’’انسپکٹر صاحب ہمیں اجازت دے دیجئے۔ کوئی ایسی آفیشل کارروائی تو نہیں کرنی ہے جس کی ضرورت ہو۔‘‘ نجم الحسن صاحب نے کہا۔
’’نہیں نجم جائو، عیش کرو اور ان صاحب کو ذرا مطمئن کر دینا۔‘‘ سب لوگ اٹھ گئے۔ معمر عورت نے ریاض ماموں کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔ ’’ریاض بھائی ہمارے ساتھ چلئے۔ آپ سے کچھ کام ہیں۔‘‘ فوراً ہی ریاض ماموں کے ذہن میں میرا خیال آیا اور انہوں نے کہا۔
’’انسپکٹر صاحب… وہ… وہ…‘‘ اسی وقت دو کانسٹیبل اندر داخل ہوئے اور انہوں نے سلیوٹ کر کے کہا۔ ’’سر ڈی ایس پی کی گاڑی آ کر رکی ہے۔‘‘
’’اوہو اچھا اچھا۔‘‘ انسپکٹر صاحب جلدی سے کھڑے ہو گئے اور انہوں نے نجم الحسن صاحب سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔
’’ڈی ایس پی صاحب آ گئے ہیں۔ اچھا خدا حافظ۔‘‘ یہ کہہ کر انسپکٹر صاحب، نجم الحسن صاحب سے پہلے اپنے آفس کے کمرے سے باہر نکل آئے۔ نجم الحسن صاحب نے ماموں ریاض کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔
’’آیئے آیئے ریاض صاحب آئیں۔‘‘ ماموں ریاض غالباً میرے بارے میں پھر کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن یہ موقع نہیں تھا چنانچہ وہ خاموشی سے نجم الحسن صاحب کے ساتھ باہر نکل آئے۔ باہر ایک کار کھڑی ہوئی تھی۔ نجم الحسن صاحب نے انہیں ڈرائیور کے ساتھ بٹھایا۔ پچھلے حصے میں وہ نوجوان لڑکا، معمر خاتون اور نجم الحسن صاحب بیٹھ گئے اور کار اسٹارٹ ہو کر تھانے کی عمارت کے احاطے سے باہر نکل آئی۔ اس کے بعد یہ لوگ ایک خوبصورت بنگلہ نما عمارت میں داخل ہوئے، کمرے میں پہنچے اور نجم الحسن صاحب نے نوجوان لڑکے کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’اگر تمہارے خون میں شرافت کا ایک ذرہ بھی باقی ہے تو ریاض احمد صاحب کے قدموں میں گر کر معافی مانگو، وہ اگر چاہتے تو تمہارا نام بھی لے سکتے تھے۔ کیا دھرا سب کچھ تمہارا تھا، ہم نے انہیں بے عزت کیا۔ تھانے بھی بھجوایا اور انہیں سزا بھی ہو سکتی تھی اس الزام میں، کچھ غیرت ہے تمہارے اندر۔‘‘ نوجوان لڑکا آگے بڑھا اور اس نے جھک کر ریاض ماموں کے ہاتھ پکڑنے چاہے۔ ریاض ماموں نے اسے بازوئوں سے پکڑ کر کھڑا کر دیا اور کہنے لگے۔
’’بیٹے میری مجبوریاں ہیں، میں نے تم سے کئی بار کہا کہ جو رقم تم مجھ سے لیتے ہو اس کا کسی نہ کسی شکل میں اندراج کرا دو۔ تمہارے ابو تمہیں تو معاف کر سکتے ہیں میرے لئے مشکل ہو جائے گی لیکن خیر تقدیر میں یہ بھی تھا اور پھر… اور پھر…‘‘ ماموں ریاض کے ذہن میں میرا تصور ابھرا لیکن ان کی سمجھ میں نہیں آیا کہ نجم الحسن صاحب سے وہ کیا کہیں تاہم انہوں نے اتنا ضرور کہا۔
’’بڑے صاحب جو کچھ ہوا وہ اللہ کی مرضی تھی اور اللہ کا کوئی کام مصلحت سے خالی نہیں ہوتا۔ وہاں تھانے کے لاک اپ میں میری ملاقات ایک ایسے نوجوان لڑکے سے ہوئی تھی جو وہاں بند تھا لیکن میرے اس سے ایسے رابطے ہیں کہ میں آپ کو بتا نہیں سکتا۔ آپ میرے اوپر اگر کوئی احسان کرنا چاہتے ہیں تو صرف ایک کام کر دیجئے میرا۔‘‘
’’ہاں ہاں کہئے، آپ نے وہیں کیوں نہ کہا ریاض صاحب۔ انسپکٹر میرا گہرا دوست ہے۔ آپ اسی وقت بتا دیتے تو میں اس لڑکے کو بھی چھڑا لیتا۔ کیا جرم کیا ہے اس نے؟‘‘
’’یہ تو مجھے نہیں معلوم، اس کا نام مسعود احمد ہے۔ حلیہ میں آپ کو تفصیل سے بتائے دیتا ہوں۔‘‘
ماموں ریاض میرا حلیہ دہرانے لگے۔
’’بالکل اطمینان رکھیں میں کل ہی اس کے لئے کچھ کروں گا۔ آپ خلوص دل سے اسے معاف کر دیں اور مجھے بھی، جو کچھ ہوا غلط فہمی میں ہوا، میں دل سے شرمندہ ہوں۔‘‘ نجم الحسن نے کہا۔
’’تقدیر میں جو کچھ لکھا ہوتا ہے وہ کسی نہ کسی شکل میں ضرور پورا ہوتا ہے۔ اللہ کا شکر ہے میری عزت بحال ہو گئی۔‘‘
