سمجھ میں آنے والی تو خیر کوئی بات تھی ہی نہیں۔ یہاں آنے کے بعد جو کچھ دیکھا تھا، ان میں سے ایک دو باتیں ہی سمجھ میں آئی ہوں تو آئی ہوں، ورنہ کچھ نہیں سمجھ پایا تھا۔ چندربھان کی کمر سے بندھی ہوئی زنجیر اور اس کے پیروں میں پڑے ہوئے زنجیروں کے کڑوں کو دیکھا۔ موٹے موٹے لوہے کے کڑے تھے جن میں انتہائی مضبوط زنجیریں باندھ کر انہیں دیواروں میں لگے ہوئے کڑوں سے باندھ دیا گیا تھا۔ میں نے ان کڑوں اور زنجیر کی مضبوطی کا اندازہ لگایا اور چاروں طرف دیکھنے لگا۔ کوئی ایسی چیز نہیں تھی جن سے ان کڑوں کو توڑنے کی کوشش کی جائے اور پھر یہ منظر انتہائی حیران کن تھا کہ چندر بھان مہاراج یہاں پر قیدی تھے اور رانی مہاوتی ان کے نام پر اس شاندار محل میں راج کررہی تھی۔ وہ عورت تو مجھے ایک نگاہ میں ہی پراسرار لگی تھی اور اب اس کے بعد جو واقعات پیش آئے تھے، انہوں نے کوئی شک نہیں چھوڑا تھا۔ میں نے افسوس بھرے انداز میں کہا۔
’’مگر چندر بھان جی! میرے پاس تمہاری زنجیروں کو توڑنے کیلئے تو کوئی چیز نہیں ہے۔‘‘
’’بھگوان کیلئے… بھگوان کیلئے کچھ بھی کرو۔ جو تمہارا من…!‘‘ چندر بھان نے ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ دفعتاً اس کے چہرے پر خوف کے آثار پھیل گئے۔ اس کی نگاہیں میرے عقب میں کھلے ہوئے دروازے پر جم گئیں۔ میں نے بھی تیز روشنی میں ایک سایہ سا محسوس کیا۔ پلٹ کر دیکھا تو حلق سے ایک دہشت بھری آواز نکل گئی۔ لمبے چوڑے بدن کا مالک تھا وہ، انسان کہنا اس کو غلط تھا۔ ہاں انسان نما چیز ضرور تھی۔ خوفناک لمبے لمبے بال اس کے پورے چہرے، گردن اور کھلے ہوئے بازوئوں پر نظر آرہے تھے۔ باقی جسم پر لباس تھا، آنکھیں بے حد خوفناک اور ضرورت سے زیادہ بڑی بڑی! ناک کے بارے میں بھی کوئی صحیح اندازہ نہیں لگایا جاسکتا تھا کہ وہ بھی تقریباً کانوں تک ہی پھیلی ہوئی تھی اور دہانہ بہت چھوٹا! وہ خونخوار نگاہوں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ پھر وہ غراتا ہوا دو قدم آگے بڑھا اور میں ایک دم پیچھے ہٹ گیا۔ لیکن جیسے ہی اس کی نگاہ میری آنکھوں سے ٹکرائی، دفعتاً وہ اس انداز میں پیچھے ہٹ گیا جس انداز میں آگے بڑھا تھا۔ اس کے دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بھنچ گئی تھیں اور وہ عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ پھر اس کے حلق سے خونخوار غراہٹیں نکلنے لگیں اور وہ اپنی جگہ کھڑا کھڑا اچھلنے لگا۔ اس نے اپنی موٹی انگلی سے میرے سینے کی جانب اشارہ کیا اور پھر اس انگلی کو کھلے ہوئے دروازے کی جانب لے گیا۔ جیسے کہہ رہا ہو کہ باہر نکل جائو۔ میں خاموشی سے اسے دیکھ رہا تھا اور یہ اندازہ لگا رہا تھا کہ یہ انوکھی مخلوق انسان ہے بھی یا نہیں…! پھر اس کے حلق سے ایک چنگھاڑ سی نکلی اور وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے بال نوچنے لگا۔ سر کے بالوں کے گچھے کے گچھے اس نے اکھاڑ کر پھینک دیئے۔ جسم کے بالوں کو بھی نوچنے لگا۔ اس کے حلق سے غراہٹیں نکل رہی تھیں اور وہ ادھر سے ادھر دوڑ رہا تھا۔ کبھی اس طرف کی دیوار سے ٹکراتا اور کبھی دوسری طرف کی دیوار سے! پھر وہ زمین پر گر کے زمین پر لوٹنے لگا۔ جگہ جگہ سے اس نے اپنا جسم کاٹنا شروع کردیا اور میں نے اس کے جسم سے خون ابلتا ہوا دیکھا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس پر یہ کس قسم کا دورہ پڑ گیا ہے لیکن ایک اندازہ میں نے ضرور لگا لیا تھا کہ وہ شدید غصے کے عالم میں مجھ سے باہر نکل جانے کیلئے کہہ رہا تھا اور اپنی بوٹیاں چبائے جارہا تھا البتہ اس کے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکل پایا تھا۔ بالکل گونگوں کا سا انداز تھا۔ شاید وہ گونگا تھا۔ چند لمحات کے بعد چندر بھان ہی نے کہا…‘‘
’’دیر کردی، دیر ہوگئی اب…! اب ساری بلا مجھ پر ہی آئے گی۔ تم سے یہ کچھ نہیں کہہ رہا مگر… مگر مجھ سے بدلہ لے گا۔ جائو… جائو باہر نکل جائو، پتا نہیں اس نے تم پر حملہ کیوں نہیں کیا؟ اپنا غصہ کیوں ضبط کررہا ہے۔‘‘
’’یہ گونگا ہے…؟‘‘
’’ہاں…!‘‘
’’کون ہے یہ…؟‘‘
’’آ… آ… آ…!‘‘ چندر بھان کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن اپنے الفاظ کو آہوں میںتبدیل کرکے رہ گیا۔ پھر اس نے کہا۔ ’’جائو… جائو نکل جائو۔ ہوسکے تو دوبارہ مجھ مظلوم کی طرف رخ کرنا۔ کسی کو میرے بارے میں بتا دینا۔ لوگوں سے کہہ دینا کہ چندر بھان… چندر
بھان!‘‘ دفعتاً ہی نیچے لیٹا ہوا آدمی ہولناک آواز میں چیخا۔ یہ آواز اس کمرے میں اس طرح گونجی تھی کہ کانوں کے پردے پھٹتے ہوئے محسوس ہورہے تھے۔ اس کے بعد اس نے چندر بھان کی طرف چھلانگ لگائی اور چندر بھان بھی خوف زدہ ہوکر پیچھے ہٹ گیا تھا مگر اس شخص نے چندر بھان پر بھی حملہ نہیں کیا۔ پھر میری جانب مڑا اور دروازے کی جانب اشارہ کرکے آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگا۔ اب وہاں رکنا حماقت تھی، ظاہر ہے اس بھونچال سے مقابلہ کرنے کا تو تصور بھی نہیں کرسکتا تھا اور پھر مقابلہ کس بنیاد پر کرتا!
