Friday, September 20, 2024

Kala Jadu | Episode 43

’’وہ اپنے گیان میں شنکھا سے ہلکی ہے؟‘‘
’’اس کا کوئی جواب نہیں دے سکوں گی۔‘‘
’’مجھے یہاں سے نکال سکتی ہو؟‘‘ میں نے پوچھا اور وہ چونک کر مجھے دیکھنے لگی۔ پھر اداسی سے بولی۔ ’’نہیں!‘‘
’’بس اور کچھ نہیں پوچھنا مجھے!‘‘
وہ خاموش بیٹھی رہی۔ میں نے ایک تھال سے انگوروں کا ایک گچھا نکال لیا۔ خود بھی سمجھتا تھا کہ ہزار آنکھیں میری نگرانی کررہی ہوں گی۔ نکلنا ممکن نہیں ہے، بہتر ہے کہ آئندہ پیش آنے والے واقعات کا انتظار کروں۔ پھل کھاتا رہا پھر آسمان پر چاند نے سر ابھارا اور مصنوعی روشنیاں مدھم پڑ گئیں۔ پورا کھلا چاند تھا۔ سندری بھی چاند کی طرف دیکھ رہی تھی۔ ’’پورا چاند ہے۔‘‘ میرے منہ سے نکلا۔
’’پورن ماشی ہے آج۔‘‘
’’ہوں۔‘‘ میں نے کہا اور نچلا ہونٹ دانتوں میں دبا کر کچھ سوچنے لگا۔ پھر اچانک ایک عمل ہوا۔ ایک جانا پہچانا عمل! چاند کی کچھ روشن کرنیں سیدھی زمین پر پڑیں اور انہوں نے میرے گرد احاطہ کرلیا۔ پھر یہ کرنیں سفید روشن غبار میں بدلنے لگیں اور میرے منہ سے بے اختیار یہ نکل گیا۔ ’’پورنیاں!‘‘ روشن غبار حسین عورتوں کی شکل اختیار کرنے لگا۔ یہ منظر ایک بار پہلے بھی سامنے آچکا تھا۔ ایک معصوم پنڈت کے گھر کے احاطے میں! گویا پورن ماشی کی رات یہ جادو کی پتلیاں نیچے اترتی ہیں اور پورن بھگتی کرتی ہیں۔ میری نگاہ سندری پر پڑی۔ وہ آنکھیں پھاڑے ششدر بیٹھی تھی۔ طرح طرح کے ساز لیے چھ عورتیں انسانی شکل اختیار کئے میرے سامنے تھیں۔ ان کی آنکھیں مجھ پر جمی ہوئی تھیں اور ان آنکھوں میں محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔
’’چھ…!‘‘ میں نے دل میں سوچا۔ پہلے یہ سات تھیں۔ ایک میں نے کشنا کی شکل میں ہلاک کردی تھی۔ بہت سی باتیں خود سمجھ میں آرہی تھیں۔ پورنیاں اس وقت میرے پاس آتی ہیں جب میں پورے چاند کے نیچے کسی کھلی جگہ موجود ہوں۔ کسی بند جگہ وہ نہیں آتیں۔ انہوں نے وہی کھیل شروع کردیا جو میں پہلے بھی دیکھ چکا تھا۔ سندری زمین پر اوندھی ہوگئی تھی۔ بہت دیر تک ان کا عمل جاری رہا پھر معمول کے مطابق ختم ہوگیا اور پورنیاں واپس چلی گئیں۔
’’سندری… سندری!‘‘ میں نے سندری کو پکارا مگر وہ کسی اور ہی جہان کی سیر کررہی تھی۔ عقب سے آواز آئی تو میں ایک دم گھوم کر پیچھے دیکھنے لگا۔ کالی داس کا منحوس چہرہ نظر آیا تھا۔
’’جے پورنا… جے بھگت۔‘‘ اس نے ہاتھ جوڑ کر گردن جھکاتے ہوئے کہا۔
’’دیوان کالی داس!‘‘
’’آپ کے چرنوں کی دھول بھگت۔‘‘
’’کہو… کیا بات ہے۔‘‘
’’آپ کو میرے ساتھ چلنا ہے مہاراج!‘‘
’’کہاں…؟‘‘
’’کالی نواس!‘‘
’’یہ کہاں ہے؟‘‘
’’زیادہ دور نہیں ہے مہاراج!‘‘
’’کیا کرنا ہے مجھے وہاں جاکر۔‘‘
’’ساری باتوں کے فیصلے ہوجائیں گے مہاراج! اس کے بعد کوئی راز، راز نہیں رہے گا پورنا! آخری باتیں کرنا چاہتی ہیں مہا دیوی آپ سے!‘‘ کالی داس نے ادب سے کہا۔
’’کیا باتیں کرنا چاہتی ہیں، آخر مجھے بتائو۔‘‘
’’دھول ہوں آپ کے چرنوں کی مہاراج! آپ سورج سمان ہیں، میں ذرہ۔ میں ایسی باتیں کیا جان سکتا ہوں۔ سولہ سو ستر منتروں کی سوگند مجھے اس بارے میں کچھ نہیں معلوم۔‘‘
’’چلو۔‘‘ میں نے گردن ہلا دی اور اٹھ کر اس کے ساتھ چل پڑا۔ باغ کے دوردراز گوشے میں جہاں میں آج تک نہیں آیا تھا، ایک مصنوعی پہاڑی ٹیلا بنا ہوا تھا جس پر جگہ جگہ پھولوں کے جھاڑ اُگے ہوئے تھے۔ نیچے ایک قد آدم چوکور دروازہ نظر آرہا تھا۔ کالی داس مجھے اس دروازے سے اندر لے گیا۔ باہر سے کچھ محسوس نہیں ہوتا تھا اور تاریکی نظر آتی تھی لیکن اندر ایک چوڑی سرنگ سی تھی جہاں خوب روشنیاں جگمگا رہی تھیں اور یہ روشنیاں دیواروں میں لگے ہوئے پتھروں سے ابھر رہی تھیں۔ یقینا یہ قیمتی ہیرے تھے جو کرنیں بکھیر رہے تھے۔ کالی داس نے کہا۔ ’’چلتے رہیے مہاراج! سرنگ لمبی ہے۔‘‘
’’کہاں تک گئی ہے یہ؟‘‘
’’کالی نواس تک مہاراج!‘‘
’’کیا کالی نواس اسی محل میں ہے؟‘‘
’’نہیں مہاراج…!‘‘
’’پھر…؟‘‘
’’وہ کالنکا بھنڈار میں ہے۔‘‘
’’تم تو کہہ رہے تھے کہ وہ زیادہ دور نہیں ہے۔‘‘
