رات کا وقت خاموشی، باہر دوڑتے اندھیرے، خیالات کی ریل چلتی رہی۔ وہ پیلی مکڑی یاد آئی جو مندر کی چھت پر نظرآئی تھی۔ یقیناً بھوریا چرن کی جاسوس ہوگی۔ بھوریا چرن طویل عرصے سے سامنے نہیں آیا تھا لیکن اس نے مجھے نظرانداز بھی نہیں کیا تھا، مسلسل میری تاک میں رہتا تھا۔ ہو سکتا ہے اس مکڑی کے بھیس میں وہی ہو اور ہو سکتا ہے یہاں کسی مقصد سے آیا ہو۔ شکر تھا میں مندر میں سویا نہیں تھا ورنہ اسے کامیابی حاصل ہو جاتی۔ ہر جگہ مجھ سے محتاط رہتا تھا۔ مہاوتی کو بھی اس نے مجھ سے ہوشیار کیا تھا۔ کمبخت میرا مسلسل دشمن تھا۔ اس کی وجہ سے کیا کچھ نہ چھن گیا تھا میرا، بھرا پرا گھر بہن بھائی، ماں باپ، سب برباد ہو گئے تھے۔ سب کے سب تباہ ہوگیا تھا۔ تمام شیرازہ منتشر ہو گیا تھا۔ دل میں پھر وہی احساسات ابھر آئے۔ آنکھیں تو آنسو برسانے کیلئے تیار رہتی تھیں۔ دل اُلٹنے لگا۔ اس احساس کی منادی تھی اس کے لئے رونا نہیں تھا۔ منہ پر تھپڑ مارنے لگا، خود کو سمجھانے لگا۔ آہ مجھے اس سے باز رہنا ہے۔ دعائیں مانگنے لگا، مدد مانگنے لگا اور یوں لگا جیسے کسی نے سینے پر ہاتھ رکھ دیا ہو۔ پھر یہ مہربانی وسیع ہو گئی۔ نیند آگئی تھی پھر بدن کو جھٹکا لگا، کانوں میں اذان کی آواز ابھری۔ بری طرح چونک پڑا۔ بدن کو جھٹکا ریل رکنے سے لگا تھا۔ اذان کی آواز اسٹیشن کی مسجد سے آرہی تھی اور مجھے یہی جگہ بتائی گئی تھی۔ دیوانوں کی طرح دروازے کی طرف بھاگا اور نیچے اتر گیا۔ فوراً ہی ریل کی سیٹی سنائی دی تھی۔ پلیٹ فارم پر کودا ہی تھا کہ ریل چل پڑی۔ اللہ نے مدد کی تھی۔ چند لمحے اور سوکر گزار دیتا تو سالم نگر نہ اتر پاتا۔ اس وقت کچھ اور سوچنا ممکن نہیں تھا۔ مسجد کے گنبد نظر آرہے تھے انہیں دیکھتا ہوا آگے بڑھا اور مسجد میں داخل ہو گیا۔ وضو کیا نمازی آنےشروع ہو گئے تھے۔ نماز فجر سے فراغت ہوئی تو باہر نکلتے ہوئے نمازیوں میں سے ایک سے پوچھا۔ ’’بھائی یہ سالم نگر ہے؟‘‘
’’ایں ہاں، ہے تو۔‘‘ وہ حیرت سے بولا۔
’’بہت بہت شکریہ۔‘‘
’’تمہیں نہیں معلوم تھا۔‘‘
’’ہاں مسافر ہوں کچھ دیر قبل ریل سے اترا ہوں۔‘‘
’’کہاں جارہے تھے؟‘‘
’’یہیں آیا تھا۔‘‘
’’کون سے محلے جا رہے ہو؟‘‘
’’مجھے بابا شاہجہاں کے مزار پر جانا ہے۔‘‘
’’اوہو عرس میں آئے ہو۔‘‘
’’ہاں !‘‘
’’میرا تانگہ باہر موجود ہے چلو گے۔‘‘
’’ضرور چلوں گا۔ کیا مزار شریف دور ہے؟‘‘
’’یہاں سے پانچ کوس کا فاصلہ ہے۔‘‘
’’کتنے پیسے لو گے؟‘‘
’’جو جی چاہے دے دینا۔‘‘
’’پھر بھی بتادو۔‘‘
’’ڈیڑھ روپیہ دےدینا۔ ویسے پورے تانگے کے چار روپے ہوتے ہیں مگر بابا جی کے مہمان ہو اس لئے ڈیڑھ روپیہ لوں گا۔ جیب میں ہاتھ ڈالا، وہی چار روپے تھے جو بکنگ کلرک نے واپس دیئے تھے یعنی آج کا وظیفہ۔ بڑا کھرا حساب تھا۔ بے چارہ بکنگ کلرک میرا وظیفہ کیسے روک سکتا تھا۔ ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ تانگے والے کے ساتھ باہر نکل آیا۔ تانگے میں بیٹھ کر میں نے پوچھا۔ ’’کیا نام ہے تمہارا؟‘‘
