’’بہرحال فی الحال تو تم یہ بتائو کہ سچے دل سے اسے معاف کررہے ہو یا یونہی عارضی طور پر مجھے ٹال رہے ہو؟‘‘
’’اور اگر یہ بچہ دوبارہ ادھر دیکھا گیا تو…؟‘‘
’’اس کا وعدہ اس کے والدین کریں گے۔‘‘
عورت جلدی سے بولی۔ ’’نہیں جائے گا ہم وہ شہر ہی چھوڑ دیں گے، وہ جگہ چھوڑ دیں گے ہم، کبھی نہیں جائیں گے اس طرف، کبھی نہیں جائیں گے۔‘‘
’’دیکھو میاں جی مشورہ دے رہے ہیں تمہیں ہم ایسے معاملات میں ٹانگیں مت اڑایا کرو، ورنہ کسی وقت نقصان بھی اٹھا جائوگے۔ ارے ہاں پہنچ گئے ولی بن کر۔‘‘ لڑکے نے کہا اور اس کے بعد اس نے آنکھیں بند کرلیں، رفتہ رفتہ اس کا جسم ڈھیلا پڑتا جارہا تھا اور پھر وہ دیوار کے ساتھ نیچے کھسکتا ہوا زمین پر گرپڑا۔ وہ بھی بے ہوش ہوگیا تھا بزرگ جلدی سے آگے بڑھے ان کا بیٹا بھی آگے بڑھا اور باپ نے بیٹے کو گود میں اٹھالیا۔ لڑکا گہری گہری سانسیں لے رہا تھا۔ عورت کی سسکیاں بلند ہورہی تھیں میں نے آہستہ سے کہا۔ ’’خدا نے اپنا کرم کردیا میرے خیال میں اب سب ٹھیک ہے۔ آپ لوگ اطمینان سے اس کے ہوش میں آنے کا انتظار کریں۔ اب خدا نے چاہا تو سب بہتر ہوجائے گا۔‘‘
بزرگ جلدی سے میرے قریب پہنچے اور انہوں نے جھک کر میرے پائوں پکڑنا چاہے تو میں دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔
’’نہیں محترم، خدا کے لیے نہیں یہ آپ کیا کررہے ہیں۔ یہ میرے ساتھ دشمنی ہے، محبت کے جواب میں دشمنی۔‘‘
بزرگ ایک دم سیدھے ہوگئے تھے۔
’’میرا دل کہہ رہا ہے، میرا بچہ ٹھیک ہوگیا۔ آہ ہم سب کو نئی زندگی ملی ہے اپنے جذبات کا اظہار میں کیسے کروں۔‘‘ وہ بولے۔
’’بس ایک ہی التجا ہے۔‘‘
’’حکم کیجئے بابا صاحب۔‘‘
’’میرے حق میں دعائے خیر کیجئے۔‘‘
’’سنیئے بابا صاحب سنیئے، کچھ خدمت کا موقع دیجئے ہمیں۔‘‘
’’اللہ نے آپ کو اپنی رحمت سے نوازا ہے۔ ایسی باتیں نہ کیجئے خدا حافظ۔‘‘ میں نے کہا اور وہاں سے نکل آیا اس کے بعد رکنے کو دل نہیں چاہا تھا چنانچہ کسی سمت کا تعین کئے بغیر چلتا رہا۔
مزار شریف سے بہت دور آبادی تھی وہاں سے بھی گزر گیا۔ لق ودق میدان شروع ہوگئے، چاند نکل آیا تھا، ایک پرسکوت ماحول تھا اسی طرح چلتے رہنے میں لطف آرہا تھا، چلتا رہا اور نہ جانے رات کا کونسا پہر گزر گیا، پائوں کچھ وزنی محسوس ہوئے تو رک گیا، جھاڑیاں، پتھر مٹی کے تودے گڑھے جن میں پانی بھرا ہوا تھا جھینگر بے وقت کی راگنی الاپ رہے تھے۔ کسی قدر صاف ستھری جگہ دیکھ کر بیٹھ گیا اور تھکن محسوس کرکے وہیں آرام کرنے کی ٹھانی۔ ایک پتھر سے سر ٹکایا اور آنکھیں بند کرلیں۔ نہ جانے کتنی دیر گزر گئی۔ قدموں کی چاپ سنائی دی اور آنکھیں کھل گئیں، چار انسان نظر آئے۔ چاندنی میں انہیں صاف دیکھا جاسکتا تھا۔ دیہاتی تھے لاٹھیاں اٹھائی ہوئی تھیں، لمبے تڑنگے تھے۔ سہمے سہمے قدم اٹھاتے آگے بڑھ رہے تھے۔ میں انہیں دیکھتا رہا اور جب وہ میرے قریب سے گزرے تو میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔
’’سنو… بات سنو۔‘‘ میں نے کہا اور وہ چاروں رک گئے۔ انہوں نے شاید مجھے دیکھا تھا اس لیے وہ چاروں طرف دیکھنے لگے۔ پھر سب ہی دہشت سے چیخنے لگے۔ انہوں نے بھاگنے کی کوشش کی مگر ایک دوسرے میں الجھ کر گر پڑے۔
’’ارے دیّا رے دیّا۔ ارے شردھانند تیرا ستیاناس۔ ہے پربھو… ہے بھگون… ارے بھاگو… ارے بھاگو۔‘‘ ان میں سے کسی نے چیخ کر کہا مگر ان کی ہمت پست ہوگئی تھی۔
’’ڈرو نہیں بھائی، میں بھی تمہارا جیسا انسان ہوں، ڈرو نہیں۔‘‘ میں کھڑا ہوگیا۔
’’ہرے ماردیو، رام دیال۔ ہرے بھاگو بھیا۔‘‘ کوئی اور چیخا اس دوران میں ان کے بالکل قریب پہنچ گیا تھا۔
’’دیکھو میں پھر کہہ رہا ہوں تم سے ڈرو نہیں میں کوئی بھوت پریت نہیں تمہارے جیسا انسان ہوں۔‘‘