دماغ پر غنودگی طاری ہو گئی اور پھر گہری نیند آ گئی۔ صبح اذان کی آواز نے جگایا تھا۔ ہڑبڑا کر کھڑا ہو گیا۔ وہی جگہ تھی۔ مدھم مدھم اجالا پھیلتا جا رہا تھا۔ ادھر ادھر دیکھا پانی دستیاب نہیں تھا۔ آب خورے کی شفاف مٹی سے تیمم کیا اور نیت باندھ کر کھڑا ہو گیا۔ بدن توانا تھا۔ خشوع و خضوع سے نماز پڑھی۔ دل و دماغ شاد ہو گئے۔ سورج کی پاکیزہ کرنیں انہیں چھونے لگی تھیں۔ ادھر ادھر دیکھا پھر مزار شریف کی طرف اور پھر کمبل اٹھا کر کاندھے پر ڈالا اور وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ رخ مزار شریف کی طرف تھا۔ فاصلہ محسوس ہی نہ ہوا۔ کچھ دیر کے بعد وہاں پہنچ گیا۔ گو قرب و جوار میں باقاعدہ کوئی شہر یا بستی آباد نہیں تھی لیکن خود یہ بستی بھی کم نہیں تھی۔ زائرین کے لئے قیام گاہیں بنی ہوئی تھیں۔ دکانیں لگی ہوئی تھیں۔ لوگ ادھر سے ادھر جا رہے تھے۔ ایک بزرگ کو دیکھا۔ سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ دو بڑے تھیلے دونوں ہاتھوں میں لٹکائے ہوئے تھے۔ میری طرح نڈھال نظر آ رہے تھے۔ مجھے امداد طلب نظروں سے دیکھا پھر اشارہ کیا تو میں قریب پہنچ گیا۔
’’میاں مزدوری کرو گے؟‘‘ وہ بولے۔
’’ضرور کریں گے۔‘‘
’’یہ تھیلے وہاں پہنچانے ہیں۔ انہوں نے کافی فاصلے پر اشارہ کیا۔
’’بسم اللہ۔‘‘ میں نے جلدی سے تھیلے اٹھائے۔
’’پہلے پیسے بتا دو۔‘‘
’’جو عنایت فرمائیں گے، لے لیں گے۔‘‘
’’بعد میں جھگڑا نہ کرنا۔‘‘
’’نہیں کریں گے، آیئے۔‘‘ میں تھیلے سنبھال کر آگے چل پڑا۔ بزرگ میرے پیچھے پیچھے آ رہے تھے۔ وزنی تھیلے مطلوبہ جگہ پہنچا کر میں سیدھا ہوا تو بزرگ نے دو روپے نکال کر میرے ہاتھ پر رکھ دیئے۔
’’بے حد شکریہ۔‘‘
’’کم تو نہیں ہیں۔‘‘
’’نہیں ہیں اگر آپ نے خوشی سے دیئے ہیں۔’’
’’ناشتہ کرو گے؟‘‘
’’نہیں عنایت ہے۔ ناشتے کے لئے اللہ نے بندوبست کرا دیا ہے۔‘‘ میں نے دونوں روپے مٹھی میں دبا کر کہا۔ اسی وقت ریسٹ ہائوس کے ایک کمرے سے کوئی گیارہ سالہ لڑکا بھاگتا ہوا باہر نکلا۔ اس کے پیچھے ایک عورت، ایک لڑکی اور ایک30، 32سالہ شخص دوڑتے ہوئے باہر آئے۔ لڑکے نے چیخ کر کہا۔
’’دادا میاں پکڑیئے۔‘‘ میرے ساتھ آنے والے معمر بزرگ چونک پڑے۔ ان کے حلق سے لایعنی سی آواز نکلی۔ میں نے بھی چونک کر لڑکے کو دیکھا اور اچانک لڑکا ٹھٹھک گیا۔ اس نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے مجھے دیکھا پھر بری طرح چیختا ہوا واپس اندر گھس گیا۔ اس کے پیچھے دوڑنے والے رک گئے، جیسے کچھ نہ سمجھ پائے ہوں۔ میرے وہاں رکنے کا جواز نہیں تھا اس لئے میں پلٹ کر واپس چل پڑا۔ جہاں دکانیں لگی ہوئی تھیں، وہاں پہنچا۔ ڈیڑھ روپے کی دو پوریاں اور ترکاری ملی۔ کاغذ پر رکھے ایک گوشے میں آ بیٹھا۔ پُڑا کھول کر سامنے رکھا تو ایک بوڑھا فقیر نزدیک آ بیٹھا۔ اس نے کہا۔
’’ارے واہ چپڑی اور دو، دو۔ حصہ کر لو۔ مل بانٹ کر کھانا اچھا ہوتا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ ایک تم لے لو۔‘‘ میں نے ایک پوری پر آدھی ترکاری رکھ کر اس کے حوالے کر دی۔ اس نے خوشی سے پوری لے لی اور میرے ساتھ بیٹھ کر کھانے لگا۔ کچھ دیر کے بعد ہم فارغ ہو گئے۔
’’پانی پیو گے۔‘‘
’’ایں۔ ہاں آئو تلاش کریں۔‘‘
’’نہیں۔ میں دیتا ہوں۔‘‘ اس نے کہا اور اپنی گدڑی سے ایک ٹوٹا پھوٹا سلور کا گلاس نکالا۔ گلاس خالی تھا۔ اس نے اسے میرے سامنے کرتے ہوئے کہا۔ لو پہلے تم پی لو۔‘‘
’’ایں۔‘‘ میں حیرت سے بولا۔ پانی کہاں ہے؟‘‘
وہ ایک دم ہنس پڑا پھر بولا۔
’’دیکھو تو پانی، دیکھنا تو ضروری ہوتا ہے نا۔‘‘ بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔ لیکن اچانک ہی ہاتھ میں تھما ہوا گلاس وزنی محسوس ہوا اور اس سے پانی چھلکنے لگا۔ میری آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ وہ جلدی سے بولا۔ ’’تم پیو بھائی پھر مجھے دو۔‘‘
مگر میں پانی پینا بھول گیا تھا۔ اس نے اپنی گدڑی سے خالی گلاس نکالا تھا اور
جب یہ گلاس میرے ہاتھ میں آیا تھا تو بالکل ہلکا تھا لیکن اب وہ پانی سے لبالب بھرا ہوا تھا۔ اس نے پھر ایک قلقاری ماری اور کہنے لگا۔ ’’پوری تمہاری، پانی ہمارا، حساب برابر۔ دیکھو تو ملے، سوچو تو پائو، ارے جلدی کرو ہمیں پیاس لگ رہی ہے، مرچیں لگ رہی ہیں مرچیں۔‘‘ وہ اپنے دونوں گال پیٹتا ہوا بولا اور میں نے بادل نخواستہ پانی کا گلاس منہ سے لگایا۔ طبیعت سیر ہو گئی اور پھر جب گلاس پیچھے ہٹایا تو وہ کناروں تک لبالب بھرا ہوا تھا۔ اس نے جلدی سے گلاس میرے ہاتھ سے چھین لیا۔
