Sunday, October 6, 2024

Kala Jadu | Episode 53

عالم استغراق میں مجھے ان قدموں کے نزدیک کوئی سیاہ شے پھڑکتی ہوئی نظر آئی تھی لیکن نظر کوئی بھی نہیں آرہا تھا۔ ہاں، خون کے چند دھبے نمایاں طور پر دیکھے جاسکتے تھے حالانکہ ان کا اندازہ لگانا بھی مشکل تھا۔ میں نے الٹے ہاتھ سے خون کو تھوڑا سا رگڑ کر دیکھا تو وہ اپنی جگہ سے چھٹ گیا اور اس کے چھوٹے چھوٹے ذرات میری انگلی میں لگے رہ گئے اس کے بعد میں نے اس ہال کے ایک ایک گوشے کا جائزہ لیا۔ اندرونی سمت ایک دروازہ بنا ہواتھا، ہمت کرکے میں اس دروازے سے اندر داخل ہوگیا۔ چھوٹا سا ایک کمرہ تھا لیکن بالکل خالی! کوئی شے وہاں موجود نہیں تھی۔ وہاں سے باہر نکل آیا اور یوں لگا جیسے کوئی بھاگ کر دروازے سے باہر نکل گیا ہو۔ تیزی سے دوڑتا ہوا باہر آیا اور دور دور تک نگاہیں دوڑائیں لیکن اگر کوئی تھا بھی تو اسے تلاش کرنا ناممکن تھا کیونکہ آس پاس بکھری ہوئی جھاڑیوں میں تو اگر سیکڑوں انسان بھی چھپ جاتے تو ان کا سراغ لگانا مشکل ہوتا۔ یہ جگہ یقینی طوز پر بہت پراسرار تھی۔ بھاگتے ہوئے قدموں کا تعاقب کرتا ہوا میں باہر نکلا تھا لیکن ابھی وہاں بہت سی چیزیں جائزہ لینے کیلئے موجود تھیں چنانچہ پھر اندر داخل ہوگیا اور ایک بار پھر ہال میں ادھر ادھر دیواروں، کونوں، کھدروں کو تلاش کرنے لگا۔ صاف ظاہر ہوگیا تھا کہ یہ جگہ انسانی پہنچ سے دور نہیں ہے۔ دیوار میں دو مشعلیں گڑھی ہوئی تھیں جن میں نجانے کیا چیز جلائی جاتی تھی۔ روئی سے بنی ہوئی بتیاں ان مشعلوں میں تراشے ہوئے دیوں میں پڑی ہوئی تھیں اور ایک عجیب سے رنگ کا موم جیسا مادہ بھی موجود تھا۔ یہ بتیاں یقیناً روشن کردی جاتی ہوں گی۔ ہوسکتا ہے یہاں پوجا ہوتی ہو۔ ظاہر ہے مذہب کے متوالے اپنے اپنے دھرم کے مطابق یہ عمل کرتے ہی ہیں لیکن جگہ بے حد بھیانک اور پراسرار تھی۔ میں نے اس کا پورا پورا جائزہ لیا اور اس کے بعد وہاں سے بھی باہر نکل آیا۔ جھاڑیوں کے درمیان سے گزرتا ہوا ایک بار پھر کھیتوں کے قریب پہنچا۔ چار پانچ افراد پر مشتمل ایک گروہ نظر آیا جو ہاتھوں میں لاٹھیاں لئے چوکنے انداز میں آگے بڑھ رہا تھا۔ یہ سب غیر مانوس شکلیں تھیں لیکن وہ شاید مجھے جانتے تھے۔ تیکھی نگاہوں سے مجھے دیکھنے لگے اور میری طرف اشارہ کرکے باتیں کرنے لگے۔ میں خود ہی ان کے قریب پہنچ گیا تھا۔ میں نے کہا۔ ’’کیا کررہے ہو بھائی…؟‘‘
’’اسی چڑیل کو تلاش کررہے ہیں۔ ڈائن بچ کر کہاں جائے گی ہمارے ہاتھوں سے! ارے بستی میں آگ لگا دی ہے اس نے، ہر گھر میں رونا پیٹنا مچا ہوا ہے اس کی وجہ سے…! بھگوان کی سوگند نظر آجائے، جیتا نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ میں نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ پھر مکانوں کے بیچ سے نکلا تھا کہ سامنے مکھیا کا گھر نظر آگیا۔ غالباً یہ عقبی راستہ تھا۔ یونہی ٹہلتا ہوا آگے بڑھا اور اس گھر کے قریب پہنچ گیا لیکن آج بھی وہاں تماشا ہورہا تھا۔ بیچارے تلسی کو دیکھا جسے دو آدمی پکڑے ہوئے لا رہے تھے اور چار پانچ اس کے پیچھے چل رہے تھے۔ چوپال کی جگہ ٹھاکر صاحب بدستور بیٹھے ہوئے تھے حالانکہ دوپہر کا وقت تھا لیکن ٹھاکر صاحب قصہ نمٹانے آگئے تھے۔ میں بھی تیز قدموں سے آگے بڑھتا ہوا ان کے قریب پہنچ گیا۔ ٹھاکر صاحب کسی قدر ناخوشگوار انداز میں ان لوگوں کو دیکھ رہے تھے۔ وہ بولے۔ ’’ارے تم اس بیچارے کے پیچھے کاہے پڑ گئے ہو۔ آخر مار دو سسرے کو، دو لٹھیاں مارو بھیجہ نکال باہر کرو، جان تو چھوٹے!‘‘
’’ٹھاکر جی! جھوٹ نہیں کہہ رہے ہم لوگ، سوگند لے لو ہم سے بھی اور اس سے بھی! اس سے پوچھو رات کو بھاگ بھری اس کے پاس آئی تھی یا نہیں…؟‘‘
’’کیوں رے بتا بھائی بتا! کیا کریں تیرا ہم، ارے بستی چھوڑ کر ہی چلا جا پاپی! کہیں مارا جائے گا ان لوگوں کے ہاتھوں۔ دھت تمہارے کی۔ ارے آئی تھی وہ کیا تیرے پاس…؟‘‘
’’آئی تھی ٹھاکر!‘‘
’’تو پھر تو نے پکڑا اسے…؟‘‘
’’پکڑا تھا مگر ان لوگوں نے پتھر مارمار کر ہمارا ستیاناس کردیا۔ وہ ہمیں دھکا دے کر نکل بھاگی۔‘‘
’’یہ جھوٹ بولتا ہے ٹھاکر! اس نے اسے پتھروں سے بچانے کیلئے اپنے بدن کے نیچے چھپا لیا تھا۔‘‘
