’’آپ مجھے بس وہاں تک کا پتا بتا دیجئے گا۔‘‘ میں نے حمید اللہ صاحب سے اتفاق کرلیا۔ رات کو حمید اللہ صاحب نے میرے ساتھ جانا چاہا لیکن میں نے ان سے درخواست کی کہ وہ مجھے تنہا جانے دیں یہ ضروری ہے۔ مجبوراً وہ رُک گئے، البتہ انہوں نے مجھے بڑی وضاحت سے حویلی کا پتا بتا دیا تھا۔ میں چل پڑا، حمید اللہ صاحب نے سچ کہا تھا پوری بستی شہر خموشاں بنی ہوئی تھی۔ کتّے تک نہیں بھونک رہے تھے۔ اِکّا دُکّا گھروں میں سے روشنی جھلک رہی تھی۔ ورنہ زیادہ تر گھر تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ کبھی کسی گھر سے بچّے کے رونے کی آواز سنائی دے جاتی اور پھر خاموشی پھیل جاتی۔ میں بستی کے ایک کھلے میدان میں نکل آیا جہاں میدان کے بیچوں بیچ ایک چبوترا نظر آ رہا تھا جس کے عین درمیان ایک بڑ کا درخت پھیلا ہوا تھا۔ درخت کے نیچے ایک دیا روشن تھا اور اس کی لرزتی روشنی میں کچھ لوگ بیٹھے نظر آ رہے تھے۔ حمید اللہ صاحب نے اس درخت کے بارے میں بھی بتایا تھا سیدھے چلنا تھا اور میدان کے اختتام سے بائیں ہاتھ مڑ جانا تھا مگر میں نے سوچا ان بیٹھے ہوئے لوگوں سے اور تصدیق کر لوں چنانچہ ان کی طرف بڑھ گیا۔ قریب پہنچ کر اندازہ ہوا کہ وہ عورتیں تھیں، لہنگا اور چولی پہنے ہوئے سوگوار بیٹھی ہوئی تھیں، ان سے کوئی دو گز کے فاصلے پر ایک شخص گھٹنوں سے اُونچی دھوتی باندھے اور شلوکا پہنے گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھا تھا، درمیانی عورت کی گود میں ایک تقریباً سات سال کا بچہ سو رہا تھا، ان کے اس انداز پر مجھے حیرت ہوئی نہ جانے بے چارے کس مصیبت کا شکار تھے۔
’’کیا بات ہے بہنو… یہاں کیسے بیٹھی ہو۔‘‘
’’دھیرا ارتھی مانگ رہا ہے میں اسے ارتھی کہاں سے دوں۔‘‘ اس عورت نے کہا جو بچّے کو گود میں لیے بیٹھی تھی۔
’’کیا مانگ رہا ہے۔‘‘ میں کچھ نہ سمجھ کر بولا۔ میں نے جھک کر بچّے کو دیکھا اور پھر بُری طرح چونک پڑا، بچّے کے جسم پر لباس نام کی کوئی چیز نہیں تھی، اس کا جسم اکڑا ہوا تھا اور کوئلے کی طرح سیاہ ہو رہا تھا، اس کے جسم میں زندگی کی کوئی رَمق نہیں تھی چہرے کے نقوش تک جل کر بگڑ چلے تھے۔
’’ارتھی… ارتھی کہاں سے لائوں ارتھی۔‘‘ عورت نے جھنجھلا کر کہا دفعتاً بچّے نے گردن اُٹھائی اور پھٹی پھٹی آواز میں۔ ’’ہیں… ہیں۔‘‘ کر کے رونے لگا پھر بھیانک آواز میں بولا۔ ’’بپو… ارتھی… ارتھی۔‘‘ پھر اس کی گردن اپنی جگہ پہنچ گئی، اسی وقت گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھے شخص نے گردن اُٹھا کر کہا۔
’’میں بتاتا ہوں میاں جی… سنو میں بتائوں بستی کے بیس گھر جل گئے تھے، چار ہمارے ناتے داروں کے تھے وہ بے چارے اپنی مصیبت میں پڑ گئے، کریا کرم کون کرتا ہمارا، کتّے کی طرح جلے ہوئے شریر گھسیٹے اور شمشان ڈال آئے، چتائیں تو جیتے جی پھنک گئی تھیں ہماری… بڑے تو سمجھدار تھے مگر دھیرا بچہ ہے ضد کرتا ہے پگلا کہیں کا…! جائو تم اپنی گیل کھوٹی مت کرو خود چپ ہو جائے گا سسرا۔‘‘ اس نے کہا اور گردن دوبارہ گھٹنوں میں دبا لی۔
میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے، کچھ کچھ سمجھ میں آ رہا تھا، حقیقت کا اندازہ ہو رہا تھا، میں دو قدم آگے بڑھا اور گھٹنوں میں سر دیئے آدمی کے قریب پہنچ گیا۔
’’تم لاکھو ہو۔‘‘ میں نے پوچھا اور اس نے پھر سر اُٹھا لیا۔ اس بار اس کا چہرہ اور بھیانک نظر آنے لگا۔
’’ہیں ناہیں تھے، میاں جی تھے… ایک اُونچی جات والے نے… سب رے مار دیئے، سب بھسم کر دیئے، کتوں نے کھوپڑیاں پھاڑ دیں ہماری دیکھو یہ دیکھو۔‘‘ اس نے سر جھکا دیا، اس کا سر دو حصوں میں تقسیم ہوگیا اور پھر وہ اوندھے منہ چبوترے پر گر گیا، اس کے بدن سے دُھواں اُٹھنے لگا، فضا میں گوشت کی چراند پھیل گئی تھی، دُھویں نے ان عورتوں کو بھی لپیٹ میں لے لیا اور میں بدبو اور دُھویں سے گھبرا کر کئی گز پیچھے ہٹ گیا۔ آنکھیں اور ناک بند کر لینے پڑے تھے، پھر ناک بند کرنے سے دم گھٹا تو ہاتھ ہٹا لیا مگر چبوترہ خالی پڑا تھا، نہ عورتیں تھیں نہ بچہ، نہ لاکھو اور نہ ہی چراغ… تاریکی میں لپٹا بڑ کا درخت بھیانک سنّاٹے میں تنہا کھڑا تھا…! یہ منظر بہتوں کی جان لے سکتا تھا، ہو سکتا ہے یہ خبیث رُوحیں اکثر لوگوں کو نظر آتی ہوں۔ ٹھنڈی سانس لے کر وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ میدان عبور کر کے جب بائیں طرف مڑا تو پرانی طرز کی حویلی نظر آ گئی۔ یقیناً دھونی بستی کی سب سے بڑی عمارت تھی۔ حویلی کے دروازے پر روشنی نظر آ رہی تھی لیکن پوری حویلی پر خاموشی طاری تھی، میں آگے بڑھ کر حویلی کے بڑے دروازے پر پہنچ گیا۔ ’’کوئی ہے بھائی میاں… کوئی ہے۔‘‘ میں نے آواز لگائی لیکن کوئی جواب نہیں ملا، تیسری آواز پر کچھ آہٹیں سُنائی دیں اور پھر گیٹ کی ذیلی کھڑکی کھل گئی۔ سفید موٹے کھیس میں لپٹے ہوئے ایک شخص نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی لالٹین اُونچی کر کے میرا چہرہ دیکھنے کی کوشش کی پھر ناخوشگوار لہجے میں کہا۔
’’کون ہو بھیا تم…؟‘‘
’’یہ بنسی راج کی حویلی ہے؟‘‘
’’نا تمہاری ہے… لے جائو اُٹھا کر… ارے تم ہو کون۔‘‘ چڑچڑے آدمی نے پوچھا۔
’’مجھے بنسی راج سے ملنا ہے۔‘‘
’’کیوں ملنا ہے؟‘‘
’’بلایا ہے انہوں نے مجھے۔‘‘
’’آدھی رات کو بلایا ہے، جھوٹ بولو ہو۔‘‘
’’اگر وہ حویلی میں موجود ہیں تو انہیں خبر دے دو کہ جسے انہوں نے بلایا تھا، وہ آیا ہے۔‘‘
’’آئو۔‘‘ اس نے کہا اور میں اندر داخل ہوگیا۔ اتنی رات تو نہیں ہوئی ہے کہ یہاں یہ سنّاٹا قائم ہو جائے مگر ظاہر ہے چھوٹی آبادی ہے اور پھر حویلی کی فضاء میں خوف و ہراس چھایا ہوا ہے، سب لوگ کونوں کھدروں میں گھسے ہوئے ہوں گے۔ یہ شخص غالباً چوکیدار تھا اور خود بھی سوتے سے اُٹھ کر آیا تھا اسی لیے بگڑا ہوا تھا۔ بڑے گیٹ سے حویلی کے اصل رہائشی علاقے کا فاصلہ اچھا خاصا تھا، چوکیدار میرے آگے آگے چلتا رہا۔ سامنے کی سمت سے جانے کی بجائے اس نے بغلی سمت اختیار کی۔ غالباً مختصر راستے سے لے جا رہا تھا۔ میرا اندازہ دُرست نکلا اور وہ چند سیڑھیاں چڑھ کر اندر ایک غلام گردش میں داخل ہوگیا۔ نیم تاریک راستے پر وہ آگے بڑھتا رہا، کئی موڑ مڑے آگے بالکل اندھیرا تھا اگر اس کے ہاتھ میں لالٹین نہ ہوتی تو آگے بڑھنا مشکل ہو جاتا۔
’’تم مجھے بنسی راج کے پاس لے جا رہے ہو یا پوری حویلی گھما رہے ہو۔‘‘
’’پوری حویلی تو تم ساری رات میں نہ گھوم سکو گے مہاراج۔‘‘ چوکیدار نے عجیب سے لہجے میں ہنستے ہوئے کہا۔ ’’اور کتنا چلنا ہے؟‘‘
’’آئو…!‘‘ اس نے ایک جگہ رُک کر کہا۔ کچھ نظر نہیں آ رہا تھا اس نے لالٹین نیچے رکھی اور شاید کوئی دروازہ کھولنے لگا پھر دوبارہ لالٹین اُٹھا کر بولا۔ ’’آئو اندر چل کر بیٹھو… مہاراج کو خبر کر دوں۔‘‘
’’لعنت ہے۔‘‘ میں نے کہا اور دروازے کو ٹٹول کر اندر داخل ہوگیا۔ ’’یہاں روشنی نہیں ہے۔‘‘ میرے منہ سے نکلا۔ مگر اس کے ساتھ ہی اگلا پائوں خلاء میں لہرایا ایک دم توازن بگڑ گیا، سنبھلنے کی کوشش کی لیکن نہ سنبھل سکا اور دُوسرے لمحے میرا بدن خلاء میں نیچے جا رہا تھا، میں نے بے اختیار دونوں طرف ہاتھ مارے مگر پکڑنے کے لیے کچھ نہیں تھا، میں کسی گہرے کنویں میں گر رہا تھا۔
چند لمحات کے لئے سوچنے سمجھنے کی قوتیں سلب ہو گئیں، کلیجہ حلق میں آ گیا۔ اسی احساس کا شکار تھا کہ اتنی گہرائی میں گروں گا تو جسم کا کیا حشر ہو گا۔ گہرائیاں ختم ہوئیں مگر آخری لمحات میں جیسے بدن ٹھہر گیا، پائوں سیدھے ہو گئے اور پھر پیروں کے نیچے زمین محسوس ہوئی، گویا دبائو نہیں پڑا تھا، بدن ساکت ہو گیا تھا لیکن
گھور تاریکی تھی، کچھ نظر نہیں آ رہا تھا، یہ کیفیت بھی کچھ لمحات رہی پھر آہستہ آہستہ اجالا سا ابھرنے لگا، آس پاس نظر آنے لگا، یہ کنواں تو نہیں تھا۔ اچھی خاصی وسیع و عریض جگہ تھی، گھسے ہوئے گول پتھر چاروں طرف بکھرے ہوئے تھے، میں بھی ایک بڑے پتھر پر کھڑا ہوا تھا البتہ اوپر کچھ نہیں نظر آ رہا تھا، آسمان کا احساس بھی نہیں ہوتا تھا، کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کیا کروں۔ کیا تھا یہ سب… چوکیدار کون تھا۔ بدن کو جنبش دی، پائوں آگے بڑھائے اور انہیں پتھروں پر جماتا ہوا آگے بڑھا۔ کوئی تیس چالیس قدم نکل آیا، اب چاروں طرف مدھم سی روشنی پھیل گئی تھی۔ یہ روشنی نہ تو تاروں کی چھائوں تھی، نہ کسی مصنوعی شے سے پیدا ہوئی تھی بس آنکھوں کو نظر آ رہا تھا لیکن آس پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ پھر اچانک عقب سے کسی کے پتھروں پر چلنے کی آواز آئی اور میں چونک کر پلٹ پڑا۔ ایک انسانی جسم تھا لباس سے بے نیاز سیاہی مائل… میری طرف آ رہا تھا۔ میں اسے دیکھتا رہا۔ جب وہ قریب آیا تو دل پر ہلکا سا اثر پڑا۔ سب کچھ مکمل تھا مگر چہرے پر کچھ نہیں تھا۔ ناک، نہ آنکھیں، نہ ہونٹ۔ بس بے خدوخال کا ایک گول سا چہرہ نظر آ رہا تھا۔ مجھ سے کچھ فاصلے پر وہ رک گیا۔