’’نعمت خان!‘‘ اس نے گھوڑے کو ٹخٹخاتے ہوئے کہا اور تانگہ آگے بڑھا دیا۔
’’بابا شاہجہاں کے عقیدت مند ہو؟‘‘
’’کون نہیں ہے بھائی صاحب۔ کیا ہندو کیا مسلمان ان کے عقیدت مند تو سب ہیں۔‘‘
’’ہندو بھی؟‘‘
’’مسلمانوں سے زیادہ، بابا جی سب کے ہیں۔ ہندو پاک صاف ہو کر ننگے پائوں مزار پر جاتے ہیں چادریں چڑھاتے ہیں، منتیں مانگتے ہیں اور اللہ ان کی مرادیں بھی پوری کردیتا ہے۔ بڑا فیض ہے باباشاہجہاں کا سالم نگر پر ۔‘‘
’’ٹھیک‘‘ میں نے بات ختم کرتے ہوئے کہا لیکن تانگے والا شروع ہوگیا تھا۔ راستے بھر وہ مجھے بابا شاہجہاں کی کرامتیں سناتا رہا اور بتاتا رہا کہ سالم نگر پر ہی نہیں بلکہ یہاں آنے والوں کو بابا صاحب کے مزار سے کیا کیا فیض حاصل ہوتے ہیں۔ پانچ کوس کا فاصلہ معمولی نہیں تھا۔ خوب سورج چڑھ گیا تب ہم بابا شاہ جہاں کے مزار پر پہنچے۔ درحقیقت پرنور مزار تھا۔ کسی قدر بلندی پر بنا ہوا تھا۔ اطراف میں گھنا جنگل پھیلا ہوا تھا لیکن جنگل میں منگل ہو رہا تھا۔ دکانیں لگی ہوئی تھیں، جگہ جگہ خیمے اور چھولداریاں نصب تھیں۔ صاحب حیثیت لوگ اپنی اپنی گاڑیوں میں آئے تھے اور اپنے ساتھ چھولداریاں لائے تھے۔ ہرجگہ یہ چھولداریاں نصب تھیں۔ جو اپنےخیمے اور چھولداریاں نہیں لاسکے تھے انہوں نے گھنے درختوں کی چھائوں میں پناہ لی ہوئی تھی۔ چولہے گرم ہو رہے تھے، جگہ جگہ دھواں اٹھ رہا تھا۔ لوگ چہل قدمی میں مصروف تھے۔ زیارت کرنے والے مزار پر آجا رہے تھے اور ان کے چہرے سے عقیدت کا اظہار ہوتا تھا۔ بہت سے دھوتی برداروں کو بھی دیکھا۔ ننگے پائوں مزار سے نکل رہے تھے۔ مجھے بھلا کسی پناہ گاہ کی کیا ضرورت تھی۔ جہاں شب ہوتی وہیں شب بسری کی جا سکتی تھی۔ فوراً ہی مزار اقدس کی جانب بڑھ گیا اور سب سے پہلے مزار پر فاتحہ خوانی کی۔ بہت دیر تک دو زانو بیٹھا رہا اور صاحب مزار سے رہنمائی طلب کرتا رہا۔ اپنی آخرت کی بہتری کے لئے، اپنی عاقبت کے لئے پھر وہاں سے واپس پلٹا۔ بس وہی کھایا ہوا تھا جو پچھلی رات کو کھایا تھا۔ چنانچہ شدید بھوک لگ رہی تھی۔ پانی تک نہیں پیا تھا۔ جیب میں ڈھائی روپے تھے چنانچہ دوپہر کا کھانا ایک جگہ سے دو روٹی اور تلی ہوئی مچھلی لے کر کھائی پھر بھی جیب میں ایک روپیہ باقی بچ گیا تھا۔ اسی میں مجھے شب کی خوراک حاصل کرنی تھی۔ آرام کیلئے ایک جگہ منتخب کی اور گھنے درخت کے سائے میں جا بیٹھا۔ یہ سوچنے لگا کہ یہاں مجھے کیوں بھیجا گیا ہے۔ آنکھیں بند کر کے راہنمائی کا طلب گار ہوا لیکن کوئی بات نہ بتائی گئی چنانچہ خاموشی اختیار کرلی۔ وقت خود فیصلے کرے گا اور وقت پر ہی راہنمائی ہو گی۔ ابھی کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا اس لئے جلد بازی بھی نہیں کرنی چاہئے۔
