گنگو اور جنک رام کے انداز سے یوں لگتا تھا جیسے وہ سارے کام آج ہی نمٹا لینا چاہتے ہوں لیکن مجھے یقین نہیں تھا کہ گیتا نندی آج ہی دوبارہ یہ کوشش کرے گی۔ اگر ہمارے اندازے بالکل درست تھے اور وہی ان وارداتوں کے پس پشت تھی تو اس نے اس عمل میں جلدبازی نہیں کی تھی۔ ہنومان دیوتا کے چرنوں میں اس نے چھ بچوں کی بلی دی تھی۔ ان لوگوں سے گفتگو کے دوران میں ان وارداتوں کے درمیانی وقفے معلوم کر چکا تھا۔ ان میں دنوں کی کوئی ترتیب نہیں تھی۔ اسے جب بھی موقع ملا تھا اس نے یہ کام سرانجام دے ڈالا تھا لیکن اب شاید پہلی بار اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس کے علاوہ وہ چالاک تھی۔ نہ جانے اسے مجھ پر شبہ کیسے ہوا تھا یا پھر ہو سکتا ہے کہ اس شخص نے اندھیرے میں تیر پھینکا ہو۔ وہ نندا ہی تھا۔ خود جتنا ٗچالاک تھا، اس کا اندازہ اس کی بات سے ہو گیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ اس نے مجھے ہنومان مندر کے پاس دیکھا تھا۔ اس سے پوچھا جا سکتا تھا کہ وہ خود وہاں کیا کر رہا تھا۔ اب یہ تو مجھے ہی معلوم تھا کہ وہ وہاں کیا کر رہا تھا۔ گنگو کے گھر سے واپسی پر اللہ دین نے کہا۔
’’واہ مسافر بھیا۔ اتنا بڑا کام کر لیا اور ہمیں خبر بھی نہ دی۔‘‘
’’کوئی اتنا بڑا کام بھی نہیں تھا اللہ دین۔‘‘
’’بے چارے گنگو کے بیٹے کو ڈائن کے منہ سے نکال لیا اور کہتے ہو بڑا کام ہی نہیں کیا۔‘‘
’’اللہ کو اس کی زندگی بچانی تھی، وہ بچ گئی۔ میں کیا اور میری اوقات کیا۔‘‘
’’مگر اتی رات گئے تم ادھر نکل کیسے گئے تھے۔‘‘
’’بس دل بے چین ہو رہا تھا۔ سوچا ذرا گھوم آئوں۔‘‘
’’اتی دور، ہنومان مندر کوئی یہاں دھرا ہے۔ بھیا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ ہمت والے ہو اور پھر ہمیں تو کچھ اور ہی لگے ہے۔‘‘
’’پیر فقیر لگو ہو ہمیں تو۔ راتوں کو نماز پڑھتے دیکھا ہے تمہیں۔‘‘ اللہ دین سادگی سے بولا۔
’’توبہ کرو اللہ دین، توبہ کرو۔ میں ان کے قدموں کی خاک بھی نہیں ہوں!‘‘
’’ارے تم نے ہم سے نندا کا نام پوچھا تھا؟‘‘
’’ہاں، ہنومان مندر کا واقعہ تمہیں معلوم ہو چکا ہے۔ میں نے بلاوجہ ان دونوں کا نام نہیں لے دیا ہے۔‘‘ میں نے کہا اور اللہ دین سوچ میں ڈوب گیا۔ پھر بولا۔ ’’سو تو ہے۔ ایک کام تم نے گنگو کے بیٹے کو بچا کر کرا، دوسرا بڑا کام اور کر رہے ہو بھیا۔ بہت بڑا۔‘‘
’’وہ کیا؟‘‘
’’ارے تم نے بھاگ بھری کا جیون بچا لیا، تلسی بے چارے کو بچا لیا۔‘‘
’’یہ لوگ بھی عجیب ہیں۔ اپنی عقل سے کچھ نہیں سوچتے۔ بھاگ بھری اور تلسی کی جان کے دشمن ہو رہے تھے۔ ایک لمحے میں پلٹ گئے۔ اگر میں نہ روکتا تو شاید سوچے سمجھے بغیر لاٹھیاں لے کر چڑھ دوڑتے مکھیا کے گھر پر۔‘‘
’’برے نہیں ہیں مسافر بھیا۔ دن رات پریشان ہو رہے ہیں۔ بچوں کو چھپائے چھپائے پھر رہے ہیں۔ کیا کریں آخر اولاد سے بڑھ کر کون ہووے ہے۔ اس کے لئے پاگل ہو رہے ہیں۔‘‘
’’مجھے ایک خطرہ ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’وقت سے پہلے زبان نہ کھول دیں۔ وہ ہوشیار نہ ہو جائے ورنہ پھر اسے پکڑنا مشکل ہو گا۔‘‘
’’سمجھا تو دیا ہے۔ اتنے بائولے نہیں ہیں۔ ساری بات سمجھا دی ہے انہیں۔‘‘
’’اس کے علاوہ اللہ دین، زبیدہ بہن تو کلو کو سینے میں چھپائے چھپائے پھرتی ہیں، تم اسے اس خطرے میں ڈال دو گے؟‘‘
’’اللہ پر بھروسہ کریں گے بھیا۔ کون تیار ہوتا۔ بستی کے بچے مر رہے ہیں، سب ہی اپنے ہیں، وہ بھی جو مارے گئے اپنے ہی تھے۔‘‘
’’زبیدہ بہن تیار ہو جائیں گی؟‘‘
’’وہ عورت ہے، ماں ہے۔ اس سے چار سو بیسی کرنی ہو گی کوئی۔ ہم یہی سوچ رہے تھے۔‘‘ اللہ دین کے جذبے کو میں نے سراہا تھا۔ خود بھی مستعد رہنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ اور کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا، معاملہ ہی ایسا تھا۔ سرشام اللہ دین کلو کو لے کر باہر نکل آیا۔ نہ جانے اس نے بیوی سے کیا کہا تھا۔ باہر نکلتے ہوئے اس نے مجھے آنکھ سے اشارہ کر دیا تھا، میں بھی احتیاط سے باہر نکل آیا اور سیدھے راستے پر چل پڑا۔ کافی فاصلے پر اللہ دین مجھے مل گیا، مسکرانے لگا۔
