ایسے ہی اگر ہم کوہلی رام کو یہ باتیں بتاتے تو بھلا چلتی ہماری اور پھر جنک رام اور دوسرے کچھ سر جوڑ کر بیٹھے۔ اللہ دین نے اپنے بیٹے کی قربانی دینے کا فیصلہ کیا اور ایسا موقع دیا کہ نندا، کلو کو اغوا کر لے اور ہم سب اس کی تاک میں لگ گئے۔ اس کی گواہی بہت سے لوگ دیں گے۔ سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے بس کچھ دیر ہی تھی کہ گیتانندی، کلو کو مار ڈالتی مگر ہم سب تیار تھے۔‘‘
’’گیتانندی ایسا کیوں کرتی تھی؟‘‘
’’اسی سے پوچھو۔‘‘
’’بتائے گی ٹھکرائن؟‘‘
’’جھوٹ بول رہے ہیں، سب کے سب جھوٹے ہیں۔ سب پاپی دشمن ہو گئے ہیں میرے، ایک ایک کو ٹھیک کر دوں گی۔ دیکھتے رہو تم سب۔ مہاراج ادھیرنا چندو، چلے میں نہ بیٹھے ہوتے تو…تو…!‘‘
’’ادھیرنا چندو…!‘‘ ٹھاکر کوہلی رام حیرت سے بولا۔
’’وہ کالا جادوگر…!‘‘ دھرمو چاچا نے کہا۔ ’’اس سے تیرا کیا واسطہ؟‘‘
’’گیتانندی۔ اس سے تیرا کیا سمبندھ ہے۔‘‘
’’کچھ بھی نہیں بتائوں گی کسی کو!‘‘
’’نندا بتائے گا۔ ارے او پاپی روٹی کے کچھ ٹکڑوں کے لئے تو نے کتنے گھر اجاڑ دیئے، زبان کھول دے شاید بچ جائے نہیں تو زندہ پھونک دیا جائے گا، زبان کھول دے پاپی، اپنی چتا دیکھ رہا ہے تو۔‘‘
نندا کی قوت برداشت جواب دے گئی، دھاڑیں مارنے لگا۔ چیخ چیخ کر رونے گا۔ ’’ہم نردوش ہیں مکھیا جی۔ ہمارا دوش نہیں ہے۔ ہمیں تو… ہمیں تو ٹھکرائن نے مجبور کر دیا تھا۔‘‘ گیتا نندی چونک پڑی۔ اس نے گھور کر نندا کو دیکھا۔
’’کیا بک رہا ہے نندا؟‘‘
’’ارے ارے چتا تو بنوا دی تم نے ہماری ٹھکرائن اب بھی چپ رہیں۔‘‘
’’ادھیرنا چندو تجھے جیتا نہیں چھوڑیں گے۔ بھسم کر دیں گے تجھے۔‘‘
’’وہ تو بعد میں بھسم کریں گے، ابھی جو بھسم ہو رہے ہیں اسے کون روکے گا؟‘‘
’’ارے بولنے دے گیتا نندی۔ پنچایت کے بیچ دخل نہ دے۔‘‘
’’سب جھوٹے ہیں۔ سب کائر ہیں اور… اور تم دیکھ رہے ہو کوہلی رام… تم چپ دیکھ رہے ہو۔ بندوقیں نکالو، بھون دو سسروں کو۔‘‘ ٹھکرائن غضب ناک لہجے میں بولی۔
’’تو نے یہ کیا کر دیا ہے گیتا۔ جیون بھر مجھے دبائے رکھا۔ میں انہیں کیسے دبائوں؟‘‘ ٹھاکر نے بے بسی سے بولا۔
’’رہے نا نیچ ذات۔ اچھی ذات کے ہوتے تو بہادری دکھاتے۔ پتا جی نے سچ کہا تھا۔‘‘ ٹھکرائن نفرت سے بولی۔
’’ارے اونچی ذات والی تو نے اپنی ذات خوب دکھائی۔‘‘ ٹھاکر کو بھی غصہ آگیا۔ گیتانندی اسے خونی نظروں سے دیکھ کر خاموش ہو گئی۔ نندا مسلسل رو رہا تھا۔ اس نے کہا۔ ’’ہم تو نوکر تھے بھائیو۔ مالکن نے جو کہا سو کیا۔ گود سونی تھی اس کی، ٹونے ٹوٹکے کرتی تھی۔ ہمیں کئی جگہ لے گئی نہ جانے کیا کیا کرم کرائے پھر ادھیرنا چندو مہاراج مل گئے۔ انہوں نے یہ کرم بتائے۔ سات بھینٹ دینی تھی ہنومان کے چرنوں میں۔ سو ہم سے یہ بھی کرایا مالکن نے۔ اپنی گود ہری کرنے کے لئے اس نے ہم سے چھ بچے اٹھوائے، ساتویں بلی گنگو کے چھورا کی تھی سو ہم لے گئے اسے اور مسافر نے دیکھ لیا، بلی نہ ہو سکی۔ دھیرنا جی چلے میں بیٹھے ہیں نہیں تو ضرور آ جاتے۔ بڑا سمبندھ ہے اس کا…!‘‘
’’اور کچھ سننا ہے ٹھاکر…‘‘ دھرمو چاچا نے کہا۔
’’میں کیا کہوں دھرمو چاچا، مجھے تو کچھ معلوم ہی نہ تھا۔‘‘
’’ختم کرو یہ پنچایت۔ اسے چتا میں لے جائو۔ نندا کو بھی بھسم کرنا ہوگا۔ اس نے مالکن کے کہنے پر جو کچھ کیا، کرنے سے پہلے خود نہ سوچا ؟ اسے بھی بھسم کردو، جلادو اسے۔‘‘ لوگ بے قابو ہوگئے تھے۔ تصدیق ہونے کے بعد لوگ برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ لہٰذا نندا کو گھیر لیا گیا، لکڑیوں کو آگ لگادی گئی۔ میں نے آنکھیں بند کرلیں، لوگوں نے نندا کو اٹھا کر آگ میں جھونک دیا تھا۔ پھر وہ گیتا نندی کی طرف بڑھے۔ گیتا نندی بھی خوف زدہ نظر آنے لگی تھی۔ نندا کے گوشت کی چراند فضا میں دور دور تک پھیل رہی تھی اور اسے اپنا حشر نظر آرہا تھا۔
دفعتاً عقب میں کچھ بھگدڑ سی مچی۔ لوگ چیخنے چلانے لگے۔ میں نے بھی چونک کر دیکھا۔ ایک بے نتھا بیل دوڑتا چلا آرہا تھا، اس کی ننگی پیٹھ پر سادھوئوں جیسا حلیہ بنائے ایک شخص بیٹھا ہوا تھا۔ بہت سے لوگ بیل کی زد میں آکر کچل گئے تھے۔ گیتا نندی نے اسے دیکھا تو بے اختیار چیخ پڑی۔
’’مہاراج ادھیراج… ادھیرنا چندو… مجھے بچائو مہاراج، مجھے بچائو!‘‘