’’بس مہاراج، یہ سرنگ طے کرنی پڑے گی۔‘‘ کالی داس نے کہا۔ وہ بڑا باادب نظر آرہا تھا۔ وہ مجھ سے کئی قدم پیچھے چل رہا تھا۔ لمبی سرنگ میں سیکڑوں مشعلوں سے روشنی کی گئی تھی۔ بالآخر اس کا اختتام ایک روشن دروازے پر ہوا اور میں نے اس دروازے کے دوسری طرف قدم رکھ لیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دوسری طرف قدم رکھ کر مجھ پر ہیبت طاری ہوگئی۔ ایک عظیم الشان غار تھا جس کی بلندی ناقابل یقین تھی۔ پوری گردن پیچھے کرکے اوپر دیکھا جاتا تو چند چھوٹے چھوٹے سوراخ نظر آتے تھے جن کے اوپر چاند چمک رہا تھا۔ غار ٹھنڈا اور پرسکون تھا۔ اس میں پتھر کے ستون تھے اور ہر ستون پر انسانی کھوپڑیاں سجی ہوئی تھیں۔ ان کھوپڑیوں کے جبڑے ہل رہے تھے اور آنکھوں سے تیز روشنیاں خارج ہورہی تھیں۔ غار کے عین درمیان سنگ موسیٰ سے بنا ہوا ایک کالا چبوترہ تھا اور اس چبوترے پر کالی دیوی کا عظیم الشان مجسمہ استادہ تھا۔ سیاہ رنگ کا مجسمہ! جس کے بے شمار ہاتھ تھے۔ ان ہاتھوں میں قدیم ہتھیاراور دو انسانی کھوپڑیاں تھیں جنہیں بالوں سے پکڑ کر لٹکایا گیا تھا۔ ان کی کٹی ہوئی گردنوں سے تازہ تازہ لہو کے قطرے ٹپک رہے تھے جو نیچے سنگی چبوترے پر جمع ہورہے تھے۔ اصلی خون تھا اور شاید یہ کٹی ہوئی گردنیں بھی تازہ تھیں۔ نہ جانے کون بدنصیب تھے۔ مجسمے کی گردن میں تقریباً بیس انسانی کھوپڑیوں کو پرو کر ہار ڈالا گیا تھا۔ اس کی کئی فٹ لمبی زبان لہو سے لتھڑی ہوئی باہر لٹک رہی تھی اور بڑی بڑی آنکھوں سے وحشت نمایاں تھی۔ اس ہیبت کے ساتھ یہ بت اس سنگی چبوترے پر آویزاں تھا۔ سنگی بت کے عقب میں ایک عجیب سی جگہ بنی ہوئی تھی۔ کوئی پچاس سیڑھیاں تھیں جو ایک پلیٹ فارم پر جاکر ختم ہوگئی تھیں۔ پلیٹ فارم پر ایک عجیب سا شکنجہ لگا ہوا تھا جس کے اوپری حصے میں زنجیریں اور حلقے نظر آتے تھے۔ الغرض ایک تھرا دینے والی جگہ تھی اور میں اسے دیکھ کر ایک انوکھے خوف کا شکار ہوگیا تھا۔
’’یہ کالی نواس ہے مہاراج!‘‘ کالی داس کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔ میں نے اسے بغور دیکھا پھر کہا۔ ’’مجھے کیا کرنا ہے؟‘‘
’’مہا دیوی!‘‘ کالی داس نے ایک سمت اشارہ کرکے مودبانہ انداز میں کہا۔ میں نے مہا دیوی کو ایک نئے روپ میں دیکھا۔ بے حد چست لباس پہنے ہوئے تھی جو جھلملا رہا تھا۔ سر پر ہیروں کا ہار پہنا ہوا تھا، چہرہ انگاروں کی طرح چمک رہا تھا اور ہونٹوں پر مسکراہٹ بڑی شان سے آرہی تھی۔ اس کے پیچھے شمبھو آرہا تھا جس کی گردن میں ناگ لپٹا ہوا تھا جس نے اپنا چوڑا پھن اس کے سر پر پھیلا رکھا تھا۔ دونوں اسی سمت آرہے تھے۔ چند لمحات کے بعد وہ میرے سامنے پہنچ گئے۔
’’جے پورن بھگت…!‘‘ مہاوتی نے دونوں ہاتھ جوڑ دیئے۔ میں اسے دیکھتا رہا۔ اس نے دونوں ہاتھ لہراتے ہوئے پھر کہا۔ ’’پدھاریئے مہاراج…! آج میں آپ کے شایان شان سواگت کروں گی۔ پدھاریئے!‘‘ کالی داس نے اس دوران نہ جانے کہاں سے ایک کرسی لا کر رکھ دی تھی مگر میں نے اس طرف توجہ نہیں دی۔
’’اب کیا چاہتی ہو مہاوتی…؟‘‘ میں نے کہا۔
’’آپ سے کچھ باتیں کرنا چاہتی ہوں مہاراج!‘‘
’’کہو…!‘‘
’’آپ بیٹھ جایئے۔‘‘
’’نہیں! تم بیٹھو۔‘‘
’’ہم کالی کے چرنوں کے سوا کہیں نہیں بیٹھتے۔ آپ کیوں نہیں بیٹھ رہے؟‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘
’’پورن! کالی کو تو مانتا ہوگا۔‘‘ وہ
معنی خیز لہجے میں بولی۔
میں اس کا مطلب سمجھ گیا۔ کرسی کو ایک ٹھوکر مارکر میں نے اس جگہ سے ہٹایا اور بیٹھ گیا۔ مہاوتی، شمبھو اور کالی داس کے چہرے پر ایک لمحے کے لیے ناگواری کے آثار نظر آئے مگر مہاوتی نے فوراً خود کو سنبھال لیا۔ ’’شمبھو مہاراج کا کہا ٹھیک نکلا۔ پورن! کیا تم مجھ سے سچ بولو گے؟‘‘ وہ سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھتی رہی مگر میں نے اس کی بات کا جواب نہیں دیا۔ ’’کیا تم مسلمان ہو؟‘‘ کمبخت نے ایسا سوال کیا کہ مجھے بولنا پڑا۔
’’الحمدللہ۔‘‘ وہ تینوں گھبرا کر ایک قدم پیچھے ہٹ گئے۔ مہاوتی نے پھر کہا۔ ’’یہ پورنیاں تمہیں کہاں سے مل گئیں؟‘‘
’’تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘
’’بڑے پریشان تھے ہم۔ ایک نظر میں ہمیں معلوم ہوگیا تھا کہ تم پورنا ہو مگر مسلمان بنے ہوئے تھے تم۔ یہ راز معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی رہی مگر کسی طرح بھید نہ کھلا، ہر جتن کرلیا اور پھر پورن ماشی میں ہم نے پورنیاں دیکھیں۔ کوئی شک نہیں رہا اور یہ بھی شک نہیں رہا کہ تم مسلمان ہو۔ مگر تمہارا دھرم اب تمہارا نہیں رہا۔ پورنیاں اس سے ملتی ہیں جب کالا دھرم اپنا لیا جائے۔ ایک پوتر دھرم جو ہر گندگی سے پاک ہے۔ اس کالے دھرم کے ساتھ کیسے چل رہا ہے۔‘‘