’’کیا کہا زبیدہ بہن سے؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’ارے بھیا دیہاتی عورتیں دیہاتی ہی ہووے ہیں، بس میاں نے جو کچھ کہا، مان لیا، ہم نے بھی بڑی چار سو بیسی کری۔ کلو کو چلتے ہوئے دیکھا تو ہم نے آنکھیں پھاڑ دیں اور ایسا منہ بنا لیا جیسے ہماری جان نکل گئی ہو۔ وہ سامنے ہی موجود تھی، ہم سے پوچھنے لگی کیا ہوا، تو ہم نے اسے کان میں بتایا کہ کلو کے پیر لڑکھڑا رہے ہیں اور لگتا ہے لقوہ مار جائے گا، بھیا ڈر گئی۔ آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ ہم نے اس سے کہا کہ کوئی ایسی بات نہیں ہے، بچے اگر کھیلیں کودیں نہیں تو ایسا ہی ہو جاتا ہے۔ ایک ڈاکٹر صاحب آئے تھے ایک دفعہ ہماری بستی میں، پتہ نہیں کیا کہہ رہے تھے، وہ پولو پولو کا مرض، کوئی مرض ہووے ہے پولو کا…؟‘‘
’’پولیو کا…‘‘
’’ہاں ہاں بالکل وہی وہی… تو ڈاکٹر صاحب کہہ رہے تھے کہ بچوں کو یہ کرنا چاہئے، وہ کرنا چاہئے، ہم نے اسے وہی یاد دلا دیا، ڈر گئی۔ کہنے لگی کہ اب کیا کریں۔ باہر کھیلنے دینے کا مطلب یہ ہے کہ زندگی کو خطرہ ہو جائے۔ ہم نے کہا ہم کیا مر گئے ہیں، ہم خود ساتھ لے جائیں گے، کھیلنے کودنے کے لئے چھوڑ دیں گے… رو رو کر کہنے لگی۔ ذرا خیال رکھیو… ہم نے کہا بائولی وہ تیرا ہی بیٹا ہے کیا۔ ہمارا کچھ نہیں لگتا۔ یوں بہلا پھسلا کر نکال لائے۔‘‘ میں ہنسنے لگا۔ میں نے کہا۔
’’ویسے تم بہت ہمدرد انسان ہو اللہ دین، بہت بڑا خطرہ مول لے رہے ہو۔‘‘
’’بھیا سچی بات بتائیں تمہیں بستی کے رہنے والے ہندو ہوں یا مسلمان سارے کے سارے ایک دوسرے کا دکھ اپنا ہی دکھ سمجھے ہیں۔ ہم بھی کوئی ان سے الگ تھوڑی ہیں، ارے ستیاناس ہو اس ٹھکرائن کا، اپنے ہاں اولاد نہیں ہوئی، ایک بیٹا ہو گیا فرض کرو ٹونوں ٹوٹکوں سے تو سات مائوں کی گودیں اجاڑے گی وہ، ارے وہ انسان ہے۔ جی تو ہمارا بھی یہی چاہوے ہے بھیا کہ کچا چبا جاویں اس سسری کو دانتوں سے، نرکھنی کہیں کی، ایسی نہ ہوتی تو ماتا پتا گھر سے باہر نکال کر یوں جمال گڑھی میں کیوں پھنکوا دیتے، پتہ نہیں کہاں سے آ گئی ڈائن ہماری بستی میں، ہمارا تو جی چاہے ہے کہ ٹھاکر کو ساری باتیں بتا دیں اور اس سے کہیں اب بول، کیا کہہ وے ہے، مگر وہی تمہاری بات سچی ہے کہ وہ مکر جائے گی۔ بالکل ٹھیک کہا ہے تم نے سب کی سمجھ میں بات آ گئی۔ رنگے ہاتھوں پکڑیں تو پھر دیکھیں کہ کیسے مکرتی ہے ارے بھیجہ باہر نکال دیں گے اس کا، وہیں توڑ مروڑ کر پھینک دیں گے حرام خور کو۔‘‘ اللہ دین چلتا جا رہا تھا۔ میں نے اس سے کہا۔ ’’باقی لوگوں سے ملاقات تو نہیں ہوئی ہوگی؟‘‘
’’سب کے سب لگے ہوں گے بھیا۔ معلوم ہے ہمیں، پوری بستی کی مصیبت ہے، کسی ایک آدمی کی تو نہیں ہے اور اللہ دین کا کہنا سچ ہی نکلا تھا۔ جنک رام اور گنگو ساتھ ہی تھے۔ دو آدمی اور بھی ان کے ساتھ تھے۔ جنک رام نے ادھر ادھر دیکھا اور پھر قریب سے گزرتے ہوئے کہا۔
’’اللہ دین بھیا تمہاری یہ بات بستی والوں کو جیون بھر یاد رہے گی، لے آئے کلو کو…؟‘‘
’’ہاں بھیا، کوئی ایسی بات نہیں ہے، جو چھ بچھڑ گئے ہیں ہم سے، ہماری کیا مجال تھی کہ انہیں بچا لیتے، اللہ کی مرضی تھی مگر اب کسی اور کو نہ بچھڑنے دیں گے، اللہ کرے ہمارا کلو خیریت سے رہے مگر کام تو کرنا ہی تھا نا کسی کو، ہاں بس تم ایک بات بتا دو؟‘‘
’’پوچھو اللہ دین بھیا۔‘‘ گنگو بولا۔
’’سمجھا بجھا دیا ہے سب کو، ارے کہیں کوئی زبان نہ کھول دے، ٹھکرائن ہوشیار ہو جائے گی اور اس کے بعد الٹی گلے پڑ جائے گی، کون مانے گا؟‘‘
’’اس کی تو تم
چنتا ہی مت کرو بھیا۔ دیکھو اصل بات بس ان لوگوں تک پہنچائی ہے جن کے سینوں میں آگ لگی ہوئی ہے۔ مطلب سمجھ گئے ہو گے اور ان سے کہہ دیا ہے کہ جب پہرے پر نکلیں تو سب سے یہی کہیں کہ بھاگ بھری کی تلاش ہو رہی ہے اور کوئی بات نہیں ہے۔ سب کو اچھی طرح بتا دیا ہے اور یہ بھی سمجھا دیا ہے انہیں کہ کہیں سے بے چاری بھاگ بھری مل جائے تو اسے کوئی نقصان نہ پہنچائیں۔ ارے ویسے ہی بڑے پاپ ہو چکے ہیں ہم سے، ایک بے زبان کو ستایا ہے ہم نے۔ بائولی تو تھی ہی بے چاری کیا کرتی، بول بھی تو نہیں سکتی اپنے بارے میں۔ ہرے رام ہرے رام۔ ویسے اب کدھر کا ارادہ ہے؟‘‘
’’میرا خیال ہے نجو کی بگیا ٹھیک رہے گی۔ ہنومان مندر کا راستہ بھی ادھر ہی سے پڑتا ہے۔‘‘ پھر اللہ دین نے آنکھ دبائی، کلو کو کچھ نہیں بتانا چاہتا تھا۔ پھر اس نے سرگوشی میں کہا۔ ’’اور نندا کا کیا کیا ہے تم لوگوں نے؟‘‘
