آبادی اس کے اطراف میں بھی نہیں تھی بلکہ دور دور تک نہیں تھی لیکن یونہی قدم اس کھنڈر کی جانب اٹھ گئے۔ نجانے کون سی جگہ ہے۔ کبھی یہاں کچھ ہوگا، اب کچھ نہیں تھا۔ لال رنگ کی اینٹوں کے ڈھیر ادھر ادھر بکھرے ہوئے تھے۔ بہت سی جگہیں صاف بھی تھیں۔ قریب پہنچ کر اندازہ ہوا کہ مسجد جیسی کوئی جگہ ہے اور یقینی طور پر انسانوں کے استعمال میں رہتی ہے۔ درخت اگے ہوئے تھے اور ایک وسیع و عریض چبوترے پر درختوں کے بے شمار سوکھے پتے اڑتے پھر رہے تھے اور ان سے سرسراہٹیں ابھر رہی تھیں۔ سامنے ہی منبر بنا ہوا تھا۔ اس سے یہ احساس ہوتا تھا کہ کوئی قدیم مسجد ہے۔ پھر دوسرے لوازمات بھی نظر آگئے۔ ایک جانب گہرا کنواں تھا۔ اس کے کنارے چرخی لگی ہوئی تھی اور چرخی پر رسی لٹکی ہوئی نظر آرہی تھی۔ قریب ہی چمڑے کا ایک ڈول رکھا ہوا تھا۔ دیکھ کر تقویت ہوئی یقیناً آس پاس کوئی بستی موجود ہے۔ رات کی تاریکی میں جب روشنیاں ہوں گی تو بستی نظر آجائے گی لیکن مجھے کسی بستی سے بھی کوئی غرض نہیں تھی۔ دل میں کچھ خیالات جاگے۔ کنویں کے نزدیک پہنچا اور جھک کر کنویں میں جھانکنے لگا۔ اندھیرے کے سوا کچھ نظر نہ آیا لیکن رسی کا ڈھیر بتاتا تھا کہ کنواں کافی گہرا ہے۔ بہرطور ڈول پانی میں ڈالا اور اس کے بعد تھوڑا سا پانی نکال لیا۔ سامنے ہی ایک ایسی جگی بنی ہوئی تھی جہاں نمازیوں کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ مٹی کے لوٹے قطار سے رکھے ہوئے تھے۔ بس جی میں سما گئی۔ بہت سا پانی نکالا اور اس جگہ کو بھر دیا۔ لوٹے دھو کر قرینے سے رکھے اور اس کے بعد صحن کی مسجد کی جانب متوجہ ہوگیا۔ جھاڑو موجود نہیں تھی۔ بڑے بڑے تنکے سمیٹے اور انہیں اپنی قمیض کے دامن سے ایک دھجی پھاڑ کر باندھا پھر صحن مسجد سے سوکھے ہوئے پتے صاف کرنے میں مصروف ہوگیا اور اس کام میں سورج بالکل چھپ گیا۔ مسجد کا فرش صاف ہوچکا تھا۔ پتے سمیٹ کر ایک جگہ جمع کردیئے تھے۔ کچھ ایسا سکون ملا اس کام میں کہ ذہن بھی بٹ گیا اور دل بھی مسرور رہا۔
پھر اچانک ہی مسجد کی چھت کی بلندیوں پر سے اللہ اکبر کی صدا ابھری اور پہلی ہی آواز پر میرا منہ حیرت سے کھل گیا۔ میں نے کسی کو مسجد کی جانب آتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ یہاں ویسے بھی کئی گھنٹے گزر چکے تھے۔ اگر موذن مسجد ہی کے کسی حصے میں رہتا ہوگا تو کم ازکم مجھے اس کی آہٹیں تو سنائی دینی چاہئے تھیں۔
اذان کہی گئی لیکن اس کے بعد بھی میں دیر تک موذن کے بلندی سے اترنے کا انتظار کرتا رہا لیکن موذن کے قدموں کی چاپ نہ سنائی دی۔ وضو کیا اور ابھی وضو سے فراغت ہی ہوئی تھی کہ مجھے انسانوں کے بولنے کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ پھر میں نے نمازیوں کو چبوترے پر چڑھ کر آتے ہوئے دیکھا اور اطمینان ہوگیا کہ جو کچھ میں نے کیا، وہ میرا مناسب فرض تھا۔ صفیں درست ہونے لگیں، لوگ بیٹھ گئے۔ وہ آپس میں مدھم مدھم گفتگو کررہے تھے۔ میں نے سوچا کہ نماز کے بعد کسی سے قریب کی بستی کے بارے میں پوچھوں گا اور اگر بستی زیادہ دور نہیں ہوئی تو وہیں چلا جائوں گا۔ کچھ دیر کے بعد نماز شروع ہوگئی اور امام صاحب منبر کے سامنے کھڑے ہوگئے، صفیں بندھ گئیں اور نماز شروع ہوگئی۔ نماز سے فراغت ہوئی اور نمازی واپس جانے لگے۔ میں کسی ایسے شخص کو تلاش کرنے لگا جس سے بستی کے بارے میں معلوم کروں۔ اسی وقت عقب سے آواز ابھری۔
’’مسعود میاں…!‘‘ میرا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔ یہاں کون ہے جو میرا شناسا ہے۔ سفید لباس میں ملبوس ایک نورانی شخصیت مجھے مخاطب کررہی تھی۔ اس نے اشارے سے مجھے قریب بلایا اور میں آگے بڑھ کر اس کے پاس پہنچ گیا۔ ’’انہیں متوجہ نہ کرو…!‘‘ بزرگ نے کہا۔
