Wednesday, May 21, 2025

Kala Jadu | Episode 29

میں نے بے بسی سے درخت کی جانب نظر اُٹھائی تو ایک بار پھر ایک دہشت بھری کیفیت کا سامنا کرنا پڑا، ہاں وہ درخت تھا تو درخت ہی لیکن اس کی دو شاخیں جو سامنے کی سمت پھیلی ہوئی تھیں وہ انسانی بازوئوں کی شکل رکھتی تھیں اور اس کا تنا انسانی جسم کی کیفیت اختیار کرتا جا رہا تھا۔ تنے کے اس حصے پر جہاں سے بقیہ شاخیں مختلف سمتوں کو تقسیم ہو جاتی تھیں بھوریا چرن کا چہرہ نظر آ رہا تھا۔ بھوریا چرن جو مسکرا رہا تھا، ایک طنز بھری شیطانی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر کھیل رہی تھی۔ یہ بھی نظر کا واہمہ نہیں تھا بلکہ ایک حقیقت تھی جو روشن دوپہر میں چلچلاتی دُھوپ میں میرے سامنے عیاں ہوگئی تھی۔ پھر مجھے بھوریا چرن کی وہی مخصوص مکروہ آواز سنائی دی۔
’’کیسے ہو میاں جی، کیا حال چال ہیں تمہارے؟‘‘ میں نے نفرت بھری نگاہوں سے بھوریا چرن کو دیکھا اور کوئی جواب نہیں دیا بلکہ شدید غصے کے عالم میں اس پر تھوک دیا۔ بھوریا چرن ہنسنے لگا پھر بولا۔
’’اب تو تمہارا۔ یہ تھوک بھی بڑا قیمتی ہوگیا ہے کبھی کسی پر تھوک کر دیکھ لینا مہاراج مگر بڑے بے ایمان ہو تم، بہت ہی ناشکرے اگر یہ سب کچھ کسی اور کو مل جاتا تو چرن دھو دھو کر پیتا بھوریا چرن کے، ہمارے کسی دھرم والے کو یہ شکتی مل جاتی مہاراج تو نجانے کیا کر ڈالتا وہ۔ گرو مان لیتا ہمیں اپنا۔ مگر تم تم ہو ہی برے خون والے گرو، پر تھوک رہے ہو۔ ارے سات پورن ماشیاں بنائی ہیں ہم نے تمہارے لیے۔ سات پورنیوں کو سترہ انسانوں کا خون دے کر جگایا ہے اور وہ ساری کی ساری اب تمہاری سیوک بن گئی ہیں۔ ایک سو اکہتّر بیر ان کے قبضے میں ہوتے ہیں اور یہ سارے کے سارے تمہارے اُوپر بلیدان ہونے کو تیار ہیں۔ دیکھ لیا تم نے، کس کی مجال ہے کہ تمہاری طرف اُنگلی اُٹھا جائے۔ لڑ مریں گے یہ سُسرے تمہارے لیے اور وہ سات پورنیاں جو اس بائولے جیوتشی کے گھر میں اُتری تھیں۔ سات اَپسرائیں ہیں کسی کو مل جائیں تو وہ آکاش پر قدم رکھنے کی کوشش کرے، آکاش باسی بن جائے، مگر تم تھوک رہے ہو ہمارے اُوپر، یہ ہے ہمارے دیئے کا انجام…‘‘


’’بھوریا چرن میں ان ساری چیزوں پر لعنت بھیجتا ہوں کمینے کتّے، لعنت بھیجتا ہوں میں تیرے اس دیئے پر۔‘‘ میں نے طیش کے عالم میں کہا۔
’’تو ہم نے کیا کس لیے ہے یہ سب کچھ میاں جی، من کی شانتی چھینی ہے ہم نے تمہاری سمجھے، من کی شانتی چھین لی ہے اب کیا کرو گے بڑی قوتوں کے مالک بن گئے ہو کسی بستی میں قدم رکھو گے تو لوگ پوجا کریں گے تمہاری، چرنوں میں آنکھیں رگڑیں گے مگر تمہارے من کی شانتی کہاں ہے، تم نے ہم سے ہمارا سب کچھ چھینا ہمیں کھنڈولا نہ بننے دیا تو ہم نے بھی تمہارے من کی شانتی چھین لی، بڑے دھرم داس بنے پھرتے تھے ایں۔‘‘ بھوریا چرن نفرت بھرے لہجے میں بولا۔
’’دیکھو بھوریا چرن دیکھو دیکھو۔‘‘
’’ارے کیا دیکھیں، دیکھ لیا سب کچھ، تم نے جو کچھ کیا اس کے نتیجے میں ہم نے تمہارا دھرم بھرشٹ کر دیا اب بھاگتے پھرو سارے سنسار میں، دھرم دھرم چیختے چلاتے… کچھ نہ ملے گا جب تک تمہارے بدن میں ہمارے پہنچائے ہوئے خون کا ایک ذرّہ بھی باقی ہے ذرا واپس آ کر دیکھ لو اپنے دھرم میں بھوریا چرن ہے ہمارا نام، شنکھا ہیں، کھنڈولا بنا دیتے تو کیا بگڑ جاتا مہاراج اس وقت بھی یہی شکتی دے دیتے ہم تمہیں سمجھے اور اس شکتی کے ذریعے گھوڑے تمہارے اشارے پر دوڑتے، جوا تمہارے اشارے پر ہوتا، نجانے کیا کیا مل جاتا تمہیں مگر مگر تقدیر کی بات ہے بھاگ کے پھیر ہیں۔ تم اس قابل ہی نہیں تھے، اس قابل ہی نہیں تھے۔‘‘
’’مگر بھوریا چرن اب میں کیا کروں؟‘‘