میں چونک پڑا۔ مہاوتی کے یہ الفاظ میرے کانوں میں شہد گھول گئے تھے۔ میں نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’دوبارہ اپنے الفاظ کہو۔‘‘
’’تمہارا دھرم پاک ہے۔ جس دھرم میں پانچ مرتبہ وضو کیا جاتا ہے، گندے پانی کی ایک چھینٹ جسے ناپاک کردیتی ہے، اس میں پورنیوں کے جاپ کی کیا گنجائش ہے، کالی شکتی تو ایک دور کی چیز ہے۔‘‘
’’تیرا کیا خیال ہے مہاوتی، میں کون ہوں؟‘‘
’’من سے مسلمان ضرور ہو۔ نہ ہوتے تو اتنے کشٹ نہ اٹھاتے۔ پورنیوں کے بیر تمہارے لیے سب کچھ کرسکتے تھے مگر تم نے کبھی ان سے بات نہ کی۔ ہم نے تمہیں بہت قریب سے دیکھا، تم سمجھ میں نہیں آئے۔‘‘
’’تیرے لیے میرے دل میں بہت کچھ ہے مہاوتی! مگر میرے دین کے لیے اتنے اچھے الفاظ کہہ کر تو نے میرا دل نرم کردیا ہے۔ اگر میرے پاس کچھ ہوتا تو اس وقت میں تجھے انعام دے دیتا۔‘‘ مہاوتی یہ سن کر اچھل پڑی۔ اس نے کہا۔ ’’مسلمان ہو تو زبان کے پکے بھی ہوگے؟‘‘
’’ہاں! ہوں۔‘‘
’’ساری باتیں بیکار ہوگئیں۔ تم نے کہا ہے کہ تمہارے پاس کچھ ہوتا تو اپنے دھرم کے نام پر مجھے دے دیتے۔‘‘
’’ ہاں اپنے ایمان کے علاوہ۔‘‘
’’تو مجھے انعام دو۔ تمہارے پاس ایک ایسی چیز ہے جو مجھے دے سکتے ہو، تمہارے دھرم کے علاوہ۔‘‘
’’کیا…؟‘‘ میں نے سوال کیا۔ میں کچھ حیران ہوگیا۔ عجیب سا لگ رہا تھا مجھے۔ کیا مانگنا چاہتی ہے وہ۔ ایسی کیا چیز ہے میرے پاس۔ ادھر اس کے انداز سے لگ رہا تھا جیسے کوئی بہت بڑی چیز مانگنا چاہتی ہو۔
مہاوتی کا انداز ایک دَم بدل گیا۔ وہ کسی ایسے خیال میں ڈوب گئی جس نے اس کی سانسیں تیز کردیں۔ وہ خشک ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگی۔ پھر اس نے لرزتی آواز میں کہا۔
’’پورنیاں مجھے دے دو، یہ چھ پورنیاں مجھے دے دو۔ مسلمان ہو، پورنیاں تمہارے دھرم میں ناپاک ہیں۔ یہ بوجھ کیوں اٹھائے پھر رہے ہو؟ دے دو یہ پورنیاں مجھے، انعام میں دے دو۔‘‘ اب میرے حیران ہونے کی باری تھی۔ میں اس کے جملوں پر غور کرنے لگا۔ پورنیاں اس طرح کسی کو دی جاسکتی ہیں؟ میں تو خود انہیں ہلاک کرنا چاہتا تھا، میں تو خود ان سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا تھا۔ یہ تو میری روح پر بوجھ تھیں۔ بڑی مشکل سے ان میں سے ایک سے چھٹکارا حاصل ہوسکا تھا۔ کیا ان سے پیچھا چھڑایا جاسکتا ہے؟ مہاوتی سوالیہ نگاہوں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ میرا فیصلہ سننے کی منتظر تھی۔ میں نے بہت دیر غور نہیں کیا اور گہری سانس لے کر بولا۔
’’ٹھیک ہے مہاوتی! مسلمان ہوں، اپنا وعدہ پورا کررہا ہوں۔ یہ چھ پورنیاں میں نے تیرے حوالے کیں مگر میں نہیں جانتا کہ مجھے اس کے لیے کیا عمل کرنا ہوگا؟ یہ تیری ذمہ داری ہے، میں اپنا وعدہ خوشی سے پورا کرتا ہوں۔‘‘
مہاوتی کے پورے جسم پر کپکپاہٹ طاری ہوگئی۔ وہ خوشی سے دیوانی ہوگئی۔ شمبھو اور کالی داس ایک دوسرے سے لپٹ گئے اور خوشیاں منانے لگے۔ مہاوتی آگے بڑھی، گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھی، دونوں ہاتھ سیدھے کئے اور سر جھکا کر سجدے کی سی کیفیت میں آگئی۔ میں نے فوراً ہی رخ بدل لیا تھا۔ وہ نہ جانے کیا کیا بڑبڑاتی رہی پھر سیدھی ہوئی اور اس نے مجھے پکارا۔
’’پورنا… پورنیاں ہمیں دے کر تو اپنے بوجھ سے آزاد ہوجائے گا۔ تو سچ مچ مسلمان لگتا ہے مگر میرا گیان مجھے یہ نہیں بتا پاتا کہ پورنیاں ایک مسلمان کی غلام کیسے ہوگئیں۔ چلو ہوگا۔ تیری یہ بھینٹ ہم سوئیکار کرتے ہیں اور تیرا احسان مانتے ہیں لیکن یہ کام جلدی ہوجانا چاہئے۔ ارے کالی داس… شمبھو مہاراج! دیر کیوں کررہے ہیں۔ آپ جلدی کریں، جلدی کریں۔ کام پورا کرلیں، اسے مہان کنڈ لے جائیں۔ شمبھو مہاراج… کالی داس جلدی کریں۔ میں پورنا بننے جارہی ہوں۔ جلدی کریں۔‘‘ وہ اِدھر سے اُدھر بھاگنے دوڑنے لگی۔