’’میں کسی سے…!‘‘ میں نے کہنا چاہا اور انہوں نے ہاتھ اٹھا کر مجھے روک دیا۔
’’ہاں… ہاں علم ہے… لیکن آبادی بہت دور ہے۔‘‘
’’جی!‘‘ میں ششدر رہ گیا۔ میں نے زبان سے پوری بات بھی نہیں ادا کی تھی اور وہ سمجھ گئے تھے۔
’’نمازیوں کو چلا جانے دو پھر بات کریں گے۔ آئو ادھر آجائو۔‘‘ اس ہستی نے اشارہ کیا اور میں ان کے پیچھے چلنے لگا۔ وہ مجھے مسجد کے مشرقی گوشے میں لے آئے۔ یہاں پتھر کی ایک صاف ستھری چوکی نظر آئی۔ انہوں نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور میں پتھر کی سل پر بیٹھ گیا۔ بزرگ میرے سامنے بیٹھ گئے۔ پھر بولے۔ ’’ہمارا نام جلال حسین ہے۔‘‘
’’آپ مجھے جانتے ہیں؟‘‘ میں نے کہا۔
’’ہاں! جانتے ہیں۔‘‘
’’مگر میں پہلے آپ سے نہیں ملا۔‘‘
’’بہت سے لوگ، بہت سے لوگوں سے نہیں ملتے۔‘‘
’’پھر آپ مجھے کیسے جانتے ہیں؟‘‘
’’میاں! یہ بات ہمارے سینے میں رہنے دو۔‘‘
’’بہتر ہے۔‘‘ میں نے ادب سے کہا۔ نمازی ایک ایک مسجد سے باہر نکل گئے۔ میں انہیں دیکھتا رہا پھر اچانک مجھے کچھ خیال آیا۔ میں نے کہا۔ ’’آپ نے فرمایا تھا کہ آبادی بہت دور ہے؟‘‘
’’انسانوں کی آبادی یہاں سے ساٹھ ستر کوس ہے۔‘‘
’’مگر یہ نمازی…؟‘‘
’’یہ دوسرے بندئہ خدا ہیں۔ چلو کھانا کھالو۔‘‘ کھانا آگیا۔ جلال حسین نے دو آدمیوں کو دیکھ کر کہا جو ہاتھوں میں سینیاں اٹھائے قریب آگئے تھے۔ ایک نے کپڑے کا دسترخوان بچھایا، دوسرے نے سینی اس پر رکھ دی۔ پانی کا کٹورہ اور صراحی بھی قریب رکھ دی گئی۔ سینی سے بھاپ اٹھ رہی تھی اور اس بھاپ کے ساتھ چاولوں کی خوشبو شامل تھی۔ موتی کی طرح بکھرے چاولوں کا انتہائی خوشبودار پلائو تھا۔ جلال حسین نے کہا۔ ’’چلو میاں! بسم اللہ کرو… اول طعام، بعد کلام!‘‘
کچھ کہنے کی گنجائش نہیں تھی۔ جلال حسین بھی میرے ساتھ اسی سینی میں شریک ہوگئے۔ کھانے کی لذت الفاظ میں بیان نہیں کی جاسکتی تاہم اعتدال سے کام لیا۔ ہاتھ روکا تو جلال صاحب مزید کھانے پر اصرار کرنے لگے۔ ’’مکمل شکم سیری بیشک غیر مناسب ہے لیکن تم بہت بھوکے ہو، کھائو…!‘‘ کچھ دیر کے بعد کھانے سے فراغت ہوگئی۔ جلال حسین نے کہا۔ ’’نماز عشاء سے فراغت ہوجائے اس کے بعد نشست رہے گی۔‘‘
’’آپ یہیں قیام فرماتے ہیں؟‘‘
’’ہاں…!‘‘
’’اذان آپ نے کہی تھی…؟‘‘
’’نہیں… امیر احمد نے۔‘‘
’’وہ بھی یہیں رہتے ہیں؟‘‘
’’ہاں…!‘‘
’’جب میں آیا تھا تب میں نے آپ کو نہیں دیکھا تھا۔‘‘
’’ہاں! نہ دیکھا ہوگا۔‘‘
’’آپ نے مجھے دیکھ لیا تھا…؟‘‘
’’کیوں نہیں…!‘‘ جلال حسین مسکرائے پھر بولے۔ ’’تم خانہ خدا کی خدمت میں مصروف تھے۔ ہم نے مداخلت نہیں کی۔ تھوڑی دیر چہل قدمی کرلو، ہم کچھ ضروری امور نمٹا لیں۔‘‘ وہ اٹھ گئے۔
’’بہتر ہے۔‘‘ میں نے کہا اور جلال حسین وہاں سے چلے گئے۔ کچھ دور تک نظر آتے رہے پھر اینٹوں کے ایک ڈھیر کے پیچھے روپوش ہوگئے۔ میں مسجد سے دور نکل آیا۔ تاریکی، حشرات الارض کی سرسراہٹ، کبھی کبھی پرندوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ! بڑا پراسرار ماحول تھا۔ مجھے کچھ کچھ اندازہ ہوتا جارہا تھا۔ جلال حسین کی شخصیت اور ان کے الفاظ بھی یاد آرہے تھے۔ یہ دوسرے بندئہ خدا ہیں۔ انسانوں کی آبادی یہاں سے ساٹھ ستر کوس دور ہے۔ یہ لوگ انسان نہیں تھے۔ جنات تھے یقیناً…! بدن میں پھریریاں اٹھنے لگیں۔ ایک سرد احساس پورے وجود میں دوڑ گیا۔ کیا جلال الدین بھی… جن ہیں؟ یہی لگتا تھا لیکن مہربان تھے اور محبت سے پیش آرہے تھے۔ چہل قدمی ہی کررہا تھا کہ عشاء کی اذان سنائی دی اور واپسی کیلئے قدم اٹھا دیئے۔ عشاء کی نماز میں نمازیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اور پورا صحن بھر گیا تھا۔ بالآخر نماز سے فراغت ہوگئی۔ اس سرخ سل پر جا بیٹھا اور کچھ دیر کے بعد جلال حسین وہاں پہنچ گئے۔
’’میاں!