’’بھاگتے پھرو پاگلوں کی طرح اتنی بڑی طاقت ہے تمہارے پاس مگر تم اسے استعمال نہیں کر سکتے مہاراج سمجھے کیونکہ تم نے مانا ہی نہیں ہے من سے، انہیں۔ جب انہیں استعمال کرو گے تو بات دُوسری ہو جائے گی اور تم بڑے مہان بن جائو گے سمجھے مگر تم ایسا کبھی نہیں کر سکو گے کبھی نہیں۔ من کی شانتی نہیں ملے گی تمہیں یہی ہمارا فیصلہ ہے، یہی بھوریا چرن کا بدلہ ہے۔‘‘ بھوریا چرن نے اپنے شاخوں جیسے دونوں ہاتھ سینے پر باندھے اور اس کے بعد اس کے نقوش درخت میں معدوم ہوتے چلے گئے، وہ میری نگاہوں سے اوجھل ہوگیا تھا اس کے دیئے ہوئے بیر اور پورنیاں اب میری سمجھ میں آ رہی تھیں۔ پنڈت کاشی رام نے تو صرف اپنی بیوی کو ڈرانے کیلئے اور یہ سمجھانے کیلئے کہ میں بڑا مہان ہوں، سات پورن ماشیوں کا اور پورنیوں کا ذکر کیا تھا مگر کمبخت بھوریا چرن نے وہ ساری بلائیں میرے اُوپر نازل کر دی تھیں وہیں بیٹھ گیا اور گھٹنوں میں سر دے کر سوچنے میں مصروف ہوگیا، اب تو آنکھیں بھی آنسوئوں سے خشک ہوگئی تھیں اگر میرے دل کا طبّی تجزیہ کیا جاتا تو شاید وہ دُنیا کا طاقتور ترین دل نکلتا کیونکہ اتنا کچھ برداشت کر لینے کی اہلیت تھی اس میں ان تمام مصیبتوں کے باوجود اس کی دھڑکنیں قائم تھیں مگر کچھ سکون بھی ہوا تھا۔ پتہ چل گیا تھا کہ یہ سب کیا ہے بھوریا چرن انتقام کی آگ میں جل رہا تھا اس نے مجھ پر سخت محنت کی تھی اپنے کالے جاو کی ساری قوتیں صرف کر دی تھیں۔ وہ بالکل سچ کہہ رہا تھا کہ اگر وہ اپنے دھرم کے کسی شخص کیلئے یہ سب کچھ کر دیتا اور اسے سات پورنیوں اور ایک سو اکہتّر ناپاک غلاموں کی قوت مل جاتی تو وہ نہ جانے کیا کر ڈالتا مگر مجھ پر یہ سب کچھ حرام تھا، میرے لیے یہ بیکار تھا بلکہ ناقابل برداشت تھا۔ میں تو اسے سزا سمجھتا تھا اب تو اس سزا پر دل دُکھنے لگا تھا، مظلومیت کا احساس ہوتا تھا کیا میں اس کائنات کا سب سے بڑا گناہگار ہوں، دُوسرے لوگ بھی تو گناہ کرتے ہیں، میں نے تو اس کے بعد سے صرف کفارہ ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہمیشہ پچھتاتا رہا ہوں لیکن انسان ہوں کہاں تک برداشت کروں، بھوریا چرن نے یہ سب کچھ اس لیے کیا ہے کہ میں بے سکون ہو جائوں اندر کی کیفیت مجھے ان قوتوں سے فائدہ اُٹھانے سے باز رکھے اور بیرونی طور پر سب کچھ میرے قبضے میں ہو آہ… نہ جانے مستقبل میں اس ایمان کو قائم رکھ سکوں گا یا نہیں۔ بھاڑ میں جائیں پنڈت کاشی رام میں تو خود ایک مجبور انسان ہوں کیا کر سکتا ہوں میں نے نفرت بھری نظروں سے اس درخت کو دیکھا اور دفعتاً میرے دل میں ایک خیال آیا میں نے گردن ہلائی اور آواز دی۔
’’میرے بیرو کہاں ہو تم…؟‘‘
’’یہیں ہیں مہاراج ہم کہاں جائیں گے۔‘‘ سارا مجمع پھر نمودار ہوگیا اب انہیں دیکھ کر میرے دل میں خوف نہیں اُبھرا تھا۔
’’اس درخت کے ٹکڑے ٹکڑے کر دو۔‘‘ میں نے درخت کی طرف اشارہ کیا اور وہ سب بھرا مار کر درخت کی سمت لپکے سب نے مل کر درخت کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکا پھر اس کی شاخیں توڑنے لگے ایک ایک پتہ کچل ڈالا انہوں نے تنا اُدھیڑ پھینکا وہ کیڑوں کی طرح اس سے لپٹ گئے تھے، پھر وہ اسی وقت سیدھے ہوئے جب درخت ننھی ننھی لکڑیوں میں تبدیل ہو چکا تھا، اس درخت میں مجھے بھوریا چرن نظر آیا تھا مگر میں خود بھی جانتا تھا کہ اس طرح بھوریا چرن ہلاک نہیں ہو جائے گا وہ شنکھا ہے، ہزاروں رُوپ دھار سکتا ہے، بس ایک نفرت تھی اس کے خلاف جو دل میں اُبھری تھی اور یہ اندازہ بھی ہوگیا تھا کہ یہ بیر سچ مچ میرے اشارے پر سب کچھ کر سکتے ہیں۔ وہ سب اپنے کام سے فارغ ہو کر دوبارہ میرے گرد جمع ہوگئے، میں نے اس بیر کو دیکھا جو سب سے پیش پیش رہتا تھا۔
’’آگے آ…‘‘ میں نے کہا اور وہ آگے بڑھ آیا۔ ’’کیا نام ہے تیرا۔‘‘ ’’کھتوری مہاراج۔‘‘
’’میں کون ہوں؟‘‘
’’ہمارے مالک۔‘‘
’’کیا نام ہے میرا؟‘‘
’’پورن بھگت۔‘‘
’’غلط، میرا یہ نام نہیں ہے۔‘‘
’’ہمیں نام سے کیا لینا مہاراج… ہمیں تو کام بتائو۔‘‘
’’بھوریا چرن کہاں ہے۔‘‘ میں نے پوچھا اور بیر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ پھر بولا۔
’’چلے گئے یہاں سے۔‘‘
’’کیا تو بھوریا چرن کو مار سکتا ہے۔‘‘
’’وہ شنکھا ہے سوامی، شنکھا شریر کہاں ہوتا ہے وہ تو ہوا ہوتی ہے اور ہوائوں پر ہمارا بس نہیں ہے۔‘‘