’’کون ہو…؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ماما ہیں توہار… تے کون رہے؟‘‘ آواز آئی۔
’’بھانجا ہوں تمہارا۔‘‘ میں بے اختیار مسکرا پڑا۔ ویسے یہ آواز اس چوکیدار کی بھی نہیں تھی جس نے مجھے فریب دے کر یہاں پہنچایا تھا۔
’’ٹھٹھول کرے ہے میاں جی۔ ہمکا جانت ناہے تے… سارا ٹھٹھول نکال دئی ہے۔ ہاں… منتر پڑھویں آئے رہے۔ پڑھ منتر۔ ہم او دیکھیں تورے منترو…!‘‘
’’ہیرا ہو تم…؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’بھٹی میں گیا ہیرا۔ تے حویلی ماں کاہے آئے رہے۔ ادھر توہار کام نا ہوئی ہے۔ ہم کہہ دیت۔ ارے اس پاپی کے لئے گرے ہے تے جس نے ہمرا کا ترسا دئی ہے۔ سب کے سب بدلہ لیں گے اس سے ہاں…!‘‘
’’تم کون ہو… مجھے بتائو؟‘‘ میں نے کہا اور چند قدم آگے بڑھا کر اس کے پاس پہنچ گیا لیکن اچانک ہوا کا ایک جھونکا سا آیا اور میں نے اس کے سیاہ جسم کو بکھر کر زمین پر گرتے ہوئے دیکھا۔ گول چکنے پتھروں پر جلے ہوئے کوئلے کی راکھ بکھری نظر آ رہی تھی۔
’’تو کا کچھ بتانے کی جرورت نا رہے ہمکا… تے اپنی سنبھال۔‘‘ دوسری طرف سے آواز آئی۔ میرے منہ سے ہلکی سی آواز نکل گئی۔ وہ دوسری طرف اسی طرح کھڑا ہوا تھا۔
’’مجھے یہاں کیوں لائے ہو؟‘‘ میں نے سنبھل کر پوچھا۔
’’حویلی ماں بہت سارے رہے ہیں۔ تے ادھر اپنا چکر نا ہی چلائی سکت…!‘‘
’’یہ کونسی جگہ ہے؟‘‘ میں نے پھر قدم آگے بڑھائے اور ہوا کے ساتھ پھر اس کی راکھ بکھر گئی مگر اس کی آواز تیسری سمت سے سنائی دی تھی۔
’’توہار ماما کی سسرال… تے اب جیتے جی یہاں سے ناں نکل سکت…!‘‘
میرا چہرہ اسی طرف گھوم گیا، وہ موجود تھا۔
’’تو مار دو مجھے…!‘‘ میں نے کہا۔
’’ارے ہم کاہے ماریں سسر، بھوک پیاس سے کھود ہی مر جئی ہے۔‘‘ اس نے کہا۔
’’پھر تم یہاں کیوںآئے ہو؟‘‘
’’توہار باپ کی مڑھیار ہے نا… جو ہمکا آنے کو منع کرت ہے۔ ابھی بٹوا سب پتہ چل جئی ہے جب ناگ پھنکاریں گے۔ بچھوا ناچیں گے توہار چاروں طرف…!‘‘
’’ہوں…میں نے تمہیں پہچان لیا۔ سنا تھا تمہارے بارے میں آج دیکھ بھی لیا، بتائوں تم کون ہو…؟‘‘
’’جارے… بتئی ہے… ہونہہ۔‘‘ اس نے حقارت سے کہا۔
’’چھلاوے ہو۔‘‘ میں نے کہا اور دفعتاً ہی ہوا کا جانا پہچانا جھونکا مجھے محسوس ہوا مگر اس بار اس جگہ اس کی راکھ نہیں بکھری تھی بلکہ وہ غائب ہو گیا تھا۔ چوتھی بار اس کی آواز کہیں سے نہ سنائی دی۔ یہ خیال میرے ذہن میں ایسے ہی نہیں آ گیا تھا، بہت پرانی بات تھی۔ اس وقت کی جب میرے ساتھ یہ سب کچھ نہیں ہوا تھا۔ میں معصوم تھا لیکن سمجھدار تھا اور کہانیوں سے دلچسپی رکھتا تھا۔ کسی بزرگ نے ایک چھلاوے کی کہانی سنائی تھی اور بتایا تھا کہ وہ کیا ہوتا ہے اور کیسا ہوتا ہے۔ وہی کہانی یاد آ گئی تھی اور میں نے اسے چھلاوا کہا تھا۔ یہ بھی سنا تھا میں نے اس کہانی میں کہ اگر چھلاوے کو پہچان لیا جائے تو وہ غائب ہو جاتا ہے اور پھر نظر نہیں آتا اور اس وقت یہ سب کچھ بالکل سچ ثابت ہوا تھا۔ وہ سو فیصد چھلاوا ہی تھا مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب میں کیا کروں۔ کیا اس کے الفاظ یہ بتاتے تھے کہ حویلی میں باقاعدہ بری ارواح کا بسیرا ہے اور زیادہ تر لوگ بنسی راج کے ستائے ہوئے ہیں۔ اب یہ تو سوچ نہیں سکتا تھا کہ میں ایک ایسے ظالم آدمی کو نظرانداز کر دوں جس نے بہت سوں پر مظالم کئے ہیں اور اب ان کی سزا بھگت ر ہا ہے کیونکہ مجھے ہدایت مل چکی تھی۔ بعض معاملات میں برا انسان بھی کسی کی وجہ سے کسی طرح بچ جاتا ہے۔ اس کے تین بیٹوں کی تقدیر میں یہی لکھا ہوا تھا، باقی میں نہیں جانتا تھا کہ آگے مجھے کیا کرنا ہے۔ میں نے وہاں سے قدم آگے بڑھا دیئے۔ یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ اس جگہ کی وسعت کتنی ہے۔ پتھروں پر سے گزرتا ہوا میں آگے بڑھتا رہا اور ایک بار پھر مجھے کچھ آوازیں سنائی دیں۔ ذرا سی گہرائی نظر آئی تھی اور میں نے کنارے سے اس سمت دیکھا تھا۔ وہی خاندان موجود تھا جس سے میں بڑ کے درخت کے نیچے مل چکا تھا۔ لڑکے نے آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھا اور لاکھو سے بولا۔