کسی شے کی حاجت تو نہیں ہے؟‘‘
’’الحمدللہ…!‘‘
’’سنائو کیسی گزر رہی ہے؟‘‘
’’اللہ کا فضل ہے۔‘‘
’’کچھ باتیں گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’ارشاد…!‘‘
’’اول اپنی شناخت سے گریز کرو۔‘‘
’’وضاحت کا طلبگار ہوں۔‘‘
’’اب تمہیں اس کمبل کی ضرورت نہیں ہے، رہنمائی کرنے والی ذات الہیٰ ہے۔ اللہ کا کلام سینے میں ہو تو سب کچھ مل جاتا ہے۔ اس کی رہنمائی طلب کرو۔ یہ کھیل شاخت بنے گا تو خودنمائی کے زمرے میں آجائو گے۔ اسے خود سے دور کرو تو اعتماد پیدا ہوگا۔‘‘
’’جی…!‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔
’’دل میں وسوسہ نہ لائو۔ اعتماد سے بڑی نعمت اور کوئی نہیں ہوتی۔‘‘
’’درست فرمایا…!‘‘
’’یہ چار روپے رکھ لو، ضروریات پوری کریں گے۔ تمہارا وظیفہ مقرر کردیا گیا ہے۔‘‘ جلال حسین نے چار روپے میرے ہاتھ پر رکھ دیئے۔
’’رزق حلال ہوگا؟‘‘
’’عطیہ ہے۔ اس وقت تک ملے گا جب تک ضرورت ہوگی۔‘‘
’’بسم اللہ…!‘‘
’’جمال گڑھی چلے جائو، ادھر سے بلاوا ہے۔‘‘
’’راستے کی نشاندہی کردیں۔‘‘
’’ہاں… بس سیدھے چلے جانا مگر صبح سفر کا آغاز کرنا۔ اب آرام سے سو جائو۔ اچھا اب ہم بھی چلتے ہیں۔ فی امان اللہ…!‘‘ جلال حسین نے کہا اور سلام کرکے وہاں سے چلے گئے۔ میں بہت دیر تک پتھر کی سل پر پالتی مارے بیٹھا رہا۔ جلال حسین کی باتوں پر غور کررہا تھا۔ بہت فرحت بخش ہوا چل رہی تھی۔ وہیں لیٹ گیا اور تاروں بھرے آسمان کو دیکھتا رہا۔ دل کی وادیوں میں بہت سے پھول کھلنے لگے، یادیں ذہن میں سرسرانے لگیں۔ کچھ لوگ یاد آئے اور سسکی بن گئے۔ ان یادوں پر پابندی تھی، وقت جب تک خود آواز نہ دے۔ نیند مہربان ہوگئی۔ رات کے آخری حصے میں خنکی ہوگئی تھی۔ کئی بار آنکھ کھلی۔ نیم خوابی کی شکل میں ان تہجد گزاروں کو دیکھا جو عبادت میں مصروف تھے پھر سو گیا۔ فجر کے وقت آنکھ کھل گئی۔ اذان کے آخری بول سنائی دے رہے تھے لیکن اس وقت صحن میں بالکل سناٹا تھا۔ میں نے وضو کیا۔ انتظار کرتا رہا مگر کوئی نہیں آیا تھا۔ نماز کا وقت ہوچکا تھا، نیت باندھ کر کھڑا ہوگیا۔ نماز سے فراغت پائی اور رخ اس پتھر کی سل کی طرف کیا۔ وہاں سینی رکھی ہوئی تھی۔ اس میں دو پراٹھے، آلو کی ترکاری اور چائے کا پیالہ رکھا ہوا تھا جس سے بھاپ اٹھ رہی تھی اور میرا کمبل موجود نہیں تھا۔ ایک لمحے کیلئے بدن پر لرزہ طاری ہوگیا۔ پہلے یہ کمبل میری نادانی سے چھن گیا تھا اور اب واپس لے لیا گیا تھا مگر اس کے ساتھ ہدایات بھی دی گئی تھیں۔ میں نے ناشتے پر توجہ دی۔ تمام ناشتہ صاف کیا۔ اس کے بعد یہاں رکنا مناسب نہیں تھا۔ چنانچہ وہاں سے سیدھ اختیار کی اور چل پڑا۔ تین دن اور رات کے کئی گھنٹے کے سفر کے بعد ایک آبادی نظر آئی۔ اس وقت بھی صبح کے کوئی پانچ بجے تھے۔ میں رات کو ہی ادھر چل پڑا تھا اور جب رات کی سیاہیاں ختم ہوئیں تو مجھے درخت، کھیت اور ان سے پرے ٹمٹماتے چراغ نظر آئے تھے جن سے آبادی کے قریب آنے کا احساس ہوا تھا۔
آبادی کے پہلے درخت کے پاس رک گیا۔ کچھ فاصلے پر ایک ٹنڈمنڈ درخت پر کئی گدھ بیٹھے ہوئے تھے، مجھے دیکھ کر انہوں نے پر پھڑپھڑائے اور پھر ان میں سے ایک گدھ بھیانک آواز کے ساتھ پر پھڑپھڑاتا ہوا اڑ گیا جیسے کسی کو اس کی آمد کے بارے میں اطلاع دینے گیا ہو۔ نماز کا وقت نکلا جارہا تھا چنانچہ درخت کے تنے کی آڑ میں میں نے ایک صاف جگہ تلاش کرکے فجر کی نماز پڑھی اور درود شریف کا وظیفہ کرنے لگا۔ جب اس سے فراغت حاصل ہوئی تو اپنے دائیں بائیں بہت سے مردہ خوروں کو منتظر بیٹھے دیکھا۔ غالباً میرے بدن کے سکوت سے وہ غلط فہمی کا شکار ہوگئے تھے۔ میں اٹھ کر کھڑا ہوا تو وہ خوف زدہ ہوکر اپنے پتلے پتلے پیروں سے اچھل اچھل کر پیچھے ہٹنے لگے اور پھر مایوس ہوکر فضا میں بلند ہوگئے۔ یہ مردہ خور گدھ بعض اوقات زندہ انسانوں پر بھی حملے کردیا کرتے ہیں۔ چنانچہ یہاں سے آگے بڑھ جانا ضروری تھا۔ ذرا بستی پہنچ کر یہ معلوم کیا جائے کہ یہی بستی جمال گڑھی ہے۔ ایک سمت اختیار کرکے چل پڑا۔ دفعتاً کچھ فاصلے پر مجھے ایک انسانی جسم نظر آیا۔ کوئی پشت کئے ایک جھاڑی کے قریب بیٹھا ہوا تھا۔ اس سمت قدم بڑھا دیئے اور اسے دیکھتا ہوا آگے بڑھنے لگا۔ ہوسکتا ہے یہی میری رہنمائی کردے۔ کچھ فاصلے پر پڑے ہوئے ایک پتھر سے ٹھوکر لگی تو بیٹھی ہوئی شخصیت اچھل کر کھڑی ہوگئی۔ تب میں نے سے دیکھا۔ ایک بھیانک صورت عورت تھی جس کی عمر پینتالیس سال کے قریب ہوگی۔ لمبے لمبے بال بکھرے ہوئے تھے، رنگ بھی مٹیالا تھا اور جگہ جگہ خون کے دھبے نظر آرہے تھے۔ جسم پر لباس بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔ ہاتھ ضرورت سے زیادہ لمبے تھے۔ جب اس نے میری سمت نگاہیں اٹھائیں تو میرے قدم ٹھٹھک گئے۔ بہت خوفناک شکل تھی ساتھ ہی اس نے بھیانک چیخ ماری اور ایک لمبی چھلانگ لگا دی۔ میں ششدر کھڑا رہ گیا۔ وہ دوڑتی ہوئی کچھ فاصلے پر باجرے کے کھیتوں میں جاگھسی۔ چند لمحات اپنی جگہ ساکت رہا پھر غیر اختیاری طور پر اس سمت نگاہ اٹھ گئی جہاں وہ بیٹھی ہوئی تھی۔ دوسرے لمحے بری طرح چونک پڑا۔ ایک انسانی جسم وہاں بھی موجود تھا اور زمین پر بے سدھ پڑا ہوا تھا۔ دوڑتا ہوا وہاں پہنچا اور خوف سے اچھل پڑا۔ نو یا دس سالہ بچے کا جسم تھا جس کا پھٹا ہوا لباس اس سے چند قدم کے فاصلے پر پڑا ہوا تھا۔ اس کا سینہ چاک تھا اور جسم کی آلائش قرب و جوار میں بکھری ہوئی تھی۔ جگہ جگہ زمین پر خون نظر آرہا تھا۔ گردن مڑ کر دوسری سمت اختیار کرچکی تھی۔ اس کے سینے کی جو کیفیت نظر آئی، اسے دیکھ کر سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا کہ اس میں زندگی ہوسکتی ہے۔ میں بچے کے قریب بیٹھ گیا۔ اس کی مڑی ہوئی گردن سیدھی کی۔ معصوم شکل کا بچہ تھا جسے اس وحشی عورت نے اپنی درندگی کا شکار بنایا تھا لیکن کیوں…؟ ایک اتنے معصوم بچے سے اس بدبخت کو کیا دشمنی تھی، سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کروں لیکن فرض تھا کہ بستی والوں کو فوراً ہی اس حادثے کی خبر دوں۔ یہ خدشہ بھی تھا کہ ابھی چند لمحات میں مردہ خور گدھ آجائیں گے اور اس کی لاش کو نوچنا شروع کردیں گے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ لاش کی بکھری ہوئی آلائش کو جمع کرنا بھی ایک مشکل کام تھا۔ اس کے علاوہ اور کوئی تدبیر نہ بنی کہ بستی کی جانب دوڑوں۔ سو میں دوڑنے لگا۔ زیادہ فاصلے پر نہیں پہنچا تھا کہ پریشان حال انسان نظر آئے۔ ہاتھ میں لاٹھیاں تھیں اور چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ میں نے زور زور سے انہیں پکارا۔ ’’سنو بھائیو…! ادھر آئو، میری بات سنو… سنو!‘‘ اور وہ جلدی سے میرے قریب آگئے۔
’’وہاں اس طرف جھاڑیوں میں ایک بچے کی لاش پڑی ہوئی ہے جس کا جسم ادھیڑ دیا گیا ہے۔‘‘
’’کیا…؟‘‘ ان میں سے ایک شخص نے پھٹی پھٹی آواز میں کہا اور شاید اسے غش آگیا۔ اس نے لاٹھی زمین پر ٹکا کر اپنا سر اس سے لگا دیا۔ دوسرے نے اس کا بازو تھام کر مجھ سے پوچھا۔ ’’کدھر… کہاں…؟‘‘
’’آئو میں تمہیں اس سمت لے چلوں۔‘‘
’’جنک رام! خود کو سنبھال بھائی، آ ذرا چلیں، ہمت کر۔‘‘ جس شخص کو جنک رام کے نام سے پکارا گیا تھا، اس کی آنکھوں سے آنسوئوں کی برسات ہورہی تھی۔ بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔ ’’آہ! وہی ہوا، وہی ہوگیا جس کا اندیشہ تھا۔ میرا بھائی تو بے موت مر جائے گا۔ اجڑ گیا یہ گھر، اجڑ گیا۔ برباد ہوگیا۔ ہائے کیسے دیکھوں گا میں اپنے بھتیجے کی لاش…!‘‘
’’ہمت کر جنک رام! آچلیں تو سہی۔‘‘ دوسرے آدمی نے کہا پھر میری طرف دیکھ کر بولا۔ ’’چلو بھیا! ذرا بتائو ہمیں وہ جگہ…!‘‘
’’یہاں مردہ خور گدھ بھی ہیں۔ میں دوڑتا ہوا جاتا ہوں، تم میرے پیچھے پیچھے آجائو۔ کہیں
مردہ خور بچے کی لاش کو خراب نہ کریں۔ ویسے بھی لاش بہت خراب ہوچکی ہے۔‘‘ میں نے کہا اور واپس دوڑ لگا دی۔ وہ دونوں بھی ہانپتے کانپتے میرے پیچھے آرہے تھے۔ میرا خیال درست تھا۔ گدھ بلندی پر منڈلانے لگے تھے۔ میں نے ایک سوکھی ٹہنی اٹھائی اور لاش کے پاس جاکھڑا ہوا۔ منڈلاتے ہوئے مردہ خوروں کو میں نے منہ سے آوازیں نکال کر ڈرایا اور لکڑی ہوا میں لہرانے لگا۔ چند لمحات کے بعد وہ دونوں بھی میرے پاس پہنچ گئے۔ جنک رام نے بچے کا چہرہ دیکھا اور دھاڑیں مارمار کر رونے لگا۔ دوسرا اسے سمجھا رہا تھا۔ اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’ہمت کر جنک رام…! تو سوچ رگھبیر بھیا کا کیا حال ہوگا۔ بھابی کیسے جئے گی۔ بڑی مصیبت آپڑی یہ تو…!‘‘
’’ارے لٹ گئے ہم تو ہیرا بھیا! ارے جیون برباد ہوگیا ہمارا، میرا پرکاش، میرا پرکاش!‘‘ جنک رام روتا ہوا لاش سے لپٹ گیا۔
’’تمہارا نام ہیرا ہے؟‘‘ میں نے دوسرے آدمی سے کہا۔
’’ہاں بھیا! ہیرا لال…!‘‘
’’ہیرا لال! لاش کو یہاں سے اٹھانے کا بندوبست کرو۔ تم بستی جاکر دوسرے لوگوں کو خبر کردو۔‘‘
’’جاتا ہوں بھیاجی…! بڑی بپتا پڑی ہے جمال گڑھی پر…! تم یہاں رکے رہو بھیا جی! ذرا سنبھالنا جنک رام کو۔‘‘ ہیرا نے کہا۔
’’تم جائو۔‘‘ میں نے کہا اور ہیرا لال جنک رام سے بولا۔ ’’جنک! سنبھال خود کو، ابھی تو تجھے بھیا، بھابی کو سنبھالنا ہے۔ میں بستی جارہا ہوں سنبھال جنک رام! خود کو‘‘
’’جا… بھیا…!‘‘ جنک رام نے روتے ہوئے کہا اور ہیرا اس کا شانہ تھپتھپاتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔
’’جنک رام…! خود کو سنبھالو، یہ بچہ تمہارا کون ہے؟‘‘
’’بھتیجا ہے ہمارا… اکلوتا تھا اپنے ماتا، پتا کا۔ لاڈلا تھا ہمارا۔ بڑا انیائے ہوگیا بھیا…! بڑا انیائے ہوگیا۔‘‘
’’یہ یہاں کیسے آگیا؟‘‘
’’بھگوان جانے، رات کو کھیلنے نکل گیا تھا بچوں کے ساتھ۔ رات گئے تک واپس نہ آیا تو سب پریشان ہوگئے۔ سب کے سب ڈھونڈتے پھرے ہیں رات بھر۔ ساری رات تلاش کیا ہے بھیا! ملی تو اس کی لاش!‘‘
’’تمہارے خیال میں اسے کس نے مارا…؟‘‘
’’نہ معلوم بھیا! کوئی ڈائن لگے ہے۔ ہائے دیکھو اس کا بھی کلیجہ نکال کر کھا گئی ہے۔‘‘
’’ڈائن…!‘‘ میری سانس رکنے لگی۔
’’تم خود دیکھ لو بھیا! پہلے بھی چار کا یہی حال ہوا ہے۔‘‘
’’کیا…؟‘‘ میں اچھل پڑا۔ میں نے پریشان نظروں سے ان کھیتوں کی طرف دیکھا جہاں وہ خوفناک عورت جا گھسی تھی۔ کیا وہ ڈائن تھی، بچوں کا کلیجہ نکال کر کھا جانے والی…!