کچھ بھی تو معلوم نہیں تھا مجھے، ایک اور انوکھی چیز دیکھی تھی میں نے یہاں، اور پھر میں حیران دروازے سے باہر نکل آیا تھا۔ باہر کا منظر وہی تھا۔ چلچلاتی دھوپ، سنسان اور ویران راستے! وہ میرے پیچھے پیچھے آیا تھا اور اس نے میرے باہر نکلتے ہی یہ دروازہ بھی بند کردیا تھا جبکہ چندر بھان کے کمرے کا دروازہ وہ پہلے ہی بند کر آیا تھا۔ میں ایک لمحہ کھڑا اس بند دروازے کو دیکھتا رہا۔ پھر گردن جھٹک کر وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ لعنت ہے… لعنت ہے اس زندگی پر! جو کچھ بھی نظر آتا ہے، ایسا ہی نظر آتا ہے جس کا سر پیر سمجھ میں ہی نہ آئے۔ وہاں سے واپس پلٹ پڑا اور ادھر ادھر گھومنا بیکار سمجھ کر اپنی رہائشگاہ میں آگیا۔ دیر تک اس سارے قصے کے بارے میں سوچتا رہا اور اس کے سوا اور کوئی اندازہ نہیں لگا سکا تھا کہ مہاوتی پُراسرار اور خطرناک عورت ہے۔ وہ کیا ہے اور کیا کررہی ہے، اس کے بارے میں ظاہر ہے مجھے کچھ معلوم نہیں تھا اور نہ ہی ان سارے گورکھ دھندوں کے بارے میں میری کوئی معلومات۔ حالانکہ طویل عرصے سے اس جال میں پھنسا ہوا تھا۔ پھر میں نے سوچا کہ حاجی صاحب نے مجھے اس لئے تو یہاں نہیں بھیجا کہ مہاوتی کے بارے میں معلومات حاصل کروں۔ مہاوتی بس حاجی صاحب کی ایک پارٹی تھی اور حاجی صاحب نے اسے ساڑھیاں فروخت کی تھیں جن کا معاوضہ انہیں مل گیا تھا۔ اگر آج شام تک مہاوتی مجھے وہ ڈیزائن نہیں دے دیتی اور حاجی صاحب کیلئے نیا آرڈر نہیں دے دیتی تو میں یہاں سے واپس چلا جائوں گا۔ حاجی صاحب سے کہہ دوں گا کہ وہاں کچھ ایسے عجیب و غریب حالات کا سامنا کرنا پڑا جن کی وجہ سے میں وہاں نہیں رک سکا۔ حاجی صاحب اچھے آدمی ہیں، اس بات کا برا نہیں مانیں گے۔ بہرحال میں اپنی جان تو خطرے میں نہیں ڈال سکتا تھا۔ یہ دوسری بات ہے کہ مجھے اپنی جان کی کوئی پروا نہیں تھی۔ سب کچھ ہورہا تھا، سب کچھ! پورے سکون کے ساتھ کررہا تھا لیکن نقطۂ نظر ابھی تبدیل نہیں ہوا تھا۔ اپنی ذات کے ساتھ بھلا اس وقت تک کیا دلچسپی ہوسکتی تھی جب تک کہ ماں، باپ اور بہن، بھائی نہ مل جائیں۔ ان کیلئے ہی تو زندگی لٹا دی تھی۔ جو کھو گیا تھا، اسے پانے کی آرزو میں ہی تو جی رہا تھا۔ اگر یہ آرزو ختم ہوجائے اور دل اس بات کا یقین کرلے کہ اب وہ زندگی میں کبھی نہیں آئیں گے تو پھر ایک لمحے بھی میرے لئے جینا بیکار تھا۔ کیا فائدہ اس طرح تنہا جینے سے۔ ملنے کو تو بہت کچھ مل جائے گا لیکن سب سے بڑی طلب ماں، باپ کی تھی۔ سب سے بڑی حسرت انہی کی تھی اور اس حسرت، اس کسک کو دل میں دبائے جہاد کررہا تھا اپنے آپ سے اور کوششیں کررہا تھا کہ مجھے میری کھوئی ہوئی ہستی واپس مل جائے۔ اگر ایسا ہوگیا تو اس کے بعد ایک معمولی انسان کی حیثیت سے اپنے ماں، باپ کے قدموں میں زندگی بسر کرنا دنیا کی سب سے بڑی عبادت سمجھوں گا۔
شام ہوگئی۔ سورج کی قہر سامانیاں ختم ہوگئیں اور جب سورج چھپا تو نجانے کہاں سے بند ہوائیں چل پڑیں اور ماحول پر ایک فرحت انگیز کیفیت طاری ہوگئی۔ سندری دوبارہ میرے پاس نہیں آئی تھی۔ اس واقعہ کے بعد سے مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ مجھ سے روٹھ گئی ہو۔ میں لعنت بھیجتا تھا ایسی سندریوں پر لیکن شام کو جب میرے لئے کھانے پینے کی چیزیں آئیں اور میں انہیں کھانے میں مصروف ہوگیا تو کھانا لانے والے ملازم نے کہا۔
’’مہاراج! آپ تیار ہیں، کالی داس جی نے کہا ہے کہ کھانے سے فراغت حاصل کرنے کے بعد آپ کو رانی مہاوتی جی سے ملنا ہے۔‘‘
’’رانی جی آگئیں؟‘‘
’’ہاں…!‘‘
’’ٹھیک ہے تم بھی انہیں میرا یہ پیغام دے دو کہ میں فوراً ہی ان سے ملنا چاہتا ہوں۔‘‘
میں نے کھانے سے جلدی جلدی فراغت حاصل کی اور انتظار کرنے لگا کہ رانی مہاوتی مجھے
بلائیں۔ آنے والا کالی داس ہی تھا۔ وہی کالا بھجنگ جو اب مجھے انسان سے زیادہ شیطان معلوم ہونے لگا تھا۔ خصوصاً اس وقت سے جب سے میں نے اسے تصویر سے غائب ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔ مسکراتی نگاہوں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ ایک معنی خیز مسکراہٹ تھی اس کے ہونٹوں پر، پھر وہ بولا۔