’’تو پاپیو، بھیا توہے نا کیا کرتا۔ ارے تم لوگوں کا بھگوان کا خوف ہے کہ نہیں۔ ساری بستی پر تباہی لائو گے۔ تم مجھے بتائو، ٹھنڈے من سے بتائو، سوچ کر بتائو۔ تمہاری بہن پاگل ہوجاتی۔ کوئی اس پر الزام لگا دے کہ وہ ڈائن ہے اور تم نے اپنی آنکھوں سے نہ دیکھا ہو تو کیا مروا دو گے اسے بستی والوں کے ہاتھوں، پتھر مارمار کر سر کھلوا دو گے اس کا! ارے اس نے اگر ایسا کیا بھی ہے تو کونسا برا کام کیا کیا۔ تم یہ بات کہنا چاہتے ہو کہ یہ بھی اپنی بہن کے ساتھ بچوں کو مارتا ہے۔ بولو جواب دو؟ اگر ایسا نہیں ہے تو اس بیچارے کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہو۔ جائو پکڑ لو کہیں سے بھاگ بھری کو، لے آئو سسری کو میرے پاس! میں خود تم سے کہوں گا کہ جان نکال لو اس کی۔ ارے کسی نے ٹھیک سے دیکھا تو ہے نہیں اور پڑ گئے پیچھے۔ دیکھو میں نے تم سے پہلے بھی کہا تھا اور اب جیسے کہہ رہا ہوں، اسے سمجھ لو۔ تلسی کو اس کے بعد اگر کسی نے ہاتھ لگایا تو مجھ سے برا اور کوئی نہیں ہوگا اور بھاگ بھری کے بارے میں بھی میں تم سے یہی کہتا ہوں۔ دیکھ لو، پکڑ لو تو جان سے مت مارنا۔ پہلے میرے سامنے لے آنا۔ وہ تم میں سے کسی کو نہیں کھا جائے گی۔ سمجھے سورمائو! اس بیچارے کو باربار پکڑ کر لے آتے ہو۔‘‘
’’یہ انصاف نہیں ہے ٹھاکر صاحب!‘‘ یہ آواز جنک رام کی تھی۔
’’ارے جنک رام! بھیا ہم جانیں ہیں تیرے من میں آگ لگی ہے پر ایسا تو نہ کر جیسا تو کررہا ہے۔ بھاگ بھری کو ایک بار بھی پکڑ کر لے آئے گا تو ہم تجھ سے کچھ نہیں کہیں گے۔ اس بیچارے کی جان کے پیچھے کیوں لگ گئے ہو تم لوگ، دیکھ تلسیا…! بھاگ بھری اگر تیرے پاس آجائے تو بھیا مت بنیو اس کا! پکڑ کر ہمارے پاس لے آنا۔ ارے ہم بھی تو دیکھیں ذرا ڈائن کو کھلی آنکھوں سے! پتا تو چل ہی جائے گا ،سسری کب تک چھپے گی۔ تم لوگوں نے تو بھیا مغز خراب کرکے رکھ دیا۔‘‘ ٹھاکر کوہلی رام دونوں ہاتھوں سے سر پیٹنے لگا۔
’’اسے کچھ نہیں کہو گے ٹھاکر…؟‘‘ جنک رام بولا۔
’’کیا کہیں اور کیا کہیں! بتائو اور کیا کہیں؟ ادھر آرے تلسیا! ادھر آ ہمارے پاس۔‘‘ تلسی آگے بڑھ کر اس کے پاس آگیا۔ ٹھاکر نے اس کا ہاتھ پکڑا اور چونک پڑا۔ ’’ارےتجھے تو تاپ چڑھا ہوا ہے۔‘‘
’’کل سے پٹ رہا ہوں ٹھاکر! دن بھر مارا، رات کو مارا، تاپ نہ چڑھے گا تو کیا ہوگا۔‘‘ تلسی مظلومیت سے بولا اور ٹھاکر کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا۔
’’پاپیو…! جان لئے بنا نا چھوڑو گے اسے! ارے کچھ شرم کرو، کچھ شرم کرو۔ سنو رے! کان کھول کر سن لو سب کے سب، جنک رام! تو بھی سن لے بھیا۔ تیرا دکھ اپنی جگہ مگر تم سب نے مل کر ہمیں مکھیا بنایا ہے تو مکھیا کا مان بھی دے دو۔ اس کے بعد تلسی کو کوئی ہاتھ نہ لگائے ورنہ ہم پولیس کو بلائیں گے اور پھر دیکھ لیں گے ایک ایک کو۔‘‘
’’اس کا پاٹ لے رہے ہو ٹھاکر!‘‘ کسی نے کہا۔
’’چورسیا او چورسیا!‘‘ ٹھاکر نے کسی کو آواز دی اور ایک قوی ہیکل آدمی آگے بڑھ آیا۔ ’’دیکھ تو کون سورما بولا۔ پکڑ لے اسے اور بیس جوتے لگا دے اس کی کھوپڑی پر! کون بولا تھا پاٹ والی بات…؟‘‘ ٹھاکر نے آنکھیں نکال کر مجمع کو گھورتے ہوئے کہا لیکن دوبارہ کوئی نہ بولا۔ ٹھاکر نے اس وقت شاید مجھے دیکھا تھا۔ پھر اس نے کہا۔ ’’بات سمجھ میں آگئی ہو تو جائو، اپنے گھروں کو جائو۔ جو کہا ہے، اسے یاد رکھنا ورنہ ذمہ دار خود ہوگے۔ زبان
چلائو ہو حرام خور ہم سے! جائو سب جائو۔‘‘ لوگ گردنیں جھکائے چل پڑے۔ میں بھی واپسی کیلئے مڑا تو ٹھاکر نے جلدی سے کہا۔ ’’ارے او داروغہ جی! تم کہاں چلے، ذرا ادھر آئو ہمارے پاس۔‘‘
میں جانتا تھا داروغہ کسے کہا گیا ہے، رک گیا۔ مڑ کر ٹھاکر کوہلی رام کے پاس پہنچ گیا۔ ’’جی ٹھاکر صاحب…؟‘‘
’’مہربانی تمہاری بھائی کہ عزت سے نام لے لیا۔ ہم تو سمجھ رہے تھے کہ بھنگی چمار کہو گے ہمیں!‘‘
’’آپ یہ کیوں سمجھ رہے تھے ٹھاکر صاحب!‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’ایسا ہی لگے ہے ہمیں! بیٹھو… جمال گڑھی میں مہمان آئے ہو، ہم بھی یہیں کے رہنے والے ہیں۔‘‘
’’آپ حکم دے کر بلوا لیتے ٹھاکر صاحب! اللہ دین کی سرائے میں ٹھہرا ہوں۔‘‘
’’تم ہمارا حکم کاہے مانتے بھیا! دبیل میں بسو ہو ہماری کیا۔ دو پور سے سلام تو کیا نا تم نے!‘‘
