Monday, April 28, 2025

Kala Jadu | Episode 34

’’یہ میں نہیں جانتا۔ اب میں چلتا ہوں۔‘‘ ساگر سروپ نے کہا اور میں خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر رہ گیا۔ ساگر سروپ مجھ سے کچھ کہے بغیر واپسی کے لیے مڑ گیا تھا۔ میں اب اس سے کیا کہتا، خاموشی سے اسے جاتے دیکھتا رہا۔ اس وقت تک جب تک وہ چاندنی میں مدغم نہ ہوگیا۔ اس کے بعد میں نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔ یقیناً آبادی سے بہت دور نکل آئے تھے۔ چاندنی کے سوا کہیں روشنی کی کوئی رمق نہیں تھی۔ میں نے ایک جگہ منتخب کی اور بیٹھ گیا۔ ایک بار پھر خود کو امتحان میں ڈالا تھا مگر یہ انوکھا امتحان تھا، انوکھی کہانی تھی۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ ساگر سروپ بھی سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ ایک دو بار یہ خیال بھی آیا تھا کہ کہیں یہ بھی بھوریا چرن کی کوئی چال نہ ہو۔ کیا یہ ہوسکتا ہے، نہ جانے دل کیوں نفی میں جواب دے رہا تھا۔ جو کچھ بھی ہے، یہ کھیل ضرور کھیلوں گا۔ ایک مناسب جگہ منتخب کرکے لیٹ گیا۔ دل میں بہت سے وسوسے تھے۔ اگر سو گیا تو سوتا نہ رہ جائوں۔ جاگتا رہا تو صبح تک نیند سے نڈھال ہوجائوں گا۔ پھر کیا کروں… بچپن کی ایک بات یاد آگئی۔ ماں نے بتائی تھی۔ امتحان دے رہا تھا، رات کو دیر تک پڑھتا تھا۔ ماں نے کہا۔
’’اتنی دیر پڑھنا کوئی فائدہ نہیں دیتا۔‘‘
’’اور امتحان…؟‘‘
’’سال بھر پڑھو تو آخری دنوں میں یہ مشکل نہ اٹھانی پڑے۔‘‘
’’اب تو پڑھنا ہی ہوگا۔‘‘
صبح کا سہانا وقت اس کے لیے بہت بہتر ہوتا ہے۔‘‘
’’صبح آنکھ نہیں کھلتی۔‘‘
’’ایک کام کیا کرو۔ رات کو جب سویا کرو تو اپنے ہمزاد کو ہدایت کردیا کرو کہ وہ تمہیں اس وقت جگا دے۔ دیکھ لینا اس وقت جاگ جائو گے۔‘‘
’’ہمزاد کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’بس ہوتا ہے۔‘‘ ماں شاید خود بھی اس کی تشریح نہیں کرسکتی تھی۔ میں مسکرا کر خاموش ہوگیا مگر پھر تجربہ کر ہی ڈالا۔ میں نے ہمزاد کو حکم دیا کہ مجھے صبح پانچ بجے جگا دے اور پہلے ہی دن اس وقت آنکھ کھل گئی۔ جب گھنٹہ پانچ بجے کا اعلان کررہا تھا۔ اس کے بعد بارہا یہ تجربہ کیا اور کامیاب رہا۔ بہت عرصے کے بعد ہمزاد کا خیال آیا تھا۔ میں نے اسے ہدایت کی کہ مجھے ساڑھے چار بجے جگا دے اور پھر کھردری زمین پر لیٹ کر نیند کی خوشامدیں کرنے لگا۔ نیند چپکے سے آنکھوں میں آبسی تھی۔ یقیناً وہ ساڑھے چار بجے کا وقت ہی ہوگا، جب جاگ گیا تھا۔ سوتے ہوئے کروٹ بھی نہ بدلی تھی۔ اتنی گہری نیند آئی تھی مگر اس نیند نے تھکن اتار دی تھی۔ اٹھ گیا، آنکھیں مل کر صاف کیں۔ چاروں طرف ہو کا عالم طاری تھا۔ دل میں آج کے آنے والے وقت کا خیال آیا اور دل ہولنے لگا۔ میں یہ عمل کرسکوں گا یا نہیں! خود کو پرعزم کرنے لگا۔ اجالا آہستہ آہستہ اترنے لگا۔ ماحول روشن ہوگیا اور میں اس کھلاڑی کی طرح تیار ہوگیا جو اسٹارٹنگ پوائنٹ پر جاکھڑا ہوتا ہے۔ ساگر سروپ نے سورج کی سمت بتا دی تھی۔ میں نے اچھل اچھل کر پائوں کھولے اور ادھر نظریں جما دیں۔ سورج کا یہ کھیل زندگی میں دیکھنا تو کجا سوچا بھی نہیں تھا مگر کیا اہمیت تھی اس کھیل کی…!