دوپہر سر پر سے گزر گئی اور شام کی چہل پہل کا آغاز ہو گیا۔ مزار شریف پر قوالوں کا قبضہ تھا چنانچہ وسیع و عریض صحن میں قوالوں کی محفل جم گئی۔ ہر ایک اپنی اپنی عقیدت کا اظہار کرنے آیا تھا۔ میں خود بھی اندر داخل ہو گیا اور ایک سمت جا بیٹھا۔ قوالوں کو لوگ حسب توفیق کچھ نہ کچھ دے رہے تھے اور قوال بڑے جوش و خروش سے گا رہے تھے لیکن بدقسمتی سے میرے پاس صرف ایک روپیہ موجود تھا جس کے بارے میں میں دیر تک سوچتا رہا تھا۔ پھر نجانے کیوں جی چاہا اور میں نے وہ روپیہ نکال کر ایک قوال کو پیش کر دیا۔ زیادہ سے زیادہ رات کا فاقہ ہی ہو جائے گا۔ کیا فرق پڑتا ہے کل صبح وظیفہ ملے گا تو پیٹ بھرلوں گا۔ بہ آسانی گزارہ ہو سکتا ہے اور پھر بہت زیادہ کھانا پینا بھی انسان کے ذہن کو عبادت سے غافل کر دیتا ہے۔ اس احساس سے مطمئن ہو گیا۔
رات ہوگئی تقریباً دن بھر ہی یہاں لوگوں کے درمیان رہا تھا اور اب ساڑھے دس بج رہے تھے چنانچہ سو جانے کا فیصلہ کیا اور صحن مزار سے باہر نکل آیا۔ چاروں طرف چہل پہل تھی، سب کے اپنے اپنے چراغ روشن تھے۔ میں ایک بے چراغ درخت کے نیچے پہنچ گیا۔ یہیں تھوڑی سی جگہ ہاتھ سے صاف ستھری کی اور بازوئوں کا تکیہ بنا کر درخت کی ایک ابھری ہوئی جڑ پر سر رکھ کر لیٹ گیا۔ کچھ نہیں سوچنا چاہتا تھا۔ اپنی اس کیفیت پر قابو پانے کا خواہشمند تھا کہ سوچوں کو ذہن سے نکال سکوں۔ سوچیں تو بڑا الجھا دیتی ہیں اور ان سوچوں میں نجانے کیا کیا تصورات شامل ہوجاتے ہیں جو ذہن کو پراگندہ کر دیتے ہیں۔ دماغ کو ان آوازوں پر مرکوز کر دیا جو اندر سے آرہی تھیں، قوال گار ہے
تھے۔
تیری خدائی میں ہوتی ہے ہر سحر کی شام
الٰہی میری سحر کی بھی شام ہو جائے
دل رو پڑا۔ الٰہی میری سحر کی بھی شام ہو جائے۔ جھلس گیا ہوں، اس دھوپ میں سارا وجود جل کر راکھ ہو چکا ہے اور کتنا جلتا رہوں گا اور کتنا… ہونٹ دانتوں میں دبا کر زخمی کر لئے۔ خون کا نمک زبان پر پھیل گیا۔ توبہ کرتے ہوئے بے چینی سے اٹھ کر بیٹھ گیا، کان بند کر لئے۔ کیسا شعر تھا دل پر ایسی ضرب پڑی تھی کہ کمبخت بے قابو ہو گیا تھا۔
الٰہی میری سحر کی بھی شام ہو جائے
کچھ لوگوں کی آمد نے سکون بخشا۔ مجھے بیٹھے دیکھ کر آگئے تھے۔ دو آدمی ایک بوری پکڑے ہوئے تھے، بوری پر دیگ رکھی ہوئی تھی۔ تیسرا آدمی دیگ سے کچھ نکال رہا تھا۔
’’لنگر کے چاول ہیں بھائی میاں، کوئی برتن ہے؟‘‘
’’نہیں۔ ‘‘ میں نے آواز سنبھال کر کہا۔