’’بپو ارتھی چاہئے، سیندور چاہئے، گھی چاہئے، لکڑیاں جلا دو بپو، بھوک لگ رہی ہے۔‘‘
لاکھو نے ویسے ہی گردن اٹھائی، ادھر ادھر دیکھا اور پھر جھڑک کر لڑکے سے بولا۔ ’’ارے چپ کر جا انجائی، بھوک لگ رہی ہے، ارتھی چاہئے۔ ارے ہم سب کو نا دیکھ رہا کا، ہمارے پاس کا رہے؟‘‘
’’بپو، بھوکا ہوں۔‘‘ لڑکا بولا۔
’’تو پھر ادھر دیکھ… وہ کھڑا ہے اسے کھا لے، اسی کو کھا لے، میں کا کروں۔‘‘ لاکھو نے کہا اور لڑکے نے بھاڑ سا منہ کھول دیا۔ عجیب و غریب منظر تھا یہ بھی۔ لڑکے کا سر بہت بڑا تھا، بدن سوکھا ہوا تھا اور اتنا سوکھا ہوا تھا کہ یقین نہ آئے۔ سر اسی مناسبت سے بڑا تھا۔ اس نے گول گول آنکھوں سے مجھے دیکھا اور منہ کھول دیا۔ اتنا بڑا منہ، اتنا بڑا کہ ایک اچھی خاصی گیند اس کے منہ میں چلی جائے۔ چہرے پر انتہائی خوفناک تاثرات لئے وہ اپنے سوکھے سوکھے قدموں سے چلتا ہوا میری جانب بڑھا۔ شاید انہیں توقع ہو کہ میرے حلق سے اب دلخراش چیخ بلند ہو گی اور میں پلٹ کر بھاگ نکلوں گا لیکن میں اسے دیکھتا رہا۔ لڑکا آہستہ آہستہ آگے بڑھا اور میرے قریب پہنچ گیا۔ میں نے دونوں ہاتھ پھیلائے اور کہا۔
’’آئو آئو آگے آئو، کھا لو مجھے۔‘‘ ہوا کا بالکل ویسا ہی جھونکا محسوس ہوا اور لڑکا میری نگاہوں کے سامنے سے غائب ہو گیا۔ اب میرے چاروں طرف کچھ بھی نہیں تھا۔ یہ سب دہشت سے مار دینے والے کھیل ہو رہے تھے۔ میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا لیکن یہ محسوس کر رہا تھا کہ یہ سب بیکار سی باتیں ہیں۔ مجھے جو عمل کرنا ہے اس کے لئے وقت ضائع کرنا مناسب نہیں تھا اور اب میں جہاں بھی آ پھنسا ہوں مجھے یہاں سے نکل جانا چاہئے۔ ایک ہی ذریعہ تھا میرے پاس۔ حقیقت یہ ہے کہ بڑا اعتماد تھا مجھے اپنے اس ذریعے پر، انسانی فطرت کے تحت کسی بھی غیرمتوقع بات پر ایک لمحے کے لئے بدن میں ہلکی سی کپکپاہٹ بے شک دوڑ جاتی تھی لیکن اس کے بعد وہ اعتماد بحال ہو جاتا تھا جو مجھے عطا کیا گیا تھا۔ میں نے شانے سے کمبل اتارا اور اسے اپنے گرد لپیٹ کر اپنا چہرہ اس میں چھپا لیا اور میرا خیال بالکل درست ثابت ہوا۔ چند لمحات اسی طرح گزرے اس کے بعد میں نے کمبل چہرے سے ہٹایا اور منظر بدلا ہوا دیکھا۔ حویلی کے بڑے دروازے کے قریب کھڑا ہوا تھا۔ دروازے کا آدھا پٹ
ہوا تھا اور وہ پراسرار جگہ جہاں چوکیدار نے مجھے پہنچا دیا تھا، نگاہوں سے اوجھل ہو چکی تھی۔
میں اس شان کریمی کے قربان ہونے لگا۔ مجھے جو اعتماد بخشا گیا تھا، وہ ناقابل تسخیر تھا۔ بڑے اعتماد کے ساتھ قدم آگے بڑھائے اور حویلی کے کھلے ہوئے دروازے سے اندر داخل ہو گیا۔ چھلاوے اور ارواح خبیثہ اپنی کوششوں میں ناکام ہو چکی تھیں اور مجھے اس سمت روانہ کر دیا گیا تھا جہاں آنا تھا۔
حویلی کی راہداریاں سنسان پڑی ہوئی تھیں، بے شک مجھے کسی رہنما کی ضرورت تھی جو مجھے بنسی راج تک پہنچا دے لیکن شاید یہاں کے لوگوں پر بھی خوف و ہراس طاری تھا۔ جیسا کہ اس چھلاوے نے مجھے بتایا کہ یہاں وہ اکیلا نہیں رہتا، بہت سے رہتے ہیں۔ اس لحاظ سے حویلی میں رہنے والوں کا خون ویسے ہی خشک ہوتا رہتا ہوگا۔ یہی بڑی بات ہے کہ وہ اب بھی اس حویلی میں موجود تھے۔ غرض یہ کہ میں اپنی دھن میں آگے بڑھتا رہا اور پھر ایک ایسے کمرے کے قریب پہنچ گیا جہاں روشنی جھلک رہی تھی۔
گو یہ سب کچھ ایک غیرمناسب عمل تھا لیکن میں نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا تھا۔ میں نے تو باقاعدہ چوکیدار کے ذریعے یہاں آنے کی کوشش کی تھی۔ اب چوکیدار کی جگہ کون تھا، مجھے معلوم تھا۔
روشن کمرے کے دروازے کے سامنے رک کر میں نے دستک دی۔ اندر بے شک روشنی تھی لیکن کوئی آواز نہیں سنائی دی۔ دوسری بار اور تیسری بار دستک دی تو اندر سے ڈری ڈری آوازیں سنائی دینے لگیں۔ پھر کسی نے انتہائی ہمت کر کے بھرائے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’کک …کون ہے، کون ہے؟‘‘ آواز اس قدر ڈری اور سہمی ہوئی تھی کہ ایک لمحے کے لئے تو سمجھ میں بھی نہیں آئی کہ کسی مرد کی ہے یا عورت کی۔ لیکن میں نے پھر دستک دی اور آواز سنائی دی۔