’’سلام اپنی مرضی سے کیا جاتا ہے ٹھاکر! آپ کی بستی میں بھی مسلمان رہتے ہیں۔ آپ ضرور جانتے ہوں گے کہ مسلمان کسی کے حکم پر نہیں جھکتے۔‘‘
’’ارے بیٹھو تو، دوچار گھڑی کچھ جل پان کرو؟‘‘
’’شکریہ! میں بیٹھ جاتا ہوں۔‘‘
’’تم خوب پھنسے اس پھیر میں، بستی میں کسی سے ملنے آئے تھے یا ایسے ہی گزر رہے تھے؟‘‘
’’بس گزر رہا تھا ٹھاکر! پتا نہیں میری بدقسمتی تھی یا کسی اور کی کہ میں نے وہ منظر دیکھ لیا۔‘‘
’’بھگوان جانے کیا سچ ہے کیا جھوٹ! فیصلہ تو بھگوان ہی کرے گا۔ بھاگ بھری بائولی ہوگئی ہے۔ بچے مر گئے تھے اس کے، پتی بھی مر گیا بے چارہ…! مگر ایسا کیسے ہوگیا۔ ایسی عورت ڈائن کیسے بن گئی۔ وہ بائولی تو ہے۔ ہوسکتا ہے بچے کی لاش پڑی ہو اور وہ پاگل پن میں اس کے پاس بیٹھ کر اسے ٹٹولنے لگی ہو۔ تم نے غور سے اسے دیکھا تھا وہ بچے کو مار رہی تھی؟‘‘
’’پہلے بھی بتا چکا ہوں، اس کی پیٹھ تھی میری طرف!‘‘
’’بھگوان جو کرے، اچھا کرے۔ بستی والے اسے چھوڑیں گے نہیں۔ ہم تو کچھ اور سوچ رہے ہیں۔ پولیس لا کر بھاگ بھری کو پکڑوا دیں۔ پولیس جانے اور اس کا کام۔‘‘ ابھی ٹھاکر نے اتنا ہی کہا تھا کہ اندر سے ایک لمبی تڑنگی عورت نکل آئی اور کرخت لہجے میں بولی۔
’’تمہیں پنچایت لگانے کے علاوہ اور کوئی کام بھی ہے؟ جب دیکھو پنچایت لگائے بیٹھے ہو۔ کاکا بلا رہے ہیں اتی دیر سے۔‘‘ میں نے عورت پر نگاہ ڈالی اور دفعتاً دل دھک سے ہوگیا۔ یہ چہرہ اجنبی نہیں تھا۔ یہ وہی چہرہ تھا جسے میں نے مراقبہ کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ اچھے نقوش مگر کرختگی لئے ہوئے… ٹھاکر بوکھلا گیا۔ جلدی سے اٹھتا ہوا بولا۔
’’ہاں… ہاں! بس آہی رہے تھے۔ اچھا بھیا! پھر کبھی آئو، آدمی بھیجیں گے تمہارے پاس، کبھی جل پان کرو ہمارے ساتھ اچھا!‘‘ وہ اٹھ کر اندر چلا گیا لیکن میرا ذہن چکرایا ہوا تھا۔ وہی چہرہ تھا، سوفیصد وہی چہرہ…! مندر کی عمارت بھی نظر آگئی تھی اور وہ عورت بھی۔ اب کیا کروں، کیسے کروں، کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ سرائے واپس آکر بھی میں سوچتا رہا اور کئی دن سوچتا رہا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔
جمال گڑھی میں قیام کی پانچویں رات تھی۔ میں پریشان تھا۔ بات کسی طور آگے نہیں بڑھ رہی تھی۔ تین دن سے خاموشی تھی۔ بھاگ بھری بھی شاید دور نکل گئی تھی۔ تین دن سے اسے بستی میں نہیں دیکھا گیا تھا۔ تلسی البتہ ملتا رہتا تھا۔ اداس اور ملول تھا۔ بات بات میں سسکنے لگتا تھا۔ مجھے اس پر بہت ترس آتا تھا لیکن میں کیا کرسکتا تھا بے چارے کیلئے۔ ٹھاکر کوہلی رام کے پاس بھی بہت سے چکر لگائے تھے۔ وہ اچھا آدمی تھا۔ ظاہری کیفیت سے بالکل برعکس… تلسی کیلئے خود بھی افسردہ تھا۔ ایک دن کہنے لگا۔
’’ہم اسے کسی دوسری بستی بھیج دیں گے۔ انتظام کررہے ہیں۔ یہاں رہا تو مارا جائے گا۔ بھگوان نہ کرے اور کوئی ایسا واقعہ ہوگیا تو پھر میں بھی شاید بستی والوں کو نہ روک سکوں۔‘‘
رات کے کوئی دس ہی بجے ہوں گے لیکن یوں لگتا تھا جیسے آدھی رات گزر چکی ہو۔ جمال گڑھی میں شام سات بجے ہی رات ہوجاتی تھی۔ پانچ چھ بجے تک سارے کاروبار بند ہوجاتے تھے اور لوگ اپنے گھروں میں جا گھستے تھے۔ بس بھولے بھٹکے مسافر آٹھ نو بجے تک نظر آجاتے تھے ورنہ خاموشی! سرشام ہی بادل گھر آئے تھے اور اس وقت بھی آسمان تاریک تھا۔ اللہ دین رات کے کھانے کے بعد مجھے خداحافظ کہہ کر اپنے کمرے میں جا گھسا تھا۔ وہ مضبوطی سے سارے دروازے بند کرکے سوتا تھا اور اس نے مجھ سے بھی کہہ دیا تھا کہ کچھ بھی ہوجائے، رات کو اس کا دروازہ نہ بجائوں۔ وہ دروازہ نہیں کھولے گا۔ یہ زبیدہ بیگم کی ہدایت تھی۔
