Monday, April 21, 2025

Kala Jadu | Episode 32

’’ایک نیا کھیل کھیل لے تو… تیری آتما شانت ہوجائے گی۔‘‘
’’کیا کھیل ہوگا وہ…؟‘‘
’’تو پورنا بن گیا ہے، میرے ساتھ رہ کر جاپ کر … شنکھا میں تجھے بنا دوں گا پھر تو کھنڈولا بن جا۔ جب کھنڈولا بن جائے تو کھنڈولا شکتی مجھے دان کردینا۔ جیسے میں نے تجھے پورنا شکتی دی۔ میں کھنڈولا بن جائوں گا تو شنکھا رہ جائے گا۔ میرا چیلا بن کر ساتھ رہنا۔ ہم دونوں مل کر سنسار کو ٹیڑھا کردیں گے۔ دیکھ بالکا… اب تو تیتر ہے، نہ بٹیر۔ اپنے دھرم سے نکالا جا چکا ہے اور پورن لاگ تیرے شریر میں رینگ رہا ہے۔ جب تک یہ پورن لاگ تیرے شریر میں ہے، اپنے دھرم سے تو تیرے سارے ناتے ٹوٹ گئے مگر یہ شکتی ابھی تیری ہے۔ اندرسبھا کی سات پورنیاں تیری داسیاں ہیں۔ بائولے! وہ سات کنواریاں ہیں جو تیرے ساتھ اپنی سہاگ پوجا کا انتظار کررہی ہیں۔ تیری اور تک رہی ہیں اور تو انہیں بھول کر اس چارپائی پر پڑا ہوا ہے۔ تجھے ایک آسانی ہے۔‘‘
’’وہ کیا…؟‘‘
’’ابھی تو مسلمان بنا ہوا ہے، بنا رہ، کوئی ہرج نہیں ہے۔ اس طرح مسلمانوں کو تجھ پر شک نہ ہوگا جس طرح دھرم ہوا کرتا ہے، کرتا رہ، کوئی نہیں سوچے گا تو شنکھا ہے اور جب تو کسی مسلمان لڑکے سے کہے گا کہ وہ تیرا اتنا سا کام کردے کہ تیرے پتلے کو کسی مزار تک پہنچا دے تو وہ تجھے مسلمان سمجھ کر انکار نہ کرے گا۔ تو کھنڈولا بن جائے گا اور میں تجھے بتائوں گا کہ تو اپنی شکتی مجھے کیسے دے سکتا ہے۔‘‘
میں بھوریا چرن کو دیکھتا رہا۔ پھر میں نے کہا۔ ’’تو قابل رحم ہے بھوریا چرن۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’تیری زندگی بھی اسی کوشش میں گزر گئی۔‘‘
’’ہاں! مجھے بڑا گھاٹا ہوا ہے۔‘‘
’’جو قوتیں تجھے حاصل ہیں بھوریا! تو انہی میں خوش کیوں نہیں رہتا۔‘‘ میں نے پوچھا۔
’’وجہ ہے اس کی۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’بتادوں تجھے؟‘‘
’’بتانے میں کوئی حرج ہے؟‘‘
’’حرج تو بہت بڑا ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’تو کھنڈولا شکتی مجھے کبھی نہ دے گا۔‘‘
’’کھنڈولا شکتی میرے پاس کہاں ہے، میں وہ جاپ کبھی نہیں کرسکوں گا کہ میں شنکھا بن جائوں کیونکہ… کیونکہ میرا دل ایک مسلمان کا دل ہے۔‘‘ میں نے آہ بھر کر کہا۔
’’ہاں! یہیں تو مار کھائی ہے میں نے… تیرا دل ہی تو قبضے میں نہیں آیا۔ تو اگر تیار ہوجائے تو تیرے سارے جاپ میں کروں تیرے لیے اور تجھے شنکھا شکتی دے دوں۔ مگر اس کے بعد تجھے ہی سب کچھ کرنا ہوگا۔‘‘
’’تو وجہ بتا رہا تھا بھوریا چرن۔‘‘
’’دل سے تو مسلمان ہے نا؟‘‘
’’ہاں!‘‘
’’اپنے دھرم کی سوگند کھا سکتا ہے کہ اگر اس شرط پر تو کھنڈولا بن جائے تو وہ شکتی اپنے قبضے میں نہیں رکھے گا، مجھے دے دے گا!‘‘
’’میری قسم پر تو یقین کرلے گا؟‘‘
’’ہاں! کرلوں گا۔‘‘
’’جب میں اپنے دین ہی سے ہٹ جائوں گا تو وہ قسم میرے لیے بے معنی ہوجائے گی۔‘‘
’’تو بائولا ہے۔ اگر نہ ہوتا تو… تو… سن بائولے! کھنڈولا امر ہوتا ہے۔ وہ اپنا شریر بدل سکتا ہے۔ جب اس کے بدن کی طاقت ختم ہونے لگتی ہے تو وہ اپنی پسند کا کوئی بھی شریر تلاش کرسکتا ہے۔ اپنی آتما اس شریر کو دے کر دوبارہ جی سکتا ہے۔ اس طرح اسے صدیوں کا جیون مل جاتا ہے۔ یہ ہے کھنڈولا شکتی جو نہ شنکھا میں ہے اور نہ کسی اور کالی شکتی میں! تجھے ایک بات اور بتائوں؟‘‘
’’ضرور بتا۔‘‘
’’مذاق اڑا رہا ہے میرا…؟‘‘
’’نہیں… تو بتا۔‘‘
’’پورنا شکتی سے تو اپنے ماتا، پتا کو پا سکتا ہے۔ تیرے بیر تجھے ان کے پاس لے جاسکتے ہیں، انہیں تیرے پاس لا سکتے ہیں مگر …تجھے اس کے لیے ایک کام کرنا ہوگا۔ میں نے تجھے پورنا بناتے ہوئے یہ نکتہ اپنے پاس رکھا تھا۔‘‘
’’کیا؟‘‘ میں نے بے چین ہوکر پوچھا۔
’’پاگل سمجھتا ہے مجھے۔ اس بیچ بڑا وقت خرچ کیا ہے میں نے تجھ پر! ایسے ہی میں نے تجھے پورنا بھگت نہیں بنا لیا۔ اپنے ماتا، پتا کے سوا سنسار میں کچھ نہیں مانتا۔ اپنوں کی کوئی آرزو تیرے من میں نہیں ہے اور میں نے تیری اس بات پر خاص نگاہ رکھی ہے۔ پورنا شکتی میں یہ تھوڑا میں نے اپنے پاس رکھا ہے۔ بیروں کو بلا کر دیکھ لے۔ ان سے پوچھ لے، سارے کام کردیں گے تیرے، یہ نہ کر پائیں گے۔ اس کے لیے تجھے ایک جاپ کرنا ہوگا اور وہ شکتی تجھے اس سے ملے گی۔‘‘
’’وہ جاپ کیا ہے؟‘‘
