پھر دوبارہ جھک کر لاش کے کھلے ہوئے سینے میں سر ڈال دیا۔ دانتوں سے اس نے رجنا وتی کے اندرونی جسم میں کسی چیز کو جھٹکا دیا اور اس کا کلیجہ دیگر لوازمات کے ساتھ باہر نکال لیا۔ میں نے جنون کے عالم میں ادھر ادھر دیکھا، ایک انسانی پائوں کی سوکھی ہوئی ہڈی مجھ سے کچھ فاصلے پر پڑی ہوئی تھی۔ میں نے اسے اٹھایا اور گھما کر پوری قوت سے مہاوتی پر دے مارا۔ نشانہ درست نہ رہا، ہڈی اس کے سر سے گزر گئی مگر مہاوتی نے جلدی سے کلیجہ دانتوں میں دبا کر ایک لمبی چھلانگ لگائی اور ایک چٹان سے دوسری پر، دوسری سے تیسری پر اور پھر کافی اوپر ایک دیوار میں نکلی ہوئی چٹان پر جا بیٹھی۔ یہ چھلانگیں نپی تلی اور مہارت سے بھرپور تھیں۔ وہ اس وقت بالکل کالی بلی لگ رہی تھی۔ انسان کا اس سے خوفناک روپ کبھی کسی نے نہ دیکھا ہو گا جو میں دیکھ رہا تھا… وہاں پہنچ کر وہ پھر جھک کر بیٹھ گئی اور منہ میں لٹکا ہوا کلیجہ اسی طرح چپڑ چپڑ چبانے لگی۔
’’مہاوتی، کتیا… تو نے… تو نے رجنا وتی کو مار دیا۔ تجھے نہیں چھوڑوں گا۔ نہیں چھوڑوں گا تجھے۔‘‘ میری آواز پر اس نے چونک کر مجھے پھر دیکھا اور اس کے بعد پھر جھک کر کلیجہ چبانے لگی۔ میں بے بسی سے اسے دیکھتا رہا پھر میں اپنی جگہ سے اٹھا اور میں نے دور پڑی ہڈی اٹھا لی۔ اس نے رجنا وتی کا کلیجہ ہضم کر لیا تھا۔ میرے ہڈی اٹھانے پر وہ سنبھلی اور اس نے ایک اور چٹان پر چھلانگ لگا دی۔ بالکل بلیوں جیسا انداز تھا۔ میں نے اس چٹان پر یہ ہڈی پھینکی تو وہ نیچے کود آئی۔ مگر وہ مجھ پر حملہ نہیں کر رہی تھی۔ بس رک رک کر غرا رہی تھی، دانت نکال رہی تھی۔ میں اب مسلسل اس پر ہڈیاں پھینکنے لگا اور وہ ادھر سے ادھر بھاگتی رہی۔ پھر ایک بار اس نے بڑی زور سے چیخ ماری اور دروازے سے کالی داس اور شمبھو اندر داخل ہوگئے۔
’’ارے۔ ارے یہ کیا کر رہا ہے تو…‘‘ شمبھو نے کہا۔ اور اس بار میں نے ہڈی اس پر دے ماری۔ وہ میرے اس وار کے لئے تیار نہیں تھا۔ ہڈی اس کے سر پر لگی اور وہ چکرا گیا۔ دوسرے لمحے وہ سر پکڑ کر زمین پر بیٹھ گیا۔ کالی داس نے مجھے گھورتے ہوئے کہا۔
’’تیری موت آ گئی ہے پاپی۔ یہ تو نے کیا کیا۔‘‘ میں نے دوسری ہڈی اٹھا کر کالی داس کو نشانہ بنایا اور وہ جلدی سے بیٹھ گیا۔ ہڈی اس پر سے نکل گئی تھی مگر اس وقت ایک خوفناک غراہٹ کے ساتھ مہاوتی مجھ پر آ پڑی۔ وہ زبردست تن و توش کی مالک تھی اس لئے میں اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا۔ میرا سر زمین پر لگا اور آنکھوں کے سامنے ستارے ناچ گئے۔ مہاوتی خوفناک غراہٹوں کے ساتھ مجھے دیکھ رہی تھی۔ دوسری بار میرے سر میں پھر چوٹ لگی اور میرا ذہن تاریکیوں میں ڈوبتا چلا گیا۔ اس کے بعد کوئی ہوش نہ رہا تھا… دوبارہ ہوش آیا تو ماحول بدلا ہوا تھا۔ یقینا محل ہی کا کوئی کمرہ تھا، نرم بستر، شفاف ماحول۔ دو لڑکیاں سامنے موجود تھیں۔
’’جاگ گئے مہاراج…‘‘ ایک نے دوسری سے کہا۔ میں وحشت زدہ نظروں سے انہیں دیکھنے لگا۔
’’کون ہو تم…؟‘‘
’’ہمارا نام شیلا ہے… یہ روپا ہے۔‘‘
’’یہاں کیا کر رہی ہو…؟‘‘
’’سیوا کے لئے ہیں۔ ناشتہ لگائیں؟‘‘
’’یہ کون سی جگہ ہے؟‘‘
’’راج محل…!‘‘
’’مہاوتی کہاں ہے؟‘‘ میں نے کہا اور وہ دونوں چونک پڑیں۔ انہوں نے مجھے عجیب سی نظروں سے دیکھا۔ پھر ایک بولی۔ ’’رانی جی نواس میں ہیں۔‘‘
’’میں اس سے ملنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’آپ کا سندیس انہیں دے دیں گے مہاراج مگر یہاں کوئی ان کا نام ایسے نہیں لیتا۔ ناشتہ لگا دیں آپ کے لئے۔‘‘
’’نہیں۔ تم فوراً باہر نکل جائو۔‘‘ میں غرا کر بولا اور ان دونوں کے چہرے کی شگفتگی کافور ہو گئی۔ دونوں ایک دوسرے کو دھکیلتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں خونی نظروں سے پورے ماحول کا جائزہ لینے لگا۔ سر کے بائیں حصے میں ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔ یہیں وہ چوٹ لگی تھی جس نے مجھے بے حواس کر دیا تھا۔ ہاتھ وہاں پہنچ گیا۔ گومڑا ابھرا ہوا تھا۔ اسے سہلاتا رہا۔ پھر نیچے اتر کر دروازے کی طرف بڑھا۔ دروازہ باہر سے بند تھا۔
