مسعود کی پرورش نیک والدین کے سائے میں ہوئی تھی لیکن بری صحبت نے اسے جوئے اور سٹے تک پہنچا دیا اور وہ دولت کے آسان حصول کی طرف مائل ہوگیا۔ یہی لالچ اتفاقاً اسے کالے جادو کے ماہر بھوریا چرن تک لے گیا۔ بھوریا چرن نے اسے اپنا آلۂ کار بننے کی پیشکش کی لیکن مسعود کو بروقت عقل آگئی اور اس نے کسی بھی شیطانی عمل کا حصہ بننے سے انکار کردیا۔ مسعود کے انکار پر بھوریا چرن اس کا بدترین دشمن بن گیا۔ اس نے مسعود کو در در بھٹکنے پر مجبور کردیا۔ یہی نہیں بلکہ وہ ذہنی اور جسمانی صحت سے بھی محروم ہوگیا۔ اسے کہیں بھی جائے پناہ میسر نہیں تھی۔ نت نئی مشکلات سے نبرد آزما ہوتے ہوئے اس کی ملاقات ایک بزرگ بابا فضل سے ہوئی، انہوں نے نہ صرف بھوریا چرن کے شر سے اس کی حفاظت کی بلکہ اسے روحانی طاقت سے بھی نوازا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے مسعود کو خلق خدا کے کام آنے کی ہدایت کی تھی۔ مسعود نے ان کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے کئی لوگوں کی مشکلات حل کرنے میں ان کی مدد کی۔ اسی دوران اسے اپنے ماموں ریاض سے ملاقات کی امید نظر آئی تو وہ ان کی تلاش میں لگ گیا۔ اسے اپنے والدین، بہن بھائی اور ماموں کی بہت یاد آتی تھی لہٰذا وہ ہر صورت ان سے ملنا چاہتا تھا۔ اسی جستجو میں وہ ایک ویران حویلی تک جا پہنچا۔ یہ دراصل بھوریا چرن کا بچھایا ہوا جال تھا جس میں وہ گرفتار ہوگیا تھا۔ یہاں اس نے پانی کے دھوکے میں غلیظ خون پی کر اپنے وجود میں نجاست اتار لی۔ اس نے دریا میں چھلانگ لگا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرنا چاہا لیکن کچھ لوگوں نے اس کی جان بچالی۔ بھوریا چرن مسلسل اس کے تعاقب میں تھا۔ وہ مسعود کو پریشان کرنے کیلئے کبھی اپسرائوں کے روپ میں حسین عورتوں کو اس کے پاس بھیجتا تو کبھی عجیب الخلقت لوگوں کا ایک ہجوم اس کے پیچھے لگادیتا جو دراصل اس کے بیر تھے۔ مسعود کو ان بیروں سے گلوخلاصی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی جو اپنے آپ کو اس کا خادم کہتے تھے۔ وہ بے مقصد ادھر ادھر بھٹکتا پھر رہا تھا کہ ایک جوہڑ کے کنارے پہنچ کر اسے یاد آیا کہ بھوریا چرن نے ایک بار اس کی مدد کرنے والے سفلی علم کے ایک ماہر رامانندی کو بوتل میں بند کرکے اسی جوہڑ میں پھینک دیا تھا۔ مسعود نے انہی بیروں کی مدد سے وہ بوتل نکلوائی اور رامانندی کو آزاد کردیا۔ راما نندی مسعود کا بے حد شکرگزار ہوا، دونوں میں بہت سی باتیں ہوئیں اور پھر وہ چلتے چلتے ایک بستی تک جا پہنچے۔ یہاں ایک مسجد دیکھ کر مسعود نماز ادا کرنے کیلئے اندر جانا چاہتا تھا کہ رامانندی نے اسے روک لیا کہ چونکہ اب وہ پاک صاف نہیں اس لئے اندر نہ جائے۔ مسعود نے ناچار اس کی بات مان لی اور ایک باہر درخت کے سائے میں سجدے میں گرگیا۔ راہ گیر اسے دیکھ کر حیران تھے، بالآخر ایک شخص نے تعجب سے سوال کر ہی دیا کہ وہ مسجد کو چھوڑ کر باہر نماز کیوں پڑھ رہا تھا۔
(اب آپ آگے پڑھیے)
میں نے تھوک نگل کر ادھر ادھر دیکھا کیا جواب دیتا اس بات کا لیکن گردن گھمائی تو ایک انوکھا منظر دیکھا۔ رامانندی بھی سجدے میں پڑا ہوا تھا۔ میں ششدر رہ گیا۔ تب ایک لزرتی ہوئی بوڑھی آواز بھری۔
’’آپ لوگ چلیں ہم پوچھ لیں گے۔‘‘
’’مسافر معلوم ہوتے ہیں امام صاحب ہوسکتا ہے لباس صاف نہ ہوں اس لیے اندر نہ آئے ہوں۔‘‘
’’اگر ایسا ہے تو اس کے گھر کے اس احترام کا جذبہ وہ قبول کرے۔ میاں انہیں اٹھائو، سجدے اتنے طویل مناسب نہیں ہوتے۔‘‘ میں نے حکم دینے والے کو دیکھا تقریباً اسی سال کی عمر کے سفید ریش انسان تھے۔ بھنوئوں کے بال بھی سفید تھے ڈھیلے سفید چغے اور عمامے میں ملبوس تھے۔ میں رامانندی کے قریب پہنچا اور اسے جھنجھوڑنے لگا۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ حالانکہ اچھا خاصا اندھیرا پھیل گیا تھا۔ مگر رامانندی کی سجدہ گاہ بھیگی ہوئی نظر آرہی تھی اس کی آنکھیں آنسوئوں سے بھری ہوئی تھیں۔
میری عقل چکرا گئی۔ رامانندی کو کیا ہوگیا۔ اسی وقت نمازیوں میں سے کسی کی آواز سنائی دی۔ ’’مسافروں کے لیے کھانا لے آئوں امام صاحب…؟‘‘