’’نہ گلاس تمہارا، نہ کمبل ہمارا، اپنا راستہ ناپو، ہم بھی چلے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے گلاس گدڑی میں ڈالا اور تیز تیز قدموں سے وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ میں شدت حیرت سے گنگ رہ گیا تھا۔ عجیب سا شخص تھا، پھٹے پرانے چیتھڑے لگے ہوئے لباس میں ملبوس، کاندھے سے جھولی لٹکائے ہوئے، ایک اونچی سی قبر کے کتبے کے پیچھے پہنچ کر وہ میری نگاہوں سے اوجھل ہو گیا اور میں سوچتا ہی رہ گیا۔ کوئی بات سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ گردن جھٹکی اور پھر سوچنے لگا کہ اب کیا کرنا چاہئے۔ دن خوب چڑھ گیا تھا اور رات کی نسبت دھوپ میں تیزی پیدا ہونے لگی تھی جگہ جگہ بوسیدہ قبریں، ٹوٹے پھوٹے لکھوری اینٹوں سے بنے مقبرے نظر آ رہے تھے۔ بہت سی جگہ چھائوں تھی۔ کسی بھی جگہ کا انتخاب کیا جا سکتا تھا۔ کچھ ایسا شکم سیر ہو گیا تھا اس ایک پوری سے کہ بدن بوجھل محسوس ہونے لگا تھا بہرحال وہاں سے ہٹا، کمبل کاندھے پر ڈالا اور اس کے بعد قبروں کے درمیان مارا مارا پھرتا رہا۔ دوپہر کو بڑے مزار پر جانا نصیب ہو گیا۔ بڑی ٹھنڈک تھی وہاں، بے شمار افراد گنبد کے نیچے آرام کر رہے تھے۔ میں بھی وہیں پہنچ گیا۔ دل چاہا کہ فاتحہ خوانی کروں چنانچہ مزار کے قدموں میں پہنچ کر فاتحہ خوانی کرنے لگا۔ دھوپ تیز ہو گئی تھی۔ وہاں سے واپس نکل آیا۔ اسی جگہ پائوں پسار کر لیٹنا اچھا نہ لگا، یوں محسوس ہوا جیسے مزار اقدس کی بے حرمتی ہوگی اگر میں وہاں لیٹ جائوں، بہت سی جگہیں پڑی ہوئی تھیں۔ گھنے درختوں کے سائے دور دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ باہر نکلا اور ایک گھنے درخت کے نیچے آ کر لیٹ گیا۔ کمبل کو تہہ کر کے تکیہ بنا کر سر کے نیچے رکھا اور درختوں کے پتوں کو گھورنے لگا۔ ننھے ننھے پرندے چہچہا رہے تھے۔ جگہیں تبدیل کر رہے تھے۔ ان کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ بڑی خوشنما لگ رہی تھی۔ طبیعت میں ایک عجیب سی فرحت تھی جسے الفاظ نہیں دے سکتا تھا۔ بہت دیر اسی طرح گزر گئی۔ آنکھوں میں کچھ بوجھ سا پیدا ہو گیا تھا۔ بھوک تو نام و نشان کو نہیں تھی۔ لگتا تھا ایک پوری نے دن بھر کی کسر پوری کر دی ہے۔ پھر وہ شخص یاد آیا۔ ایسی جگہوں پر اللہ کے نیک بندوں سے ملاقاتیں ہو ہی جاتی ہیں۔ کیا کہہ گیا تھا۔ دیکھو تو پائو، سوچو تو جانو۔ غور کرنے لگا اور یہی غور کرتے کرتے اچانک پچھلے دنوں کی باتیں یاد آ گئیں اور اچھل پڑا۔ ماموں ریاض تھانے میں ملے تھے اور وہ لوگ انہیں لے گئے تھے لیکن اس کے بعد جو کچھ علم میں آیا تھا وہ کیا حیثیت رکھتا تھا۔ بالکل یوں لگتا تھا جیسے تمام واقعات میری نگاہوں کے سامنے سے گزر رہے ہوں۔ میں خود بھی ان میں شریک ہوں۔ یہ کیسے ہوا تھا، یہ کیا بات تھی کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ بہت دیر تک غور کرتا رہا اور پھر گردن ہلا کر کروٹ بدل لی۔ ماموں ریاض بیچارے۔ اگر جو کچھ میرے ذہن میں آیا، سچ ہے تو اس کا مطلب ہے کہ مصیبت سے نکل گئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ذہن میں کیسے آیا۔ ٹھنڈی ہوائوں نے آنکھوں کے پپوٹے بوجھل کر دیئے تھے اور ہلکا سا سرور ذہن پر طاری ہو گیا تھا لیکن سوچوں کے دائرے محدود نہیں ہوئے تھے۔
سوچوں کا عظیم سرمایہ محفوظ تھا۔ دماغ بوجھل ضرور ہو گیا تھا لیکن حاضر تھا۔ ماموں ریاض کے دل میں ضرور ہو گا کہ میرے لئے کچھ کریں۔ ہرچند کہ میں نے انہیں اپنے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا لیکن اتنا جانتا تھا کہ وہ بھی دیوانے ہو گئے ہوں گے۔ اگر بڑے افسر نہ آ جاتے تو… ہو سکتا ہے جو کچھ میرے ذہن میں آیا اس کے بعد بھی انہوں نے کچھ کیا ہو۔ ہو سکتا ہے انہوں نے گھر جا کر میرے بارے میں امی اور ابو کو بتایا ہو۔ کیا گزری ہو گی ان پر، ماموں ریاض…