’’آیئے مہاراج…! رانی مہاوتی آپ کو ڈیزائن دینا چاہتی ہیں۔‘‘ میں خاموشی سے اس کے ساتھ آگے بڑھ گیا۔ وہ مجھ سے چند قدم آگے چل رہا تھا۔ مختلف غلام گردشوں اور راہداریوں سے گزار کر وہ مجھے محل کے اندرونی حصے میں لے گیا۔ بڑے سے چوبی دروازے کو کھولا اور اندر داخل ہوگیا۔ وسیع و عریض کمرہ تھا جس میں شاندار اور قیمتی فرنیچر سجا ہوا تھا۔ رانی مہاوتی ایک بہت قیمتی اور چوڑی کرسی پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ قیمتی ساڑھی پہنے ہوئے، چہرے پر وہی پروقار کیفیت جسے دیکھ کر یہ احساس ہوتا تھا کہ کوئی کسی رانی ہی کے سامنے ہے۔ مسکراتی نگاہوں سے مجھے دیکھا اور کہنے لگیں۔ ’’آئو… آئو آگے آئو، رک کیوں گئے؟ کالی داس! ہمارے مہمان کو کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی تمہارے گھر میں؟‘‘
’’کوشش تو یہی کی ہے مہارانی کہ آپ کے مہمان کو کوئی تکلیف نہ ہونے پائے۔‘‘ کالی داس کے لہجے میں ایک تمسخر چھپا ہوا تھا۔
’’ان کی خاطر مدارات بھی کی…؟‘‘
’’ہاں…! مگر سندری کہتی ہے کہ یہ سندرتا کو پسند نہیں کرتے۔‘‘ کالی داس نے جواب دیا۔
’’تم بھی بدھو ہو نرے کالی داس جی! جس کے چرنوں میں اندر سبھا سجتی ہو، اسے سندری کی سندرتا سے کیا لگائو ہوگا مگر پورن بھگت ہمیں بھگنتی کا سبھائو نہیں دے رہے۔ کیوں پورن مہاراج؟‘‘ رانی نے دل موہ لینے والی نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔ رانی جو کچھ کہہ رہی تھی، وہ سمجھ میں آرہا تھا۔ پھر اس نے کہا۔ ’’ہم سے بولو گے نہیں مہاراج…؟‘‘
’’حکم دیجئے رانی جی!‘‘ میں نے کہا۔
’’اپنے بارے میں بتائو گے نہیں؟‘‘
’’کیا…؟‘‘
’’ایک مسلمان کے ہاں نوکری کررہے ہو، نام بھی مسلمانوں جیسا، روپ بھی ان کا سا، ایسا کیوں ہے؟‘‘
’’اس لئے کہ میں مسلمان ہوں۔‘‘
’’کوئی مسلمان پورن نہیں ہوسکتا یا کوئی پورن مسلمان نہیں رہ سکتا۔‘‘ رانی نے کہا۔
’’آپ کی باتیں میری سمجھ میں نہیں آرہی ہیں رانی جی! مجھے یہاں بہت وقت گزر چکا ہے۔ میں جانا چاہتا ہوں۔ حاجی صاحب میرا انتظار کررہے ہوں گے۔‘‘
’’آپ ایسے کہاں جائیں گے پورن مہاراج! ہمیں کچھ دیتے جایئے۔ ایسے ہی تھوڑی روکا ہے آپ کو! چلیں ٹھیک ہے آپ کی بات ہی سہی۔ دیکھئے ہمیں ایسے سو دوشالے بنوانے ہیں، بنارسی کڑھائی میں یہ ڈیزائن بنوا دیں ہمیں! دکھائو کالی داس! سورج لیکھا دکھائو پورن مہاراج کو!‘‘ کالی داس نے گردن جھکائی۔ ایک طرف بڑھا پھر پلٹا اور اس کے بعد اس نے ایک سرخ دوشالا کھول دیا۔ دوشالے پر جگمگاتے تاروں سے کچھ نشان کڑھے ہوئے تھے۔ صاف لگتا تھا کہ ان تاروں سے کچھ لفظ لکھے ہوئے ہیں۔ میں نے انہیں دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ٹھیک ہے رانی جی! آپ یہ مجھے دے دیں۔‘‘
’’اس کے بدلے آپ ہمیں کیا دیں گے؟‘‘ رانی نے مسکرا کر پوچھا۔
’’یہ آپ کو واپس مل جائے گا دیوی جی!‘‘
’’نہیں آرہے یہ ہمارے قابو میں شمبھو مہاراج! آپ ہی آیئے۔ پورن جی پردہ کررہے ہیں ہم سے…!‘‘ کمرے میں بنے ہوئے دوسرے دروازے سے ایک کریہہ المنظر بوڑھا باہر نکلا۔ دبلا پتلا بانس کی طرح سوکھا، ہاتھ، پائوں بے ترتیب! اوپری بدن ننگا، نیچے دھوتی باندھے ہوئے وہ بھی نہایت مختصر! گردن میں باریک باریک سانپ مالائوں کی طرح پڑے ہوئے جو کلبلا رہے تھے، زبانیں نکال رہے تھے۔ داڑھی، مونچھوں اور سر کے بال کیچڑ میں لپٹے ہوئے، بدن سے بدبو کے بھبکے اٹھ رہے تھے۔
’’جے مہاکالی!‘‘ اس نے ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا۔ میں اسے نفرت بھری نظروں سے دیکھنے لگا۔ ’’جے مہاکالی!‘‘ اس بار اس نے گرجتی آواز میں کہا۔ میں نے پھر بھی کچھ نہ کہا تو وہ کڑک کر بولا۔ ’’سارے دیاس یہاں سے شروع ہوتے ہیں، یہاں ختم ہوجاتے ہیں۔ جے مہا کالی! کیا تو کالی داس نہیں ہے؟‘‘
’’مجھے جانے دیں رانی جی!‘‘ میں نے کہا۔
’’شمبھو مہاراج سے بات کریں پورنا!‘‘ وہ بولی۔
’’میرا نام مسعود احمد ہے۔‘‘
’’نام مسعود احمد ہے پھر پورنیاں کیسے مل گئیں تجھے؟ اوہو سمجھا دیکھ یہ ایک‘ اس نے ہاتھ اٹھا کر نیچے کیا اور کالے رنگ کا ایک لکڑی کا ٹکڑا