’’بتا دوں گا تجھے! بتا دوں گا پہلے اور بہت سی باتیں ہیں۔ ویسے سب تیرے کام کی ہیں۔ جاپ تجھے وہ طاقت دے دے گا کہ تو اپنے ماتا، پتا کو اپنے پاس بلا لے یا خود ان کے پاس پہنچ جا۔ ان کے سامنے تو مسعود احمد ہی بنے رہنا۔ بہن کی شادی ایسے کرنا جیسے کسی راج کماری کی شادی ہوتی ہے۔ ماتا، پتا کو راج کرا دینا۔ سب کچھ تیرے ہاتھ میں ہوگا اور جب تیرا یہ کام ہوجائے تو پھر تو میرا کام کردینا۔ بول راضی ہے؟‘‘
’’وہ جاپ کیا ہوگا؟‘‘
’’ایسے نہیں بالک…! پہلے ہاں یا نہ میں جواب دے۔ کہیں تو مٹھی میں آ ہماری، تیری بھی تو کوئی کل رہے ہمارے ہاتھ میں…! اسی کل کو گھماتے رہے ہیں ابھی تک تو نے ہمارے پھیر میں پڑ کر اپنے دھرم کی شکتی حاصل کرلی تھی اور آگے بڑھتا چلا جارہا تھا۔ تیرے ماما کا چکر دے کر ہم نے بڑی مشکل سے تیری وہ شکتی توڑی اور تجھ سے تیرے من کی شانتی چھیننے کے لیے تجھے اتنی بڑی شکتی دان کی۔ کچھ تو ہمارے ہاتھ رہنے دے۔‘‘
’’اگر تو مجھے یہ بتا دے کہ مجھے یہ جاپ کیسے کرنا ہوگا تو میں تجھے جواب دے سکتا ہوں۔‘‘
’’بتا بھی دیں تجھے تو اکیلے کچھ نہ کرسکے گا۔ ہماری ضرورت تو رہے گی تجھے! اچھا سن ایک پائل کی کھوپڑی حاصل کرنا ہوگی۔ تجھے اس کھوپڑی پر جاپ کرنا پڑے گا۔‘‘
’’پائل کی کھوپڑی…؟‘‘
’’ہاں…!‘‘
’’یہ کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’وہ لوگ جو ماں کے پیٹ سے پیروں کے بل پیدا ہوتے ہیں، پائل کہلاتے ہیں۔‘‘
’’انسان…؟‘‘ میں نے کہا۔
’’تو اور کیا بلی، کتے…‘‘ وہ ہنس پڑا۔
’’یہ کھوپڑی مجھے کہاں سے ملے گی؟‘‘
’’سنسار میں ہزاروں پائل مل جاتے ہیں۔ ان میں سے کسی کی کھوپڑی کاٹنی ہوگی۔ پائل میں تجھے تلاش کردوں گا۔‘‘
مجھے چکر آگیا۔ کسی انسان کا خون! اس کی کھوپڑی کاٹنی ہوگی اور… اور…! ذہن میں ایک چھناکا سا ہوا۔ اس کے بعد مجھے میرے ماں، باپ ملیں گے۔ بالکل ہی بے دین ہوکر…! سخت غصہ آگیا۔ دیوانوں کی طرح اٹھا اور ایک زور دار لات بھوریا چرن کو رسید کردی۔ وہ بے خبر بیٹھا تھا، اچھل کر دور جا گرا۔ خاصی چوٹ لگی تھی اسے! میں آگے بڑھا تو وہ اچھل کر سیدھا ہوگیا۔ اس نے خونی نظروں سے مجھے دیکھا اور پھر اچانک اس کے گال پھول گئے۔ وہ سانسیں کھینچنے لگا اور اس کے بدن میں غبارے کی طرح ہوا بھرنے لگی۔ اس کی آنکھیں غضبناک ہوتی جارہی تھیں مگر اس وقت میرے بیر ظاہر ہونے لگے۔ لنگڑے لولے، ٹوٹے پھوٹے…! وہ روتے پیٹتے میرے گرد اکٹھے ہوگئے۔ ان کے بین کرنے کی آوازیں ابھر رہی تھیں۔
’’شما کردے شنکھا! معاف کردے شنکھا…! اسے نقصان نہ پہنچا۔ ہم سب ختم ہوجائیں گے۔ ہم تیری پھلواری ہیں شنکھا…! ہمیں نہ اجاڑ۔‘‘ سب دہائی دے رہے تھے، رو پیٹ رہے تھے اور کان پڑی آواز نہ سنائی دے رہی تھی۔
عجیب منظر تھا۔ بھوریا چرن اپنے بدن میں مسلسل ہوا بھر رہا تھا اور پھولتا چلا جا رہا تھا۔ اس کا قد بھی بلند ہوگیا تھا اور بدن کا پھیلائو بے پناہ ہوگیا تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس طرح وہ کیا کرے گا مگر میرے بیروں کی سمجھ میں آ رہا تھا۔ وہ بُری طرح بے چین تھے۔ حلق پھاڑ پھاڑ کر رو رہے تھے۔ اِدھر سے اُدھر بھاگ دوڑ کر رہے تھے۔ کبھی زمین پر گرتے بھوریا چرن کے پیروں پر سر رگڑتے۔ پھر اُٹھ کر اِدھر اُدھر بھاگنے لگتے۔
بھوریا چرن کا حجم اتنا بڑھ چکا تھا کہ اب وہ بہت بڑا گولا نظر آنے لگا تھا۔ کمبخت پھٹ ہی جائے تو اچھا ہے۔ دفعتاً میرے سارے بیر دھاڑتے ہوئے مجھ پر آ گرے۔ اتنی بڑی تعداد تھی کہ میں ان کے نیچے دَب کر رہ گیا۔ میرا دَم گھٹنے لگا ان کے جسموں سے سخت سڑاند اُٹھ رہی تھی۔ میں انہیں پرے دھکیلنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن پوری فوج نے حملہ کیا تھا۔ انہیں ہٹانا ممکن نہیں ہوا اورمیرے حواس جواب دینے لگے۔ خاص طور سے ان کے جسموں سے اُٹھنے والی بدبو نے مجھ سے ہوش چھین لیے تھے۔ میں بے ہوش ہوگیا۔ ہوش آیا تو صبح ہو چکی تھی۔ اندر کا دروازہ بند تھا۔ اسی جگہ زمین پر پڑا ہوا تھا۔ اُٹھا۔ پورا بدن دُکھ رہا تھا۔ رات کے سارے واقعات یاد آگئے پتہ نہیں کیا ہوا۔ وہ مردود کہاں گیا۔ بڑا عجیب لالچ دیا تھا اس نے۔ بڑی مشکل سے چلتا ہوا چارپائی تک آیا اور بیٹھ گیا۔ بھوریا چرن کی ساری باتیں یاد آ رہی تھیں۔ کیسا انوکھا تصور تھا۔ کمبخت دائمی زندگی چاہتا تھا۔ ناممکن ہے۔ یہ ہو نہیں سکتا۔ کم از کم میرا دل تو نہیں تسلیم کرتا تھا۔ موت اور زندگی تو صرف ایک ہی طاقت کے ہاتھ میں ہے۔ اس نے انسان کو بہت کچھ دے دیا ہے اور اسی بہت کچھ نے انسان کو حقیقتوں سے بہت دُور کر دیا ہے۔ کالا جادو ہو، پیلا جادو ہو یا سائنس کا جادو، ٹھیک ہے اس سے کچھ بھی کر لو مگر نمود، اور موت، یہ اس نے اپنے پاس محفوظ رکھے ہیں۔ جسے بھیجا جائے وہی آتا ہے اور جسے بلایا جائے اسے جانا پڑتا ہے۔ اگر دائمی زندگی ممکن ہوتی تو یہ افراسیاب اور سامری بھی سوئٹزرلینڈ یا سنگاپور میں عیش کر رہے ہوتے یا ان جیسے دُوسرے نمرود، شداد اور فرعون بھی۔ مگر سب غائب ہوگئے۔ جدید سائنس ٹیسٹ ٹیوب بے بی پیش کرتی ہے۔ سائنس سے تو بہت کچھ ملا ہے۔ مگر دینے والے ہاتھ کوئی اور ہی ہیں۔ اس ضمن میں ایک دلچسپ واقعہ یاد آگیا۔ دربار خواجہ حضرت معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اللہ علیہ کے سامنے ایک سوالی بیٹھا نعرے لگا رہا تھا۔ خواجہ دس ہزار چاہئیں۔ خواجہ دس ہزار ہی لوں گا۔ ایک پیسہ کم نہیں لوں گا۔ دس ہزار دے دے خواجہ…! ایک دولت مند آدمی نے اس سوالی کو دیکھا، سنا اور مسکراتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ واپسی میں اس نے پھر اسے وہی نعرہ لگاتے ہوئے سنا۔ ہنسا اور بولا۔ ’’توکب سے ایک ہی رَٹ لگائے ہوئے ہے۔ کیا تو احمق نہیں ہے۔ یہ رقم تجھے آخر ملے گی کہاں سے۔ مگر میں تجھے یہ رقم دے سکتا ہوں۔ لے اور بھاگ جا بلاوجہ یہاں سر کھپا رہا ہے۔‘‘ اس نے جیب سے دس ہزار نکال کر سوالی کو دے دیئے۔ اس نے رقم گنی جیب میں رکھی زور سے قہقہہ لگایا اور بولا۔
’’واہ خواجہ… خوب دلائی۔ بڑے موذی
سے دِلائی…‘‘ اور بھاگ گیا۔ تو حیات دائمی ایک تصور تو ہو سکتا ہے چشمۂ حیواں اور آب حیات دلکش افسانے تو ہو سکتے ہیں مگر ان تک انسانی پہنچ ممکن نہیں۔ اور پھرکائنات کی تخلیق کا ایک ایک پہلو رمز رکھتا ہے۔ زندگی تو ایک روشن صبح ہے جدوجہد اور ضروری امور نمٹانے کے لیے اور موت دن بھر کی تھکن کے بعد سکون بخش اور تھکن اُتارنے والی رات۔ کوئی کب تک جاگتا رہے گا۔ آخر تھکے گا اور نیند کی خواہش کرے گا۔ نہ جانے یہ حیات دائمی کی ہوس کیوں جنم لیتی ہے۔
دروازے پر ہونے والی ہلکی سی آواز نے خیالات کا طلسم توڑ دیا دیکھا تو زیب النساء بیگم تھیں۔ جھانکا اور غڑاپ سے اندر ہوگئیں۔ کچھ دیر کے بعد دونوں میاں بیوی نمودار ہوئے۔ زیب النساء کے ہاتھوں میں ٹرے تھی جن سے تازہ کباب، پراٹھوں اور انڈے کی خوشبو اُڑ رہی تھی۔ بڑے احترام سے ناشتہ میرے سامنے رکھا گیا اور شاہد علی نے گڑگڑاتے ہوئے کہا۔
’’حضور، مرشد۔ ناشتہ تناول فرما لیجئے؟‘‘
’’اے بھائی، اے بھائی، ہوش میں آ میرے بھائی، بے کار باتوں سے گریز کر، یہ کیا ہوگیا۔‘‘ میں نے شاہد علی کو دیکھتے ہوئے کہا، وہ نیچے جھکا اور اس نے میرے پائوں پکڑ لیے۔
’’پہچان نہیں سکا تھا مرشد، میری آنکھوں میں بھلا اتنی بینائی کہاں، معاف کر دیجئے، اگر کوئی گستاخی ہوئی ہے تو، آپ نے تو ہم پر احسان کر ڈالا…‘‘
’’دھت تیرے کی۔ اس کا مقصد ہے کہ یہاں سے بھی آب و دانہ اُٹھ گیا۔‘‘ میں نے افسوس بھرے لہجے میں کہا۔
’’حضور مسعود شاہ صاحب ناشتہ کر لیجئے۔‘‘ اس بار زیب النساء نے کہا۔
’’آیا تو تھا آپ کی خدمت کرنے، اگر ذرا عزت مل جاتی تو آپ کو محبت سے بھابی کہنا شروع کر دیتا، لیکن یہاں بھی رزق راس نہیں آیا۔ میاں شاہد علی کوئی نوکری دو گے ہمیں، یا اپنا راستہ ناپیں۔‘‘
’’حضور کے قدموں کی برکت کو تاحیات حاصل کرنے کیلئے تیار ہوں، میری مجال کہ ایسے مرشد کامل کو نوکری دوں، حضور کہیں نہیں جانے دوںگا اب آپ کو، کہیں نہیں جانے دوں گا اور اگر آپ نے جانے کی بات کی تو سر پھوڑ لوں گا آپ کے سامنے، جان دے دوں گا۔ آپ نے جو احسان مجھ پر کر ڈالا، آہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ اس طرح سرِ راہ بھی کوئی مل جاتا ہے، حقیقت ہے کہ پہچاننے والی نگاہ ہونی چاہیے۔‘‘
’’تو تم نے مجھے پہچان لیا…؟‘‘
’’اب بھی نہ پہچانوں گا حضور، جو کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں اس کے بعد بھی اندھا بنا رہوں، آپ کی شان میں گستاخی کروں۔‘‘
’’اچھا بھائی تمہاری مرضی، نوکری نہیں دو گے نا تم ہمیں؟‘‘