’’اگر بھوریا چرن میرے سامنے ہو تو تم لوگ اس کی مانو گے یا میری۔‘‘
’’تمہاری مہاراج… ہم تمہارے داس ہیں۔‘‘
’’رتھ لائو میرے لیے۔‘‘ میں نے کہا اور کھتوری نے گردن ہلا دی ذرا سی دیر میں رتھ میرے سامنے آ گیا، میں رتھ میں جا بیٹھا اور کھتوری نے رتھ سنبھال لیا۔ ’’چلو۔‘‘ میں نے کہا اور اس نے بیل ہانکنے شروع کر دیئے، پیچھے وہ سب ٹیڑھے میڑھے چل رہے تھے، دل میں ایک لمحے کیلئے خیال آیا کہ اس طاقت سے تہلکہ مچا سکتا ہوں سب کچھ حاصل ہو سکتا ہے مجھے جو چاہوں سامنے لا سکتا ہوں، بہت بڑی طاقت حاصل ہوگئی ہے مجھے مگر نہ جانے کیوں آنکھوں میں نمی آ گئی۔ بے اختیار آنسو نکل پڑے، آنکھوں نے دل کو احساس دلایا تھا کہ یہ سب کیا ہے کالا جادو ہے یہ جسے کرنے والے کافر ہوتے ہیں ان کی بخشش کبھی نہیں ہوسکتی۔ یہ سب کچھ کھونے کے مترادف ہے اور جو کھو گیا اسے دوبارہ نہیں حاصل کیا جا سکتا دل میں گرم گرم لہریں دوڑنے لگیں اعضا میں تنائو پیدا ہوگیا اور میں نے رتھ سے باہر چھلانگ لگا دی لیکن میرے بیروں نے مجھے زمین پر نہیں گرنے دیا تھا وہ زمین پر لیٹ گئے تھے اور میں ان کے اُوپر گرا تھا لیکن میں پھرتی سے اُٹھ کھڑا ہوا، میں نے دیوانوں کی طرح ان پر لاتیں برسانی شروع کر دیں اور وہ اِدھر سے اُدھر لڑھکنے لگے، رونے اور چیخنے لگے مگر کسی نے احتجاج نہیں کیا تھا۔ میں نے کھتوری کے ہاتھ سے سانٹا لیا اور بیلوں پر پل پڑا، بیل ڈکرا کر بھاگے اور کھتوری اُچھل کر سر کے بل نیچے گرا پھر اُٹھ کھڑا ہوا۔
’’بھاگ جائو تم سب بھاگ جائو یہاں سے ورنہ۔‘‘ میں سانٹا لے کر ان پر پل پڑا اور وہ سب بھاگنے لگے کچھ دیر میں وہ بہت دُور نکل گئے اور میری نظروں سے اوجھل ہوگئے۔
’’بھوریا چرن … بھوریا چرن کتّے تو نے میرے خون میں گندگی گھول دی ہے مجھ سے میرا دین چھین لیا ہے مگر میرا دین میرے دل میں ہے کبھی نہیں چھوڑوں گا اسے۔ کر لے جو تجھ سے کیا جا سکے، میں مسلمان پیدا ہوا ہوں مسلمان مروں گا بھوریا چرن… کتّے۔‘‘ میری آواز ویرانوں میں گونجتی رہی، حلق پھاڑ پھاڑ کر چیخ رہا تھا آواز پھٹ رہی تھی گلا دُکھ رہا تھا چیختا رہا پھر تھک کر خاموش ہوگیا وہاں سے چل پڑا اب میرے گرد سرسراہٹیں نہیں تھیں میرے بیر بھاگ گئے تھے میں نے جو ان سے کہا تھا۔
چلتا رہا، چلتا
رہا پھر ایک بستی آئی لوگ نظر آئے مگر میں نہ رُکا اور چلتا رہا، گھاس، پھونس، پتّے جو ملتا کھا لیتا پھر کچھ کھنڈرات نظر آئے ایک ویرانہ تھا اور یہاں کالی کیچڑ اور جوہڑ بھی تھا کچھ جانی پہچانی جگہ محسوس ہوئی پھر یاد آیا یہ تو نیاز اللہ کی بستی تھی عزیزہ رہتی تھی یہاں اور یہ جگہ کیا نام تھا اس کا ہاں شاید رامانندی یہی نام تھا اس کا بھوریا چرن نے اسے ہلاک کر دیا تھا۔ وہ بے چارہ رامانندی اچھا انسان تھا۔
چاروں طرف بھیانک سناٹا چھایا ہوا تھا کھنڈرات پر خوفناک خاموشی طاری تھی، سناٹا چیختا محسوس ہو رہا تھا اچانک میرے ذہن میں ایک خیال آیا، میری نظریں جوہڑ کی طرف اُٹھ گئیں، کیچڑ جگہ جگہ سوکھ گئی تھی اور اس پر حشرات الارض رینگ رہے تھے میرے منہ سے آواز نکلی۔
’’کھتوری…؟‘‘
’’بھگت پورن۔‘‘ کھتوری میرے نزدیک ظاہر ہوا۔
’’دُوسرے کہاں ہیں؟‘‘
’’تم سے دُور نہیں مہاراج۔‘‘
’’بلائو سب کو۔‘‘
’’ہم تو یہیں ہیں بھگت۔‘‘ ان کا پورا ریوڑ نمودار ہوگیا۔
’’اس جوہڑ میں ایک شیشے کی بوتل ہے جس میں رامانندی کی لاش ہے اسے تلاش کر کے لائو۔‘‘ میں نے کہا اور وہ سب جوہڑ کی طرف دوڑ پڑے پورے جوہڑ میں بھونچال آ گیا مکھیوں اور مچھروں کے غول کالے بادلوں کی طرح اُٹھے اور چاروں طرف پھیل گئے سخت تعفن پیدا ہوگیا تھا کچھ دیر جوہڑ میں ہلچل رہی پھر ایک بیر وہ بوتل نکال لایا۔
’’یہ رہی بھگت۔‘‘
’’کھول اسے۔‘‘ میں نے بوتل کو ہاتھ لگائے بغیر کہا اور اس نے بوتل کھول دی، بوتل سے دُھواں نکلنے لگا پھر یہ دُھواں زمین پر جم گیا اور کچھ دیر کے بعد وہ رامانندی کی شکل اختیار کرگیا۔ رامانندی کھڑے کھڑے جھول رہا تھا اس کی آنکھیں بند تھیں پھر وہ گرتے گرتے سنبھلا اور آنکھیں کھول کر چاروں طرف دیکھنے لگا۔