’’تم جمال گڑھی کے نہ ہو کیا بھیا…؟‘‘
’’نہیں… میں تو مسافر ہوں۔‘‘
’’تبھی تو…! جمال گڑھی میں کوئی ڈائن گھس آئی ہے بھیا! چار بچوں کو مار چکی ہے جان سے۔‘‘
’’خدا کی پناہ! تمہیں ایک بات بتائوں جنک رام!‘‘
’’بتائو بھیا!‘‘ اس نے انگوٹھے سے آنکھیں پونچھتے ہوئے کہا۔
’’میں صبح ہونے سے پہلے اس علاقے میں داخل ہوا تھا۔ بستی کے بارے میں کسی سے معلوم کرنا چاہتا تھا…!‘‘ میں نے جنک رام کو پوری کہانی سنائی اور وہ اچھل کر کھڑا ہوگیا۔
’’کونسے کھیتوں میں…؟‘‘ اس نے اپنی لاٹھی مضبوطی سے پکڑتے ہوئے کہا اور میں نے کھیتوں کی طرف اشارہ کردیا۔ جنک رام لاٹھی ہلاتا جوش کے عالم میں چیختا کھیتوں کی طرف دوڑا۔ میری نظریں اسی طرف لگی ہوئی تھیں۔ جنک رام کھیتوں میں گھس گیا تھا۔ پھر اس کی دھاڑ سنائی دی۔ ’’رک تو سسری! بھاگ کہاں رہی ہے؟ اری رک تیرا ستیاناس…!‘‘ پھر میں نے خوفناک عورت کو لمبی لمبی چھلانگیں لگاتے ہوئے دیکھا۔ جنک رام لاٹھی پکڑے اس کے پیچھے بھاگ رہا تھا پھر اس نے لاٹھی گھما کر پوری قوت سے عورت پر پھینکی۔ عورت بال بال بچی تھی۔ جنک رام جوش غضب سے دیوانہ ہورہا تھا۔ عورت اگر اس کے ہاتھ آجاتی تو وہ یقیناً اسے ریزہ ریزہ کردیتا۔ جنک رام اس کے پیچھے بھاگتا ہوا دور نکل گیا تھا۔ اتنا دور کہ اب مجھے نظر بھی نہیں آرہا تھا البتہ بستی کی طرف سے بے شمار لوگ دوڑتے آرہے تھے۔ ہیرا لال سب سے آگے آگے تھا۔ کچھ دیر کے بعد بستی والے قریب آگئے اور کہرام مچ گیا۔ مجھے پیچھے ہٹنا پڑا تھا۔ ایک آدمی جس کی حالت بہت خراب تھی، آگے بڑھا۔ لوگ اسے پکڑے ہوئے تھے۔ اس نے بچے کی لاش دیکھی اور غش کھا کر گر پڑا۔
’’جنک رام! کہاں گیا؟‘‘ ہیرا لال نے مجھ سے پوچھا مگر جواب دینے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ جنک رام جوش سے لاٹھی گھماتا واپس آرہا تھا۔ وہ دوڑتا ہوا قریب پہنچ گیا۔
’’پتا چل گیا آج، سب کچھ معلوم ہوگیا بھیا! آج ساری باتیں پتا چل گئیں۔ ارے کہاں ہے وہ سسرا تلسیا…! کہاں چھپا ہے رے سامنے آ…!‘‘
تلسیا نے کیا کردیا جنک رام…؟‘‘ کسی نے پوچھا۔
’’ڈائن پتا چل گئی رمبھا چاچا! ڈائن پتا چل گئی۔‘‘
’’کون ہے… کون ہے وہ…؟‘‘ بہت سی آوازیں ابھریں۔
’’بھاگ بھری ارے وہی سسری بھاگ بھری! خون سے رنگی ہوئی تھی کمینی! ارے آنکھوں سے دیکھ لیا اپنی!‘‘
’’بھاگ بھری … بائولی بھاگ بھری…؟‘‘
’’بنی ہوئی بائولی ہے بھیا! آج دیکھ لیا آنکھوں سے! ارے جائے گی کہاں، کئی دیئے بجھائے ہیں اس نے…! پوت کہاں چھپا ہوا ہے اس کا…؟ ارے دیکھ لئے اپنی میا کے کرتوت…!‘‘ جنک رام کا سانس پھول رہا تھا۔ پھر اس نے لاش کے پاس بے ہوش پڑے ہوئے شخص کو دیکھا اور ایک بار پھر دھاڑیں مارنے لگا۔
’’ارے بھیا! ہمارا چراغ بھاگ بھری نے بجھایا ہے۔ وہی ڈائن ہے بڑے بھیا…! ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔‘‘
’’کچھ بتائو تو سہی جنک رام…!‘‘
’’سب ڈھونڈ رہے تھے پرکاش کو، مسافر نے خبر دی۔ ہم نے لاش دیکھی، ہیرا خبر کرنے گیا۔ مسافر دوسری بستی کا ہے۔ اس نے بتایا کہ اس نے ڈائن کو کلیجہ چباتے ہوئے دیکھا ہے۔ وہ کھیتوں میں چھپی ہوئی ہے۔ ارے ہم دوڑے کھیتوں میں، وہاں چھپی ملی بھاگ بھری… ہمیں دیکھ کر نکل بھاگی۔ خون میں رنگی ہوئی تھی سسری! نکل گئی مگر جائے گی کہاں۔ ارے نہ جانے دیں گے سسری کو…!‘‘
’’سب سکتے کے عالم میں سن رہے تھے اور میرا دل عجیب سا ہورہا تھا۔ کیا ہے یہ سب کچھ… مگر کچھ تھا… ضرور کچھ تھا۔ مجھے یہاں بھیجا گیا تھا۔ یقیناً اس کا کوئی مقصد ہوگا۔ یقیناً!‘