’’نہیں میاں خانہ خدا کے مہمان ہیں۔ اس کے ہاں کیا کمی ہے۔ آپ کا بے حد شکریہ۔ گھر میں جو پکا ہے ان کے سامنے رکھ دوں گا۔‘‘ لوگ معلوم کرکے چلے گئے۔ امام صاحب ہمارے قریب ہی زمین پر بیٹھ گئے۔ وہ بغور ہمارا جائزہ لے رہے تھے پھر انہوں نے کہا۔ جو کچھ پوچھوں گا تفسیر احوال کیلئے پوچھوں گا۔ جس بات کا جواب دینا ناپسند ہو نہ دینا برا نہیں مانوں گامگر جھوٹ نہ بولنا۔ خانہ خدا کے سامنے ہو۔
’’نہیں امام صاحب آپ کچھ نہ پوچھیں جواب نہ دے سکیں گے۔‘‘
’’خدائے قدوس کی قسم بغرض تجسس نہیں انسان سے محبت مجبور کررہی ہے۔ کہ تم سے احوال دریافت کروں۔ عمر میں تم سے کہیں زیادہ ہوں۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ کسی مشکل میں مشورہ کرلینا ضروری ہے حل نکل آتا ہے۔ مجھے بتائو بچو… حلیے سے مشکل کا شکار معلوم ہوتے ہو کیا بات ہے؟‘‘
’’ہماری داستان طویل ہے۔‘‘
’’عشاء تک فراغت ہے مجھے بتائو کیا پریشانی ہے تمہارے نام کیا ہیں۔‘‘
’’میرا نام مسعود احمد ہے اور ان کا رامانندی ہے۔‘‘
’’رامانندی…‘‘ امام صاحب نے سرگوشی کے انداز میں کہا اور پھر گہری نظروں سے رامانندی کو دیکھا پھر بولے۔ ’’جیل سے فرار ہوئے ہو؟‘‘
’’نہیں…‘‘ رامانندی نے جلدی سے کہا۔
’’کسی قانونی مشکل میں ہو…؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ رامانندی ہی بولا۔
’’الحمدللہ پھر احوال کہو۔ تم بتائو میاں خاموش کیوں ہو…؟ پہلے تم اپنے بارے میں بتائو۔‘‘ زبان کھل گئی۔ میں نے اول سے آخر تک داستان امام صاحب کو سنادی اس میں رامانندی کا پورا ذکر بھی آگیا تھا۔ امام صاحب خاموشی سے سنتے رہے تھے۔ میرے خاموش ہونے کے بعد بھی وہ دیر تک خاموش رہے تھے۔ پھر وہ رامانندی سے مخاطب ہوکر بولے۔
’’عزیزی تمہاری داستان تو معلوم ہوگئی۔ مگر تم سجدے میں کیوں پڑے ہوئے تھے۔ تم کسے سجدہ کررہے تھے؟‘‘
’’ارے جس کی آواز مجھے سنائی دے رہی تھی۔ وہ جس کا کہا آپ بول رہے تھے۔ میں اسے سجدہ کررہا تھا۔ میرے گناہوں نے بھگوان سے تو میرا رشتہ توڑ دیا امام جی… مگر میں اس کی پناہ میں آنا چاہتا ہوں جس کی باتیں آپ لوگوں کو سنا رہے تھے۔ میں کالے دھرم سے نکل کر اس کے سائے میں آنا چاہتا ہو۔‘‘ رامانندی نے روتے ہوئے کہا۔ اور امام صاحب اٹھ کھڑے ہوئے۔
’’آئو…‘‘ انہوں نے کہا… رامانندی سہما سہما کھڑا ہوگیا تھا میں بھی اٹھ کھڑا ہوا تو امام صاحب نے مڑ کر کہا۔ ’’نہیں تم یہاں رکو… تمہیں یہیں رکنا ہوگا۔ مسعود میاں جانا نہیں یہاں سے بہت سی باتیں کرنی ہیں تم سے تاکید کرتا ہوں۔ یہ ناآشنا ہے کہتا ہے بھگوان سے اس کا رشتہ ٹوٹ گیا ہے ارے بائولے نام بدل لینے سے کچھ نہیں ہوتا افکار نہیں بدلنے چاہئیں وہیں سے کفر کی سرحدیں شروع ہوتی ہیں افکار بدل کر نام بدلو تو بری بات ہے سچ کو کچھ بھی کہہ لو سچ رہتا ہے آئو۔‘‘ انہوں نے رامانندی کا ہاتھ پکڑا اور اسے مسجد میں لے گئے۔
میں ڈبڈبائی آنکھوں سے ان دونوں کو دیکھتا رہا اندازہ ہورہا تھا اپنے بارے میں اندازہ ہورہا تھا وہ لامذہب مجھ سے بہتر ہے وہ اندر جاسکتا ہے اور میں… وہیں سر جھکائے بیٹھا رہا۔ بہت دیر گزر گئی۔ رات ہوگئی پھر وہ واپس آگئے۔ میں نے مسجد سے آنے والی مدھم روشنی میں دیکھا رامانندی کا لباس بدل گیا تھا۔ اس نے شاید امام صاحب کے کپڑے پہنے ہوئے تھے اس کے ہاتھوں میں کھانے کے برتن تھے۔
’’کھانا کھالو مسعود میاں۔‘‘ امام صاحب بولے اور میں نے رامانندی کو بغور دیکھا۔ امام صاحب مسکراکر بولے… ’’ہم نے ان کا نام سرفراز رکھا ہے خدا کے فضل سے یہ مشرف بہ اسلام ہوگئے ہیں۔‘‘
’’اوہ اور میں…؟‘‘
’’کھانا کھالو۔‘‘
’’میرا کیا تعین ہے امام صاحب…‘‘
’’کھانے کے بعد پوچھ لینا…‘‘
’’نہیں میں آپ کا یہ حکم نہیں مان سکوں گا۔‘‘ میں نے قطعی لہجے میں کہا۔
’’سنو، ناآگہی کی معافی ہے اور جو آشنا ہوتے ہیں ان پر امانتوں کا بوجھ ہوتا ہے اس نے ہندو گھرانے میں جنم لیا اور وہی سیکھا جو دیکھاتھا!‘‘
’’ تم نے بھی وہی سیکھا جو دیکھا تھا اور تمہارا دیکھا وہ تھا جو مکمل تھا۔ تمہارا سنا وہ تھا جو حقیقت تھا۔ فرق صرف آشنا نا آشنا کا ہوا۔ مساجد میں عالم دین کتابوں میں وہ بتاتے ہیں جو نجات کی سمت تعین کرتا ہے اور جان کر بھٹکنا بدترین ہے۔ تم نے ملے سے منہ موڑا، بار بار ایک بار نہیں جب تم اس پر بھروسہ کرتے تھے تو خود قدم کیوں بڑھائے تمہیں تو سمت دی گئی تھی اور وہی سمت تمہیں آگے لے جارہی تھی رخ بدل لیا تم نے کوئی کیا کرے۔ بار بار رخ بدلتے ہو۔ اب انتظار کرو اپنی طرف چلنے والی ہوائوں کا۔ ہوا کے صحیح رخ کا اندازہ ہوجائے تو اس سمت چل پڑنا۔‘‘