’’ہرے بھیا بھوت ناہیں ہو تو کا یہاں کھیت رکھا رہے ہو؟‘‘ ایک نے ہمت کرکے کہا۔
’’مسافر ہوں سفر کررہا تھا۔ تھک کر یہاں لیٹ گیا تھا۔‘‘
’’ایں۔‘‘ ان کی کچھ ہمت بندھی ایک ایک کرکے اٹھ کر بیٹھ گئے۔ سب نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر مجھے دیکھا اور پھر ڈرے ڈرے انداز میں ہنسنے لگے۔
’’ارے تو ڈر کون رہا تھا۔ ہم تو پہلے ہی کہہ رہے تھے ہاں… واہ رہے رام دیال تو بھی بڑا بکٹ ہے بھائی۔‘‘
’’بس بس چپ ہوجا شرم کر جان تو تیری نکل رہی تھی مگر بھائی مسافر لگو تو تم بھوت ہی رہو۔ ارے بھیا اکیلے یہاں پڑے ہوئے تھے۔‘‘
’’تم لوگ کون ہو اور اس وقت کہاں جارہے تھے۔‘‘
’’ارے بس کیا بتائیں یہ شردھانند ہے بس ہریالی بستی گئے تھے کام سے صبح کو چلتے مگر یہ گھر والی سے کہہ آیا تھا کہ رات کو واپس آجائے گا۔ بس بھیا ہمیں کھینچ کر چل پڑا حالانکہ راستے میں لال تلیا پڑے ہے مگر بھیا بیاہ کو چار مہینے ہوئے ہیں وعدہ کیسے نہ پورا کرتا ارے ہے نا شردھانند…‘‘
’’اب چلو یا یہیں پڑے رہو گے۔‘‘ شردھانند نے کہا۔
’’بھائی مسافر، تم کدھر جارہے تھے۔‘‘
’’بس سیدھا ہی جارہا تھا۔‘‘
’’کہیں دور سے آرہے ہو کا؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’چلو گے ہمارے ساتھ یا یہیں جنگل میں مزے کروگے؟‘‘
’’تم لوگ کہاں رہتے ہو؟‘‘
’’دھونی پور کے رہنے والے ہیں ہم۔‘‘
’’چلو، میں بھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا تھکن تھی مگر پھر بھی ان سادہ دل دیہاتیوں کے ساتھ جانے کو دل چاہا۔ وہ سب آگے بڑھ گئے تھے۔
’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘ شردھانند نے پوچھا۔
’’مسعود۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’میاں بھائی ہو؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’پہلے کبھی دھونی پور نا گئے؟‘‘
’’کبھی نہیں۔‘‘
’’بڑھیا جگہ ہے۔ مگر…‘‘
’’مگر کیا؟‘‘
’’ارے نابھائی نا۔ رات کا وقت ہے کچھ نا بولیں گے ہم۔ ویسے ہی اس سسرے شردھانند نے مروادیا ہے ہمیں۔‘‘ رام دیال نے خوفزدہ لہجے میں کہا۔ اس کے بعد دیر تک خاموشی طاری رہی تھی پھر ان لوگوں کے قدم رکنے لگے سب ڈرے ڈرے سے لگ رہے تھے میں پوچھے بغیر نہ رہ سکا۔
’’کیا بات ہے؟‘‘
’’لال… لال تلیا۔‘‘
’’تم لوگ پہلے بھی اس کا نام لے چکے ہو۔ یہ لال تلیا کیا ہے۔‘‘
’’ارے بھیا یہاں سے نکل چلو، بعد میں بتادیں گے۔‘‘
’’نہیں ابھی بتائو۔‘‘
’’جمناداس…‘‘ شردھانند نے خوفزدہ لہجے میں کہا اور سب رک گئے۔ شردھانند خوفزدہ انداز میں ایک طرف اشارہ کررہا تھا، میں نے اس سمت دیکھا آگ روشن تھی اور کوئی شخص بیٹھا اس جلتی آگ میں لکڑیاں ڈال رہا تھا۔ جس سے آگ اور بھڑک اٹھتی تھی۔
’’کیا بات ہے آگے نہیں چلو گے۔‘‘ میں نے پوچھا مگر کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ سب وحشت زدہ نظروں سے ادھر ہی دیکھ رہے تھے۔ میں کچھ دیر ان کے ساتھ کھڑا رہا پھر میں نے آگے قدم بڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’ٹھیک ہے میں چلتا ہوں تم یہاں آرام کرو۔‘‘
’’ارے کوئی دماغ خراب ہوا ہے تمہارا۔ آگے نہ بڑھنا بے موت مارے جائوں گے، گردن مروڑ کر رکھے دے گا تمہاری۔‘‘
’’کون؟‘‘
’’سر کٹا… ہرے رام غلطی سے منہ سے نام نکل گیا۔‘‘ رام دیال نے دانتوں تلے زبان دبالی۔
’’سر کٹا کہاں ہے وہ۔‘‘
’’تلیا کنارے آگ کون جلارہا ہے۔‘‘
’’وہ سر کٹا ہے۔‘‘
’’ارے تو کیا چاچا ہے ہمارا۔‘‘ سب کے سب دہشت زدہ نظر آرہے تھے۔
’’مجھے اس کے بارے میں کچھ اور بتائو۔‘‘
’’تمہاری تو گھوم گئی ہے کھوپڑی۔ ہمیں کاہے کو مروائو ہو بھائی۔ ارے واپس چلو بھیا آج کی تو رات ہی مصیبت کی ہے۔ کہہ رہے تھے شردھانند سے آج گھر پہنچ جائیں تو جانو۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ تم یہاں رکو میں دیکھتا ہوں۔‘‘ میں آگے بڑھنے لگا تو چاروں نے لپک کر مجھے پکڑلیا۔