’’دروازہ کھولو… دروازہ کھولو۔‘‘ میں چیخ چیخ کر اسے پیٹنے لگا۔ کوئی آواز نہیں سنائی دی تھی۔ میں جنونی انداز میں دروازہ پیٹتا رہا اور پھر جب کوئی شنوائی نہ ہوئی تو کمرے میں موجود ہر شے
تباہ و برباد کرنے لگا۔ کیوپڈ کا سنگی مجسمہ میں نے چور چور کر دیا۔ چھت میں لٹکے ہوئے قیمتی فانوس کو نیچے گرا کر کچل دیا۔ دیواریں کھرچ کر پھینک دیں۔ کمرے کا حلیہ پوری طرح بگاڑ دیا لیکن کہیں سے کوئی آواز نہیں ابھری تھی۔ بہت دیر تک یہ کوشش کرتا رہا مگر اس کا کوئی نتیجہ نہ نکلا تو تھک ہار کر بیٹھ گیا۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کیا کروں۔ خاموشی سے ایک طرف جا بیٹھا۔ سانس تیز تیز چل رہا تھا۔ سخت پریشانی کا شکار تھا۔ بہت دیر گزر گئی، سر کی دکھن بے چین کر رہی تھی مگر کیا کرتا مجبوری تھی۔ اچانک بالکل ویسی ہی ’’شی شی‘‘ کی آواز سنائی دی جیسی ایک بار محل کے باغ میں پتھر کے مجسمے کے منہ سے نکلی تھی۔ میں نے وحشت زدہ نظروں سے چاروں طرف دیکھا۔ یہاں تو کوئی مجسمہ بھی نہیں تھا۔ کوئی کھڑکی یا روشن دان بھی نہیں تھا۔ پھر یہ آواز… آواز دوبارہ سنائی دی اور میری نظر زمین پر پڑی۔ یہاں تباہی پھیلاتے ہوئے میں نے دیوار سے چند روغنی تصاویر بھی اتار پھینکی تھیں۔ انہیں پیروں سے روندا تھا۔ یہ ’’شی شی‘‘ کی آواز ایک تصویر سے ابھری تھی۔ ایک جٹا دھاری سادھو کی تصویر تھی جو پالتی مارے آسن جمائے بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے عقب میں ایک درخت پھیلا ہوا تھا۔ پیچھے جنگل تھا۔ نزدیک پیٹھے کے پھل سے بنا ہوا کنڈل رکھا تھا۔ یہ تصویر بھی میری کارستانی کا شکار ہوئی تھی۔ اس کی ایک آنکھ پھٹ گئی تھی مگر باقی چہرہ بچا ہوا تھا۔
’’ادھر آ… میرے پاس آ…‘‘ تصویر کی آواز پھر ابھری اور میں اس کے قریب پہنچ گیا۔ میں نے تصویر کو دیکھا، اس کی اکلوتی آنکھ جھپک رہی تھی اور ہونٹ ہل رہے تھے۔ ’’نکلنا چاہتا ہے یہاں سے؟‘‘
’’ہاں…!‘‘ میری سرگوشی ابھری۔ اس قدر حیرتوں سے گزرا تھا کہ اب کسی ناممکن پر حیرت نہیں ہوتی تھی۔
’’وہ دیکھ ادھر دیوار میں۔ ایک کڑا لٹکا ہوا ہے۔‘‘ میں نے اس کے اشارے پر ادھر دیکھا۔ یہاں پہلے کیوپڈ کا مجسمہ رکھا ہوا تھا مگر اب وہ چور چور ہو کر نیچے پڑا ہوا تھا۔
’’دیکھا…‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’وہ تیری مشکل کا حل ہے۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’اسے زور سے کھینچ۔ تجھے راستہ مل جائے گا۔‘‘ سادھو کے ہونٹوں سے آواز نکلی۔
’’کہاں پہنچوں گا میں؟‘‘ میں نے سوال کیا مگر سادھو کی آنکھ بند ہو گئی تھی۔ ’’کہاں پہنچوں گا میں۔‘‘ میں غرایا مگر جواب نہ ملا۔ تصویر بے جان ہو گئی تھی۔ ’’بول میں کہاں پہنچوں گا۔‘‘ میں نے گرج کر کہا۔ تصویر اٹھائی اور اسے چندھیاں چندھیاں کر ڈالا۔ اس وقت مجھے ہر چیز پر غصہ آ رہا تھا۔ چندھیاں پھینک کر میں پھر اپنی جگہ جا بیٹھا۔ کڑا میرے سامنے ہی تھا، میں اسے دیکھتا رہا۔ پھر دماغ کچھ ٹھنڈا ہوا۔ واقعی اس کڑے کی یہاں موجودگی کا کوئی جواز نہیں ہے۔ یہ یہاں کیوں ہے۔ دیکھو اسے کھینچ کر۔ اپنی جگہ سے اٹھا۔ دیوار کے پاس جا کر میں نے کڑے میں انگلیاں پھنسائیں اور اسے زور سے کھینچا۔ کڑے کے ساتھ ایک چوکور سل کھنچی چلی آئی۔ حالانکہ پہلے دیوار میں کوئی نشان نہیں نظر آیا تھا۔ چوکور سل کے پیچھے تاریک خلا تھا۔ عجیب سا دروازہ تھا۔ نہ جانے دوسری طرف کیا ہے۔ کڑا چھوڑا تو سل اپنی جگہ جا ٹکی اور دروازہ بند ہو گیا۔ عجیب میکنزم تھا۔ دوسری بار میں اس سے اندر جانے کے لئے تیار ہو گیا۔ کڑا کھینچ کر سل کو ہٹایا۔ اپنے شانے سے اسے روکا اور بدن سکوڑ کر اس کے پیچھے پہنچ گیا۔