’’حضور کیا نوکری چاہتے ہیں اور پھر میری مجال کہ نوکری دوں۔ وہ بولا اور میں ہنس پڑا۔ یہی سب کچھ ہو رہا ہے، کہیں بھی میرا آب و دانہ نہیں ہے، اب یہ حضرت مجھے مرشد بنا بیٹھے ہیں، مرے پر سو دُرّے، یہاں بھی گناہوں کا بوجھ اُٹھائوں، مرشد کہلوائوں، ایک لمحے کے لیے تو جی چاہا کہ کوئی ہرج نہیں ہے، بیٹھ جائوں دھونی مار کر اور گزاروں عیش سے، اب یہ دُنیا اپنی پسند ہی سے کسی کو عزت دے سکتی ہے تو کیا کروں آخر، مجمع لگا لوں اپنے گرد، لوگوں کے مسائل حل کروں، کھائوں پیوں، عیش کروں، لیکن… لیکن کیا یہ بھی کوئی زندگی ہوگی۔ فریب اور جعلسازی، گندے علوم کا سہارا لے کر ان تمام لوگوں کی طرح پیٹ بھرنا، جو ایمان کو بیچ دیتے ہیں، نہیں ایسا نہیں کروں گا، اس کے لیے شاہد علی کا گھر ہی کیا ضروری ہے۔ یہ جو گندی رُوحیں میرے اردگرد بکھری ہوئی ہیں انہیں اشارہ کر دوں تو کیا سے کیا نہیں بنا دیں گی یہ، نہیں۔ ایسے نہیں جیوں گا، کچھ بھی ہو جائے، بھوریا چرن تو نے اپنے جیسی ہر کوشش کرلی، مگر جوتے ہی کھائے میرے ہاتھوں اور عزم ہے میرا کہ تیری دی ہوئی کسی شے کو کبھی قبول نہیں کروں گا اور تجھے جوتے ہی مارتا رہوں گا۔‘‘ کباب کی خوشبو ناک میں پہنچی تو بھوک چمک اُٹھی، میں نے مسکراتے ہوئے ناشتہ اپنے سامنے سرکا لیا اور کہا…
’’دیکھو بھائی شاہد علی تم مجھے ملازم بنا کر یہاں لائے تھے، دھرم ایمان سے میں یہی ہوں اور یہی بننا چاہتا ہوں، جو کچھ تم کہہ رہے ہو وہ صرف تمہارا اپنا معاملہ ہے، میں نے تم سے اس دھوکے میں کچھ نہیں طلب کیا، سمجھ رہے ہو نا میری بات۔ میں نے یہ نہیں کہا کہ میں مرشد کامل ہوں، بزرگ ہوں، پیر ہوں، فقیر ہوں، اب بھی تم سے یہی الفاظ کہتا ہوں، ایک عام آدمی ہوں بھائی، دو روٹیوں کا دھندا دے دو مجھے، محنت کر کے کمائوں گا کھائوں گا اور خوش رہوں گا، یہ سب کچھ جو تم کر رہے ہو اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے…‘‘
’’شاہ صاحب آپ ناشتہ تو کیجئے، ہماری خوش بختی ہوگی۔‘‘
’’ٹھیک ہے ٹھیک ہے اور یقینا تم لوگ میرے ساتھ ناشتے میں شریک نہیں ہو گے…‘‘
’’ہم یہ جرأت نہیں کر سکتے۔‘‘ زیب النساء نے ہاتھ جوڑ کر کہا اور میں ناشتے پر پل پڑا۔ کیا عمدہ ناشتہ ملا تھا طویل عرصے کے بعد، گھریلو قسم کا، خوب کھایا، ڈٹ کر کھایا اور پھر ہنستا ہوا بولا۔
’’آخر تم پر مصیبت کیا نازل ہوئی ہے…؟‘‘
’’شاہ صاحب کیا اب آپ یہ خوشخبری ہمیں نہیں دیں گے کہ وہ مصیبت ہم پر سے ٹل چکی ہے۔‘‘ شاہد علی نے کہا، اور میں کسی سوچ میں ڈُوب گیا۔ پھر میں نے آہستہ سے کہا۔
’’ہاں شاہد علی، میری چند باتیں گرہ سے باندھ لو، بالکل بے فکر ہو کر اب اپنے باغ میں کام شروع کرائو، جو مصیبت تھی وہ واقعی ٹل گئی ہے۔ وہ ایک گندی اور خبیث رُوح تھی جس نے تمہارے ہاتھوں نجات پائی۔ اب یہ پتہ نہیں کہ اسے وہاں قید کس نے کیا تھا لیکن آزادی اسے تمہارے ہی ہاتھوں ملی اور اس کے بعد وہ جو گندگی نہ پھیلاتی کم تھا لیکن بھاگ گئی اور اب وہ تمہاری جانب رُخ نہیں کرے گی۔ مزدوروں کو نئے سرے سے اکٹھا کرو، میرے خیال میں اب وہاں کوئی ایسا واقعہ رُونما نہیں ہوگا…‘‘
’’اور زیب النساء…؟‘‘
’’وہ بھی اس کے زیرِ اثر تھی، ظاہر ہے وہ تمہارے گھر تک پہنچ چکا تھا اور اسے کچھ نہ کھ کرنا ہی تھا اب نہیں آئے گا، اطمینان رکھو…‘‘
’’اور اس کے باوجود آپ یہ کہہ رہے ہیں حضور شاہ صاحب کہ میں آپ کی خدمت نہ کروں آپ کے لیے۔ آپ کے لیے…‘‘
’’بس بس اس سے آگے کی باتیں رہنے دو تو تمہاری بڑی مہربانی ہوگی ہم نے تو یہی سوچا تھا کہ یار چلو تھوڑے بہت عرصے یہاں کی نوکری میں زندگی گزار لو، مگر ہماری تقدیر میں ہی نہیں ہے…‘‘
’’یہ سب کچھ آپ کا ہے شاہ صاحب، آپ کی برکت رہے گی تو مجھے بھی دن دونی رات چوگنی ترقی ملے گی۔ میں خاموش ہوگیا۔ اب بھلا اس سے زیادہ کیا کہتا اس سے لیکن طے یہ کر لیا تھا کہ فوراً ہی یہاں سے نکل بھاگوں گا، میں ان ڈرامہ بازیوں میں نہیں پڑ سکتا تھا۔ چنانچہ یہی ہوا حالانکہ بعد میں بھی دونوں میاں بیوی نے مجھے آرام سے رہنے کی پیشکش کی، اندر بڑے اہتمام سے میرے لیے کمرہ سجایا، سب کچھ خاموش آنکھوں سے دیکھتا رہا اور اس کے بعد جیسے ہی شاہدعلی اپنی گاڑی لے کر باہر نکلا میں بھی پیچھے ہی پیچھے نکل آیا اور اس کے بعد میرے لیے یہ ضروری تھا کہ یہ بستی چھوڑ دوں، سفر کے لیے ظاہر ہے اور کوئی ذریعہ نہیں تھا لیکن پیدل چلتا رہا اور تقریباً ایک گھنٹے کے بعد ایک چھوٹی سی پگڈنڈی سے ایک بس اُچھلتی کودتی آگے بڑھتی نظر آئی، میں نے ہاتھ کے اشارے سے روکا تو بس رُک گئی اور میں اس میں سوار ہوگیا۔‘‘