’’رکابی دیدو۔‘‘ اس نے کہا اور بوری پر رکھی ایک پلیٹ میں مجھے میٹھے چاول دے کر وہ لوگ آگے بڑھ گئے۔ بابا شاہجہاں کا مہمان تھا، بھوکا کیسے سونے دیتے۔ پیٹ بھرا تو ذہن بوجھل ہو گیا۔ پریشانی سے چھٹکارا پانے کی کوشش کر کے سو گیا۔ نہ جانے کتنی دیر ہو گئی تھی مجھے سوتے ہوئے کہ اچانک آنکھ کھل گئی۔ سینے پر ایک زبردست دبائو محسوس ہوا تھا۔ وحشت زدہ ہو کر آنکھیں پھاڑ دیں۔ ایک انسانی جسم سینے پر سوار تھا۔ اس نے مجھے اپنی رانوں میں دبوچ رکھا تھا۔ پھر آنکھوں میں ایک چمک سی لہرائی اور اس کے ساتھ ہی شانے کے قریب سینے کے گوشت میں بجلیاں اتر گئیں۔ کسی تیز دھار والے خنجر نے شانے کے قریب کا گوشت کاٹ دیا، شدید تکلیف کے باعث حلق سے ایک دلخراش چیخ نکل گئی۔
دماغ نیند میں ڈُوبا ہوا تھا۔ ہوش و حواس قائم نہیں ہوئے تھے۔ حلق سے آزاد ہونے والی چیخ تکلیف کی وجہ سے نکل گئی تھی۔ اس میں کوشش شامل نہیں تھی کیونکہ کچھ سمجھ میں ہی نہیں آیا تھا۔ اگر بغل میں آگ نہ سلگ اُٹھی ہوتی تو شاید اسے خواب ہی سمجھتا، لیکن تکلیف نے ایک لمحے میں حواس جگا دیئے۔ میرے سینے پر سوار شخص نے دوبارہ خنجر بلند کیا۔ وہ پوری طرح مجھ پر حاوی تھا اور یقیناً میں اس کا یہ وار نہیں روک سکتا تھا لیکن اسی وقت کچھ فاصلے سے چیخیں اُبھریں۔
’’ہرے رام، ہرے رام، خون، ہتھیا، خون ہوگیا۔ ارے دوڑو، پکڑو، خونی بھاگ نہ جائے، رام جی، ماتھر، دھرما، دوڑو پکڑو۔‘‘
ان آوازوں نے میرے سینے پر سوار دُشمن کو بوکھلا دیا۔ اور وہ دوسرا وار نہیں کر سکا۔ میں نے بھی اس کی گرفت سے نکلنے کیلئے جدوجہد شروع کر دی تھی چنانچہ وہ اُچھل کر کھڑا ہوا اور پھر قلانچیں بھرتا ہوا تاریکی میں گم ہوگیا۔ اس کے سینے سے اُترتے ہی میں نے اُٹھنے کی کوشش کی۔ زخم شدید تکلیف دے رہا تھا۔ میں نے اس پر ہاتھ رکھ دیا۔ خون بری طرح بہہ رہا تھا پورا ہاتھ چپچپا رہا تھا۔
جس طرف سے چیخیں اُبھری تھیں وہاں چہل پہل تو ہوگئی تھی مگر کوئی آگے نہیں بڑھا تھا۔ مجھ پر وار کرنے والا اگر سمجھ داری سے کام لیتا تو دُوسرا کامیاب وار کرنے میں اسے کوئی دقّت نہ ہوتی کیونکہ چیخنے والے بہادر اپنی جگہ سے آگے نہیں بڑھےتھے۔ البتہ کسی نے کئی بار ماچس کی تیلیاں روشن کیں اور پھر پیٹرومیکس روشن ہوگیا۔ اس کے مینٹل نے چند بار شعلے اُگلے پھر تیز روشنی بکھیر دی۔
’’ارے ہنڈا اُٹھائو، دھت تمہاری جوانی کی، ہتھیارا بھاگ گیا کوئی آگے نہیں بڑھا۔ ارے اب تو اسے دیکھو سورمائو۔ میرے پیچھے پیچھے تو آجائو۔ ہے رہے تمہاری…‘‘ کوئی کسی کو لعنت ملامت کرنے لگا، گیس کا ہنڈا اُٹھایا گیا اور چند افراد میری طرف بڑھنے لگے۔
یہ خاندان مجھ سے چند گز کے فاصلے پر ایک چھولداری میں مقیم تھا۔ یہاں قیام کرتے ہوئے میں نے کچھ لوگوں کو محسوس کیا تھا مگر ان پر غور نہیں کیا تھا۔ وہ سب میرے قریب آگئے۔ سب سے آگے دھوتی کرتے میں ملبوس ایک اُدھیڑ عمر شخص تھا اس کے پیچھے تین چار افراد اور تھے جن میں سے ایک پیٹرومیکس اُٹھائے ہوئے تھا۔ میں بھی ہمت کر کے اُٹھ گیا۔