دوسری طرف بہت کشادہ جگہ تھی لیکن میرے اندر داخل ہوتے ہی دیوار کا خلاء بند ہو گیا اور اندر گھور تاریکی چھا گئی۔ آگے جانے کا راستہ تھا اس لئے میں نے بغیر کسی وسوسے کے آگے قدم بڑھا دیئے۔ یہاں کسے پروا تھی۔ اگلا قدم اگر تحت الثریٰ میں لے جائے تو لے جائے، موت کی کسے پروا تھی۔ چنانچہ میں آگے بڑھتا رہا۔ کوئی تین سو قدم چلنے کے بعد راستہ رکا لیکن دایاں ہاتھ جگہ بتا رہا تھا چنانچہ میں ٹٹول کر اس طرف بڑھ گیا۔ یہاں بھی اتنا ہی چلنا پڑا تھا یہاں تک کہ یہ راستہ بھی ختم ہو گیا۔ میں نے دونوں سمت ہاتھ پھیلائے مگر ہاتھ دیواروں سے جا ٹکے۔ اس کا مطلب ہے کہ آگے کوئی راستہ نہیں تھا۔ اب کیا کروں۔ بند دیوار پر ہاتھ پھیرنے لگا کوئی چار فٹ کی بلندی پر اچانک ہاتھ رک گیا۔ بالکل ویسا ہی کڑا محسوس ہوا تھا۔ جلدی سے اسے پکڑ کر اس پر زور لگایا تو تیز روشنی ہو گئی۔ ساتھ ہی ویسا ہی خلاء نمودار ہو گیا
دل کے ساتھ دوسری طرف نکل آیا۔ دوسری طرف آتے ہی دیوار پھر برابر ہو گئی تھی مگر جس جگہ پہنچا تھا وہ سرخ پتھروں کی دیواروں سے بنا ہوا ایک وسیع کمرہ تھا جس میں ایک چھوٹا سا مضبوط دروازہ لگا ہوا تھا۔ چھت کے قریب روشن دان تھے، ایک روشن دان ذرا نیچا تھا اس میں سلاخیں لگی ہوئی تھیں۔ یہ باہر جانے کا کون سا راستہ تھا۔ دفعتاً مجھے ایک آواز سنائی دی۔
’’کون ہے، کیا کوئی ہے؟‘‘ ساتھ ہی روشن دان کے پاس دیوار بجانے کی آواز سنائی دی۔ میں نے بے بسی سے ادھر دیکھا۔ دیوار سپاٹ تھی اور کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جس سے چڑھ کر روشن دان کے دوسری طرف جھانکا جا سکے۔ میں گردن ہلا کر رہ گیا۔ آواز پھر ابھری۔ ’’کوئی ہے، کوئی ادھر ہے تو مجھ سے بات کرو بھائی…‘‘
’’ہاں… میں ہوں۔‘‘ میں نے کہا۔
’’کون ہو۔ کون ہو بھائی۔ میری مدد کرو۔ مجھے یہاں سے نکال دو، تمہاری مہربانی ہو گی۔‘‘ میں اس آواز کو پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا۔ سنی ہوئی آواز تھی پھر ذہن جاگ گیا۔ میں نے اس آواز کو پہچان لیا۔ چندربھان، مہاوتی کا شوہر چندربھان… اور سرخ پتھروں کی عمارت… وہ عمارت جہاں میں باغ کی سیر کرتا نکل آیا تھا اور مجھے راجہ چندر بھان ملا تھا… آہ… تو یہ ہے میرے باہر نکلنے کا راستہ۔ گویا اس تصویر والے سادھو نے بھی دھوکا دیا تھا۔ کیوں نہ دیتا سادھو جو تھا…!‘‘
’’بولو بھائی۔ مدد کرو گے میری؟‘‘
’’تم راجہ چندربھان ہو؟‘‘
’’ہاں۔ تمہارا مہاراج۔ میری مدد کرو… اتنا انعام دوں گا تمہیں کہ کئی پشتیں آرام سے رہیں گی!‘‘
’’راجہ چندربھان۔ میں خود یہاں قیدی ہوں۔‘‘
’’قیدی؟‘‘
’’ہاں… یہ ایک بڑا سا کمرہ ہے اس میں ایک دروازہ اور کچھ روشن دان ہیں۔‘‘
’’اوہ۔‘‘ چندربھان کے لہجے میں بھی مایوسی پیدا ہو گئی۔ کچھ دیر خاموش رہ کر اس نے کہا۔ ’’تمہاری کمر میں زنجیر بندھی ہے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’پیروں میں؟‘‘
’’نہیں میں آزاد ہوں۔‘‘
’’ارے بھائی تو دروازہ کھول کر دیکھو۔ دیکھو کھلا تو نہیں ہے۔‘‘ چندربھان نے کہا اور میں چونک پڑا۔ میں نے دروازے کے قریب پہنچ کر اسے کھول کر دیکھا مگر وہ باہر سے بند تھا۔ چندربھان نے پوچھا۔ ’’کیا ہوا… پتہ چلا؟‘‘
’’بند ہے۔‘‘ میں نے کہا۔ چندربھان مایوس ہو گیا تھا۔ میں نے اسے کئی آوازیں دیں لیکن اس نے جواب نہیں دیا۔ بعد میں، میں نے دیوار کے اس حصے پر بھی ہزاروں کوششیں کر لیں لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ کچھ دیر کے بعد میں نے چندربھان کو پھر پکارا۔ ’’ہاں۔ میں بیٹھا ہوں۔‘‘
’’ تم مہاوتی کے شوہر ہو چندر بھان؟‘‘
’’شوہر…؟‘‘ اس نے کہا۔ پھر بولا۔ ’’کیا تم مسلمان ہو؟‘‘
’’ہاں۔ تم نے شاید لفظ شوہر سے اندازہ لگایا ہے۔‘‘
’’ایسا ہی ہے مگر… تم… تم… اس نے… کسی مسلمان کو۔ تم اس کے پھیر میں کیسے آ پھنسے بھائی۔ کیا نام ہے تمہارا؟‘‘
’’مسعود۔‘‘
’’کیا ہوس کے جال میں آ پھنسے تھے…؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ میں نے کہا۔
’’پھر کیا ہوا تھا۔ مہاوتی بری آتما ہے۔ چنڈولنی ہے وہ۔ کالی کی داسی ہے۔ جیسا من چاہے بن جاتی ہے۔ ایسی کہ انسان اسے دیکھے تو سدھ بدھ کھو بیٹھے۔ جسے وہ اپنی سندرتا کے جال میں پھانسنا چاہے اس کا بچنا مشکل ہو جائے۔ کیا تم اس کے جال میں پھنس کر اس حال کو پہنچے ہو؟‘‘
’’نہیں چندربھان۔ ایسا نہیں ہوا۔ میں تقدیر کے جال میں پھنس کر یہاں پہنچا ہوں۔‘‘
’’ہاں کھیل تو سارے بھاگ کے ہوتے ہیں، کہانیاں مختلف ہوتی ہیں۔‘‘ چندربھان افسوس بھرے لہجے میں بولا۔