میں نے اس عورت کو دیکھا تھا، صورت واقعی خوفناک تھی۔ میں نے خود اس کے چہرے پر خون کے دھبّے دیکھے تھے مگر وہ ڈائن تھی اور پہلے بھی یہ بھیانک عمل کر چکی تھی۔ بچپن میں جو باتیں کہانیوں کی شکل میں سنی تھیں، سب ہی تو سامنے آتی جا رہی تھیں۔ نہ جانے مستقبل اور کیا کیا دکھائے گا۔ چڑیل دیکھی تھی، پچھل پیری سے واسطہ پڑا تھا، کالی دیوی سے بھی خوب واقف ہوگیا تھا، ہندوئوں کے ساتھ رہن سہن کی وجہ سے ہولی دیوالی سے شناسائی ہوئی تھی۔ یہاں تو سارے قصّے کہانیاں یہی تھیں، بھوت، پریت، سرکٹے، چڑیلیں، ان کے علاوہ اور کیا تھا مگر یہ مزیدار کہانیاں جنہیں سن کر راتوں کو ڈر لگتا تھا اور ماں سے چمٹ کر سونے کو جی چاہتا تھا، آج آنکھوں کے سامنے تھیں۔ آج ڈائن سے بھی ملاقات ہوگئی تھی، ایسی ہوتی ہیں ڈائنیں۔
جنک رام رو رو کر ساری رام کہانی سنا رہا تھا اور میں یہ سوچ رہا تھا۔ ایک بار پھر میں نے اس مظلوم بچّے کی لاش کو بغور دیکھا، اب صحیح اندازہ ہو رہا تھا۔ لوگوں کا کہنا دُرست تھا۔ اس کا اُوپری جسم برہنہ تھا اور سینے کے مقام ہی سے کھلا ہوا تھا، دُوسری آلائشیں بکھری ہوئی تھیں لیکن کلیجہ موجود نہیں تھا۔ لوگ طرح طرح کی باتیں کر رہے تھے۔
’’پر وہ گئی کہاں جنک رام…؟‘‘
’’ارے بھیّا کیا بتائیں مسافر نے کہا کھیتوں میں چھپی ہے سسری۔ ہم لٹھیا لے کر لپکے تو ہمیں دیکھ کر نکل بھاگی اور بھیّا کیا تیز دوڑی مسافر سے پوچھ لو، پیروں میں پنکھے بندھے ہوئے تھے۔ ذرا سوچو ڈائن نہ ہوتی تو اتنی تیز
بھاگتی۔ ہم تو پیچھا ہی نہ کر پائے اور وہ یہ جا وہ جا، کیسی بڑھیا بنی پھرتی تھی۔ ہرے رام ہرے رام ہمارے بھیّا کے پوت کو کھا گئی، ارے اب کچھ کرو بھیّا کو اُٹھا کر لے چلو۔ دیکھو تو سہی کہیں دل کی دھڑکن بند تو نہیں ہو گئی۔ ارے بھیّا، ہمارے بڑے بھیّا ارے رگھبیر بھیّا۔‘‘
’’ہاں ہاں چلو رے چادر بچھائو، پرکاش کو اس میں ڈالو۔ اب تو وہ اس سنسار سے چلا ہی گیا۔ ساری باتیں کر لو پرنت جسے جانا تھا وہ تو جا چکا۔‘‘
بہت سے لوگ مل کر لاش کی آلائش سمیٹنے لگے اور اس کے بعد بچّے کے جسم کو اٹھا کر چادر پر لٹا دیا گیا۔ وہ اپنے عقیدے کے مطابق مقدس اشلوک پڑھ رہے تھے۔ چند لوگوں نے رگھبیر رام کو سنبھال کر ہاتھوں پر اُٹھایا اور پھر یہ سارا قافلہ آبادی کی جانب چل پڑا۔ میں بھی ان کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا اور ان کی باتیں سن رہا تھا لیکن بہت ہی کم باتیں سمجھ میں آ رہی تھیں۔ جمال گڑھی کا نام لیا جا چکا تھا، اس لیے اب اس میں بھی شبہ نہیں تھا کہ جس بستی کی جانب میں جا رہا ہوں، وہ جمال گڑھی ہی ہے جہاں جانے کی مجھے ہدایت کی گئی تھی۔ تھوڑا بہت اندازہ ہو رہا تھا کہ شاید یہی کام میرے سپرد کیا گیا ہے۔ وہ تمام باتیں ذہن میں محفوظ تھیں جو بتائی گئی تھیں۔ مجھ سے خود پر اعتماد کرنے کو کہا گیا تھا اور وہ عطیہ واپس لے لیا گیا تھا جو میرے لیے بڑی تقویت کا باعث تھا لیکن دل کو ایک اعتماد تھا کہ میری امداد سے گریز نہیں کیا جائے گا۔ میں کونسا عالم تھا کہ ہر مرض کی دوا میرے پاس ہوتی، بس یہ ایک امتحانی منزل تھی جس سے بازو پکڑ کر گزارا جا رہا تھا دل میں یہی دُعا تھی کہ اللہ مجھے اس منزل تک پہنچا دے جومیرے لئے متعین کی گئی ہے۔ بڑی ہمت اور بڑے صبر سے اپنے فرض کی بجا آوری کر رہا تھا اور کہیں بھی سرکشی ذہن میں نہیں اُبھری تھی۔ اپنے یاد آتے تو زبان کو دانتوں میں دبا لیتا، اپنے جسم کو نوچنے لگتا کہ یادیں پیچھا چھوڑ دیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بات ناگواری کی منزل میں پہنچ جائے اور ایک بار پھرمصائب کا شکار ہو جائوں۔ اپنے طور پر جس حد تک ممکن ہو رہا تھا ان ہدایات پرعمل کر رہا تھا۔
بستی کا سفر انہی خیالات میں کٹ گیا۔ میں بھی لوگوں کے ساتھ ساتھ ہی جنک رام کے گھر کے دروازے پر پہنچا تھا اور اس کے بعد وہاں جو کچھ ہونے لگا تھا وہاں رُکنا میرے لیے بے کار سی بات تھی۔ لوگ جنک رام کے گھر کے دروازے کے باہر جمع ہوگئے تھے، اندر سے رونے پیٹنے کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں، ان آوازوں میں عورتوں کا شور بھی تھا، مردوں کی آوازیں بھی تھیں۔ میں وہاں سے واپس پلٹا، تقریباً ساری بستی والوں کو اس واقعہ کی خبر ہوگئی تھی۔ کوئی اپنے کام پر نہیں گیا تھا، سب کے سب جنک رام کے دروازے پر جمع ہوگئے تھے۔ میں نے ایک شخص کو روکا تو وہ فوراً ہی رُک کر مجھے دیکھنے لگا۔