بپھرے ہوئے لوگ رُک گئے۔ ان کی نظریں بیل کی پیٹھ پر بیٹھے سادھو پر تھیں اور اس کی آمد پر وہ خوفزدہ ہو گئے تھے۔ اس نے جس طرح لوگوں پر بیل دوڑا دیا تھا اس سے اس کی سنگدلی کا پتہ چلتا تھا اور سرکشی کا بھی، جیسے اسے کسی کا خوف نہ ہو اور وہ ان جیتے جاگتے انسانوں کو گھاس کوڑا سمجھتا ہو۔ آن کی آن میں وہ نزدیک آگیا۔ مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ اب کیا ہو گا۔ گیتانندی نے اس کا نام لے کر مجھے اسے سے روشناس کرا دیا تھا۔ میں نے دل ہی دل میں درود پاک کا ورد شروع کر دیا کیونکہ ہر مشکل کے حل کیلئے مجھے یہی بخشا گیا تھا۔ ادھیرناچندو نے خونی نگاہوں سے یہاں موجود لوگوں کو دیکھا اور لوگ دہشت سے کانپنے لگے۔ سفلی علوم کے اس ماہر کے بارے میں بستی بھر کے لوگ جانتے تھے۔ اس سے نفرت بھی کرتے تھے اور خوفزدہ بھی رہتے تھے۔
’’کیا ناٹک رچایا ہے رے کم ذات تو نے۔ کیا کہہ رہی ہے یہ …!‘‘ اس نے کوہلی رام کو گھورتے ہوئے کہا۔
’’میں نے، میں نے نہیں مہاراج، سب بستی والوں نے…‘‘ کوہلی رام ہاتھ جوڑ کر کانپتا ہوا بولا۔ لوگ آہستہ آہستہ پیچھے ہٹ رہے تھے، دور تک ادھیرنا کے لئے جگہ چھوڑ دی گئی تھی۔
’’کاہے رے حرام خورو … کاہے موت کو آواز دی تم نے۔ جانتے ہو ہماری رن بیوتا ہے گیتا نندی، ہماری شکتی کے سائے میں ہے۔ ارے او بڈھے سرپنچ تو بتا کیا ہے یہ سب کچھ۔‘‘ ادھیرناچندو شاید بستی والوں کو جانتا تھا، اس نے دھرمو چاچا کو مخاطب کیا تھا۔
’’گیتا نندی ٹھکرائن، ڈائن بن گئی ہے مہاراج۔‘‘ دھرمو نے کپکپاتے ہوئے کہا۔
’’ارے او ڈائن کے سگے۔ بائولے بن گئے ہو کیا تم سارے کے سارے … ہنومان بلی دے رہی تھی وہ، اس کی گود بھی تو سونی تھی۔‘‘
’’ اس نے چھ پریوار سونے کر دیئے مہاراج ۔ چھ بچوں کو مار کر ان کے کلیجے چبا گئی۔‘‘ جنگ رام ہمت کر کے بولا۔
’’ارے پاپیو۔ ارے بائولو۔ ارے جنم کے اندھو، امر ہو گئے وہ ہنومان کے چرنوں میں بھینٹ ہو کر۔ تم سب بال بچوں والے ہو، ایک ایک کے گھر میں چھ چھ کھیل رہے ہیں۔ ایک کے چلے جانے سے کون سا فرق پڑ گیا۔ یہ چراندھ کیسے اُٹھ رہی ہے اگنی سے۔ کیا جلا رہے ہو تم اس میں ؟‘‘
’’انہوں نے نندا کو زندہ بھسم کر دیا ہے مہاراج۔ زندہ آگ میں جھونک دیا ہے اسے اور مجھے بھی یہ اگنی میں جھونکنے والے تھے۔ ’’گیتا نندی شیر ہونے لگی۔
’’تمہارا ستیاناس پاپیو، اپنا نرکھ تم نے دھرتی پر ہی بنا لیا۔ تمہیں معلوم نہیں تھا کہ نندا ہمارا سیوک تھا۔ ٹھیک ہے تم نے جو کیا اس کا پھل بھگتو گے۔ نندا نے بھوت بن کر تم سب کو ایسے ہی بھسم نہ کیا تو ہمارا نام بھی ادھیرناچندو نہیں ہے۔ کون سورما جھونکے گا اسے آگ میں آئو آگے بڑھو، اسے چھو کر دکھائو… اور تو زنخے، کم ذات کھڑا دیکھ رہا ہے سب کو۔ دیکھ لیا گیتا نندی، یہ فرق ہوتا ہے ذات کا۔ تیرے ماتا پتا کہتے تھے تجھ سے۔‘‘ ادھیرنا نے کوہلی رام کی طرف اشارہ کیا تھا۔
’’یہ انیائے ہے مہاراج۔ ہمارے من سلگ رہے ہیں۔ ہم بدلہ لیں گے۔ ہمیں بدلہ لینے دو…‘‘ کچھ لوگوں نے کہا اور ادھیرناچندو کی گردن ان کی طرف گھوم گئی۔
’’آئو آئو۔ آگے آئو، ہم نیائے کر دیں۔ یہ اگنی تم نے جلائی ہے۔ بہت بڑی چتا بنائی ہے تم نے۔ لائو پہلے اسے بجھا دیں۔ پھر
تمہارے سلگتے من بھی بجھا دیں گے۔‘‘ ادھیرناچندو بیل کی پیٹھ سے اُتر آیا۔ اس نے تیزی سے بھڑکتے شعلوں کو دیکھا پھر ہونٹ سکوڑ کر ان پر پھونک مارنے لگا۔ تیز سنسناہٹ کے ساتھ آگ دبنے لگی۔ جلتی ہوئی موٹی لکڑیاں ہوا کے دبائو سے جگہ چھوڑنے لگیں اور لوگ گھبرا کر اس رُخ سے ہٹ گئے جدھر لکڑیاں سرک رہی تھیں۔ شعلے بجھنے لگے۔ لکڑیاں اس طرح بجھ گئیں جیسے ان پر اوس پڑ گئی ہو۔ نندا کی لاش بھی نظر آنے لگی تھی۔ کوئلہ ہو گیا تھا جل کر۔
میرے لئے اب عمل ضروری تھا۔ میں نے ایک تصوراتی حصار ادھیرناچندو کے گرد قائم کردیا۔ ادھیرنا نے آگ ٹھنڈی کر کے اپنا کام ختم کیا۔ پھر بولا۔ ’’اب بولو کس کس کا من سلگ رہا ہے۔‘‘ لوگوں کے چہرے فق تھے مگر بھاگا کوئی نہیں تھا۔ ممکن ہے پیچھے سے کچھ لوگ کھسک گئے ہوں یا پھر وہ چلے گئے تھے جو زخمی ہو گئے تھے۔ گیتا نندی کی نظر اچانک مجھ پر پڑی اور وہ میری طرف اشارہ کر کے بولی۔
’’یہ سب سے آگے آگے تھا مہاراج۔ مسلمان کا چھوکرا۔ اس نے بڑی ہتھیا مچائی ہے۔‘‘ ادھیرناچندو مجھے گھورنے لگا۔ پھر کسی قدر حیرانی سے بولا۔
’’یہ کون ہے؟ کون ہے رے تو؟‘‘