’’تمہارے بدن پر زنجیریں کیوں باندھ دی گئی ہیں چندربھان؟ جب کہ تم ویسے بھی یہاں سے نہیں نکل سکتے؟‘‘ میں نے سوال کیا اور دوسری طرف سے چند لمحات جواب نہ ملا پھر اس نے کہا۔
’’کیونکہ وہ مجھے جانتی ہے۔ اسے میری قوتوں کا پتا ہے۔ اس نے مجھے یہاں رکھ کر جو تکلیفیں دی ہیں اس کے خیال میں میری طاقت اس طرح ختم ہو جائے گی مگر کتنی۔ آخر کتنی۔ چندنا پھر بھی چندنا رہے گا۔‘‘
’’چندنا؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’ہاں۔ بھٹنڈا، گورسی۔ آس پاس ہی نہیں دور دور تک تم چندنا کا نام پوچھ سکتے ہو۔‘‘
’’مگر چندنا کون ہے؟‘‘
’’راجہ چندربھان۔ میرے سورگباشی پتا مہاراجہ سورج بھان راجہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے نامی گرامی پہلوان تھے۔ پہلوانی ان کا شوق تھا مگر ان کا یہ شوق میری ماتا رانی سچندا کو پسند نہیں
تھا۔ یہ شوق پتاجی کو دیکھ کر پیدا ہوا اور میں نے کھل کر پہلوانی نہیں کی مگر چندنا کے نام سے بڑے بڑے پہلوان پچھاڑتا رہا۔ ماتا جی مر گئیں، پتاجی سورگباش ہو گئے۔ میری شادی راج کماری روپ کلی سے ہو گئی مگر چندنا، چندنا رہا۔ لوگ کبھی یہ نہ جان پائے کہ چندربھان ہی چندنا پہلوان ہے۔ مگر وہ جانتی تھی۔‘‘
’’کون؟‘‘
’’مہاوتی۔ پاپن چنڈولنی…‘‘
’’وہ تمہاری بیوی نہیں ہے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’اور روپ کلی؟‘‘
’’روپ کلی…!‘‘ چندربھان کے حلق سے سسکی سی نکلی۔ پھر اس کی آواز نہیں سنائی دی۔ کچھ دیر کے بعد میں نے اسے پکارا مگر اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں خاموش ہو گیا اور اس کے بارے میں غور کرنے لگا۔
’’نہ جانے کیا وقت ہوا تھا۔ جب میں نے دروازے پر آہٹیں سنیں اور چونک کر ادھر دیکھنے لگا۔ دروازہ کھلا اور مجھے وہی منحوس شکل والا نظر آیا جسے میں نے پہلے بھی دیکھا تھا۔ وحشی اور نیم پاگل۔ اس نے ایک بڑا سا تھال اندر کھسکا دیا۔ تھال میں پھلوں کے انبار تھے۔ کیلے، ناشپاتیاں، سیب، انگور اور بہت سے کچے ناریل جو پانی سے بھرے ہوئے تھے۔ تھال کھسکاتے ہی اس نے دروازہ پھرتی سے بند کر دیا تھا۔ یہ میرے لئے خوراک تھی اور جتنی تھی اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ شاید کئی دن کے لئے ہے۔ ناریل پانی کی ضرورت پوری کرتے تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ مہاوتی مجھے یہاں مستقل قید رکھنا چاہتی ہے۔ بھوک دیوانہ کئے دے رہی تھی۔ دو ناشپاتیاں، چار کیلے کھائے اور ایک ناریل کا پانی پیا۔ بدن پر کہولت طاری ہو گئی۔ زمین پر لیٹ کر آنکھیں بند کر لیں۔ پھر نہ جانے کب آنکھ کھلی تھی۔ گہرا اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ غالباً رات کا کوئی پہر تھا۔ کرنے کو کچھ نہیں تھا۔ صبروسکون سے پھر آنکھیں بند کر لیں اور دوبارہ اس وقت جاگا جب سورج کی کرنیں چمکتے دن کا پتا دے رہی تھیں۔ دوران خون جاری رکھنے کے لئے اپنے اس قیدخانے کے بہت سے چکر لگائے۔ ابھی چکر لگا ہی رہا تھا کہ روشن دان کے دوسری طرف سے دیوار بجنے کی آواز سنائی دی۔
’’جاگ گئے؟‘‘ دوسری طرف سے چندربھان کی آواز آئی۔
’’ہاں۔‘‘
’’میں کئی بار دیوار بجا چکا ہوں۔‘‘
’’ہاں میں سو رہا تھا۔‘‘
’’کچھ کھایا؟‘‘
’’ہاں۔ وہ پھل رکھ گیا تھا۔‘‘
’’کون مچنڈا؟ وہی بڑے بالوں والا؟‘‘ چندربھان نے پوچھا۔
’’ہاں، وہی مگر…؟‘‘
’’کچھ کہنا چاہتے ہو؟‘‘
’’دوسری ضروریات کے لئے کیا ہوتا ہے چندربھان؟‘‘
’’جنگل پانی کی بات کر رہے ہو؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’کچھ کریں گے۔ مجھے تو دس آدمی جنگل پانی کے لئے دن میں ایک بار لے جاتے ہیں۔ اگر تمہارے پاس وہ نہ آئیں تو سمجھو تمہیں سزا دے رہے ہیں۔ یہ سزا مجھے تین مہینوں کی قید میں ملی تھی۔‘‘
’’پھر تم نے کیا کیا تھا؟‘‘
’’وہی جو ایک مجبور انسان کر سکتا ہے…!‘‘ اس نے جواب دیا اور میں ایک پریشان کن کیفیت محسوس کئے بغیر نہ رہ سکا۔ معمولی سی لیکن کتنی مشکل بات تھی۔
’’مسعود۔ یہی نام بتایا تھا تم نے۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’مجھ سے باتیں کرو بھائی۔ بڑا دل چاہتا ہے کسی سے باتیں کرنے کو…‘‘