سورج بلند ہوا۔ کرنوں کا سیلاب امنڈ آیا اور میری نظریں زمین کا طواف کرنے لگیں۔ سرتاج کرن زمین کو چھوتی ہوئی آگے بڑھی۔ میں نے چھلانگ لگا دی۔ اس کے رخ کا اندازہ ہوگیا تھا۔ دانت بھنچ گئے، مٹھیاں بند ہوگئیں اور میں دوڑنے لگا۔ تیز ہوا نے کان بند کردیئے، بدن کا رواں رواں دوڑ رہا تھا۔ اس وقت اسے انسانی قوت نہیں کہا جاسکتا تھا۔ سوچنے سمجھنے کی قوتیں گم ہوگئی تھیں بس بصارت زندہ تھی اور میں کرن پر جیسے سواری کئے ہوئے تھا۔ شاید اس رفتار سے کسی انسان کو دوڑتے ہوئے کبھی نہ دیکھا ہوگا کیونکہ دیکھنے والا اس جگہ کون تھا۔ کچھ لمحات کے بعد ہی اپنی خام خیالی کا احساس ہوا۔ میں تنہا نہیں تھا۔ یقیناً میں تنہا نہیں تھا، بہت سے پرندے میرے سر پر سفر کررہے تھے۔ بہت سے چوپائے بھاگ رہے تھے۔ یہ کائنات کی سب سے حیرتناک دوڑ تھی جو ہر صبح ہوتی ہے مگر انسانی آنکھ نہ اسے دیکھتی ہے، نہ سمجھتی ہے۔ پھیپھڑے پھٹ گئے تھے، بدن سڑ گیا تھا مگر ہمت ساتھ دے رہی تھی۔ اندازے ختم ہوگئے تھے۔ یہ تصور بھی نہیں کرسکا تھا کہ کتنا فاصلہ طے ہوا ہے۔ بس سرتاج کرن تھی اور میں…! ساری کائنات دوڑ
رہی تھی۔
پھر اچانک سرتاج کرن گم ہوگئی۔ دوسری کرنوں نے اسے آلیا تھا اور اسے گود میں اٹھا کر گم ہوگئی تھیں۔ دھوپ پھیل گئی۔ سامنے ہی ایک تیز رفتار ندی کا شور سنائی دے رہا تھا۔ اس کے قریب درخت اور گھاس نظر آرہی تھی۔ سرتاج کرن کے گم ہوتے ہی میرے پیروں کی رفتار سست ہوگئی۔ اعصاب نے بریک لگائی، بدن کو کئی جھٹکے لگے اور میں چکرا کر گر پڑا… نیچے گھاس تھی۔ بدن کئی بار تڑپا اور پھر ساکت ہوگیا۔ یوں لگا جیسے بدن سے روح نکل گئی ہو اور میں بے جان ہوگیا۔ سکون ایک لامتناہی سکون! خاموشی سناٹا اور یہ سناٹا بڑا فرحت بخش تھا۔ آہ…! موت کتنی حسین ہے۔ شاید میں مر گیا… بس پھر میں مر گیا… مگر موت جیسی حسین شے اتنی آسانی سے حاصل نہیں ہوتی۔ مجھے جگا دیا گیا۔ بتایا گیا کہ میں زندہ ہوں، زیرامتحان ہوں اور امتحان اتنی آسانی سے ختم نہیں ہوتے۔ ایک ننھا سا خوش رنگ پرندہ میرے سر پر بیٹھا آہستہ آہستہ میری پیشانی پر چونچ مار رہا تھا۔ میرے بدن کو جنبش ہوئی تو وہ پھر سے اڑ گیا۔ زندگی کے احساس نے پوری طرح بیدار کردیا۔ ایک کراہ کے ساتھ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ ندی کا شور مسلسل اٹھ رہا تھا، سیبوں کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ سخت بھوک لگ رہی تھی۔ درخت نظر آئے جن پر سیب جھول رہے تھے۔ آسانی سے اٹھ گیا۔ سیب توڑے اور انہیں چبانے لگا۔ خوب پیٹ بھر گیا پھر ندی سے پانی پیا۔ شام جھک رہی تھی۔ کچھ دیر کے بعد تاریکی نیچے اتر آئی۔ دل میں کوئی خیال نہیں تھا۔ پرندے نظر آرہے تھے کسی انسانی وجود کا نشان نہیں تھا لیکن کچھ دیر کے بعدکھنکارنے کی آواز ابھری اور میں سہم گیا۔
’’آئو!‘‘ کسی نے کہا اور میں آنکھیں پھاڑنے لگا۔ ’’رکتے کیوں ہو آگے بڑھو…‘‘ آواز نے کہا۔
’’ کون ہے… کہاں ہو تم…؟‘‘ میں ڈری ڈری آواز میں بولا۔ ’’جستجو… صرف جستجو! قدم آگے بڑھائو۔‘‘ لہجہ کرخت تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ کدھر قدم بڑھائوں۔ بہرحال! چند قدم آگے بڑھا اور رک گیا۔ ’’بڑھتے رہو، رکتے کیوں ہو۔‘‘ کہا گیا تب مجھے محسوس ہوا کہ کوئی میرے آگے آگے چل رہا ہے۔ میں نے قدموں کی چاپ سے قدم ملا دیئے اور مجھے ایک ایسے خطے میں لایا گیا جہاں درخت ایک دائرے کی شکل میں تھے یہاں انتہائی دلفریب خوشبو بکھری ہوئی تھی۔ کچھ نظر نہیں آرہا تھا لیکن احساس ہوتا تھا کہ بہت سے لوگ موجود ہیں۔ میں رک گیا۔
’’یہ ہے؟‘‘ کسی نے کہا۔
’’کیا نام ہے؟‘‘
’’مسعود احمد!‘
’’کیا جرم ہے؟‘‘
’’گیا شیطان مارا ایک سجدے کے نہ کرنے میں اگر لاکھوں برس سجدے میں سر مارا تو کیا مارا۔‘‘
ایک آواز ابھری۔
’’اعتراض ہے۔‘‘
’’کیا…؟‘‘
’’وہ ملعون جانتا تھا۔ سمجھتا تھا۔ توبہ کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے۔‘‘
’’یہ فیصلہ روز حشر کا ہے۔‘‘
’’اس فیصلے کا یہاں ذکر کہاں۔‘‘
’’تو یہ اجتماع یہاں کیوں ہے؟‘‘
’’ہمارا فرض ہے۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’ایک مسلمان کو مدد درکار ہے، ارواح خبیثہ کے خلاف!‘‘
’’مسلمان؟ رگوں میں دوڑتی غلاظت کے باوجود۔‘‘
’’یہ غلاظت اسے دھوکے میں ملی ہے۔‘‘
’’اس کا عمل کیا رہا۔‘‘
’’چند غلطیاں…!‘‘
’’توازن کیا ہے؟‘‘
’’کفارے کا پلڑا زمین سے لگا ہوا ہے۔‘‘
’’میزان درست ہے۔‘‘
’’پوری جانچ پڑتال کے ساتھ!‘‘