شمبھو اور کالی داس میرے قریب پہنچ گئے۔ انہوں نے گردن جھکا کر کہا۔ ’’ہمارے ساتھ آئیں مہاراج۔‘‘ میں نے آمادگی کا اظہار کردیا۔ اب نتیجہ کچھ بھی ہو، یہ پورنیاں مجھ سے منتقل ہوجائیں تو کم ازکم میرے وجود کی غلاظت دھل جائے۔ وہ مجھے اس طرف لے گئے جہاں سیڑھیاں اوپر کو جاتی تھیں اور پھر انہوں نے بڑے احترام سے مجھے اوپر چڑھنے کا اشارہ کیا۔ کچھ سمجھ نہیں پایا تھا اور صرف ان کی ہدایت پر عمل کررہا تھا۔ سیڑھیاں چڑھ کر میں اس پلیٹ فارم پر پہنچ گیا جو کالی کے ہیبت ناک مجسمے کے عین سر پر بنا ہوا تھا۔ بڑی عجیب سی جگہ تھی۔ ایک عجیب سی بدبو وہاں پھیلی ہوئی تھی، زمین پر خون کی تہیں کی تہیں جمی ہوئی تھیں۔ نہ جانے یہاں کیا ہوتا ہوگا۔ دیکھنے سے اندازہ ہوتا تھا کہ یہ انسانی خون ہے اور ہوسکتا ہے یہاں انسانی جسم ذبح کرکے ان کا خون کالی کے بت پر گرایا جاتا ہو۔ گویا قربانی کی وہ بھیانک رسم جس کے بارے میں قصے کہانیوں میں ہی پڑھا تھا لیکن اچانک ہی ذہن میں چھناکا سا ہوا۔ پورنیاں اسے دینے کا کیا مقصد ہے۔ کیا یہاں میری بھی گردن کاٹ دی جائے گی؟ شمبھو اور کالی داس کچھ فاصلے پر رک گئے تھے اور میں پلیٹ فارم کے بالکل آخری سرے پر تھا۔ کچھ سوچنے بھی نہیں پایا تھا کہ اچانک ہی میرے پیروں میں دونوں طرف سے زنجیروں کے دو کڑے آپڑے۔ ان سے زنجیریں بھی منسلک تھیں مگر کچھ ایسے انداز سے کہ اوپر سے نظر نہیں آتی تھیں۔ پھر اچانک سر چکرا سا گیا۔ پلیٹ فارم کو جنبش ہوئی۔ ایک چوڑی سل اچانک ہی آگے بڑھی۔ میں اس پر کھڑا ہوا تھا۔ بدن کو جھٹکا لگا تو اوندھے منہ گر پڑا لیکن سل برق رفتاری سے پیچھے ہٹ کر واپس اپنی جگہ پہنچ گئی اور پورا پلیٹ فارم اتنی تیزی سے پیچھے ہٹا کہ میں اوندھا لٹک گیا۔ زنجیریں پلیٹ فارم کے اوپری حصے پر بنے ہوئے ایک کرین نما راڈ میں پڑی ہوئی تھیں۔ یوں میرا چہرہ پلیٹ فارم سے ٹکرانے سے بچ گیا لیکن اب کیفیت یہ تھی کہ میں ان زنجیروں میں اوندھا لٹکا ہوا تھا اور کالی کے بت کے بالکل اوپر تھا۔ میرے جسم کا سارا خون سمٹ کر چہرے میں جمع ہوگیا تھا۔ ٹانگوں میں سخت تکلیف ہورہی تھی کیونکہ فولادی کڑے میری ہڈیوں کو دبا رہے تھے ۔میرے حلق سے کراہیں نکلنے لگیں۔ پہلے تو بدن کو کئی جنبشیں دیں لیکن جب اس عمل سے تکلیف کے علاوہ کچھ نہیں ملا تو ساکت ہوگیا۔ آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔ تکلیف ناقابل برداشت ہوگئی تھی۔ ہاتھ نیچے لٹکے ہوئے تھے اور اس وقت کی کیفیت کو میں الفاظ میں بیان کرنے کے قابل نہیں تھا۔ دماغ شدید ہیجان کا شکار تھا۔ کچھ سوچنے سمجھنے


اہلیت نہیں رہی تھی۔
شمبھو، کالی داس اور مہاوتی اب ساتھ ساتھ کھڑے ہوئے اوپر دیکھ رہے تھے۔ میں سخت پریشان تھا۔ چیخ کر انہیں اپنی تکلیف کے بارے میں بتانا چاہتا تھا لیکن آواز نہیں نکل رہی تھی۔ پھر نہ جانے کہاں سے مہاوتی نے ایک تیر کمان اٹھا لیا۔ چوڑے پھل کی چمکدار اَنّی والا تیر تھا جسے وہ کمان میں جوڑ رہی تھی۔ میری آنکھیں دہشت سے پھٹ گئیں اور میں اپنی موت کا انتظار کرنے لگا۔ بارہا موت کو پکارا تھا، زندگی کو بے حقیقت جانا تھا لیکن اب جبکہ موت نگاہوں کے سامنے پہنچ گئی تھی تو زندگی مچل رہی تھی۔ جینا چاہتا تھا اور اس آفت سے چھٹکارا پانے کا خواہشمند تھا۔ مہاوتی کا چھوڑا ہوا تیر میری گردن کے پاس شانے میں پیوست ہوگیا۔ حلق سے دلخراش چیخ نکلی، آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ اس قدر شدید تکلیف ہوئی تھی کہ جو ناقابل بیان تھی۔ میں اچھل کر تیر کو اپنے شانے سے نکالنے کی کوشش کرنے لگا لیکن توازن نہیں بن پا رہا تھا اور مہاوتی دوسرا تیر کمان میں جوڑ رہی تھی۔ میں نے آنکھیں بند کیں اور موت کو یاد کرنے لگا۔ چلو ٹھیک ہے، زندگی کا یہ اختتام برا تو نہیں ہے۔ ٹھیک ہے مسعود احمد! موت قبول کرلو۔ جو کیا، سو پایا۔ اس میں کسی کا کیا قصور! کسی کو الزام دے کر سب کو مزید تباہ کرنا مناسب نہیں ہے۔ نہ جانے کس طرح یہ سوچیں ذہن تک پہنچیں۔ کرب کا دوسرا دور شروع ہوا۔ دونوں شانے خون اگل رہے تھے اور پھر تیسرا تیر، پھر چوتھا! اب ذہن صحیح طور پر کام نہیں کررہا تھا۔ آنکھوں سے بینائی رخصت ہوگئی تھی۔ بس دھندلے دھندلے نقوش تھے۔ ایک بڑا سا چمکدار پیالہ کالی کے بت کے قدموں میں رکھ دیا گیا تھا۔ مہاوتی کا جسم پھر ویسا ہی سیاہ ہوگیا تھا جیسا میں نے اسے اس پہاڑی غار میں دیکھا تھا۔ مدھم مدھم شور کی آوازیں بلند ہورہی تھیں۔ قہقہے ابل رہے تھے اور مہاوتی رقص کررہی تھی، ایک جنونی رقص…! وہ پورے ہال میں برق کی طرح کوندتی پھر رہی تھی۔ شمبھو اور کالی داس نظر نہیں آرہے تھے۔ مہاوتی بار بار کالی کے قدموں میں آتی اور میرے جسم سے بہنے والا خون چاٹتی پھر رقص کرتی ہوئی دور نکل جاتی۔ کالی کا ہیبت ناک مجسمہ میرے خون سے سرخ ہوگیا تھا۔ اس پر سیاہی کے بہت کم دھبے نظر آرہے تھے۔ بس مجھے نظر نہیں آرہا تھا لیکن یہ دھندلا دھندلا سا احساس تھا جو میرے ذہن پر سے گزر رہا تھا۔ نہ جانے کتنا وقت اس طرح گزر گیا۔ پھر کچھ سکون سا خودبخود محسوس ہوا۔ یوں لگا جیسے میرا بدن بے خون ہوگیا ہو۔ ٹانگوں میں پڑے ہوئے کڑے بھی اب ہڈیوں کو وہ دکھ نہیں دے رہے تھے جو پہلے محسوس کررہا تھا۔ بس کوئی احساس ہی باقی نہیں رہا تھا۔ اگر یہ منظر نگاہوں کے سامنے نہ ہوتا، مہاوتی کے جسم کی جنبشیں نظر نہ آتیں تو یہ سمجھتا کہ روح جسم سے نکل گئی ہے اور جسم خالی ہونے کے بعد بے وزن ہوگیا ہے۔ نگاہوں کے سامنے جو کچھ تھا، وہ ذہن تک بھی پہنچ رہا تھا۔ مہاوتی کے ہاتھ میں ایک چمکدار پیالہ تھا جس کے دونوں سمت کنڈے لگے ہوئے تھے، وہ کالی کے سامنے دوزانو بیٹھی تھی۔ میرے جسم کا بہا ہوا خون جو ایک دھار کی شکل میں اس پیالے تک پہنچا تھا، ہونٹوں سے لگا کر بدن میں اتارنے لگی۔ گاڑھا گاڑھا گہرا سیاہ خون اس کے جسم میں اترتا چلا گیا اور اس نے پیالے کو اپنی لمبی زبان سے چاٹنا شروع کردیا۔ پھر وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور کالی کے بت سے چمٹ کر اس پر پڑا ہوا خون چاٹنے لگی۔ پھر اس نے چند بوندیں انگلی میں ڈبو کر کالی داس اور شمبھو کی طرف اچھالیں اور وہ کتوں کی طرح زمین پر گرنے والی بوندوں کو چاٹنے لگے۔ مہاوتی کے قہقہے اس ہال میں بری طرح گونج رہے تھے اور اس کی آواز میرے کانوں تک پہنچ رہی تھی۔
’’میں پورنی ہوں… میں پورن واس ہوں، میں پورن واس ہوں۔ شمبھو مہاراج… کالی داس! جھک جائو میرے چرنوں میں، میں چھ پورنیوں کی مالک ہوں۔ میں نے مہان شکتی حاصل کرلی ہے۔ جھک جائو میرے چرنوں میں، جھک جائو۔ اب میں صرف مہاوتی نہیں بلکہ مہان وتی ہوں۔ جھک جائو… جھک جائو۔‘‘
کالی داس اور شمبھو ناتھ اس کے سامنے اوندھے گر پڑے تھے اور مہاوتی کے خوفناک قہقہے غار کے درودیوار ہلائے دے رہے تھے۔ بہت خوش تھی وہ… میری طرف کسی کی کوئی توجہ نہیں تھی۔ میرے جسم میں اب بھی تیر چبھے ہوئے تھے لیکن اب کوئی تکلیف نہیں تھی بلکہ ایک عجیب سی ٹھنڈک رگ و پے میں دوڑ رہی تھی۔ پھر کچھ تبدیلیاں ہوئیں۔ اچانک ہی تیز ہوائوں کے جھکڑ چلنے لگے اور ہر چیز اڑنے لگی۔ مہاوتی سیدھی کھڑی ہوگئی۔ شمبھو اور کالی داس بھی اس کے پیچھے آکر کھڑے ہوگئے تھے۔ چمکدار ذرات کا ایک غبار غار کے اندر داخل ہوا اور پورے غار میں پھیل گیا۔ پھر اس نے سمٹ کر ایک شکل اختیار کرنا شروع کردی اور کچھ دیر کے بعد وہاں بھوریا چرن نظر آیا۔ وہی بدنما اور بدہیئت شکل لیے۔ وہ خونخوار نگاہوں سے مہاوتی کو دیکھ رہا تھا۔ اس کے چہرے پر شدید نفرت کے آثار نظر آرہے تھے۔ مہاوتی اور اس کے دونوں ساتھیوں نے بھوریا چرن کو دیکھا اور بھوریا چرن کی نگاہیں ادھر ادھر بھٹکنے لگیں۔ پھر اوپر مجھ تک پہنچ گئیں اور اس کا چہرہ بگڑ گیا۔
’’مہاوتی… مہاوتی کالی کی پجارن! یہ ادھار کی شکتی اچھی تو نہیں ہے۔ تو نے اپنے گیان سے یہ بھی نہ معلوم کیا کہ اس مسلمان کو یہ شکتی کہاں سے مل گئی؟‘‘
’’جے شنکھا مہاراج! کیسے پدھارے، کیسے آنا ہوا؟‘‘
’’تجھے بتانے آیا ہوں مہاوتی کہ تو نے چور دروازے سے پورن شکتی حاصل تو کرلی مگر چھ پورنیوں کی! ساتویں پورنی کہاں ہے، بتائے گی؟‘‘
’’یہ بات تو شاید شنکھا بھی نہ بتا سکے شنکھا مہاراج…!‘‘
’’پاگل مہاوتی! پورن شکتی میں نے ہی اسے دی تھی۔ میں نے پورن جاپ کیا تھا اور پورنیاں اس کے شریر میں اتار دی تھیں اور تو نے میری کمائی ہوئی چیز اس سے چھین لی۔ ساتویں پورنی کو اس نے مار ڈالا ہے اور تو یہ بات اگر نہیں جانتی تو مجھ سے سن لے کہ اگر پورنیاں سات نہ ہوں تو پورن پورا نہیں ہوتا، ادھورا رہتا ہے اور ایسے جاپ، ایسے منتر، ایسے گیان ہیں جو لنگڑے پورن کو بڑا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ میرا تیرا کوئی جھگڑا نہیں ہے مہاوتی…! لیکن اس بات پر جھگڑا ہوسکتا ہے کیونکہ تو نہیں جانتی کہ اس سے پورن شکتی چھین کر تو نے ایک بہت بڑا خطرہ پیدا کردیا ہے۔ اسے پورن بنا کر میں نے جو بڑا کام کیا تھا، وہ تو نہیں جانتی کہ وہ تیرے اور میرے اور ہمارے جیسے ہزاروں کے لیے کتنا بڑا کام تھا۔ عورت ہے نا بائولی! عورت ہے نا…! اگر عقل ہوتی تو آگے پیچھے دیکھ لیتی۔‘‘