’’اس کی تم بالکل چنتا نہ کرو۔ لچھمن اور شنکر اس پر نظر رکھ رہے ہیں۔ لچھمن کے بارے میں تو تمہیں پتہ ہے کہ نندا کا یار ہے مگر اس مسئلے میں اس نے ساری یاری ختم کر دی۔ لچھمن، شنکر کو اشارے دے گا۔ ظاہر ہے نندا جب اس طرف آئے گا تو لچھمن کو پتہ چل جائے گا۔ سارے کام پکے ہیں بھیا جو کچھ تم کر رہے ہو۔ ظاہر ہے ہم اس میں کسر تھوڑی چھوڑیں گے۔‘‘
بہرحال یہ لوگ اپنی اپنی جگہ مستعد تھے، میں اور اللہ دین آگے بڑھ گئے۔ جنک رام وغیرہ دوسری سمت مڑ گئے تھے۔ جس جگہ کو نجو کی بگیا کہا گیا تھا، وہ ایک چھوٹا سا باغ تھا، آموں کے درخت لگے ہوئے تھے۔ کلو تو آموں کے درختوں کو دیکھ کر ہی مچلنے لگا۔
’’ابا کیری کھالوں…؟‘‘
’’ارے ہاں ہاں جا مزے کر۔ گھوم پھر، کوئی بات نہیں ہے۔‘‘ بچہ تھا۔ خوشی خوشی آگے بڑھ گیا اور اس کے آگے بڑھتے ہی اللہ دین کے چہرے پر تشویش کے آثار نظر آنے لگے۔ اس نے کپکپاتی آواز میں کہا۔ ’’بھیا ذرا نظر رکھیو… اللہ کے حوالے کر دیا ہے پر کیا کریں باپ کا دل ہے، ڈرتا تو ہے ہی۔‘‘
’’جگہیں بدل لو اللہ دین۔ تم ایک طرف ہو جائو۔ میں ایک طرف ہوا جاتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا۔ درحقیقت ہم لوگوں نے بڑی مہارت سے کلو کو نظر میں رکھا تھا۔
چھٹپٹے تاریکی میں بدل گئے۔ کلو مزے سے کیریاں توڑ توڑ کر کھا رہا تھا۔ بہت دن کے بعد باہر نکلنے کا موقع ملا تھا، کھیلنے سے جی ہی نہیں بھرتا تھا۔ پھر جب اچھی خاصی رات ہو گئی اور کوئی واقعہ نہیں ہوا تو اللہ دین نے سیٹی بجائی۔ میں جواب میں اس کے قریب پہنچ گیا۔ اللہ دین بولا۔ ’’کیا خیال ہے بھیا اور انتظار کریں…؟‘‘
’’میرا خیال ہے اب بیکار ہے مگر اب یہ کام سرشام ہی شروع ہو جانا چاہئے۔ رات کو تو خاص طور سے شبہ ہو سکتا ہے کہ آخر اتنی دیر تک ان حالات میں کلو باہر کیسے موجود ہے۔‘‘
’’ٹھیک کہتے ہو مسافر بھیا۔ تمہارا دماغ بہت تیز ہے۔‘‘ غرض یہ کہ ہم واپس چل پڑے۔ سرائے میں ایک ایک کر کے کئی آدمی آئے۔ مشورے ہوئے اور یہ سلسلہ جاری رکھنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ پھر دوسرے دن شام کے چار بجے ہی کلو کو باہر لے آیا گیا۔ شام تک انتظار کیا گیا۔ آج مزید احتیاط برتی گئی تھی۔ میرے دل میں مایوسی پیدا ہوتی جارہی تھی، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ ہوشیار ہو گئی ہو اور اب اپنا عمل بدل دے۔ ویسے جنک رام، گنگو اور دوسرے چند لوگوں کی زبانی مجھے یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ کچھ لوگوں نے مستقل ہنومان مندر کے گرد ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور ایسی جگہوں پر پوشیدہ ہو گئے ہیں جہاں سے آنے جانے والے پر نظر رکھیں اور ان کے بارے میں کسی کو پتہ نہ لگے۔ یہ اطلاع بھی تسلی بخش تھی اور تیسرے دن وہ ہو گیا جس کے لئے پچھلے دو دنوں سے تگ و دو کی جا رہی تھی۔
اس وقت کلو کیریاں توڑ توڑ کر کھا رہا تھا۔ یہ جگہ اسے بہت پسند تھی۔ آتے ہوئے اس نے کئی دوسرے بچوں کو بھی دعوت دی تھی مگر بچے اسے حیران نگاہوں سے دیکھتے ہوئے اپنے گھروں میں جا گھسے تھے۔ کسی نے کلو کا ساتھ دینے کا ارادہ ظاہر نہیں کیا تھا چنانچہ وہ خود ہی یہاں آ گیا تھا۔ میں اور اللہ دین ایک درخت پر چڑھے ہوئے تھے۔ کلو کو پتہ نہیں تھا کہ ہم درخت پر ہیں۔ وہ اس درخت سے صرف دو تین گز کے فاصلے پر کیریاں اکھٹی کر رہا تھا کہ دفعتاً ہی اللہ دین نے میرے کان میں سرگوشی کی۔
’’مسافر بھیا۔‘‘ اللہ دین کی آواز کانپ رہی تھی۔ میں نے اس طرف دیکھا جدھر اس نے اشارہ کیا تھا۔ ایک نظر میں پہچان لیا، نندا ہی تھا، وہ اسی سمت آ رہا تھا۔ کمبل اوڑھے ہوئے تھا لیکن صرف کاندھوں تک حالانکہ موسم کمبل کا نہیں تھا۔ میرے چہرے پر خون سمٹ آیا۔ نندا آہستہ آہستہ چلتا ہوا کلو کے پاس پہنچ گیا۔ ادھر ادھر نظریں دوڑائی تھیں اور کلو کے پاس جا کھڑا ہوا۔
’’ارے تو اللہ دین کا چھورا ہے نا؟‘‘
’’ہاں نندا چاچا مجھے نہیں پہچانتے؟‘‘
’’کیوں نہیں… مگر یہاں اکیلا کیا کر رہا ہے…؟‘‘
’’کیریاں چن رہا ہوں۔‘‘
’’اچھا اچھا… تجھے اکیلا چھوڑ دیا اللہ دین نے… تجھے پتہ ہے کہ بستی میں ڈائن پھرتی ہے۔‘‘
’’ڈائن کیا ہوتی ہے نندا چاچا؟‘‘
’’کتنی کیریاں جمع کر لیں تو نے…؟‘‘
’’بس یہ ہیں۔‘‘
’’اور جمع کرے گا؟‘‘
’’بس تھوڑی سی اور جمع کروں گا پھر تو رات ہونے ہی والی ہے۔‘‘
’’ہاں یہ تو ہے۔ چل ٹھیک ہے اور جمع کر لے۔ وہ دیکھ وہ درخت کے نیچے پڑی ہوئی ہیں۔‘‘