’’کہاں جارہی ہے یہ بس؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’تمہیں کہاں جانا ہے…؟‘‘
’’جہاں یہ بس جارہی ہے۔‘‘ میں نے بس کے کنڈکٹر کو جواب دیا۔
’’تو پھر نکالو ڈھائی روپیہ۔‘‘ اس نے ہاتھ پھیلا کر کہا۔ پیسے تھوڑے بہت میرے پاس موجود تھے، میں نے ڈھائی روپیہ نکال کر بس کنڈکٹر کو دے دیا اور جب اس نے مجھے ٹکٹ دیا تو مجھے پتہ چلا کہ بس کہاں جا رہی ہے۔ بس جلیسر جا رہی تھی۔ جلیسر کیا ہے، کون سی جگہ ہے، وہاں کی آبادی کتنی ہے، کتنا بڑا شہر ہے مجھے کچھ معلوم نہیں تھا لیکن کوئی ہرج بھی نہیں تھا۔ اب تو ساری دُنیا ہی وسیع ہے میرے سامنے، جلیسر تک کا سفر طے ہوا، راستہ کچا ہی تھا اور مزہ آ گیا تھا۔ سفر کرتے ہوئے بدن کی چولیں ہل گئی تھی۔ شام کو تقریباً ساڑھے سات بجے بس نے جلیسر پر اُتارا۔ اچھی خاصی آبادی تھی۔ ٹھیک ٹھاک ہی شہر تھا، میں نیچے اُتر کر احمقوں کی طرح اِدھر اُدھر دیکھنے لگا، نہ کوئی پتہ، نہ کوئی ٹھکانہ لیکن خدا کی زمین وسیع ہے بس جدھر منہ اُٹھا چلتا چلا گیا۔ اور پھر میں نے بہت سے لوگوں کو دیکھا۔ کھیتوں کی پگڈنڈیوں سے گزر گزر کر ایک ہی سمت جا رہے تھے، کچھ ایسا انداز تھا ان کا، جیسے کسی خاص جگہ جا رہے ہوں، چنانچہ میں پیچھے پیچھے چل پڑا اور تھوڑے ہی فاصلے کے بعد مجھے ایک جگمگاتی جگہ نظر آئی۔ یہ کوئی بہت بڑی عمارت تھی، جس میں خوب صورت گنبد بنے ہوئے تھے، وسیع و عریض احاطے میں پھیلی ہوئی تھی اور اس کے سامنے جو پتھر کی سل پر ایک کتبہ نظر آ رہا تھا جس پر کچھ اشعار کے ساتھ لکھا ہوا تھا۔‘‘
’’درگاہ سیّد ابراہیم شاہ صاحب۔‘‘ میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی، میں تو راندۂ درگاہ تھا، پتہ نہیں اس درگاہ کے احاطے میں مجھے جگہ ملے گی یا نہیں۔ لوگ جوق در جوق آگے بڑھ رہے تھے، ویسے کوئی باقاعدہ میلہ وغیرہ نہیں تھا۔ بس درگاہ کے اندر روشنیاں ہو رہی تھیں اور درگاہ شریف کے مجاور اِدھر سے اُدھر آ جارہے تھے۔ سیاہ رنگ کے لباسوں میں ملبوس، لمبے لمبے بالوں والے، میں ذرا فاصلے پر ہی رُک گیا۔ اطراف میں نیچی اُونچی جھاڑیاں اُبھری ہوئی تھیں اور ان جھاڑیوں کے آس پاس لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ اندر مکمل خاموشی طاری تھی۔ بڑا وقار، بڑا جلال تھا درگاہ شریف کا… میرے دل سے دُعا نکلی کہ کسی بھی بزرگ کے طفیل میری مشکل حل ہو جائے… آہ میری مشکل حل ہو جائے۔
میں وہیں بیٹھا رہا، رات کو تقریباً گیارہ ساڑھے گیارہ بجے تک لوگ درگاہ شریف میں آتے جاتے رہے، پھر درگاہ کے دروازے بند ہوگئے اور تمام لوگ واپس چلے گئے، بس احاطے کے دُوسری جانب مجاور نظر آرہے تھے، جو اپنے اپنے مشاغل میں مصروف تھے، میں جھاڑیوں کے پاس خاموش بیٹھا پیاسی نگاہوں سے درگاہ شریف کا کتبہ دیکھتا رہا اور میرے ذہن میں نجانے کیا کیا تصورات اُبھرتے رہے۔ درگاہ شریف کے بائیں حصے میں ایک چھوٹا سا دروازہ کھلا ہوا تھا جس سے کبھی کبھی کوئی باہر نکل آتا تھا اور کسی کام سے شہری آبادی کی جانب چل پڑتا تھا۔ میرے


ذہن میں نجانے کیا سمائی۔ آہستہ آہستہ اُٹھا اور چھوٹے دروازے کی جانب چل پڑا، ابھی میں چھوٹے دروازے سے کوئی دو گز کے فاصلے پر تھا کہ دفعتاً مجھے سانپ کی پھنکار سنائی دی۔ میں چونک کر رُکا۔
چھوٹے دروازے کے عین سامنے طباق جیسے چوڑے پھن کا مالک بھنورے کی سی رنگت لیے خوب موٹے چمکدار جسم کا سانپ پھن پھیلائے کنڈلی مارے بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی ننھی چمکدار آنکھوں میں نفرت کی سرخی جھلک رہی تھی۔ میرے قدم رُک گئے۔
’’راستہ بند ہے؟‘‘ میں نے پوچھا اور پھر گردن جھکائے وہاں سے پلٹ پڑا۔ یہ تو ہونا چاہئے تھا۔ اپنے گندے وجود کو میں اس پاک درگاہ میں کیسے لے جا سکتا تھا۔ میں تو غلاظت کی پوٹ تھا۔ بے دلی سے وہاں سے پلٹا اور ایک گھنے درخت کے نیچے جا بیٹھا۔ درخت کے موٹے تنے سے میں نے پشت لگا لی تھی۔ آنکھیں بند کر کے بیٹھ گیا۔ دماغ میں سنسناہٹ ہو رہی تھی اپنی حالت زار پر رونا آ رہا تھا مگر اتنے آنسو بہہ چکے تھے کہ اب ان کی گنجائش نہیں رہی تھی۔ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ اچانک پتھر کا ایک ٹکڑا سینے پر آ کر لگا اور میں نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں۔ کالے بھجنگ رنگ کا ایک لمبا تڑنگا آدمی میرے سامنے بے لباس کھڑا ہوا تھا۔ رات کی تاریکی کے باوجود اس کی آنکھیں گہری سرخ چمک رہی ہیں۔