’’میری کہانی تو بہت لمبی ہے ادھیرناچندو مگر تو نے بہت برا کیا ہے۔ گیتا نندی کو تو نے ہی اس برے کام پر آمادہ کیا تھا۔‘‘
’’ہاں کیا تو تھا۔ سزا دے گا کیا تو مجھے۔‘‘ ادھیرنا کے لہجے میں غرور اور انداز میں تمسخر تھا۔
’’مجرم تو، تو بستی والوں کا ہے وہی تجھے سزادیتے تو اچھا تھا مگر یہ معصوم لوگ تجھ سے ڈرتے ہیں، مجبوراً مجھے یہ کام کرنا پڑے گا۔‘‘
’’اچھا۔‘‘ ادھیرنا مسکرا کر بولا۔ کیا جرم کیا ہے ہم نے مہاراج؟‘‘ وہ مذاق اُڑاتے ہوئے بولا۔
’’تم تینوں مجرم ہو، تم نے گیتا نندی کو گمراہ کیا اور گیتا نندی شیطان بن گئی۔ اس نے چھ بچوں کی جان نے لی۔ نندا نے اس کے ساتھ مل کر ان بچوں کو اغوا کیا۔ اسے تو سزا مل گئی تم دونوں باقی ہو۔‘‘
’’تو ہمیں بھی سزا دے دو مہاراج۔ تمہاری چتا تو بجھ گئی ۔‘‘
’’ایسی ایسی ہزاروں چتائیں بھڑک سکتی ہیں دھیرنا۔ تو نے اسے بجھا کر کوئی بہت بڑا کام کیا ہے؟‘‘
’’جے ہنومان گورما چوکیہ۔ یہ مہاراج ادھیراج کیا کہہ رہے ہیں۔ جائو مہاراج پہلے تو بجرنگ بلی کی لنکا کی سیر کرلو…‘‘ اس نے میری طرف رُخ کر کے ہونٹ گول کرلئے۔ تیز ہوا کی سنسناہٹ سنائی دی۔ غالباً وہ مجھے پھونکوں سے اُڑا دینا چاہتا تھا۔ لیکن اس کے ہونٹوں سے خارج ہونے والی ہوا کسی ٹھوس شے سے ٹکرا کر واپس ہونے لگی۔ یہ ٹھوس شے میرا قائم کیا ہوا حصار تھا۔ میرا دل خوشی سے اچھلنے لگا۔ ہمت بندھ گئی۔ تیز ہوا حصار میں گھٹ گئی تھی اور اندر منتشر ہو رہی تھی جس سے گیتا نندی اور خود ادھیرناچندو کے بال اور کپڑے اُڑنے لگے۔ ساتھ ساتھ اندر موجود کوڑا کرکٹ اور جلی ہوئی لکڑیوں کی راکھ بھی۔ اُدھیرنا حیران ہو کر رک گیا۔ اس نے آنکھیں پھاڑ کر مجھے دیکھا تو میں نے کہا۔
’’بجرنگ بلی کی لنکا تو مجھے نظر نہیں آئی ادھیرنا۔ مگر اب تیرا یہ بیل تجھے سیر کرانے لے جا رہا ہے۔‘‘ میں نے بیل کو گھورتے ہوئے کہا۔ اچانک بیل کےتیور بگڑنے لگے۔ اس نے اپنی جگہ اچھلنا کودنا شروع کردیا اور اور ادھیرنا ایک طرف ہٹ گیا۔ بیل نے کھر زمین پر گھسے اورپھر گردن جھکا کر ادھیرنا پر حملہ آور ہو گیا۔ ادھیرنا بد حواس ہو کر ایک طرف ہٹ گیا۔ بیل آگے بڑھ کر حصار کی دیواروں سے ٹکرایا اور اس کاسر پھٹ گیا۔ اس کے سر سے خون بہا تو وہ شدت جوش سے دیوانہ ہو گیا اور پھر اس نے ادھیرنا کو تاک لیا اور پھنکاریں مار مار کر اس پر قلانچیں بھرنے لگا۔ گیتا نندی دہشت زدہ ہو کر بھاگی لیکن وہ حصار کے قیدی تھے، وہ بھی نادیدہ دیوار سے ٹکرائی اور چیخ مار کر گر پڑی۔ ادھر بیل نے ادھیرنا کو گھیر لیا اور سینگوں پراٹھا کر بری طرح رگیدنے لگا۔ ادھیرنا کا داہنا گال پھٹ گیا مگر بیل اس کا پیچھا نہیں چھوڑ رہا تھا۔ ادھیرنا جیسے ہی اٹھنے کی کوشش کرتا وہ اگلے پائوں اٹھا کر پوری قوت سے ٹکر مارتا اور ادھیرنا کئی کئی فٹ اُچھل کر گرتا۔ اِدھر گیتا نندی مسلسل کوششیں کر رہی تھی۔ بستی والے دم بخود کھڑے یہ تماشا دیکھ رہے تھے۔ ادھیرناچندو کے حلق سے دلدوز چیخیں نکل رہی تھیں۔ پھر گیتا نندی بھی بیل کی لپیٹ میں آگئی۔ کوہلی رام کے منہ سے آواز نکل گئی جسے اس نے جلدی سے دبا لیا۔ بستی والوں کا سکوت ٹوٹ گیا، وہ شور مچانے لگے۔ خوشی سے اچھلنے لگے قہقہے لگانے لگے۔ شورکی آواز سے بیل اور بپھر گیا۔ اس نے ٹکریں مار مار کر ان دونوں کا قیمہ بنا دیا۔ وہ گوشت کے لوتھڑے بن گئے تھے۔ بیل بھی کئی بار حصار سے ٹکرایا تھا اور بری طرح زخمی ہو گیا تھا۔ پھر وہ بھی گر پڑا اور اس نے پائوں رگڑ رگڑ کر دم توڑ دیا۔
کچھ منٹ گزر گئے تو میں آگے بڑھا اور ان لاشوں کے قریب پہنچ گیا۔ بستی والے میرے قریب آنے کی ہمت نہیں کر رہے تھے۔ پھر ان کی ہمت بڑھ گئی اور دوسرے لمحے وہ ’’مسافر مہاراج کی جے، مسافر مہاراج کی جے!‘‘ کرتے ہوئے قریب آ گئے۔ وہ میرے پائوں چھو رہے تھے، ہاتھ چوم رہے تھے۔ انہیں روکنا میرے بس میں نہیں تھا۔ میں نے بے بسی سے دل میں کہا۔
’’معبود کریم… میں مجبور ہوں۔ کتنا ہی شور مچائوں، یہ میری نہیں سنیں گے۔ جس طرح ممکن ہو سکتا تھا ان سے بچ رہا تھا۔‘‘