ٹوٹا پھوٹا سا گھر تھا۔ بوسیدہ کواڑ جس پر ٹاٹ کا پردہ پڑا تھا۔ پلاستر کی دیواریں تھیں۔ دروازے کے دوسری طرف چھوٹا سا صحن، ایک برآمدہ جس میں تخت پڑا ہوا تھا۔ ایک کمرہ جس میں بائیں سمت غسل خانہ اور بیت الخلاء، دوسری طرف باورچی خانہ۔ ابو اور امی تخت پر بیٹھے ہوئے تھے۔ امی کے سر کے سارے بال سفید ہو گئے تھے۔ چہرے پر جھریاں پڑی ہوئی تھیں۔ آنکھیں بے نور تھیں اور وہ بار بار پلکیں جھپکا رہی تھیں۔ ابو اچھل پڑے۔ انہوں نے سرگوشی کے عالم میں کہا۔
’’ریاض آ گیا۔‘‘
’’آ گیا؟‘‘ امی اچھل پڑیں۔
’’ہاں۔‘‘
’’ریاض، ریاض بیٹے!‘‘ امی کی لرزتی آواز ابھری۔
’’ہاں باجی… میں آ گیا۔‘‘
’’کہاں ہے، کہاں ہے۔ میرے پاس آ۔ ریاض میرے پاس آ۔‘‘ ماموں ریاض امی کے سینے سے جا لگے تھے۔ کیا ہوا تھا۔ مارا تو نہیں تجھے۔ انہوں نے تجھے مارا تو نہیں۔‘‘ امی ماموں ریاض کو ٹٹولتی ہوئی بولیں۔
’’ارے نہیں باجی، کوئی میں ڈاکو تھا، چور تھا، مارتے کیسے؟‘‘ ماموں نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’اللہ تیرا شکر ہے۔ اللہ تیرا احسان ہے۔ کچھ کھایا ہے تو نے۔‘‘
’’پیٹ بھر کر کھایا ہے باجی۔ اطمینان سے بیٹھو۔‘‘
’’جھوٹ بول رہا ہے۔ جھوٹ بول رہا ہے۔ سنئے روٹیاں لے آیئے بازار سے، میں چائے بنا لیتی ہوں، روٹیاں لے آیئے۔‘‘
’’باجی۔ میں نے کھانا کھا لیا ہے۔‘‘
’’اور کھائیں گے۔ ریاض ہم نے نہیں کھایا، کل سے نہیں کھایا۔‘‘
’’اوہ، میں لاتا ہوں۔ آپ بیٹھئے بھائی جان۔ میں لاتا ہوں۔‘‘ ماموں ریاض بولے۔
’’نہیں ریاض، تو نہ جا بیٹے کہیں پولیس دوبارہ نہ پکڑ لے، تو نہ جا ریاض۔‘‘
’’باجی پولیس کیوں پکڑ لے گی مجھے آخر۔ اسے دھوکا ہوا تھا۔ بعد میں سب نے معافی مانگی ہے۔ یہ دیکھئے نجم الحسن صاحب نے مجھے پانچ سو روپے بھی دیئے ہیں ہرجانے کے طور پر۔‘‘
’’تجھ پر اب الزام تو نہیں ہے؟‘‘
’’نہیں باجی، فیض الحسن بری صحبتوں میں ضرور پڑ گیا ہے مگر وہ برا لڑکا نہیں ہے۔ جب اسے معلوم ہوا کہ اس نے جو رقمیں غائب کی ہیں ان کے الزام میں اس کے باپ نے مجھے گرفتار کرا دیا ہے تو وہ باپ کے پاس پہنچ گیا اور اس نے ساری بات بتا دی۔ نجم الحسن خود تھانے گئے، ان کی بیوی اور فیض بھی ساتھ تھا۔ انہوں نے مجھے چھڑا لیا، بڑی معافیاں مانگی ہیں۔ انہوں نے دو سو روپے تنخواہ میں اضافہ بھی کر دیا ہے۔‘‘
’’اللہ تیرا شکر ہے۔‘‘
’’بھائی جان میں کھانا لے آتا ہوں۔‘‘
’’روٹیاں لے آ… میں چائے بنا لیتی ہوں۔‘‘
’’نہیں باجی مرغی کا سالن لائوں گا۔ محنت کے پیسے ملے ہیں اور یہ آپ کو چائے بنانے کی کیا سوجھی۔ کیا آپ پھر چولہا جلانے لگی ہیں۔‘‘
’’نہیں مانتیں۔ مجھے بتائو کیا کروں…؟‘‘ ابو بولے۔
’’خدا کے لئے باجی چولہے کے پاس نہ جایا کریں۔ پورا دوپٹہ جلا لیا تھا۔ اللہ نے بچایا۔‘‘
’’اب بار بار ایسا تھوڑی ہو گا۔ جا کھانا لے آ۔‘‘ امی نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ماموں دروازے سے نکل گئے تھے۔ پھر میں نے ان سب کو دسترخوان پر دیکھا۔ امی ہاتھ والے پنکھے سے پنکھا جھل رہی تھیں۔
’’اب یہ پنکھا رکھ دیں اور کھانا کھائیں۔‘‘ ابو بولے۔
’’افوہ کھائو تم لوگ مکھیاں بیٹھیں گی کھانے پر۔‘‘
’’ایک بھی مکھی نہیں ہے۔ رکھئے پنکھا، کھانا کھایئے۔‘‘ ماموں بولے۔ ’’ذرا دیکھئے بھنی ہوئی مرغی کیا مزا دے رہی ہے۔‘‘
’’کھا لوں گی نا۔ تم لوگ کھائو۔‘‘ امی بے
اختیار رو پڑیں۔ ابو اور ماموں کے ہاتھ رک گئے۔ ماموں نے کہا۔
’’باجی۔‘‘
’’کھا لوں گی میں۔ میرے پیچھے مت پڑو۔ مت پڑو میرے پیچھے۔ پتہ نہیں میرے بچے… میرے بچے۔‘‘ امی بلک بلک کر رو پڑیں۔ ابو بھی سسکنے لگے۔ ماموں عجیب سی کیفیت کا شکار ہو گئے تھے۔ وہ ان دونوں کو دیکھنے لگے۔ رک گئے تم لوگ، نہ کھائو تو مجھے مردہ دیکھو، کھائو، میں کہتی ہوں کھائو۔‘‘ امی ان کے ہاتھ ٹٹولنے لگیں۔ ماموں ریاض نے کہا۔
’’آپ سے تنہائی میں کچھ کہنا چاہتا تھا بھائی جان۔‘‘ ابو نے آنکھوں میں آنسو بھر کے انہیں دیکھا۔ آپ کے اور باجی کے سوا دنیا میں میرا اور کوئی ہے۔ آپ دونوں کی قسم کھا کر ایک بات کہہ رہا ہوں۔ یہ رزق ہے میرے ہاتھ میں، جھوٹ نہیں بول رہا۔ مگر اب سوچ رہا ہوں کہ جو کچھ کہنا ہے باجی کے سامنے ہی کہہ دوں۔‘‘