’’جے شنکھا… جے مہاراج…! شنکھا مہاراج میرے گھر پدھارے۔ میرا بڑا مان ہوا لیکن اس سمے میں خوشی سے پاگل ہورہی ہوں۔ نہ کچھ سمجھ میں آرہا ہے، نہ سمجھ پائوں گی۔ آپ جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں مہاراج! سچ کہہ رہے ہوں گے لیکن اگر آپ نے یہ شکتی اسے دے دی تھی تو دے کر آپ پیچھے ہٹ گئے تھے اور اس نے اپنی خوشی سے وہی چیز مجھے دے دی۔ بہرحال اس کا برا نہ مانیں۔‘‘
’’وہی تریاہٹ وہی عورت والا کھیل! چل ٹھیک ہے۔ میں تو اپنا بچائو کرلوں گا، تجھے بھی پورن شکتی کا مزہ آئے گا۔ ٹھیک ہے… ٹھیک ہے۔ اس کا کیا کرے گی اب؟‘‘
’’کس کا مہاراج؟‘‘
’’یہی پاگل کتا جو نجانے کیا کیا کرتا رہا جیون بھر، جس نے اپنی ذات کو کشٹ دیئے ہیں ہمیشہ۔ کیا نہیں ملا اسے اور کیا لیا اس نے اس سے، یہ کتا مجھے دے دے مہاوتی! اس کتے کو میں اپنے ساتھ لے جائوں گا۔ بڑا مہان بنتا ہے۔ سات پورنیوں کا پورن تھا۔ کبھی کسی سے کوئی کام نہیں لیا، کشٹ میں پڑا رہا، تکلیفیں اٹھاتا رہا، بھوکا پڑا رہا، بیمار پڑا رہا لیکن بیروں کو نہ پکارا۔ ارے دے دے اسے اس پاپی کو میں ہی
کروں گا۔ بہت کچھ دکھانا ہے اسے سنسار میں ابھی، ایسے تھوڑی مرنے دوں گا۔ سارا خون دے دیا بدن کا۔ سترہ آدمی مارے تھے میں نے اس کے لیے، نکال دیا سارا خون بدن سے اور اب پڑا ہے بلی کا کھایا چھیچھڑا…! دھت تیرے کی۔ لا اتار اسے… اتار دے اسے!‘‘
’’بیرو… بیرو…‘‘ مہاوتی نے آواز دی اور پورا غار ان ٹیڑھے میڑھے ناپاکوں سے بھر گیا۔ جو پہلے میرے تھے اور اب مہاوتی کے غلام تھے۔ وہ سب مہاوتی کے سامنے جھک گئے۔ مہاوتی کی آنکھوں میں فخر اتر آیا اور اس نے فاتحانہ نگاہوں سے بھوریا چرن اور اس کے بعد شمبھو اور کالی داس کو دیکھا۔ پھر بولی۔
’’بیرو…! شنکھا یہ شریر مانگتا ہے۔ دے دو اسے، اتار دو یہ شریر اوپر سے!‘‘ سارے بیر اوپر کی جانب دوڑے اور انہوں نے مجھے احتیاط سے نیچے اتار کر زمین پر ڈال دیا۔ میرا جسم تو اب جسم تھا ہی نہیں بس ایک بے جان گوشت کا لوتھڑا تھا۔ پتا نہیں شکل و صورت کیسی ہوگئی تھی۔ دیکھ رہا تھا، سوچ رہا تھا، سمجھ رہا تھا۔ بول نہیں پا رہا تھا۔ اپنے چیخنے کی آواز بھی بلکہ کراہ تک منہ سے نہیں نکل پا رہی تھی۔ بھوریا چرن شدید غصے میں تھا۔ اس نے ایک ہاتھ اوپر کیا۔ چمڑے کا ایک پٹا اور زنجیر اس کے ہاتھ میں آگئی۔ اس نے پٹا میری گردن میں ڈالا، زنجیر اپنی مٹھی میں پکڑی اور مجھے گھورتا ہوا بولا۔
’’ہاتھ، پیروں کے بل چلتا میرے ساتھ آجا۔ چل اٹھ۔‘‘ اس نے آگے بڑھ کر ایک لات میرے جسم پر رسید کی اور میں اپنے بدن کو سنبھال کر اٹھنے کی کوشش کرنے لگا۔ شاید اس میں کامیاب بھی ہوگیا تھا لیکن کتے کی طرح نہیں چل سکا بلکہ اپنے پیروں پر ہی کھڑا ہوگیا۔ بھوریا چرن نے غرائی ہوئی آواز میں کہا۔
’’اگر تو چاروں ہاتھ، پیروں کے بل نہیں چلا تو میں تجھے آگ میں جلا دوں گا۔ کتا بن جا کتے! کتا بن جا…!‘‘ اس کی آواز میرے حواس پر مسلط ہونے لگی اور اس کے بعد میں دونوں ہاتھ اور دونوں پائوں زمین پر ٹکائے ہوئے اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ غار سے باہر آگیا اور بھوریا چرن نے ایک عجیب سی سمت کا رخ کیا۔ آنکھوں میں دھندلاہٹیں تھیں اور بدن میں لرزشیں۔ نظر بھی نہیں آرہا تھا۔ کنکر، پتھر ہاتھوں اور پیروں میں چبھ رہے تھے لیکن انہی کے بل چلنا تھا۔ پھر شاید بدن کے نیچے گھاس آئی اور میں جانوروں ہی کی طرح اوندھا اس گھاس پر لیٹ گیا۔ بھوریا چرن نے زنجیر ایک طرف ڈال دی اور خود ایک پتھر پر جا بیٹھا۔ نجانے پرانی حویلی سے کس طرح باہر نکل آیا تھا۔ نجانے کتنا فاصلہ طے کرکے کہاں پہنچ گیا تھا۔ اب کوئی بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ بھوریا چرن سامنے موجود بھی ہے یا نہیں یا زنجیر ڈال کر کہیں چلا گیا تھا، کسی بات کی تصدیق نہیں ہوسکتی تھی۔ نجانے کب تک اسی طرح پڑا رہا اور نجانے کیا کیا کیفیات مجھ پر بیتتی رہیں۔ میرے بدن سے خون کا ایک ایک قطرہ نکل گیا تھا یا پھر کچھ خون باقی تھا۔ یقیناً باقی تھا۔ نہ ہوتا تو اعضاء کو جنبش کیسے دیتا۔ گردن اٹھائی تو یوں لگا جیسے سر کا وزن منوں بڑھ گیا ہو۔ بمشکل تمام آنکھیں کھولنے کی کوشش کی تو محسوس ہوا جیسے پپوٹے ایک دوسرے سے جدا ہونے کے لیے تیار نہ ہوں۔ آہ کاش! کچھ ہوجائے، اس عالم میں ہی کچھ ہوجائے۔ دم نکل جائے میرا…! بہتر یہی ہوگا۔ بے جان جسم، بند آنکھیں، بھاری دماغ یہ بھی کوئی زندگی ہے اور اس طرح بھی کیا زندہ رہنے میں مزہ آتا ہے۔ سوچیں، سوچیں صرف سوچیں…! اور وہ بھی اس طرح کہ کوئی سوچ ترتیب سے نہیں تھی۔ بس نجانے کیا کیا خیالات ذہن سے گزر رہے تھے۔ ایک بار یہ بھی سوچا کہ مہاوتی کی بات مان کر میں نے غلط تو نہیں کیا۔ مجھ سے تو پورنیوں کو قتل کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ یہ تو نہیں کہا گیا تھا کہ میں انہیں دان کردوں۔ کیا پھر مجھ سے غلطی ہوگئی؟ پورنیوں سے چھٹکارا ہی حاصل کرنے کے لیے کہا گیا تھا نا مجھ سے، کرلیا۔ جہاں تک کوشش ہوسکی، ان سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ رعایت ملنی چاہئے، ملنی چاہئے۔ بھوریا چرن کی آواز نے خیالات کا طلسم توڑ دیا۔ پکار رہا تھا مجھے، کہنے لگا۔
’’ارے او مہان پرش! ذرا گردن تو اٹھا رے۔ بہت بڑا انسان ہے تو… بڑا دھرماتما ہے۔ اب بول کیا بیت رہی ہے۔‘‘ میں نے گردن اٹھا کر اسے دیکھا۔ بھوریا چرن کا چہرہ بگڑا ہوا تھا۔ میرے ہونٹ مسکراہٹ کے انداز میں کھنچ گئے۔ اس مسکراہٹ کو دیکھ کر بھوریا چرن اور آگ بگولہ ہوگیا۔ ’’بڑا بے غیرت ہے بھئی! نہ دیکھے تیرے جیسے، نہ دیکھے۔ حالت بکٹ ہے اور دانت نکل رہے ہیں۔‘‘
’’میرے دین میں اسے صبر کہتے ہیں بھوریا چرن!‘‘
’’چنتا مت کر بچہ سارا جیون صبر ہی کرنا پڑے گا۔‘‘
’’مجھ سے زیادہ تیری حالت خراب ہے بھوریا!‘‘
’’لات دوں گا جبڑا ٹوٹ جائے گا۔ زیادہ بک بک مت کر! کوئی نہ بچا سکے گا اب۔ نہ تیرا دھرم، نہ بیر، سب کچھ دے دیا اسے باپ کا مال سمجھ کر۔‘‘
اس بار مجھے زور کی ہنسی آگئی۔ بھوریا چرن کا انداز ہی کچھ ایسا تھا کہ اپنی تمام تر تکلیفوں کے باوجود میں ہنسے بغیر نہ رہ سکا اور اس بات سے وہ بالکل ہی دیوانہ ہوگیا۔ دانت پیس کر آگے بڑھا۔ میرے قریب پہنچ کر رک گیا۔ پھر بولا۔
’’مرے ہوئے کو کیا ماروں۔ ایسا مرے گا، ایسا مرے گا کہ دیکھنے والے کان پکڑیں گے تجھے دیکھ کر۔ ایسا بدلہ لوں گا تجھ سے کہ سنسار میں کسی نے کسی سے ایسا بدلہ نہ لیا ہوگا۔ تو نے میرا تو ستیاناس کیا ہی ہے مگر بیٹا! اپنا بھی ستیاناس دیکھنا۔ ابھی کیا دیکھا ہے تو نے۔ بدلہ لوں گا تجھ سے! بدلہ لوں گا۔ ایسا بدلہ لوں گا کہ یاد کرے گا۔ ایسے گھائو لگائوں گا تیرے دل میں کہ میرے من کے سارے گھائو بھر جائیں گے۔ چل اٹھ اور اب تو بول کر دکھانا ذرا! دیکھوں گا کیسے تیری زبان چلتی ہے۔‘‘ اس نے جھک کر زمین پر سے تھوڑی سی مٹی اٹھائی۔ میرے قریب پہنچا اور یہ مٹی میرے منہ میں بھر دی۔ عجیب غلیظ سی مٹی تھی۔ بدبودار! میں تھو تھو کرنے لگا۔ مجھے ابکائیاں آنے لگیں مگر جسم اس طرح بے جان تھا کہ کچھ بھی نہیں کرسکتا تھا۔ غالباً ہاتھوں اور پیروں کے بل چل کر یہاں تک جو آیا تھا تو وہ بھی بھوریا چرن ہی کی دی ہوئی قوت تھی ورنہ جس شخص کے جسم سے سارا خون بہہ جائے، وہ جنبش کیسے کرسکتا ہے۔
بمشکل تمام منہ کی مٹی صاف کی اور اس کے بعد بھوریا چرن کو دیکھنے لگا۔ وہ بولا۔
’’اب ذرا ایک لفظ بھی بول کر دکھا دے اپنے منہ سے! بول دکھا اپنے منہ سے ایک لفظ بول کر مان لیں گے تیرے کو، کہ بہت دھر ماتما ہے۔‘‘ میں نے ٹھنڈی سانس لے کر آنکھیں بند کرلیں۔
’’ارے او نواب کے جنے! ذرا چل آگے بڑھ۔‘‘ اس نے زنجیر پکڑی اور مجھے گھسیٹنے لگا۔ گھسیٹتا ہی رہا تھا۔ نجانے کتنی دور تک گھسیٹتا رہا تھا۔ پھر شاید کوئی آبادی آگئی تھی۔ دماغ تو ساتھ دے نہیں رہا تھا۔ کتوں کے بھونکنے کی آواز تھی جس نے یہ احساس دلایا تھا کہ اس وقت کسی آبادی کے قریب سے گزر رہا ہوں میں۔ نیچے چھوٹے چھوٹے پتھر کے ٹکڑے اور کچی زمین تھی۔ پتا نہیں بدن کی کیا حالت ہورہی تھی۔ پتا نہیں میرا جسم گھسٹ رہا تھا یا شاید مردہ حالت میں مجھے گھسیٹے لے جارہا تھا۔ پھر اس نے میری زنجیر چھوڑ دی، پٹا گلے سے نکال دیا اور مجھے وہیں ڈال کر کہیں چلا گیا۔ میں آسمان کو دیکھتا رہا، چت پڑا رہا۔ نجانے کیا کیفیت ہورہی تھی۔ میں اس کیفیت کو کوئی نام نہیں دے سکتا۔ بہت دیر کے بعد بھوریا چرن واپس آیا۔ خوش نظر آرہا تھا۔ مجھے آواز دی تو میں نے نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا۔