’’اس کے ساتھ تعاون مشیت ایزدی سے انحراف کا گناہ تو نہ ہوگا۔‘‘
’’قاضی صاحب فیصلہ کریں گے۔‘‘
’’مختصر تفصیل!‘‘ نئی آواز نے کہا۔
’’ابتداء… نوجوانی کی سرکش عمر، رزق حرام کی طلب اور اس کی جستجو میں ایک سفلے کے پاس پہنچنا مگر پھر بے لوث خدمت اور ایک مزار پاک کو آلودہ نہ کرنے کا عزم جس کے نتیجے میں مصیبتوں کے پہاڑ اٹھائے پھرا ہے یہ!‘‘
’’مگر اسے موقع ملا۔‘‘
’’وہاں اس سے غلطی ہوئی۔ یہ دوسرا گناہ تھا۔‘‘
’’اس کے بعد…؟‘‘
’’خباثت سے مسلسل جنگ! اس کی قوتوں کے حصول کے باوجود ان سے مسلسل انحراف! صعوبتوں کی مسلسل برداشت، غیر دینی امور کو قبول نہ کرنا، بھٹکنا مگر سنبھلنا، کبھی زیر نہ ہونا، آپ کے لیے کچھ حاصل نہ کرنا۔ پلڑا بہت نیچے ہے۔‘‘
’’سزا مکمل ہے۔‘‘
’’اس کا فیصلہ کیسے ممکن ہے۔ ہاں! سفارش کی جاتی ہے، اس کی ایک اہم وجہ ہے۔‘‘
’’بتائی جائے۔‘‘
’’ہر خوف، ہر مصلحت سے بے نیاز ہوکر اس نے خود کو مسلمان کہلوایا ہے۔ کبھی کسی مصلحت یا زندگی کے خوف نے اسے نام بدلنے پر مجبور نہیں کیا۔
کوئی احساس اس سے اس کا دین نہیں چھین سکا۔‘‘
’’آہ… یہ قابل غور ہے۔‘‘
’’فرض بھی ہے۔ باطل قوتیں اسے مسلسل زیر کررہی ہیں لیکن یہ ثابت قدم رہا اور اس کی مدد ہم میں سے ہر صاحب دین پر فرض ہوگئی۔ ہمیں اس کے لیے دعا کرنی ہوگی کہ باطل قوتیں اس سے دور ہوجائیں۔ اپنی بساط کے مطابق اس کی رہنمائی ہم پر واجب ہے۔‘‘
’’دعا کرو! ہاتھ اٹھائو!‘‘ اور پھر مکمل خاموشی چھا گئی۔ میرا بدن ہولے ہولے لرز رہا تھا، دماغ ساکن تھا صرف سن رہا تھا۔ میں بس اس سے زیادہ اور کچھ نہیں تھا۔ پھر آمین کی گونج سنائی دی۔ پھر ایک آواز نے کہا۔
’’اے شخص! عمل افضل ہے اور سب کو ہدایت کی گئی۔ بے عمل پتھر ہوتے ہیں کہ ہل نہیں سکتے اور ہوا اور پانی کے محتاج ہوتے ہیں۔ ہر ذی روح کو عمل دیا گیا تو ہماری عدالت میں آیا اور فیصلہ حقائق کی بنیاد پر تیرے حق میں ہوا لیکن عمل صرف تجھے کرنا ہوگا۔ اس کے عوض ولایت نہ مانگنا، درویش نہ سمجھ بیٹھنا خود کو کہ یہ عمل صرف تیری ذات کی فلاح کے لیے ہے اور اس کا نتیجہ تیرے لئے بہتر ہوگا۔ سات جادو گرنیاں تجھ پر مسلط کردی گئی ہیں اور سترہ جادو تیرے وجود میں اتار دیئے گئے ہیں۔ ان سے چھٹکارا تیری ذمہ داری ہوگی۔ تجھے ان سات جادوگرنیوں کو ہلاک کرنا ہوگا اور صرف انسان رہ کر جب تک وہ عمل کریں گی اور تو ان کا شکار ہوگا، انسانوں کی مانند لیکن ہوش کے لمحات نہ کھونا، وہیں خود کو سنبھالنا اور حالات سے فرار حاصل نہ کرنا بلکہ ان میں شامل ہوجانا۔ تجھے ان کی صورتیں نہیں دکھائی جاسکتیں لیکن ایک رعایت ہوگی۔ ان کے ہاتھوں میں سات انگلیاں ہوں گی۔ بس! یہی ان کی پہچان ہے اور اس عمل کے لیے جو مشکلات تجھے پیش آئیں گی، ان میں تجھے مدد ملے گی۔ ان کا وعدہ ہے اور اس پر غور نہ کرنا نہ ہی اس کا تعاقب جو تیرا مددگار ہو۔ نہ ہی انحراف کرنا ان سے جو تیری قربت کے طالب ہوں اور یہ اس سفلے کا عمل ہی ہوگا جو اب شروع ہوگا لیکن وہ تیرے طلسم سے واقف نہ ہوگا کہ اس سے زیادہ تحفظ تیرے لئے ممکن نہیں۔ بس اب جا! رات گہری ہوگئی ہے۔‘‘
مکمل خاموشی طاری ہوگئی۔ میں مسلسل لرز رہا تھا، دماغ سائیں سائیں کررہا تھا، اعصاب چٹخ رہے تھے۔ خاموشی سے وہاں سے پلٹا اور واپس چل پڑا۔ جس سمت سے یہاں تک آیا تھا، وہ یاد تھی۔ سب کچھ ذہن میں گونج رہا تھا۔ ذہن اسے جذب کررہا تھا نہ جانے کب تک چلتا رہا۔ رات آدھی سے زیادہ ہوگئی تو تھک کر زمین پر بیٹھ گیا اور پھر لیٹ گیا، پھر سو گیا۔ پھر کسی نے جھنجھوڑ کر جگا دیا۔
’’ہم سے ناراض ہوگئے ہو مسعود میاں۔‘‘جھنجھوڑنے والے نے کہا اور میں آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے اسے دیکھنے لگا۔ اوم پرکاش تھا۔ میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔ سر پر ایک درخت کی چھائوں تھی۔ دن بکھرا ہوا تھا۔ آوازیں ابھر رہی تھیں۔ یاتری آتے جاتے نظر آرہے تھے۔ وہی جگہ تھی۔ ’’کہاں غائب ہوگئے تھے؟‘‘ اوم پرکاش نے پھر پوچھا۔
’’بس یہیں تھا۔‘‘
’’ڈیرے کا رخ بھی نہ کیا؟‘‘
’’بھول گیا تھا۔‘‘
’’ڈیرہ ہی بھول گئے تھے!‘‘
’’ہاں!‘‘
’’اور ہمیں۔‘‘
’’نہیں اوم پرکاش جی! آپ کو کیسے بھول سکتا ہوں۔‘‘
’’آئو چلو، سب یاد کررہے ہیں۔‘‘ میں اوم پرکاش کے ساتھ چل پڑا۔ کچھ دیر کے بعد ڈیرے پر پہنچ گیا۔
’’ارے یہ کیا حالت بنا لی ہے تم نے۔ کپڑے چیکٹ ہوگئے ہیں، بالوں میں دھول اٹکی ہوئی ہے۔ ست پرکاش! انہیں اشنان کرائو۔‘‘ اوم پرکاش کی دھرم پتنی نے کہا۔