’’کدھر؟‘‘ کلو نے معصومیت سے پوچھا اور اس سمت دیکھنے لگا اور اسی وقت نندا نے شانوں پر پڑا کمبل کلو پر ڈال دیا اور اسے بھینچ لیا۔ اللہ دین کے حلق سے آواز نکلنے ہی والی تھی کہ میں نے اس کا منہ بھینچ لیا۔ اللہ دین کا بدن ٹھنڈا پڑ گیا تھا۔ نندا، کلو کو دبوچے ہوئے تھا اور کلو کمبل میں ہاتھ پائوں مار رہا تھا۔ اللہ دین نے سرگوشی میں کہا۔ ’’بب بھیا۔ کک کہیں دم ہی نہ نکل جائے میرے بچے کا۔‘‘
’’نہیں۔ وہ لوگ بچوں کو زندہ رکھتے ہیں۔‘‘ اللہ دین کی آواز بری طرح کپکپا رہی تھی۔ میں نے اس کے بدن میں تھرتھری محسوس کی اور میرا دل دکھنے لگا۔ بہرحال ساری باتوں کو بھول کر میں بھی مستعد ہو گیا تھا۔ نندا، کلو کو کندھے پر ڈال کر تیزی سے ہنومان مندر کے راستے کی جانب چل پڑا۔ میں اور اللہ دین نیچے اترے ہی تھے کہ لچھمن اور شنکر پہنچ گئے۔ انہوں نے آہستہ سے کہا۔
’’ساری خبر تھی ہمیں، کام ہو گیا نا مگر چنتا نہ کرنا اللہ دین بھیا، بیس آدمی ہیں مندر کے آس پاس۔ سارے کے سارے لمبے لمبے چکر کاٹ کر وہاں پہنچ چکے ہیں۔ ایک ایک جگہ پر نظر رکھی جا رہی ہے، اور تو اور دو تین تو مندر کے اندر موجود ہیں اور ستونوں کے بیچ چھپے ہوئے ہیں۔ جیسے ہی نندا اس طرف چلا، لچھمن نے مجھے خبر کر دی اور اس کا پیچھا کرنے لگا۔ میں نے ان سارے آدمیوں کو جو تاک میں لگے ہوئے ہیں، تو پروا مت کریو اللہ دین بھیا۔ بال بیکا نہیں ہو گا ہمارے کلو کا۔ پہلے ہماری جان جائے گی۔‘‘
’’ارے بھیا خدا کرے۔ ڈائن سے ہمارا پیچھا چھوٹ جائے۔ چلیں؟‘‘
’’ایک ایک کر کے ادھر ادھر گھوم کر۔ نندا بڑا چالاک ہے اور سنو بات ابھی یہیں ختم تھوڑی ہوئی ہے۔ چلو چلو ہم بھی چل رہے ہیں۔‘‘ جنک رام نے ساتھ چلتے ہوئے کہا۔ ہم لوگ بڑی احتیاط سے نندا کو نگاہوں میں رکھے ہوئے چل رہے تھے، وہ محتاط قدم اٹھاتا ہوا مندر کی طرف جا رہا تھا۔ جنک رام نے کہا۔
’’مکھیا جی کی حویلی پر بھی پہرہ لگا ہوا ہے اور سارے لوگ نگرانی کر رہے ہیں۔ جیسے ہی گیتا نندی باہر نکلے گی اس کی بھی خبر ہمیں مل جائے گی۔‘‘ ہم اس طرح باتیں کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔ جھٹپٹے تیزی سے رات میں تبدیل ہو گئے۔ نندا مندر میں داخل ہو گیا تھا۔ ہمارے دل دھک دھک کر رہے تھے۔ اللہ دین بے چارہ تو ابھی تک تھر تھر کانپ رہا تھا۔ اس کا چہرہ پیلا پڑ گیا تھا۔
لگ رہا تھا جیسے اس کے بدن کا سارا خون نچوڑ لیا گیا ہو۔ آواز بھی اتنی مدھم ہو گئی تھی اس کی کہ مجھے حیرت تھی۔ غرض یہ کہ نندا تو مندر میں داخل ہو گیا۔ میں اور اللہ دین مندر کے بالکل قریب دیواروں کے ساتھ آگے بڑھ گئے۔ دفعتاً اللہ دین نے ایک سمت اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’ادھر ادھر… دیکھو۔‘‘ میں نے اللہ دین کا اشارہ سمجھ لیا۔ مندر کا اس سمت کا حصہ ٹوٹا ہوا تھا۔ اینٹیں ایک دوسرے پر ڈھیر کی شکل میں پڑی ہوئی تھیں اور ایک بڑا سا سوراخ تھا۔ میں خوشی سے اچھل پڑا۔ یہ تو مندر میں اندر جانے کا راستہ بھی ہو سکتا تھا۔ میں انتہائی محتاط قدموں سے آگے بڑھا۔ اللہ دین سے سرگوشی کر کے میں نے اسے بھی محتاط رہنے کے لئے کہا اور اللہ دین نے گردن ہلا دی۔ ہم لوگ ایک ایک انچ سرک رہے تھے کہ کہیں کوئی اینٹ اپنی جگہ سے سرک نہ جائے اور نندا ہوشیار نہ ہو جائے لیکن ایک بات اور بھی تھی کہ اگر نندا ہوشیار ہو گیا تو زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا، وہ بھاگنے کی کوشش کرے گا لیکن جتنے افراد کی اطلاع ملی تھی کہ وہ مندر کے گرد چھپے ہوئے ہیں، وہ اسے بھاگنے کہاں دیں گے۔ کوئی اور طریقہ ایسا ہو نہیں سکتا کہ گیتا نندی کو یہاں کے بارے میں اطلاع مل جائے۔ بہرطور ٹوٹے ہوئے حصے سے ہم مندر کے ایک پتلے سے حصے میں داخل ہو گئے اور اس پتلی سی راہداری میں جہاں کوڑا کرکٹ کے انبار لگے ہوئے تھے اور چوہے ادھر ادھر دوڑ رہے تھے۔ آگے بڑھتے ہوئے ہم سامنے کے حصے میں پہنچ گئے جہاں سے تھوڑا سا فاصلہ طے کر کے اس علاقے میں داخل ہوا جا سکتا تھا جہاں ہنومان کا بت استادہ تھا۔ میں نے اللہ دین کے کان سے منہ جوڑ کر آہستہ سے کہا۔ ’’دیکھو اللہ دین بھیا ذرا سی بھی کمزوری دکھائی تو ساری قربانی بیکار جائے گی، سنبھل کر رہنا۔‘‘