مجھ پر اکتاہٹ کا دورہ پڑا تھا۔ اس وقت عجیب سی بے کلی محسوس ہورہی تھی۔ چارپائی کاٹنے کو دوڑ رہی تھی۔ خاموشی سے سرائے سے باہر نکل آیا۔ دروازہ باہر سے بند کردیا۔ تلسی کا گھر بھی تاریک پڑا تھا۔ یہاں سے چل پڑا۔ سوچا کہاں جائوں اور اس ویران مندر کا خیال آیا۔ کوئی کتنا ہی بہادر ہو، اس وقت اس مندر کی طرف رخ کرنے کے تصور ہی سے خوف زدہ ہوجاتا لیکن دل اس سمت جانے کو چاہ رہا تھا۔ میں چل پڑا۔ پوری بستی شہر خموشاں بنی ہوئی تھی، کتے تک نہیں بھونک رہے تھے۔ فاصلہ کم نہیں تھا۔ بس چلتا رہا۔ راستے میں کسی ذی روح کا نشان بھی نہیں نظر آیا تھا۔ گھنی اور خوفناک جھاڑیاں خاموش کھڑی ہوئی تھیں۔ ان کے درمیان سے احتیاط سے گزرا تھا کیونکہ وہاں سانپ موجود تھے۔ رات میں تو وہ نظر بھی نہ آتے لیکن اس خوف سے اپنا ارادہ ترک نہیں کرسکا۔ کوئی انجانی قوت مجھے وہاں لے جارہی تھی۔ تاریک مندر، تاریکی میں اور بھیانک نظر آرہا تھا لیکن اس کے دروازے سے اندر قدم رکھتے ہی بری طرح چونک پڑا۔ کسی بچے کے سسک سسک کر رونے کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ وہ روتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
’’ماں… ماں! کھول دو، بھگوان کی سوگند اب باہر نہیں جائوں گا۔ ماں! بہت ڈر لگ رہا ہے۔ ماں! دیا جلا دو۔ تمہاری بات مانوں گا، باہر نہیں جائوں گا۔ ماں! رسی میرے پیر کاٹ رہی ہے۔ ماں! پیٹھ میں کھجلی ہورہی ہے، کھول دو ماں…!‘‘
دل دھاڑ دھاڑ کرنے لگا۔ اپنی جگہ ساکت ہوگیا۔ خون کی روانی طوفانی ہوگئی، کنپٹیاں آگ اگلنے لگیں۔ رکنا بہتر ہوا، اندر داخل ہوجاتا تو یقیناً وہ نہ ہوتا جو دوسرے لمحے ہوا۔ اندر یک بیک روشنی ہوگئی تھی۔ وہی دونوں مشعلیں روشن ہوئی تھیں جو اس دن دیکھی تھیں۔ میں فوراً ایک محراب کے ستون کی آڑ میں ہوگیا۔ روشنی نے اندر کا ماحول اجاگر کردیا تھا اور میں اس ماحول کو دیکھ سکتا تھا۔ ہنومان کا بت اسی طرح استادہ تھا۔ اس کے پیروں کے نزدیک ایک آٹھ نو سالہ بچہ رسی سے بندھا ہوا پڑا تھا۔ روشنی ہوتے ہی وہ سہم کر ساکت ہوگیا تھا۔ ہنومان کے بت سے کوئی پانچ قدم کے فاصلے پر کالے اور ڈھیلے ڈھالے لباس میں ملبوس ایک وجود سر نیہوڑاے بیٹھا ہوا تھا۔ کچھ فاصلے پر ایک مرد نظر آرہا تھا جس نے چہرے پر ڈھاٹا باندھا ہوا تھا۔ سیاہ لباس میں ملبوس وجود کا چہرہ بھی ڈھکا ہوا تھا۔ بے حد پراسرار اور خوفناک ماحول تھا۔ دم روک دینے والا سناٹا طاری تھا۔ بچے کی سہمی سفید آنکھیں گردش کررہی تھیں۔ وہ رونا بھول گیا تھا تب ایک آواز ابھری۔ ’’نندنا…!‘‘
’’جے دیوی…!‘‘ دوسری آواز ابھری۔ پہلی آواز نسوانی تھی اور میں نے اسے فوراً آشنا محسوس کیا تھا۔ دوسری بھاری مردانہ اور اجنبی آواز تھی۔
’’ہاتھ پائوں کھول دے اس کے!‘‘
’’ جے دیوی…!‘‘ مردانہ آواز نے کہا۔ روشنی میں ایک آبدار خنجر کی چمک ابھری اور ڈھاٹا باندھے ہوئے شخص آگے بڑھ کر بچے کے پاس پہنچ گیا۔ اس نے ایک لمحے میں بچے کے ہاتھوں اور پیروں میں بندھی رسیاں کاٹ دیں۔ بچہ تڑپ کر اٹھا تو مرد نے خوفناک آواز میں کہا۔
’’لیٹا رہ اپنی جگہ


ہلا تو گردن کاٹ کر پھینک دوں گا۔‘‘ سہما ہوا بچہ جیسے بے جان ہوگیا تھا۔ وہ اپنی جگہ لڑھک گیا۔ سیاہ پوش عورت اٹھ کھڑی ہوئی۔ وہ لمبے قدو قامت کی مالک تھی۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر خنجر مرد کے ہاتھ سے لے لیا اور آہستہ آہستہ آگے بڑھ کر بچے اور ہنومان کے بت کے قریب پہنچ گئی۔ پھر اس کی بھیانک آواز ابھری۔
’’جے بجرنگا…! ساتویں بلی دے رہی ہوں، اسے سوئیکار کر بجرنگ بلی! میری بھینٹ سوئیکار کر، میری منوکامنا پوری کردے، تیرا وچن ہے آخری بلی کے بعد میری گود ہری کردے۔ مجھے بچہ دے دے بجرنگ بلی! مجھے بیٹا دے دے… بجرنگ بلی…!‘‘
صورتحال سمجھ میں آگئی۔ پتا چل گیا کہ اس کے بعد کیا ہونے والا ہے اور تو کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ جس قدر بھیانک آواز بنا سکتا تھا، بنا کر چیخا۔ ’’بھاگ بھری… وہ مندر میں گھسی ہے، نہیں پکڑنا۔ وہ رہی، وہ رہی۔‘‘ ایک چھوٹا سنگی مجسمہ رکھا تھا جو میری ٹکر سے زور سے اپنی جگہ سے گرا اور نیچے آکر چور چور ہوگیا۔ اس کے ٹکڑوں کے گر کر بکھرنے کا چھناکا مندر میں گونج اٹھا۔ مجھے خود یوں محسوس ہوا جیسے میرے ساتھ بے شمار لوگ چیخ رہے ہوں اور نتیجہ نکل آیا۔ عورت سے پہلے مرد، باہر بھاگا اور اس کے پیچھے عورت قلانچیں لگاتی ہوئی باہر نکل گئی۔ وہ مشعلیں جلی چھوڑ گئے تھے، اپنے عمل کو پختہ کرنے کیلئے میں نے اور زور زور سے چیخنا شروع کردیا، رات کے پرہول سناٹے میں میری چیخیں دور دور تک پھیل گئیں۔ بچے نے دہشت سے دوبارہ رونا شروع کردیا۔ میں جلدی سے اس کے پاس پہنچ گیا۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑا تو وہ چیخ پڑا۔