’’چلا گیا۔‘‘ اس نے سرگوشی کے عالم میں پوچھا۔
’’کون؟‘‘
’’نظر نہیں آ رہا۔‘‘
’’کسے کہہ رہے ہو۔‘‘
’’شنکھا… شنکھا… وہی بھوریا چرن۔‘‘
’’تم ٹھیک ہو رامانندی۔‘‘ میں نے پوچھا مگر رامانندی نے اب ان بیروں کو دیکھا جو آہستہ آہستہ جوہڑ سے نکل کر جمع ہو رہے تھے۔
’’یہ کون ہیں…؟ تم کون ہو؟‘‘ پہلے اس نے مجھ سے اور پھر ان سے پوچھا۔
’’سیوک ہیں پورن بھگت کے۔‘‘ کھتوری بولا۔
’’پورن بھگت… ایں… ارے… اوں… اوہ… جے بھگوتی جے پورن مہاراج۔‘‘ رامانندی نے میرے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے مگر اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی تھیں اس نے آنکھیں مسل مسل کر کئی بار مجھے دیکھا پھر حیران لہجے میں بولا۔
’’تم… مہا بھگت، تم وہی ہو نا… مسعود احمد… وہ نیازاللہ… معاف کرنا مجھے نہ جانے کیوں میری بات کا برا مت ماننا وہ دراصل تمہاری صورت کا…‘‘ وہ بار بار ہاتھ جوڑ کر مجھ سے معافی مانگنے لگا۔
’’راما نندی میں مسعود ہی ہوں آئو اندر چلو آئو پریشان نہ ہو۔‘‘ میں نے اس کا بازو پکڑ کر کھنڈرات کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔
’’ارے وہ مگر تم… پورن بھگت… یہ…۔‘‘ اس نے بیروں کی طرف اشارہ کر کے کہا وہ سارے کے سارے پھر میرے پیچھے لگ گئے تھے۔
’’تم کہاں آ رہے ہو چلو بھاگ جائو اور جب تک میں نہ بلائوں میرے قریب مت آنا جائو۔‘‘ میں گرجا اور وہ خوف زدہ ہوکر ایک دُوسرے کو دھکیلتے ہوئے بھاگنے لگے۔ راما نندی سخت پریشان تھا میں اسے لیے ہوئے کھنڈرات میں آگیا رامانندی سخت اُلجھا ہوا نظر آ رہا تھا کھنڈرات میں جہاں وہ رہتا تھا وہاں کی حالت دیکھ کر وہ ششدر رہ گیا اس نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے مجھے دیکھا۔
’’یہ سب تمہارا کالاجادو ہے، رامانندی… تم شاید صورت حال کو سمجھ نہیں پائے تمہیں اندازہ نہیں ہے کہ تم کئی ماہ سے اس شیشی میں بند جوہڑ میں پڑے ہوئے تھے طویل عرصے کے بعد تم اس سے نکلے ہو۔‘‘
’’کئی ماہ سے۔‘‘ رامانندی گھٹے گھٹے لہجے میں بولا۔
’’ہاں کئی ماہ سے بیٹھ جائو میں تمہیں پوری تفصیل بتاتا ہوں، بیٹھ جائو پریشان مت ہو۔‘‘ وہ بیٹھ گیا تب میں نے اسے شروع سے اب تک کی ساری کہانی سنائی اور وہ میرا منہ دیکھتا رہ گیا۔ آخر تک کی کہانی سننے کے بعد بھی وہ دیر تک کچھ نہیں بولا تھا۔
’’اس کے بعد رامانندی تم مجھے بتائو گے کہ اب میں کیا کروں…؟‘‘ میں نے پوچھا لیکن وہ اس کے بعد بھی دیر تک کچھ نہ بولا اور سوچتا رہا پھرکئی گہری گہری سانسیں لے کر اس نے خود کو سنبھالا اور بولا۔
’’کالے جادو کے سولہ درجے ہیں ابتداء نرٹھ سے ہوتی ہے نرٹھ پہلا جاپ ہے اس میں گندی اور غلیظ چیزوں سے شریر کو بھنگ کیا جاتا ہے اور اس طرح کالا علم سیکھنے والا خود کو کالی قوتوں کے حوالے کر دیتا ہے، دُوسرا درجہ سگنت کہلاتا ہے اس میں کمال حاصل کرنے کے بعد کیڑے مکوڑوں کا کاٹا اُتارا جاتا ہے اسی طرح جاپ ہوتے رہتے ہی۔ آٹھویں گنتھ میں لونا چماری اور نویں میں کالی دیوی سے واسطہ پڑتا ہے پورنیاں گیارہویں درجے میں آتی ہیں اور جسے پورنیوں کا اختیار حاصل ہو جائے وہ کالے جادو کا گیارہواں ماہر ہوتا ہے۔ سات پورنیوں کے ایک سو اکہتّر بیر ہوتے ہیں جو پورن بھگت کے غلام ہوتے ہیں بارہواں درجہ بھیروں ستوترن ہوتا ہے وہاں سے شنکھا کا سفر شروع ہوتا ہے اور پھر شنکھا یاٹ ہوتے ہیں ایک شنکھا ہی پورن جاپ کر کے اپنا جاپ کسی اور کو دے سکتا ہے کوئی دُوسرا ایسا نہیں کر سکتا مگر تمہیں جو قوت حاصل ہوگئی ہے وہ بہت بڑی ہے تم اس سے نچلے درجے کے سارے دیر داسیوں کو نیچا دکھا سکتے ہو مگر تمہارا معاملہ دُوسرا ہے۔‘‘
’’اس نے دھوکے سے میرے ساتھ یہ کیا۔‘‘
’’ہاں مگر بہت بڑا کام کیا ہے اسے سترہ انسانوں کی بلی دینا پڑی ہوگی۔‘‘
’’تم اب ٹھیک ہو رامانندی۔‘‘
’’ہاں میں ٹھیک ہوں مگر اب میں یہاں نہیں رہوں گا۔‘‘
’’وہ مجھے نہیں چھوڑے گا۔‘‘ رامانندی نے کہا اور میں سوچ میں ڈُوب گیا۔ پھر میں نے کہا۔