’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔‘‘ اللہ دین نے کہا اور ہم ستونوں کی آڑ لیتے ہوئے ایک ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں سے سامنے نظر ڈالی جا سکتی تھی لیکن ہمارے عقبی ستون میں بھی کچھ لوگ پوشیدہ تھے۔ تھوڑے فاصلے پر کچھ سرسراہٹیں سنائی دی تھیں۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ لوگ پوری طرح ہوشیار ہیں۔ نندا مزے سے بیٹھا بیڑی پی رہا تھا اور ہنومان کے بت کے قدموں میں کلو پڑا ہوا نظر آ رہا تھا۔ اس کے ہاتھ پائوں بندھے ہوئے تھے۔ آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور اس کی مدھم مدھم آواز سنائی دے رہی تھی۔ ہم نے اس آواز پر کان لگا دیئے۔ کہہ رہا تھا۔
’’نندا چاچا۔ نندا چاچا چھوڑ دو مجھے۔ کیوں لے آئے ہو یہاں۔ نندا چاچا یہ میرے ہاتھ پائوں، یہ میرے ہاتھ پائوں کیوں باندھ دیئے ہیں تم نے…؟‘‘
‘‘آواز بند کر۔ نہیں تو چھری پھیر دوں گا تیری گردن پر جیسے کہ رمضان بکرے کی گردن پر چھری پھیرتا ہے، بات سمجھ میں آئی۔‘‘
’’نہیں نہیں نندا چاچا چھوڑ دو مجھے، چھوڑ دو مجھے نندا چاچا۔‘‘
’’ارے چپ ہوتا ہے یا نہیں‘‘ نندا نے سچ مچ اپنے لباس سے وہ خنجر نکال لیا جس کا میں پہلے بھی دیدار کر چکا تھا۔ اللہ دین نے دونوں ہاتھ آنکھوں پر رکھ لئے تھے۔ میں نے اس کے شانے پر آہستہ آہستہ تھپکیاں دیں اور وہ ایسی نگاہوں سے مجھے دیکھنے لگا جن میں بے کسی اور بے بسی کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ یہ آنکھیں کہہ رہی تھیں کہ وہ اپنے بچے کو اس حال میں نہیں دیکھ سکتا۔ کلو چیختا رہا۔ چیختے چیختے اس کا گلا بیٹھ گیا اور نندا مزے سے بیڑی پر بیڑی سلگاتا رہا۔ بڑا صبرآزما وقت تھا۔ ایسے لمحات گزارنا زندگی کا سب سے مشکل کام ہوتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت تھی کہ جن لوگوں نے اس بات کا بیڑا اٹھایا تھا کہ ڈائن کو روشنی میں لا کر رہیں گے، وہ بھی بڑے صبر ہی سے وقت گزار رہے تھے۔ کیا مجال کہ کسی کو چھینک بھی آ جائے۔
پھر اچانک ہی سرسراہٹیں بلند ہوئیں۔ یوں لگا جیسے غیرمحسوس طریقے سے ایک نے دوسرے کو اور دوسرے نے تیسرے کو خبر دی ہو۔ لمحہ لمحہ سنسنی خیز تھا اور میرا یہ اندازہ درست ہی نکلا۔ یہ سرسراہٹیں درحقیقت ایک پیغام ہی تھیں اور اس کی تصدیق اس وقت ہو گئی جب گیتا نندی مندر کے احاطے میں داخل ہوئی۔ کالے رنگ کی ساڑھی باندھی ہوئے تھی۔ اوپر سے شال اوڑھی ہوئے تھی۔ اکیلی تھی اور بڑے پراعتماد قدموں سے اندر داخل ہو رہی تھی۔ نندا چونک کر سیدھا ہو گیا۔
’’جے دیوی۔‘‘ گیتا نندی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ آہستہ آہستہ آگے بڑھی اور قریب پہنچ گئی۔ اس نے بھاری آواز میں کہا۔ ’’نندا اگر آج ہمیں کامیابی نہ ہوئی تو یوں سمجھ لے کہ میری ساری تپسیا بیکار چلی جائے گی۔‘‘
’’میں جانتا ہوں دیوی۔‘‘ نندا نے کہا۔
’’سوامی ادھیرنا چندو ساتویں دن درشن دیں گے اور بس پھر میرا کام بن جائے گا۔‘‘
’’ہاں دیوی سات دن رہ گئے ہیں۔‘‘
’’بستی والے الگ ہوشیار ہیں۔ خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔‘‘
’’میں جانتا ہوں۔‘‘ نندا نے کہا۔
’’چل ہاتھ پائوں کھول دے اس کے۔‘‘ گیتا نندی نے کہا اور نندا نے خنجر نکال لیا۔ اس نے کلو کے ہاتھ پائوں کی رسیاں کاٹ دیں۔ کلو نے بھی اسی طرح تڑپ کر اٹھنے کی کوشش کی مگر نندا نے اسے بالوں سے پکڑ کر نیچے گرا دیا۔ گیتا نندی نے خنجر ہاتھ میں لے لیا تھا۔
’’اللہ دین درحقیقت صابر تھا۔ اس کی جو حالت ہورہی تھی مجھے اندازہ تھا مگر ضبط کئے ہوئے تھا۔ گیتا نندی کی آواز ابھری۔
’’جے بجرنگا۔ ساتویں بلی دے رہی ہوں۔ اسے سوئیکار کر بجرنگ بلی۔ میرے گود ہری کر دے۔‘‘
’’ٹھکرائن، کمینی، کتیا، میں تیری بلی دے دوں گا۔ ڈائن شیطان۔‘‘ اللہ دین کی بھیانک آواز سے مندر گونج اٹھا اور اس نے دیوانوں کی طرح لمبی چھلانگ لگائی۔ گیتا نندی اچھل پڑی۔ اس نے خونی نظروں سے اللہ دین کو اور پھر کلو کو دیکھا۔ پھر وہ بھیانک آواز میں بولی۔
’’تو بھی مارا جائے گا بھٹیارے۔ پیچھے ہٹ جا۔ مارا جائے گا میرے ہاتھوں۔ نندا اسے سنبھال۔‘‘ لیکن صبر کرنے والوں سے کہاں صبر ہوتا، وہ سب بیک وقت نکل پڑے۔ نندا کو انہوں نے دبوچ لیا۔ ٹھکرائن نے اللہ دین پر وار کیا مگر اللہ دین کی تقدیر اچھی تھی، اس کے سینے پر بس ہلکی سی خراش لگی۔ مشتعل لوگوں نے ٹھکرائن کے لمبے بال پکڑ کر اسے پیچھے سے گھسیٹ لیا تھا ورنہ اللہ دین ضرور مارا جاتا۔ گیتا نندی نے کئی لوگوں کو زخمی کر دیا مگر کیونکہ بے شمار افراد تھے اس لئے وہ زیادہ دیر خنجر نہ گھما سکی۔ کسی نے اس کے ہاتھ پر لاٹھی مار کر خنجر گرا دیا اور جونہی خنجر اس کے ہاتھ سے نکلا لوگ اس پر ٹوٹ پڑے۔ وہ بھول گئے تھے کہ وہ ٹھکرائن ہے۔ اس کے بال نوچ ڈالے گئے۔ کپڑے تار تار کر دیئے گئے۔ نندا کی تو شکل ہی نہیں پہچانی جا رہی تھی۔ باہر سے بہت سی آوازیں ابھریں۔