گر پڑا۔ دو تین چار وہ گنتا رہا اور چھ ٹکڑے زمین پر آگئے سات…! اس نے ہاتھ اٹھایا مگر کوئی ٹکڑا نیچے نہ گرا۔ سات… سات… سات…! وہ بار بار ہاتھ اٹھا کر نیچے گراتا رہا مگر ساتواں ٹکڑا نیچے نہ گرا۔ ’’ارے ساتویں کہاں گئی، ساتویں کہاں گئی۔ ساتویں کہاں ہے…؟ ساتویں نہیں ہے۔‘‘ اس نے آخری الفاظ مہاوتی کو مخاطب کرکے کہے۔
’’کھوج لگائیں مہاراج…!‘‘ مہاوتی پریشان لہجے میں بولی اور شمبھو زمین پر بیٹھ گیا۔ اس نے آسن جما لیا اور آنکھیں بند کرلیں۔ تب میں نے اس کی گردن میں پڑے ہوئے باریک باریک سانپوں کے بل کھلتے دیکھے۔ ان میں سے دو اس کی ناک کے دونوں نتھنوں میں گھسنے لگے، دو کانوں کی طرف بڑھ گئے اور کانوں کے سوراخ تلاش کرکے ان میں بدن سمیٹنے لگے۔ بھیانک منظر تھا۔ سانپوں کے چمکیلے بدن اس کی ناک اور کانوں کے سوراخوں میں گم ہوتے جارہے تھے اور میرے دیکھتے ہی دیکھتے سارے سانپ غائب ہوگئے۔ میں اکتائی ہوئی سانسیں لے رہا تھا اور رانی اور کالی داس بدستور مسکراتی نظروں سے میرا جائزہ لے رہے تھے۔ کچھ دیر کے بعد شمبھو مہاراج نے آنکھیں کھول دیں۔ خوفناک سرخ آنکھیں! پھر انہوں نے منہ کھولا اور بے چین سانپ بلبلاتے ہوئے ان کے منہ سے باہر آنے لگے۔ کچھ رینگتے ہوئے ان کی گردن تک پہنچ گئے، کچھ اس کوشش میں نیچے گر پڑے تو شمبھو مہاراج نے انہیں خود اٹھا کر گردن میں ڈال لیا۔ پھر وہ مجھے گھورتے ہوئے بولے۔ ’’کچھ پتا نہیں چل رہا ساتویں کہاں ہے۔‘‘
’’نہیں پتا چل رہا مہاراج…؟‘‘ مہاوتی بولی۔
’’بڑا بگڑا ہوا کھیل ہے مہاوتی! یہ خود ہی بتائے تو پتا چلے۔ اس کا شروع بھی پتا نہیں چلتا۔ شنکھا بھی نہیں ہے یہ کہ کھنڈولا بن جائے مگر پورنا ضرور ہے، ساتوں پورنیاں رکھنی ہوتی ہیں، مگر ساتویں کہاں گئی؟ بول رے پورنا! ساتویں کہاں گئی ورنہ شمبھو ہے میرا نام…!‘‘
’’بتا دو پورنا مہاراج! بتا دو۔‘‘ کالی داس بولا۔
’’رانی مہاوتی! میں آپ کا احترام کرتا ہوں۔ یہ کیا ہورہا ہے میرے ساتھ! یہ کیا ہورہا ہے؟‘‘ میں نے احتجاج کیا۔
’’تم بھی تو ضد کررہے ہو پورنا! بتا دو شمھبو مہاراج کو! نہیں تو مصیبتوں میں پھنس جائو گے۔‘‘
’’آپ مجھے جانے دیں۔ میں جارہا ہوں۔‘‘ میں نے دروازے کی طرف قدم بڑھا دیئے۔ اسی وقت شمبھو اچھل کر کھڑا ہوگیا۔
’’رک جا پورنا…! رک جا۔‘‘ اس نے گلے سے ایک سانپ اتار کر ہاتھ میں لے لیا۔
’’میں جارہا ہوں اور اب میں محل میں نہیں رکوں گا۔ سمجھے تم لوگ!‘‘ میں نے کہا اور شمبھو نے سانپ مجھ پر اچھال دیا۔ سانپ میری گردن میں آپڑا۔
اس سے خوف زدہ ہونا اور چھٹکارا پانا فطری کوشش تھی۔ میں نے اسے مٹھیوں میں جکڑ لیا مگر اس نے دوسرا سانپ پھینکا جو میری کلائیوں پر آکر پڑا اور اس نے میری دونوں کلائیوں پر بندش کرلی۔ میرے حلق سے دہشت بھری چیخیں نکلیں اور میں نے بدحواسی کے عالم میں دروازے کی طرف چھلانگ لگائی لیکن ایک اور سانپ نے میرے پیروں کو بھی جکڑ لیا۔ میں اوندھے منہ نیچے گرا اور پوری قوت سے سانپوں کے جسموں سے قائم کی ہوئی بندشوں سے نکلنے کی جدوجہد کرنے لگا لیکن ان گھنائونی لچکدار رسیوں نے مجھے ایسا جکڑا کہ میں ہل بھی نہ سکا اور ادھر سے ادھر لڑھکنے لگا۔ شمبھو نے کچھ اور پھینکا اور گردوغبار کا ایک بڑا مرغولہ میرے گرد چھا گیا۔ میری آنکھیں بند ہوگئیں، جدوجہد رک گئی اور بدن ساکت ہوگیا۔ کھانسی اٹھ رہی تھی۔ عجیب سی گرد تھی۔ میں نے سختی سے آنکھیں بھینچ لیں اور کھانستا رہا۔ کچھ دیر کے بعد احساس ہوا کہ گرد کم ہوگئی ہے۔ آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں۔ دھند سی چھائی ہوئی تھی پھر وہ دھند بھی چھٹ گئی۔ ایک نگاہ میں ہی معلوم ہوگیا تھا کہ منظر بدل گیا ہے۔ نہ محل ہے، نہ بھٹنڈہ، نہ کالی داس ہے، نہ شمبھو! بلکہ ایک اجاڑ جنگل ہے، سوکھے ہوئے پتوں سے بے نیاز درخت کھڑے ہوئے ہیں۔ چند گز کے فاصلے پر بدنما چٹانوں اور پہاڑوں کا سلسلہ ہے۔ ایک اونچے ٹیلے کے دامن میں ایک سیاہ غار کا دہانہ منہ کھولے مجھے تک رہا ہے۔ سانپ بدستور میرے بدن سے لپٹے ہوئے ہیں اور میں ان کی قید میں ہوں۔ ان سانپوں سے مجھے دہشت بھی ہورہی تھی، گھن بھی آرہی تھی۔ بے چینی سے پورے بدن کا زور لگایا تو دوسری طرف لڑھک گیا تب ادھر کا منظر نظر آیا۔ لاتعداد بیر گردن نیہوڑاتے گھٹنوں میں سر