’’ساری شیخی نکل جائے گی میاں جی رک جائو، آئو واپس چلتے ہیں۔ دن نکل آئے گا تو آگے بڑھیں گے۔
تمہیں اس کے قصے نہیں معلوم۔‘‘
’’بتائوگے تو پتہ چلیں گے نا۔‘‘
’’کوئی ایک ہو تو بتائیں جمناداس کے سارے کٹم کو کھا گیا ہے یہ۔ ہری داس کو اس نے مارا۔ سلیم چاچا کا جوان بیٹا اس کے ہاتھوں مارا گیا، کلو سنگھاڑی کی لاش تال میں گل گئی۔ راتوں کو مستی میں نکل آتا ہے اور آوازیں لگاتا ہے۔ سنگھاڑے لے لو سنگھاڑے۔ کسی نے جھانک لیا تو سمجھو گیا۔ ہماری بستی تو بھوت بستی ہوگئی ہے آج کل۔ بے چارے بنسی لعل پر تو مصیبت آئی ہوئی ہے۔‘‘
’’آئو۔ بیٹھو، مجھے اس کے بارے میں مزید بتائو۔‘‘ میں نے کہا۔ بات دلچسپ تھی خلق خدا کو تنگ کیا جارہا تھا تو ذمہ داری تو آتی تھی، ان لوگوں نے معصومیت سے مکمل کہانی سنائی۔ جمناداس دھونی پور کا بنیا تھا۔ دو بیٹے ایک بیٹی تھی۔ ایک بیٹا دکان کے کچھ پیسے جوئے میں ہار گیا۔ باپ کے خوف سے لال تلیا پر آچھپا، صبح کو اس کی اکڑی ہوئی لاش ملی تھی۔ جمناداس نے ایک منتر پڑھنے والے کو بلاکر تلیا کنارے جاپ کرایا بس غضب ہوگیا۔ منتر پڑھنے والا تو خیر بھاگ گیا مگر جمناداس کی مصیبت آگئی۔ بیوی مری، بیٹی آگ سے جل کر مرگئی پھر دوسرا بیٹا پاگل ہوگیا اور سب کے غم میں جمناداس نے دھتورہ کھاکر خودکشی کرلی۔ ہری داس اہیر بھی تلیا کنارے مارا گیا۔ سلیم چاچا کا بیٹا پہلوانی کرتا تھا۔ مسلمان تھا۔ سر کٹے کو تسلیم نہ کیا۔ تلیا کنارے آکر سرکٹے کو للکار دیا۔ بہت سے لوگوں نے بے سرکے پہلوان کو اس سے کشتی لڑتے دیکھا اور پھر نوجوان لڑکا خون تھوک تھوک کر مرگیا یہی ساری کہانیاں تھیں میں نے بنسی لعل کے بارے میں پوچھا۔ ’’وہ دوسری بات ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’ارے وہ اور واقعہ ہے بنسی لعل مہاراج بھی تو کسی سے کم نہیں ہیں۔‘‘
’’وہ اس سرکٹے کا قصہ نہیں ہے؟‘‘
’’نہیں وہ ان کے کرموں کا پھل ہے۔‘‘
’’چلو تم لوگ یہاں بیٹھو میں ذرا اس سے ملاقات کرلوں۔‘‘ میں نے کہا اس بار میں ان کے رو کے سے نہ رکا تھا آگ کو نشان بناکر ہی آگے بڑھا اور تالاب کے کنارے پہنچ گیا۔ خاصا وسیع قدرتی تالاب تھا جس میں سنگھاڑوں کی بیلیں تیر رہی تھیں، میں نے جلتی آگ کے پاس اسے بیٹھے ہوئے دیکھا لباس سے بیگانہ ایک لمبا تڑنگا شخص تھا اور درحقیقت اس کے شانوں پر سر موجود نہیں تھا۔ میری آہٹ پاکر وہ کھڑا ہوگیا میں خاموشی سے اسے دیکھ رہا تھا۔
’’کون ہے رے تو۔‘‘ ایک منمناتی آواز سنائی دی۔
’’مسعود ہے میرا نام۔ تمہارا بھی کوئی نام ہے؟‘‘
’’سورما بن کر آیا ہے؟‘‘
’’نہیں تمہیں سمجھانے آیا ہوں؟‘‘
’’کیا سمجھائے گا؟‘‘
’’تمہارا اصل ٹھکانہ کہاں ہے؟‘‘
’’تو کون ہوتا ہے پوچھنے والا۔‘‘
’’تم خلق اللہ کو پریشان کرتے ہو تمہیں یہ جگہ چھوڑنا ہوگی یہاں سے چلے جائو ورنہ نقصان اٹھائو گے۔‘‘
’’لڑے گا؟‘‘ اس نے ران پر ہاتھ مارکر اچھلتے ہوئے کہا۔
’’مجبور کروگے تو لڑنا پڑے گا، میں چاہتا ہوں ایسا نہ ہو۔‘‘ میں نے کہا۔ دل کہہ رہا تھا کہ جو کچھ کررہا ہوں درست ہے وہ گندی روح ہے اور انسان کو نقصان پہنچاتی ہے اسے روکنا ضروری ہے وہ کئی بار ران پر ہاتھ مارکر اچھلا اور پھر اس نے اپنے بائیں شانے سے میرے سینے پر ٹکر ماری۔ لڑکھڑا گیا، ہاتھ بڑھاکر اسے پکڑنے کی کوشش کی لیکن ہاتھ اس کے بدن کے درمیان سے نکل گئے۔ اس نے عقب میں آکر پھر ایک ٹکر ماری اور میں پھر لڑکھڑا گیا مگر گرا نہیں تھا۔ ایک منمناتا بھیانک قہقہہ اس کے حلق سے نکلا اور وہ اچھل کود کرنے لگا۔ کبھی سو گز دور نظر آتا کبھی بالکل قریب، اسے چھونے کی کوشش ناکام ہوگئی۔ میں نے بسم اللہ پڑھی اور تیار ہوگیا۔ اس نے قریب آکر میرے سینے پر لات ماری تو میں نے فوراً کمبل اس پر اچھال دیا اور کمبل پوری طرح پھیل کر اس پر چھاگیا، ایک بھیانک چیخ سنائی دی اور وہ زمین پر گرپڑا۔ کمبل کے نیچے وہ بری طرح جدوجہد کررہا تھا اور اس کی چیخیں بھیانک سے بھیانک تر ہوتی جارہی تھیں۔ وہ کئی کئی فٹ اچھل رہا تھا پھر اس کی آواز مدھم ہوتی چلی گئی اور کچھ دیر کے بعد کمبل بالکل زمین پر پھیل گیا جیسے اس کے نیچے کچھ نہ ہو، میں نے آگے بڑھ کر اسے اٹھالیا اور نیچے کا منظر دیکھ کر خود بھی حیران رہ گیا۔ زمین پر ایک بے سرکے انسانی جسم کا پورا سیاہ نشان بنا ہوا تھا جس سے ہلکا ہلکا دھواں اٹھ رہا تھا۔ میں نے کمبل لپیٹ کر کندھے پر ڈال لیا نہ جانے کس طرح ان چاروں کی ہمت پڑی کہ وہ میرے قریب آگئے اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس منظر کو دیکھنے لگے۔
’’بھسم ہوگیا۔‘‘ رام دیال نے کہا پھر سب نے مجھے دیکھا اور اچانک چاروں ہاتھ جوڑ کر میرے پیروں سے لپٹ گئے۔ ’’جے ہو مہاراج کی۔‘‘
’’مہاراج میاں ہیں۔‘‘ دوسرا بولا۔
’’ہم سمجھے نہ تھے مہاراج۔‘‘ بمشکل تمام میں پیچھے ہٹا اور میں نے ان سے اپنے پائوں چھڑاتے ہوئے کہا۔ ’’یہ کیا کررہے ہیں آپ لوگ؟‘‘
’’آپ نے سر کٹا مار دیا مہاراج، سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ہم نے۔ آپ دھرماتما ہیں۔ ہم سمجھے نہیں تھے آپ کو مہاراج۔ آپ نے سر کٹا مار دیا، ارے دیا رے دیا، یہ بات تھی اور ہم اندھے ہیں پہچان نہیں پائے آپ کو مہاراج۔ کوئی بری بات منہ سے نکل گئی ہو تو معاف کردیں، ان سب کی حالت خراب ہورہی تھی، میں نے انہیں تسلی دے کر مسکراتے ہوئے کہا۔ چلئے آپ لوگوں کو ایک گندی روح سے تو نجات مل گئی۔‘‘
’’ارے مہاراج بستی والے سنیں گے تو چرنوں میں آپڑیں گے آپ کے۔ سب کا ناک میں دم کر رکھا تھا اس سر کٹے نے اور مہاراج یہ تو بھسم ہوگیا
دھرتی میں سماگیا، ہرے رام۔ ہرے رام۔‘‘ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کہیں، میں نے کہا۔ ’’چلو ٹھیک ہے یہ کام تو ہوگیا اب تو بستی چلوگے۔‘‘
’’اب بھی نہ چلیں گے مہاراج۔‘‘ وہ چاروں بڑی عقیدت سے میرے پیچھے پیچھے چلنے لگے راستے میں، میں نے ان سے بستی میں رہنے والوں کے بارے میں پوچھا۔
’’بڑی اچھی ہے ہماری بستی مہاراج۔ ہندو، مسلمان کا کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ ہم اس بستی میں پیدا ہوئے، جوان ہوگئے، کبھی کوئی خرابی نہیں ہوئی۔ سنسار میں ادھر ادھر لوگ لڑتے بھڑتے رہتے ہیں اور ہم بڑے پریم سے رہتے ہیں۔ جہاں ہم مولوی حمیداللہ کی باتیں سنتے ہیں وہیں پنڈت کرشن مراری کی کتھائیں بھی سنتے ہیں، بھگوان کا نام سب اپنے اپنے طور پر لیتے ہیں مہاراج۔ کیا ہندو کیا مسلم۔‘‘
’’مولوی حمیداللہ کون ہیں؟‘‘
’’دھونی پور کی مسجد کے مولوی صاحب ہیں، بڑے اچھے آدمی ہیں بیچارے۔‘‘
’’مسلمان یہاں کتنے آباد ہیں؟‘‘
’’ہمیں ٹھیک سے نہیں معلوم مہاراج پر بہت ہیں اور سب اپنے اپنے کام کرتے ہیں۔‘‘ راستے بھر ہم لوگ باتیں کرتے آئے اور پھر دھونی مسجد پہنچ گئے۔ صبح ;ہونے میں دیر ہی کتنی رہ گئی تھی۔ پھر بستی کے سرے میں قدم رکھا تو مسجد سے اذان کی آواز سنائی دی اور میرے قدم رک گئے۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’ذرا مسجد کا راستہ اور بتادو مجھے۔‘‘
’’وہ ہے، سیدھے ہاتھ کی سیدھ میں وہ جو روشنی جل رہی ہے۔‘‘ شردھانند نے کہا۔ میں نے مسکراتے ہوئے انہیں دیکھا اور پھر کہا۔ ’’اچھا تو بھائیو! میری منزل وہ ہے۔‘‘
’’دھونی پور میں رہیں گے تو مہاراج؟‘‘
’’دیکھو جو اللہ کا حکم۔‘‘