’’بات کیا ہے؟‘‘ ابو نے آنکھیں خشک کر کے ماموں ریاض کو دیکھا۔
’’مسعود زندہ ہے۔ خیریت سے ہے۔ بس ذرا کمزور ہو گیا ہے۔ حلیہ بدل رکھا ہے۔ داڑھی چھوڑ دی ہے۔ کہتا ہے کہ کچھ مشکلات ہیں جن پر قابو پا لیا تو واپس گھر آ جائے گا، اس کی فکر نہ کی جائے۔‘‘
’’کیا…‘‘ ابو اچھل کر کھڑے ہو گئے۔
’’آپ کی اور باجی کی قسم جھوٹ نہیں بول رہا۔ وہ زندہ سلامت ہے اور اسے محمود کے بارے میں بھی معلوم ہے، ہمارا محمود بھی خدا کے فضل سے خیریت سے ہے اور ملک سے باہر چلا گیا ہے، اگر اسے ہمارا پتہ معلوم ہوتا تو یقیناً وہ اب تک ہم سے رابطہ کر چکا ہوتا۔‘‘
’’ریاض… ریاض تجھے اللہ کا واسطہ۔ کلیجہ نکال لیا ہے تو نے۔ ہائے تو نے کلیجہ نکال لیا ہے۔ ارے تجھے اللہ کا واسطہ بتا تو دے بتا دے کہ دل رکھ رہا ہے یا سچ بول رہا ہے۔‘‘ امی نے جھک کر ماموں ریاض کے پائوں پکڑ لئے۔
’’میں نے آپ دونوں کی قسمیں کھائی ہیں باجی۔ اور بھی کچھ کر سکتا ہوں تو مجھے بتائیں۔‘‘
’’کہاں ملا وہ، تیرے ساتھ گھر نہیں آیا؟‘‘
’’تھانے کے لاک اَپ میں ملا تھا۔‘‘
’’ایں…‘‘ابو کے حلق سے رندھی ہوئی آواز نکلی۔
’’اللہ نے چاہا تو واپس آ جائے گا۔ نجم الحسن کل اپنے تھانیدار دوست سے مل کر اسے رہا کرا لیں گے۔‘‘
’’مجھے لے چل، مجھے لے چل ریاض، مجھے لے چل۔ اپنے، اپنے بچے کو چھونا چاہتی ہوں میں، آہ میں اسے چھونا چاہتی ہوں۔‘‘ امی نے زار و قطار روتے ہوئے کہا۔
’’آپ نے اس طرح دل دکھا دیا باجی ورنہ میں ابھی آپ کو کچھ نہ بتاتا۔ مجھے اپنی یہ خاموشی جرم محسوس ہوتی تھی۔ ہر قیمت پر آپ کو انتظار کرنا ہو گا بھائی جان آپ غور کریں۔ اس پر قتل کا الزام ہے کہ جانے کس طرح اس نے خود کو چھپایا ہوا ہے۔ پولیس کی یادداشت اتنی خراب نہیں ہوتی، سب یکجا ہو گئے تو کہیں تھانیدار کو ماضی یاد نہ آ جائے۔ پھر ہم کچھ نہیں کر سکیں گے۔‘‘
’’ہیں…‘‘ امی کے منہ سے نکلا۔
’’ہاں۔ باجی صبر کرنا ہو گا آپ کو۔ اللہ نے آپ کو ان دونوں کی زندگی کی خبر دی ہے، ایک دن ہم سے آ بھی ملیں گے۔‘‘
’’کل نہیں…‘‘ امی نے حسرت سے پوچھا۔
’’سب کچھ اللہ جانتا ہے وہی سب کچھ…‘‘
ایک دم سلسلہ ٹوٹ گیا۔ کوئی پائوں پکڑ کر چلایا تھا۔ پھر ایک آواز سنائی دی تھی۔
’’بابا جی… بابا صاحب…‘‘ میں چونک پڑا۔ چند افراد کھڑے ہوئے تھے۔ شکلیں جانی پہچانی سی تھیں۔ ان بزرگ کو میں نے فوراً پہچان لیا جن کا سامان اٹھانے کے دو روپے ملے تھے مجھے۔ میں جلدی سے اٹھ گیا اور آنکھیں پھاڑ کر انہیں دیکھنے لگا۔
’’بابا صاحب اٹھیے۔ اٹھیے بابا صاحب۔‘‘
’’کوئی غلطی ہو گئی مجھ سے۔‘‘ میں نے سہمے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
’’غلطی ہم سے ہو گئی ہے بابا صاحب۔ آپ کو پہچان نہ سکے۔‘‘
کوئی غلطی ہو گئی ہو تو معاف کر دیں۔
’’اللہ کے نام پر آپ ہماری مدد کریں بابا صاحب۔ اللہ آپ کو اس کا اجر دے گا۔‘‘
’’آپ لوگ یقین کریں۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔ وہی خاندان تھا جو ریسٹ ہائوس میں ٹھہرا ہوا تھا۔ اب میں نے سب کو پہچان لیا تھا۔‘‘ وہ سب بھی میرے اردگرد بیٹھ گئے۔ بزرگ نے کہا۔
’’عامر میرا پوتا ہے۔ میرے بیٹے کا ایک ہی بیٹا، دوسری بیٹی ہے۔ یہ ہے نسیمہ۔ عامر اسکول میں پڑھتا تھا۔ شوخ کھلاڑی مگر ذہین تھا، کبھی کبھی بچوں کے ساتھ اسکول سے آوارہ گردی کرنے نکل جاتا تھا۔ اس دن بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ اس کے اسکول سے کافی فاصلے پر ایک جگہ کربلا کے نام سے مشہور ہے وہاں تعزیئے دفن کئے جاتے ہیں۔ نزدیک ہی قبرستان بھی ہے۔ آس پاس کھیت بکھرے ہوئے ہیں۔ وہیں کھیلنے چلا گیا تھا۔ واپس آیا تو چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ آنکھیں چمک رہی تھیں۔ رات کو بخار آ گیا۔ وہ ہذیان بکتا رہا۔ اس کے بعد میاں صاحب ہم زیرعتاب ہیں۔ سیکڑوں ایسے واقعات ہو چکے ہیں جن کی تفصیل طویل ہے، اس پر سایہ ہو گیا ہے بابا صاحب۔ نہ جانے کیا کیا کر چکے ہیں ہم مگر کچھ نہیں ہو سکا۔ بابا صاحب اس وقت بھی اس پر جنون طاری تھا جب وہ بھاگ کر باہر آیا تھا۔ آپ کو دیکھ کر سہم گیا۔ اس وقت سے اندر گھسا ہوا ہے جب کہ اندر رہتا ہی نہیں تھا، اب کہتا ہے باہر نہیں جائوں گا، باہر وہ ہے… وہ!‘‘