’’تخت شاہی تیرے باپ کا ہے۔ ہماری سلطنت پر قبضہ جمانے کی فکر میں ہے بھولتو کہیں کا، ہٹ جا اِدھر سے نہیں تو کھوپڑی رنگین کر دوں گا۔‘‘ اس نے جھک کر دوسرا پتھر اُٹھا لیا۔
’’ہٹ جاتا ہوں، ہٹ جاتا ہوں۔ مگر کہاں جائوں۔ بتا تو دو۔‘‘
’’ابے ہٹ وہاں سے غلیظ ناپاک، تجھے تو میں ایسی جگہ پہنچائوں گا جہاں تیری نک چٹی ہو جائے پٹ پٹی کا ترنگا۔‘‘ میں درخت کے نیچے سے ہٹ گیا۔ وہ شخص میری جگہ جا بیٹھا اور اس نے آنکھیں بند کرلیں۔ میں کچھ فاصلے پر کھلے آسمان تلے جا بیٹھا۔ چاروں طرف ہو کا عالم طاری تھا۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ بدن دُکھ گیا۔ بیٹھے بیٹھے تو لیٹ گیا۔ آنکھیں بند ہوگئیں مگر نیند نہیں آئی تھی۔ اچانک قریب ہی سرسراہٹ سنائی دی اور میں نے چونک کر آنکھیں کھول دیں جو کچھ دیکھا اسے دیکھ کر دَم ہی نکل گیا۔ اس خوفناک شخص کا چہرہ دو فٹ کے فاصلے پر تھا۔ آنکھیں مجھے گھور رہی تھیں، دفعتاً اس نے میرے منہ پر تھوک دیا اور پھر قہقہے لگاتا ہوا وہاں سے بھاگ گیا۔ ایک بار پھر اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ چہرے پر تھوک کی نمی تھی مگر میں نے اسے صاف نہیں کیا۔ یہ چہرہ اسی قابل ہے۔ میں نے دل میں سوچا رات نہ جانے کیسے گزری، پھر صبح ہوگئی، شاید سو گیا تھا۔ اُٹھ کر بیٹھ گیا چند لوگ میری طرف آ رہے تھے۔ ایک کے ہاتھ میں کچھ تھا۔
’’کھانا کھائو گے میاں صاحب۔‘‘ انہوں نے پوچھا۔
’’ہاں، بھائی ہاں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’لو ہاتھ دھو لو۔‘‘ دُوسرے نے پانی سے بھرا لوٹا سامنے کر دیا۔ ہاتھ دھوئے۔ پوریاں، حلوہ اور ترکاری تھی۔ کھا کر خدا کا شکر ادا کیا۔ انہوں نے مجھے پانی پلایا اور پھر برتن اُٹھا کر چلے گئے۔ درگاہ کی طرف سناٹا تھا۔ کچھ اور وقت گزر گیا۔ دُھوپ چلچلانے لگی، درخت میرے سامنے تھا مگر دوبارہ اس کے نیچے جانے کی ہمت نہ کرسکا۔ پھر درگاہ کے عقبی حصے سے شور اُٹھا۔ بچوں کا شور تھا۔ میں نے دن کی روشنی میں اسی بے لباس شخص کو دیکھا۔ بے تحاشا دوڑتا آ رہا تھا۔ دس بارہ بچّے اس کے پیچھے دوڑ رہے تھے اور پاگل ہے۔ پاگل ہے کا شور مچا رہے تھے۔ وہ اسے پتھر بھی مار رہے تھے۔ دفعتاً وہ میرے قریب آ کر رُک گیا اس نے غور سے مجھے دیکھا پھر ہنس پڑا۔ بچّے کچھ فاصلے پر آ کھڑے ہوئے تھے اور شریر نظروں سے ہمیں دیکھ رہے تھے۔ اس نے بچوں کی طرف دیکھا اور بولا۔
’’اسے بھی مارو… یہ بھی اپنا بھائی ہے، مارو۔ ہی ہی ہی۔‘‘بچوں نے میری طرف بھی پتھر اُچھالنے شروع کر دیئے۔ وہ ہنستا ہوا درخت کے تنے کے پیچھے جا چھپا تھا۔ کئی پتھر میرے بدن کے مختلف حصوں پر لگے اور ایک سر پر آنکھ کے بالکل قریب اور پیشانی پھٹ گئی۔ خون بھل بھل کر کے بہنے لگا اور میں نے زخم پر ہاتھ رکھ لیا۔ بچّے خون دیکھ کر ڈر گئے اور سب وہاں سے بھاگ گئے۔ میں پیشانی پر ہاتھ رکھے بیٹھا رہا۔ خون زمین پر گرتا رہا مگر دُوسری آنکھ سے میں نے کچھ اور بھی دیکھا۔ میرے خون میں زندگی تھی، ہاں میں نے اچھی طرح دیکھا تھا۔ خوب اچھی طرح۔ وہ ننھی ننھی مکڑیاں تھیں جو میرے خون میں کلبلا رہی تھیں اور خون سے نکل نکل کر اِدھر اُدھر رینگ رہی تھیں۔ مگر چند انچ چلنے کے بعد وہ چرمرا کر رہ جاتی تھیں۔ جب تک خون ہوا سے خشک نہ ہوگیا یہ تماشا جاری رہا۔ بچّے توغائب ہوگئے تھے مگر وہ درخت کے پیچھے موجود تھا۔ کچھ دیر کے بعد وہ درخت کے پیچھے سے نکل کر میرے پاس آ بیٹھا۔ اس نے دونوں ہاتھ پیچھے کئے ہوئے تھے۔ وہ سرگوشی کے عالم میں بولا۔
’’ایک سو اکہتّر کہاں گئے، ایں… ایک سو اکہتّر کہاں گئے۔ کچھ پتہ ہے ان کا…؟‘‘ میں کچھ نہ سمجھ سکا۔ آنکھ پر رینگ کر آنے والا خون صاف کیا اور اسے دیکھ کر مسکرانے لگا۔ ’’ہاتھ دکھائوں اپنے، دیکھ۔‘‘ اس نے دونوں ہاتھ سامنے کر دیئے۔ ان میں پتھر دبے ہوئے تھے۔ اس نے دونوں پتھر میرے سر پر دے مارے اور میرے حلق سے دل خراش چیخیں نکل گئیں۔ دو گہرے زخم اور لگے تھے اور ان سے خون اُبل رہا تھا۔ وہ اُٹھ کر بھاگ گیا۔ مجھے زور سے چکر آیا اور میں بے ہوش ہوگیا۔