’’ہم آپ کی سیوا کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’نہیں بھائی تمہارا بے حد شکریہ مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ اچھا اب تم لوگ اپنے گھروں کو جائو میں بھی اپنے اللہ کے گھر کی جانب قدم بڑھاتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا، انہوں نے ہاتھ جوڑ کر میرے سامنے گردنیں جھکادیں اور عقیدت سے واپس چل پڑے۔ میرا رخ مسجد کی جانب ہوگیا تھا۔
مسجد زیادہ فاصلے پر نہیں تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد میں وہاں پہنچ گیا۔ چھوٹی چھوٹی تقریباً
فٹ اونچی دیواریں چاروں طرف بنی ہوئی تھیں۔ احاطہ وسیع تھا اور مسجد کی اصل عمارت بہت چھوٹی۔ احاطے میں تھوڑے فاصلے پر ایک چبوترہ بلند ہوگیا تھا۔ بائیں طرف ہاتھ سے چلنے والا نلکا لگا ہوا تھا اور اس کے بعد ایک سمت گھروں کا سا منظر تھا۔ یقینی طور پر مسجد کا حجرہ ہوگا۔ مولوی صاحب ابھی تک بلندی پر اذان دے رہے تھے غالباً یہ مسجد کی چھت کا حصہ تھا جہاں وہ موجود تھے۔ ایک سمت سے سیڑھیاں نیچے اتر رہی تھیں۔ میں نے کمبل ایک سمت رکھا جوتے اتارے، ہاتھ سے نلکا چلایا اور وضو کرنے بیٹھ گیا۔ اذان ختم ہوچکی تھی، غالباً مولوی صاحب نیچے اتر رہے تھے، میں نے وضو سے فراغت حاصل کرکے کمبل سنبھال کر بغل میں دبایا اور اس کے بعد ایک سمت بڑھ گیا۔ مولوی صاحب میری ہی طرف آگئے تھے۔ میں ان کے احترام میں کھڑا ہوگیا۔ چوڑا چکلا جسم اور معمر آدمی تھے، بڑی سی داڑھی سینے پر بکھری ہوئی تھی اور آنکھوں میں چمک تھی، مجھ سے بولے۔
’’مسافر معلوم ہوتے ہیں حضرت۔‘‘
’’جی مولوی صاحب۔‘‘
’’ابھی ابھی بستی میں داخل ہوئے ہیں؟‘‘
’’جی ہاں بس یوں سمجھ لیجئے… کہ آپ کے منہ سے اذان کی آواز نکلی اور میں نے آپ کی بستی میں پہلا قدم رکھا۔‘‘
’’خوش آمدید… میرا نام حمیداللہ ہے۔‘‘
’’خاکسار کو مسعود احمد کہتے ہیں۔‘‘
’’نمازی آنے والے ہیں ذرا انتظامات کرلوں اس کے بعد آپ سے گفتگو رہے گی۔ نماز کے بعد چلے نہ جائیے گا۔ صبح کا ناشتہ میرے ساتھ کیجئے گا۔‘‘
’’بہتر۔‘‘ میں نے جواب دیا اور ایک گوشے میں جابیٹھا۔ آنکھیں بند کیں اور درود شریف کا ورد شروع کردیا۔ مولوی صاحب مجھ سے ملنے کے بعد کہیں چلے گئے تھے۔ کچھ دیر کے بعد مسجد کے دروازے سے نمازیوں کا داخلہ شروع ہوگیا۔ نلکا چلنے کی آوازیں ابھرتی رہیں۔ کوئی بیس بائیس افراد جمع ہوگئے۔ مولوی صاحب بھی تیار ہوکر واپس آگئے اور پھر میں نے نماز باجماعت ادا کی۔ نماز سے فراغت کے بعد نمازی تو ایک ایک کرکے چلے گئے، بہتر جگہ اور کون سی ہوسکتی تھی چنانچہ میں وہیں بیٹھا رہا اور درود شریف کا ورد کرتا رہا۔ مولوی صاحب میرے قریب آگئے تھے کہنے لگے۔ ’’آئیے مسعود صاحب تشریف لائیے، چائے تیار ہوگئی ہے ناشتہ کچھ دیر کے بعد پیش کیا جائے گا۔‘‘
’’زحمت ہوگی آپ کو…‘‘
’’نہیں۔ مہمان رحمت خداوندی ہوتے ہیں اور پھر اتنی صبح ہماری بستی میں داخل ہونے والا مہمان تو ہمارے لئے بڑا باعث رحمت و برکت ہوسکتا ہے۔ آئیے تکلف نہ کیجئے، مجھے میزبانی کا شرف بخشیئے۔‘‘
میں مولوی صاحب کے پیچھے چل پڑا۔ مسجد کا وہ بغلی حصہ جسے میں گھروں کا سلسلہ سمجھا تھا ایک سرے سے دوسرے سرے تک مولوی صاحب ہی کے پاس تھا۔ اندرونی حصے میں شاید ان کے اہل خانہ کی رہائش تھی، تھوڑا سا برآمدہ تھا، اس کے بعد وسیع و عریض صحن، جس میں املی کے بڑے بڑے درخت لگے ہوئے تھے اور ان کی چھائوں بہت بھلی معلوم ہورہی تھی۔ سورج ابھی پوری طرح بلند نہیں ہوا تھا لیکن اجالا تیزی سے پھیل رہا تھا۔ مولوی صاحب نے کچی مٹی کے پیالے میں چائے پیش کی اور میں نے اسے قبول کرلیا۔ مولوی حمیداللہ میرے سامنے بیٹھ گئے تھے، بغور مجھے دیکھتے رہے پھر بولے۔ ’’میاں برا نہ مانئے گا ہماری اور آپ کی عمروں میں جتنا فرق ہے اس کے تحت اگر کہیںکوئی تھوڑی سی بے تکلفی کی گفتگو ہوجائے تو برا نہ محسوس کریں۔‘‘