جنک رام چیخ کر بولا۔’’رک جائو بھائیو۔ رُک جائو۔ پریشان نہ کرو مسافر مہاراج کو۔ بعد میں مل لینا ان سے… پریشان مت کرو۔‘‘ … لیکن کون مانتا۔ کوہلی رام اس بھیڑ میں نظر نہیں آرہا تھا۔ لوگ ادھیرنا سے بھی نفرت کرتے تھے چنانچہ چتا پھر جلادی گئی اور ان کے جسموں کے لوتھڑے گھسیٹ کر آگ میں پھینک دیئے گئے۔ اس عمل کے دوران مجھے ان سے بچ نکلنے کا موقع مل گیا اور میں وہاں سے سرائے کی طرف بھاگا۔ سرائے میں آکر دم لیا تھا لیکن اندازہ تھا کہ اب کیا ہو گا۔ کھیل ختم ہوگیا تھا۔ گیتا نندی ختم ہو گئی تھی اور اس کے ساتھ ایک خبیث بھی جو سفلی علوم کا ماہر تھا۔ نہ جانے مزید کتنے انسانوں کو اس کے ہاتھوں نقصان پہنچتا لیکن جو کچھ اس کے بعد ہوا تھا اور ہونے والا تھا وہ میرے لئے بھیانک تھا۔
اللہ دین آگیا۔ بیوی کو پکارتا ہوا اندر گھسا تھا۔ ’’زبیدہ اری نیک بخت کہاں گئی۔‘‘
’’کیا ہے؟‘‘ زبیدہ کی آواز ابھری۔
’’غضب ہو گیا۔ وہ مسافر شاہ صاحب تو بڑے پہنچے ہوئے ہیں۔ اری معمولی آدمی نہیں ہیں وہ۔ وہی ہیں، ساری بستی ان کا نام لے رہی ہے۔ مقدر پھوٹ گیا ہمارا۔ پیسے نہ لیتے ان سے یونہی خدمت کرتے تو بیڑا پار ہو جاتا۔ خوش ہو کر کچھ ایسی چیز دے دیتے ہمیں کہ وارے نیارے ہو جاتے۔‘‘
’’مسافر بھیاکی بات کر رہے ہو؟‘‘
’’تو اور کیا۔‘‘
’’کیا ہوا؟‘‘ زبیدہ نے پوچھا اور اللہ دین اسے کوہلی رام کے گھر پر پیش آنے والے واقعات بتانے لگا۔ یہ جگہ بھی مخدوش ہو گئی۔ بعد میں جب عقیدت مند یہاں پہنچیں گے تو نہ جانے کیسی کیسی مشکلیں پیش آئی گی۔ خود اللہ دین زبیدہ سے جو کچھ کہ رہا تھا اس سے مستقبل کا اندازہ لگایا جاسکتا تھا۔ زبیدہ کو میرے یہاں آنے کا علم تھا۔ چنانچہ بس کچھ دیر جا رہی تھی کہ وہ مجھ تک پہنچ جاتے۔ نکل جانا چاہئے۔ آج کے تین روپے زبیدہ کو دے چکا تھا۔ ایک روپیہ پاس موجود تھا۔ اٹھا اور خاموشی سے باہر نکل آیا۔ تیز تیز چلتا ہوا بستی سے باہر جانے والے راستے پر چل پڑا۔ چند لوگوں نے مجھے دیکھا لیکن یہ وہ تھے جنہیں میرے بارے میں معلوم نہیں تھا اس لئے وہ مشکل نہ بنے اور میں ان کے درمیان سے نکل آیا۔ کھیتوں وغیرہ کے درمیان سے گزر کر آگے بڑھا ہی تھا کہ کچھ فاصلے پر ہنومان مندر کی عمارت نظر آئی۔ ویران اور
عمارت میں بہت بھیانک ڈرامے ہوتے رہے تھے۔ رات یہاں گزاری جا سکتی ہے۔ بستی کے لوگ مجھے تلاش کرنے کم از کم یہاں نہیں آئیں گے۔ کل دن کی روشنی میں یہاں سے کسی سمت کا تعین کر کے نکل جائوں گا۔ حالانکہ بھیانک جگہ تھی لیکن میرے لئے بے حقیقت تھی۔ اندر داخل ہو گیا ایک پرسکون گوشہ منتخب کر کے آرام کرنے لگا۔
سامنے ہی ہنومان کا بت استادہ تھا، اسے دیکھتا رہا۔ بے جان پتھر جسے انسانی ہاتھوں نے تراشا تھا۔ ایک بے ضرر سی شے۔ ذہن نہ جانے کیا کیا سوچتا رہا۔ تاریکیاں گہری ہوتی گئیں۔ ہاتھ کو ہاتھ نہیں سجھائی دے رہا تھا۔ ہنومان کے بت کا ہیولا بھی نہیں نظر آ رہا تھا تو کسی نے ادھر آنے کی ہمت نہیں کی تھی۔ ویسے بھی لوگ اس جگہ سے خوفزدہ رہتے تھے۔ چنانچہ سکون تھا۔ رات گزرتی رہی۔ نہ جانے کیا وقت تھا۔ کئی بار نیند کے جھونکے آئے تھے لیکن ہر بار آنکھ کھل جاتی تھی۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ آنکھیں پٹ سے کھل گئی تھی۔ چت لیٹا ہوا تھا۔ اس لئے مندر کی چھت سامنے تھی اور چھت پر دو ننھی ننھی آنکھیں متحرک تھیں۔ پیلی بدنما آنکھیں۔ شناسا آنکھیں۔ آنکھیں آہستہ آہستہ جگہ چھوڑ رہی تھیں۔ مکڑی… میرے ذہن میں خیال ابھرا۔ ایسی مکڑیاں بھوریا چرن ہی کی فرستادہ ہوتی تھیں۔ آہ کاش یہاں روشنی ہوتی۔ ایسی کوئی چیز ہوتی جسے روشن کر کے میں اس مکڑی کو دیکھ سکتا۔ یہ خیال دل میں گزرا تھا کہ اچانک ہی ماحول روشن ہونے لگا۔ دیواریں نظر آنے لگیں۔ ہنومان کا بت صاف نظر آنے لگا۔ ہر چیز اتنی نمایاں ہو گئی کہ عام حالات میں بھی نہیں ہوتی تھی لیکن یہ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ روشنی کہاں سے آرہی ہے۔ میں نے چھت کی طرف دیکھا۔ مکڑی روشنی ہوتے ہی تیز تیز چل پڑی اور پھر ایک سوراخ میں گھس کر روپوش ہو گئی۔ پیلے رنگ کی مکڑی تھی۔ میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔ مکڑی تو غائب ہو گئی تھی لیکن روشنی بدستور تھی۔ مجھے احساس ہوا کہ روشنی میرے دل سے پھوٹی ہے۔ میرے دل نے روشنی طلب کی میرے تو اطراف منور ہو گئے۔ یہ عطیۂ الٰہی تھا۔ یہ کرم نوازی تھی میری ذات پر… دل سرور سے بھر گیا۔ بڑے انعام سے نوازا گیا تھا مجھے۔ شکر نہیں ادا کر سکتا تھا۔ کچھ رقت سی طاری ہو گئی۔ آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ مندر سے باہر کھلی جگہ پر نکل آیا۔ باہر سنسان خاموشی طاری تھی۔ ایک صاف سی جگہ دیکھی اور سجدہ ریز ہو گیا۔ دل شکر گزار تھا اور ذکر الٰہی نے ساری تنہائیاں دور کر دی تھیں۔ کسی کی آواز کانوں میں ابھری۔