اسپتال کے بستر پرہوش آیا تھا۔ سر پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔ نرسیں آ جا رہی تھیں، کچھ دیر کے بعد ہی اندازہ ہوگیا کہ وہ اسپتال ہے۔ پھر ایک نرس نے گزرتے ہوئے مجھے ہوش میں دیکھا اور زور سے چیخی۔
’’سسٹر ملہوترہ۔ تیرا پیشنٹ ہوش میں آ گیا۔‘‘
’’میں ڈاکٹر کو بتا دوں۔‘‘ دُوسری آواز آئی۔ کچھ دیر کے بعد ایک نرس ہی آئی۔ اس نے پورا بازو کھول کر ایک انجکشن لگایا اور بولی۔
’’کیسی طبیعت ہے؟‘‘
’’ٹھیک ہوں۔‘‘
’’تمہارے سر میں زخم کیسے لگے۔ کس نے مارا ہے؟‘‘
’’بچوں نے۔‘‘
’’کسی کی رپورٹ کرائو گے۔‘‘
’’نہیں سسٹر۔ وہ بچّے تھے۔‘‘
’’اوکے، میں ڈاکٹر کو بول دوں۔ تمہیں پولیس والے لائے تھے۔ وہ تمہارا بیان لینا چاہتے ہیں۔‘‘ پولیس والوں کو میں نے کوئی خاص بیان نہیں دیا ابھی تک میں ان سے خوفزدہ رہتا تھا۔ کچھ دیر کے بعد مجھے اسپتال سے رُخصت کر دیا گیا۔ چھوٹی چھوٹی گلیاں، چھوٹے بازار، چلتا رہا۔ درگاہ کے سامنے سے گزرا اور ایک آہ بھر کر آگے بڑھ گیا۔ یہاں میری جگہ نہیں تھی۔ میں ناپاک تھا کسی کا کیا قصور۔ مجھے خود اس کا خیال رکھنا چاہیے۔ مارے مارے پھرنے کی عادت ہوگئی تھی۔ تانگے چل رہے تھے ، بسیں بھی نظر آ رہی تھیں مگر میں پیدل چل پڑا۔ کوئی کمزوری نہیں پیدا ہوئی تھی حالانکہ کافی خون بہا تھا۔ لباس پر بھی جمے ہوئے خون کے دھبّے نظر آ رہے تھے۔ اس راستے سے ہٹ گیا جس پر لوگ آتے جاتے نظر آ رہے تھے۔ بہت دُور نکل آیا ایک کھیت نظر آیا جس میں کچریاں بکثرت پڑی ہوئی تھیں۔ کھیت میں گھس کر بہت سی کچریاں اُٹھائیں اور کنارے بیٹھ کر کھانے لگا۔ پیٹ کا جہنم سرد کرنے کے بعد وہاں سے بھی آگے بڑھ گیا۔ جنگل بیابان، درخت اُڑتے ہوئے پرندے، دوڑتے ہوئے ہرن۔ کہیں کہیں چھوٹے درندے بھی نظر آ جاتے تھے۔ وہ بھی کوئی درندہ ہی تھا۔ زمین کے سوراخ سے نکلا تھا۔ مجھ سے دس گز کے فاصلے پر رُک کر غرّانے لگا۔ اس کی آنکھوں میں بھوک تھی۔ پھر اس نے وحشیانہ انداز میں مجھ پر چھلانگ لگائی لیکن دوبارہ زمین پر نہ آ سکا۔ فضا میں ہی اس کی چندھیاں بکھر گئی تھیں۔ خون اور ہڈیوں کا ملغوبہ زمین پر آ رہا۔ پھر وہی خاموشی… یہ منظر دُوسری بار نگاہوں میں آیا تھا۔ میں جانتا تھا کہ درندے کو ہلاک کرنے والا کون ہے۔ مگر ایک تیز ٹیس کے ساتھ ایک اور احساس ذہن میں جاگا تھا۔ وہاںدرگاہ شریف کے پاس یہ پلید نہ آ سکے تھے۔ اس شخص کو پتھر مارنے سے نہ روک سکے تھے اور… اور… اس نے کہا تھا کہ ’’ایک سو اکہتّر کہاں گئے۔ کچھ پتہ ہے ان کا۔‘‘ ظاہر ہے یہ گندے اس جگہ نہ جا سکے تھے۔ ورنہ جس طرح بھی سہی انہوں نے بھوریا چرن تک سے مجھے بچایا تھا۔ اس خیال نے ذہن میں نہ جانے کیا کیا خیالات پیدا کر دیئے بعد کے سفر میں میں انہیں محسوس کرتا رہا۔ پھر دو دن اور دو راتوں کے بعد ایک بہت بڑا شہر نظر آیا۔ پتہ چلا کہ اس کا نام ہاتھرس ہے۔ یہاں کچھ وقت گزارا اور پھر ریل میں بیٹھ گیا کچھ عجیب سی کیفیت ہوگئی تھی۔ ہر عمل سے رغبت ختم ہوتی جا رہی تھی۔ خاموش رہنے کو جی چاہتا تھا۔ جس ڈبے میں بیٹھا ہوا تھا اس میں ایک ہندو خاندان بھی سفر کر رہا تھا۔ ایک فربہ جسم کا مالک معمر شخص ایک معمر خاتون دو نوجوان لڑکیاں، ایک نوجوان لڑکا۔ دو ملازم قسم کے لوگ۔ معمر شخص نے کئی بار مجھے دیکھا تھا لیکن کچھ بولا نہیں تھا۔ البتہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وہ مجھے دیکھنے لگتا تھا۔ پھر ٹکٹ چیکر آ گیا۔
’’میرے پاس ٹکٹ نہیں ہے بھائی۔‘‘ میں نے اسے جواب دیا۔
’’کوئی بات نہیں، اگلے اسٹیشن پر پولیس موجود ہے۔‘‘ ٹکٹ چیکر نے بھی اطمینان سے کہا۔
’’ارے ارے، کیسی باتیں کرتے ہو بھائی، آدمی آدمی کو دیکھنا چاہئے، لو کتنے پیسے بنتے ہیں تمہارے، ٹکٹ مجھ سے لے لو۔‘‘ اسی معمر شخص نے کہا اور جیب سے نوٹ نکال کر ٹکٹ چیکر کو دے دیئے، ٹکٹ چیکر نے مجھ سے پوچھا۔
’’کہاں جائو گے…؟‘‘ میں نے گھبرا کر معمر شخص کو دیکھا تو معمر شخص نے جلدی سے کہا۔
’’دِلّی…‘‘ اور اس کے بعد ٹکٹ چیکر میرا ٹکٹ بنا کر چلا گیا۔ میں شکرگزار نگاہوں سے معمر شخص کو دیکھنے لگا، وہ اپنی جگہ سے اُٹھا اور میرے قریب آ بیٹھا،کہنے لگا۔
