھی رہے تھے۔
’’یہ سب… یہ سب کیا تھا پنڈت جی…؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’شما… شما… شما کرو مہاراج۔ اندھے ہیں ہم۔ اندھے ہیں۔ تم تو دیوتا ہو۔ ہے مہاراج… ہے بھگوتی ہمیں شما کر دو… شما کر دو ہمیں۔‘‘ کاشی رام جی میرے پیروں کی طرف
� لپکے۔
’’ارے… ارے کاشی رام جی… یہ کیا کر رہے ہیں آپ…؟‘‘ میں جلدی سے پیچھے ہٹ گیا۔
’’جے بھگوتی۔ شما کر دو ہمیں۔ اسے بھی شما کر دو۔ ہم نے تو ٹھٹھول کیا تھا ہمیں کیا معلوم تھا کہ تم سچ مچ پورن بھگت ہو۔ ہے پورن بھگت ہمیں شما کر دو۔ اَری اُٹھ اندر چل۔ یہ بے ہوش ہوگئی ہے مہاراج… اسے معاف کر دو… ہم سنسار باسی کیا جانیں کون کس رُوپ میں ہے۔‘‘
’’میری بات تو سنیں پنڈت جی…!‘‘ میں نے پریشان ہو کر کہا۔
’’بس ایک بار مہاراج… ہم سچے جیوتشی نہیں ہیں۔ ناٹک کرتے ہیں پیٹ بھرنے کے لیے۔ دیومتی۔ اَری اُٹھ جا کم بخت۔ اَری اُٹھ جا ورنہ ماری جائے گی۔‘‘ پنڈت جی دہشت کے عالم میں بے ہوش پنڈتائن کو جھنجھوڑنے لگے۔ وہ میری کچھ نہیں سن رہے تھے بس اپنی کہے جا رہے تھے۔
’’میں پانی لاتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا اور پانی لینے چل پڑا۔ خود میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا تھا۔ پانی لایا پنڈتائن کو خوب نہلایا گیا۔ تب کہیں جا کر وہ ہوش میں آئیں۔ مجھے دیکھ کر چیخ ماری اور پنڈت جی سے لپٹ گئیں۔
’’ارے ارے۔ گرائے گی کیا۔ ہتھنی کی ہتھنی ہو رہی ہے۔ اری سیدھی ہو چل اندر چل…‘‘ پنڈت جی نے انہیں دھکا دیا وہ خود میری طرف نہیں دیکھ رہے تھے۔ بمشکل تمام وہ پنڈتائن کو سنبھالے اندر داخل ہوگئے۔ پھر انہوں نے دروازہ بھی اندر سے بند کرلیا۔ حالانکہ اس سے پہلے یہ دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا تھا۔ میں بے بسی سے یہ سب کچھ دیکھتا رہا۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ان لوگوں کو کیسے سمجھائوں میں تو خود ان سے سمجھنا چاہتا تھا۔ پھر کچھ نہ بن سکا تو واپس آ کر اپنی چارپائی پر لیٹ گیا۔ وہ انوکھا منظر بار بار آنکھوں میں آ رہا تھا۔ نہ جانے وہ کون تھیں اوریہ سب کچھ کیا کر رہی تھیں۔ پیپل کے پتوں کو تکتے تکتے نیند آ گئی… اور پھر گہری نیند نے سب کچھ بھلا دیا۔
صبح کوہمیشہ جلدی آنکھ کھل جاتی تھی۔ عادت پڑ گئی تھی اس کی۔ پنڈتائن دُودھ دوہنے کی بالٹی ایک مخصوص جگہ رکھ دیا کرتی تھیں اور میں جاگ کر پہلا کام یہی کیا کرتا تھا۔ اس وقت بھی جاگ کر ادھر ہی رُخ کیا مگر دُودھ کا برتن اپنی جگہ موجود نہیںتھا اور اسے نہ پا کر مجھے رات کے واقعات ایک دَم یاد آ گئے تھے۔ میں اُچھل پڑا آنکھیں زور زور سے بند کر کے کھولیں۔ رات کے واقعات خواب نہیں تھے۔ پنڈت جی خوفزدہ ہو کر اندر جا گھسے تھے اور انہوں نے دروازہ بند کر لیا تھا اور شاید اسی خوف کے عالم میں آج دُودھ کا برتن بھی اپنی جگہ نہیں پہنچا تھا۔ کچھ دیر سوچتا رہا پھر آگے بڑھ کر بند دروازے کے قریب پہنچ گیا مگر قریب پہنچ کراندازہ ہوا کہ وہ دروازہ کھلا ہوا ہے۔