’’مت مارو، مجے مت مارو… مت مارو مجھے!‘‘
’’اٹھ بیٹے…! میں تجھے نہیں ماروں گا۔ اٹھ! میں تو تجھے بچانے آیا ہوں۔‘‘ کوئی بڑا ہوتا تو شاید زندہ ہی نہ رہ پاتا خوف کے مارے لیکن بچہ تھا، اٹھ کھڑا ہوا۔
’’اب باہر نہیں کھیلوں گا۔ مجھے مت مارو چاچا!‘‘
’’بالکل نہیں ماروں گا۔ آ میرے ساتھ چل…!‘‘ میں نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ کر دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔ جانتا تھا کہ باہر خطرہ ہے کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ ہوسکتا ہے دونوں جھاڑیوں میں چھپے ہوں اور اکیلا پا کر حملہ کریں۔ مندر میں رکنے سے اور خطرہ تھا۔ آسانی سے گھیر لیا جائوں گا۔ کسی نے اگر خبر کردی اور مجھے اس بچے کے ساتھ دیکھ لیا گیا تو حالات بگڑ سکتے تھے۔ نکل جانا ہر طرح سے بہتر ہے۔ اللہ کا نام لے کر باہر نکل آیا۔ رات کے بیکراں سناٹے میں کوئی آواز نہیں تھی۔ اس وقت تک خاموش رہا جب تک جھاڑیوں کے کھیت سے باہر نہ نکل آیا پھر میں نے بچے سے پوچھا۔ ’’کیا نام ہے تیرا بیٹے…؟‘‘
’’للو…!‘‘
’’پتا کا نام کیا ہے؟‘‘
’’گنگو!‘‘
’’تیرا گھر کہاں ہے؟‘‘
’’پچھائی پلے!‘‘
’’راستہ جانتا ہے اپنے گھر کا؟‘‘
’’ہاں…!‘‘
’’یہاں تجھے کون لایا تھا؟‘‘ میں نے پوچھا۔ بچے نے کوئی جواب نہیں دیا تو میں نے دوبارہ وہی سوال کیا۔
’’معلوم نا ہے۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’تو کھیل رہا تھا کہیں؟‘‘
’’سو رہا تھا۔‘‘
’’کہاں…؟‘‘
’’اپنے گھر میں۔ ماتا جی نے کہا تھا کہ ڈائن پھر رہی ہے باہر، کلیجہ نکال کر کھا جائے گی۔ باہر مت کھیلیو۔ ہم تو سو رہے تھے چاچا!‘‘
’’پھر تو یہاں کیسے آگیا؟‘‘
’’بھگوان کی سوگند ہمیں نامعلوم ہم تو سمجھے ماتا جی نےپائوں باندھ دیئے ہیں۔ اس نے یہی کہا تھا کہ کھیلنے باہر گئے تو وہ ہاتھ، پائوں باندھ کر ڈال دے گی۔‘‘
میں نے گہری سانس لی۔ سمجھ گیا تھا کہ بچے کو بے ہوش کرکے لایا گیا تھا اور یقیناً وہی کھیل ہونے والا تھا جو پہلے پانچ بچوں کے ساتھ ہوا پھر چھٹے بچے کے ساتھ اور اب یہ ساتواں بچہ! بستی میں داخل ہوکر بچے سے اس کے گھر کا پتہ پوچھا اور وہ بتانے لگا۔ گھر والوں کو ابھی تک اس کی گمشدگی کا علم نہیں ہوا تھا کیونکہ گھر خاموشی اور سناٹے میں ڈوبا ہوا تھا۔ دروازہ کھلا ہوا تھا۔ یہ یقیناً ان لوگوں نے کھولا ہوگا جنہوں نے بچے کو اغواء کیا تھا۔ میں نے للو سے کہا۔
’’تیرے گھر والوں کو ابھی کچھ نہیں معلوم، جا دروازہ اندر سے بند کرلینا۔ جا اندر جا…!‘‘ بچہ اندر چلا گیا اور میں فوراً وہاں سے واپس چل پڑا۔ میری آج کی بے کلی نے بہت اہم انکشاف کیا تھا۔ ایک بچے کی جان بچ گئی تھی۔ میں بہت خوش تھا۔ یہاں سرائے میں بھی وہی کیفیت تھی۔ کسی کو نہ میرے جانے کی خبر ہوئی تھی، نہ واپس آنے کی! اپنے کمرے میں آگیا پھر بستر پر لیٹ کر اس بارے میں سوچنے لگا۔ ڈائن کا معمہ حل ہوگیا تھا۔ بھاگ بھری بے قصور تھی۔ اس پر جھوٹا الزام لگ گیا تھا۔ بستی والے اس کے دشمن ہوگئے تھے۔ جو آواز میں نے سنی تھی، اسے پہچان لیا تھا۔ میری سماعت نے مجھے دھوکا نہیں دیا تھا۔ یہ سو فیصد کوہلی رام کی بیوی کی آواز تھی۔ دوسرا نام نندا کا تھا جو اس کا شریک کار تھا۔ اس کے الفاظ یاد آرہے تھے۔ ساتویں بلی دے رہی ہوں، میری گود ہری کردے۔ مجھے بچہ دے دے۔ مجھے بیٹا دے دے۔ ’’تو یہ قصہ ہے۔ وہی کالا جادو، وہی مکروہ علم! کمبخت عورت نے ایک اولاد کی خاطر چھ چراغ گل کردیئے تھے۔ اب سب کچھ علم ہوگیا تھا۔ میری رہنمائی کی گئی تھی۔ پہلے مجھے جمال گڑھی بھیجا گیا اور پھر ہنومان مندر اور اس عورت کی شکل دکھائی گئی اور اب…! سارے انکشافات ہوگئے تھے اور اب اس برائی کا خاتمہ کرنا تھا مگر اس کیلئے کوئی عمل درکار تھا۔
باقی رات سوچوں میں گزر گئی تھی۔
صبح کو اللہ دین کے ساتھ چائے پیتے ہوئے میں نے کہا۔ ’’تم نے ٹھاکر کوہلی رام کے بارے میں خوب کہانی سنائی تھی اللہ دین!‘‘
’’کونسی کہانی بھیا…؟‘‘
’’یہی کہ وہ کھرا ٹھاکر نہیں ہے۔‘‘
’’ہاں! وہ مگر کسی سے کہنا نہیں مسافر بھیا! دشمنی ہوجائے گی ٹھاکر سے۔‘‘
’’نہیں! مجھے کیا ضرورت ہے۔ ویسے کوئی بچہ نہیں ہے اس کا؟‘‘