’’گویا اب میں تنہا ہوں…‘‘ میں نے پوچھا۔
’’نہیں تمہارے ساتھ توبہ ہے۔ سانسوں کی آخری حد تک۔ موت کے ہوش چھین لینے سے پہلے تک۔ اور میں صرف اتنا کہتا ہوں کہ تمہیں مایوسی نہیں ہوگی۔ ہاں قبولیت تک انتظار کرنا ہوگا۔‘‘
میں سکوت کے عالم میں کھڑا رہا۔ پھر میں نے آہستہ سے کہا۔ ’’شکریہ میں چلتا ہوں۔‘‘
’’کہاں…؟‘‘
’’پتہ نہیں…‘‘
’’کھانا نہیں کھائو گے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’یہ برتن گندے ہوجائیں گے۔‘‘
’’ہم انہیں دوبارہ استعمال نہیں کریں گے۔‘‘
’’میں یہ نقصان نہیں کرنا چاہتا…‘‘ میں نے کہا اور امام صاحب خاموش ہوگئے میں پلٹا تو رامانندی بے قرار ہوکر بولا۔
’’ایک منٹ مسعود ایک منٹ، میں امام صاحب سے اجازت لے لوں۔ امام صاحب میرے لیے کیا حکم ہے؟‘‘
’’اللہ کے احکامات کی تعمیل کرنا بس اس کے سوا کچھ نہیں۔‘‘ امام صاحب نے کہا اور کھانے کے برتن واپس لے کر اندر چلے گئے۔ میں نے رامانندی سے کہا۔
’’راما…! وہ معاف کرنا سرفراز تمہارا میرے ساتھ چلنا اب مناسب نہیں ہوگا ہم اسے عطیہ الٰہی کہتے ہیں تمہیں جو عطا ہوا وہ بہت قیمتی ہے۔ بہتر ہے کہ امام صاحب کے ساتھ کچھ عرصہ قیام کرکے دینی معلومات حاصل کرو وہ گریز نہیں کریں گے۔‘‘
’’آئو…‘‘ رامانندی نے کہا اور میرا بازو پکڑ کر وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ میں ہچکچایا تو اس نے میرے بازو پر گرفت مضبوط کرلی اور پھر مجھے ساتھ لے کر چل پڑا۔ رخ بستی کی طرف تھا۔
کافی دور چلنے کے بعد اس نے کہا تمہیں چھوڑ دوں گا میں۔ ابھی تو میرے اور تمہارے درمیان نیا رشتہ قائم ہوئے دیر بھی نہیں ہوئی۔
’’نہیں رامانندی بڑا دلچسپ واقعہ ہوگیا ہے۔‘‘ میں نے بے اختیار مسکراتے ہوئے کہا۔
’’کیا…؟‘‘
ایک مصرع ہے کہیں سنا تھا۔ اس وقت بالکل فٹ بیٹھتا ہے۔
’’میں ہوا کافر تو وہ کافر مسلماں ہوگیا۔‘‘
’’خدا نہ کرے تم کافر کیسے ہوگئے۔‘‘
’’اب بھی یہ سوال کررہے ہو۔ امام صاحب نے مجھے مسجد میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ وہ برتن جن میں میں کھانا کھائوں گا ناقابل استعمال ہوجائیں گے۔‘‘
’’سب ٹھیک ہوجائے گا مسعود… سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘
’’پتہ نہیں کیسے ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘
’’دین کی بات ہے میں نہیں بول سکتا مگر دماغ کچھ الجھتا ہے میں نے تو وہ سارے کرم کیے تھے جن سے کالا جادو آتا ہے گندے اور غلیظ عمل… صحیح معنوں میں تو پاک میں ہوں جبکہ تم نے نہ کالا جادو کیا اور نہ اس کی خواہش کی۔ میں کیسے پاک ہوگیا…؟‘‘
’’نہیں میں امام صاحب کی بات سے متفق ہوں۔ گناہ کبیرہ، اور گناہ صغیرہ کا فرق ہے باریک نکتے ہیں کوئی عالم ہی سمجھا سکتا ہے مجھے جگہ جگہ اپنی غلطیوں کی گواہی ملتی ہے بابافضل نے مجھے کچھ نصیحتیں کی تھیں انہوں نے کہا تھا کہ عمل کا ایک راستہ ہوتا ہے۔ تمہارے نفس کی خواہش تحریک شیطانی ہوتی ہے اس سے بچنا۔ محبتوں کے جال میں پھنس کر فرض کو نہ بھولنا۔ مجھے ایک کراماتی کمبل ملا تھا جسے مجھے ہر وقت ساتھ رکھنا تھا مگر رشتوں کے جال میں پھنس کر ہی اسے چھوڑ کر چلا گیا اور کمبل گم ہوگیا۔ میں نے اپنی طاقت کے زعم میں کچھ ایسے عمل بھی کئے جن کے بارے میں یہ اندازہ نہیں کرسکا کہ وہ شیطان کے بچھائے ہوئے جال ہیں۔ مجھ سے ایسی غلطیاں بار بار ہوئی ہیں۔‘‘
’’امام صاحب نے تمہیں توبہ کرنے کے لیے کہا ہے۔‘‘
’’ہاں کروں گا مگر قبولیت کا وقت نہ جانے کونسا ہوگا تم جس رشتے کی بات کررہے ہو افسوس وہ قائم نہیں ہوسکا۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’اب اور کیسے سمجھائوں۔ بتا تو چکا…‘‘ میں نے کہا۔
’’یعنی دین کا رشتہ…؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’میں اس رشتے کی بات کہاں کررہا ہوں۔‘‘
’’تو پھر…؟‘‘ میں نے اسے تعجب سے دیکھا۔