’’تم تنہا کہاں ہو۔ ہم سب تو ہیں تمہارے ساتھ۔ کبھی خود کو تنہا نہ سمجھنا۔‘‘ دور دور تک کوئی نہ تھا لیکن لگ رہا تھا جیسے بہت سے لباس سرسرا رہے ہوں، بڑی تقویت ملی تھی اور اس احساس نے بہت خوشیاں بخشی تھیں کہ میری پذیرائی ہو رہی ہے۔ کیا کم تھا یہ سب کچھ، اتنا بڑا مرتبہ دے دیا گیا تھا۔ مجھ گناہ گار کو، دل سرشار ہو گیا تھا اور تھوڑی دیر پہلے جو کیفیت ہو گئی تھی وہ دور ہو گئی تھی۔ نجانے کب تک اسی جگہ سجدہ ریز رہا، یہ سجدئہ شکر تھا، یہاں تک کہ پرندوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹیں سنائی دینے لگیں۔ صبح کا آغاز ہو گیا تھا اور فجر کی نماز کا وقت بھی، نماز پڑھی اس سے پہلے کہ بستی کے لوگ مجھے تلاش کرتے ہوئے اس طرف نکل آئیں، میرا یہاں سے نکل جانا ضروری تھا۔ چنانچہ نماز کے فوراً بعد چل پڑا اور تیز رفتاری سے اسی جانب بڑھتا رہا، جدھر رُخ ہو گیا تھا۔ منزل کے بارے میں تو پہلے بھی کبھی نہیں سوچا تھا۔ جانتا تھا کہ کوئی منزل نہیں ہے، سفر کرتے کرتے نجانے کتنا وقت گزر گیا۔ نجانے کون سے راستے تھے، نجانے کس سمت رخ تھا۔ ایک پیلی سی پگڈنڈی کے قریب پہنچا تو سامنے سے ایک بیل گاڑی آتی ہوئی نظر آئی۔ کوئی دیہاتی تھا جس نے پیچھے سبزیوں کا ڈھیر لاد رکھا تھا مجھے دیکھ کر گاڑی روک لی اور زور سے آواز دی۔
’’ارے او بھیا۔ بھیارے کدھر جا رہے ہو؟‘‘
اس کو دیکھ کر مجھے بھی خوشی ہوئی تھی۔ میں نے قریب پہنچ کر اس پر غور کیا اور پھر کہا۔ ’’بس بھیا مسافر ہوں، کسی بستی کی تلاش میں تھا۔‘‘
’’ کسی بستی کی کیوں؟‘‘
’’راستہ بھول گیا ہوں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’پردن پور تو نہیں جانا …؟‘‘
’’کہاں؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’پردن پور…‘‘
’’چلے جائیں گے اگر تم لے جائو تو…‘‘ میں نے مدھم سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
’’تو ہم کون سی اپنی کھوپڑی پر بٹھا کر لے جائیں گے بھیا۔ بیل گھسیٹ لیں گے تمہیں بھی۔ آجائو بیٹھ جائو۔‘‘ بیل گاڑی پر میں اس کے نزدیک بیٹھ گیا۔ خوش مزاج سا نوجوان معلوم ہوتا تھا کہنے لگا…‘‘ کہاں سے آرہے ہو، کہاں کا راستہ بھول گئے تھے؟‘‘
’’اللہ جانے کہاں سے آرہے ہیں اور کہاں جا رہے ہیں، بس چل پڑے تھے ایسے ہی۔‘‘
’’ارے گھر والی سے لڑکر بھاگے ہو یا ماں باپ سے ناراض ہو کر گھر چھوڑا ہے؟‘‘
’’ہاں بس ایسا ہی سمجھ لو، اپنی تقدیر سے ناراض ہو کر گھر چھوڑ دیا ہے بلکہ تقدیر نے گھر چھین لیا ہے۔‘‘
’’دیکھو بھائی ہم ٹھہرے دیہاتی آدمی، ہماری کھوپڑیا ہے چھوٹی، کھری کھری صاف صاف باتیں تو سمجھ میں آجاتی ہیں، باقی باتیں اپنی سمجھ میں نہیں آتیں۔ لوگ ویسے ہی للو کہتے ہیں، حالانکہ نام ہمارا رشید ہے، چونکہ باتیں ذرا کم سمجھ میں آتی ہیں اس لئے سارے کے سارے للو کہہ کر بلاتے ہیں۔‘‘
’’تم برا نہیں مانتے اس بات کا …‘‘
’’ارے نہیں بھیا، جو بھی کہتا ہے پیار سے کہتا ہے۔ برا ماننے کی کیا بات ہے۔ تمہارا کیا نام ہے؟‘‘
’’مسعود‘‘ … میں نے جواب دیا۔ یہ جان کر خوشی ہوئی تھی کہ وہ مسلمان ہے، پھر میں نے اس سے کہا۔ ’’تم پردن پور میں رہتے ہو؟‘‘
’’نہیں بھیا۔ ہم تو کھیری بستی کے رہنے والے ہیں۔ سبزیاں اُگاتے ہیں اور پردن پور جا کر بیچ آتے ہیں، لگے بندھے گراہک ہیں اپنے کھرا مال دیتے ہیں، کھرے پیسے لیتے ہیں۔ اب پردن پور جائیں گے ان لوگوں کو سبزی دیں گے پیسے وصول کریں گے اور بھیا گھر کا سودا لے کر واپس چلے آئیں گے۔ رات تک کھیری پہنچ جائیں گے۔‘‘
’’اچھا۔ رات تک کھیری پہنچ جائیں گے۔‘‘
’’اچھا، عزت سے کمائی کرتے ہو۔ یہ عبادت ہے۔‘‘ میں نے کہا… اور وہ دونوں ہاتھ اٹھا کر بولا۔ ’’بس بھیا اللہ کا کرم ہے روزی دے دیتا ہے اور سنو، اگلی عید میں ہماری شادی ہو رہی ہے، اس کا نام بشیرن ہے۔ بھیا بڑی نیک لڑکی ہے۔ پتہ ہے اس کا باپ پچھلے دنوں پالا لگنے سے معذور ہو گیا ہے۔ بے چارہ شریف آدمی ہے بخشو بھی۔ رونے لگتا ہے مجھے دیکھ کر، کہتا ہے کہ دل میں پتہ نہیں کیا کیا تھا بیٹی کے بیاہ کے لئے مگر اب کیا کر سکتا ہوں۔ میں نے بھی کہہ دیا۔ بھیا کہ لڑکی دے دے دو کپڑوں میں۔ اللہ کا دیا سب کچھ ہے تیرے للو کے پاس، عزت سے رکھے گا تری لونڈیا کو، بس بھیا انسان کو انسان سے محبت ہونی چاہئے، یہ روپیہ پیسہ ہے کیا چیز، آج کسی کا کل کسی کا، کیسے مریں ہیں لوگ اس پر … بھیا اپنی تقدیر لے کر آئے گی۔ دو روٹی کھائے گی، ہمارا بھی گھر بس جائے گا کیوں ہے کہ نا…؟‘‘