’’کون؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’آپ سے ڈر رہا ہے۔‘‘
’’مجھ سے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’مجھ سے کیوں؟‘‘
’’اللہ جانتا ہے۔‘‘
میں ہنسنے لگا۔ عجیب ہیں آپ لوگ۔ آپ کو پتہ ہے کہ میں خود ایک غریب آدمی ہوں۔ محنت مزدوری کر کے پیٹ بھرتا ہوں۔ چچا میاں آپ کو خود علم ہے کہ میں نے آپ کا سامان اٹھا کر صبح کا ناشتہ کیا تھا!‘‘
’’اللہ کے نیک بندے ایسے ہی ہوتے ہیں۔ دیکھئے بابا صاحب۔ ہم بھلا آپ سے کچھ کہنے کی کہاں اہلیت رکھتے ہیں۔ اتنا ضرور کہیں گے کہ اگر اللہ نے اپنی کوئی امانت آپ کو سونپی ہے تو اسے دوسروں کی بھلائی کے لئے ضرور استعمال کریں۔ آپ کی سربلندی میں اضافہ ہی ہوگا۔ ہم پریشان حال لوگ ہیں نہ جانے کہاں کہاں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ وہ معصوم بچہ ہے، کل گیارہ سال عمر ہے اس کی۔ پوری زندگی تباہ ہو جائے گی اس کی۔ ماں رو رو کر مر جائے گی اس کی۔ سولی پر لٹکے ہوئے ہیں ہم لوگ، اللہ کے نام پر ہماری مدد کریں۔ بزرگ رونے لگے۔
مگر محترم… میں… میں ایک عام آدمی ہوں۔ میں خود زندگی کا ستایا ہوا ہوں۔ آپ کو ضرور میرے بارے میں غلط فہمی ہوئی ہے۔‘‘
’’وہ صرف آپ سے خوفزدہ ہے۔ کہتا ہے باہر نہیں جائے گا۔ باہر کمبل والے بابا ہیں اور کمبل آپ ہی کے پاس ہے۔‘‘
’’کمبل!‘‘ میرے پورے وجود میں بم سا پھٹا۔ کمبل… کمبل۔ میں نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس کمبل کو دیکھا جسے ابھی سرہانے رکھے سو رہا تھا۔ یہ عطیہ انہیں دو۔ بزرگوں میں سے ایک نے مجھے دیا تھا مگر اس وقت میری اندھی آنکھوں نے اسے نہیں پہچانا تھا، اب تک نہیں پہچانا تھا۔ یہ تو وہی کمبل تھا جو ایک بار پہلے بھی مجھے مل چکا تھا۔
میں بھلا اس کمبل کو بھول سکتا تھا جب یہ ملا تھا تو مجھے عروج ملا تھا اور پھر میں نے اسے کھو دیا تھا۔ آہ یہ وہی کمبل تھا، سو فیصد وہی تھا، دماغ میں شیشے ٹوٹنے لگے۔ چھناکے ہونے لگے، وہ دونوں بزرگ یاد آئے جن میں سے ایک نے مجھے کمبل دیا تھا۔ شکلیں یاد نہیں تھیں لیکن… باقی سب کچھ یاد تھا کمبل اوڑھا تھا اور اس کے بعد امی اور ابو کو دیکھا تھا۔ ماموں ریاض کے بارے میں آگے کا سارا حال دیکھا تھا۔ کوئی تصور اتنی جامع شکل نہیں اختیار کرسکتا۔ میں نے تو وہ سب کچھ دیکھا تھا جس کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔
’’بابا صاحب…‘‘ بزرگ کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔
جی… میں … وہ۔
’’خدا کے لیے بابا صاحب، خدا کے لیے اللہ نے آپ کو کچھ دیا ہے تو اسے اللہ کی راہ میں خرچ کریں خدا کے لیے بابا صاحب۔‘‘
بزرگ نے دونوں ہاتھ جوڑ دیئے اور میں تڑپ اٹھا۔
’’ایسا نہ کریں محترم، خدا کے
ایسا کرکے مجھے گناہ گار نہ کریں۔‘‘
’’ہماری مدد کریں۔‘‘
’’آپ مجھے وقت دیجئے کچھ کرسکا تو ضرور کروں گا۔ آپ سے وعدہ کرتا ہوں میں خود حاضری دوں گا۔‘‘
’’بہت بہتر، ہم انتظار کریں گے۔‘‘
’’آپ جائیے میں آپ کے پاس ضرور آئوں گا۔ اگر آپ کا کام نہ کرسکا تو معذرت کرنے آئوں گا۔‘‘ میں نے کہا اور وہ سب امید بھری نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے واپس چلے گئے۔ میں نے دیوانہ وار آگے بڑھ کر کمبل اٹھالیا اسے سینے سے لگالیا، سکون کا ایک سمندر سینے میں اتر گیا تھا دیر تک اس سکون سے بہرہ وَر ہوتا رہا۔
شام کے سائے جھلک رہے تھے۔ عصر کی نماز کا وقت ہوگیا۔ پانی تلاش کرکے وضو کیا نماز پڑھی۔ اسی درخت کے نیچے بسیرا کرلیا تھا۔ رات ہوگئی عشاء کی نماز سے فارغ ہوا تھا کہ کھانا آگیا۔
’’بابا صاحب لنگر لے لیجئے۔ صاحب مزار کے نام کا ہے۔‘‘ انکارنہ کرسکا تھوڑا بہت کھانا کھایا اس کے بعد کمبل اوڑھ لیا، دل میں کہا۔