’’کہو تیاگی جی مہاراج! کیسے حال ہیں تمہارے…؟‘‘ میں نے بولنے کی کوشش کی۔ منہ کھلا لیکن آواز غائب ہوچکی تھی۔ بہت ہی زور لگایا۔ پتا نہیں جسمانی کمزوری تھی یا پھر بھوریا چرن نے جو حرکت کی تھی، اس کا
نتیجہ۔ بولنے کی ہر کوشش ناکام ہوگئی تو وہ قہقہے لگانے لگا۔ خوب ہنسا پھر بولا۔
’’بھوک لگ رہی ہوگی ایں! لگ رہی ہے نا بھوک… کھانا کھلائیں تمہیں۔ لو یہ کھا لو۔‘‘ اس نے ایک برتن سامنے کیا۔ ایک عجیب سی تعفن زدہ چیز تھی۔ وہ اس نے میرے چہرے کے بالکل قریب کردی۔ ایک بار پھر حالت بگڑنے لگی تھی۔
’’ڈرو نہیں مہاراج! بہت اچھا بھوجن ہے۔ گائے کا گوبر ہے۔ یہ کھا لو… کھا لو۔ بہت اچھا ہوتا ہے اور پھر ہے بھی گائے کا، لو!‘‘ اس نے پلیٹ میرے منہ پر پھینک دی اور گوبر میرے چہرے پر جگہ جگہ تھپ گیا۔ ہاتھ اٹھا کر بمشکل تمام چہرہ صاف کیا اور آنکھیں بند کرلیں۔ بھوریا چرن کہنے لگا۔
’’چلو یہ بھوجن ناپسند ہے تو ادھر دیکھو، وہ کھا لو۔‘‘اس نے پائوں سے میرا رخ دوسری جانب کردیا۔ ایک گندی نالی تھی جس میں سفید رنگ کے کیڑے کلبلا رہے تھے۔ بھوریا چرن ہنستا ہوا آگے بڑھا۔ کیڑوں کو مٹھی میں بھرا اور میرے چہرے کے قریب کردیا۔
’’بڑے بڑھیا ہیں یہ، کھا کر دیکھو آتما کو شانتی ملے گی، پیٹ بھی بھر جائے گا۔‘‘ میں نے وحشت کے عالم میں رخ بدل لیا اور بھوریا چرن قہقہے لگانے لگا۔ ’’ستیاناس مار دوں گا تیرا ستیاناس مار دوں گا تیرا! چل اٹھ… اٹھ۔‘‘ اس نے جھک کر میرے بال پکڑے اور اس کے بعد مجھے سیدھا کھڑا کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ پیروں میں بالکل جان نہیں تھی۔ کھڑا ہوا تو زمین پر گر گیا۔ پھر دوبارہ کھڑا ہوا اور دوبارہ زمین پر گر گیا۔ بھوریا چرن بدستور قہقہے لگا رہا تھا اور میں نے اپنا ذہن و دل ساکت کرلیا تھا۔ نہ غصہ آرہا تھا، نہ افسوس ہورہا تھا۔ بس دل میں ایک ٹھنڈک سی اتر رہی تھی اور شاید یہ ہی ٹھنڈک مجھے زندہ رکھنے کا باعث تھی۔ بھوریا چرن نے میرے منہ پر تھوکا اور اس کے بعد وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ میں وہیں پڑا رہا۔ بدن میں تحریک ہی نہیں ہورہی تھی۔ کئی بار اٹھنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا اور اس کے بعد وہیں رخسار زمین پر رکھ کر ساکت ہوگیا۔ موت کتنی بے رحم ہے۔ وہ جو جینا چاہتے ہیں، وہ جو زندگی کی تمام آسائشیں چاہتے ہیں، وہ جو تندرست و توانا ہیں، انہیں ایک لمحے میں لپیٹ لے جاتی ہے اور وہ جو اس کے آرزومند ہوتے ہیں، وہ جن پر زندگی عذاب جہنم ہوتی ہے، انہیں وہ دور سے دیکھ کر مسکراتی رہتی ہے۔ اس وقت موت بھی میرے قریب آنے سے گریز کررہی تھی۔ ٹھیک ہے، کیا ہرج ہے۔ ہر حالت میں شکر ہی کرنا ہوگا کیونکہ اور کچھ کر نہیں سکتا۔ پڑا رہا۔ دماغ بے جان ہوگیا، سوچنے سمجھنے کی قوتیں سلب ہوگئیں۔ پھر شاید کسی نے چہرے پر پانی ڈالا تھا۔ لوٹے کی دھار سے پانی ڈالتا رہا۔ ہوش تو آگیا تھا لیکن آنکھیں نہ کھل پا رہی تھیں۔ بدن میں توانائی سی محسوس ہوئی۔ آنکھیں کھولیں دیکھا تو کوئی موجود نہیں تھا۔ البتہ ایک سنسان سڑک نظر آرہی تھی اور میں اس سڑک کے کنارے زمین پر ایک درخت کے نیچے بیٹھا ہوا تھا۔ حیرانی سے ادھر ادھر دیکھا۔ کون یہاں لے آیا، منظر کیسے بدل گیا۔ رفتہ رفتہ رونق ہونے لگی۔ جوں جوں روشنی جاگنے لگی، لوگ آتے جاتے نظر آئے۔ کسی نے رک کر میرے سامنے کچھ ڈال دیا۔ دیکھا تو ایک روپے کا نوٹ تھا۔ میں نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ آنکھیں بند کرلیں پھر کوئی اور آیا اور میری گود میں کچھ رکھ گیا۔ ٹٹول کر دیکھا تو دو پوریاں اور ان پر رکھی ہوئی ترکاری تھی۔
یہ میری ضرورت تھی۔ چنانچہ میں نے اس من وسلویٰ کو احترام سے اٹھا لیا اور کانپتے ہاتھوں سے اپنے پیٹ کی آگ بجھانے لگا۔ اس نعمت کو کھا کر میں نے آنکھیں بند کرلیں۔ دل نے خدا کا شکر ادا کیا۔ پیاس لگنے لگی تھی۔ پانی تھوڑے فاصلے پر نظر آرہا تھا۔ غالباً میونسپلٹی کا نلکا تھا جس سے تھوڑا تھوڑا پانی بہہ رہا تھا۔ بدن کو جنبش دی۔ پیروں سے کھڑا تو نہ ہوا گیا، گھسٹتا ہوا نلکے تک پہنچا۔ پانی پیا اور جسم آسودہ ہوگیا۔ ایک بار پھر پھل چکھ رہا تھا۔ ایک بار پھر پھل چکھ رہا تھا۔ ٹھیک ہے، کوئی ہرج نہیں ہے۔ (جاری ہے)

Latest Posts

Do Humsafar

Related POSTS