’’بالکل بالکل ٹھیک کہا تم نے رشید بھیا۔‘‘ میں نے جواب دیا تو وہ ہنسنے لگا۔ پھر کہنے لگا۔’’ جب کوئی ہمیں رشید کہتا ہے تو ہم ادھر اُدھر دیکھنے لگتے ہیں جیسے رشید ہمارا نام ہی نہ ہو، تم بھی للو ہی کہو۔‘‘
’’جیسی تمہاری مرضی۔‘‘
’’پردن پور میں کسی کے پاس جائو گے؟‘‘ باتیں کرنے کا شوقین معلوم ہوتا تھا، مجھے بھی برا نہیں لگ رہا تھا میں نے کہا۔ ’’کسی سرائے میں ٹھہروں گا جا کر۔‘‘
’’اچھا اچھا… کوئی ہے نہیں وہاں تمہارا…؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’کوئی کام ہے وہاں کسی سے۔‘‘
’’ہاں بس ایسے ہی۔‘‘
’’ہماری مانو تو واپس ہمارے ساتھ کھیری چلو، تھوڑے دن ہمارے مہمان رہو، اچھے
آدمی معلوم ہوتے ہو۔ اور بھی یار دوست ہیں وہاں، ہمارے ساتھ مزہ آئے گا تمہیں۔‘‘
’’بہت بہت شکریہ رشید بھیا لیکن مجھے وہاں سے کہیں اور بھی جانا ہے۔‘‘
’’اچھا اچھا تمہاری مرضی۔‘‘ اس نے کہا اور اس کے بعد خاموش ہو گیا جیسے اب اس کے پاس باتیں کرنے کے لئے کچھ نہ رہا ہو لیکن اتنی دیر کی خاموشی میں اس نے غالباً یہی سوچا تھا کہ اب آگے کیا باتیں کرے یا ہو سکتا ہے کچھ سو چ رہا ہو۔ بہرحال تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد وہ پھر بولا ۔ ’’ارے ہاں تمہاری شادی ہو گئی؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’ماں باپ، بہن بھائی تو ہوں گے‘‘؟
’’ہاں اللہ کا شکر ہے۔ ‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’کچھ کھایا پیا؟ ارے لو… اصل بات تو بھول ہی گیا۔ ارے بھیا کچھ کھایا پیا تم نے یا نہیں …‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔‘‘ نہیں للو صبح سے کچھ نہیں کھایا۔‘‘
’’تو پھر کہا کیوں نہیں۔ ارے واہ بھیا اب ایسا بھی کیا کہ آدمی بھوکا ہو اور منہ سے کچھ نہ بولے۔‘‘ اس نے بیل گاڑی روکی۔ پیچھے ہاتھ کر کے کپڑے کی ایک پوٹلی سی اٹھائی، اسے کھولا، چار روٹیاں پکی رکھی تھیں۔ ساتھ ہی گڑ کی ڈلیاں بھی تھیں۔ اس نے دو روٹیاں میرے سامنے رکھ دیں اور دو اپنے سامنے رکھ لیں۔ گڑ بھی آدھا آدھا تقسیم کیا اور مسکرا کر بولا۔ ’’غریب کا کھاجا تو یہی ہے، چلو اللہ کا نام لے کر شروع ہو جائو۔‘‘ میں نے بسم اللہ کہا اور کھانے میں مصروف ہو گیا۔ مسلمان کے گھر کی پکی ہوئی روٹیاں تھیں، اس لئے کو ئی تکلف نہیں ہوا تھا۔ ہم دونوں نے کھانا کھایا پانی کا بھی اس نے بندوبست کر رکھا تھا چنانچہ پانی پینے کے بعد اس نے گاڑی آگے بڑھا دی۔
پردن پور اچھا خاصا بڑا قصبہ تھا بلکہ اسے چھوٹا موٹا شہر ہی کہنا درست تھا۔ آبادی میں داخل ہونے کے بعد میں اس سے رخصت ہو گیا۔ اللہ نے یہاں تک پہنچانے کا ذریعہ پیدا کر دیا تھا اور ساتھ ہی ساتھ رزق سے بھی نوازا تھا لیکن یہاں اس علاقے میں میری آمد کا کوئی اہم مقصد نہیں تھا۔ جمال گڑھی کے بارے میں تو حکم ہوا تھا اور مجھے یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ وہاں مجھے کس ئے بھیجا گیا تھا۔ ایک معصوم عورت مصیبت سے بچ گئی تھی اور دوسری شیطان صفت عورت جو چھ انسانوں کا خون کر کے ساتویں کی زندگی کی گاہک بنی ہوئی تھی، ایک گندے شیطان کے ساتھ فنا ہو گئی تھی۔ نندا، گیہوں کے ساتھ گھن کی حیثیت سے پس گیا تھا۔ ظاہر ہے شریک جرم بھی اتنا ہی مجرم ہوتا ہے جتنا کہ اصل مجرم، نندا نے صرف مالکن کی خوشنودی کے لئے ان چھ بچوں کو اغوا کیا تھا اور برابر کا اس جرم میں شریک رہا تھا۔ اس طرح تین شیطان کیفر کردار کو پہنچ گئے تھے۔ ادھیرناچندو بھی اپنے سفلی علم کے ذریعے نجانے کسے کسے نقصان پہنچاتا۔ گندے علوم کے یہ ماہر جو غلاظتوں کے ذریعے لوگوں کو نقصان پہنچاتے ہیں، اس روئے زمین پر بدنما دھبے ہیں۔ شیطانی جنتر منتر پڑھ کر وہ معصوم انسانوں کو نقصان پہنچاتے تھے چنانچہ ان کی سرکوبی ضروری تھی۔ اور اس کے لئے ضروری نہیں تھا کہ میں اشاروں کا انتظار کروں۔ ایک سپاہی کا فرض ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی جگہ قانون شکنی دیکھے تو اپنا فرض پورا کرے۔ قانون اسے اختیار اسی لئے دیتا ہے چنانچہ نگاہ رکھنا ضروری ہے۔