’’ہاں، ہاں کیوں نہیں۔‘‘
’’تم نے اپنی بپتا مجھے نہیں سنائی۔‘‘
’’میری کوئی بپتا نہیں ہے۔ ایک مسلمان شخص کے ہاں ملازم ہوں، یہاں بنارسی کپڑے لے کر آیا تھا۔ رانی مہاوتی نے پہلے مجھے مہمان رکھا، پھر قید کر دیا۔‘‘
’’کیا تم ایک خوبصورت مرد ہو۔ نوجوان ہو۔ تم نے اس کا کوئی حکم ماننے سے انکار کر دیا ہے؟‘‘
’’ایسی کوئی بات نہیں ہے۔‘‘
’’کچھ تو ہو گا، کیا تم نے ہمارے باغ کی سیر کی؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’تم نے وہاں مجسمے دیکھے ہوں گے۔‘‘
’’ہاں۔‘‘ میں نے دم روک کر کہا۔
’’تمہارا کیا خیال ہے۔ وہ بت ہیں؟‘‘
’’پھر…؟‘‘
’’نہیں مسعود۔ وہ سب انسان ہیں۔ سارے کے سارے انسان ہیں۔ انہیں کسی سنگ تراش نے نہیں بنایا بلکہ وہ مہاوتی کے عتاب کا شکار ہیں۔ جیتے جاگتے، ہٹ دھرمی کی حکم عدولی کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
’’اوہ… تو وہ سب…؟‘‘
’’ہاں اور بھی نہ جانے کیا کیا ہے۔ وہ چڑیل ہے، ڈائن ہے، انسانی خون پیتی ہے، انسانی گوشت کھاتی ہے، نئے نئے منتر اور جاپ کرتی رہتی ہے۔ کالی شکتی حاصل کرنے میں مصروف رہتی ہے۔ تم نے کالی داس کو دیکھا ہوگا۔‘‘
’’دیوان کالی داس؟‘‘
’’دیوان۔ آہ تمہیں یہی بتایا گیا ہوگا۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’دیوان کالی داس میرا دوست تھا۔ بچپن
وفادار دوست۔ اس نے میری منتیں کیں، مجھے بہت سمجھایا مگر میں نے نہ مانی اور اس نے میرے لئے… میرے لئے جان دے دی۔ مر گیا وہ میرے ہاتھوں۔ میرا دوست میرے ہاتھوں مر گیا۔‘‘ چندربھان کی آواز رندھ گئی۔
’’تو پھر یہ کالی داس؟‘‘
’’یہ مہاوتی کا بیر ہے جو دیوان کالی داس کے شریر میں رہتا ہے اور مہاوتی… مہاوتی…!‘‘
’’چندربھان تم مجھے اپنی پوری کہانی نہیں سنائو گے؟‘‘ میں نے کہا۔
’’پوری کہانی۔ ہاں جی چاہتا ہے وہ کہانی دہرانے کو۔ اپنے پاپ سنانے کو جی چاہتا ہے۔ مہاراجہ سورج بھان زندہ تھے۔ مہارانی سچندا جیتی تھیں۔ میں اکیلا راج کمار تھا۔ ماتا پتا کی آنکھ کا تارا۔ ریاست انہی کے دور میں ختم ہو گئی مگر ہمارے پاس بہت کچھ تھا۔ ہم بھٹنڈا حویلی میں آ گئے۔ میں یہاں بھی خوش تھا۔ عیش کرتا تھا۔ پہلوانی کرتا تھا۔ ماتا پتا نے روپ کلی کو دیکھا۔ کلی ہی کا روپ تھا۔ مجھے دکھایا اور میں نے شادی کی ہامی بھر لی۔ میرا بیاہ ہو گیا۔ ہم دونوں عیش سے زندگی گزارنے لگے۔ روپ کلی پتی ورتا تھی، وفادار تھی، مجھ پر جان دیتی تھی۔ میری پہلوانی کے شوق کو اس نے میری وجہ سے ماتا جی سے چھپائے رکھا۔ بھگوان نے ہمیں پانچ سال تک اولاد نہ دی۔ اسے پروا تھی، مجھے نہ تھی۔ ایک بار میں بہت بڑی کشتی مار کر کالی داس کے ساتھ واپس آ رہا تھا۔ ہم دونوں گھوڑوں پر سوار تھے۔ دوپہر کا سمے تھا۔ ٹیکاٹیک دوپہری تھی۔ دھوپ ایسی کہ چیل انڈہ چھوڑ دے۔ گھوڑے پسینے میں ڈوبے ہوئے تھے۔ بیچ میں پیپل کا ایک بہت بڑا درخت پڑتا تھا۔ آس پاس بھی بہت سے درخت ہیں۔ میرا من مچل اٹھا میں نے کالی داس سے کہا کہ وہاں رکیں گے۔ کالی داس بولا۔ ’’یہاں رکنا خطرناک ہے چندرمہاراج۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ میں نے پوچھا تو اس نے کہا کہ یہ سانسا کنڈل ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں بھوت پریت کا راج ہے۔ سر کٹے اور چڑیلیں رہتی ہیں۔‘‘ میں ہنسنے لگا۔ سانسا کنڈل کے بارے میں، میں نے بھی کہانیاں سنی تھیں مگر ہمیشہ اس کا مذاق اڑایا تھا۔ اس وقت بھی میں نے ہنس کر کالی داس کا مذاق اڑایا اور اس بڑے پیپل کے درخت کے نیچے گھوڑا روک دیا۔ یہاں بڑی ٹھنڈک تھی، ہوا بالکل ٹھنڈی اور مست کر دینے والی تھی۔ گھوڑوں نے بھی گردنیں ڈال دیں۔ کالی داس بھی خاموش ہو گیا۔ ہم دونوں آرام کرنے لگے۔ میں نے کہا۔ ’’کالی داس بھوت پریت کہاں ہیں؟‘‘ اس نے خوفزدہ ہو کر کہا کہ اس دوپہر میں ان چیزوں کا نام بھی نہیں لیتے۔ بہت دیر گزر گئی۔ اچانک میں نے چھن چھن کی آواز سنی۔ کالی داس کی تو گھگھی بندھ گئی۔ دہشت سے بولا۔ ’’چندر مہاراج آ گئی۔‘‘ کون۔ میں نے پوچھا مگر اس کے منہ سے آواز نہ نکلی۔ میں نے گردن اٹھا کر دیکھا۔ رنگین کپڑوں میں ملبوس ایک سندری تھی۔ پیروں میں پہنے ہوئے جھانجھن چھن چھن بج رہے تھے، دھوپ سے چہرہ تمتما رہا تھا اور وہ آگ جیسی نظر آ رہی تھی۔ کالی داس نے آہستہ سے کہا کہ اس کے پائوں تو سیدھے ہیں۔ چڑیل تو نہیں لگتی۔ سندری نے ہمیں نہیں دیکھا تھا۔ پیپل کے درخت کے پیچھے دوسرے حصے میں وہ زمین پر بیٹھ گئی اور اپنی اوڑھنی کے پلو سے پنکھا کرنے لگی۔ ہم دونوں سانس روکے اسے دیکھ رہے تھے۔ کچھ دیر وہ پسینہ سکھاتی رہی پھر چھوٹے چھوٹے کنکر اٹھا اٹھا کر ادھر ادھر پھینکنے لگی۔ کسی دور کے درخت پر کوئل کوکی تو وہ بھی کوک اٹھی۔ دونوں میں مقابلہ ہو رہا تھا اور وہ کوئل کی بولی بول بول کر ہنس رہی تھی۔ میرا من اسے دیکھ کر ڈول گیا۔ بڑی سندر لگ رہی تھی وہ۔ پھر اس کے منہ سے آواز نکلی۔
’’کوئل کالی میٹھے میٹھے بول والی، بول میرا پی کہاں؟‘‘
اور میں اس کے سامنے آ گیا۔ وہ گھبرا گئی، ڈر گئی۔ اس نے سہمی سہمی کالی آنکھوں سے مجھے دیکھا مگر ان آنکھوں میں خوف کے ساتھ پسند بھی تھی۔ اسی وقت دور سے ہمیں گھوڑوں کے ہنہنانے کی آواز سنائی دی۔ ایک دیہاتی ہمارے دونوں گھوڑوں کی لگامیں پکڑے ادھر آ رہا تھا۔ قریب آ کر اس نے کہا۔ ’’مہاراج یہ گھوڑے آپ کے ہیں؟‘‘
’’ہاں۔ یہ کہاں سے پکڑے تم نے؟‘‘
’’ادھر ہماری کٹیا ہے۔ یہ چرتے ہوئے ادھر نکل آئے تھے۔ میں سمجھ گیا کہ کوئی مسافر ہیں جو پیپل کے درختوں تلے سو گئے ہیں۔ سو ادھر آ گیا۔ پھر اس نے لڑکی کو دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’ارے مہاوتی تو پھر دوپہری میں نکل بھاگی۔‘‘ اور وہ شرارت سے ہنسنے لگی۔
گھوڑے
والا بولا۔ ’’سنبھالو مہاراج اپنے گھوڑے اور تو چل چنڈولنی کہیں کی۔‘‘ وہ اسے ساتھ لے گیا مگر میں شکار ہو گیا تھا اور اس کے بعد میں چھپ چھپ کر شمبھو کے پاس آنے لگا۔
’’شمبھو۔‘‘ میرے منہ سے نکل گیا مگر چندربھان نے پھر میری بات کا جواب نہیں دیا اور بولا۔ ’’مہاوتی مجھ سے بے تکلف ہو گئی اور میں زیادہ وقت اس کے ساتھ گزارنے لگا۔ میری ماتا کا دیہانت ہو گیا۔ کوئی سال بھر بعد پتا جی بھی مر گئے۔ روپ کلی اب مجھے بری لگنے لگی تھی مگر نبھا رہا تھا اسے۔ شمبھو سے میں نے کہا کہ مہاوتی کے مجھ سے پھیرے کرا دے۔ وہ بولا کہ مہاراج وہ آپ کی ہے جب چاہیں اسے لے جائیں۔ ہم چنڈولے ہیں، ہمارے ہاں پھیرے نہیں ہوتے۔ اس سمے میں چنڈولوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ روپ کلی سے میں لڑنے جھگڑنے لگا پھر ایک دن میں مہاوتی کو اپنے گھر لے آیا۔ روپ کلی اور دوسروں کو میں نے بتایا کہ وہ میری دوسری پتنی ہے۔ روپ کلی روئی پیٹی مگر بے بس تھی۔ آہستہ آہستہ محل پر مہاوتی کا راج ہونے لگا۔ کالی داس ہمیشہ روپ کلی کا پاٹ لیتا تھا، کئی بار میں نے اسے ڈانٹا تھا مگر وہ کہتا تھا کہ ایک دن مہاوتی مجھ پر مصیبت لائے گی۔ مجھے بہت برا لگتا تھا مگر دوستی کی خاطر خاموش ہو جاتا تھا۔ پھر محل میں کچھ انوکھے واقعے ہونے لگے۔ مہینے، دو مہینے میں ایک آدھ داسی ختم ہو جاتی تھی اور وہ بھی عجیب طریقے سے۔ اس کا بدن کسی جانور کا کھایا ہوا ملتا تھا۔ بڑی پریشانی ہو گئی۔ بہت سی داسیاں ماری گئیں۔ ایک دن اکیلے میں کالی داس نے ایک سادھو کو میرے سامنے پیش کیا اور کہا۔ ’’یہ دھنی رام جوگی ہیں۔‘‘
’’پھر میں کیا کروں؟‘‘
’’پچھلے دنوں یہ میرے ساتھ کام کرتے رہے ہیں۔‘‘
’’کیا کام کرتے رہے ہیں؟‘‘
’’مہاوتی کے بارے میں معلومات…؟‘‘ کالی داس نے کہا۔
میں نے غصے سے کالی داس کو دیکھا اور وہ جلدی سے دھنی رام جوگی سے بولا۔ ’’بتائو دھنی رام جی۔‘‘
’’تیرے محل میں چنڈولنی آ بسی ہے چندربھان۔ یہ جادوگرنیاں ہوتی ہیں جو خون پیتی ہیں، ماس کھاتی ہیں اور اپنے جاپ پورے کرتی ہیں۔ جاپ پورے کرنے کے لئے انہیں عورتوں کا بلیدان دینا پڑتا ہے، ہو سکتا ہے وہ چنڈولنی تیری دوسری دھرم پتنی ہی ہو۔‘‘