’’مجھے اس نعمت سے سرفراز کرنے والو! مجھ سے زیادہ تم میرے بارے میں جانتے ہو میں کوربینا ہوں، میری نظر محدود ہے۔ میری عقل محدود ہے جو منصب مجھے عطا کیا گیا ہے اس سے عہدہ برآ ہونے کے لئے رہنمائی درکار ہے۔ میری عقل ناقص صحیح فیصلے کرنے سے قاصر ہے مجھے رہنمائی عطا ہو۔ مجھے رہنمائی عطا ہو، مجھے رہنمائی درکار ہے، مجھے رہنمائی چاہئے۔‘‘ آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے کسی نے زور سے دھکیل کر کہا۔
’’بڑا پھیل کر سورہا ہے سرک جگہ دے۔‘‘ میں لڑھک گیا تھا، جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔ یہ بھی پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ایک بوڑھا آدمی تھا۔ ’’زمین اللہ کی ہے اس پر سب کا حق ہے۔‘‘
’’کیوں نہیں آپ آرام سے لیٹ جائیں۔‘‘ میں جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔ بوڑھا آدمی اطمینان سے لیٹ گیا کچھ دیر خاموشی سے گزر گئی پھر اس نے گردن اٹھا کر مجھے دیکھا اور بولا۔
’’پیروں میں بڑا درد ہورہا ہے ذرا دبا دے۔‘‘
’’جی…!‘‘ میں نے اس کا پائوں اٹھاکر گود میں رکھ لیا اور اسے دبانے لگا۔
دفعتاً اس نے بڑی زور سے دوسرا پائوں میرے سینے پر مارا اور میں بے اختیار لڑھک کر دور جاگرا۔
’’ہاتھوں میں کانٹے اگے ہوئے ہیں۔ آہستہ نہیں دبا سکتا طاقت آزما رہا ہے میرے پیروں پر۔‘‘
’’اوہ نہیں بابا صاحب معاف کردیجئے اب آہستہ دبائوں گا۔‘‘ میں اپنی جگہ سے اٹھ کر دوبارہ اس کے پاس آبیٹھا۔ احترام سے دوبارہ اس کا پائوں لے کر گود میں رکھا اور اسے آہستہ آہستہ دبانے لگا۔
’’ہاں اب ٹھیک ہے۔‘‘ اس نے آنکھیں بند کرلیں، کوئی ایک گھنٹہ گزر گیا تو اس نے کروٹ بدل کر دوسرا پائوں میری گود میں رکھ دیا۔ میں دوسرا پائوں دبانے لگا۔ کافی دیر گزر گئی اچانک وہ بولا۔ ’’قاتل بہت ہیں کچھ زیادہ خطرناک کچھ کم۔ دشمن کے وار کرنے سے پہلے اس پر وار کردو۔ اسے مار ڈالو۔ دشمن نمبر ایک غرور ہے، خودپسندی ہے، تمہارے بدن کا لباس، تمہاری بینائی، تمہاری سوچ اور سب سے بڑھ کر تمہاری زندگی اپنی نہیں ہے پھر کس چیز پر حق جتاتے ہو۔ بیوقوفی ہے نا… کیوں ہے نا…؟‘‘
’’ہاں…‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔
’’سب کچھ قرض ہے ادھار ہے ادائیگی ضرور ہوتی ہے، بچا کھچا اپنا ہوتا ہے دوسرے کے مال پر کیا اترانا کیوں ہے کہ نہیں؟‘‘
’’ٹھیک کہتے ہیں بابا صاحب۔‘‘
’’پوچھ لینا اچھا ہوتا ہے سمجھ میں نہ آئے تو پوچھ لو۔‘‘
’’کس سے بابا صاحب؟‘‘
’’بتانے والا اندر ہوتا ہے پوچھو گے جواب ملے گا، بھٹکنے کی ضرورت ہی کیا ہے مگر کرنے سے پہلے پوچھو۔‘‘
’’جی بابا صاحب۔‘‘
’’خود غرضی ہمیشہ نقصان دیتی ہے پہلے دوسروں کے بارے میں سوچو پھر اپنے بارے میں۔ جذبات سنبھالنے پڑتے ہیں ورنہ کھیل بگڑ جاتا ہے کیا سمجھے۔ اور کچھ پوچھنا ہے۔‘‘
’’آپ نے جتنا بتایا ہے اتنا تو سمجھ لیا بابا صاحب۔‘‘
’’میں نابینا ہوں بابا صاحب کچھ نہیں جانتا۔ سچائی سے سب کچھ کرنا چاہتا ہوں مگر ناواقفیت کا شکار ہوجاتا ہوں۔‘‘
میں نے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔
’’چہرہ ڈھک لینا، دل و دماغ روشن ہوجائیں گے بس کافی ہے۔‘‘
بوڑھے شخص نے پائوں سمیٹ لیے۔
’’اور دبائوں بابا صاحب؟‘‘
’’نہیں… چلتا ہوں۔‘‘ بوڑھے نے کہا اور پھر تیزی سے آگے بڑھ گیا میں اسے دیکھتا رہا اس نے چند قدم آگے بڑھائے اور پھر ایک اور درخت کی آڑ میں گم ہوگیا۔ دل بری طرح کانپ رہا تھا، رہنمائی ملی تھی، انعام عطا ہوا تھا، ہدایت کی گئی تھی۔ درخت کے نیچے بیٹھ کر سوچ میں ڈوب گیا۔ ساری باتوں کو یاد کرکے دل میں اتار رہا تھا پھر وہ لوگ یاد آگئے جن سے وعدہ کیا تھا۔ کیا کروں، کیا کرنا چاہئے لیٹ کر کمبل چہرے پر ڈال لیا۔ ذہن میں ان کا تصور کیا تو چاروں طرف روشنی پھیل گئی۔ وہ سب نگاہوں کے سامنے آگئے بزرگ، ان کا بیٹا، بہو، لڑکی اور وہ بچہ۔ زبان باہر لٹکی ہوئی تھی۔ آنکھوں میں دہشت رقصاں تھی۔ نوجوان لڑکی نے آنکھیں بند کی ہوئی تھیں اور خوف سے کانپ رہی تھی، بچے کی ماں کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور وہ حسرت بھری نظروں سے بچے کو دیکھ رہی تھی۔ اس کا شوہر سر پکڑے بیٹھا ہوا تھا اور وہی بزرگ تسبیح ہاتھوں میں لیے کچھ پڑھ رہے تھے۔