آبادی وسیع تھی کوئی جگہ ٹھکانہ بن سکتی تھی۔ شہر گردی کرنے لگا۔ ریلوے اسٹیشن کےقریب مسجد نظر آئی، ظہر کی نماز وہاں پڑھی۔ مسجد کے سامنے وسیع میدان تھا جہاں گھنے درخت بکھرے ہوئے تھے۔ ٹھکانہ ہی ٹھکانہ تھا۔ کوئی مشکل ہی نہیں تھی۔ اللہ تعالیٰ نے دو روٹیاں عطا کر دی تھیں ۔ کام چل گیا تھا۔ رات کا کھانا ایک نانبائی کی دکان پر کھایا۔ ڈیڑھ روپیہ خرچ ہوا تھا۔ ادھر اُدھر دیکھا۔ دو افراد نظر آئے جو شاید بھکاری تھے اور کھانا کھانا چاہتے تھے۔ پچھلے کچھ پیسے پڑے ہوئے تھے، انہیں دے دیئے اور فراغت ہو گئی۔ مسجد کی قربت سے عمدہ جگہ اور کون سی ہو سکتی تھی چنانچہ وہیں ڈیرہ جمالیا۔ رات ہو گئی عشاء کی نماز سے فارغ ہو کر آرام کرنے لیٹ گیا اور نیند آگئی۔ صبح ہی آنکھ کھلی تھی۔ دن بھر شہر کا گشت کیا شام کو راستہ بھول گیا۔ دیر تک چکراتا رہا لیکن اسٹیشن نہ پہنچ سکا۔ کسی سے پوچھ لینا مناسب سمجھا۔ کچھ فاصلے سے ایک شخص گزر رہا تھا لیکن لمبی داڑھی میلے کچیلے لباس میں ملبوس۔
’’سنئو بھائی۔‘‘ میں نے اسے پکارا اور وہ رُک گیا۔ میں اس کے قریب پہنچ گیا۔
’’ریلوے اسٹیشن جانا چاہتا ہوں۔‘‘
’’تو میں کیا کروں؟‘‘ وہ ترش لہجے میں بولا۔
’’رستہ بھول گیا ہوں۔‘‘
’’تو یہاں کیوں مر رہے ہو۔‘‘
’’جی۔‘‘ میں نے حیرت سے اسے دیکھا۔
’’یہاں تمہارا کوئی کام نہیں ہے سمجھے، وہ سامنے ریلوے اسٹیشن ہے ریل میں بیٹھو اور سالم نگر چلے جائو۔ باباشاہ جہاں کا عرس ہو رہا ہے۔‘‘ میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا اور میں حیرت سے اس شخص کو دیکھنے لگا۔ اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر کچھ نکالا اور پھر بند مٹھی میری طرف کرتے ہوئے بولا’’ ٹکٹ کے پیسے سنبھالو۔‘‘
’’آپ، آپ کون ہیں؟‘‘
’’کوتوال، سمجھے۔ جائو اپنا کام کرو زیادہ بک بک نہیں کرتے، لو پیسے لو۔‘‘ اس نے زبردستی پیسے میری جیب میں ٹھونسے اور تیز قدموں سے آگے بڑھ گیا۔ میں حیران نظروں سے اسے جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ پھر جب وہ نگاہوں سے اوجھل ہو گیا تو میں نے اس کے الفاظ پر غور کیا کہ یہاں تمہارا کوئی کام نہیں ہے۔ اس سے زیادہ واضح الفاظ اور کیا ہوتے۔ سالم نگر چلے جائو وہ سامنے ریلوے اسٹیشن ہے۔ میں نے چونک کر اس سمت دیکھا اور ششدر رہ گیا۔ ریلوے اسٹیشن سامنے نظر آ رہا تھا۔ ماحول ہی بدل گیا تھا۔ میں دعوے سے کہہ سکتا تھا کہ یہ وہ جگہ نہیں تھی جہاں میں کچھ دیر قبل کھڑا تھا اور جہاں سے میں نے پہلے اسٹیشن کا پتہ پوچھا تھا۔ سوچنا بیکار تھا، آگے قدم بڑھا دیئے۔ ریلوے اسٹیشن پہنچ گیا۔ سالم نگر کے بارے میں کچھ نہیں معلوم تھا۔ بکنگ ونڈو پر پہنچ گیا۔
’’سالم نگر جانا ہے۔‘‘ میں نے اندر جھانکتے ہوئے کہا جہاں چند لوگ بیٹھے چائے پی رہے تھے۔
’’خدا حافظ۔‘‘ ایک نے کہا اور دوسرے قہقہ مارکر ہنس پڑے۔
’’ریل کس وقت آئے گی؟‘‘
’’جب اللہ کی مرضی ہو گی۔‘‘
’’ٹکٹ مل جائے گا۔‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔
’’پیسے دو گے تو ضرور مل جائے گا۔‘‘ وہ شخص مسلسل مذاق کر رہا تھا۔
’’کتنے پیسے ہوں گے۔‘‘
’’یار جان کو ہی آگیا تو تو … لطیفہ بیچ میں رہ گیا۔ تیس روپے نکالو۔‘‘ میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا۔ تیس روپے اسے دے دیئے اور اس نے چھبیس روپے کا ٹکٹ میرے حوالے کر دیا۔ ٹکٹ پر درج شدہ رقم دیکھ کر میں نے آہستہ سے کہا۔ ’’اس پر چھبیس روپے لکھے ہیں۔‘‘
’’چار روپے ٹیکس ہوتا ہے۔‘‘ اس نے کہا۔ میں نے ٹھنڈی سانس لے کر کھڑکی چھوڑدی۔ تھوڑی ہی دور پہنچا تھا کہ اچانک اندر دھماکہ سنائی دیا۔ پتہ نہیں کیا ہوا تھا۔ میں آگے بڑھ آیا۔ ریلوے اسٹیشن پر بہت کم لوگ نظر آرہے تھے۔ میں ایک ستون کے سہارے بیٹھ گیا۔ ابھی لائن خالی پڑی ہوئی تھی۔ کسی سے پوچھ لوں گا ریل کے بارے میں۔ بیٹھے بیٹھے کوئی بیس منٹ گزرے ہوں گے کہ ایک آدمی تیزی سے میرے قریب آگیا۔ میں نے سے غور سے دیکھ کر پہچان لیا، یہ وہی ریلوے بکنگ کلرک تھا۔ میرے قریب بیٹھ گیا۔ ’’معافی چاہتا ہوں معاف کر دیں گے۔‘‘
’’کیا ہو گیا بھائی۔‘‘
’’بس مجھے معاف کر دیں میں نے آپ سے بدتمیزی کی تھی مجھے سزا مل گئی۔ آپ نے بد دعا دی ہو گی مجھے۔‘‘
’’خدا نہ کرے اتنی سی بات پر کسی کو بددعا کیسے دی جا سکتی ہے۔‘‘