’’اوہ نہیں میرے بھیا… ماں کا رشتہ قائم ہوا ہے میرے اور تیرے درمیان میں نے ماں سے کہا تھا کہ اپنے دوسرے بیٹے کے لیے بھی ہاتھ اٹھالے اس نے ضرور میرے لیے دعا کی ہوگی اور دیکھ لے مسعود مجھے ماں کی دعا سے کیا مل گیا۔ کل ماں نے مجھ سے بھیا کے بارے میں پوچھا تو کیا جواب دوں اسے۔‘‘
میں خاموش ہوگیا ہم بستی میں داخل ہوگئے۔ بازار کھلے ہوئے تھے ایک نانبائی کی دکان پر بیٹھ کر اس نے کھانا طلب کیا اور سرگوشی میں مجھ سے بولا۔ ’’تمہیں میری قسم مسعود خاموش رہنا۔‘‘
میں نے خاموشی سے کھانا کھالیا تھا اپنی کیفیت کا خود اندازہ نہیں کرپارہا تھا کیا ہورہا ہے مجھے شکایت ہے بغاوت ہے صدمہ ہے نہ جانے کیا ہے نہ جانے اس وقت میری سوچ کیا ہے۔
’’اب بستی چھوڑ دیں کیا خیال ہے…؟ رامانندی بولا۔ نہ جانے کون سی بستی ہے۔‘‘
’’کوئی بھی ہو کیا فرق پڑتا ہے ریلوے اسٹیشن کا پتہ پوچھے لیتے ہیں کہیں بھی نکل چلیں گے۔‘‘
’’تھکن ہوگئی ہے۔ رات گزار لیں کل چلیں گے۔‘‘
’’ضرور ٹھیک ہے وہ سامنے پیپل کا درخت ہے اس کے نیچے چبوترہ بنا ہوا ہے رات گزارنے کے لیے بہترین جگہ ہے۔‘‘ ہم دونوں چبوترے پر جا لیٹے پیپل کی جڑ میں ایک مجسمہ رکھا ہوا تھا جس کے پاس مٹھائی کے دونے پڑے ہوئے تھے رامانندی نے مجھے بتایا… ’’یہ گوبر دھن پوجا کا سامان ہے صبح جلدی اٹھ جائیں گے یہاں سے ہوسکتا ہے ہندوئوں کو اعتراض ہو۔‘‘ میں نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ تم اب تک الجھے ہوئے ہو…؟
’’ٹھیک ہوجائوں گا…‘‘
’’کوشش کرکے سوجائو نیند سکون دے گی۔‘‘
’’ہاں‘‘ میں نے کہا سر کے نیچے ایک اینٹ رکھی اور کروٹ بدل لی۔ کافی دیر خاموش رہنے کے بعد میں نے کہا۔ ’’سوگئے نندی…؟‘‘
’’یار مجھے سرفراز کہو…؟‘‘
’’سوگئے سرفراز…‘‘
’’کیا بھوریا چرن کو ان حالات کے بارے میں معلوم ہوگا…؟‘‘
’’ہوسکتا ہے…‘‘
’’اس پر کیا اثر ہوگا؟‘‘
’’اللہ جانتا ہے مجھے اب بالکل پروا نہیں ہے بڑا سکون ملا ہے مجھے مسعود بیان نہیں کرسکتا بھوریاچرن کا پدم معلوم ہے تمہیں؟‘‘
’’یہ کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’شناختی نشان…‘‘
’’مکڑی…؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ہاں جہاں مکڑی دیکھ لو ہوشیار رہنا۔ اس کے بیراسی شکل میں ہوتے ہیں۔‘‘
’’ہاں میرا واسطہ پڑچکا ہے۔‘‘ میں نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا اور پھر خاموش ہوگیا۔ آنکھوں میں غنودگی تیرنے لگی تھی۔ میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر نیند بھگانے لگا۔ سوگیا تو اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکوں گا رامانندی کی گہری گہری سانسیں سنائی دے رہی تھیں۔ کچھ دیر کے بعد میں اٹھا رامانندی کو ایک نگاہ دیکھا اور پھر بلی کی طرح دبے قدموں وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ بستی کے بارے میں مجھے کچھ نہیں معلوم تھا۔ بس منہ اٹھا کر چل پڑا تھا اور رفتار تیز رکھی تھی تاکہ رامانندی مجھے تلاش نہ کرے۔ میں اس کے ساتھ نہیں رہ سکتا تھا۔
سڑکوں اور گلیوں میں کتے بھونک رہے تھے۔ بستی کے آخری سرے پر پہنچا تھا کہ سیاہ رنگ کا ایک قد آور کتا مجھ پر جھپٹ پڑا۔ بہت خونخوار کتا تھا اور بہت غصہ ور معلوم ہوتا تھا اچانک ہی غراکر حملہ آور ہوا تھا میں بوکھلا گیا۔ قریب تھا کہ کتا میری ٹانگ پکڑلے لیکن اچانک ہی کسی نے اسے پیچھے سے پکڑ کر گھسیٹ لیا۔ اور پھر اس کی بھیانک چیخیں ابھرنے لگیں۔ میں نے اسے درمیان سے دو ٹکڑے ہوتے ہوئے دیکھا۔ اس کی دونوں ٹانگیں چیر دی گئی تھیں پھر اس کے جسم کی چندھیاں چندھیاں کرکے پھینک دی گئیں۔ اور مجھے سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ وہ میرے بیر تھے… میرے محافظ…
بڑا شاک لگا تھا… یہ کالی قوتیں مسلسل میرا ساتھ دے رہی تھیں اور دوسری طرف کچھ نہیں تھا۔ ادھر میں صرف ملعون و مطعون تھا۔ اچانک سارے بیر ظاہر ہوگئے۔
’’پورنا کی جے… کوئی حکم…؟‘‘ ایک نے آگے بڑھ کر کہا میری رگیں کھینچنے لگیں۔ دماغ میں خون کی گردش تیز ہوگئی اعصاب چٹخنے لگے۔ بمشکل تمام میرے منہ سے نکلا۔
’’نہیں۔‘‘
’’سواری کورتھ لادیں؟‘‘
’’نہیں… تم جائو… روپوش ہوجائو۔‘‘