ارے کون ہے، کون ہے؟‘‘ اور اس بار میں نے اس آواز کو پہچان لیا تھا۔ بنسی راج ہی تھا جس کا دم نکلا جا رہا تھا۔ میں نے صاف لہجے میں کہا۔ ’’دروازہ کھولو بنسی راج مہاراج۔ میں مسعود ہوں۔‘‘
’’کک …کون بھائی۔ کون؟‘‘
’’مسعود۔ جس کے پاس تم مولوی حمیداللہ کے گھر ملنے گئے تھے۔‘‘ میرے ان الفاظ نے غالباً بنسی راج کے دل سے خوف دور کر دیا بلکہ کچھ زیادہ ہی دور کر دیا۔ ہلکی سی گرنے کی آواز سنائی دی۔ یوں محسوس ہوا جیسے بنسی راج اپنی جگہ سے اٹھ کر بھاگا ہو اور کسی چیز سے ٹکرا کر گر پڑا ہو۔ پھر دروازے پر آہٹیں سنائی دیں اور ساتھ ہی کسی عورت کی ڈری ڈری آواز۔ ’’ارے دیکھ تو لو، گردن نکال کر دیکھنا، پھر دروازہ کھولنا۔‘‘ یقیناً بنسی راج کی دھرم پتنی ہو گی۔ بنسی راج نے تھوڑی سی جھری کی اور مجھے دیکھنے لگا۔ میں نے آہستہ سے کہا۔
’’بنسی راج میں ہی ہوں۔ میں نے تم سے تمہاری حویلی آنے کا وعدہ کیا تھا نا؟‘‘
’’ہاں، مہاراج۔ آ جایئے۔‘‘ بنسی راج نے کہا اور پورا دروازہ کھول دیا۔ بڑی سی مسہری کے ایک گوشے میں سفید ساڑھی میں ملبوس ایک عورت سکڑی سمٹی بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کے چہرے پر خوف و دہشت کے آثار منجمد تھے اور آنکھوں سے انتہائی ہراس ٹپک رہا تھا۔ بنسی راج نے تیز روشنی جلا دی اور عورت آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر مجھے دیکھنے لگی۔ میں نے آنکھیں بند کر کے گردن خم کرتے ہوئے کہا۔ ’’معافی چاہتا ہوں اس وقت آنے کی لیکن یہی وقت میرے لئے مناسب تھا۔‘‘
’’ارے مہاراج پدھاریئے، پدھاریئے، بھگوان کی سوگند آپ کے بارے میں نہ جانے کیا کیا سوچتا رہا ہوں۔ میں نے پورا دن انتظار کیا، اب تک انتظار کرتا رہا ہوں میں، من ٹوٹ گیا تھا اور میں اپنی دھرم پتنی سے یہ کہہ رہا تھا کہ شاید بھگوان نے ہماری تقدیر میں کوئی اچھائی نہیں لکھی ہے ورنہ مہاراج مسعود ضرور آ جاتے۔‘‘ بنسی راج نے مخصوص بناوٹ کی ایک قیمتی کرسی اٹھا کر میرے سامنے رکھ دی اور میں بیٹھ گیا۔ ’’یہ میری دھرم پتنی چندراوتی ہے، مہاراج یہ بہت دکھی ہے، یہ تین بیٹوں کا دکھ بھوگ رہی ہے۔‘‘
’’برا مت ماننا بنسی راج تم نے بھی تو بہت سی مائوں کو ان کے بیٹوں کا دکھ دیا ہے، کرنی کا پھل تو ملتا ہی ہے۔‘‘
’’نا مہاراج نا۔ ایسا مت کہو۔ بڑی آس لگا رکھی ہے ہم نے۔ ارے انیائے میں نے کیا ہے۔ بھگوان کی سوگند کوڑھی ہو جائوں، سانپ بچھو لپٹ جائیں میرے شریر سے، آنکھیں بہہ جائیں پانی بن کر جو بھی سزا ملے، مجھے مل جائے۔ بھگوان میرے بیٹوں اور بیٹیوں کو بچا لے۔ سمے لوٹ آئے اور میں اپنے سارے پاپوں کا پرائشچت کرلوں۔ کچھ ایسا ہو جائے مہاراج۔ وہ بچ جائیں بس۔ اب کوئی اور دکھ مجھ سے نہ سہا جائے گا۔‘‘ وہ بلک بلک کر رونے لگا۔ ایسا کرب تھا اس کی آواز میں کہ میں کانپ کر رہ گیا۔ یہ پچھتاوا تھا، احساس تھا، ندامت بھی۔ اب کچھ اور کہنا میرے لئے مناسب نہیں تھا۔
’’میں نے تم سے وعدہ کیا تھا بنسی راج۔ پورا کرنے آ گیا، دل چھوٹا نہ کرو، اللہ مالک ہے، میں کوشش کروں گا!‘‘
’’بڑی دیا ہو گی مہاراج۔ بڑی دیا ہوگی۔‘‘
’’چلتا ہوں۔‘‘
’’حویلی میں رک جائو بھگوان۔ ہمیں ڈھارس ہو جائے گی۔‘‘ بنسی راج نے ہاتھ جوڑ کر کہا۔
’’پھر آئوں گا بنسی راج۔ ضرورت پڑنے پر پھر آئوں گا۔‘‘ میں اٹھ گیا۔ بنسی راج مجھے حویلی کے باہر تک چھوڑنے آیا تھا۔ میری منت سماجت کرتا رہا تھا۔ میں اسے دلاسے دے کر آگے بڑھ گیا۔ مسجد تک واپسی میں کوئی واقعہ نہیں پیش آیا۔ حجرے میں تاریکی تھی۔ میں درخت کے نیچے اپنے ٹھکانے پر آ گیا۔ اس مختصر وقت میں ہی بڑے انوکھے واقعات پیش آئے تھے۔ بے شک وہ ارواح خبیثہ تھیں لیکن ان کے ساتھ بھی ظلم ہوا تھا۔ ان سب نے بنسی راج کی حویلی میں بسیرا کر لیا تھا اور وہ اپنا انتقام لینا چاہتی تھیں۔ مجھے کیا کرنا چاہئے۔ میں کیا کر سکتا ہوں۔ واضح اشارہ مل چکا تھا کہ میں بنسی راج کی مدد کروں لیکن ان ارواح خبیثہ کے ساتھ مجھے کیا کرنا چاہئے، یہ میرے علم میں نہیں تھا۔ نیند آنکھوں سے دور ہو گئی تھی۔ اتنا اندازہ ہو گیا تھا کہ بنسی راج کے ہاتھوں چوٹ کھائے آسیب میری طرف سے ہوشیار ہو گئے تھے جس کا ثبوت مجھے حویلی میں داخل ہوتے ہی مل گیا تھا۔ بہت دیر تک بیٹھا سوچتا رہا پھر نماز پڑھنے کو دل چاہا، یوں بھی تہجد کا وقت تھا۔ اپنی جگہ سے اٹھ کر صحن مسجد میں آیا، وضو کیا اور عبادت کرنے لگا۔ دل کو ناقابل بیان سکون ملا تھا۔ سلام پھیرا تو ایک اور تہجد گزار پر نظر پڑی۔ ادھیڑ عمر شخص تھا۔ میری دائیں سمت بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے بھی سلام پھیرتے ہوئے مجھے دیکھا اور نماز سے فارغ ہو کر مجھے سلام کیا، میں نے احترام سے اسے جواب دیا۔