دیئے، اداس بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ میرے بیر تھے۔ پورنیوں کے بیر…! ان سے کوئی دو گز کے فاصلے پر درخت کے ایک کٹے ہوئے تنے پر بھوریا چرن پائوں لٹکائے بیٹھا ہوا تھا اور بھوریا چرن کے پیروں کے پاس ایک نسوانی بدن رسیوں سے بندھا پڑا تھا۔ میں پتھرا گیا۔ یہ سب کچھ بہت سنسنی خیز تھا مجھے اپنی طرف دیکھتے پا کر بھوریا چرن اپنی جگہ سے اٹھا اور میرے قریب آکر میرے پائوں چھوتا ہوا بولا۔
’’پائے لاگوں مہاراج دین دیال… بڑے دھرم دیوتا ہیں آپ! مان گئے آپ کو۔‘‘ اس کی آواز میں طنز کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔
’’بھوریا چرن تم…؟‘‘
’’کتا ہے آپ کا… کیڑا ہے آپ کے سامنے رینگنے والا…!‘‘
’’کیوں کیا حال ہے؟‘‘
’’بس حال نہ پوچھو مہاراج! ہم نے بڑے بڑے دھرم دیال دیکھے ہیں مگر تم جیسا دھرم کا بائولا نہیں دیکھا…‘‘
’’سچ کہتے ہو بھوریا چرن…!‘‘
’’نہیں! جھوٹ بول رہے ہیں کیا؟‘‘
’’تمہارا شکریہ تم نے مجھے یہ اعزاز اپنے منہ سے دیا ہے۔ یہی تو میں چاہتا ہوں بھوریا چرن کہ لوگ مجھے میرے دین کیلئے پاگل سمجھیں۔‘‘
’’ستیاناس ہو تمہارا! کتے کی موت مر جائو۔ ہمارا کریا کرم کیوں کردیا تم نے۔ ارے سارا جیون ختم کردیا تھا۔ کھنڈولا بننے کیلئے کتنی محنت کی تھی، سب خاک میں ملا دی۔ خیر ہم تو خاک میں ملے ہی ہیں مگر تمہارا بھی کریا کرم ہی کرکے چھوڑیں گے سمجھے! دیوانے، پاگل، پاپی! اب بھی مان لے ہماری بات، اب بھی مان لے۔ تیرے ذریعے ہمارا ایک اور ایسا کام ہوسکتا ہے جو سارے بگڑے ہوئے کام بنا دے۔ اگر تو ہمارے رنگ میں رنگ جائے تو اب بھی سن لے، خود بھی عیش کرے گا اور ہمیں ہماری منزل مل جائے گی۔ بتائے دے رہے ہیں تجھے، تو ہے مسلمان کا چھوکرا، مسلمان بنے رہنا۔ ہم انکار نہیں کریں گے، مسلمانوں میں گھس جانا، دین دیوتا بن جانا، لوگوں کے کام نکالتے رہنا اور سب کو دھوکا دیتے رہنا۔ ایک ایسا لڑکا تلاش کرلینا جو ہمارا کام کردے۔ ارے ہم اب بھی اسی پھیر میں پڑے ہوئے ہیں کہ کبھی تجھے عقل آجائے اور تو ہمارا یہ کام کردے۔ وہ سارے وعدے جو ہم نے تجھ سے کئے ہیں، اب بھی پورے کریں گے ہم! اب بھی پورے کریں گے۔ مان لے ہماری بات، سنسار میںعیش ہی عیش کرے گا تو…!‘‘میں ہنس پڑا اور میں نے کہا۔
’’تم بھی دھن کے پکے ہو بھوریا چرن! مگر تم نے یہ کہہ کر میری روح خوش کردی ہے کہ تو نے مجھ جیسا دین کا متوالا نہیں دیکھا۔ ایمان نہیں چھوڑوں گا بھوریا چرن! کبھی ایمان نہیں چھوڑوں گا۔ عہد ہے ہزاروں بار۔ مارنا چاہتے ہو تو تمہیں کھلی چھٹی ہے۔ تم کتے کی موت کہہ رہے ہو، میں کہتاہوں کہ تم ان سانپوں کو حکم دو جو میرے بدن سے لپٹے ہوئے ہیں کہ یہ مجھے آہستہ آہستہ ڈسیں، اپنا زہر میرے جسم میں اتار دیں۔ میرے جسم میں آگ لگ جائے، پانی بن کر بہہ جائوں۔ میں خوشی سے تیار ہوں اس کیلئے لیکن مروں گا اپنے ہی دین کا نام لیتے ہوئے۔ سمجھے بھوریا چرن! میں بھی تمہیں ایسا ٹکرایا ہوں کہ تمہیں مزہ آگیا ہے اور ابھی اور بھی بہت سے مزے آئیں گے۔‘‘
’’بیٹا! مزے تو تجھے بھی آئیں گے۔ تو کیا سمجھتا ہے۔ ٹھیک ہے ڈٹا رہ اپنے دھرم پر۔ اس دھرم پر جس کے نام پر تو عبادت بھی نہیں کرسکتا سمجھا۔ تجھ سے بھی تو بہت کچھ چھن گیا ہے۔ اتنا کچھ چھن چکا ہے تجھ سے کہ تو بہت اچھی طرح سمجھتا ہے۔ تو بھی تو اب لکیر ہی پیٹ رہا ہے۔ بہت شوق ہے نا تجھے لکیر پیٹنے کا تو پیٹتا رہ…‘‘
’’بہت بڑی بات ہے بھوریا چرن! میرے لئے یہ بھی بہت ہی بڑی بات ہے کہ لکیر ہی میرے ہاتھ میں ہے۔‘‘ بھوریا چرن نے غصے سے آگے بڑھ کر کئی لاتیں میرے جسم کے مختلف حصوں پر ماریں اور میں قہقہے لگاتا رہا۔ وہ دیوانگی کے عالم میں لاتیں اور گھونسے مجھے مارتا رہا اور میں پٹتا رہا اور ہنستا رہا۔ پھر وہ خود ہی تھک گیا اور دور ہٹ کر خونخوار نظروں سے مجھے دیکھنے لگا۔ اس کے منہ سے خوفناک غراہٹیں نکلنے لگی تھیں۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ بہت تھک گیا ہو…!