’’ارے… ارے… زندہ ہے۔ ارے بچ گیا بے چارہ۔ ارے کون ہے بیرا تو۔ گھائو لگا ہے کیا؟‘‘ ہمدرد انسان نے پوچھا، پھر ہنڈا اُٹھانے والے سے کڑک کر بولا۔ ’’تیرا ستیاناس دھرما۔ روشنی تو آگے لا، دیکھنے تو دے۔ پوت گھائو لگا ہے کیا تیرے؟‘‘
’’ہاں چاچا جی۔ بغل کے پاس کٹ گیا ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’ہیں…؟ ہاں اُٹھائو رے اسے۔ منڈوے میں لے چلو۔ ارے رکمنی او رُکمنی۔ جاگ گئی کیا بٹیا۔ ذرا اپنی ڈاکٹری نکال لے۔ اُٹھائو رے سنبھال کر اُٹھائو۔‘‘
’’وہ پھر نہ آ جائے گنگاجی۔‘‘ ہنڈے والے نے کپکپاتی آواز میں کہا۔
’’لات دیں گے سسر تیری کمر پر، اُچھل کر منڈوے میں جا کر گرے گا۔ سنبھال کے رام جی، سنبھال کے ماتھر۔‘‘
دو افراد نے مجھے سہارا دے کر اُٹھایا تھا اور پھر چھولداری کی طرف لے چلے تھے جہاں اندھیرے میں کچھ اور لوگ نظر آ رہے تھے۔ اُدھیڑ عمر شخص مسلسل چیخ رہا تھا۔ ’’رکمنی بٹیا، جاگ گئی تو۔ رکمنی… اری او رُکمنی۔‘‘
’’جاگ رہی ہوں تائو۔ کون ہے، کیاہوا…؟‘‘ ایک نسوانی آواز سنائی دی۔
’’اری ڈاکٹری نکال اپنی، گھائل ہے بے چارہ، کوئی پاپی ہتھیا کر رہا تھا اس کی، بھگوان نے بچا لیا، مگر گھائو لگ گیاہے۔‘‘
’’چیخو مت تائو جی، دُوسرے لوگ بھی آس پاس موجود ہیں۔ مجمع لگ جائے گا۔‘‘ میرے ساتھ چلنے والے ایک شخص نے کہا۔ اتنی دیر میں ہم چھولداری کے پاس آ گئے۔
’’اندر لے چلو اندر…!‘‘ اُدھیڑ عمر شخص نے کہا۔
’’چلو اندر قدم بڑھائو…‘‘ مجھے سنبھالنے والوں نے کہا۔ میں بادل ناخواستہ ان کے ساتھ چھولداری میں داخل ہوگیا۔ چھولداری کافی وسیع تھی۔ اس میں جگہ جگہ گدّے پڑے ہوئے تھے۔ ان گدّوں پر یہ لوگ سو رہے ہوں گے لیکن اب کوئی ان پر نہیں تھا البتہ سکڑی سمٹی چادریں پڑی ہوئی تھیں۔ تکیے رکھے ہوئے تھے۔ ہنڈے کی روشنی چھولداری میں پھیل گئی۔
عمر رسیدہ شخص نے کہا۔ ’’بیٹھ جا پوت بیٹھ جا۔ رکمنی۔ ارے کہاں ہے ری تو۔‘‘
’’یہ کیا ہوں تمہارے پیچھے تائو۔‘‘ کسی لڑکی نے جواب دیا۔
’’ارے کیا کہا تھا میں نے۔ اُونچا سننے لگی ہے کیا۔‘‘
’’آپ ہٹیں سامنے سے تو میں کچھ دیکھوں تائو۔‘‘ لڑکی بولی۔
’’ارے بٹھائو اسے، تو بیٹھ جا بیٹا، کیا تیرے بھی کان خراب ہیں۔ ارے یہ تم لڑکی لڑکوں کو کیا ہوگیا ہے۔ بیس بیس بیری کوئی بات کہو تو اکیسویں بیری سنتے ہو۔ ارے بیٹھ جا۔‘‘
’’گدا خراب ہو جائے گا، خون بہہ رہا ہے میرے بدن سے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’خون۔‘‘ ایک اور نسوانی آواز اُبھری۔
’’بیٹھ جا میرے بیٹا، بیٹھ جا، میری آواز بیٹھی جا رہی ہے۔‘‘ معمر شخص نے کراہتے ہوئے کہا اور میں بیٹھ گیا۔
’’لو ڈُوب گئی لُٹیا۔‘‘ دُوسری نسوانی آواز پھر سنائی دی۔