’’تم مسافر ہو نا بھیّا…؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’ہاں بھائی یہ بستی جمال گڑھی ہی ہے نا…؟‘‘
’’ہاں بھیّا یہی ہے۔‘‘
’’یہاں کوئی ایسی جگہ مل سکتی ہے بھیّا جی جہاں میں کچھ وقت قیام کر سکوں۔‘‘
’’دھرم شالہ موجود ہے پنڈت رام نارائن کے پاس چلے جائو، ارے ہاں یہ تو بتائو ہندو ہو یا مسلمان…؟‘‘
’’مسلمان ہوں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’تو پھر مسجد میں چلے جائو۔ یا سنو وہ سیدھے ہاتھ جا کر جب اُلٹے ہاتھ کو مڑو گے تو تلسیا کا گھر نظر آئے گا تمہیں… اللہ دین بھٹیارے کی سرائے اسی کے سامنے ہے، وہاں تمہیں رہنے کی جگہ مل جائے گی۔ مسجد تو ابھی نامکمل ہے دوبارہ بن رہی ہے، سارا سامان پڑا ہوا ہے وہاں کہاں ٹھہرو گے۔‘‘
’’بہت بہت شکریہ۔‘‘ میں نے جواب دیا اور اس شخص کے بتائے ہوئے پتے پر چل پڑا، اللہ دین بھٹیارے کی سرائے شاید اس بستی کی واحد سرائے تھی۔ کچا احاطہ بنا ہوا تھا اور اس میں کچھ کمرے نظر آ رہے تھے۔ ایک سمت تندور لگا ہوا تھا جس کے کنارے بنی ہوئی بھٹیوں میں آگ سلگ رہی تھی مگر کوئی موجود نہیں تھا، البتہ زیادہ دیر نہ گزری کہ دس بارہ سال کے ایک لڑکے نے اندر سے گردن نکال کر جھانکا اور پھر واپس اندر گھس گیا۔ میں نے زور زور سے آوازیں دیں تو ایک درمیانی عمر کی عورت باہر نکل آئی۔ موٹی تازی تھی، شلوار قمیض پہنے دوپٹہ اوڑھے ہوئے مسلمان عورت معلوم ہوتی تھی۔ میں نے اسے سلام کیا تو وہ عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھنے لگی پھر بولی۔ ’’کیا بات ہے؟‘‘
’’اللہ دین بھٹیارے کی سرائے یہی ہے نا؟‘‘
’’ہاں یہی ہے مگر تو کون ہے بھیّا؟‘‘
’’اللہ دین کہاں ہے؟‘‘
’’ارے بس نکل کھڑا ہے تماشا دیکھنے کیلئے، ساری ہنڈیا جلا کر خاک کر دی۔ پورا کا پورا تین سیر گوشت تھا… مگر تو کون ہے بھیّا؟‘‘
’’مسافر ہوں، بہن اس سرائے میں ٹھہرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’ارے کلو او… کلو تیرا ستیاناس کہاں مر گیا ارے باہر نکل۔‘‘
’’اماں تو نے ہی تو منع کر دیا تھا کہ باہر نہ نکلوں ڈائن کھا جائے گی۔‘‘ لڑکے نے کہا۔
’’ارے ڈائن کے بچے باہر آ، دیکھ مسافر آیا ہے۔‘‘ عورت نے کہا اور وہی لڑکا جو مجھے جھانک کر اندر گھس گیا تھا، باہر نکل آیا۔
’’جا ابا کو بلا کر لا، کہہ دے تماشا ختم ہوگیا۔ مسافر آیا ہے اور وہ باہر مستا رہا ہے۔ ارے بھیّا مجھ سے بات کرو میں اللہ دین کی گھر والی ہوں۔‘‘
’’مجھے یہاں رہنے کیلئے جگہ مل سکتی ہے؟‘‘
’’لو بھیّا پورے کے پورے چار کمرے خالی پڑے ہیں جس میں جی چاہے ٹھہر جائو مگر ڈیڑھ روپے روز ہوتا ہے کمرے میں ٹھہرنے کا اور کھانے پینے کے پیسے الگ، صبح کی چائے دو آنے کی۔ جب بھی چائے پیو گے دو آنے دینے پڑیں گے۔ دوپہر کو کھانا کھائو گے تو دس آنے الگ ہوں گے۔ رات کو کھائو گے تو بھی دس آنے ہوں گے۔ سوچ لو منظور ہو تو ٹھیک ہے۔‘‘
میری جیب میں چار روپے موجود تھے جو مجھے وظیفے کے طور پر عطا کئے گئے تھے۔ میں نے ایک بار پھر یہ پیسے دیکھے اور تین روپے نکال کر خاتون کو دے دیئے۔
’’یہ دو دن کا کرایہ رکھ لیجئے کھانا کھائوں گا تو اس کے پیسے الگ دوں گا۔‘‘
’’آئو بھیّا کوٹھا دکھا دیں تمہیں۔‘‘ عورت نے کہا۔ جو کوٹھا مجھے دکھایا گیا وہ بھی کچی مٹی کا ہی بنا ہوا تھا، اُوپر پھونس کا چھپڑ پڑا ہوا تھا۔ مٹی میں تین روشن دان نکالے گئے تھے جن سے کمرہ خوب روشن ہوگیا تھا۔ ایک طرف بانوں سے بنی ہوئی چارپائی پڑی تھی۔ دُوسری جانب ایک گھڑونچی جس پر مٹکا، پانی نکالنے کا ڈونگا اور گلاس رکھا ہوا تھا۔ یہ تھی کل کائنات اس کمرے کی… میرے لئے بھلا اعتراض کی کیا بات ہو سکتی تھی، میں نے فوراً ہی پسندیدگی کا اظہار کر دیا۔ عورت کہنے لگی۔ ’’ہم دردی بچھائے دے ہیں تکیہ اور کھیس بھی مل جائے گا ہمارے ہی ہاں سے۔ یہ کمرے کے کرائے میں ہوگا۔ اب بتائو ناشتہ کرو گے…؟‘‘