’’جے پورنا…‘‘ وہ سب غائب ہوگئے۔ میں کچھ دیر کھڑا حواس درست کرتا رہا پھر کیفیت کچھ تیز ہوئی تو برق رفتاری سے چلتا وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ رفتار ہیجان کے عالم میں پہلے سے زیادہ تیز ہوگئی تھی بستی پیچھے رہ گئی آگے جنگل کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ میں تاریکی میں ٹھوکریں کھاتا آگے بڑھتا رہا۔ راستے کا کوئی علم نہیں تھا۔ بس قدم اٹھ رہے تھے جنگل ختم ہوگیا میدان نظر آنے لگے اکا دکا خودرد درخت آجاتے تھے۔ چلتا رہا بہت دیر کے بعد کہیں دور سے گڑگڑاہٹ سنائی دی اور پھر ایک تیز روشنی جس کے عقب میں ننھی ننھی روشنیاں ٹمٹماتی گزر رہی تھیں ریل تھی جو کچھ دیر کے بعد آنکھوں سے اوجھل ہوگئی۔ چلتے چلتے تھک گیا تھا رات ابھی خاصی باقی تھی۔ جگہ کیا تلاش کرتا جہاں تھا وہیں بیٹھ گیا تھکن کے مارے برا حال ہورہا تھا نیند کے جھونکے بھی آرہے تھے چنانچہ لیٹ کر آنکھیں بند کرلیں اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔ دماغ کو آزاد چھوڑ دیا تھا اس لیے نیند آنے میں دقت نہ ہوئی اور سکون کی وادیوں میں پہنچ گیا۔ صبح کو پرندوں کی چہچہاہٹ اور جنگلی خرگوشوں کی بھاگ دوڑ سے آنکھ کھل گئی۔ جاگنے کے بعد آس پاس کے مناظر دیکھے بس وہی ویرانہ جو میری تقدیر کی مانند تھا۔ تاحد نگاہ کچھ نظر نہیں آتا تھا سوائے ٹیلی فون کے تاروں کے ان کھمبوں کے جو فاصلے فاصلے سے لگے ہوئے تھے اور ان کے بیچ تاروں کا رابطہ تھا۔ پتہ نہیں آبادی کتنے فاصلے پر ہے لیکن یہ کھمبے کسی آبادی کی جانب میری رہنمائی کرسکتے ہیں اٹھا تو چکر سا آگیا۔ احساس ہوا کہ بھوک اور پیاس نے نڈھال کر رکھا ہے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر سرد آہ بھر کے رہ گیا۔ بھلا اس بے آب و گیاہ ویرانے میں کھانے کا کیا تصور ہوسکتا ہے قدرتی طور پر بھی یہاں کچھ نہیں تھا۔ بس جگہ جگہ بدنما جھاڑیاں اگی نظر آرہی تھیں کہیں کہیں بڑے بڑے جھاڑ تھے جو بعض جگہ خاصے علاقے میں پھیلے ہوئے تھے یہی فیصلہ کیا میں نے کہ ان تاروں کو دیکھتا ہوا آگے بڑھتا رہوں۔ پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے حلق خشک ہونے لگا لیکن بے کار تھا سب کچھ بے کار تقریباً سو گز کے فاصلے پر ایک جھاڑ اگا ہوا تھا اس کے پیچھے سے گزر کر دوسری سمت پہنچا تو آنکھیں شدت حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ ایک دری بچھی ہوئی تھی جس پر سفید چادر بچھی تھی چادر کے کونے وزنی پتھروں سے دبے ہوئے تھے۔ درمیان میں پھل خشک میوے اور گوشت کے بھنے ہوئے ٹکڑے رکھے ہوئے تھے میں ساکت رہ گیا دور دور تک نظریں دواڑئیں لیکن کیا مجال کہ کسی انسانی وجود کا احساس بھی ہوجائے۔ ساری چیزیں تروتازہ تھی اور اعضاء چیخ رہے تھے کہ لپک اور شکم سیر ہوجا لیکن یہ سب آیا کہاں سے دوسرے لمحے اندر سے مایوسی کی ایک گھٹی سانس نکلی اور یاد کرنے پر یاد آیا کہ یہ سب کہاں سے آسکتا ہے بھوکا پیاسا تھا میری خواہش کو میرے بیروں سے زیادہ اور کون جان سکتا تھا ذرا سی دیر کے لئے ذہن کی کیفیت ڈانوں ڈول ہوئی اور دل نے کہا کہ پیٹ جو طلب کررہا ہے اسے نظرانداز مت کر ساری باتیں اس کے بعد شروع ہوتی ہیں چنانچہ پہلے اس مسئلے سے نمٹاجائے اور اس کے بعد سوچا جائے کہ آگے کیا کرنا ہے دو قدم آگے بڑھا تو کانوں میں آواز ابھری کہ توبہ تیرے ساتھ ہے تو تنہا نہیں ہے۔ توبہ کے دروازے اس لمحے تک کھلے رہیں گے جس لمحے تک تیری سانس تیرے بدن میں ہوگی۔ آگے بڑھتے ہوئے قدم رک گئے۔ میں نے آنکھیں بند کرلیں اور اس کے بعد رخ تبدیل کرلیا تیز رفتاری سے وہاں سے دور نکل آیا۔ کافی دور جانے کے بعد جب ایک پتھر سے ٹھوکر لگی تو ایک دم سے آنکھیں کھول کر دیکھا وہ پتھر نہیں تھا بلکہ ایک بڑا سا برتن تھا جس میں کھانے پینے کی اشیاء رکھی ہوئی تھیں۔ میں نے پلٹ کر حیرانی سے اسی جھاڑ کو دیکھا اتنا فاصلہ طے کرنے کے بعد بھی میں وہاں سے دور نہیں نکلا لیکن یہاں تو جھاڑ کا نام و نشان نہیں تھا وہ جھاڑ تو بہت پیچھے نظر آرہا تھا مگر پھر
برتن میں نے دانت پیسے اور ایک زوردار لات سامنے رکھے ہوئے برتن پر دے ماری۔ اس میں رکھی ہوئی اشیاء زمین پر لڑھک گئیں اور میں وہاں سے آگے دوڑنے لگا۔