’’موسم خوشگوار ہے۔‘‘ اس نے کہا۔
’’بے شک۔ رحمت الٰہی سے منور۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’کلام الٰہی کا ایک ایک حرف کائنات کی عبادت کرتا ہے، جہاں اس کا ورد ہو وہاں رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ گو امراض مختلف ہوتے ہیں اور جب دل بے چین ہو اور دماغ فیصلہ نہ کر پائے تو گیارہ بار درود پاک پڑھ لیا کرو اور آنکھیں بند کر کے رہنمائی طلب کر لیا کرو اور اتنا ہی کافی ہے ہر مرض کے علاج کے لئے، یہ سب کچھ کبھی نہ سمجھ پائو گے لیکن بہت کچھ ہے اتنا کچھ کہ مشکل کم اور حل زیادہ اور اس وقت جو فیصلہ ہو اس پر غور نہ کرو کیونکہ دماغ کی کیا مجال کہ ان وسعتوں کے تصور کو بھی پا لے۔ اچھا سپرد رحمت۔ السلام و علیکم۔‘‘ وہ صاحب اٹھے اور صحن مسجد کے باہر جانے والی سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئے۔ میرے منہ سے بلند آواز میں سلام کا جواب نکلا تھا اور بس یوں لگا جیسے خواب سے آنکھ کھل گئی ہو۔ پھر ایسا محسوس ہوا جیسے کائنات کے خزانے سامنے بکھر گئے ہوں۔ ہر شے جواہرات کی طرح جگمگانے لگی۔ اتنی خوشی ہو رہی تھی کہ الفاظ کی گرفت میں نہیں لا سکتا۔ وہاں سے اٹھ آیا۔ درخت کے سائے سے الگ ہو کر
زمین پر دوزانو بیٹھا اور درود شریف پڑھنے لگا۔ دماغ نے تصور دیا۔ گناہ کو تائید شیطانی حاصل ہے اور شیطان کو شیطنیت کی قوت حاصل ہے۔ اسے لاحول سے بھگایا جا سکتا ہے لیکن اس کی ذریات کا خاتمہ عمل سے گزر کر ہوتا ہے اور عمل یہ ہے کہ اس کفر زادے کو اہل خاندان کے ساتھ نکال کر دریا پار کرا دیا جائے اور دریا پار اس کا گھر ہے یہاں اس عمل کا اختتام ہو چکا ہے لیکن کسی کو نہ چھوڑا جائے۔ کھٹاک کی آواز ہوئی اور جیسے ایک روشن خانہ بند ہو گیا بالکل ویسے ہی جیسے بجلی کا بلب بجھا دیا جائے لیکن مجھے رہنمائی مل گئی تھی اس سے زیادہ وضاحت اور کیا ہوتی۔ ایک ناواقف کو جس طرح نوازا گیا تھا اس کے لئے سجدہ شکر کے سوا اور کیا ہو سکتا تھا اور سجدے کر کے جی نہ بھرا یہاں تک کہ مولوی حمیداللہ آ گئے۔
’’فجر کا وقت ہو گیا ہے مسعود میاں۔‘‘ انہوں نے شفقت بھرے لہجے میں کہا۔ میں اٹھ گیا۔ ’’سبحان اللہ۔ اللہ تعالیٰ جوانی کی اس عبادت کو قبول فرمائے۔ میاں نماز کے بعد باتیں ہوں گی۔ اذان کہہ دوں، وقت ہو گیا ہے۔‘‘ وہ مسجد کے مینار کی طرف چل پڑے۔ میں اس طرح تازہ دم تھا جیسے جی بھر کے سویا ہوں۔ خمار کا نشان بھی نہ تھا۔ اذان ہوئی، نمازی آئے۔ مجھ سے بہت محبت سے ملے پھر فراغت ہو گئی۔ مولوی صاحب چائے لے آئے، مجھے پیش کی اور خود بھی لے کر بیٹھ گئے۔
’’رات کو بہت دیر تک جاگتا رہا تھا، کس وقت واپسی ہوئی؟‘‘
’’دیر ہو گئی تھی۔‘‘
’’حویلی مل گئی تھی؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
’’اور بنسی راج لعل؟‘‘
’’وہ بھی مل گیا تھا۔‘‘
’’کچھ اندازہ لگایا؟‘‘
’’ہاں! حمیداللہ صاحب… ظالم انسان تھا۔ خود پر بیتی تو آنکھ کھلی مگر بہت نقصان اٹھا چکا ہے۔‘‘
’’اللہ رحم کرے۔ جو کیا ہے بھر رہا ہے؟‘‘
’’مشکل فلسفہ ہے حمیداللہ صاحب۔ کیا اس نے ہے لیکن بھگتنا اس کے تین بیٹوں کو پڑا۔‘‘
’’ہاں میاں، باپ کا گناہ اولاد کے سامنے آتا ہے۔‘‘
’’یہ غلط ہے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’کیوں؟‘‘ حمیداللہ صاحب چونک کر بولے۔
’’عقل تسلیم نہیں کرتی۔‘‘
’’مگر سامنے کی بات ہے۔‘‘
’’ہمارے آپ کے سامنے کی بات، عقل اس کی نفی کرتی ہے۔‘‘
’’مجھے سمجھائو؟‘‘
’’میرے خیال میں گناہ کی سزا صرف گناہ گار کو ملتی ہے، اس گناہ گار کو جو اللہ کا مجرم ہوتا ہے اور اللہ سچا منصف ہے۔ جو دنیا سے گئے ان کی زندگی اتنی ہی تھی مگر مجرم کو اس وقت تک ان کی جدائی کا غم برداشت کرنا پڑے گا جب تک وہ زندہ ہے۔ میں نے کہا نا مشکل فلسفہ ہے، حتمی بات کہنا مشکل ہے۔ خدا ہی بہتر سمجھتا ہے۔‘‘