’’نہیں بہن… ہاں ایک پیالی چائے اگر مل جائے۔‘‘
’’چار پیالی پی لو لیکن اَٹھنّی نکال لو۔‘‘ عورت نے کھرے کاروباری لہجے میں کہا اور میں نے ہنستے ہوئے اسے مزید چار آنے دے دیئے اور بارہ آنے واپس لے لیے۔ اس میں رات کا کھانا کھایا جا سکتا تھا۔ غرض یہ کہ مجھے جمال گڑھی میں ایک عمدہ قیام گاہ مل گئی اور کچھ دیر کے بعد چائے بھی…
میں چائے پی رہا تھا کہ ایک دُبلے پتلے آدمی نے جو کرتا پاجامہ پہنے ہوئے تھا اور سر پر کپڑے کی ٹوپی لگائی ہوئی تھی، اندر جھانکا۔ سلام کیا تو میں نے اسے سلام کا جواب دیا اور وہ مسکراتا ہوا اندر آگیا۔
’’تم وہی مسافر ہو نا بھیّا جی جس نے ڈائن کو بے چارے پرکاش کا کلیجہ چباتے ہوئے دیکھا تھا۔‘‘
’’ہاں میں ہی وہ گناہگار ہوں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’بھیّا تم ہماری سرائے میں ٹھہرے ہو۔‘‘
’’تمہارا نام اللہ دین ہے۔‘‘
’’ہاں بھیّا… اپنی ہی سرائے ہے یہ۔ بڑا اچھا ہوا تم یہاں
گئے۔ ہماری گھر والی نے ہمیں بتایا تو ہم سمجھ گئے کہ تم ہی ہو سکتے ہو اور بڑی اچھی بات ہے کہ مسلمان ہو۔ بھیّا ذرا ہمیں پورا واقعہ تو بتائو۔‘‘ وہ بڑے اطمینان سے زمین پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔
’’بہت افسوسناک واقعہ ہے اللہ دین اب کیا بتائوں میں تمہیں۔ جو کچھ تم نے باہر سے سنا، بس اتنا ہی ہے۔‘‘
’’اری زبیدہ او… زبیدہ اری اندر آ۔ میں نے کہا تھا نا تجھ سے وہی مسافر بھیّا ہیں جنہوں نے ڈائن کو دیکھا ہے۔‘‘ اللہ دین نے بیگم صاحبہ کو بھی طلب کر لیا اور بیگم صاحبہ دوڑتی ہوئی اندر آ گئیں۔
’’اری… اری… میرے اوپر نہ گر پڑیو۔‘‘ اللہ دین ایک طرف کھسکتا ہوا بولا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بیگم اللہ دین کے مقابلے میں وہ بہت کمزور تھا۔ بیگم صاحبہ ہانپتے ہوئے کہنے لگیں۔ ’’وہی ہیں… وہی ہیں…؟‘‘
’’تو اور کیا… میں نے کہا تھا نا تجھ سے کہ بستی میں ایک ہی مسافر داخل ہوا ہے، ہو سکتا ہے یہ وہی مسافر بھیّا ہوں۔‘‘ محترمہ بھی پھسکڑا مارکر بیٹھ گئیں اور بولیں۔ ’’بھیّا تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا یقین نہ آوے ہے ہمیں۔‘‘
’’اری چھوڑ ، یقین نہ آوے ہے تجھے۔ بستی والے مار مار کر بھرکس نکال دیں گے تیرا۔ سب غصے میں بھرے ہوئے ہیں۔ اب بے چارے تلسیا کی شامت آگئی۔‘‘ بھٹیارے نے کہا۔
میں ان دونوں کو بغور دیکھ رہا تھا میں نے کہا۔
’’مگر یہ بھاگ بھری ہے کون…؟‘‘
’’ارے بھیّا پہلے تو ہمیں قصہ تو سنائو بعد میں بتا دیں گے بھاگ بھری کون ہے۔‘‘ اللہ دین نے کہا۔
’’قصہ بس یہ تھا بھائی اللہ دین کہ میں ایک دُوسری بستی سے آ رہا تھا۔ تمہاری جمال گڑھی میں کھیتوں کے کچھ فاصلے پر ایک درخت کے نیچے میں نے اس عورت کو بیٹھے ہوئے دیکھا۔ اس کی پشت میری جانب تھی اس لیے میں یہ نہیں دیکھ سکا کہ وہ کیا کر رہی ہے۔ میرے قدموں کی چاپ سن کر وہ اُٹھ کھڑی ہوئی۔ مجھے دیکھ کر زور سے چیخی اور بھاگ کر کھیتوں میں جا گھسی۔ اس کے بعد دُوسرے لوگ آ گئے۔ میں نے باقی واقعات ان لوگوں کو سنائے اور اللہ دین دونوں کانوں کو ہاتھوں کی قینچی بنا کر چھونے لگا اور گالوں پر درمیانی اُنگلیاں مارنے لگا جبکہ بیگم اللہ دین کا چہرہ خوف زدہ ہوگیا تھا۔
’’اللہ بچائے رکھے میرے کلو کو… ارے میں تو پہلے ہی کہتی تھی کہ ڈائن بستی ہی میں کوئی ہے۔ بھلا باہر سے کہاں سے آئے گی۔‘‘ مسز اللہ دین نے کہا۔ میں ان دونوں کی احمقانہ حرکتیں دیکھتا رہا۔ دونوں ہی سیدھے سادے معصوم دیہاتی معلوم ہوتے تھے۔
’’اب آپ لوگ مجھے اس ڈائن کے بارے میں بتائیں۔‘‘
’’ارے بھیّا اللہ جانے کیا ہوگیا وہ پگلی تو تھی، جانے ڈائن کیسے بن گئی۔ ہم تو سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ سارا جیون ہمارے سامنے گزرا ہے بھاگ بھری کا، میرے سامنے بیاہ کر آئی تھی رتن لال کے ہاں۔ سارے کام یہیں کے یہیں ہوگئے، ہے رے تقدیر۔‘‘
(جاری ہے)