’’پنڈت جی… چاچی جی۔ دُودھ کی بالٹی دے دیں۔‘‘ میں نے آواز لگائی مگر اندر خاموشی ہی رہی۔ دروازے کو دھکیل کر میں اندر داخل ہوگیا۔ پہلے بھی اندر آ چکا تھا۔ دُوسری اور تیسری بار بھی آواز دینے پر جواب نہیں ملا تو یہ خیال گزرا کہ دونوں گھر میں نہیں ہیں۔ رسوئی سے دُودھ کی بالٹی لے کر بھینس کے پاس آ گیا اور اپنا کام مکمل کر کے دُودھ گرم کر کے چولہے پر رکھ دیا۔ بھوک لگ رہی تھی۔ دُودھ کا ایک گلاس پی کر باہر نکل آیا۔ احاطہ صاف کیا۔ پنڈت جی اور پنڈتائن نہ جانے کہاں چلے گئے تھے۔ انتظار کرتا رہا۔ دس بجے پھر بارہ۔ پھر ایک اور دو… اب بات پریشانی کی تھی۔ کہاں گئے وہ دونوں پہلے تو سوچا تھا کہ ہو سکتا ہے کسی کام سے نکل گئے ہوں مگر اب تو آدھا دن گزر چکا تھا۔ اچانک دِل میں خیال آیا کہ کہیں وہ خوفزدہ ہو کر گھر سے بھاگ تو نہیں گئے۔ اس تصوّر سے خود حیرت زدہ رہ گیا۔ گھر ان کا تھا۔ ان کے بغیر تو یہاں رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ آہ ایسا ہی ہوا ہے اب انہیں کہاں تلاش کروں۔ وہ اس گھر کے مالک ہیں، اگر میری وجہ سے خوفزدہ ہوئے ہیں تو مجھے گھر چھوڑ دینا چاہئے۔ وہ کہاں چلے گئے۔ انہیں کہاں تلاش کروں۔ ہو سکتا ہے کسی سے پوچھنے سے پتہ چل جائے۔
احاطے میں دُھوپ چلچلا رہی تھی۔ انتہائی گرم دن تھا مگر اس خیال کے بعد گھر میں بیٹھے رہنا بھی ممکن نہیں تھا، چنانچہ احاطہ عبور کر کے دروازے پر آ گیا۔ گرم لُو کے تھپیڑوں نے مزاج پوچھا۔ اندر تو پھر بھی پیپل کی وجہ سے اَمن تھا مگر باہر… پھر دفعتہ ان بے شمار لوگوں پر نظر پڑی جو پنڈت جی کے گھر کے سامنے والے میدان میں سر نیہوڑائے بیٹھے ہوئے تھے۔ میلے کچیلے چیتھڑوں میں ملبوس وہ قطاریں بنائے بیٹھے ہوئے تھے بالکل خاموش۔ حیرانی سے آگے بڑھا اور ابھی ان سے چند قدم دُور تھا کہ اچانک وہ اُچھل اُچھل کر کھڑے ہونے لگے۔ تب میں نے انہیں بغور دیکھا اور میرے بدن میں خون کی گردش رُک گئی۔ آہ وہ انسان نہیں تھے۔ لاتعداد بھیانک صورتیں میرے سامنے تھیں۔ چھوٹے بڑے قد، چیتھڑوں میں لپٹے، پتلی ٹانگیں، سوکھے ہاتھ، گنجے سر اور بڑی کھوپڑیاں۔ گول آنکھیں ہیبت ناک انداز میں پھٹی ہوئیں۔ دہشت کے عالم میں پلٹا اور دروازے سے اندر گھس جانا چاہا مگر… دروازہ… وہاں تو کوئی دروازہ نہیں تھا۔ پنڈت جی کا گھر ہی غائب ہوگیا تھا۔ پیچھے وسیع میدان نظر آ رہا تھا۔ میں آنکھیں پھاڑ کر رہ گیا۔ پنڈت جی کا مکان کہاں رہ گیا۔ آہ پھر گڑ بڑ شروع ہوگئی۔ پھر کسی نئی مصیبت نے میری طرف رُخ کیا۔ اب کیا کروں کیا پوری بستی ہی غائب ہوگئی۔ کیا… مگر سامنے کے رُخ پر بہت دُور مکانات نظر آ رہے تھے اور میرے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ اب ان کے درمیان سے گزر کر آگے بڑھوں۔ لرزتے دل کو سنبھال کر آگے بڑھا اور وہ اس طرح اَدب سے پیچھے ہٹ گئے جیسے مجھے راستہ دینا چاہتے ہوں۔ میں ان کے بیچ سے نکل کر آگے بڑھا تو پورا مجمع میرے ساتھ ہولیا۔ وہ مارچ پاسٹ کرتے میرے پیچھے آ رہے تھے۔ دم ہی نکلا جا رہا تھا۔ خوف کے عالم میں سوچنے سمجھنے کی قوتیں گم ہوگئی تھیں۔ دفعتہ ٹھوکر لگی اور گرنے سے بچنے کے لیے کئی قدم دوڑنا پڑا۔ شیطانی گروہ پیچھے رہ گیا اورمیں نے اس موقع سے فائدہ اُٹھایا۔ ایک دَم دوڑ لگا دی تھی مگر خدا کی پناہ۔ انہوں نے بھی دوڑنا شروع کر دیا تھا۔ ان کے قدموں کی دھمک اور ہولناک آوازیں سن کر گھروں کے دروازے کھلنے لگے۔ مگر جب میں ان گھروں کے درمیان سے گزرا تو ہر گھر سے دہشت بھری چیخیں اُبھرنے لگیں۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ دُوسروں کو بھی نظر آ رہے تھے۔ کون ہیں یہ کون ہیں۔ یقیناً یہ بھیانک وجود انسان نہیں تھے۔ میں دوڑتا ہوا ایک بازار میں پہنچ گیا۔ دُکانیں کھلی ہوئی تھیں۔ دُھوپ اور گرم ہوا کی وجہ سے خریداری تو نہیں ہو رہی تھی مگر دکاندار دُکانوں میں موجود تھے۔ انہوں نے حیرانی سے اس جلوس کو دیکھا اور پھر ان کا بھی وہی حشر ہوا۔ بہت سوں نے دُکانوں کے شٹر گرائے اور بہت سے دکانوں سے اُتر کر بھاگے۔ میں نے رفتار سست کی تو میرے پیچھے دوڑنے والوں کی رفتار بھی سست ہوگئی۔ وہ میرا پیچھا چھوڑنے پر تیار نہیں تھے۔ دوڑنا ترک کر کے سست قدمی اختیار کی مگر ان سے پیچھا چھڑانا ناممکن نظر آ رہا تھا۔
پھر کسی طرح پولیس کو خبر ہوگئی۔ جونہی بازار ختم ہوا اور ایک بڑی سڑک آئی میں نے سامنے سے پولیس کی دو گاڑیاں آتے ہوئے دیکھیں۔ پولیس کو دیکھ کر میری جان ہی نکل گئی۔ اب آئی میری شامت۔ میں نے سوچا اور رُک گیا۔ پولیس گاڑیاں تیز رفتاری سے ہمارے قریب پہنچ گئیں اور ان سے لاٹھی بردار پولیس والے نیچے کودنے لگے۔ دونوں گاڑیوں سے پولیس افسر بھی نیچے اُترے تھے۔