’’تم یہاں سے فوراً نکل جائو جوگی مہاراج۔ ورنہ میں تمہاری گردن اڑا دوں گا۔ سمجھے۔‘‘ میں نے دھکے دے کر جوگی مہاراج کو نکال دیا اور کالی داس سے کہا۔ ’’کالی داس تم حد سے بڑھ رہے ہو۔ تم نے مہاوتی سے جو بیر باندھا ہے وہ نہ تمہارے کام آئے گا، نہ روپ کلی کے۔ اس کے بعد مہاوتی کے بارے میں کچھ نہ کہنا۔ کالی داس خاموش ہو گیا۔ بہت دن گزر گئے۔ پھر ایک دن مہاوتی نے مجھ سے کہا۔
’’تمہارا نمک کھاتی ہوں چندربھان، تمہارے اچھے برے کا خیال رکھنا میرا دھرم ہے۔ کچھ کہنا چاہتی ہوں۔‘‘
’’کیا بات ہے مہاوتی؟‘‘
’’تمہارا دیوان تمہارا وفادار نہیں ہے۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’اور نہ تمہاری دھرم پتنی روپ کلی۔ میں اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہہ سکتی۔ اس سے زیادہ کچھ اور سننے کی ضرورت بھی نہیں سمجھی تھی میں نے۔ میں غصے سے بے قابو ہو گیا۔ سیدھا روپ کلی کے پاس پہنچا اور اس سے نہ جانے کیا کیا کہہ ڈالا۔ روپ کلی آنکھیں پھاڑے مجھے دیکھتی رہی اور پھر گردن جھکا کر خاموش ہو گئی۔ پھر دوسری صبح مجھے داسیوں نے آ کر بتایا کہ روپ کلی زہر کھا کر مر گئی۔
’’مر گئی۔‘‘ میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔
’’ہاں… عزت والی تھی۔ اپنے اوپر گندے الزام برداشت نہ کر سکی۔ زہر کھا لیا اس نے۔ اس کی ارتھی اٹھی تو کالی داس بے قابو ہو گیا۔ اس نے مجھے برا بھلا کہا۔ میں غصے میں تو تھا ہی میں نے کالی داس پر حملہ کر دیا مگر مہاوتی نے مجھے اسے مارنے سے روک دیا۔ اس نے کہا کہ کالی داس کو کال کوٹھری میں بند کر دیا جائے۔ یہی اس کی سزا ہے۔ میں کالی داس کو ختم کرنے پر تلا ہوا تھا۔ مگر مہاوتی نے مجھے ایسا نہ کرنے پر مجبور کر دیا۔ پھر بھی میں نے نو دن تک کال کوٹھری میں رکھا۔ دسویں دن جب میں نے اسے نکالا تو وہ میرے قدموں میں گر گیا۔ اس نے مجھ سے معافیاں مانگیں اور تصدیق کی کہ روپ کلی بری عورت تھی۔ اس طرح میرے دل میں جو خلش پیدا ہو گئی تھی وہ ختم ہو گئی۔ میں شانت ہو گیا۔ روپ کلی کی آتم ہتھیا کا خیال میرے دل سے نکل گیا۔ یوں کئی سال بیت گئے۔ اب محل پر مہاوتی کا راج تھا، وہ ہی
سفید کی مالک تھی۔ میں اس کے کسی معاملے میں نہیں بولتا تھا۔ مگر محل میں داسیاں پھر بھی مرتی رہیں، بہت سی بھاگ گئیں۔ یہ بھید میری سمجھ میں آتا تھا۔ بات یہیں تک نہیں رہی، کئی بار میں نے محل میں کچھ نوجوانوں کو دیکھا بعد میں ان کے مجسمے باغ میں سجے ہوئے دیکھے۔ مجھے پھولوں کا ہمیشہ سے شوق تھا اور میں نے نہ جانے کہاں کہاں سے پھول منگوا کر اپنے باغ میں سجائے تھے۔ ان پھولوں کے بیچ مجھے یہ بہت برے لگتے تھے۔ مہاوتی نے کہا کہ یہ اس کا شوق ہے۔ میں خاموش ہو گیا۔
کافی دن کے بعد ایک بار مجھے جوگی دھنی رام پھر مل گیا۔ مجھے دیکھ کر طنز سے مسکرایا اور بولا۔ ’’کیوں چندر سورما… مزے کر رہا ہے۔‘‘
’’کیا مطلب ہے تمہارا۔‘‘
’’آنکھوں کے اندھے ہمیشہ دیکھے مگر عقل کے اندھے کو پہلی بار ہی دیکھا ہے۔‘‘
’’وہ کون ہے؟‘‘
’’تو اور کون…؟‘‘
’’اگر تم اتنے بوڑھے نہ ہوتے تو تمہیں اس کا جواب دیتا جوگی مہاراج۔‘‘ میں نے غصے میں کہا۔
’’ہاں۔ بہت بڑا پہلوان ہے تو، میری ہڈیاں چرمرا دیتا اور کیا کرتا۔‘‘
’’پہلوان…؟‘‘ میں نے حیرانی سے کہا۔
’’چندنا پہلوان۔‘‘
’’کس نے بتایا تمہیں؟ سمجھ گیا۔ کالی داس نے بتایا ہوگا۔‘‘
’’بیچارا کالی داس اپنی نیکیوں کا گھائو کھا گیا، اپنی نیکیوں کے ہاتھوں مارا گیا۔ دھت تیرے کی اندھے۔ تجھے سزا ملے گی اس معصوم دھرم پتنی کی موت کی چندربھان جو پوتر تھی، اس وفادار دوست کی موت کی جو کتے کی طرح وفادار تھا تیرا۔‘‘ میں مسکرایا۔ میں نے کہا۔ ’’تمہیں کالی داس کی موت کے بارے میں کس نے بتایا مہاراج۔‘‘
’’تیری طرح عقل کا اندھا نہیں ہوں میں۔‘‘ دھنی رام نے غصے سے کہا۔
’’کالی داس سے ملو گے مہاراج۔‘‘ میں نے طنز سے کہا۔
’’اس گندے بیر سے جو کالی داس کے شریر میں رہتا ہے۔‘‘
’’کیا بکتے ہو؟‘‘ میں غرایا۔
’’بکتا نہیں سچ کہتا ہوں۔ کالی داس بیچارا تو اسی کال کوٹھری میں بھوکا پیاسا مر گیا اور جونہی اس کی آتما نے اس کا شریر چھوڑا چنڈولنی کے بیر نے اس کے شریر میں آ کر چنڈولنی کا کام پورا کر دیا۔ اسے کالی داس کی ضرورت جو تھی تاکہ تیرے بعد دیوان کے ذریعے تیری دولت سنبھال سکے۔‘‘