’’رہنے دیں چاچی! ٹھیک ہوں۔‘‘
’’ارے واہ! کیسے ٹھیک ہے۔ میں نے کپڑے منگوائے ہیں تمہارے لئے، جائو ست پرکاش کے ساتھ چلے جائو۔‘‘ ست پرکاش نے میرے لئے لائے ہوئے کپڑے سنبھالے۔ پہلے ایک حجام کے پاس لے گیا، داڑھی بنوائی، بال بنوائے۔ یہاں سب کچھ تھا۔ ایک تالاب میں نہایا پھر کپڑے پہنے اور بال وغیرہ سنوار کر تیار ہوگیا۔ ست پرکاش مجھے دیکھ کر مسکرایا۔
’’بڑے سندر لگ رہے ہو مہاراج! مگر کیا کریں۔ عمر میں ہمارے جیسے ہو، پر دوست پتا جی کے ہو اس لئے بے تکلفی سے بات بھی نہیں کرسکتے۔‘‘ میں صرف مسکرا دیا۔ ہم واپس آگئے۔ اوم پرکاش جی نے بھی مجھے پسندیدگی کی نظروں سے دیکھا تھا۔ باقی دن ان کے ساتھ گزارا۔ شام کو سب مندر چلے گئے۔ اوم پرکاش نہیں گئے تھے۔ کہنے لگے۔
’’تمہاری وجہ سے رک گیا ہوں مسعود جی۔ سوچا ہے کہ تم سے کچھ باتیں کروں۔‘‘
’’کہئے اوم پرکاش جی۔‘‘
’’سوچتا ہوں
اپنے ساتھ آنے پر مجبور کرکے میں نے غلطی تو نہیں کی ہے۔ تم مسلمان ہو اور یہاں ہر جگہ مندر پھیلے ہوئے ہیں اور پھر تم مسلمان بھی عام نہیں ہو، گیان دھیان والے ہو۔ اپنے دھرم کے عالم ہوگے۔ مجھ سے زیادہ اور کون جانتا ہے اس بارے میں۔ پر من کی سچی بات بتائوں۔ یہ سب کچھ میں نے جان کر نہیں کیا۔‘‘
میں مسکراتی نظروں سے اوم پرکاش کو دیکھنے لگا۔ پھر میں نے کہا۔ ’’آگے کہیں اوم پرکاش جی!‘‘
’’جیسا کہ میں نے بتایا کہ وہاں میں نے تم سے ملنا چاہا تھا مگر تم کہیں اور چلے گئے تھے بعد میں نظر آئے تو بے اختیار میرا من چاہا کہ تمہیں ساتھ لے چلوں اور میں نے فوراً ہی بول دیا۔ میرا کوئی مطلب نہیں تھا۔‘‘
’’میں جانتا ہوں اوم پرکاش جی! آپ بھی یہ جان لیں کہ جو ہوتا ہے، اس کی ڈور کہیں اور سے ہلتی ہے۔ ہم سب تو کٹھ پتلیاں ہیں جو اس ڈور سے بندھے ناچتے ہیں۔ جسے جہاں سے جو ملنا ہوتا ہے، ملتا ہے۔ مادھو لال کو دولت کی ہوس کی سزا ملنا تھی، ملی۔ آپ کو یہاں یاترا کرکے سکون ملا اور مجھے بھی کچھ ملا ہی ہوگا۔‘‘
’’تم تو مہان ہو۔ سنسار باسیوں کو دھوان دینے والا خود بوجھ اٹھا کر چار روپے کمائے۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔‘‘
’’وہ چار روپے کتنے قیمتی ہیں، مجھ سے پوچھئے اوم پرکاش جی! اور پھر کس شکل میں کیا مل جاتا ہے۔ ہم چھوٹے دماغ والے کیا جانیں۔‘‘
’’میں یہ پوچھنا چاہتا تھا کہ آپ ان مندروں سے الجھتے تو نہیں ہیں؟‘‘
’’نہیں اوم جی! یہ کمزور لوگ اپنے عقیدوں سے اپنی تسکین کرتے ہیں۔ کسی کو بھلا کیا اعتراض! ویسے آپ کا خوب ساتھ رہا۔ بڑی محبت ملی آپ سے، بہت خیال رکھا آپ نے میرا…! کیا اب مجھے اجازت دیں گے؟‘‘
’’جانا چاہتے ہو؟‘‘
’’جانا تو ہوگا… آج نہیں کل، کل نہیں پرسوں…!‘‘
’’تمہارا ٹھکانہ کہاں ہے؟ دل کبھی تم سے ملنے کو چاہے تو کہاں تلاش کرسکتا ہوں۔‘‘
’’یہی سب سے مشکل جواب ہے۔‘‘
’’میں جانتا ہوں۔‘‘ اوم پرکاش نے اداسی سے کہا۔ پھر بولے۔ ’’کب جائو گے؟‘‘
’’کسی بھی دن، کسی بھی وقت!‘‘
’’سچ کہتا ہوں مسعود! مجھے تم سے محبت ہوگئی ہے۔ تم مہان ہو مگر مجھے تمہاری ذات سے پیار ہوگیا ہے۔ بھگوان تمہیں خوش رکھے۔‘‘ اوم پرکاش خاموش ہوگئے۔ پھر انہوں نے کچھ نہیں کہا۔ میں نے آرام کے لیے ایک جگہ تلاش کرلی اور سونے لیٹ گیا مگر سونے کہاں سوچنے، بہت بڑا سہارا ملا تھا۔ بہت سے خیالات دل میں آرہے تھے۔ محنت کی کمائی کے چار لڈوئوں نے کایا پلٹ کر رکھ دی تھی۔ راستہ ایک ہندو جوگی نے دکھایا تھا۔ کوئی بھی ہو جو نیکی کا سفر کرتا ہے، اسے روشنی ضرور ملتی ہے۔ میرا علم تو صفر تھا۔ میں کیا جانوں کہاں کیا چھپا ہے۔ بہرحال اب جو ہدایات ملی ہیں، انہیں سمجھنا ہے، ان پر عمل کرنا ہے۔ اب چوک نہیں ہونی چاہئے ورنہ کچھ باقی نہ رہے گا۔ ان ہدایات کو دل سے لگا لینا چاہئے۔
عمل افضل ہے۔
اس پر غور نہ کرنا نہ ہی اس کا تعاقب جو تیرا مددگار ہو۔ جو تیری قربت کے طالب ہوں، ان سے انحراف نہ کرنا۔ ایک ایک بات یاد آنے لگی۔ سات جادوگرنیوں کو ہلاک کرنا ہے۔ یہ سات پورنیوں کے علاوہ اور کون ہوسکتا تھا۔ آہ…! کوئی تدبیر بنے، کچھ ہو۔ کیا ہونا چاہئے۔ محنت کی کمائی، چار لڈو! اس سے گریز کرتا رہا ہوں۔ کتنا عرصہ گزر گیا کسی نہ کسی پر انحصار کرتا رہا ہوں۔ پہلے رزق حلال کی تلاش افضل ہے۔ خود کو ادھر سے ادھر کٹی پتنگ کی طرح دوڑاتے رہنا، کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ یہ عمل بے شک طویل ہوگا لیکن کرنا ہے، مجھے عمل کرنا ہے۔ آغاز کہیں سے ہوجائے۔ ملازمت کسی مناسب جگہ، اس کا تذکرہ اوم پرکاش جی سے بھی ہوسکتا ہے مگر بات نہ بن سکے گی۔ وہ مجھے دوسری نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ کہیں دور یہ کوشش کرنا ہوگی۔ یہیں بنارس میں ہی سہی، کیا حرج ہے۔ یہ تو مندروں کی دنیا ہے، یہاں سے آگے تو پورا شہر پھیلا ہوا ہے۔ ہاں زیادہ دور جانا کیا معنی رکھتا ہے۔ اس آخری احساس نے سکون بخشا تھا۔ پھر سو گیا تھا۔ صبح بہت جلدی آنکھ کھل گئی۔ صبح بنارس نگاہوں کے سامنے تھی۔ دل کو بہت خوشگوار کیفیت کا احساس ہوا تھا۔ کچھ سو رہے تھے، کچھ جاگ رہے تھے۔ میں اس خوشگوار صبح کا لطف لیتا وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ آج سے نئی زندگی کا آغاز کرنا چاہتا تھا، اس شہر میں تقدیر آزمانا چاہتا تھا۔ ہر طرح کے لوگ یہاں نظر آتے تھے۔ اس وقت بھی یاتری زندگی کی مصروفیات میں


لگے ہوئے تھے۔ انسانوں کی ایک چوپال کے پاس سے گزر رہا تھا کہ ایک نسوانی چیخ سنائی دی۔ لوگوں کے ساتھ میں بھی چونک پڑا۔ ایک لڑکی دوڑتی آرہی تھی۔ رخ اسی طرف تھا اور اس وقت میں بری طرح بوکھلا گیا جب وہ قریب آکر مجھ سے لپٹ گئی۔ اس کے منہ سے نکل رہا تھا۔
’’رتنا… رتنا جی… رتنا جی!‘‘ کچھ اور لوگ بھی میرے پاس آگئے۔ سفید ساڑھی میں لپٹی ایک معمر خاتون میرے پاس آگئیں۔ انہوں نے بھی میرا بازو پکڑ لیا اور روتے ہوئے دلدوز لہجے میں بولیں۔
’’ہمیں نہیں پہچانتے رتنا! جو کوئی بھی ہو۔ ہمارا ساتھ تو رہا ہے۔ اسے دیکھو کون ہے یہ! دیکھو اسے یہ کون ہے؟‘‘ میرا دماغ ایک دم جاگ اٹھا اور میرے منہ سے نکلا۔
’’رما رانی…‘‘
’’جب بھی ملتے ہو، مندروں کے پاس ملتے ہو۔ دیوتا ہو، کنیا ہو، کون ہو؟ مگر تم جیون دیتے نہیں لیتے ہو۔ اسے نہیں پہچانا تم نے…؟‘‘ اب میں نے چونک کر خود سے لپٹی نوجوان لڑکی کو دیکھا۔ کشنا تھی۔ سرخ و سفید، شوخیوں سے بھرپور! مگر اس وقت اجڑی ہوئی، چہرے پر وحشتیں بکھری ہوئیں، دبلی پتلی۔
’’ہمارے نہیں ہو، حکیم ہی بن جائو… مسیحائی کردو ہماری! اسے موت سے بچا لو۔‘‘ رما رانی کی آواز میں سسکیاں بھری ہوئی تھیں۔
’’یہ کشنا… کشنا ہے۔‘‘
’’میں رما ہوں جسے تم نے چند روز ماں کہا تھا۔ جس کی چھاتی سے لپٹ گئے تھے اور اس کے سینے میں تمہارا پیار جاگ اٹھا تھا۔‘‘
’’آپ لوگ یہاں کہاں…؟‘‘
’’کچھ وقت دے دو گے ہمیں! بھول کر بھی نہ سوچا تھا کہ تم یہاں مل جائو گے مگر یہ جانتی تھی۔ بار بار یہاں آجاتی تھی۔ اس کا یقین سچا تھا۔ انہیں تھوڑا سا وقت دے دو۔ اس پیار کی قیمت کے طور پر جو میں نے تمہیں دیا تھا۔ میری محبت تم پر ادھار ہے رتنا…‘‘ رما رانی سسکنے لگیں۔
’’کیسی باتیں کررہی ہیں رما رانی! میں نے نمک کھایا ہے، آپ کا مجھے بتایئے کیا کروں۔‘‘
’’کوئی اور ہے تمہارے ساتھ…؟‘‘
’’ایں… نہیں کوئی نہیں۔‘‘ میں نے بادل ناخواستہ کہا۔
’’تو آئو… یہاں سے چلو… آئو۔‘‘ رما رانی نے کہا۔ میں احمقوں کی طرح قدم بڑھانے لگا۔ کوئی بات جو سمجھ میں آرہی ہو، میرے پیچھے دو لڑکیاں آرہی تھیں۔ وہ رادھا اور لکشمی تھیں۔ کشنا مضبوطی سے میرا بازو پکڑے ہوئے تھی اور میری کھوپڑی ہوا میں معلق تھی۔
یہ احساس بھی تھا کہ لوگ مجھے دیکھ رہے ہیں۔ ایک نوجوان لڑکی مجھے اس طرح پکڑے ہوئے ہے جیسے اسے میرے بھاگ جانے کا خطرہ ہو۔ کچھ دور تو بوکھلاہٹ کے عالم میں چلتا رہا پھر کچھ سنبھل کر میں نے کشنا سے خود کو چھڑانے کی کوشش کی اور کہا۔ ’’کشنا…! خود کو سنبھالو۔ میں تمہارے ساتھ چل رہا ہوں، دیکھو لوگ کیسے ہمیں دیکھ رہے ہیں۔‘‘
’’چلے جائو گے۔ بھاگ جائو گے۔ کھو جائو گے۔ پھر نہیں ملو گے، مجھے پتا ہے۔ نہیں چھوڑوں گی میں …! نہیں چھوڑوں گی۔‘‘ اس کی آواز میں خوف تھا، تشویش تھی، دہشت تھی۔ میرا دل کٹنے لگا۔ وہاں شکتی پور میں بھی مجھے علم ہوگیا تھا کہ کشنا مجھے چاہتی ہے مگر کہانی ہی عجیب تھی۔ میں اس چاہت کی پذیرائی کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ دماغی خرابی بتا کر انہوں نے مجھے جو چاہا سمجھ لیا یا بتا دیا مگر عالم ہوش میں تو یہ ممکن نہیں تھا۔ رما رانی نے بڑا پیار دیا تھا۔ سب محبت کرتے تھے مگر وہ ایسی جگہ تھی جہاں کوئی غیرت دار ایک لمحہ گزارنے کا تصور نہیں کرسکتا تھا۔ کشنا بہت شوخ، بہت معصوم تھی۔ عام لڑکیوں سے کسی طور مختلف نہیں تھی لیکن طوائف زادی…! ان ساری باتوں کو نظر انداز بھی کردیا جاتا تو بھی میں کیا کرتا… کوئی عقل میں آنے والی بات تھی؟
تانگوں کے اڈے پر آگئے۔ دو تانگے کئے گئے اور ہم چل پڑے۔ تانگے میں بیٹھ کر مجھے اس انوکھی گرفتاری پر ہنسی آگئی۔ رما رانی میرے پاس بیٹھی تھیں۔