’’ٹھاکر جی آ گئے۔ کوہلی رام جی آ گئے۔‘‘ ٹھاکر بہت سے لوگوں کے ساتھ اندر آ گیا تھا۔
’’کیا ہے، کیا ہو رہا ہے۔ ارے یہ کیا ہو رہا ہے۔ ارے یہ گیتا نندی، چھوڑو اسے۔ چھوڑو ورنہ میں گولی چلوا دوں گا۔‘‘ ٹھاکر کے دو آدمیوں کے پاس بندوقیں تھیں۔
’’انصاف سے کام لو ٹھاکر۔ کتنی گولیاں چلائو گے۔ آخر میں تمہارے پاس گولیاں ختم ہو جائیں گی۔ پھر کیا ہو گا۔ جانتے ہو؟‘‘ پیچھے سے کسی نے کہا۔
’’ہم تمہیں گولیاں چلانے کے لئے نہیں لائے ٹھاکر، اس لئے بلا کر لائے ہیں کہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ لو۔‘‘ دوسرے آدمی نے کہا۔
’’سب کچھ تو کر ڈالا تم نے۔ اب میں کیا دیکھوں۔’’ کوہلی رام بولا۔
’’اس بھول میں نہ رہنا ٹھاکر، یہ سب کچھ نہیں ہے۔ زندہ جلائیں گے ہم اس ڈائن کو اور اس چمار کو۔ بھگوان کی سوگند اسے زندہ نہ جلایا تو ماں کا دودھ حرام ہے ہم پر۔‘‘ رگھبیر نے کہا۔
’’دیکھو کتنوں کے گھائو لگائے ہیں اس نے۔ اپنی آنکھوں سے دیکھ لو۔ ارے تم دھن والے سمجھتے کیا ہو اپنے آپ کو۔ چلوائو
چلوائو ٹھاکر…!‘‘ رام پال نے کہا۔ اس کا بیٹا بھی مارا گیا تھا۔
’’گیتانندی کیا ہے یہ سب کچھ…؟ یہ سب کیا ہے گیتا…!‘‘
’’جھوٹے ہیں پاپی سارے کے سارے۔ سب کچھ اس مسافر کا کیا دھرا ہے۔ یہ سب اس کی سازش ہے۔‘‘ ٹھکرائن نے میری طرف اشارہ کر کے کہا۔
’’نام مت لینا اس دیوتا کا ٹھکرائن۔ بھگوان کی سوگند زبان کاٹ لیں گے تمہاری۔‘‘ گنگو دھاڑا۔
’’تم یہاں کیا کر رہی تھیں ٹھکرائن…؟‘‘ کوہلی رام نے پوچھا۔
’’ہنومان پوجا کرنے آئی تھی۔ سپنے میں درشن دیئے تھے، انہوں نے بلایا تھا مجھے، سو نندا کو ساتھ لے کر چلی آئی۔‘‘ گیتا نندی بولی۔
’’تمہارا منہ ہے ٹھاکر جو رکے ہوئے ہیں، نہیں تو لاٹھیاں مار مار کر بھیجہ باہر کر دیتے اس کا۔‘‘ ایک پرجوش آدمی بولا۔
’’ارے تم منہ دیکھو ٹھاکر کا۔ ہم نہیں دیکھیں گے، مارو اس حرام خور کو، جان سے مار دو…!‘‘ لوگ ایک بار پھر بے قابو ہو گئے۔ چند افراد نے بندوق برداروں پر حملہ کر کے بندوقیں چھین لیں۔ صورتحال بگڑتے دیکھ کر میں نے ایک اونچی جگہ کھڑے ہو کر چیخ کر کہا۔
’’سنو بھائیو! کلو کی جان بچ گئی ہے۔ اللہ نے گنگو کے بیٹے للو کو بھی بچا لیا ہے۔ گیتا نندی اور نندا کو پکڑ کر حویلی لے چلو۔ پوری بات ٹھاکر کو بتائو پھر دیکھو وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں۔‘‘
’’فیصلہ ہم کریں گے، ٹھاکر نہیں۔‘‘
’’پھر بھی کوہلی رام کو تفصیل تو بتائو۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ لے چلو اس ڈائن کو۔ لے چلو۔‘‘ لوگوں نے میری اتنی بات مان لی۔
’’کپڑے پھاڑ دیئے ہیں تم نے اس کے۔ یہ چادر اوڑھا دوں میں اسے۔‘‘ ٹھاکر نے کہا۔
’’بندوقیں اب دوسروں کے ہاتھوں میں تھیں اس لئے کوہلی رام بھی بے بس ہو گیا تھا۔ گیتا نندی اور نندا چمار کو مندر سے باہر لایا گیا۔ کافی لوگ جمع ہو گئے تھے اور پھر پورا جلوس ہی واپس چل پڑا۔ جنک رام، گنگو اور اللہ دین میرے ساتھ تھے۔ راستے میں جنک رام نے کہا۔
’’ہم کسی پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔ ٹھاکر پولیس کو بھی بلا سکتا ہے اور اگر پولیس آ گئی تو ٹھکرائن بچ جائے گی۔‘‘
’’سو تو ہے…‘‘
’’بستی میں گھستے ہی دس بیس آدمیوں کو دوڑا دو۔ پوری بستی جمع کر لو۔ سب کے سب ٹھاکر کی حویلی کو گھیر لیں، کسی کو بستی سے باہر نہ جانے دیا جائے۔ جس کے پاس جو ہتھیار ہے، لے کر آ جائے۔ ٹھاکر کوئی چال نہ چل جائے کہیں۔‘‘
’’بالکل ٹھیک کہا تو نے جنکیا۔ میں دوڑ کر بستی جاتا ہوں۔ ارے آئو رے آئو، دو چار میرے ساتھ…‘‘ گنگو نے کہا۔ فوراً چند لوگ اس کے ساتھ ہو لئے اور گنگو جلوس سے آگے دوڑ گیا۔ پھر جب بستی میں داخل ہوئے تو بستی کے تمام گھر روشن ہو چکے تھے۔ لوگ چیختے پھر رہے تھے۔ ’’ڈائن پکڑی گئی بھائیو۔ سب کے سب گھروں سے نکل آئو۔ ٹھاکر کی حویلی کے سامنے جمع ہو جائو۔ ڈائن پکڑی گئی۔‘‘ جلوس ٹھاکر کی حویلی پہنچا تو وہاں کا منظر ہی بدلا ہوا ملا۔ گنگو حویلی کے دروازے پر بندوق لئے جما ہوا تھا۔ بیس پچیس آدمی اس کے ساتھ تھے۔ جو لوگ حویلی میں تھے، انہیں نہتا کر کے باہر جمع کر لیا گیا تھا اور دو آدمی ان پر بندوقیں تانے ہوئے تھے…! ٹھاکر آگے بڑھا تو گنگو نے اس پر بندوق تان لی۔