لیکن اس بار میں نے آنکھیں بند نہیں کی تھیں سینہ دھونکنی بنا ہوا تھا۔ سانس چڑھ رہی تھی بہت دور نکلنے کے بعد جنون میں کسی حد تک کمی واقعی ہوئی تو میں نے ایک اور جھاڑی کو دیکھا جو خاصی سرسبز تھی اور اس میں لیموں جیسے گول گول پھل لگے ہوئے تھے۔ قدم خود بخود رک گئے ایک لمحے کے لئے ذہن نے کچھ سوچا دوسرے لمحے میں اس جھاڑی کے پاس بیٹھ گیا۔ انگلی اور انگوٹھے کی مدد سے پھلوں کو دباکر دیکھا رسیلے تھے اندر سے کیسے ہوں اللہ بہتر جانتا ہے دو پھل توڑے یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ان کی خاصیت کیا ہے۔ وہ کیسے پھل ہیں انسانی صحت کے لئے مضر تو نہیں ہیں یہ سب کچھ سوچھے سمجھے بغیر میں نے ایک پھل کو دانتوں سے کاٹا زیادہ سخت نہیں تھا اندر کسی قدر کھٹاس اور کڑواہٹ تھی لیکن لیموں نہیں تھے تاہم ان میں بڑے ریشے موجود تھے میں نے پورا پھل چبالیا پھر دوسرا اور اس کے بعد جھاڑی سے پھل توڑ توڑ کر کھاتا رہا یہ بھی اپنے آپ کو سزا دینے کے مترادف تھا اگر کچھ ہوجاتا ہے ان پھلوں کے کھانے سے تو ہوجائے کیا فرق پڑتا ہے لیکن معدہ پوری طرح پُر ہوگیا تھا۔ بھوک اور پیاس دونوں کی شدت مٹ گئی تھی۔ بدن کو توانائی کا احساس بھی ہورہا تھا آگے بڑھنے کی ہمت بھی پیدا ہوگئی تھی چنانچہ آگے بڑھنے لگا۔ دوپہر تک کے سفر کے دوران دوبارہ ریل گزرتے دیکھی اس کا مطلب ہے کہ فاصلے پر ہی آگے آبادی ضرور مل جائے گی۔ مناظر بدل رہے تھے زمینوں پر کچھ متعدد نشان نظر آئے جو چونے سے بنائے گئے تھے۔ پھر ٹائروں کے نشان بھی نظر آئے اور اس کے بعد ایک باقاعدہ پگڈنڈی مزید کچھ دور چل کر اس پگڈنڈی پر ایک جیپ دیکھی۔ گزرگاہ وہی تھی چنانچہ ادھر سے ہی گزرا… مگر یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ جیپ خالی تھی اس کے آس پاس کوئی موجود نہیں تھا۔ حیران کن بات تھی یہاں اس ویرانے میں یہ جیپ کون چھوڑ گیا۔ پھر ایک دم ہنسی آگئی یہ بھی شاید میرے بیروں کا احسان تھا ان کارتھ جدید ہوگیا تھا ابھی یہی سوچ رہا تھا کہ قدموں کی چاپ سنائی دی اور میں نے پلٹ کر دیکھا مضبوط جسم کا مالک کوئی تینتیس چونتیس سالہ شخص تھا جو ہاتھ میں موبل آئل کا ڈبہ سنبھالے آرہا تھا۔ اس نے بھی مجھے دیکھ لیا تھا اور رفتار تیز کردی تھی۔ شاید سوچ رہا تھا کہ کہیں جیپ لے کر نہ بھاگ جائوں قریب پہنچ کر اس نے مشکوک نظروں سے مجھے دیکھا۔
’’کیا بات ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’کچھ نہیں بھائی ادھر سے گزر رہا تھا کہ یہ جیپ کھڑی ہوئی دیکھی حیران ہورہا تھا کہ اس کا مالک کہاں گیا۔‘‘
’’ریڈی ایٹر خشک ہوگیا تھا یار مصیبت بن گئی۔ دور دور تک پانی کا پتہ نہیں تھا بہت دور جاکر ایک نالی سے پانی ملا… لعنت ہے‘‘ اس نے گردن جھٹکی اور جیپ کا بانٹ کھولنے لگا۔ میں نے آگے بڑھ کر اس کی مدد کی تھی وہ بولا ’’بعض اوقات ایک چھوٹی سی حماقت اتنی بڑی مصیبت بن جاتی ہے کہ بس مزا آجاتا ہے۔ حالانکہ پانی کا گیلن ساتھ رہتا ہے مگر حماقت ہوگئی۔ جانتے ہو کیا؟‘‘ اس نے ریڈی ایٹر میں پانی انڈیلتے ہوئے کہا۔
’’کیا ہوا…؟‘‘ میں نے پوچھا۔
سائٹ سے چلتے ہوئے میں نے گیلن نکال کر شمسو کو دیا اور کہا کہ پانی بھر لائے وہ گیلن لے کر ادھر گیا اور میں جیپ اسٹارٹ کرکے چل پڑا۔ یاد ہی نہ رہا کہ شمسو کو پانی لانے کے لئے بھیجا ہے۔ وہ تو شکر ہے کہ موبل آئل کا یہ خالی ڈبہ گاڑی میں پڑا مل گیا ورنہ گئے تھے اس نے ریڈی ایٹر فل کیا۔ اور اس کا ڈھکن لگاکر بانٹ گرادیا پھر چونک کر بولا مگر تم کہاں گھوم رہے ہو کیا تلیری سے آرہے ہو۔ میں نے کوئی جواب نہیں دیا تو وہ خود ہی بولا ریل میں بیٹھ گئے ہوتے سوا روپیہ لگتا ہے سانسی کا، سانسی ہی جارہے ہوتا؟
’’ہاں‘‘ میرے منہ نے نکلا۔
’’چلو میں چھوڑ دوں گا آئو بہت دیر ہوگئی۔‘‘ میں اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔ ’’کہاں رہتے ہو، سانسی میں…‘‘
’’نہیں‘‘
’’اچھا تلیری میں رہتے ہو گے سانسی میں کہاں جانا تھا؟‘‘
’’پہلی بار جارہا ہوں۔‘‘
’’سانسی پہلی بار جارہے ہو؟‘‘
’’ہاں!‘‘
’’کیوں جارہے ہو؟‘‘ اس کے انداز میں تمسخر تھا۔
’’کسی نوکری کی تلاش میں۔‘‘ نہیں ایک خیال کے تحت جلدی سے کہا۔
’’سانسی۔ اور نوکری کی تلاش میں۔ کسی نے مشورہ دیا تھا؟‘‘
’’کسی نے نہیں۔‘‘