’’بہت دیر سے تمہیں دیکھ رہا تھا سوامی مہاراج، ایسی جانی پہچانی صورت لگ رہی تھی کہ بتا نہیں سکتا، پھر یاد آیا کہ میں نے تمہیں کہاں دیکھا تھا۔‘‘ میں سوالیہ نگاہوں سے اس شخص کو دیکھنے لگا، وہ بولا…‘‘
’’ڈاکٹر بھلّا جی کو جانتے ہو نا…؟‘‘ میں نے یاد کیا تو ڈاکٹر بھلّا مجھے یاد آ گیا۔ وہ شخص جس نے اس لڑکی کو مردہ قرار دے دیا تھا جو بعد میں ٹھیک ہوگئی تھی۔ میں نے گردن ہلائی تو معمر شخص مسکرا کر بولا۔
’’بھلّا میرا جوائی ہے۔ میری بیٹی بیاہی ہے اس سے اور ان دنوں میں بھی وہیں موجود تھا جب تم نے ایک لڑکی کے زندہ ہونے کی بات کی تھی اور وہ زندہ ہوگئی تھی۔ بھلّا نے مجھے پوری کہانی
یں نے اس سے کہا کہ بھائی ذرا مجھے بھی اس مہان پُرش کی صورت دکھا دے، سو اس نے دُور ہی سے مجھے تمہیں دکھایا تھا۔ کیا تم اس بات سے انکار کرو گے کہ تم وہ نہیں ہو…؟‘‘
میں آہستہ سے ہنس دیا پھر میں نے کہا۔ ’’آپ کا نام کیا ہے مہاراج…؟‘‘
’’اوم پرکاش۔‘‘ اس شخص نے جواب دیا۔
’’آپ نے صرف اتنی سی بات پر میرا ٹکٹ بنوا لیا۔‘‘
’’اس کا ذکر مت کرو، بھلا مجھے یہ بات معلوم نہیں ہے کیا کہ اتنا بڑا کام کرنے کے بعد بھی تم نے فقیروں کی طرح ان لوگوں کی دولت ٹھکرا دی، میری مراد فقیروں سے یہ ہے کہ وہ فقیر جو کسی کی دولت پر نگاہ نہیں کرتے، ہاتھ پھیلانے والے فقیروں کی بات نہیں کر رہا میں…‘‘
’’دولت۔‘‘ میں نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
’’ہاں مہاراج میں جانتا ہوں، بھلا آپ جیسوں کے لیے یہ کاغذ کے ٹکڑے کیا حیثیت رکھتے ہیں، بھگوان نے آپ کو دُوسری ہی شکتی دی ہے، ویسے میں نے آپ کا دلّی کا ٹکٹ بنوا لیا ہے، آپ کو کہیں اور تو نہیں جانا…؟‘‘
’’نہیں! بس یہی کہہ سکتا ہوں پرکاش جی مہاراج کہ دُنیا سچ مچ ہی گول ہے، دلّی بھی آ چکا ہوں ارے اب پھر دلّی جا رہا ہوں۔ چلیں ٹھیک ہے، تقدیر جہاں لے جائے، وہی جگہ غنیمت ہے۔‘‘
’’گویا آپ دلّی نہیں جا رہے تھے، پھر کہاں جانے کا ارادہ تھا؟‘‘
’’آپ سے جھوٹ نہیں بول رہا، بس ریل میں بیٹھ گیا تھا۔ سوچا تھا کہ جدھر ریل جائے گی، چلا جائوں گا۔‘‘ اوم پرکاش جی ہنس پڑے۔ پھر بولے… ’’تو پھر ایسا کریں کاشی جی چلیں، بڑی بڑھیا جگہ ہے، میں اپنے اس چھوٹے سے خاندان کے ساتھ کاشی ہی جا رہا ہوں، وہاں تھوڑے دن رہوں گا اور اس کے بعد واپس چلا آئوں گا، میرا اصلی گھر آگرے میں ہے۔‘‘
’’آپ کا بہت بہت شکریہ، میں آپ کے ساتھ جا کر کیا کروں گا۔‘‘
’’آپ کی مرضی ہے، دیکھ لیں کاشی جی بھی اگر کوئی خاص کام نہیں ہے تو، سنسار کو دیکھنا چاہئے۔‘‘ اوم پرکاش جی بولے۔
’’اوم پرکاش جی آپ کو پتہ ہے کہ میرے پاس ریل کا ٹکٹ لینے کے لیے پیسے نہیں تھے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ کے ساتھ گھومنے پھرنے چلوں؟‘‘
’’دیکھو مہاراج، نام کیا ہے آپ کا، خیر نام کچھ بھی ہو بات یہ ہے کہ ہر چیز پیسے ہی سے تعلق نہیں رکھتی۔ اس وقت مجھے آپ سے عقیدت ہو گئی تھی، مگر وقت ہی نہیں مل سکا، کہا تو تھا میں نے اپنے داماد سے کہ مجھے ملا بھی دو۔ مگر اس نے بتایا کہ آپ کسی اور کام سے جا رہے ہیں۔ میری خوشی ہوگی کہ اگر آپ میرے ساتھ بنارس چلیں۔‘‘ میں نے ایک لمحے کے لیے سوچا پھر آہستہ سے کہا۔
’’بھلّا جی نے آپ کو یہ نہیں بتایا تھا کہ میرا دھرم کیا ہے۔‘‘
’’بتایا تھا، کہا تھا آپ مسلمان ہیں؟‘‘
’’اوہ اس کا مطلب ہے کہ آپ کو معلوم ہے مگر اس کے باوجود آپ مجھے اپنی مقدس یاترا پر لے جا رہے ہیں۔‘‘ اوم پرکاش کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی، انہوں نے کہا۔
’’میں نے آٹھ سال لندن میں پڑھ کر گزارے ہیں۔ تین سال تک ذاتی طور پر ریسرچ کرتا رہا ہوں۔ دین دھرم کے بارے میں بس ایک ہی بات پتہ چلی۔‘‘
’’کیا؟‘‘ میں نے دلچسپی سے پوچھا۔
’’سارے دھرم انسان پر انسان کے حق کے بارے میں بتاتے ہیں۔ وہ جو سب سے بڑا ہے کسی انسان سے کچھ نہیں مانگتا، نہ اسے ضرورت ہے۔ دھرم کے ساتھ اگر صورتیں الگ الگ ہو جاتیں تو ہم مان لیتے کہ سارے دھرم الگ الگ ہیں۔ مگر صورتیں تو ایک جیسی ہیں پھر بات کیا ہے تم بھی اپنے پیدا کرنے والے کو پکارتے ہو۔ اسے پیار سے اللہ کہتے ہو، ہم اسے بھگوان کہہ کر بلا لیتے ہیں۔ اسے بُرا تو نہ لگتا ہوگا۔‘‘
(جاری ہے)

Latest Posts

Related POSTS