’’ایک بات بتائو رامانندی کیا ان بیروں سے میں اپنے ماں باپ اور بہن کا سراغ لگا سکتا ہوں، کیا یہ مجھے بتا سکتے ہیں کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں۔‘‘
’’بھول کر بھی ایسا مت کرنا۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’ان سے تم کالے کام لے سکتے ہو صرف کالے کام۔ اگر کوئی ایسا کام لیا ان سے جو کسی طور کالے علم سے تعلق نہ رکھتا ہو تو یوں سمجھ لو وہ شے باقی نہیں رہے گی۔ تمہارے ماتا پتا کا پتہ لگا کر یہ تمہیں خبر دیں گے مگر بعد میں انہیں مار دیں گے۔ ریت ہے کالے جادو کی یہ برائی کیلئے استعمال کیا جاتا ہے کسی نیک اور ضرورت کے کام کیلئے نہیں۔ مثال کے طور پر تم ان سے اپنے کسی دُشمن کو مروا تو سکتے ہو کسی بیمار دوست کیلئے دوا نہیں منگوا سکتے ہو۔‘‘
’’لعنت ہے اس علم پر… اپنے لیے میں کیا کر سکتا ہوں؟‘‘
’’راجہ بن جائو، محل بنوا لو، دولت کے ڈھیر لگا لو، سندر ناریاں اُٹھوا لو یہ سب خوشی سے سارے کام کریں گے۔‘‘
’’ایک بار پھر لعنت ہے اب بتائو میں اس مصیبت سے چھٹکارا کیسے حاصل کروں؟‘‘ میں نے کہا اور رامانندی سوچ میں ڈُوب گیا پھر بولا۔
’’بہت مشکل ہے ایک طرح ناممکن ہے۔‘‘
’’رامانندی دل چاہتا ہے رامانندی یہ سب قبول کر لوں دل چاہتا ہے وہی بن جائوں جو بنا دیا گیا ہوں۔‘‘ میں نے دانت پیستے ہوئے کہا اور رامانندی چونک کر مجھے دیکھنے لگا پھر وہ آہستہ سے بولا۔
’’مسعود جی من کیا چاہتا ہے۔‘‘
’’کیا بتائوں میں کیا بتائوں۔‘‘
’’میں ایک مشورہ دوں۔‘‘
’’بولو۔‘‘
’’بڑے کشٹ اُٹھائے ہیں تم نے اپنا دھرم بنائے رکھنے کیلئے اب اسے کھونا اچھا نہیں ہوگا مگر تمہاری اس بات کو میں مانتا ہوں وہی بن جائو جو بنا دیئے گئے ہو۔‘‘ میں اُلجھی ہوئی نظروں سے رامانندی کو دیکھنے لگا۔
’’نہ جانے کیا کہہ رہے ہو۔‘‘
’’بڑے کانٹے کی بات کہہ رہا ہوں بھوریا چرن نے تمہیں اتنا بڑا جاپ دے کر تم سے من کی شانتی چھینی ہے نا۔‘‘
’’ہاں یہی اس کتّے کا مقصد ہے۔‘‘ میں نے نفرت سے کہا۔
’’اور تمہارے من کی شانتی چھن گئی ہے اگر تم اپنا من شانت کر لو تو پھر اس کے من کی شانتی چھن جائے گی وہ سوچے گا کہ یہ تو بات اُلٹی ہوگئی اور پھر وہی کچھ اپائے کرے گا۔‘‘
’’تمہارا مطلب ہے کہ…‘‘
’’سنسار چرنوں میں جھکا لو، ہنسو، بولو، خوش رہو تمہاری خوشی اسے بھسم کر دے گی وہ تمہیں خوش ہی تو نہیں دیکھنا چاہتا۔‘‘
’’مگر کالے جادو سے کام لے کر میں اپنے لیے جو کچھ کروں گا رامانندی وہ مجھے میرے دین سے دُور سے دُور تر کر دے گا۔‘‘
’’اپنے لیے کچھ نہ کرنا یہ تو اسے جلانے کیلئے ہوگا۔ کسی کنواری کو پریشان نہ کرنا، کسی کو نقصان نہ پہنچانا بس ایسے کام کر لینا جس سے اسے پتہ چلے کہ تم خوش ہو من کے بھید تو کوئی اور ہی جانتا ہے باقی سب عمل کے بھید ہوتے ہیں اور تمہارے عمل کے بھید ہی سامنے آئیں گے۔‘‘ میں رامانندی کی بات پر غور کرنے لگا کچھ سمجھ میں آ رہی تھی کچھ نہیں آ رہی تھی وہ بے چارہ میرے دین کی نزاکتوں کو کیا جانے بس ایک معمولی سی لغزش اور… کوئی راستہ بھی تو نہیں ہے میرے پاس آخر کروں بھی تو کیا کس سے رہنمائی حاصل کروں اور بھوریا چرن وہ تو میرے سلسلے میں ہمیشہ ہی کامیاب رہا تھا، بڑا عجیب سا دل ہو رہا تھا۔ میں نے رامانندی سے کہا۔
’’تمہارا کیا ارادہ ہے رامانندی۔‘‘
’’مجھے کہیں منہ چھپانا ہے مسعود جی ہاں اگر تم اپنے ساتھ رکھنا چاہو تو مگر میں مجبور نہیں کروں گا۔‘‘
’’میرے ساتھ مگر بھوریا چرن تمہیں دیکھ لے گا۔‘‘
’’کچھ بگاڑ نہ پائے گا تمہارے ساتھ میرا جیون محفوظ رہے گا ورنہ مجھے خطرہ ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے رامانندی مگر تمہیں میرے ساتھ تکلیفیں رہیں گی۔‘‘
’’اُٹھالوں گا جیون تو بچا رہے گا۔‘‘ میں نے گہری سانس لے کر گردن ہلا دی تھی رامانندی نے کہا۔ ’’اب یہاں سے نکل چلو مہاراج مجھے اندیشہ ہے کہ وہ یہاں نہ آ جائے۔‘‘