’’نہیں مرے گا تو، نہیں مرے گا۔ مر گیا تو پھر مزہ ہی کیا آئے گا۔ کیا سمجھا؟ بول مانے گا میری بات…؟‘‘
’’کون سی بات بھوریا چرن…؟‘‘
’’دیکھ ادھر دیکھ! وہ کون ہے سامنے…!‘‘
’’مجھے نظر نہیں آرہی، کوئی عورت ہے۔‘‘
’’سندری ہے یہ سندری! مہاوتی کی نوکرانی پائل ہے۔ سمجھ رہا ہے۔ یاد آگیا تجھے؟ کیا کہا تھا میں نے پائل کیلئے۔ دیکھ وہ چھری بھی رکھی ہے
برتن بھی! گردن کاٹ اس کی اور اس کا خون پی لے۔ بس اتنا ہی کرنا ہے تجھے، اتنا ہی کرنا ہے۔ اس کے بدن کا سارا خون پی لے، بات بن جائے گی۔‘‘
’’ناممکن! تیری ایک بھی ناپاک خواہش پوری نہیں کروں گا بھوریا چرن!‘‘
’’حرام خور… ناشکرے!‘‘ بھوریا چرن نے دانت کچکچا کر ایک لات میرے پیٹ پر رسید کی اور کہا۔ ’’اتنا کچھ اگر ہم کسی اور کو دے دیتے تو جیون بھر تلوے چاٹتا ہمارے… اس چمار شمبھو نے تجھے ناگوں سے باندھ دیا ہے۔ چرنوں کی دھول بھی نہیں ہے تیری وہ۔ اپنے بیروں کو حکم دے تو مہاوتی کے محل کو پھونکوں سے اڑا دیں وہ! ایک ایک کو کچا چبا جائیں مگر تیرا دھرم چلا جائے گا ان سے کوئی کام لے کر۔ یہی بات ہے نا…؟‘
’’ہاں! یہی بات ہے بھوریا چرن…!‘‘
’’تو پھر ہم کیا کریں۔ جا پڑ گھور پاتال میں، تیرا ستیاناس!‘‘
’’مجھے ان سے چھٹکارا کیسے ملے گا بھوریا چرن…؟‘‘
’’بیروں کو پکار یا مجھ سے وعدہ کر کہ اس پائل کا خون پی لے گا…!‘‘
’’نہیں بھوریا چرن! ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ جیئوں گا ہر طرح کے حالات میں جیئوں گا۔ ان سے رابطہ کرکے تو میں اپنے ماں، باپ سے بھی مل سکتا تھا جن سے ایک بار ملنے کی آرزو میں، میں جی رہا ہوں مگر ان سے کام لینے کا مطلب ہے کہ میں نے انہیں قبول کرلیا۔ ایسا میں کبھی نہیں کروں گا بھوریا چرن! کبھی نہیں…!‘‘ بھوریا چرن کچھ چونک سا پڑا تھا۔ وہ عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ پھر وہ ہنسا۔ پہلے آہستہ سے پھر زور سے اور پھر وہ قہقہے لگانے لگا۔ ہنستا ہوا بولا۔
’’ارے واہ… ارے واہ…! یہ ہوئی نا بات، بڑھیا بات! یہ ہوئی نا… میری اس کھوپڑی میں ہی نہیں آئی تھی۔ تو نے خود بتائی ہے۔ تو نے خود ہی بتائی ہے۔ تیرے ماتا، پتا، بہن، بھائی…! ارے واہ!‘‘
’’کیا بک رہا ہے…؟‘‘
’’بتاتا ہوں… بتاتا ہوں۔‘‘ وہ خوشی سے اچھلتا ہوا بولا۔ ’’اب تیرے ماتا، پتا ہی تجھے میری بات ماننے پر مجبور کریں گے۔ وہی تجھ سے میرا کام کرائیں گے۔ تو نے خود ان کی طرف اشارہ کیا ہے۔‘‘
’’تو ہے ہی بھنگی بھوریا چرن! میں تو ان کے قدموں کی خاک ہوں۔ میرا ایمان تو بہت کمزور ہے ان کے مقابلے میں تو کیا اور تیری اوقات کیا…! تو ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔‘‘
’’سمے بتائے گا بالک…! اب جیون ان کیلئے نرکھ بن جائے گا تیری وجہ سے۔ صرف تیری وجہ سے اور… اور تجھے بھی دکھائیں گے ہم، اب دوسرا راستہ پکڑیں گے ہم، چلتے ہیں۔ چل ری تو یہاں کیا کرے گی مرکر… ارے بھاگ جائو تم بھی سب! رے کیوں سر پھوڑ رہے ہو اس ترکھی سے، چلو جائو، بھاگ جائو۔‘‘ اس نے بیروں سے کہا اور وہ سب اٹھ کھڑے ہوئے۔ آہیں بھرتے ہوئے وہاں سے آگے بڑھ گئے۔ بھوریا چرن نے سندری کو اٹھا کر کندھے پر ڈالا۔ وہ شاید بے ہوش تھی۔ پھر اس نے میری طرف رخ کرکے تھوکا اور سندری کو کندھے پر لادے آگے بڑھ گیا۔ کچھ دیر کے بعد وہ میری نظروں سے اوجھل ہوگیا۔
میرا دل گھبرانے لگا، دماغ میں سنسناہٹ ہونے لگی۔کیا مجھ سے غلطی ہوگئی، کیا مجھے اس سے اپنے ماں، باپ کا تذکرہ نہیں کرنا چاہئے تھا۔ آہ! کیا غلطی ہوگئی… خدا… ان کا حامی و ناصر ہو۔ خدا انہیں اپنے تحفظ میں رکھے۔ آنکھوں کی کوروں سے آنسو ٹپکنے لگے۔ عقب سے کچھ آہیں ابھریں پھر سرگوشیاں…! ’’چلا گیا؟‘‘
’’ہاں چلا گیا…!‘‘
’’آئو…!‘‘
میں چونک پڑا۔ یہ کون ہو سکتا ہے، سمجھ میں نہیں آیا تھا لیکن وہ دونوں سامنے آ گئے۔ میں نے انہیں پہچان لیا۔ شمبھو اور کالی داس تھے۔ دونوں میرے سامنے آ کھڑے ہوئے۔ پھر شمبھو بیٹھ گیا۔ وہ غور سے مجھے دیکھ رہا تھا پھر اس نے گہری سانس لے کر کہا۔
’’اور تو کہتا ہے تو کچھ نہیں ہے۔‘‘ میں نے آنکھیں بھینچ بھینچ کر آنسوئوں سے صاف کیں اور آہستہ سے کہا۔
’’ہاں وہ شمبھو۔ میں کچھ بھی نہیں ہوں۔‘‘
’’من تو چاہتا ہے کہ ایک بڑا سا پتھر پہلے تیرے سر میں مار کر اسے کچل دیں پھر اپنے سر میں مار کر خود بھی ختم ہو جائیں۔ تیرے بیر بیٹھے ہوئے تھے، ایک اشارہ کرتا انہیں تو وہ تباہی مچا دیتے یہاں، تجھے کھول دیتے۔ تو نے ایسا بھی نہیں کیا۔‘‘
’’تو نے دیکھا شمبھو، میں نے ایسا نہیں کیا۔‘‘