’’اچھا خود ہی چار روٹیاں پکواکر چل پڑے ہوگے۔ چاروں کھاگئے یا کوئی بچی ہے۔ بھلے آدمی سانسی میں نوکری کہاں ملے گی تمہیں۔ کسی سے بات ہوئی ہے؟‘‘
’’نہیں!‘‘
’’کمال کے آدمی ہو۔ کسی سے پوچھ تو لیا ہوتا۔ کیا نام ہے۔‘‘
’’مسعود احمد‘‘
’’میرا نام شاہد علی ہے۔ کنسٹرکشن کا کام کرتا ہوں۔ ایک مصیبت میں پھنس گیا ہوں یار۔‘‘ بے تکلف آدمی تھا میں نے اس سے اس کی مصیبت کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا تھا۔ اماں کچھ منہ سے تو بولو۔ یہی بات سن کر پریشان ہوگئے ہو گے وہ خود ہی بولا۔
’’ہاں ایسا ہی ہے۔‘‘
’’چلو ٹھیک ہے دنیا کے کام ایسے ہی چلتے ہیں۔ کیا کام جانتے ہو؟‘‘
’’کچھ نہیں!‘‘
’’سبحان اللہ۔ سبحان اللہ اماں کیا آدمی ہو۔ کوئی کل سیدھی نہیں لگ رہی کچھ پڑھے لکھے ہو۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’شکر ہے۔ شکر ہے۔ کتنی تنخواہ میں کام چل جائے گا کوئی آگے پیچھے ہے یا۔‘‘
’’اکیلا ہوں۔‘‘
’’مبارک ہو۔ مبارک ہو۔ تمہیں نہیں انہیں جو تمہارے کوئی بھی نہیں ہیں۔ ورنہ بھوکے مرتے بے چارے۔ بار برا مت ماننا میری بات کا۔ مگر تم تو بہت ہی سیدھے آدھی ہو مجھے وہ شیخ چلی یاد آرے ہیں جو چار روٹیاں باندھ کر نوکری تلاش کرنے چل پڑے تھے۔ ان کا کام ہوا ہو یا نہ ہوا ہو تمہارا کام ہوگیا۔ بس یوں سمجھ لو تمہیں نوکری مل گئی اب پیسوں ویسوں کی بات مت کرنا۔ ذرا اطمینان سے بیٹھیں گے تو یہ مسئلہ بھی حل کرلیں گے ان دنوں تو میں ایک مصیبت میں گرفتار ہوں فی الحال تم یوں کرو کہ میری مصیبت میں شریک ہوجائو، دونوں مل کر مصیبتیں بھگتیں گے، ساتھ کھائیں گے ساتھ پیئیں گے، یار یقین کرو، میں ہنس بول رہا ہوں تمہارے ساتھ، مگر جو مجھ پر بیت رہی ہے میرا دل ہی جانتا ہے۔‘‘
یہ آدمی واقعی اچھا معلوم ہوتا تھا، فوراً ہی میں نے اپنے خیالات میں ذراسی تبدیلی پیدا کی تھی نوکری کا تذکرہ یہی سوچ کر کیا تھا کہ جو کچھ گزر رہی ہے وہ تو گزر ہی رہی ہے کم از کم کچھ حلال کی کھائوں، بیچارے پنڈت جی کے ہاں گھر کے کام کاج کی نوکری کی تھی تو وہ گھر ہی چھوڑ بھاگے تھے اب مجھے کیا معلوم تھا کہ ان پر اور مجھ پر کیا مصیبت پڑنے والی ہے لیکن یہ دوسری نوکری جو مجھے مل رہی تھی وہ پہلے سے کسی مصیبت زدہ کے ہاں کی نوکری تھی، دل تو چاہ رہا تھا کہ اس سے اس کی مصیبت کے بارے میں پوچھوں لیکن ہمت نہیں پڑرہی تھی پھر اس نے خود ہی کہا۔
’’یار کچھ منہ سے تو پھوٹو، سانسی ابھی یہاں سے کافی دور ہے اور میں بہت زیادہ تیز گاڑی نہیں چلا سکتا کچھ گڑبڑ ہے اس کے انجن میں۔‘‘
’’آپ نے اپنی کسی پریشانی کا تذکرہ کیا تھا۔ کیا بات ہے؟‘‘
’’ہاں ہاں اس وقت یہی مسئلہ میری زندگی کا سب سے اہم مسئلہ ہے۔ بس یار ایک انوکھی مشکل میں مبتلا ہوگیا ہوں، اللہ سے دعا کرو کہ مجھے اس مصیبت سے گزارے، ہوا یہ ہے کہ تمہیں بتاچکا ہوں کہ کنسٹرکشن کا کام کرتا ہوں اور عمارتیں وغیرہ بنواتا ہوں، ہمارے ایک جاننے والے ہیں بڑی پرانی شناسائی ہے بس یوں سمجھو کہ اللہ نے پیٹ بھی بھردیا ہے اور تجوریاں بھی، ایک باغ خریدا تھا انہوں نے اسی علاقے میں جدھر سے ہم لوگ گزر رہے تھے، بڑا پرانا باغ پڑا ہوا تھا، موصوف کو وہاں فارم ہائوس بنانے کی سوجھی، ایک عمارت، ٹیوب ویل اور ایک طویل رقبے میں احاطہ بنوانے کا ارادہ کیا اور اس کا ٹھیکہ مجھے دے دیا، پیسے بھی لے لیے میں نے ان سے اور اس کے بعد سارے کام ختم کراکے اس طرف چل پڑا مجھے کیا معلوم تھا کہ وہ باغ آسیب زدہ ہے۔‘‘ شاہد علی بولتے ہوئے رک گیا۔ میں خاموشی سے اس کے آگے بولنے کا انتظار کرنے لگا۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے کہا۔