’’چلو۔‘‘ میں نے ٹھنڈی سانس لی اور ہم دونوں کھنڈرات سے باہر نکل آئے جوہڑ کے پاس سے گزر کر ہم دُور نکل آئے میں نے رامانندی سے نیازاللہ صاحب کے بارے میں کہا۔
’’چلو گے ان کے پاس۔‘‘
’’دل تو چاہتا ہے مگر…؟‘‘
’’میرا بھی یہی خیال ہے بھوریا چرن کو ان کی طرف متوجہ مت کرو کہیں نقصان نہ اُٹھا جائیں ویسے اگر تم چاہو تو خاموشی سے انہیں کچھ بتائے بغیر ان سے
:1aa:
ملے بغیر ان کی کچھ مدد کر دو۔‘‘
’’اوہ… نہیں رامانندی نیازاللہ صاحب ایسے لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے فقر و فاقے کی زندگی گزار کر اپنا ایمان قائم رکھا ہے۔ یہ غلط دولت ان پر مسلط کر کے میں ان کی ایماندارانہ زندگی کو داغدار نہیں کروں گا۔‘‘
’’ٹھیک کہتے ہو یہ بات مجھ سے بہتر کون جانتا ہے پھر یوں کرتے ہیں کہ بستی کا رُخ ہی نہیں کرتے کوئی دُوسری سمت اختیار کرتے ہیں، آئو اس طرف چلیں۔‘‘ راستے میں میں نے رامانندی سے کہا۔
’’ہمیں اب کرنا کیا چاہئے رامانندی۔‘‘
’’وقت اور حالات کے ساتھ دیکھنا ہوگا شنکھا تمہیں افسردہ، ملول اور پریشان دیکھنا چاہتا ہوگا تمہیں اس کے برعکس کرنا ہے تا کہ اسے احساس ہو کہ اس نے جو محنت کی وہ بیکار گئی اور پھر کیا سمجھے۔‘‘
’’ہاں سمجھ رہا ہوں۔‘‘
’’بیروں کو بلائو سواری کیلئے کچھ منگوا لو دُور جانا ہوگا ہمیں۔‘‘ رامانندی نے کہا اور مجھے ہنسی آ گئی۔
’’واہ رامانندی دو قدم چل کر ہی بھول گئے میرے ساتھ رہ کر تمہیں کافی پریشانی اُٹھانی پڑے گی میں اس علم کی قوت سے اپنے لیے کوئی آسائش کبھی حاصل نہیں کروں گا سوچ لو۔‘‘
’’اوہ ہاں سچ مچ بھول گیا تھا کوئی بات نہیں چلو رامانندی تم سے پیچھے نہیں ہے۔‘‘ رامانندی نے کہا اور ہم چل پڑے کوئی منزل ذہن میں نہیں تھی بس قدم اُٹھ رہے تھے نہ جانے کس طرف…!
رامانندی کا ساتھ بڑا سکون بخش تھا تنہائی سے نجات مل گئی تھی اس سے باتیں کرکے دل کی بھڑاس نکال سکتا تھا۔ کسی بھی قدم کے بارے میں کوئی فیصلہ کرسکتا تھا۔ ہم نے آبادی کا رخ نہیںکیا تھا۔ جان بوجھ کر ویرانوں کی سمت چل پڑے تھے۔ رامانندی نے کہا۔
’’بھوریاچرن سے کہیں بھی ملاقات ہوسکتی ہے اس کے بیروں نے اسے میرے بارے میں بتا تو دیا ہوگا۔‘‘
’’کیا یہ ممکن ہے؟‘‘
’’ہاں بالکل بیراسے سب کچھ بتاتے رہتے ہیں ان کی حیثیت رپورٹروں جیسی ہوتی ہے پھر وہ تو شتکھا ہے۔‘‘
’’تمہارے خیال میں وہ زیادہ سے زیادہ کیا کرسکتا ہے۔؟‘‘ میں نے پوچھا اور رامانندی سوچ میں ڈوب گیا۔ پھر اس نے کہا۔
’’تمہارا تو وہ کچھ نہیں بگاڑے گا ویسے یقین کرو مسعود جی تم تقدیر کے دھنی ہو تمہارے بارے میں کچھ باتیں میری سمجھ میں آج تک نہیں آئیں۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’پوری کہانی مجھے معلوم ہے تم عام جوانوں کی طرح زندگی کی آسائشیں چاہتے تھے اور اس کے لیے تم نے دین دھرم کے سارے رشتے توڑ کر ہر ناجائز طریقے سے طاقت حاصل کرنا چاہی۔ بھوریا کو ایک کچے دماغ والے مسلمان لڑکے کی ضرورت تھی جو ایک مقدس مزار کو ناپاک کرکے اس کے غلیظ وجود کو پاک قدموں میں پہنچادے۔ تم نے ایسا نہ کیا اور کھنڈولا بننے سے رہ گیا۔ چلو اس سمے اس نے سوچا تھا کہ تمہیں خوب پریشان کرکے اپنے کام کے لیے مجبور کرلے گا مگر تم اس کے جال میں نہیں آئے۔ بجائے اس کے کہ وہ تمہیں ختم کردیتا اس نے دوسرے کام شروع کردیئے اس نے تمہیں پورنا بنادیا۔ آدھا جیون لگ جاتا ہے کسی کو پورنا بھگتی کرتے ہوئے۔ تب پورنیوں کا حصول ہوتا ہے مگر اس نے تمہیں کالی شکتی دیدی۔‘‘
’’اس طرح وہ میرے دل کا سکون چھیننا چاہتا تھا۔‘‘
’’نہیں مہاراج ایسا کرنے کے لیے وہ تمہیں بلی کتے کا روپ بھی دے سکتا تھا۔ اس نے یہ کیوں نہ کیا؟‘‘
’’تمہارا کیا خیال ہے رامانندی؟‘‘
’’میرا جیون بھر کا تجربہ کہتا ہے مسعود جی پورے جیون کا تجربہ کہتا ہے کہ کوئی مہمان شکتی تمہارے پیچھے ہے۔ کوئی ایسی قوت جو اس کا دماغ پلٹے ہوئے ہے۔ وہ تمہارے لیے برے کام کررہا ہے مگر الٹے … سیدھے کام وہ نہیں سوچ پارہا۔‘‘
’’ایسی کوئی قوت ہوسکتی ہے۔ میں نے ایک مقدس مزار کی بے حرمتی کرنے سے گریز کیا تھا کیا مجھے وہاں سے فیض مل رہا ہے۔ اگر ایسا ہے تو وہ بزرگ مجھے اس گندی گرفت سے کیوں نہیں بچاتے۔‘‘