’’نہیں مولوی صاحب۔ بزرگ ہیں آپ میرے۔‘‘
’’کہنا یہ چاہتے تھے کہ ویسے تو آپ ایک عام سے نوجوان ہیں، لیکن نجانے کیوں آپ کے چہرے میں ایک خاص بات محسوس ہوتی ہے ہمیں…‘‘
’’کیا عرض کرسکتا ہوں؟‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’مزید تعارف نہ ہوگا…؟‘‘
’’کوئی ایسی شخصیت نہیں ہے میری جو قابل تعارف ہو، بس یوں سمجھ لیجئے کہ صحرا نورد ہوں، نجانے کہاں کہاں گھومتا رہتا ہوں۔ میں اچانک اس بستی کی جانب نکل آیا۔ علم بھی نہیں تھا کہ کون سی بستی ہے یہ اور پھر آپ نے اذان دے دی…‘‘
’’کہیں نہ کہیں تو رہائش ہوگی آپ کی۔ کوئی نہ کوئی تو مشغلہ ہوگا…!‘‘
’’بس یہی مشغلہ ہے۔ اس سے زیادہ کیا کہوں۔‘‘
مولوی حمیداللہ صاحب گہری نگاہوں سے مجھے دیکھتے رہے، چائے کے گھونٹ لیتے رہے۔ پھر انہوں نے کہا۔ ’’میاں ایک گزارش کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’جی جی، کہئے…‘‘
’’اب اس بستی میں تشریف لائے ہیں آپ تو کچھ وقت ضرور میرے ساتھ اس بستی میں قیام کیجئے گا، مجھے خوشی ہوگی۔‘‘
’’اور مجھے ندامت…‘‘ میں نے کہا۔
’’کیوں…؟‘‘
’’اس لیے کہ آپ کو زحمت ہوگی۔‘‘
’’اب ان تکلّفات کی گنجائش نہیں ہے۔ مسعود صاحب میری درخواست ہے، جب تک بھی ممکن ہوسکا، آپ یہاں قیام فرمائیے گا۔ دیکھئے یہاں املی کے درخت کے نیچے چارپائی ڈلوادوں گا آپ کی۔ آرام سے قیام کریں اور پھر ہمارا کیا جاتا ہے۔ اللہ کی سمت سے رزق حاصل ہوتا ہے اور ہم سب کھاتے ہیں، آپ کا اضافہ ہوگا تو یقینی طور پر رزق میں بھی اضافہ ہوجائے گا۔‘‘ میں نے مسکراکر گردن ہلادی۔
تقریباً ساڑھے آٹھ بجے حمیداللہ کے گھر سے پراٹھے اور ترکاری آگئی ساتھ میں چائے بھی تھی۔ میں نے ان کے ساتھ ناشتہ کیا۔ حمیداللہ صاحب کہنے لگے… ’’اور اگر صبح کے اس حصے میں آپ یہاں پہنچے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ رات بھر سفر کیا ہوگا۔ اب مناسب یہ ہے کہ ظہر کے وقت تک آرام فرمائیے گا اگر نیند گہری ہوگئی تو میں نماز کے وقت جگادوں گا۔‘‘
میں نے قبول کرلیا تھا۔ املی کے درخت کے نیچے پڑی ہوئی چارپائی پر لیٹ گیا۔ کمبل سرہانے رکھ لیا اور آنکھیں بند کرکے یہ تصور کرنے لگا کہ اب مجھے کیا کرنا چاہئے۔
ذہن میں خیالات بیدار ہونے لگے۔ حکم ملا کہ ابھی یہاں قیام کرنا ہے۔ بڑی حیرانی ہوئی تھی یہ میری اپنی آواز تھی جو میرے کانوں میں گونجی تھی۔ ایسا کیوں ہے۔ مجھے اپنی ہی آواز خود سے دور کیوں محسوس ہوتی ہے۔
’’یہ سب کچھ جاننا ضروری نہیں ہے۔ کچھ باتوں کو جاننے کے لیے وقت متعین ہوتا ہے۔ سوجائو۔‘‘ مجھے پھر اپنی آواز سنائی دی اور میں نے آنکھیں بند کرلیں۔ اب کسی انحراف کا تصور بھی ممکن نہیں تھا۔ دوپہر کو مولوی حمیداللہ نے جگایا اور میں اٹھ گیا۔ مولوی صاحب بولے۔
’’مسعود میاں۔ ساڑھے بارہ بجے ہیں۔ خوب سوئے اب جاگ جائیے۔‘‘
میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔ ’’ساڑھے بارہ بج گئے؟‘‘ میں نے حیرانی سے پوچھا۔
’’ہاں۔ غسل کریں گے…؟‘‘
’’اگر زحمت نہ ہو تو۔‘‘
’’نہیں۔ گرم حمام موجود ہے۔ زحمت کیسی۔ یہ اور بتادیں کہ کھانا نماز کے بعد کھائیں گے یا پہلے۔‘‘
’’بعد میں ہی مناسب رہے گا ورنہ جو حکم ہو۔‘‘
’’میں خود بھی نماز کے بعد کھاتا ہوں۔ آئیے حمام بتادوں۔‘‘
غسل سے فارغ ہوکر باہر نکلا۔ مسجد کے دروازے کے باہر سے کچھ آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ میں نے غور نہیں کیا۔ اپنی جگہ جا بیٹھا۔ کچھ دیر کے بعد مولوی حمیداللہ صاحب مسکراتے ہوئے آگئے۔
’’کہیئے نیند پوری ہوگئی۔‘‘
’’اللہ کا احسان ہے۔‘‘
کچھ پوچھ سکتا ہوں۔‘‘
’’جی فرمائیے…؟‘‘
’’یہ سر کٹے کا کیا قصہ ہے۔‘‘
’’خیریت۔ کیا ہوگیا…؟‘‘
’’صبح دس بجے سے لوگوں کا تانتا لگا ہوا ہے۔‘‘
’’کیوں…؟‘‘