’’ارے۔ کون ہو تم اور…‘‘ ایک افسر نے کڑک کر مجھے اور پھر میرے پیچھے مجمع کو دیکھتے ہوئے کہا مگر پھر وہ صرف انہیں دیکھتا رہ گیا۔ میرا تعاقب کرنے والے ہولناک بھوتوں نے بولنا اور منمنانا شروع کر دیا تھا۔ وہ دَبی دَبی آواز میں ہنسنے بھی لگے۔ ان کی صورتیں اور حلیے ہی کونسے کم بھیانک تھے کہ انہوں نے ایک اور عمل بھی شروع کر دیا وہ دُور تک پھیل گئے۔ پھر ان میں سے ایک نے اپنی کھوپڑی شانوں سے اُتار کر دُوسرے کی طرف پھینکی اور دُوسرے نے اسے گیند کی طرح لپک لیا۔ پھر اس نے وہ کھوپڑی تیسرے کی طرف پھینک دی پھر وہ سب کے سب ہی یہ کھیلنے لگے۔
دوپہر کا وقت ہُو کا عالم۔ اور یہ بھیانک کھیل۔ پولیس کے جوانوں نے پہلے تو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر یہ کھیل دیکھا پھر حلق پھاڑ پھاڑ کر چیختے ہوئے جدھر منہ اُٹھا دوڑ پڑے۔ افسر جہاں تک ممکن ہو سکا دلیری کا مظاہرہ کرتے رہے۔ پھر ان میں سے ایک چیختا ہوا ایک پولیس گاڑی کے نیچے گھس گیا اور دُوسرا جان توڑ کر مخالف سمت بھاگا۔ میں نے بھی موقع سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی اور اسی پولیس افسر کی طرف دوڑ پڑا۔ میں اس کے ساتھ نکل جانا چاہتا تھا مگر افسر کچھ اور ہی سمجھا۔ اس نے مجھے اپنا پیچھا کرتے دیکھ کر بُری طرح چیخنا شروع کر دیا۔
’’ہرے، ہرے، مر گیا رے، ہرے، مم، میں ہرے بچائو… ہرے بچائو… بچائو۔ رام دیال… ہرے رامورے، ہوئے ہوئے ہوئے۔‘‘ وہ ٹھوکر کھا کر گر پڑا اور میں چونکہ اس کی سیدھ میں دوڑ رہا تھا اس لیے اس سے اُلجھ کر میں اس کے اُوپر ہی گرا تھا۔ افسر ذبح ہونے والے بکرے کی طرح چیخا اور ساکت ہوگیا مگر میں چوٹوں کو بھول کر پھر اُٹھا تھا۔ نگاہ پیچھے بھی اُٹھی تھی۔ وہ اپنے اپنے سر دُوسروں سے مانگ کر اس طرح شانوں پر رکھ رہے تھے جیسے ٹوپیاں پہن رہے ہوں، اور پھر وہ مستعدی سے دوبارہ میرے پیچھے لگ گئے۔ میں پولیس افسر کو بھول کر پھر دوڑ پڑا تھا۔ آبادی ختم ہوگئی اور کچھ دُور جا کر سڑک بھی ختم ہوگئی۔ آگے کچا راستہ آ گیا تھا اور اس سے آگے کھیتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ نہ جانے کس طرح میں خود کو سنبھالے ہوئے تھا ورنہ اس عالم میں حرکت قلب بھی بند ہو سکتی تھی۔ نکلا تھا پنڈت جی اور پنڈتائن کو ڈھونڈنے اور یہاں یہ آفت گلے پڑ گئی تھی۔ میں نے ایک لمحے کے لیے رُک کر کھیتوں پر نظر دوڑائی، کھیتوں کے بیچوں بیچ مجھے ایک پگڈنڈی نظر آئی تو میں اس پگڈنڈی پر ہوگیا۔ لیکن صاحب کہاں، میرے جاں نثار بدستور میرا تعاقب کر رہے تھے، وہ کھیت روند رہے تھے۔ انہوں نے اپنی گردنیں شانوں سے اُتار کر مضبوطی سے اپنے بازوئوں میں پکڑ لی تھیں تا کہ کہیں وہ گر نہ جائیں اور وہ میرا پیچھا کر رہے تھے۔ کھیتوں کا سلسلہ تو تاحد نگاہ چلا گیا تھا۔ چیخیں کھیتوں میں بھی سنائی دیں۔ یہ ان غریب کسانوں کی چیخیں تھیں جو کھیتوں میں کام کر رہے تھے، عورتیں بھی چیخی تھیں، مرد بھی چیخ رہے تھے مگر میرا پیچھا کسی طرح