’’باغ کا کٹوانا ضروری تھا اور ایسے بھی پرانا باغ تھا سارے درخت سوکھے پڑے ہوئے تھے، کوئی دیکھ بھال کرنے والا موجود نہیں تھا یہاں تک کہ مالی بھی نہیں اور اس کی وجہ یہی تھی کہ باغ آسیب زدہ مشہور تھا درختوں پر پھل نہیں آتے تھے اور اس کا مالک بھی اس سے جان چھڑانا چاہتا تھا۔ کسی ہندو کا باغ تھا۔ بہر طور میں نے کام شروع کرادیا۔ درخت کٹوانے میں بھی دو ڈھائی مہینے لگ گئے۔ اور پھر مصیبت آگئی، مصیبت ایسے آئی کہ بس کیا بتائوں یار۔ پتہ نہیں تم میری باتوں کو مذاق سمجھو یا سچ۔ ایک بہت پرانا درخت تھا وہاں بستی کے آس پاس کے لوگوں کا کہنا تھا کہ اصل میں یہی درخت آسیب زدہ ہے۔ میں نے اس سے پہلے کبھی آسیب وغیرہ دیکھے نہیں تھے۔ مگر کچھ ایسے آثار نمودار ہوئے جس سے مجھے بھی شبہ ہونے لگا کہ لوگوں کا کہنا غلط نہیں ہے، میں نے درخت کی کٹائی شروع کرادی اور اس دن دوپہر کا وقت تھا۔ مزدور جڑیں کھود رہے تھے کہ درخت کی جڑ میں انہیں ایک عجیب و غریب صندوق جیساملا، پتھر کا صندوق تھا مزدوروں نے اس پر کدالیں مارنا شروع کردیں اور اس صندوق کا ڈھکن کھول دیا مجھے اطلاع ملی تو میں فوراً ہی متوجہ ہوگیا بے شمار بار ایسی کھدائیاں کراتے ہوئے دل میں یہ خیال آیا تھا کہ کہیں کوئی خزانہ وزانہ مل جائے۔ اس وقت بھی جب مجھے پتہ چلا کہ درخت کی جڑ میں ایک صندوق برآمد ہوا ہے تو میں نے لگائی دوڑ اور پہنچ گیا وہاں… مزدروں کو ہٹاکر میں نے اس چوکور گڑھے میں جھانکا۔ گڑھے میں کسی خاص درخت کے پتے بچھے ہوئے تھے جن میں خاص بات یہ تھی کہ وہ تروتازہ تھے حالانکہ درخت پرانا اور سوکھا ہوا تھا مگر وہ پتے بالکل ہرے تھے اور ان پتوں پر پتھر کی ایک مورتی لیٹی ہوئی تھی۔ میں نے اس مورتی کو غور سے دیکھا ہندوئوں کے دیوی دیوتائوں کے بہت سے بت دیکھے ہیں میں نے مگر وہ مورتی ان میں سے کسی کی نہیں تھی۔ ایک عجیب سی شکل کی تھی وہ میں نے وہ مورتی نکال لی اور مزدوروں سے پورا کنواں کھدوادیا۔ اس لالچ میں کہ شاید یہ کوئی نشانی ہو خزانے کی۔ مگر کچھ نہیں ملا وہاں بڑی مایوسی ہوئی مزدوروں نے وہ درخت بھی گرادیا کوئی ایسی خاص بات نہیں تھی۔
بار کھدائی کراتے ہوئے بہت سی چیزیں ملی تھیں مجھے۔ کمبخت کام کی کوئی چیز آج تک نہیں ملی لیکن اس بار جو مصیبت گلے پڑی ہے اللہ ہی اس سے نکالے۔‘‘
وہ جیسے خود ہی اپنی کہانی میں کھوگیا۔ میں خاموشی سے اس کے آگے بولنے کا انتظار کرنے لگا وہ سوچ میں ڈوب کر خاموش ہوگیا تھا پھر کچھ دیر کے بعد اس نے کہا۔ ’’ہاں تو میں کہہ رہا تھا کیا کہہ رہا تھا؟‘‘
’’وہ درخت گرادیا گیا۔‘‘ میں نے بتایا۔
’’کونسا درخت؟‘‘
’’جس کے نیچے سے مورتی نکالی گئی تھی۔‘‘
’’معاف کرنا۔ زیب النساء کا خیال آگیا تھا۔ ہاں تو وہ مورتی جو اس پتھر کے صندوق سے نکلی تھی میرے پاس ہی تھی۔ میں نے اسے بس یونہی جیپ میں رکھوالیا تھا۔ پھر میں دوسرے کاموں میں مصروف ہوگیا۔ شام کو گھر چل پڑا درخت کا واقعہ دوسرے کاموں کی وجہ سے بھول ہی گیا تھا۔ گاڑی سے اترا تو مورتی نظر آگئی۔ اسے اٹھا لایا اور اپنی خواب گاہ کے کارنس پر رکھ دیا۔ زیب النساء کے ساتھ کھانا کھایا بچوں سے باتیں کیں دو بچے ہیں میرے بیٹی بڑی ہے بیٹا چھوٹا دونوں دوسرے کمرے میں سوتے ہیں۔ رات کو ہم میاں بیوی اپنے کمرے میں معمول کے مطابق سوگئے۔ کوئی پونے ایک بجے سوئے تھے اور اس وقت ڈھائی بجے تھے جب ایک دھماکہ سا ہوا اور اس کے ساتھ ہی میری بیوی زیب النساء کی خوف ناک چیخ سنائی دی۔ میں اچھل پڑا۔ کمرے میں مدھم روشنی چل رہی تھی اور زیب النساء فرش پر پڑی ہوئی تھی۔ میں نے مسہری سے چھلانگ لگائی اور اس کے قریب پہنچ گیا۔ زیب النساء پسینے میں ڈوبی ہوئی تھی اس کی آنکھیں دہشت سے پھٹی ہوئی تھیں لیکن وہ ہوش میں تھی اور بار بار انگلی سے کارنس کی طرف اشارہ کررہی تھی میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا تھا بڑی مشکل سے میں اسے اٹھا کر مسہری پر لایا۔ پانی پلایا دلاسے دیئے تو اس کی کیفیت بحال ہوئی۔ اس نے بتایا کہ وہ واش روم گئی تھی باہر نکلی تو مدھم روشنی میں اس نے کارنس پر کوئی تحریک دیکھی۔ وہ سمجھی کوئی چوہا کسی طرح اوپر چڑھ گیا مگر پھر اس نے غور سے دیکھا تو وہ مورتی ہل رہی تھی جسے میں لایا تھا۔ اس کے دیکھتے ہی دیکھتے مورتی اٹھ کر بیٹھ گئی پھر اس کے باریک پائوں نیچے لٹکے اور اتنے لمبے ہوئے کہ زمین تک پہنچ گئے اس کے بعد اس نے گھور کر زیب النساء کو دیکھا اور پھر آہستہ آہستہ آگے بڑھ کر دروازے کے پاس پہنچ گئی۔ پھر اس نے دروازہ کھول اور باہر نکل گئی زیب النساء دہشت سے چیخ کر میری طرف بھاگی اور لباس میں الجھ کر گرپڑی۔ یار میں اسے اس کا وہم سمجھ سکتا تھا مگر دونوں باتیں اس کے بیان کی تصدیق کرتی تھیں۔ مورتی کارنس سے غائب تھی اور دروازہ کھلا ہوا تھا…!‘‘ (جاری ہے)