’’اس کہانی کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘
’’کہانی تو سچ ہے۔‘‘
’’اور وہ اروح خبیثہ۔‘‘
’’حویلی ان سے بھری ہوئی ہے جو اس کے ہاتھوں نقصان اٹھا چکے ہیں۔ انہوں نے حویلی کو حصار میں لیا ہوا ہے۔‘‘
’’بالکل درست کہتے ہیں۔ کئی واقعات ہو چکے ہیں۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’بنسی راج نے ہندوستان بھر سے سادھو، پنڈت اور جوگی بلائے۔ زروجواہر کے انبار لگا دیئے ان کے سامنے۔ ہر کوشش کی گئی مگر کچھ نہ ہوا بلکہ ان سب کو نقصان ہوئے۔ مہاشے درگا داس تو ابھی کچھ دن پہلے مرے ہیں۔‘‘
’’یہ کون تھے؟‘‘
’’گیانی دھیانی تھے۔ الہ آباد سے آئے تھے۔ حویلی میں جاپ کیا، تین بار اٹھا کر پھینکے گئے، چوٹیں لگیں، باز نہ آئے یہاں تک کہ پاگل ہو گئے۔ الہ آباد سے ان کے گھر والے انہیں لے گئے مگر دو مہینے کے بعد پھر واپس آ گئے۔ اس کے بعد کئی مہینے یہاں رہے۔ تھوڑے دن قبل لال تلیا میں ان کی لاش تیرتی ملی،اسی سرکٹے کا شکار ہو گئے تھے۔‘‘
’’اوہ افسوس ہے۔‘‘ میں نے کہا۔‘‘
’’ان شاء اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا، کچھ کام کرنا پڑے گا۔‘‘
’’اللہ کامیاب کرے۔ امان میں رکھے۔‘‘ حمیداللہ صاحب خلوص سے بولے لیکن کچھ تشویش بھی تھی ان کے لہجے میں۔
دوپہر کو دوبارہ بنسی راج کی حویلی پہنچا۔ بنسی راج موجود تھا۔ راستے میں اچھا خاصا مجمع میرے ساتھ حویلی پر جا کر منتشر ہوا۔ بنسی راج نے ہاتھ جوڑ کر میرا استقبال کیا تھا۔
’’کہئے بنسی جی۔ سب خیریت رہی؟‘‘
’’نہیں مہاراج۔ رات تو بڑی دھماچوکڑی رہی۔‘‘
’’کیا؟‘‘ میں نے چونک کر پوچھا۔
’’بڑا اودھم مچا ہے رات کو۔ آگ کے گولے گرے حویلی پر۔ خوب شور مچا، کئی نوکر بھاگ گئے۔ میرے کمرے کا دروازہ اکھاڑ کر پھینک دیا گیا۔ چار فانوس توڑ دیئے گئے، چیخیں اور آوازیں سنائی دیں۔‘‘
’’ہوں۔ کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا۔‘‘
’’نہیں مہاراج مگر اب کچھ اور مشکلیں نظر آ رہی ہیں۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’نوکر تو اب کوئی نہیں ٹکے گا یہاں۔‘‘
’’آپ کے دونوں بیٹے کہاں ہیں؟‘‘
’’ونود اور راجیش یہیں ہیں۔ پہلے تو وہ نہیں ڈرتے تھے مگر اب پیلے پڑ گئے ہیں۔‘‘
’’بیٹیاں؟‘‘
’’وہ سسرال میں ہیں۔‘‘
’’کہاں؟‘‘
’’ایک دلی میں ہے، دوسری جے پور میں۔‘‘
’’انہیں تو کوئی نقصان نہیں پہنچا کبھی؟‘‘
’’نہیں۔ بھگوان کی دیا ہے۔‘‘
’’یہاں آس پاس کوئی ندی ہے؟‘‘
’’نیما ندی ہے۔ بڑی مشہور ہے۔‘‘
’’اس کے پار آپ کی کوئی حویلی ہے؟‘‘
’’سونا باغ ہے ہمارا، سونا باغ میں پورن نے حویلی بنائی تھی۔ اس کی موت کے بعد ہم وہاں نہیں گئے۔‘‘
’’پورن آپ کا بیٹا تھا؟‘‘
’’ہاں…‘‘ بنسی راج نے بھاری آواز میں کہا۔
’’ہمیں وہاں چلنا ہے۔‘‘
’’ہیں…کب؟‘‘
’’جو وقت بھی آپ بتائیں، جلد سے جلد۔‘‘
’’آپ حکم دیں مہاراج۔‘‘
’’تیاریاں کر لیں، آج ہی چلیں۔‘‘
’’نوکر کو کھتوریہ مانجھی کے پاس بھیجے دیتا ہوں نائو تیار کر لے۔ میری اپنی نائو ہے۔‘‘
’’بھیج دیں اور اپنے گھر والوں کو تیار کر لیں۔‘‘
’’کسے کسے لے چلنا ہے مہاراج؟‘‘
’’دونوں بیٹے، آپ کی بیوی اور بہن۔‘‘
’’ہرناوتی؟‘‘ بنسی راج چونک کر بولا۔
’’ہاں۔ اس کا جانا بھی ضروری ہے۔ آپ یہ ہدایت دے دیں اور پھر مجھے اس سے ملائیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے مہاراج۔‘‘ بنسی راج نے کہا۔ مجھے وہیں انتظار کرنا پڑا۔ پھر بنسی راج مجھے لے کر ہرناوتی سے ملانے چل پڑا۔ حویلی کا یہ حصہ کھنڈر بنا ہوا تھا۔ ایک کمرے میں ہرناوتی موجود تھی۔ سفید ساڑھی میں ایک پاکیزہ چہرہ چمک رہا تھا۔ اس نے بڑے نرم لہجے میں کہا۔
’’یہ کون ہیں بھیا جی؟‘‘
’’میرے دوست ہیں ہرنا۔‘‘
’’لگتے تو نہیں ہیں۔‘‘ وہ بولی۔
’’ہمیں لینے آئے ہیں۔‘‘
’’کہاں لے جائیں گے؟‘‘ اس نے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’سب جا رہے ہیں، تمہیں بھی چلنا ہے ہرناوتی۔‘‘ میں نے کہا۔
’’میری قید ختم ہو گئی؟‘‘
’’تو قید کہاں تھی ہرنا۔ میں ہی اندھا ہو گیا تھا، پاگل ہو گیا تھا مگر اب۔‘‘ بنسی راج نے سسک کر کہا۔