’’تم اندر نہیں جائو گے ٹھاکر۔ جب تک فیصلہ نہیں ہو جائے گا اندر نہیں جائو گے۔‘‘ گنگو نے کہا۔
’’تم لوگوں نے میرے گھر پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ جانتے ہو اس کے جواب میں پولیس کیا کرے گی۔‘‘
’’یہ کام اب پولیس نہیں کرے گی ٹھاکر، ہم کریں گے۔ بھول جائو پولیس کو، بچے ہمارے مارے گئے ہیں، پولیس کے نہیں۔‘‘ گنگو نے کہا۔
’’میں مکھیا ہوں تمہارا…!‘‘
’’یہیں پنچایت ہو گی۔ یہیں فیصلہ ہو گا۔ پھر اندر جائو گے تم…!‘‘
’’تو پھر فیصلہ تم ہی کر لو، میری کیا ضرورت ہے۔‘‘
’’فیصلہ تو ہو گیا ہے ٹھاکر۔ زندہ جلائیں گے ہم ان دونوں کو…!‘‘ کوہلی رام کو اندازہ ہو گیا کہ صورتحال بہت بگڑی ہوئی ہے۔ وہ پریشانی سے دوسروں کی صورت دیکھنے لگا۔ بستی کے لوگ چاروں طرف سے آ کر جمع ہو رہے تھے۔ کہرام مچا ہوا تھا۔ میں دل ہی دل میں اپنے آپ کو ٹٹول رہا تھا اور میرا دل جواب دے رہا تھا۔ کوئی شک نہیں ہے گیتا نندی کے مجرم ہونے میں۔ چھ معصوم بچوں کی جان لی ہے اس نے۔ اس کے ساتھ یہی سب ہونا چاہئے۔
’’اللہ دین۔ کلو کو گھر پہنچا دو۔‘‘ میں نے کہا۔
’’کلیجہ نکل گیا ہے مسافر بھیا۔ ہائے کیا حالت ہو رہی تھی میرے بچے کی، ارے میں تو چاہتا تھا وہیں مار ڈالتے ان دونوں کو۔ یہ ٹھاکر وہاں کیسے پہنچ گیا۔‘‘
’’یہ بات تو پہلے ہی طے کر لی گئی تھی کہ کچھ لوگ ٹھاکر کو بلا لائیں گے تاکہ وہ بھی دیکھ لے۔‘‘
’’اب کیسے رنگ بدل رہا ہے سسرا۔ گنگو نے ٹھیک کرا بھیا نہیں تو سسرا پولیس بلا لیتا اور پھر ہماری دال نہ گلتی، بچا لیتا وہ کسی نہ کسی طرح ٹھکرائن کو، ٹھیک ہے مسافر بھیا ہم کلو کو گھر پہنچا دیں۔ ابھی آتے ہیں۔‘‘ اور اللہ دین وہاں سے چلا گیا۔ مجھے صورتحال کا بخوبی اندازہ ہو رہا تھا۔ بستی والے ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے۔ وہ حیران تھے اس بات پر کہ ڈائن بھاگ بھری نہیں تھی اور اس کی طرف شبہ ایسے ہی چلا گیا تھا۔ ٹھکرائن اصل ڈائن ہے، بات آہستہ آہستہ کھلتی جا رہی تھی، لوگ ایک دوسرے کو تفصیل بتا رہے تھے، وہ لوگ سب سے زیادہ مشتعل تھے جن کے بچے ٹھکرائن کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ ان کا بس نہیں چلتا تھا ورنہ سب کچھ وہیں کر ڈالتے لیکن جو تیاریاں ہو رہی تھیں ان سے اندازہ ہوتا تھا کہ کسی طرح ٹھکرائن اور نندا کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوں گے۔ بہت سے لوگ جنگل اور کھیتوں کی طرف بھی نکل گئے تھے، ان کی آمد کے بعد ان کے ارادوں کا پتہ چلا۔ لکڑیاں کاٹ کر لائے تھے اور حویلی کے سامنے ہی ایک صاف ستھرے حصے میں انبار کرنے لگے تھے۔ ٹھکرائن کو حویلی میں نہیں جانے دیا گیا تھا بلکہ وہیں ایک جگہ بٹھا دیا گیا تھا۔ نندا بھی تھوڑے فاصلے پر موجود تھا۔ گیتا نندی جتنا شور مچا سکتی تھی، مچا چکی تھی اور اب اس کے چہرے پر خوف کے آثار نظر آنے لگے تھے۔ ٹھاکر کوہلی رام لوگوں سے صلاح و مشورے کر رہا تھا۔ تقریباً ساری بستی ہی امڈ آئی تھی بس عورتیں اور بچے ہی گھروں میں رہ گئے تھے۔ تلسی بھی موجود تھا مگر اتنے فاصلے پر کہ میں اس کے چہرے کا جائزہ نہیں لے سکتا تھا۔ بہرطور یہ ہنگامہ آرائیاں جاری رہیں۔ لوگوں کی زبانی ان فیصلوں کا پتہ چل رہا تھا جو کوہلی رام اور دوسرے لوگوں کے درمیان بات چیت کرنے سے ہوئے تھے۔ پتہ چلا کہ صبح کو پنچایت ہوگی اور ساری باتیں سننے کے بعد فیصلے کئے جائیں گے۔ بستی میں جیسے کوئی تہوار منایا جا رہا تھا۔ پوری بستی روشن تھی، لوگ آ جا رہے تھے۔ ٹھاکر کوہلی رام بھی ایک طرف بیٹھ گیا تھا تھک کر۔ غرض یہ کہ یہ ہنگامے ساری رات جاری رہے۔ اللہ دین میرے پاس واپس آ گیا تھا۔ اب وہ خاصی بہتر حالت میں نظر آ رہا تھا۔ جنک رام اور گنگو وغیرہ بھی میرے پاس ہی موجود تھے۔ ان دونوں کو مجھ سے بڑی عقیدت ہو گئی تھی خاص طور سے گنگو کو جس کا بچہ قربان ہوتے ہوتے بچ گیا تھا، اللہ دین کے لئے بھی بڑی عقیدت کے الفاظ ادا کئے جا رہے تھے کہ اس نے اپنے بیٹے کی زندگی خطرے میں ڈال دی تھی۔ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو نہ تو ٹھاکر کوہلی رام یہ بات مانتا کہ اس کی دھرم پتنی ڈائن ہے اور نہ ہی ٹھکرائن رنگے ہاتھوں پکڑی جاتی۔ جن لوگوں نے اندر کا منظر دیکھا تھا وہ تو خیر کسی اور بات پر یقین کرنے کو تیار ہی نہیں تھے لیکن بعض لوگوں کے دلوں میں شک و شبہ بھی پایا جاتا تھا۔