رہا تھا۔ بہت فاصلہ طے ہوگیا اور اب میرے دوڑنے کی قوت بھی جواب دے گئی تھی۔ کہاں تک دوڑتا سانس بُری طرح پھول گیا تھا، چہرہ سرخ ہوگیا تھا، بمشکل تمام میں نے خود کو زمین پر گرنے سے بچایا اور ایک جگہ بیٹھ کر بُری طرح ہانپنے لگا۔ وہ سب پھر میرے گرد مجمع لگا کر اکٹھے ہوگئے اور عجیب و غریب انداز میں اُچھلنے کودنے لگے۔ پھر شاید کچھ اور ہوا، تھوڑی دیر کے بعد بیلوں کی گھنٹیوں کی آوازیں سنائی دی تھیں اور میں نے ایک بہت ہی خوبصورت رَتھ دیکھا۔ یہ رتھ آہستہ آہستہ قریب آ رہا تھا۔ ساز و سامان سے سجا ہوا تھا اور بڑی خوبصورتی سے اسے بنایا گیا تھا۔ رتھ قریب آ گیا اور رتھ سے ایک رتھ بان نیچے اُترا۔ یہ اچھی خاصی شکل و صورت کا مالک تھا پیلے رنگ کی دھوتی اور کرتا پہنا ہوا تھا۔ گلے میں مالائیں پڑی ہوئی تھیں، بڑی بڑی مونچیں بڑی بڑی آنکھیں ماتھے پر تلک، میرے سامنے آ کر اس نے دونوں ہاتھ سینے پر باندھے اور نیچے جھک کر بولا۔
’’رتھ حاضر ہے مہاراج جہاں بھی چلنا ہو رتھ میں بیٹھ جایئے ہمیں آگیا دیجئے ہم لے چلیں گے آپ کو…‘‘
’’بھاگ جائو میں کہتا ہوں بھاگ جائو، بھاگ جائو، یہاں سے، لے جائو یہ رتھ مجھے نہیں بیٹھنا اس میں، میں کہتا ہوں بھاگ جائو…‘‘ رتھ بان نے خوفزدہ سی شکل بنائی۔ گردن خم کی اور مرے مرے قدموں سے چلتا ہوا واپس رتھ میں جا بیٹھا اور اس کے بعد اس نے بیلوں کو واپس ہانک دیا۔ کچھ دیر کے بعد یہ رتھ میری نگاہوں سے غائب ہوگیا تھا لیکن وہ مجمع پیچھا نہیں چھوڑ رہا تھا، میں نے تھک ہار کر ان سے کہا۔
’’آخر تم کون لوگ ہو، کیوں میرے پیچھے لگے ہوئے ہو، کیوں لگے ہوئے ہو میرے پیچھے؟‘‘ ان میں سے ایک خوفناک شکل کا شخص آگے بڑھا اس کی گردن شانوں پر ہی تھی۔ اس نے منمناتی آواز میں کہا۔
’’بیر ہیں مہاراج آپ کے، ایک سو اکہتّر ہیں پورے، ہمیں آپ کی سیوا کا حکم دیا گیا ہے، کہا گیا ہے کہ ہر سمے آپ کی سیوا میں رہیں۔‘‘
’’اور اس طرح مجھے دوڑاتے رہو…‘‘
’’مہاراج آپ کا ساتھ تو دینا ہی تھا آپ چلے سو ہم چلے، آپ دوڑے سو ہم دوڑے، ہم تو بیر ہیں آپ کے، آپ کی پرجا ہیں مہاراج، آپ کی پرجا ہیں ہم۔‘‘
’’کیا تم اپنی یہ صورتیں گم نہیں کر سکتے؟‘‘ میں نے غرّاتے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’کرسکتے ہیں۔‘‘ اس شخص نے معصومیت سے جواب دیا اسے شخص کہنا اس کے لیے عجیب سا بے شک لگتا ہے لیکن میں کسی ایسے جاندار کو کیا کہوں جس کے دو ہاتھ دو پائوں سر گردن آنکھیں سب کچھ ہوں بس ذرا ہیئت بدلی ہوئی ہو، میرے ان الفاظ کے ساتھ ہی اچانک ہی سارا مجمع نگاہوں سے اوجھل ہوگیا اورمیں منہ پھاڑ پھاڑ کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ بڑی عجیب و غریب صورت حال تھی۔ لگ رہا تھا کہ وہ سب کے سب یہیں موجود ہیں لیکن بس آنکھوں سے اوجھل ہوگئے ہیں۔ آہ کیا کروں میں کیا کروں۔ میں نے دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ لیا، اتنا دوڑا تھا کہ بھوک لگنے لگی تھی، ایک گلاس دُودھ ہی تو پیا تھا۔ بھلا اس سے کیا بھلاہوتا، میں نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر ادھر اُدھر دیکھا اور اسی وقت وہ شخص پھر نمودار ہوگیا۔
’’بھوجن لگا دیتے ہیں مہاراج۔‘‘ اس نے میرے اندر کی آواز سن لی تھی، آہ بڑا خوفناک وقت آ پڑا تھا مجھ پر۔ میں نے کوئی جواب بھی نہیں دیا تھا کہ دفعتہ ہی میں نے اپنے سامنے ایک قالین کھلتے ہوئے دیکھا بڑا خوبصورت قالین تھا وہ اور وہیں کچی زمین پر کھل گیا تھا اور پھر قالین پر بے شمار پھل اور کھانے پینے کی دُوسری اشیاء سجنے لگیں۔ میں حیران نگاہوں سے یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ پورا قالین کھانے پینے کی چیزوں سے بھر گیا تھا، ہنسی بھی آ رہی تھی اپنے آپ پر اور اپنے ان بیروں پر جو نجانے کہاں سے میرے بیر بن گئے تھے۔ میں بڑی پریشانی کے عالم میں انہیں دیکھتا رہا۔ وہ شخص اب بھی میرے سامنے اس طرح ہاتھ باندھے کھڑا ہوا تھا جیسے میرے دُوسرے حکم کا انتظار کر رہا ہو۔ یہ سارے کے سارے بڑی انکساری کا مظاہرہ کر رہے تھے لیکن جو چیز حقیقت ہی نہ ہو اسے تسلیم کرنا ناممکنات میں سے ہوتا ہے، میں تو انہیں حقیقت ہی ماننے کو تیار نہیں تھا۔ سب کالا جادو تھا سب کالا جادو اور یہ سب جو میرے سامنے آ کر سجا تھا یہ بھی کالے جادو ہی کے زیر اثر تھا۔ حرام اور ناپاک چیز میں اسے اپنے شکم میں نہیں اُتار سکتا، آہ جو غلاظت میرے وجود میں داخل ہوگئی ہے وہی کونسی کم ہے کہ میں اپنی بھوک کا شکار ہو کر مزید غلاظت اپنے وجود میں اُتار لوں۔ میں نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
’’اُٹھا لو، اس سب کو اُٹھا لو مجھے نہیں چاہیے یہ سب کچھ، سمجھے اُٹھا لو، ورنہ میں اسے اُٹھا کر پھینک دوں گا۔‘‘ میں نے جھک کر قالین کے دونوں سرے پکڑے اور اسے اُلٹ دیا۔ ساری چیزیں اوندھی ہوگئی تھیں اور سہما ہوا بیر پیچھے ہٹ گیا تھا، اس نے مایوس نگاہوں سے اِدھر اُدھر دیکھا دُوسرا کوئی میرے سامنے نہیں تھا لیکن ان سب کی موجودگی کا احساس مسلسل ہو رہا تھا۔ میں جانتا تھا کہ وہ سب موجود ہیں۔ بہرحال یہ کھانا پھینک دیا گیا اور میری نگاہیں سامنے کھیتوں میں ان پھوٹوں پر پڑیں جو خودرو تھیں، کھیتوں میں اُگ آئی تھیں، بھوک واقعی لگ رہی تھی، جو واقعات پیش آئے تھے اب ان میں ایڈجسٹ ہوتا جا رہا تھا، آگے بڑھا، ایک پھوٹ توڑی اور اس کا چھلکا دانتوں ہی سے اُتار کر اسے آہستہ آہستہ کھانے لگا۔ پھوٹ نے شکم سیر کر دیا تھا لیکن جس مصیبت میں گرفتار ہوگیا تھا اس سے چھٹکارے کا کوئی ذریعہ نہیںتھا۔ دل میں سوچا کہ یہاں سے آگے بڑھوں اور چند قدم آگے بڑھائے لیکن اچانک ہی یوں محسوس ہوا جیسے زمین سے اُوپر اُٹھتا چلا جا رہا ہوں اور میں زمین سے خاصا اُونچا اُٹھ گیا، میرے منہ سے بوکھلاہٹ بھری آوازیں نکل رہی تھیں۔
’’ارے ارے، یہ کک… کون، کون کیا کیا ہے؟‘‘ جواب میں مجھے آواز سنائی دی۔
’’ہم اپنے کندھوں پر آپ کو لے کر چل رہے ہیں مہاراج آپ تھک گئے ہیں دھرتی پر سفر نہیں کر سکیں گے، بیٹھے رہیں، بیٹھے رہیں ہم آپ کو گرنے نہیں دیں گے۔‘‘
’’نیچے اُتارو مجھے، میں کہتا ہوں مجھے نیچے اُتارو…‘‘ میں نے کہا اور مجھے نیچے اُتار کر کھڑا کر دیا گیا۔ وہ میری وجہ سے پریشان تھے اور میں ان کی وجہ سے پریشان تھا۔ ان بیروں کے بارے میں کچھ بھی تو نہیں جانتا تھا۔ دل کی حالت بڑی عجیب ہو رہی تھی۔ سخت پریشان ہو رہا تھا۔ نیچے اُترا اور ایک لمحے کھڑا رہا۔ پھر چند قدم آگے بڑھا لیکن جیسے ہی پیر آگے بڑھایا پائوں کے نیچے کوئی لجلجی سی شے محسوس ہوئی۔ دُوسرا پائوں آگے بڑھایا تو اس کے نیچے بھی بالکل ایسا ہی لگا۔ پھر یہ ہوا کہ میں قدم نہیں بڑھا رہا تھا لیکن آگے بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنے پیروں کے نیچے اس ذریعے کو دیکھا جو مجھے آگے بڑھا رہا تھا تو ایک بار پھر میرے حلق سے دہشت بھری چیخ نکل گئی۔ وہ بڑی بڑی مکڑیاں تھیں اتنی بڑی کہ میرے پائوں بآسانی ان کے جسموں پر ٹکے ہوئے تھے اور وہ اپنے بے شمار قدموں سے مجھے آگے بڑھا رہی تھیں۔ میں نے خوفناک چیخ کے ساتھ چھلانگ لگائی لیکن جہاں گرا تھا وہاں بھی ایک مکڑی کی پشت پر ہی گرا تھا۔ اس کے پائوں میرے وزن سے پھیل گئے لیکن رفتہ رفتہ وہ پھر پائوں جما کر کھڑی ہوگئی، دُوسرا پائوں آگے بڑھایا تو پھر وہی مکڑی آ گئی، میں نے تھکے تھکے لہجے میں کہا۔
’’آہ مجھے آزاد کر دو، مجھے آزاد کرو میں، میں تھک گیا ہوں، میں تنگ آ گیا ہوں۔‘‘ سامنے ہی ایک درخت نظر آ رہا تھا اس کی شاخیں پھیلی ہوئی تھیں، میں مکڑیوں سے پائوں اُتار کر جہاں بھی قدم رکھتا ایک نئی مکڑی نمودار ہو جاتی اور میرا پائوں اس کی پشت پر ہی پڑتا۔ میں بری طرح بدحواس ہوگیا تھا۔ بھلا اس لجلجی اور منحوس شے پر کیسے سفر کرتا، کس عذاب میں گرفتار ہوگیا آہ کس عذاب میں گرفتار ہوگیا ہوں۔
(جاری ہے)

Latest Posts

Related POSTS