’’پرائی پیر جانو سو مانیں، لے چلو جہاں من چاہے، ہم اپنے ہیں ہی کب۔‘‘ اس نے اداسی سے کہا۔ بنسی راج نے نوکر کو کشتی کے انتظام کے لئے بھیج دیا تھا۔ اس کی واپسی کا انتظار تھا۔ میں ہرناوتی سے مل چکا تھا، کوئی خاص بات نہیں تھی، بس ملازم بہت دیر میں آیا۔
’’کھتوریہ ہریاپور گیا تھا مہاراج۔ دیر میں آیا اس کا انتظار کر رہا تھا۔‘‘
’’آ گیا؟‘‘
’’ہاں نائو تیار کر رہا ہے، کہتا ہے مہاراج گھاٹ آ جائیں، نیا تیار ملے گی۔‘‘
ملازم شام کو چھ بجے واپس آیا تھا۔ سورج ڈھل چکا تھا۔ ہم لوگ گھاٹ چل پڑے۔ وہاں تک پہنچتے پہنچتے سورج چھپ گیا۔ بنسی راج، اس کے دونوں بیٹے، بیوی اور ہرناوتی میرے ساتھ تھے۔ میری ہدایت پر کسی ملازم کو نہیں لیا گیا تھا۔ گھاٹ پر بڑی سی کشتی ڈول رہی تھی اسی پر بادبان باندھا گیا تھا۔ بنسی راج قریب آ گیا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا۔ ونود نے رسی کھینچ کر کشتی کو کنارے لگایا اور عورتوں کو سہارا دے کر کشتی پر اتار دیا گیا۔
’’یہ کھتوریہ کہاں مر گیا۔ ویسے ہی رات ہو گئی۔‘‘ اسی وقت
کھتوریہ کھیس سنبھالے دوڑتا نظر آیا۔ ونود نے خود بھی کشتی میں بیٹھتے ہوئے اسے ڈانٹا۔
’’کہاں چلا گیا تھا رے تو۔ چل جلدی کھونٹا کھول دیر کر دی بے وقوف نے۔‘‘ کھتوریہ نے کھونٹا کھولا، رسی لپیٹ کر بادبان میں پھینکی اور خود کشتی میں کود کر بادبان کا رخ بدلنے لگا۔ کشتی پانی میں آگے بڑھنے لگی۔ کھتوریہ پتوار سنبھال کر کشتی کے دوسرے سرے پر جا بیٹھا تھا۔ کشتی بہائو پر چل پڑی۔ سب خاموش تھے۔ بہت دیر تک یہ خاموشی طاری رہی پھر بنسی راج بولا۔
’’سونا باغ سونے کا باغ کہلاتا ہے۔ کچھ بھی لگوا دو ایسی فصل ہوتی ہے وہاں کہ کہیں نہیں ہوتی۔ آم، ناریل اور پپیتا تو اتنا اگتا ہے کہ بس مگر اسے لگانے والا نہ رہا۔‘‘
’’پتا جی۔ ان باتوں کو یاد نہ کریں۔‘‘ راجیش نے کہا۔
’’جب سے پورن نے سنسار چھوڑا، میں آج اس باغ میں جا رہا ہوں۔‘‘ بنسی راج درد بھرے لہجے میں بولا اور اس کی معصوم پتنی سسکنے لگی۔
’’پتا جی۔‘‘ راجیش نے احتجاجی لہجے میں کہا۔
’’کیسے بھولوں اسے۔ کیسے بھول جائوں اپنے تین ہاتھیوں کو۔ وہیں جا رہا ہوں۔ ایک ایک چیز سے اس کی یادیں برستی ہیں۔‘‘
میں نے افسردہ نظروں سے سب کے چہرے دیکھے۔ آخر میں میری نظر ہرناوتی کی طرف اٹھی۔ وہ مسکرا رہی تھی۔ ایک پراسرار مسکراہٹ اس کے لبوں پر کھیل رہی تھی۔ اس کی آنکھیں عجیب سے انداز میں چمک رہی تھیں۔ وہ آہستہ سے بڑبڑائی۔
’’کون بھولتا ہے، کوئی نہیں بھولتا۔‘‘ آہستہ بولی تھی لیکن میں نے سن لیا تھا۔ نہ جانے کیوں راجیش کو غصہ آ گیا۔
’’آپ تو چپ ہی رہا کریں بوا جی۔ سب کچھ آپ کی وجہ سے ہوا۔‘‘
’’راجیش چپ بیٹھ!‘‘ بنسی راج بولا۔
’’آپ نے سنا نہیں پتاجی، وہ کیا کہہ رہی ہیں۔‘‘
’’خاموش بیٹھ!‘‘ بنسی راج بولا اور راجیش منہ بنا کر بیٹھ گیا۔ ہرناوتی آہستہ آہستہ ہنس رہی تھی۔
’’اپنی چوٹ سب کو دکھتی ہے۔ دوسرے کو کون جانے۔‘‘ وہ پھر بولی۔ کھتوریہ بادبان کا رخ درست کر رہا تھا۔
’’یہ رخ کیوں بدل رہا ہے کھتوریہ۔ وہ سامنے تو ہے سونا باغ۔‘‘ ونود نے کھتوریہ سے کہا اور اس نے بدن سے لپٹا کھیس اتار دیا۔ ایک تو نیم تاریک ماحول تھا، دوسرے کھتوریہ نے چہرہ ڈھکا ہوا تھا اس لئے میں نے اس کی صورت نہیں دیکھی تھی، کھیس اتارنے سے اس کا چہرہ نظر آیا۔ کالاسیاہ چہرہ، خون کی طرح سرخ آنکھیں مگر یہ سیاہ چہرہ بالکل جلا ہوا معلوم ہو رہا تھا۔ میں نے کھتوریہ کو دیکھا بھی نہیں تھا۔ ہو سکتا ہے وہ ایسا ہی ہو لیکن اچانک پوری کشتی پر چیخیں گونجنے لگیں۔ بنسی راج کی بیوی نے چیخ کر اپنے دونوں بیٹوں کو سینے سے لپٹا لیا تھا۔ بنسی راج تھر تھر کانپ رہا تھا اور ہرناوتی کی ہنسی کی آواز بلند ہوتی جا رہی تھی۔ مجھے کسی گڑبڑ کا حساس ہوا۔ میری نظریں سب سے ہوتی ہوئی کھتوریہ پر آ گئیں۔ اس نے دونوں گال پھلائے ہوئے تھے اور منہ سے ہوا نکال رہا تھا۔ اس کی سرخ سرخ آنکھوں میں شیطانی چمک لہرا رہی تھی اور منہ سے اتنی تیز ہوا نکل رہی تھی کہ اس کا احساس اتنے فاصلے پر بھی ہو رہا تھا۔ میں نے غور کیا تو اندازہ ہوا کہ یہ ہوا بادبان میں بھرتی جا رہی ہے اور کشتی کی رفتار بھی تیز ہونے لگی ہے۔ صورتحال پوری طرح تو سمجھ میں نہیں آئی تھی لیکن کچھ کچھ اندازہ ہو رہا تھا۔
(جاری ہے)