’’اکیلے آئے ہو بنارس…؟‘‘
’’نہیں… کچھ لوگوں کے ساتھ!‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’تمہارے اپنے ہیں؟‘‘ رما رانی نے سوال کیا۔
’’نہیں!‘‘ میں نے گردن ہلائی۔
’’تمہارے اپنے کہاں ہیں؟‘‘ پوچھا گیا۔
’’پتا نہیں!‘‘ میں نے گہری سانس لے کر کہا۔
’’طبیعت کیسی ہے؟‘‘ رما رانی نے پوچھا۔
’’ٹھیک ہوں۔‘‘ میں نے سپاٹ انداز میں جواب دیا۔
’’بھٹک ہی رہے ہو تو ہمارے پاس رہنا کیا برا تھا۔ کوئی تکلیف تھی وہاں؟‘‘
’’نہیں رما رانی!‘‘
’’پھر کیوں چلے آئے؟‘‘ رما رانی نے مجھے تیکھی نظروں سے دیکھا۔
’’اپنوں کی
تھی۔‘‘ میں نے سادگی سے جواب دیا۔
’’نہیں ملے…؟‘‘ پوچھا گیا۔
’’نہیں!‘‘ میں نے سسکی لے کر جواب دیا۔
’’ہمیں اپنا سمجھ لو۔ کوئی کمی نہیں پائو گے۔ اب تو شکتی پور بھی چھوڑ دیا ہے ہم نے، یہیں بنارس میں رہتے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کون ہیں، کہاں سے آئے ہیں۔‘‘ رما رانی کا لہجہ اداس تھا۔
’’گھر کہاں ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’وہ آگیا۔‘‘ رما رانی نے تانگے والے کو اشارہ کیا۔
اینٹوں کا وسیع و عریض مکان نظر آرہا تھا۔ اس کے آس پاس کوئی مکان نہیں تھا۔ ہاں ایک میدان نظر آرہا تھا اور اس کے دوسرے سرے پر باقاعدہ آبادی پھیلی ہوئی تھی۔ سب تانگے سے اتر گئے۔ دونوں تانگے والے پیسے لے کر چلے گئے۔ کشنا نے اسی طرح مجھے پکڑا ہوا تھا۔ اندر پہنچ کر رما رانی نے اسے پیار سے پکارا۔
’’کشنا…! رتنا مل گیا تیرا…؟‘‘
’’یہ… یہ پھر بھاگ جائے گا۔‘‘ وہ سہمی ہوئی آواز میں بولی۔
’’نہیں ری… یہ اب کہیں نہیں جائے گا۔‘‘
’’چلا گیا تو…؟‘‘ وہ اسی طرح بولی۔
’’کہا نا نہیں جائے گا مگر تجھے دیکھ کر یہ کیا سوچ رہا ہوگا کیا حلیہ بنا رکھا ہے تو نے… سر مٹی سے اٹا ہوا ہے، چہرے پر نشان پڑے ہوئے ہیں، چوٹی گوندھ، منہ ہاتھ دھو، کپڑے بدل! رتنا کے کپڑے نکال… یہ بھی خود کو سنوارے۔‘‘
کشنا کے چہرے پر تبدیلیاں نظر آئیں۔ وہ خجل سی محسوس ہوئی۔ پھر اس نے شرمندہ سے لہجے میں کہا۔ ’’میں ابھی آئی، چلے نہ جانا۔‘‘
’’نہیں کشنا۔ میں تو رما رانی کے پاس بیٹھا ہوں۔‘‘
’’ماں…! میں ابھی آئی۔‘‘ وہ مڑی اور اندر چلی گئی۔ رما رانی نے مجھے اندر آنے کا اشارہ کیا۔ ایک وسیع کمرے میں داخل ہوئیں۔ یہاں بید کی کرسیاں پڑی ہوئی تھیں۔ مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود بھی بیٹھ گئیں۔
’’تمہارا ایک ایک کپڑا سنبھال کر رکھا ہے اس نے، ہفتے پندرہ دن کے بعد اسے نکالتی ہے، دھوتی ہے، استری کرتی ہے اور اس کے بعد احتیاط سے صندوق میں رکھ دیتی ہے۔ کہتی ہے رتنا آئے گا تو کیا پہنے گا، ہم تو برباد ہوگئے رتنا! سب کچھ ختم ہوگیا ہمارا، سب کچھ!‘‘
میں نے اب اپنے آپ کو پوری طرح سنبھال لیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ رما رانی جس طبقے سے بھی تعلق رکھتی ہوں، ان کا مذہب کچھ بھی ہو لیکن انہوں نے مجھے بے حد متاثر کیا تھا۔ ان کے الفاظ میں آج تک نہیں بھول سکا تھا۔ ساری صورتحال تو اس وقت ہی میری سمجھ میں آگئی تھی جب میں نے دیوانگی سے فرزانگی میں قدم رکھا تھا۔ ریل کے حادثے نے دماغی توازن الٹ دیا تھا اور بھٹکتا ہوا رما رانی کو مل گیا تھا۔ نجانے کس جذبے کے تحت ہونٹوں سے ماں کا لفظ نکل گیا تھا اور رما رانی نے اپنا سینہ میرے لیے کھول دیا تھا۔ بہت اچھی خاتون تھیں وہ…! مگر بدقسمتی سے طوائف تھیں۔ سارے واقعات مجھے یاد آگئے۔ اب کیا کروں؟ رما رانی میرے احساسات سے بے خبر اپنی کہانی سنا رہی تھیں۔ کہنے لگیں۔
’’تمہارے آنے کے بعد تو یوں لگا جیسے ہمارے گھر پر جھاڑو پھر گئی ہو۔ کشنا تمہیں یاد کرکر کے کئی دن تک روتی رہی، کھانا پینا چھوڑ دیا اس نے! جس طبیعت کی مالک تھی، اس کا تو تمہیں اندازہ ہو ہی چکا ہوگا۔ کمرہ بند کرکے بیٹھ گئی اور جب کمرے سے باہر نکلی تو اپنا دماغی توازن کھو بیٹھی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ شکنتا نے تمہیں کہیں گم کردیا ہے۔ پھر ایک دن اس دیوانگی کے عالم میں شکنتا کے گھر پہنچ گئی۔ پیتل کا گلدان لے کر اس کا چہرہ لہولہان کردیا۔ جسم پر بھی بہت سے وار کئے اور شکنتا ان زخموں کی تاب نہ لا کر مر گئی۔ اسے اسپتال میں داخل کیا گیا تھا مگر تین دن کے بعد اس کی موت واقع ہوگئی۔ ہم پر مقدمہ چلا۔ اسے قتل کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔ یہ ثابت کرنے کے لیے کہ وہ دماغی مریضہ ہے، سارا دھن دولت ختم ہوگیا۔ برے حال ہوگئے ہمارے، ادھر دشمنی الگ پڑ گئی تھی۔ دماغی مریضہ کی حیثیت سے عدالت نے اسے بری تو کردیا لیکن ہمارے ساتھ جو کچھ ہوا تھا، وہ بہت برا تھا۔ کسی نے ہمیں ہمارے گھر میں نہ رہنے دیا۔ ہم وہاں سے چل پڑے۔ جو کچھ پیسے بچے تھے، انہیں سنبھال کر نجانے کہاں کہاں پھرتے رہے لیکن دشمنوں نے ہمارا پیچھا نہیں چھوڑا۔ انہوں نے کہہ دیا تھا کہ ہمیں کسی کوٹھے پر آباد نہیں ہونے دیں گے۔ تب میں نے سوچا کہ جان ہے تو جہان ہے۔ جو بھاگ میں لکھا ہے، وہ تو ہو ہی جائے گا۔ بنارس آگئے اور یہاں یہ ٹوٹا پھوٹا گھر خرید لیا لیکن وہ