’’کیوں۔ آخر کیوں؟‘‘
’’اس لئے کہ میں مسلمان ہوں۔ نہ تمہارے کالے جادو پر یقین رکھتا ہوں، نہ اس سے کوئی مدد لینا چاہتا ہوں۔ میرے دین میں یہ سب ناپاک ہے، غلیظ ہے۔ مجھے ہمیشہ اپنے خدا پر بھروسہ رہا ہے اور
میشہ رہے گا۔ انسان ہوں، کچھ غلطیاں کر بیٹھا ہوں لیکن جب تک زندگی ہے اس سے مدد مانگتا رہوں گا۔ کسی ناپاک قوت کو آواز نہیں دوں گا۔‘‘
’’ارے تو پھر تو اس کالے سنسار میں کیسے آ پھنسا؟‘‘
’’تجھے یہ سب بتانا ضروری نہیں سمجھتا۔‘‘
’’ضد مت کر، یہ بتانا تیرے لئے فائدہ مند بھی ہو سکتا ہے۔ چھ پورنیاں تیرے چرنوں میں ہیں، یہ سات ہوتی ہیں۔ ساتویں کا پتا ہی بتا دے اور یہ بتا دے کہ اتنا بڑا کام تو نے کیسے کر لیا۔ ابھی جو تجھ سے باتیں کر رہا تھا وہ شنکھا تھا۔ شنکھا بھی انہی کے پاس آتے ہیں جو خود بہت کچھ ہوتے ہیں۔ یہ سب کیا بھائو بھید ہیں۔ تو پورنا ہے، تو خود کو مسلمان کیوں کہتا ہے۔ ارے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہمارے، کالی داس ارے کیا کریں ہم…‘‘ شمبھو نے سر پر دو ہتھڑ مارتے ہوئے کہا۔
’’آپ کیا ہیں شمبھو جی۔ آپ خود کیا ہیں…؟‘‘
’’ہم کالکے ہیں، سمجھا کالی مائی کے چیلے، سب جانتا ہو گا تو پاپی۔ پھیر کر رہا ہے ہمارے ساتھ۔‘‘
’’کالکے کیا ہوتے ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’کالے علم کے آٹھ درجے ہوتے ہیں۔ چار کلکتے والی کے اور چار چنڈولوں کے اور چنڈولے بیس ہوتے ہیں۔ بیس کے بیس مل کر چنڈول بھرتے ہیں، ان کا ویاس گودردھن سے ہے۔ سری کرشن جی نے جب اپنے دشمن راجہ کنس کو قتل کر کے اس کے باپ راجہ اوگر سین کو تخت پر بٹھا دیا تو راجہ کنس کی ارتھی کی راکھ ایک چنڈولی میں بھر دی گئی اور مونگرہ پہنچا دیا۔ مونگرہ میں کنس کی پوجا کرنے والے موجود تھے۔ انہوں نے عقیدت سے وہ راکھ گائے کے گوبر میں ملا کر اس کا ایک بت بنایا اور اس کو اپنا راجہ سمجھنے لگے۔ پھر ایک دن کنس جی گیا اور اس نے مونگرہ والوں کو جادو سکھایا اور اس سے اپنے دشمنوں پر مٹھ مارنے لگا۔ جادو کے سارے منتر اس کے پاس تھے مگر کلکتے کی کالی نے ان سے چار مندھر کھینچ لئے اور وہ انہیں لے نہ سکے۔ تب سے چار کالی کے اور چار چنڈولوں کے جو اصل میں مونگرہ والے تھے، ان کے چار ہی درجے ہوتے ہیں جن میں آخری درجہ کھنڈولا کا ہوتا ہے۔ کالکوں کے درجے الگ الگ ہوتے ہیں اور ان کا کوئی انت نہیں ہوتا جسے جو مل جائے۔‘‘
’’رانی مہاوتی کیا ہے؟‘‘
’’وہ درگامتی ہے اور لونا چماری اس کے قبضے میں ہے۔‘‘
’’اور تم…؟‘‘
’’میں مٹھا ہوں۔‘‘ وہ غور سے دیکھتا ہوا بولا۔
’’خدا کی لعنت ہو تم سب پر…!‘‘ میں نے کہا اور وہ پھر اچھل پڑا۔ اس کی آنکھوں میں پھر غصے کے تاثرات جاگ اٹھے۔ اس نے دیوانوں کی طرح ناچتے ہوئے کہا۔
’’میں نے تجھے یہ سب اس لئے بتایا تھا کہ تو مجھے اپنے بارے میں بتا دے گا مگر کتے کی دم کی طرح تو ٹیڑھے کا ٹیڑھا رہے گا۔ میں ایک اشارہ کروں تو یہ سارے ناگ تیرے بدن میں زہر ہی زہر بھر دیں، اتنا ڈسیں تجھے کہ… کہ… ارے او کالی داس…!‘‘
’’جی مہاراج…‘‘
’’اندر لے چل اسے۔ ارے اسے اندر لے چل۔ یہ ایسی زبان نہیں سمجھے گا۔ لے چل رے اسے اندر…‘‘
’’مہاراج۔ اس کے بندھن نکال دیں۔‘‘ کالی داس نے کہا اور شمبھو نے آگے بڑھ کر سانپ میرے بدن سے کھینچ لئے۔ میری بندشیں کھل گئیں اور کالی داس نے میرا بازو پکڑ لیا۔ سانپوں نے اس طرح مجھے جکڑا ہوا تھا کہ دوران خون رک گیا تھا اور بدن کے وہ حصے سن ہو گئے تھے جہاں بندشیں تھیں۔ کالی داس نے مجھے بغلوں میں ہاتھ ڈال کر غار کے اس دہانے کی طرف گھسیٹا جو سامنے نظر آ رہا تھا۔ وہ بہت طاقتور تھا، با آسانی مجھے اندر لے گیا۔ شمبھو پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ مجھے اپنی کمزوری پر غصہ آنے لگا مگر پائوں زمین پر ٹک ہی نہ رہے تھے۔ دہانے کے دوسری طرف ایک تاریک سرنگ تھی جو کافی لمبی لگ رہی تھی۔ میرا دوران خون بحال ہونے لگا تھا تاہم جھنجھناہٹ برقرار تھی۔ البتہ میں نے اپنا وزن کالی داس پر ڈالے رکھا تاکہ وہ یہی سمجھے کہ میں مفلوج ہوں۔ اسے دھوکے میں رکھ کر کچھ کیا جا سکتا تھا مگر یہ فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ کیا کروں۔ لمبی کالی سرنگ کے دوسرے دہانے پر سرخ روشنی نظر آ رہی تھی بالکل یوں لگ رہا تھا جیسے آگ روشن ہو۔ دوسرا سرا قریب آتا جا رہا تھا۔ پھر وہ مجھے لئے ہوئے اس سرخ دہانے سے اندر داخل ہو گئے۔ بہت بڑا غار تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے کوئی پہاڑ اندر سے کھوکھلا ہو۔ جگہ جگہ دیواروں میں چٹانیں ابھری ہوئی تھیں۔ ایک طرف لکڑیاں سلگ رہی تھیں اور یہ انہی کی روشنی تھی جو پورے غار کو سرخ کئے ہوئے تھی مگر اس