’’نہیں! بچہ نہیں ہے۔‘‘
’’اسے آرزو تو ہوگی؟‘‘
’’ہاں ہوگی تو پوجا پاٹھ کراتا رہتا ہے۔ رشی منی آتے رہتے ہیں۔ ٹھکرائن گیتا نندی ٹونے ٹوٹکے کرتی رہتی ہیں۔‘‘
’’ہوں!‘‘ میں نے کہا اور خاموش ہوگیا۔ اس سے زیادہ کیا کہتا۔ اچانک میں نے کچھ یاد کرکے کہا۔ ’’یہ نندا کون ہے؟‘‘
’’نندا…!‘‘
’’کسی نندا کو جانتے ہو؟‘‘
’’نندا… ہاں تین نندا ہیں جمال گڑھی میں۔‘‘
’’کوہلی رام کے ہاں کوئی نندا ہے؟‘‘
’’جگت نندا…! ہاں نندا چمار نوکری کرتا ہے وہاں۔ کوئی کام ہے اس سے…؟‘‘
’’نہیں! بس ایسے ہی پوچھ لیا تھا۔ پتا نہیں بے چارے تلسی کا کیا حال ہے۔‘‘
’’بخار میں پڑا ہوا ہے۔ میں صبح منہ اندھیرے چائے، روٹی دے آیا تھا بیچارے کو۔‘‘
’’ارے اتنی صبح مجھے تو پتا ہی نہ چلا حالانکہ میں جاگ گیا تھا۔‘‘ اللہ دین مسکرانے لگا۔ پھر بولا۔ ’’کیا کریں مسافر بھیا! عورت چھوٹے دل کی ہووے ہے۔ بیوی کے ڈر کے مارے ایسے کام چھپ کر کرلیتے ہیں۔‘‘
’’اوہ اچھا! تم ڈرتے ہو اپنی بیوی سے؟‘‘
’’ارے کچھ تو ڈرنا ہی پڑے ہے۔‘‘ اللہ دین نے ہنستے ہوئے کہا۔ میں بھی ہنسنے لگا تھا۔
یہاں پڑے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ ایسے ہی گھومنے نکل گیا۔ پھر کسی خیال کے تحت کوہلی رام کے گھر کا رخ کیا۔ سامنے سے گزر رہا تھا کہ کوہلی رام نے کہیں سے دیکھ لیا۔ ایک آدمی اندر سے دوڑا آیا تھا۔
’’ٹھاکر جی بلا رہے ہیں۔‘‘ میں اس کے ساتھ چل پڑا۔ کوہلی رام دروازے کے بعد بغلی سمت بنی ڈیوڑھی میں موجود تھا۔
’’آئو داروغہ جی! کہاں ڈولت گھومت ہو؟‘‘
’’بس آپ کی جاگیر میں گھوم رہے ہیں ٹھاکر!‘‘
’’بیٹھو… تم بھی ہمیں من موجی ہی لگو ہو کہاں کے رہنے والے ہو؟‘‘ میرے منہ سے بے اختیار اپنے شہر کا نام نکل گیا۔ طویل عرصے کے بعد یہ نام نہ جانے کیوں میری زبان پر آگیا تھا۔ کہہ تو دیا تھا مگر دل میں اینٹھن سی ہوئی تھی
ٹھاکر میرے ہر احساس سے بے نیاز تھا۔ کہنے لگا۔ ’’یہاں بستی میں کوئی جان پہچان ہے کیا؟ کیسے آنا ہوا؟‘‘
’’بس ٹھاکر صاحب! ایسے ہی سیر سپاٹے کیلئے نکل آیا تھا۔ ہوسکتا ہے جمال گڑھی سےآگے بڑھ جاتا مگر یہاں جو واقعات دیکھے، دلچسپ لگے سو یہاں رک گیا۔ میں نے کبھی کوئی ڈائن نہیں دیکھی تھی۔ بڑا عجیب سا لگا مجھے اور میں یہ دیکھنے کیلئے رک گیا کہ دیکھیں اس کا انجام کیا ہوتا ہے۔‘‘ ٹھاکر کے چہرے پر تشویش کے آثار پھیل گئے۔ اس نے کہا۔
’’بس داروغہ جی! کیا بتائیں۔ بستی پر آفت ہی آگئی ہے۔ ہماری تو کوئی اولاد ہی نہیں ہے۔ دل دکھتا ہے ان سب کیلئے جن کے بچے مارے گئے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ بھاگ بھری کو کیا ہوگیا۔ ارے انسان پاگل تو ہو ہی جاتا ہے۔ اس کے ساتھ تو بری بیتی تھی مگر اس کے بعد جو کچھ وہ کررہی ہے، وہ سمجھ میں نہیں آتا۔ ہم تو کہتے ہیں بھگوان اسے اپنی طرف سے موت دے دے۔ بستی والوں کے ہاتھ لگ گئی تو کچل کچل کر مار دیں گے۔ بستی کی عورت ہے۔ اس کا پتی بھی برا آدمی نہیں تھا پر بیچاری کا گھر بگڑا تو ایسے کہ لوگوں کی آنکھوں میں آنسو نکل آتے ہیں، سوچ سوچ کر!‘‘
’’جی ٹھاکر صاحب! کیا کہا جاسکتا ہے۔ ویسے ٹھاکر صاحب! یہ بات تو آپ کو پتا ہی ہے کہ بھاگ بھری کو کسی نے یہ سارے کام کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ میں بھی بتاچکا ہوں کہ اس دن وہ پیٹھ کئے بیٹھی تھی میری طرف، پاگل ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لاش دیکھ کر بیٹھ گئی ہو، دماغ میں کچھ نہ آیا ہو۔‘‘ ٹھاکر خاموشی سے سنتا رہا۔ پھر وہی ہوا جس کی مجھے اُمید تھی اور جس کا شاید انتظار بھی تھا۔ ٹھکرائن اندر داخل ہوگئی۔ مجھے دیکھ کر ٹھٹکی۔ دیکھتی رہی اور میں نے یہ محسوس کیا کہ اس کے چہرے پر سوچ کے آثار نمودار ہوگئے ہیں لیکن ٹھاکر صاحب کسی قدر حواس باختہ ہوگئے۔ جلدی سے بولے۔ ’’آئو …آئو ان سے ملو، بستی کے مہمان ہیں۔ یہاں آئے ہوئے ہیں سیر سپاٹے کیلئے اور داروغہ جی! یہ ہماری دھرم پتنی ہیں۔ بڑی مہان ہیں یہ…!‘‘ میں نے گردن خم کی۔ ٹھکرائن کے چہرے پر خشونت کے آثار بکھرے ہوئے تھے۔ مسکرانا تو جیسے جانتی ہی نہیں تھی۔ میں نے خود ہی کہا۔ ’’ابھی ابھی ٹھاکر جی سے باتیں ہورہی تھیں۔ آپ کا کوئی بچہ نہیں ہے۔‘‘ وہ پھر چونکی اور مجھے دیکھنے لگی۔ میری بات کا اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور ٹھاکر سے بولی۔