دفعتاً لڑکے کی زبان لمبی ہونے لگی۔ سرخ زبان کسی سانپ کی طرح بل کھاتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی۔ اس کی لمبائی کوئی چار گز ہوگئی اور پھر اچانک اس نے ان بزرگ کے ہاتھوں میں دبی تسبیح کو لپک لیا، نوجوان لڑکی نے دہشت بھری چیخ ماری اور گر کر بے ہوش ہوگئی۔
’’بات کرلو… چلے جائو… حال معلوم ہوجائے گا… چلے جائو کام ہوجائے گا۔‘‘ مجھے اپنی آواز سنائی دی، میں بول رہا تھا، میں سن رہا تھا۔ مستعدی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ کمبل تہہ کرکے شانے پر رکھا اور تیز تیز قدموں سے اس طرف چل پڑا، کچھ دیر کے بعد وہاں پہنچ گیا سب لوگ ریسٹ ہائوس میں تھے۔ میں نے دروازہ بجایا انہی بزرگ نے دروازہ کھولا تھا۔
’’آپ… آئیے، دیکھئے اندر کیا ہورہا ہے۔‘‘
انہوں نے رندھے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’آسکتا ہوں؟‘‘
’’آجائیے۔‘‘ بزرگ دروازے سے ہٹ گئے میں اندر داخل ہوگیا۔ بچہ اچھل پڑا تھا اس کی زبان فوراً اندر چلی گئی اور اٹھ کر دیوار سے جالگا۔ وہ مجھے خوفزدہ نظروں سے دیکھ رہا تھا اور شاید بھاگنے کے لیے جگہ تلاش کررہا تھا، اس نے غرائی ہوئی آواز میں کہا۔
’’میرا تمہارا کوئی جھگڑا نہیں ہے، اپنا کام کرو ورنہ اچھا نہ ہوگا۔‘‘
’’ایک گلاس پانی دیجئے۔‘‘ میں نے بزرگ سے کہا اور وہ جلدی سے ایک طرف رکھی صراحی کی طرف بڑھ گئے۔
’’تم سن نہیں رہے، میرا تمہارا کوئی جھگڑا نہیں ہے۔‘‘
لڑکے نے بھاری آواز میں کہا۔
’’یہاں تم سے جھگڑا کون کررہا ہے۔ اللہ کے بندے ہو، اللہ کا نام لے کر بات کرو۔‘‘ میں نے بزرگ کے ہاتھ سے پانی کا گلاس لے کر اس پر بسم اللہ پڑھ کر پھونکی اور اس کے بعد پانی کا گلاس لڑکے کی طرف بڑھاکر بولا۔
’’لو میاں پانی پیئو، محبت سے کوئی چیز پیش کی جائے تو اسے محبت سے ہی قبول کرنا چاہئے۔‘‘
’’دیکھو آخری بار سمجھا رہا ہوں، ہمارے بیچ میں مت آئو تمہیں کوئی فائدہ نہ ہوگا سوائے نقصان کے۔‘‘
’’اللہ کے بندے ہوکے، اللہ کے بندوں کو نقصان پہنچائو گے تو تمہارے ساتھ بھی تو بہتری نہیں ہوگی جواب دو، ورنہ یہ پانی میں تمہارے جسم پر پھینک دوں گا اور تم سمجھتے ہو کہ یہ گناہ صرف تمہارے سر ہوگا۔‘‘
’’ارے واہ جھگڑا ہمارا ہے، بیچ میں کود رہے ہو تم۔ ذرا اس سے پوچھو کیا کیا ہے اس نے، بچے کھیل رہے تھے اسے کوئی نقصان بھی نہیں پہنچایا تھا، شرارت اپنی جگہ ہوتی ہے، پتھر مارنے شروع کردیئے اور اچھا خاصا زخمی کردیا میرے بچے کو، میں بھلا چھوڑ دوں گا اسے، اتنے ہی زخم
لگادوں اسے تو میرا بھی نام نہیں۔‘‘
’’درگزر بھی تو ایک پسندیدہ فعل قرار دیا گیا ہے۔ بچپن ہے، بے شک تمہیں نقصان پہنچا ہوگا لیکن اس کی زندگی لے کر تمہیں کیا مل جائے گا۔‘‘
’’اور اگر میرا بچہ مرجاتا تو…‘‘
’’اللہ نے اسے زندگی عطا فرمائی تم اس کے صدقے اس کی زندگی بھی قائم رہنے دو… یہ ضروری ہے۔‘‘
’’کیا ضروری ہے اور کیا غیرضروری، میں سمجھتا ہوں تم اپنی یہ ولایت لے کر یہاں سے چلے جائو ورنہ میرا تمہارا جھگڑا ہوجائے گا اور ہاں پہچانتا ہوں تمہیں اچھی طرح، جانتا بھی ہوں ایک بار دیکھ بھی چکا ہوں مگر وہ معاملہ ذرا دوسرا تھا ہر ایک کے بیچ میں پہنچ جاتے ہو۔ تمہارا بھی کچھ کرنا ہی پڑے گا۔‘‘
’’اگر میرے سر میں پتھر مارکر تمہارا دل ٹھنڈا ہوسکتا ہے تو میں حاضر ہوں کچھ نہ کہوں گا تمہیں، لیکن بچوں کے باپ ہو، معاف کردو اسے۔ میں اس کی طرف سے اور اس کے تمام اہل خانہ کی طرف سے تم سے معافی چاہتا ہوں۔ اگر کوئی جرمانہ کرنا چاہو تو جرمانہ کردو ادائیگی ہوگی۔ مگر اب اسے معاف ہی کردو تو بہتر ہے۔‘‘
’’اور اگر نہ کروں تو…؟‘‘
’’تو پھر بات دوسری شکل اختیار کرجائے گی۔‘‘ میں نے گلاس سیدھا کرلیا اور لڑکا دیوار کے سہارے ادھر سے ادھر کھسکنے لگا پھر بولا۔ ’’یہ طریقہ ہوتا ہے دوستی کرانے کا، ان لوگوں سے کہو کہ آئندہ اگر یہ بچہ اس طرف دیکھا گیا تو پھر میں اسے نہیں چھوڑوں گا اور تم، ٹھیک ہے میں نہ سہی کوئی دوسرا تمہیں ٹھیک کردے گا۔ ہر ایک کے بیچ میں ایسے ہی مت آجایا کرو۔‘‘
(جاری ہے)