’’آپ کو علم نہیں ہے۔ کسی سر کٹے کو جلاکر راکھ کردیا ہے آپ نے۔‘‘
’’اوہو… وہ… جی ہاں۔ بس وہ اللہ کے کلام سے ٹکرانے آگیا تھا۔ ویسے بھی خلق اللہ سے دشمنی کررہا تھا۔‘‘
’’میں ایک جاہل دیہاتی ہوں مسعود احمد صاحب۔ میرا کوئی امتحان نہ لے ڈالیے گا۔ اللہ کے واسطے۔‘‘
’’کوئی گستاخی ہوگئی محترم…؟‘‘ میں نے پریشانی سے پوچھا۔
’’شرمندہ نہ کریں مسعود احمد صاحب، اپنے بارے میں عرض کررہا ہوں مجھ سے گستاخی
ہوجائے تو درگزر فرمائیے۔‘‘
’’آپ کیسی باتیں کررہے ہیں۔ آپ بزرگ ہیں اور پھر آپ نے بڑی خاطر داری کی ہے میری۔ ویسے یہ سرکٹا۔‘‘
’’جی ہاں۔ خبیث روح تھی۔ لال تالاب پر کوئی بیس سال سے قبضہ جما رکھا تھا۔ ذات کا دھوبی تھا مگر بڑا سرکش اور کمینہ انسان تھا۔ اس نے مشتعل ہوکر اپنے باپ کو قتل کردیا تھا۔ ماں اس واقعے سے متاثر ہوکر کنویں میں کود کر مرگئی۔ بستی والوں نے بستی سے نکال دیا تو تالاب کے پاس جاکر رہنے لگا۔ یہاں اسے سانپ نے ڈس لیا اور کوئی بارہ پندرہ دن کے بعد اس کی سڑی ہوئی تعفن زدہ لاش کا پتہ چلا۔ لوگوں نے اسے ہاتھ بھی نہ لگایا اور وہ وہیں مٹی ہوگئی مگر پھر راتوں کو اور دوپہر کی چلچلاتی دھوپ میں اسے تالاب کے کنارے چھورام چھورام کرتے دیکھا جانے لگا۔ ادھر سے گزرنے والے بے شمار افراد کو اس نے اپنی خباثت کا شکار بنایا۔ کافی خوف و ہراس چھایا رہتا ہے اس کی وجہ سے۔ مجبوری یہ ہے کہ بستی سے باہر کا راستہ ایک ہی ہے۔ دھونی پور کے لوگ اس سے بہت خوفزدہ رہتے ہیں۔ دوپہر کو بارہ بجے سے تین بجے تک کوئی ادھر سے نہیں گزرتا اور شام کو سورج چھپنے کے بعد سے صبح سورج نکلے ادھر سے سفر نہیں کیا جاتا۔ کوئی بھولا بھٹکا گزر گیا تو بس اس کا شکار ہوگیا۔‘‘
’’خدا کا شکر ہے۔ موذی سے نجات ملی۔‘‘ میں نے کہا۔
’’لوگ صبح سے آرہے ہیں۔ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’اوہ۔ یہ ایک تکلیف دہ پہلو ہے۔‘‘
’’ٹالتا رہا ہوں کہ آپ سو رہے ہیں۔ مگر ملنا پڑجائے گا آپ کو… بڑی عقیدت سے آرہے ہیں۔ کچھ مقامی لوگ آپ کے ساتھ تھے۔ انہوں نے پورا واقعہ بتایا بستی والوں کو۔ یوں سمجھ لیں پوری بستی میں کاروبار بند ہے لوگ جوق در جوق لال تالاب جارہے ہیں۔ وہاں اس کے زمین میں زندہ جل جانے کا نشان موجود ہے…!‘‘
’’اللہ کا یہی حکم تھا اس کے لیے، مگر اب میں کیا کروں…؟‘‘ میں نے پریشانی سے کہا۔
’’بس ایک بار مل لیں ان سے۔ ویسے بھی کسی کا دل رکھنا عبادت ہے۔‘‘
’’چلیے…!‘‘
’’ابھی مناسب نہ ہوگا۔ میں اعلان کیے دیتا ہوں کہ نماز کے بعد آپ باہر آئیں گے۔‘‘
’’نہیں۔ اس میں رعونت کا پہلو جھلکتا ہے۔ آئیے ان سے ملاقات کرلیں۔‘‘
’’سبحان اللہ۔ آئیے۔‘‘ حمیداللہ صاحب بولے اور میں ان کے ساتھ باہر نکل آیا، بیس بائیس افراد تھے، زیادہ تر ہندو تھے چند مسلمان۔ مولوی حمیداللہ نے کہا۔ ’’لیجئے ٹھاکر جیون کمار جی۔ مل لیجئے مسعود میاں سے۔‘‘
’’ہیں… یہ ہیں وہ مہان پرش۔ چرن چھوئیں گے ہم ان کے۔‘‘ ٹھاکر صاحب نے کہا اور آگے بڑھے۔ میں نے پیچھے ہٹتے ہوئے کہا۔
’’آپ مجھ سے ہاتھ ملائیں ٹھاکر صاحب میرے گلے لگیں۔ میں اتنا بڑا انسان نہیں ہوں کہ آپ میرے پائوں چھوئیں۔‘‘
’’آپ نے جتنا بڑا کام کیا ہے میاں جی وہ تو ایسا ہے کہ ہم آپ کو سر پر بٹھائیں۔ دھونی بستی کو نیا جیون دیا ہے آپ نے۔‘‘
’’اس کے لیے آپ اپنے بھگوان کا اور مسلمان اللہ کا شکر ادا کریں۔ میں تو بس ایک ذریعہ بنا ہوں۔ مجھے تو اس خبیث کا علم بھی نہیں تھا۔ آپ کی بستی کے چار جوان مجھے اس کے سامنے لے آئے۔‘‘
’’وہ پھر تو نہ جی جائے گا مہاراج۔‘‘
’’ان شاء اللہ اب ایسا نہ ہوگا…!‘‘
’’ہم بستی والے آپ کی کیا سیوا کریں مہاراج۔ آپ نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے۔‘‘
’’مجھے صرف آ پ کی دعائیں درکار ہیں۔‘‘