’’گیس لیمپ قریب لائو۔ دھرما آگے آ جا، نیچے بیٹھ جا۔‘‘ رکمنی نامی لڑکی نے کہا۔ وہ فرسٹ ایڈ بکس لے کر میرے پاس بیٹھ چکی تھی۔ دھرما نے پیٹرومیکس قریب رکھ دیا اور پیچھے ہٹ گیا۔ ’’اُوپر اُٹھا رے دھرما۔‘‘ لڑکی بولی، اور دھرما کی کپکپاتی آواز سنائی دی۔ ’’رام… رام جی… رام جی۔ تم اُٹھا لو۔ مم… مجھ سے خون نہیں دیکھا جاتا۔‘‘ دُوسرے آدمی نے پیٹرومیکس اُٹھا کر قریب کر لیا اور لڑکی میرا زخم دیکھنے لگی۔ پھر اس نے فرسٹ ایڈبکس سے بینڈیج کا سامان نکال لیا۔ مکمل ڈاکٹر معلوم ہوتی تھی پہلے اس نے کوئی محلول میرے زخم پر اور اس کے آس پاس اسپرے کیا۔ اس کے بعد خون صاف کر کے کوئی مرہم لگایا۔ پھر فل بینڈیج کرنے لگی۔ اس کے لیے میری قمیص اُتار دی گئی تھی۔ خود معمر آدمی ہر کام میں پیش پیش تھا۔
بینڈیج ہوگئی تو معمر آدمی بولا۔ ’’ثریا، اری ثریا بیٹی،
کر لےچندو، ایک گلاس گرم گرم دُودھ پلائو اسے۔ جان پکڑے گا، بڑا خون بہہ گیا۔ رام رام… رام رام…!‘‘
’’مجھے بلایا گنگا جی…‘‘ رام جی نے کہا۔
’’ارے چپ بیٹھ نہیں تو… اتنا خون نکل گیا۔ تو لیٹ جا پوت۔‘‘
’’خون میں بھرا ہے پورے کا پورا۔ گدا خراب ہو جائے گا۔ ارے ثریا دُوسری دَری بچھا دے۔‘‘ عورت نے کہا۔
’’او دُوسری دری۔ تیری آواز پھر نکلی تو مجھ سے بُرا کوئی نہ ہوگا۔‘‘ معمر شخص جسے گنگا جی کہہ کر پکارا جا رہا تھا، بگڑ کر بولا۔ پھر اس نے سینے پر دبائو ڈال کر مجھے لٹا دیا۔
میں نے شرمندہ لہجے میں کہا۔ ’’آپ لوگوں کو میری وجہ سے بڑی تکلیف ہوئی۔‘‘
’’صبح اُٹھ کر چار جوتے مار دینا ہمارے منہ پر … اور چلے جانا۔ احسان اُتر جائے گا۔‘‘ معمر شخص نے کہا۔
’’جی…!‘‘ میں حیرانی سے بولا۔
’’تائو جی، چپ رہنے دیں انہیں۔ زیادہ بولنا اچھا نہیں ہوگا، آپ دُودھ پی لیں پھر میں آپ کو انجکشن دوں گی۔ آپ آرام سے سو جایئے صبح تک بالکل ٹھیک ہو جائیں گے۔‘‘
’’ہاں۔‘‘ عورت کی آواز پھر اُبھری۔
’’پھر بولی۔‘‘ گنگا جی غرّائے، اتنی دیر میں دُودھ کا گلاس آ گیا اور مجھے سہارا دے کر اُٹھایا گیا۔ دل میں ہچکچاہٹ اُبھری تھی لیکن کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ دُودھ پینا پڑا۔ رکمنی انجکشن تیار کر چکی تھی۔ اس نے مجھے انجکشن لگایا اور پھر مجھے دوبارہ لٹا دیا گیا۔
’’بس آنکھیں بند کر لو۔ ابھی نیند آ جائے گی۔‘‘
’’نیند کا انجکشن ہے؟‘‘ گنگاجی نے پوچھا۔
’’ہاں خواب آور ہے۔‘‘ رکمنی بولی۔ میں نے اس کی ہدایت پر آنکھیں بند کرلیں۔ دماغ میں ہلکی سی سنسناہٹ ضرور اُبھری تھی لیکن نیند یا بے ہوشی کا شائبہ بھی نہیں تھا۔ سب لوگ چھولداری ہی میں تھے لیکن رکمنی نے انہیں خاموش رہنے کی ہدایت کی تھی اس لیے ایک دم خاموشی طاری ہوگئی تھی۔ کوئی بیس منٹ گزر گئے لیکن مجھے نیند نہیں آئی۔ جاگ رہا تھا پوری طرح ہوش و حواس میں تھا۔ پھر رکمنی نے کہا۔ ’’بس ٹھیک ہے کام ہوگیا۔‘‘
’’ایں، کیا کام ہوگیا۔‘‘ معمر شخص کی چونکی ہوئی آواز سنائی دی۔
’’اوہ، تائو جی، میرا مطلب ہے یہ گہری نیند سو گیا بلکہ بے ہوش ہوگیا۔‘‘