کی تپش بالکل نہیں تھی اس کے برعکس غار میں ٹھنڈک پھیلی ہوئی تھی۔ پورے غار میں جگہ جگہ نہ جانے کیا کاٹھ کباڑ پھیلا ہوا تھا۔ ان میں انسانی جسم کی ہڈیوں کے انبار بھی تھے۔ لاتعداد انسانی کھوپڑیاں بکھری ہوئی تھیں۔ میلے کچیلے پھٹے پرانے رنگین کپڑے اور نہ جانے کیا کیا۔ میرے کان ایک آواز سن رہے تھے۔ چپڑ چپڑ کی آواز جیسے کوئی بڑا جانور کچھ کھا رہا ہو۔
’’چھوڑ دے اس پاپی کو یہاں… مہاوتی جانے اور یہ…‘‘ شمبھو نے کالی داس سے کہا اور اس نے مجھے چھوڑ د یا۔ میں بے جان شہتیر کی طرح نیچے گر پڑا۔ اب بھی میں مفلوج ہونے کا اظہار کر رہا تھا۔
’’اب کیا کریں مہاراج…؟‘‘
’’پڑا رہنے دے اسے یہاں۔‘‘
’’جو آ گیا…‘‘ کالی داس نے کہا۔
’’ آ جا…!‘‘ شمبھو بولا اور وہ دونوں غار سے باہر نکل گئے۔ میں اسی طرح زمین پر پڑا رہا۔ میری نگاہیں پورے غار کا جائزہ لے رہی تھیں اور دل لرز رہا تھا۔ کیا ہولناک جگہ تھی۔ غار کی بلندی ناقابل یقین تھی، اس کی چھت تو نظر ہی نہیں آ رہی تھی۔ ابھرے ہوئے چٹانی پتھروں میں موٹے موٹے تاروں والے مکڑیوں کے جالے لگے ہوئے تھے البتہ مکڑیاں نظر نہیں آئی تھیں اور پھر وہ آواز، چپڑ چپڑ کی آواز… یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے۔ کیسی بھیانک آواز ہے نہ جانے۔ پھر یوں لگا جیسے کوئی چیز گھسیٹی جا رہی ہو اور اس کے بعد زمین میں ابھرے ایک کوہان کے عقب سے ایک ہولناک چیز باہر نکلی۔ آہ میرا دل کانپ کر رہ گیا۔ چٹانی کوہان کے پیچھے سے ایک سیاہ انسانی جسم برآمد ہو رہا تھا۔ ایک تنومند انسانی جسم جو کسی عورت کا تھا۔ اس کا عقبی حصہ نگاہوں کے سامنے آیا تھا۔ گھٹنوں کے بل جھکی ہوئی تھی اور یوں لگتا تھا جیسے کسی شے کو گھسیٹ رہی ہو۔ پھر سیاہ جسم کوہان کے عقب سے مکمل طور پر باہر نکل آیا اور وہ ہولناک منظر میری آنکھوں کے سامنے نمایاں ہو گیا جسے دیکھ کر دل کی دھڑکنیں بند ہو جائیں۔ سیاہ رنگ کی تنومند عورت جس چیز کو گھسیٹ کر پیچھے ہٹ رہی تھی وہ بھی ایک نسوانی بدن تھا۔ خون میں نہایا ہوا، بے جان … خونخوار عورت کے لمبے سیاہ بالوں سے دوسرے جسم کا کچھ حصہ ڈھکا ہوا تھا، خود اس کا چہرہ بھی اس کے بالوں میں چھپا ہوا تھا۔ وہ بلی کی طرح دونوں ہاتھوں پیروں کے بل پیچھے کھسک رہی تھی اور یقینی طور پر دوسرے مردہ جسم کو دانتوں میں دبوچے ہوئے تھی۔ میں سانس روکے اسے دیکھتا رہا۔ سیاہ رنگ کی ہولناک بلا نے اپنے کام سے فارغ ہو کر رخ بدلا اور پھر انسانوں کی طرح بالوں کو زور سے پیچھے جھٹک کر انہیں ہاتھوں سے سنوارنے لگی۔ بالوں کے پیچھے ہٹ جانے سے اس کا چہرہ نمایاں ہو گیا۔
کیا بھیانک چہرہ تھا۔ مکمل طور پر انسانی نقوش اور شاید جانے پہچانے۔ بس رنگ کا فرق تھا ورنہ وہ سو فیصدی مہاوتی تھی۔ رانی مہاوتی… سیاہ چہرے پر جگہ جگہ خون کے چھینٹے پڑے ہوئے تھے اور آنکھیں… اس کی بڑی بڑی آنکھوں کی سفیدی نمایاں تھی۔ کالی پتلیوں کی جگہ ایک سیدھی سبز روشن لکیر نظر آ رہی تھی۔ تیز سبز روشن لکیر… ہونٹ گہرے سرخ ہو رہے تھے۔ مجھ پر شاید اس کی نظر نہیں پڑی تھی چنانچہ وہ پھر ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل جھک کر منہ سے اس انسانی بدن کو ٹٹولنے لگی۔ وہ اسے جگہ جگہ سے سونگھ رہی تھی۔ پھر اچانک اس نے ایک غراہٹ جیسی آواز نکالی اور مردہ جسم کے سینے میں دانت گاڑھ دیئے۔ وہ ہاتھوں پر وزن سنبھال کر شاید لاش کا سینہ کھول رہی تھی اور اس پر دانتوں سے قوت صرف کر رہی تھی۔ اس کے منہ سے خوفناک غراہٹیں نکل رہی تھیں۔ پھر شاید وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئی البتہ اس کوشش میں لاش کا چہرہ میری طرف ہو گیا، گردن شاید پہلے چبا لی گئی تھی مگر چہرہ محفوظ تھا اور گردن کے ساتھ لگے ہوئے کھال کے کسی ٹکڑے سے جھول رہا تھا۔ میں نے اسے دیکھا اور بے اختیار میرے حلق سے چیخ آزاد ہو گئی۔ وہ رجنا وتی تھی۔ وہی معصوم لڑکی جو املی کے درخت پر چھپی ہوئی تھی اور بھوک سے بے تاب ہو کر کھڑکی کے راستے اندر آئی تھی۔ اسے زندگی کا خطرہ تھا۔ آہ اسے اپنی جان کا خوف تھا اور وہی ہوا۔ اس نے کچھ اس طرح کے الفاظ کہے تھے۔ میری آواز پر لاش سے لپٹی ہوئی مہاوتی نے گردن اٹھا کر سیدھی پتلیوں سے مجھے گھورا۔ اس کے منہ سے خون ٹپک رہا تھا پھر اس نے ہونٹ سکیڑ کر دانت نکالے۔ خون میں ڈوبے ہوئے نوکیلے دانت۔ وہ مجھے دیکھ رہی
ہے)