’’آپ ابھی جائیں گے تو نہیں مہاراج۔‘‘
’’نہیں۔ مولوی حمیداللہ صاحب کے حکم کے بغیر میں یہاں سے نہیں جائوں گا…!‘‘
’’ہم آپ کے چرنوں میں کچھ بھینٹ کریں گے۔‘‘
’’مجھے آپ کی دعائوں کے سوا کچھ نہیں چاہئے۔‘‘
’’ہم آپ سے پھر مل سکتے ہیں مہاراج…؟‘‘
’’جہاں حکم دیں گے حاضری دوں گا!‘‘
’’نماز کا وقت ہونے والا ہے ٹھاکر صاحب! اب اجازت دیجئے…!‘‘ حمیداللہ صاحب نے کہا اور سب مجھے سلام کرکے واپس چلے گئے۔ نماز پڑھی۔ کھانا کھایا اور اس کے بعد حمیداللہ صاحب املی کی چھائوں میں میرے پاس آبیٹھے…
’’چراغ تلے اندھیرا ہے مسعود احمد صاحب۔ میں نے خود تو آپ کو خراج عقیدت پیش ہی نہیں کیا۔ اپنے بارے میں مختصر بتادوں۔ اسی بستی میں پیدا ہوا۔ یہیں پروان چڑھا والد صاحب کا منصب سنبھالا، دو جوان بیٹیوں کا باپ ہوں۔ اہلیہ ہیں اور میں ہوں۔ بس اللہ کا نام جانتا ہوں اس سے زیادہ کچھ نہیں…!‘‘
’’اس سے زیادہ کچھ ہے بھی نہیں حمیداللہ صاحب۔ اللہ آپ کی مشکلات دور کرے۔‘‘
یہاں آکر خوشی ہوئی تھی جھگیوں کی بستی تھی۔ لوگوں نے بڑا احترام کیا تھا جوق در جوق ملنے آتے رہے تھے۔ بہت کچھ چاہتے تھے مجھ سے۔ میں خود شرمندہ ہوگیا تھا۔ نماز وغیرہ سے فراغت کرکے رات کا کھانا کھایا بہت دیر تک لوگوں کے درمیان بیٹھا رہا۔ پھر زیادہ رات ہوئی تو آرام کرنے لیٹ گیا۔ نہ جانے کیا کیا سوچتا رہا تھا… پھر غنودگی طاری ہوگئی۔ دفعتاً ہی کچھ آہٹیں ابھریں اور آنکھیں کھل گئیں۔ نظر سامنے اٹھ گئی۔ احاطے کی دیوار پر دو پائوں لٹکے ہوئے تھے۔ صرف دو پائوں جو عجیب سے انداز میں جنبش کررہے تھے باقی جسم کا وجود نہیں تھا۔
آنکھیں پوری طرح کھل گئیں… پھر کوئی آ گیا… پھر کچھ کرنا ہے… غور سے دیکھنے لگا پھر کچھ تصوّر بدلا، خالی پائوں نہیں تھے باقی بدن بھی تھا جس جگہ سے احاطے کی دیوار نظر آ رہی تھی، وہاں اِملی کے درخت کی گھنی شاخیں جھکی ہوئی تھیں اور جو کوئی دیوار پر تھا اس کا باقی جسم پتوں کی آڑ میں چھپا ہوا تھا یہ اس وقت پتا چلا جب وہ نیچے کودا، شاید کمزور بدن کا مالک تھا چونکہ زیادہ بلندی نہ ہونے کے باوجود وہ نیچے گر پڑا تھا، میں خاموش لیٹا یہ کھیل دیکھتا رہا۔ وہ اُٹھ کر میری طرف بڑھنے لگا اور پھر میرے قریب آ گیا۔ آنکھوں میں جھری کر کے میں اسے دیکھنے لگا۔ دھوتی کرتا پہنے ہوئے ایک سفید بالوں والا شخص تھا۔ مونچھیں بڑی اور سفید تھیں، کچھ سمجھ میں نہیں آیا کون ہے وہ، میرے پلنگ کے پاس کھڑا مجھے دیکھتا رہا پھر اس نے لرزتے ہاتھ سے میرے پائوں کا انگوٹھا پکڑ کر ہلایا اور اس کی آواز اُبھری۔
’’مہاراج… جاگیے مہاراج… سوالی آیا ہے اور آپ سو رہے ہیں جاگیے مہاراج۔‘‘
اب اُٹھنا ضروری تھا میں اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس نے دونوں ہاتھ جوڑے اور زمین پر بیٹھ گیا، تب میں جلدی سے اپنی جگہ سے اُترا اور میں نے اسے بازو سے پکڑ کر اُٹھاتے ہوئے کہا۔ ’’ارے… ارے… یہ کیا کر رہے ہیں آپ یہاں بیٹھئے مجھے گناہ گار کر رہے ہیں۔‘‘
’’بھگوان سکھی رکھے جسے بھگوان عزت دیتا ہے وہ دُوسروں کو عزت دیتا ہے مگر میں آپ کے چرنوں میں بیٹھنا چاہتا ہوں۔ سوالی ہوں، مجبور ہوں، دُکھی ہوں، آپ کے سائے میں سر جھکا کر آپ سے مدد مانگنے آیا ہوں۔‘‘
’’آپ آرام سے یہاں بیٹھیں اور مجھے بتائیں کیا بات ہے۔‘‘ میں نے اسے اُٹھا کر پلنگ پر بٹھا دیا۔
’’اَنا کا مارا ہوا ہوں مہاراج… پر دوش اکیلے میرا نہیں ہے، پرکھے ہی سکھا کر گئے تھے، وہ تو ایک معیار بتا کر چلے گئے نقصان مجھے ہوا اور اب سچ بھی بولوں گا تو لوگ مذاق اُڑائیں گے میرا، کوئی سچ نہ مانے گا سب یہی کہیں گے کہ ٹھاکر پر بپتا پڑی تو سیدھا ہوگیا ہے بھگوان… میرا کوئی ہمدرد نہیں رہا سنسار میں…‘‘
(جاری ہے)