’’ارے بھیا، تو بے ہوش ہوگیا کیا۔ بتا رے بھائی۔ ارے بولے گا نا کیا؟‘‘
’’تائو جی، تائو جی۔ وہ بے ہوشی میں بولے گا کیا؟‘‘ اس بار نوجوان نے کہا۔
’’ایں، ہاں سو تو ہے۔‘‘ تائو جی نے کہا۔
’’بھگوان نے اتنی عقل دی ہوتی تو وارے نیارے نہ ہوگئے ہوتے۔ کچھ کما نہ کھاتے۔‘‘ نسوانی آواز نے کہا۔
’’ہاں تو تو جیسے کمنڈل ہاتھ میں لے کر بھیک مانگتی ہے سڑکوں پر اسی طرح سب کا پیٹ بھرتا ہے۔‘‘ معمر شخص نے کہا۔
’’ارے ارے، آپ لوگ پھر لڑنے لگے۔‘‘ یہ آواز رکمنی کی تھی۔
’’تو خود دیکھ رکمنی۔ اناتھ آشرم بنا رکھا ہے انہوں نے ایک کے بعد ایک کو بھرے لے رہے ہیں۔ گدا خون سے خراب کر دیا، چادر بھگو دی خون میں، نقصان پہ نقصان۔ اس کے سوا اور کیا کرتے ہیں یہ۔ ارے میں پوچھتی ہوں یہ ہے کون…؟‘‘
’’دیکھتی نہیں ہے انسان ہے۔‘‘
’’یہ تو آپ ہمیں بھی بتایئے تائو جی؟‘‘ نوجوان نے کہا۔
’’ارے ہمیں کیا معلوم بھیا۔ تم سب لوگ لمبے پڑے تھے منڈوے میں اور یہ گیّا بھیں بھیں کر رہی تھی، سوتے میں اتی زور سے خرّاٹے لے رہی تھی کہ ہماری نیند اُکھڑ گئی اور ہم باہر نکل آئے۔ ارے بھیا کیا دیکھا کہ ایک پاپی خونی چڑھ بیٹھا اس بے چارے چھورا پر، خنجر بھی دیکھ لیا ہم نے بس چل پڑے ہم اور بھگوان نے دیا کی کہ وہ اسے چھوڑ بھاگا۔ نہیں تو مارا گیا تھا بے چارہ۔ اور تم سسر، گٹی بیٹھ گئی تمہاری۔ ایک بھی آگے بڑھ کر نہ دیا۔ ارے واہ رہے جوانو، یہ ہے تمہاری جوانی ارے جوانی دیکھنی تھی تو ہماری دیکھتے سسر بیسیوں ڈکیٹ پکڑ پولیس کےحوالے کر دیئے۔ پچاسیوں خونی دبوچ کے پولیس کو دے دیئے۔‘‘
’’اے لالہ جی، اے لالہ جی، ذرا میری طرف دیکھیو۔‘‘ اس عورت کی طنزیہ آواز اُبھری جس سے گنگاجی کی مسلسل چل رہی تھی۔ غالباً وہ اس کی دھرم پتنی تھی۔
’’مر کر بھی نہ دیکھوں تیری صورت تو… صبح دیکھ لو تو دن بھر مصیبت اُٹھائو، رات کو دیکھو تو بگھرّے ہی اُٹھا لے جائیں۔‘‘
’’ہیں، میری طرف دیکھو گے تو شرم جو آئے گی، کونسے ڈکیٹ پکڑے تم نے، ذرا بتائیو، وہ ہندو مسلمانوں کا جھگڑا ہوا تھا تو کیا ہوا تھا۔ ذرا بتائو ان بچوں کو۔‘‘
’’اچھوت جاتی کی ہے تو پکی اچھوت جاتی کی، ایک بات پکڑ کر بیٹھ گئی۔ ہزار بار بتا چکے ہیں بچوں کو، جلاب لیا تھا وید جی کے کہنے سے، جنگل پانی کو گئے تھے۔ ہوگیا ہندو مسلمانوں کا جھگڑا۔ لٹھیاں چل رہی تھیں بھاگتے نہیں تو کیا کرتے۔ ایں، کالی کبوتری، بھگوان نے جیسی شکل دی ویسی ہی زبان بھی۔‘‘ لالہ جی بگڑ کر بولے۔
’’جلتی پر کیسا تیل پڑا اب… ہیں۔‘‘
’’بات پوری ہونے دیں تائی جی۔‘‘ نوجوان بولا۔ ’’پھر کیا ہوا تائو جی۔‘‘
’’لے پھر جو ہوا تمہارے سامنے نہیں ہے کیا۔‘‘
’’اوہ، اب کیا کریں گے۔‘‘ رکمنی بولی۔
’’کریں گے کیا، سونے دے بے چارے کو، صبح کو دیکھیں گے۔‘‘
’’اور چھورے چھوریاں کہاں سوئیں گے۔‘‘ دیوی جی بولیں۔