’’میرے دل نے یہی کہا۔ میں نے آپ سے مذاق کیا اور اور آپ سے چار روپے زیادہ لے لئے۔ یہ دیکھئے میرا ہاتھ زخمی ہو گیا اور دوسری مصیبت الگ گلے پڑ گئی۔‘‘
’’ارے یہ
ہو گیا۔‘‘ میں نے اس کے ہاتھ پر کسے ہوئے رومال کو دیکھ کر کہا جو خون سے سرخ ہو رہا تھا۔
’’بس بھائی صاحب ایک ریک گر پڑا، جو بالکل ٹھیک رکھا ہوا تھا۔ شیشے کا کچھ سامان رکھا ہوا تھا اس پر وہ بھی ٹوٹ گیا اور شیشہ میری کلائی پر لگا۔ اچھا خاصا خون بہہ گیا۔ میرے ساتھ بیٹھے ہوئے تین آدمیوں کے بھی اچھی خاصی چوٹ لگی ہے۔ ہم سب کے دل میں ایک ہی خیال آیا وہ یہ کہ ہم لوگوں نے آپ سے بلاوجہ مذاق کیا اور میں نے چار روپے زیادہ لے لئے۔ میں انتہائی عاجزی سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ مجھے معاف کر دیں اور یہ رہے آپ کے چار روپے۔ اس نے چار روپے میری جانب بڑھا دیئے میں نے شرمندہ سی نگاہوں کے ساتھ اسے دیکھا اور کہا۔ ’’آپ کے چوٹ لگنے کا مجھے افسوس ہے۔ اگر تھوڑی سی دل آزاری ہوئی ہے میری تو اس کے لئے میں آپ کو معاف کرتا ہوں۔‘‘
’’بہت بہت شکریہ جناب میری طرف سے آپ ایک پیالی چائے ہی پی لیجئے، مجھے خوشی ہو گی۔‘‘
’’نہیں بھائی چائے کی حاجت نہیں ہے۔‘‘
’’میری خوشی کے لئے۔‘‘ وہ شاید بہت زیادہ متاثر ہو گیا تھا۔ تھوڑے فاصلے پر چائے بیچنے والے سے اس نے دو پیالی چائے کے لئے کہا میں نے اس سے پوچھا۔
’’اب اگر احسان ہی کرنا چاہتے ہیں تو مجھے یہ بتا دیجئے کہ سالم نگر جانے کے لئے ریل کتنی دیر میں آئے گی۔‘‘
’’بس اب سے تقریباً پونے گھنٹے کے بعد اگر لیٹ نہ ہوئی ہو تو۔‘‘
’’کدھر سے آئے گی۔‘‘ میں نے سوال کیا اور اس نے اشارے سے مجھے سمت بتا دی۔ اتنی دیر میں چائے آگئی تھی۔ میرے ساتھ بیٹھ کر اس نے چائے پی اور اٹھتا ہوا بولا۔ ’’میرے حق میں دعائے خیر کیجئے۔ آپ نے مجھے معاف تو کر دیا ہے۔‘‘
ریل ٹھیک پون گھنٹے کے بعد آگئی اور میں اس کے ایک ڈبے میں چڑھ گیا۔ مسافر زیادہ تر سو رہے تھے۔ ایک مسافر نے مجھے شی شی کر کے اپنی طرف مخاطب کیا اور جب میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس نے مجھے ہاتھ سے اشارہ بھی کیا۔ ریل کا ڈبہ بھرا ہوا تھا۔ سونے والوں نے زیادہ تر جگہ پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس شخص نے مجھے اپنے قریب جگہ دیتے ہوئے کہا۔ ’’یہاں بیٹھ جائو تم نے ریلوے بابو سے یہ نہیں پوچھا کہ سالم نگر کا فاصلہ کتنا ہے اور تم کس وقت وہاں پہنچو گے۔‘‘ میں نے حیرانی سے اس شخص کو دیکھا، صورت شکل میرے لئے اجنبی تھی۔ سادہ سا چہرہ تھا۔ میں ششدر کھڑا ہی ہو ا تھا کہ وہ بولا۔
’’بیٹھ جائو یہ جگہ تمہارے لئے محفوظ رکھی گئی ہے اور ہاں سنو صبح فجر کی اذان جیسے ہی سنائی دے نیچے اتر جانا، وہی سالم نگر کا اسٹیشن ہو گا۔ مسجد اسٹیشن پر ہی ہے۔ صاف نظر آجائے گی اچھا خدا حافظ۔‘‘ وہ دروازے کی جانب بڑھا پھر وہاں سے رک کر پلٹا اور میری طرف رخ کر کے کہنے لگا۔
’’کسی سے اس کے بارے میں پوچھتے نہیں ہیں۔ ہاں جو لوگ تم سے متعارف ہونا چاہیں ان کی بات اور ہے ورنہ ان کی پیشانی پر اس چمک کر دیکھ لیا کرو جو انہیں اعزاز کے طور پر ملتی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ نیچے اتر گیا اور میں ایک عجیب سی کپکپی اپنے وجود میں محسوس کرنے لگا۔ یہ ساری رمز کی باتیں تھیں۔ اس شخص نے اپنے آپ کو کوتوال کی حیثیت سے متعارف کرایا تھا جس نے میری رہنمائی سالم نگر کی جانب کی تھی اور اب یہاں بھی میرے لئے انتظامات موجود تھے۔ ریل ایک جھٹکے سے آگے بڑھ گئی۔ سیٹیوں کی دو آوازوں پر میں نے غور نہیں کیا تھا۔ میری نگاہیں کھڑکی سے پرے تاریکی میں بھٹکنے لگیں لیکن کوئی اور مجھے نظر نہیں آیا۔ ایک عجیب سا احساس دل میں جاگزیں تھا۔ آنکھیں بند کرلیں اور ان دو رہنمائیوں کے بارے میں سوچتا رہا، دل کو وہی احساس ہوا تھا جو اس وقت میرے دل میں آبسا تھا، جب میں ہنومان مندر کے باہر ویران جگہ سربسجود تھا یعنی تنہا نہ ہونے کا احساس، ہر جگہ رہنمائی ہوئی تھی۔ دل سے دعا نکلی کہ اللہ ان محبتوں کو برقرار رکھے۔ میں تو لاچار ہوں سرکشی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ سفر جاری رہا۔ سالم نگر کے بارے میں سوچتا رہا جہاں بابا شاجہاں کا عرس ہو رہا تھا اور مجھے وہاں عرس میں شریک ہونا تھا۔
(جاری ہے)