’’آج لکشمی پوجا ہے۔ کچھ انتظام ونتظام بھی کیا تم نے…؟‘‘
’’ارے ہمیں کیا کرنا ہماری ٹھکرائن جیتی رہیں۔ بھلا گھر کے کام کاج میں ہم کبھی کوئی دخل دیتے ہیں۔‘‘
’’ہاں! بس بیٹھ کر باتیں بنانے لگتے ہو اس کے علاوہ اور کوئی کام کرنا آتا ہے تمہیں!‘‘ ٹھاکر عجیب سے انداز میں ہنسنے لگا۔ وہ پائوں پٹختی ہوئی واپس چلی گئی۔ میری طرف دیکھ کر بولا۔
’’دوش اس کا نہیں ہے۔ پہلے ایسی نہیں تھی مگر عورت جب تک ماں نہ بنے، اپنے آپ کو پورا نہیں سمجھتی۔ یہ بھی ادھوری ہے اور اپنے آپ کو ادھورا ہی سمجھتی ہے۔‘‘
’’ہاں !ہوسکتا ہے۔ میں اب چلوں۔‘‘
’’برا تو مان گئے ہوگے۔ یہ کہنا تو بیکار ہے کہ برا ہی نہ مانے ہوگے مگر معاف کردینا اسے! بس جو بھگوان کی مرضی۔ اچھا چلتے ہیں۔‘‘ ٹھاکر خود ہی اٹھ گیا۔ ٹھکرائن کے انداز سے یہ پتا چل گیا تھا کہ اس کے ذہن میں میرے لئے کوئی خاص بات ضرور گونجی ہے۔ میں خود بھی یہاں بے مقصد ہی آیا تھا لیکن اب دن کی روشنی میں ایک بار پھر اسے غور سے دیکھا تھا، اس کی آواز سنی تھی اور ہر طرح کا شبہ مٹ گیا تھا۔ ہنومان مندر میں اس کے علاوہ اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ میں وہاں سے باہر نکل آیا۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب کیا کرنا چاہئے۔ گھومتا پھرتا کھیتوں کی سمت نکل آیا۔ باجرہ پک رہا تھا اور کھیتوں کے رکھوالے ’’ہاہو‘‘ کی آوازیں نکال رہے تھے۔ میں ایک جگہ سے گزر رہا تھا کہ کھیتوں کی مینڈھ کے پیچھے سے ایک لمبا چوڑا آدمی باہر نکل آیا اور اس طرح میرے سامنے کھڑا ہوگیا جیسے میرا راستہ روکنا چاہتا ہو۔ وہ کڑی نظروں سے مجھے گھور رہا تھا۔ میں دو قدم آگے بڑھ کر اس کے سامنے پہنچ گیا۔
’’کوئی بات ہے بھائی…؟‘‘ میں نے اس سے سوال کیا۔
’’تم اللہ دین کی سرائے میں ٹھہرے ہوئے ہو نا…؟‘‘ اس نے سوال کیا۔
’’ہاں…!‘‘
’’تلسی کا گھر تمہارے سامنے ہے؟‘‘
’’ہاں! اللہ دین نے یہ بتایا تھا۔‘‘
’’بھاگ بھری تو نہیں آئی وہاں…؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’نہیں، کیوں…؟‘‘
’’بس! اس لئے پوچھ رہا ہوں کہ تمہیں اس بات کا علم ہوگا ساری بستی بھاگ بھری کی تلاش میں لگی ہوئی ہے۔ وہ پاپی عورت ڈائن بن گئی ہے۔ میں بھی اس کی تلاش کرتا پھر رہا ہوں، سبھی کے بال بچے ہیں مسافر! تمہارا بستی میں رہنا اچھا نہیں ہے۔ کہیں کوئی نقصان نہ پہنچ جائے تمہیں!‘‘ میں ہنسنے لگا۔ میں نے کہا۔ ’’کیا بھاگ بھری میرا بھی کلیجہ نکال کر کھا جائے گی؟‘‘
’’نہیں اور کوئی بات ہوسکتی ہے۔ پچھلی رات تم ہنومان مندر کی طرف کیوں گئے تھے؟‘‘ ایک لمحے کیلئے میرے ذہن میں سنسناہٹ پیدا ہوگئی۔ میں نے اسے غور سے دیکھا اور بولا۔ ’’میں اور ہنومان مندر میں…! نہیں بھائی، میں مسلمان ہوں۔ تمہیں اسی سے اندازہ ہوگیا کہ میں اللہ دین کی سرائے میں ٹھہرا ہوں۔ میرا بھلا ہنومان مندر میں کیا کام اور یہ ہنومان مندر ہے کہاں…؟‘‘
’’ادھر سیدھے ہاتھ پر کھیتوں کے بیچ بیچ چلے جائو، کافی دور جاکر ہنومان مندر نظر آتا ہے۔ پرانا مندر ہے۔ بھوت پریت کا بسیرا ہے۔ کوئی نہیں جاتا اس طرف مگر میں نے تو رات کو تمہیں ادھر دیکھا تھا۔‘‘
’’بھول ہوئی ہوگی تم سے! میں تو آج تک اس طرف نہیں گیا لیکن کبھی دیکھوں گا ضرور جاکر یہ ہنومان مندر ہے کیسی جگہ!‘‘
’’بھول کر بھی نہ جانا۔ بھوت بہت سے لوگوں کو مار چکے ہیں۔‘‘
’’تمہارا شکریہ مگر تمہیں میرا مطلب ہے یہ خیال کیسے آیا کہ میں تمہیں بھاگ بھری کے بارے میں بتائوں گا؟‘‘
’’بس! ایسے ہی مجھے شبہ ہوا تھا کہ رات کو میں نے تمہیں ہنومان مندر کی طرف جاتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘ وہ چلا گیا۔ میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ گویاان لوگوں کو مجھ پر شبہ ہوگیا ہے البتہ اب مجھے پورا پورا یقین ہوگیا تھا کہ ان وارداتوں کے پیچھے ٹھکرائن ہی ہے۔ سرائے پہنچا تو اللہ دین کہنے لگا۔