تمہیں تلاش کرتی رہی۔ مندروں میں، ویرانوں میں! اب یہی کیفیت ہے۔ کبھی کہیں سے پکڑ کر لاتے ہیں اسے، کبھی کہیں سے پکڑ کر لاتے ہیں مگر اس کی لگن سچی تھی، اس کے راستے پاک تھے، اس نے تمہیں پا لیا۔ جو سنے گا، حیران رہ جائے گا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ تم اس طرح ہمیں یہاں مل جائو گے۔‘‘
رما رانی اپنی کہانی سنا رہی تھیں اور میں دنگ بیٹھا ہوا تھا۔ یہ سب کچھ میری وجہ سے ہوا، میری وجہ سے…! مگر میں انہیں کیا جواب دے سکتا ہوں، ان کی محبت کا! کشنا کو کیا سنبھال سکتا ہوں میں…! میں تو خود ہی غموں کا مارا تھا۔ کشنا تھوڑی دیر کے بعد دونوں ہاتھوں پر میرے کپڑے رکھے اندر داخل ہوئی۔ بڑے پیار، بڑے اہتمام سے اس نے ان کپڑوں کو استری کرکے اپنے بازوئوں پر رکھا ہوا تھا۔ کپڑے گرم گرم تھے۔ اس نے میرے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔
’’جائو رتنا! نہا لو، کپڑے بدل لو۔ دیکھو تو سہی کیسے میلے بال ہورہے ہیں۔ میں استری کررہی تھی اس لیے دیر لگ گئی۔ تم نہا لو، میں بھی ابھی نہا کر آتی ہوں۔‘‘ وہ واپس چلی گئی۔ اس کے انداز میں وہی معصومیت، وہی شوخی تھی۔ رما رانی کہنے لگیں۔
’’فیصلہ کچھ بھی کرو رتنا! ابھی اس کا دل رکھ لینا۔ کم ازکم اس وقت تک جب تک اس کا دماغ ٹھیک نہ ہوجائے۔ اگر برا نہ مانو تو یہ بات کہوں کہ خود غرضی اچھی چیز نہیں ہوتی۔ ہم سے محبت نہ کرسکو لیکن کم ازکم ہمارا قرض ہی چکا دو۔‘‘ میں نے رما رانی کو دیکھا، خاموشی سے کپڑے اٹھائے اور اس طرف بڑھ گیا جہاں مجھے نہانا تھا۔ راستے میں مالتی ملی، مسکرائی اور بولی۔
’’آگئے رتنا جی! چلو تمہیں نہانے کی جگہ بتا دوں۔‘‘
سب ہی موجود تھے۔ غسل کیا، لباس پہنا اور اس دوران نجانے کیا کچھ سوچتا رہا۔ وہ سب کچھ کرنا ہے مجھے جو دل میں ٹھان لی ہے۔ ٹھیک ہے رما رانی اب کوٹھے پر نہیں ہیں اور یہ جگہ بہتر ہے۔ جیسے بھی گزار رہی ہوں، وہ جانیں اور ان کا کام، لیکن مجھے یہاں اب کوئی ایسا ٹھکانہ تلاش کرنا چاہئے جس سے رزق حلال ملنے کی امید بندھ جائے۔ رہائش کے لیے اگر رما رانی کا گھر ہو تو بھی کوئی ہرج نہیں ہے۔ جہاں تک معاملہ کشنا کا ہے تو بے شک رما رانی کا قرض ہے مجھ پر، اتاروں گا اسے۔ کشنا کو بہتر راستے پر لائوں گا اور کسی وقت بتا دوں گا کہ میں مسلمان ہوں۔ یہ سب کچھ ممکن نہیں ہوسکتا۔ کشنا کو میں احترام کا درجہ تو دے سکتا ہوں لیکن اس سے آگے تو میری کوئی حیثیت ہی نہیں ہے اور نہ ہی میں ان راستوں پر چلنے کے قابل ہوں۔ یہ فیصلہ کرلیا تھا دل میں اور یہ سوچا تھا کہ اب ثابت قدمی سے یہاں وقت گزاروں گا اور اپنے لیے کوئی مناسب جگہ تلاش کروں گا۔ بس! اب ماضی کی بہت سی باتیں دل میں رکھنے یا دماغ میں سوچنے سے کوئی فائدہ نہیں تھا۔ مجھے عمل کی دنیا میں آنا تھا اور یہی میرے حق میں بہتر تھا۔ چنانچہ رما رانی، لکشمی، رادھا، مالتی سب ہی سے گھل مل گیا۔ کشنا کے چہرے پر جیسے ایک دم سے نئی زندگی پھیل گئی تھی۔ لگتا ہی نہ تھا کہ کچھ وقت پہلے وہ بالکل بدلی ہوئی تھی۔ غسل خانے سے نکلی تھی تو جیسے نیا چہرہ چہرے پر سجا کر لے آئی تھی۔ رما رانی نے اسے دیکھا اور ماں کی آنکھوں میں آسودہ مسکراہٹیں کھلنے لگیں۔ مجھے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’دیکھا تم نے…!‘‘ میں نے خاموشی سے آنکھیں بند کرتے ہوئے گردن ہلا دی تھی۔ میرے لیے درحقیقت بڑا مشکل مرحلہ تھا۔ ایک طرف رما رانی کی محبت اور ان کے کئے ہوئے احسانات تھے اور دوسری طرف اپنی انوکھی زندگی! فیصلہ کرنا بڑا مشکل کام تھا۔ سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا تھا۔ رات کو رما رانی مجھ سے میرے بارے میں پوچھنے لگیں۔ کشنا میری یہاں موجودگی سے مطمئن ہوگئی تھی اور بہت خوش نظر آرہی تھی۔ رادھا اور لکشمی کی مسکراہٹیں بھی جوں کی توں تھیں۔ رما رانی نے کہا۔