’’تو حد سے آگے بڑھ رہا ہے دھنی رام۔ گندے الزام لگا رہا ہے مہاوتی پر۔ میں تیری گردن اڑا دوں گا۔‘‘
’’مہاوتی نہیں، مہان وتی کہہ اسے بڑی مہان ہے وہ، تحقیقات کر۔ تجھے بہت جلد سب کچھ پتہ چل جائے گا۔ ذرا سورج ڈوبے اپنے باغ میں چلے جانا اور ان مجسموں سے ان کی بپتا پوچھ لینا، اپنی کہانی سنا دیں گے تجھے۔ اور آج… آہا… آج کی رات کام کی ہے۔ ٹھیک ہے۔ آج کی رات پرانی حویلی کے نیچے جو تہہ خانہ ہے اس میں خود اپنی پھوٹی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ لینا۔‘‘
دھنی رام چلا گیا مگر وہ مجھے حیران کر گیا تھا مسعود۔ ایسی اندر کی باتیں کہی تھیں اس نے کہ کوئی انہیں نہیں جانتا تھا۔ پرانی حویلی یہی جگہ ہے جہاں ہم قید ہیں۔ اس کے نیچے تہہ خانہ بھی ہے جس کے بارے میں کسی دوسرے کو نہیں معلوم۔ میرے دل میں کرید سی پیدا ہو گئی۔ میں کچھ پریشان ہو گیا۔ اس شام میں باغ میں آ نکلا۔ ان مجسموں کے بیچ گھومنے لگا۔ تبھی مجھے کسی نے سرگوشی میں پکارا۔ میں نے حیرت سے اس مجسمے کو دیکھا جو مجھے بلا رہا تھا۔
’’تم زندہ ہو۔‘‘ میں نے اسے چھوتے ہوئے پوچھا۔
’’ہم تو جو ہیں وہ تم دیکھ رہے ہو مگر تم ضرور زندہ ہو، بھاگ جائو یہاں سے جتنی جلدی ہو بھاگ جائو۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’وہ جادوگرنی تمہیں بھی پتھر کا بنا دے گی۔‘‘
’’کون؟‘‘
’’مہاوتی۔ وہ کالکی ہے، کالی کی پجارن۔ وہ ہمیں اپنے کالے جادو کو پورا کرنے کے لئے نوکری کے دھوکے سے بلاتی ہے، ہمیں ایسے حکم دیتی ہے جو ہم پورے نہیں کر سکتے اور پھر وہ ہمیں سزا دیتی ہے، پتھر کا بنا دیتی ہے۔ تم بھاگ جائو۔ فوراً یہاں سے بھاگ جائو۔ بولتے مجسمے ایک ہی کہانی سنا رہے تھے اور میرا دل ڈوبا جا رہا تھا۔ روپ کلی یاد آ ر ہی تھی۔ کالی داس پر بھی غور کر رہا تھا اور اب غور کرنے پر وہ مجھے بھی بدلا بدلا لگنے لگا تھا۔ آہ اس کا مطلب ہے کہ دھنی رام سچ کہہ رہا تھا۔ میں پیپل کے نیچے بری آتما کا شکار ہو گیا تھا۔ اور، اور میں نے اپنے دوست کو، اپنی دھرم پتنی کو اس کی بھینٹ چڑھا دیا تھا۔ میرا دل دکھتا رہا پھر میرے اندر دھواں اٹھا۔ میں نے دانت پیستے ہوئے سوچا کہ اگر یہ سچ ہے
تو… تو یہیں مہاوتی کو زندہ جلا دوں گا۔ اسے جیتا نہیں چھوڑوں گا۔ دھنی رام کی دوسری بات بھی مجھے یاد تھی حویلی کے تہہ خانے والی۔ چنانچہ میں رات ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ پھر کافی رات گئے میں دبے پائوں حویلی کے تہہ خانے میں داخل ہوا۔ یہ تہہ خانہ ویران پڑا رہتا تھا مگر اس وقت وہاں روشنی تھی۔ سرخ روشنی جو ایک جلتے الائو سے اٹھ رہی تھی۔ تہہ خانے میں کوئی تھا، ضرور کوئی تھا۔ میں نے ایک ستون کی آڑ سے دیکھا اور جو کچھ دیکھا اسے دیکھ کر میرا دماغ سن ہو گیا۔ ایک داسی کی لاش پڑی ہوئی تھی۔ اس سے خون ابل رہا تھا اور اس کے قریب مہاوتی جس کا رنگ اس سمے گہرا کالا تھا، چہرہ بھیانک اور خون میں لتھڑا ہوا تھا، دونوں ہاتھوں اور پیروں کے بل جھکی اس کا ماس کھا رہی تھی۔ میرے قدموں کی چاپ اس نے سن لی۔ آنکھیں اٹھا کر مجھے دیکھا…!‘‘
وہ آنکھیں! وہ آنکھیں کسی انسان کی نہیں تھیں۔ ان کی سفیدیوں میں پتلیوں کی جگہ دو سیدھی کھڑی چمکدار لکیریں نظر آرہی تھیں۔ ان کا رنگ گہرا کالا ہورہا تھا۔ جگہ جگہ خون کے دھبے نظر آرہے تھے۔ مہاوتی کو اس کیفیت میں دیکھ کر میرا غصہ تو ہوا ہوگیا۔ خوف سے میری کپکپی بندھ گئی۔ میں نے بھاگنے کے لیے قدم اٹھائے مگر میرے پائوں میرا ساتھ نہیں دے رہے تھے شاید میں اس کے سحر میں جکڑ گیا تھا۔ اس جادوگرنی نے مجھے دیکھ کر مجھ پر اپنا کوئی جادو آزما ڈالا تھا۔ پھر میں نے اپنے پیچھے تہہ خانے کا دروازہ بند ہوتے ہوئے سنا۔ میرا بدن تھراتا رہا اور وہ میری نگاہوں کے سامنے ایک انسانی جسم کو خونخوار درندے کی طرح بھنبھوڑتی رہی۔ پھر اس نے اپنی کوئی آٹھ انچ لمبی سرخ زبان باہر نکالی۔ اس زبان کو پورے چہرے پر گھما کر اس نے خون کے دھبے صاف کئے، اپنے ہاتھوں کو چاٹا۔ اس وقت وہ صرف ایک بھیانک درندہ معلوم ہورہی تھی جو انسانی روپ میں تھا۔ (جاری ہے)