رات آہستہ آہستہ گزرتی رہی۔ آخرکار صبح ہو گئی۔ ٹھاکر کا چہرہ اترا ہوا تھا۔ چاروں طرف سے بندھ کر رہ گیا تھا وہ۔ پتہ نہیں اس کے اپنے دل میں کیا تھا۔ ٹھکرائن بھی اب مضمحل نظر
تھی غالباً اب اسے اپنی تقدیر کا فیصلہ معلوم ہو گیا تھا۔ صبح کو لوگ منتشر ہوئے اور کچھ دیر کے بعد پنچایت جم گئی۔ جمال گڑھی کے بڑے بوڑھے ایک جگہ بیٹھ گئے۔ ٹھاکر کو اس وقت مکھیا کا درجہ نہیں دیا گیا تھا لیکن پھر بھی بہت سے لوگ ایسے تھے جو اس کی عزت کرتے تھے۔ ٹھاکر کے ملازم اس بات پر حیران بھی تھے اور شرمندہ بھی کہ ٹھکرائن کی نوکری کرتے رہے تھے۔ اب ان کے خیالات بھی بدلے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ بالاخر لوگوں سے خاموش ہونے کے لئے کہا گیا اور پھر میری پکار پڑی۔ اللہ دین نے کہا۔
’’میں جانتا تھا بھیا، پنچایت تمہیں ضرور بلائے گی۔ گنگو، جنک رام اور وہ بہت سے آدمی جن کے بچے مرے تھے، میرے ساتھ ہی آگے بڑھے تھے۔ پنچایت والوں نے مجھے بیٹھنے کے لئے کہا اور میں ان کے سامنے بیٹھ گیا۔ ٹھکرائن غضب ناک آنکھوں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ نندا کی حالت اب کافی خراب ہو گئی تھی۔ اس کی نظریں بار بار لکڑیوں کے اس ڈھیر کی جانب اٹھ جاتی تھیں، جسے اب چتا کی شکل دے دی گئی تھی۔ ایک راستہ رکھا گیا تھا ٹھکرائن اور نندا کو اندر پہنچانے کے لئے، باقی پوری چتا ایسے بنا دی گئی تھی جیسے مردوں کو جلانے کے لئے شمشان گھاٹ میں بنائی جاتی ہے۔ ایک بزرگ نے کہا۔
’’ٹھاکر کوہلی رام ساری باتیں ہمیں پتہ چل گئی ہیں اور اب فیصلہ کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ تو اگر مکھیا کی حیثیت سے اس چوکی پر بیٹھنا چاہے تو اب بھی بیٹھ سکتا ہے لیکن فیصلہ انصاف سے کرنا ہو گا، کوئی ایسی بات نہیں مانی جائے گی جو جھوٹی ہو۔‘‘
’’تمہاری مرضی ہے دھرمو چاچا، جیسا من چاہے کرو۔‘‘ ٹھاکر کوہلی رام نے اداس لہجے میں کہا۔
’’مسافر بھیا تم کسی اور بستی سے ادھر آئے اور تم نے بھاگ بھری کو اس لاش کے پاس بیٹھے دیکھا۔ کیا یہ سچ ہے؟‘‘
’’ہاں بالکل سچ ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ بھاگ بھری صرف بیٹھی ہوئی تھی جیسا کہ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ پاگل ہے، ایک پاگل عورت لاش کو دیکھ کر اس طرح بیٹھ بھی سکتی ہے، اسے ٹٹول بھی سکتی ہے اور یہی بات میں نے دوسروں سے کہی تھی۔‘‘
’’اچھا بھیا اب تم لوگ ہمیں یہ بتائو کہ تمہیں کیسے پتہ چلا کہ ٹھکرائن گیتا نندی ہنومان مندر میں بچوں کی بلی دیتی ہے۔‘‘
’’میں بتاتا ہوں دھرمو چاچا۔ مسافر بھیا کو شبہ ہو گیا تھا کہ کوئی گڑبڑ ضرور ہے اور بھاگ بھری ڈائن نہیں ہے۔ سو وہ ایک رات ہنومان مندر کی طرف نکل گئے جہاں انہوں نے گیتانندی اور نندا کو دیکھا۔ وہ میرے بچے کو پکڑ کر لے گئے تھے۔ اس کے ہاتھ پائوں باندھ رکھے تھے انہوں نے اور وہی سب کچھ ہو رہا تھا جو آج میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ میرا بیٹا للو وہاں پڑا ہوا تھا، اس کے ہاتھ پائوں بندھے ہوئے تھے، مسافر بھیا اکیلا تھا اس لئے اس نے شور مچا دیا۔ گیتانندی اور نندا چمار بھاگ گئے وہاں سے اور میرا بچہ مسافر بھیا کی وجہ سے بچ گیا۔ وہی اسے لے کر آئے، اس سے گھر کا پتہ پوچھا اور چپ چاپ اسے گھر میں چھوڑ گئے۔ میرے گھر والوں کو اور مجھے تو اس کا پتہ بھی نہیں تھا لیکن صبح کو جب ہم نے للو کی حالت دیکھی تو وہ تیز بخار میں پھنک رہا تھا اور بار بار چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ مجھے نہ مارو۔ مجھے گھر جانے دو۔ بری حالت ہو گئی ہماری۔ بڑی مشکل سے ہم بچے کو سمجھا بجھا کر اس کی زبان کھلوانے میں کامیاب ہوئے تو اس نے یہ کہانی سنائی۔ مسافر بھیا کے بارے میں بھی بتایا۔ ہم نے معلومات کیں تو مسافر بھیا نے ہمیں اصل بات بتا دی۔ وہ باہر کے آدمی ہیں لیکن ہمارے لئے تو دیوتا سمان ہیں۔ میرے بچے کا جیون بچایا ہے انہوں نے۔ میں تو ان پر ہزار جیون قربان کر سکتا ہوں سمجھے دھرمو چاچا۔ بعد میں ہم سب نے مل کر یہ طے کیا کہ ایسا کام کیا جائے جس سے سب کو اصل بات معلوم ہو جائے۔ (جاری ہے)