’’رتنا…! تمہیں یہ تو معلوم ہوچکا ہوگا کہ تم کون ہو، تمہارا گھر کہاں ہے، کیا واقعہ ہوا تھا تمہارے ساتھ جس کی بناء پر تمہارا ذہنی توازن الٹ گیا تھا۔‘‘
’’ریل کا حادثہ ہوا تھا رما جی! اور اس حادثے نے مجھے نجانے کس کس سے دور کردیا۔‘‘
’’اکیلے سفر کررہے تھے…؟‘‘
’’نہیں! کچھ عزیز بھی ساتھ تھے۔‘‘
’’تو ان کا کیا ہوا…؟‘‘
’’مر گئے۔‘‘ میں نے ٹھنڈی آہ بھر کر کہا۔
’’تو کیا اب تم اکیلے رہ گئے ہو؟‘‘
’’ایک طرح سے یہی سمجھ لیں رما جی۔‘‘ میں نے کہا۔
’’تو رتنا! ہمارے ساتھ رہو، کیا
ہے۔ دیکھو بیٹا! انسان انسان ہی ہوتا ہے۔ سنسار میں اس کی حیثیت کچھ بھی ہو، روتا ہوا ہی آتا ہے اور ہاتھ، پائوں پسارے چلا جاتا ہے۔ کچھ بھی نام دے لو اسے لیکن ہوتا وہ انسان ہی ہے۔‘‘
’’ہاں رما جی! اس میں کوئی شک نہیں ہے مگر میں…! میں مسلمان ہوں۔‘‘
’’ہیں…!‘‘ رما رانی نے حیران نگاہوں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ہاں! میں مسلمان ہوں۔‘‘
رما رانی عجیب سے انداز میں مجھے دیکھتی رہیں۔ پھر بولیں۔ ’’ٹھیک ہے۔ میں یہ نہیں کہتی کہ اپنا دھرم بدل لو مگر… مگر انسانیت کا دھرم تو ایک ہی ہوتا ہے۔ تھوڑا سا سمے گزار لو ہمارے ساتھ! کشنا کو جیسے چاہو بہلا لینا اور پھر… اور پھر!‘‘ رما رانی کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔ میں نے بے قرار ہوکر کہا۔
’’نہیں رما جی! آپ فکر نہ کریں۔ کشنا جب تک بالکل ٹھیک نہیں ہوجائے گی، میں یہاں سے نہیں جائوں گا۔‘‘
’’تو تمہیں یہاں سے جانے کی ضرورت بھی کیا ہے۔ ہم سے جو پرہیز کرنا چاہو، کرلینا۔ بھاجی، ترکاری تیار ہوتی ہے، وہ کھا پی لینا۔ دھرتی پر جو کچھ ہوتا ہے، وہ تو سب ہی کے لیے ہوتا ہے۔‘‘
’’کھا چکا ہوں رما رانی جی! اب کیا پرہیز کروں گا لیکن آپ کے حالات تو ویسے ہی بگڑے ہوئے ہیں۔ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آئی ہیں۔ مجھے ایک اجازت ضرور دے دیجئے گا۔
’’میں کہیں نوکری کروں گا، اپنے لیے رزق کمائوں گا۔ آپ کی بھی جو سیوا ہوسکتی ہے، وہ کروں گا۔ مجھے اس سے آپ نہیں روکیں گی رما جی!‘‘
رما رانی نے گردن جھکالی۔ کہنے لگیں۔ ’’ٹھیک ہے مگر کشنا کو سمجھا لینا۔‘‘
’’ہاں کیوں نہیں!‘‘ ایک حد تک اطمینان ہوا تھا۔ یہ بھی بڑی بات ہے کہ سر چھپانے کا ٹھکانہ بھی مل گیا تھا۔ اوم پرکاش جی سے یہ سب کچھ کہنے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ رزق حلال کا جو مزہ چکھا تھا، اسے کبھی نہیں بھول سکتا تھا لیکن اب راستے اور پرخطر ہوگئے تھے۔ احتیاط اور شدید ہوگئی تھی۔ کشنا کی محبتیں عروج پر تھیں۔ اب وہ مجھ سے باقاعدہ سمجھداری کی باتیں کرنے لگی تھی۔ اس نے ایک دفعہ پوچھا۔
’’کیوں چلے گئے تھے رتنا…؟‘‘
’’بس کشنا…! جی چاہا تھا۔‘‘
’’کیا شکنتا نے کہا تھا کہ یہ گھر چھوڑ دو؟‘‘
’’نہیں کشنا…! شکنتا سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔‘‘
’’سچ…!‘‘ وہ خوش ہوکر بولی۔
’’ہاں!‘‘ میں نے مسکرا کر کہا۔
’’اور مجھ سے…؟‘‘
’’تم سے تو بڑا لگائو ہے مجھے کشنا! لیکن تم نے اپنی جو حالت بنا لی ہے، مجھے اچھی نہیں لگتی۔‘‘
’’تمہاری ہی وجہ سے تو ایسا ہوا۔ تم چلے گئے تو مجھے ایسا لگا جیسے سنسار میں سورج چھپ گیا ہو، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے! کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا۔ چاروں طرف گھور اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔‘‘
’’اب خود کو سنبھالو، یہ ساری باتیں بری ہوتی ہیں۔‘‘
’’تم اگر میرے ساتھ رہو تو پھر سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘
’’میں تمہارے ساتھ بہت زیادہ وقت تو نہیں گزار سکتا کشنا! دیکھو نا میں مرد ہوں اور مرد گھروں میں چوڑیاں پہن کر تو نہیں بیٹھتے۔‘‘
’’پھر کیا کرتے ہیں۔‘‘ وہ ہنس کر بولی۔
’’وہ باہر نکلتے ہیں، عورتوں کے لیے روزی کماتے ہیں اور پھر شام کو گھر واپس آتے ہیں اور اگر کوئی مرد ایسا نہیں کرتا تو پھر وہ مرد، مرد نہیں کہلاتا۔ تم نے کوٹھا چھوڑ دیا ہے، وہ جگہ بری تھی کشنا! وہاں مرد، مرد نہیں ہوتے تھے بلکہ وہ مرد جو کوٹھوں پر رہتے ہیں عورتوں کے غلام ہوتے تھے، یہ اچھی بات ہے کہ اب ہم یہاں بنارس میں ہیں۔ اگر تم اجازت دو تو میں نوکری کروں اور تم سب کے لیے روزی کمائوں؟‘‘
کشنا کچھ سوچنے لگی۔ پھر بولی۔ ’’نوکری کرنے کے لیے تو تمہیں شہر جانا پڑے گا۔‘‘
’’ اور اگر تم واپس نہ آئے تو؟‘‘
(جاری ہے)

Latest Posts

Related POSTS