’’گنگو اور جنک رام دو دفعہ آچکے ہیں تمہیں پوچھتے ہوئے، نہ جانے کیا بات ہے۔ کہہ گئے ہیں کہ جیسے ہی تم آئو، میں تمہیں گنگو کے گھر لے آئوں۔ مجھے یاد آگیا کہ بچے نے اپنے باپ کا نام گنگو ہی بتایا تھا۔ میں نے ایک لمحے میں فیصلہ کرلیا کہ اب مجھے یہ بات کھول دینی چاہئے۔ اس کے علاوہ چارہ نہیں تھا۔ گنگو اور جنک رام نے ہمارا پرتپاک خیرمقدم کیا تھا۔ گنگو نے سیدھے سیدھے بچے کو میرے سامنے لاکھڑا کیا اور بچے نے گردن ہلاتے ہوئے کہا۔
’’یہی تھے باپو!‘‘
’’تم نے میرے بچے کو بچایا ہے مسافر بھیا! یہ احسان تو مر کر بھی نہ بھولیں گے ہم مگر تمہیں یہ تو پتا چل گیا ہوگا کہ بھید کیا ہے؟‘‘ گنگو نے کہا۔ اللہ دین حیرت سے سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ بولا۔ ’’ارے ہمیں تو کچھ نہیں پتا، کچھ ہمیں بھی تو بتائو۔‘‘ جواب میں گنگو نے اسے پوری تفصیل بتائی اور بولا۔ ’’یہ کام تو دیوتا ہی کریں ہیں۔ مسافر بھیا ہمارے لئے تو دیوتا ہی ہیں۔ نہیں تو ہم بھی گئے تھے کام سے…! چھورا نے انہیں پہلے بھی دیکھا تھا، پہچان لیا۔ اس نے ہمیں ساری کتھا سنائی۔ انہوں نے تو دیوتائوں ہی جیسا کام کرا تھا خاموشی سے، احسان تک نہ جتایا ہم پر!‘‘
’’دوستو…! تم نے مجھ پر اعتماد کر ہی لیا ہے تو مجھے زبان کھولنی پڑ رہی ہے۔ بے چاری پاگل بھاگ بھری کو بلاوجہ ہی ڈائن سمجھ لیا گیا ہے۔ اصل ڈائن کوہلی رام کی
بیوی گیتا نندی ہے۔ مجھے اس کے ڈائن بننے کی وجہ بھی معلوم ہوگئی ہے۔ پچھلی رات میں بے چین ہورہا تھا اس لئے ٹہلتا ہوا ہنومان مندر جا نکلا اور وہاں میں نے یہ کھیل دیکھا۔ قصہ یہ ہے کہ گیتا نندی کے ہاں اولاد نہیں ہوتی جس کیلئے وہ جادو، ٹونوں کا سہارا لے رہی ہے۔ اپنی آرزو پوری کرنے کیلئے اس نے چھ بچوں کی قربانی دے دی ہے اور ساتویں قربانی آخری ہوگی۔ میں اکیلا تھا ورنہ اسے اس جگہ پکڑ لیتا اس لئے میں نے بچے کی جان بچانے کیلئے شور مچا دیا اور وہ بھاگ گئی پھر میرے لئے یہ ثابت کرنا بھی مشکل ہوجاتا البتہ تم لوگ ایک بات ضرور دماغ میں رکھو، وہ ساتویں قربانی کیلئے دوبارہ کوشش کرے گی۔‘‘ میرے انکشاف سے سنسنی پھیل گئی تھی۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے مجھے دیکھ رہے تھے پھر جنک رام نے کہا۔
’’مسافر بھیا ٹھیک کہتے ہیں۔ بات سمجھ میں آگئی، بالکل سمجھ میں آگئی۔ ٹھکرائن بڑی ٹوٹکن ہے، یہ تو ہمیں پہلے ہی معلوم تھا مگر وہ ڈائن ایسا کرے گی، یہ نہیں سوچا تھا۔ ارے ہوگی ٹھکرائن اپنے گھر کی، ہم اس کا دیا کھاویں ہیں کیا؟ چلو گنگو! جمع کرو سب کو، لٹھیاں لے کر چلو، مارمار بھیجا نکال دیں گے اس کا، دیکھا جائے گا جو ہوگا۔ کوئی دبیل میں نہیں ہیں ہم۔ اٹھو ساروں کو بتا دیں جن کے کلیجے چھن گئے ہیں۔ دیکھ لیں گے سب کو…!‘‘
’’اگر تم میری بات سن لو تو اچھا ہے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’بولو مسافر بھیا…!‘‘
’’دیکھو یہ بات میں نے تمہیں بتائی ہے۔ ٹھاکر کہہ دے گا مسافر جھوٹ بول رہا ہے، پھر کیا کرو گے؟‘‘
’’ارے ہمارا چھورا بتا دے گا۔ ہم اسے لے چلیں گے۔‘‘ گنگو نے کہا۔
’’میری کچھ اور رائے ہے۔ تم اسے ہنومان مندر میں پکڑو اس وقت جب وہ یہ عمل کررہی ہو۔ نندا چمار اس کیلئے بچوں کو اٹھاتا ہے۔ تمہیں کسی ایسے بچے کو چھوڑنا پڑے گا جسے نندا اٹھا لے۔ ہم سب ہوشیار ہوں گے، نندا پر نظر رکھیں گے۔ جیسے ہی نندا اس بچے کو اٹھائے گا، ہم اس کا پیچھا کریں گے اور عین اس وقت دونوں کو پکڑیں گے جب وہ اپنا کام کررہے ہوں گے۔‘‘
’’اور اگر چوک ہوگئی تو…؟‘‘ جنک رام بولا۔
’’چوک ہوگی کیسے؟ بڑا اچھا مشورہ دیا ہے یہ پھر کوئی کیا بولے گا۔‘‘ اللہ دین نے کہا۔
’’سو تو ٹھیک ہے مگر بچہ کونسا ہوگا؟‘‘
’’میرا بچہ ہوگا، میرا کلو ہوگا۔‘‘ اللہ دین سینہ ٹھونک کر بولا اور میں چونک کر اسے دیکھنے لگا۔ اللہ دین نے کہا۔ ’’ارے ہم مسلمان ہیں، اللہ پر بھروسہ ہے۔ ہمیں جو کچھ ہوتا ہے، مولا کی مرضی سے ہوتا ہے۔ پیچھا تو چھوٹے اس ڈائن سے! ساری بستی مصیبت میں پھنسی ہے۔ میں تیار ہوں مسافر بھیا!‘‘
’’ہم سب جان لڑا دیں گے کلو کیلئے فکر مت کر اللہ دین بھیا!‘‘ جنک رام نے کہا۔ اس آمادگی کے بعد اس منصوبے کی نوک پلک سنواری جانے لگی۔ بالآخر تمام باتیں طے ہوگئیں۔ اس سنسنی خیز عمل کا آغاز آج ہی رات ہونے والا تھا۔
(جاری ہے)

Latest Posts

Related POSTS