’’میرا کچھ اور خیال ہے مسعود میاں۔‘‘
’’کیا…؟‘‘
’’ماں ہے نا تمہاری…؟‘‘ رامانندی نے سوال کیا اور میرے قدم رک گئے اعصاب پر جیسے بجلی سی گر پڑی میں نے رامانندی کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ہاں…!‘‘ میرے حلق سے گھٹی گھٹی آواز بھری۔
’’تو پھر عیش کرو، تمہارا کچھ نہیں بگڑے گا۔‘‘ بات سمجھ میں آگئی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا۔ ’’اتنے عرصہ سے اس سے دور ہو اس کے دعا کے لیے اٹھے ہوئے ہاتھ کبھی خالی نہیں رہ سکتے۔ وہ کچھ نہیں جانتی ہوگی تمہارے بارے میں مگر کہتی ہوگی کہ بھگوان تمہیں زندہ سلامت رکھے۔ اور بھگوان تمہیں زندہ سلامت رکھے گا۔ تمہارے دشمن کے دماغ الٹے کرتا رہے گا۔‘‘
دل ڈوب گیا۔ آنکھوں سے آنسوئوں کی دھاریں بہنے لگیں حسرت ویاس کلیجہ کاٹنے لگی۔ بالکل سچ تھا ایک لفظ جھوٹ نہیں تھا ماں کی دعائیں آفات سے بچائے ہوئے تھیں باقی جو کچھ تھا وہ کیے کی سزا تھی مگر زندگی ماں کے پھیلے ہوئے ہاتھوں کی مرہون منت تھی۔
’’ارے ارے۔ مسعود جی سنبھالو خود کو ارے نہیں بھائی روتے نہیں ہیں ملیں گے۔ سب ملیں گے تمہیں بھگوان کے ہاں اندھیر نہیں ہے اور پھر تم تو… تم تو اپنی معصومیت کے شکار ہورہے ہو۔ تم اتنے شکتی مان ہونے کے باوجود اس شکتی کو کالی شکتی سمجھ کر قبول نہیں کررہے۔ کچھ ہوگا ضرور کچھ ہوگا تمہارے لیے… مگر ارے… ارے… ارے…‘‘ دفعتاً راما نندی کا حلق بند ہوگیا۔ اس کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں۔ چہرہ سرخ ہوگیا رگیں ابھر آئیں۔ وہ دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ کر بیٹھ گیا میں پریشان ہوگیا۔ اپنی کیفیت بھول کر حیرانی سے اسے دیکھنے لگا نہ جانے اسے کیا ہوگیا تھا میں اس کے قریب بیٹھ گیا پھر میں نے اسے آواز دی۔
’’رامانندی، رامانندی کیا بات ہے بتائو تو سہی کیا بات ہے کیا ہو گیا رامانندی…؟‘‘
رامانندی نے آنکھیں بھینچ کر گہری گہری سانسیں لیں اور بولا۔ ’’کچھ نہیں مسعود جی کچھ نہیں، یار عجیب سی بات ہوگئی ہے پتہ نہیں پتہ نہیں میرا کیا بننے والا ہے، پتہ نہیں، بیٹھو یار تم بھی جذباتی ہوگئے اور میں بھی نہ بچ سکا، کچھ ایسی بات ہوگئی، جو بڑی عجیب ہوسکتی ہے۔‘‘
’’آخر کیا۔‘‘ میں نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا، بھوریا چرن کا خوف بہر طور دل پرسوار تھا اس کم بخت کے تصور سے کب جان چھوٹ سکتی تھی اور کچھ نہیں تو رامانندی کی زندگی ہی اس کے لیے تکلیف دہ ہوسکتی تھی رامانندی اس کا اظہار بھی کرچکا تھا کہ بھوریا چرن اسے نہیں چھوڑے گا لیکن اطراف پُرسکون نظر آرہے تھے اور بظاہر بھوریا چرن کہیں قرب و جوار میں محسوس نہیں ہوتا تھا۔ رامانندی نے آنکھیں بند کرکے گردن جھٹکی اور کہنے لگا۔
’’کالا جادو سیکھنے کے لیے سب سے پہلا کام دھرم کو کھونا ہوتا ہے۔ دھرم کو ناس کرنا ہوتا ہے اور اس کے لیے گندے گندے کام شروع کئے جاتے ہیں اور دھرم دیوتا کا نام کبھی زبان پر آنے نہیںدیا جاتا یہاں تک کہ عادت پڑجاتی ہے کالا جادو بھگوان کے بنائے ہوئے اصولوں کے خلاف ہی تو ایک گندی کوشش ہے جو طاقت شیطان کو مل گئی ہے اسی طاقت کا ساتھی تو بننا ہوتا ہے اور جب انسان شیطان کا ساتھی بن جائے تو پھر اللہ کا نام یا بھگوان کا نام اس کی زبان پر کبھی نہیں آتا یہاں تک کہ اس کا دل پتھر کی مانند سخت ہوجاتا ہے بھگوان اسے یاد ہی نہیں رہتا میں نے بھی تو یہی سب کچھ کیا تھا، بھگوان کے نام سے اپنا من ہٹالیا تھا اور نجانے کتنا عرصہ ہوگیا کہ میں نے بھگوان کا نام نہیں لیا ہمارے کالے جادو کے دھرم میں اگر اس کا کوئی پاپی دھرم ہے تو بھگوان کا نام لینا سخت منع ہے بلکہ کالے جادو کا تھوڑا بہت علم اس وقت آتا ہے جب بھگوان کے نام سے دوری اختیار کرلی جائے۔ آج تمہاری ماں کاذکر کرتے ہوئے میرے منہ سے بار بار بھگوان کا نام نکل گیا۔ یقین کرو یہ نام میں نے نجانے کتنے عرصے سے نہیں لیا۔ یہ تو مجھ ایسے بھول گیا تھا جیسے… جیسے بس کیا بتائو تمہیں… لیکن تذکرہ ایک ماں کا تھا اور بھگوان کی سوگند ماں بھگوان ہی کا دوسرا روپ ہوتی ہے۔ اس کا مقصد ہے کہ بھگوان پھر سے میرے من میں آگیا۔ بار بار میرے منہ سے اس کا نام نکل رہا ہے۔ آہ اس طرح تو میں بھی تمہارا ساتھی ہی بن گیا۔ مسعود بھیا میں بھی تمہارا ساتھی ہی بن گیا کالے جادو کا گیان تو اب ٹوٹ ہی جائے میرا میں خود بھی اس پر لعنت بھیجتا ہوں۔ کیا پاپا میں نے اس سے۔ ابھی تو مکمل بھی نہیں ہوا تھا چھوٹے موٹے کام کرلیتا تھا اور اس کے بعد جوہڑ میں جاپڑا۔ نجانے کب تک پڑا رہتا۔ اگر تمہارے ہاتھوں نہ نکلتا، کیا ملا مجھے اس کالے جادو سے۔ آج بھگوان میرے من میں پھر سے زندہ ہوا ہے تو اب میں اس کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا۔ مسعود میں کبھی بھگوان کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا۔ میں بھی اپنے گناہوں سے توبہ کروں گا میں بھی اپنے پاپوں کا پرائشچت کروں گا۔ لو بھیا ایک نہیں دو کھیل شروع ہوگئے، اور یہ کھیل خود بخود نہیں شروع ہوا۔ ماں بیچ میں آگئی ہے، میری ماں نہیں ہے مگر میں تمہیں بھیا کہتا ہوں۔ ماں اپنے اس دوسرے بیٹے کو بھی اپنی دعائوں میں شامل کرلے، ماں صرف مسعود تیرا بیٹا نہیں ہے ایک بیٹا رامانندی بھی ہے اس کے لیے بھی ہاتھ اٹھالے ماں، اس کے لیے بھی ہاتھ اٹھالے۔‘‘ رامانندی ایسا بلک بلک کے رویا کہ میرا دل پانی پانی ہوگیا، میں خود بھی ماں کو یاد کرکے رونے لگا تھا لیکن رامانندی نے کچھ ایسی آہ و زاری کی کہ اپنا سارا دکھ بھول گیا اور اسے دلاسے دیتا رہا۔ ہم دونوں بہت دیر تک روتے رہے تھے۔ رامانندی نے گلوگیر آواز میں کہا۔
’’میری ماں اس سنسار میں نہیں ہے میں نے تیری ماں کا سہارا طلب کرلیا ہے مسعود بھیا… بھیا ہے تو میرا جیون واردوں گا تجھ پر بس اور کیا کہوں، میں ہوں ہی کس قابل۔‘‘ بہت دیر تک ہم جذبات میں ڈوبے رہے رامانندی نے کہا۔
’’چلو چلیں آگے بڑھیں بھوک لگ رہی ہوگی تمہیں بھی میں بھی بھوکا ہوں۔ بھگوان کا دیا کھائیں گے۔ لعنت ہے اس کالی شکتی پر جس کے ذریعے ہمیں سب کچھ مل سکتا ہے مگر ایسا نہیں کریں گے ہم۔ چلو چلتے رہو، چلتے رہو۔‘‘ اور ہم وہاں سے چل پڑے۔ دن گزر گیا شام ہوگئی۔ کچھ فاصلے پر ایک بستی کے آثار نظر آئے تھے اور شام کے جھٹپٹے کے بعد جب سورج ڈوبا تو بستی کے کسی گوشے سے آواز بھری۔ ’’اللہ اکبر اللہ اکبر، اللہ اکبر۔‘‘ مغرب کا وقت ہوگیا تھا۔ اذان ہورہی تھی۔ قدم رک گئے رامانندی بھی اس آواز کو سننے لگا، میرے دل میں بھی عجیب سی کیفیت پیدا
میں پھر آگے بڑھنے لگا، دور سے مسجد کے مینار نظر آرہے تھے۔ اس پر لائوڈ اسپیکر لگا ہوا تھا اور غالباً روشنی بھی کردی گئی تھی مگر صرف مینار پر باقی مسجد بھی قدرتی روشنی میں نہائی ہوئی تھی۔ بے خودی طاری ہوگئی قدم تیزی سے اٹھنے لگے۔ مسجد کے قریب پہنچا تو رامانندی نے شانے پر ہاتھ رکھ کر روک دیا۔
’’اندر مت جا مسعود… تو گندا ہے۔‘‘
’’ایں…‘‘ میں چونک پڑا۔ رامانندی کو دیکھا اور پھر ٹھنڈی سانس لے کر رک گیا۔ گردن ہلائی اور کچھ فاصلے پر ایک درخت کے نیچے پہنچ گیا پھر حسد بھری نظروں سے نمازیوں کو دیکھنے لگا۔ چند ہی لوگ آئے تھے ممکن ہے اس بستی میں مسلمانوں کی آبادی کم ہو۔ اندر نماز شروع ہوئی تو بے اختیار کھڑا ہوگیا۔ نیت بندھی تو میں نے بھی نیت باندھ لی ایک بار پھر ذہن پر زور ڈالا اندر قرأت ہورہی تھی مگر میرا منہ بند تھا۔ ذہن بند تھا پاک کلام گندے ذہن میں نہیں آرہا تھا۔ ہر کوشش ناکام ہورہی تھی۔ سجدے میں پڑگیا بس اسی میں سکون مل رہا تھا۔ نماز ختم ہوگئی نمازی شاید باہر نکل گئے تھے کوئی آواز نہیں آرہی تھی۔ سجدے سے سر ابھارا تو دو تین افراد کو قریب کھڑے دیکھا۔ ان میں سے ایک نے سلام کیا تو اسے جواب دیا۔
’’مسجد میں تو بہت جگہ ہے آپ لوگ باہر نمازکیوں پڑھ رہے تھے۔‘‘ اس شخص نے سوال کیا۔ (جاری ہے)

Latest Posts

Related POSTS