’’تیرے سر پر، ارے ایک گدا ہی تو ملا ہے بے چارے کو، میرے لیے دری بچھا دے اس کے پاس۔‘‘
’’صبح کو بھگا دینا اسے، کہے دے رہی ہوں، اچھا نہ ہوگا۔‘‘
’’جا تو جا پڑ کونے میں، صبح کی صبح دیکھی جائے گی۔‘‘
’’ہنڈا بجھا دوں گنگاجی؟‘‘
’’نا میرے سر پر پھوڑ دے۔ لے کھوپڑی جھکا رہا ہوں۔‘‘ لالہ جی بولے۔ دھرما نے ہنڈا بجھا دیا۔ پھر شاید ایک ایک کر کے سب لیٹ گئے۔ میں دم سادھے خاموش لیٹا ہوا تھا۔ رکمنی نے زخم پر بینڈیج کی تھی، غالباً اسے سن بھی کر دیا تھا کیونکہ کوئی تکلیف نہیں محسوس ہو رہی تھی لیکن اس کا لگایا ہوا انجکشن مجھ پر بے اثر تھا۔ نہ نیند آئی تھی نہ بے ہوشی طاری ہوئی تھی۔ مکمل سناٹا چھا گیا اور میں اس شخص کے بارے میں سوچنے لگا جو خنجر سے مجھ پر حملہ آور ہوا تھا۔ کون تھا وہ، کیا چاہتا تھا، کوئی چور، لٹیرا، لیکن یہ بات دل کو نہیں لگی، میں تو گہری نیند سو رہا تھا۔ میری جیبیں ٹٹول کر بھاگ جاتا۔ یہ جان لیوا حملہ کیوں کیا اس نے۔ نہ جانے کون تھا۔ کیا چاہتا تھا۔ میں تو صورت بھی نہیں دیکھ سکا تھا۔ پھر ذہن ان لوگوں کی طرف چلا گیا اور ہونٹوں پر بے اختیار مسکراہٹ پھیل گئی۔ معمر شخص دلچسپ انسان ہے۔ تلخ مزاج تلخ زبان لیکن ہمدرد۔ بیوی سے خوب چلتی ہے۔ نام شاید گنگا ہے، آگے پیچھے بھی کچھ ہوگا۔ خوب آدمی ہے مگر ایک نام دماغ میں چبھنے لگا۔ اس نے جس لڑکی سے دُودھ لانے کے لئے کہا تھا اس کا نام ثریا لیا تھا۔ یہ تو مسلمان نام ہے۔ اگر ایسا ہے تو ایک مسلمان لڑکی ان کے ساتھ کیوں ہے۔ دُوسری بات یہ بھی تھی کہ وہ ہندو ہونے کے باوجود بابا شاہجہاں کے مزار پر فروکش تھے۔ تانگے والے نے مجھے بتایا تھا کہ بابا صاحب کے عقیدت مندوں میں ہندو بھی ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے ایسا ہو… مگر وہ مسلمان لڑکی نہ جانے کون ہے۔
دماغ کی تھکن سے ہی نیند آئی تھی۔ نہ جانے کب تک سوتا رہا تھا۔ جاگا تو بدن پر کمبل ڈھکا ہوا تھا۔ معمر شخص کی آواز سنائی دی۔ ’’جاگ گیا رکمنی۔‘‘
’’آئی تائو…‘‘ چھولداری کے باہر سے آواز سنائی دی تھی۔ میں نے کمبل سمیٹ کر اُٹھنا چاہا تو معمر شخص نے جلدی سے کہا۔
’’ارے او… ارے او سورما، ارے لیٹا رہ بھائی۔ بڑا سورما ہے تو مان لیا ہم نے، لیٹا رہ کمبل نہ اُتار، ہوا لگ گئی تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔‘‘
’’میں ٹھیک ہوں گنگا جی۔‘‘ میں نے کہا۔
’’ہاں ہاں بالکل ٹھیک ہے تو… ایں … ارے۔ ارے تجھے ہمارا نام کیسے معلوم ہوگیا۔ ارے بھیا تو ہمیں کیسے جانتا ہے۔‘‘ معمر شخص نے حیرت
آنکھیں پھاڑ کر کہا۔ میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
’’رام جی نے آپ کو گنگا جی کہہ کر پکارا تھا۔‘‘
’’لے اور لے، رام جی کا نام بھی معلوم ہے۔ چل اس نے ہمیں گنگا کہہ کر پکارا تھا مگر رام جی کو تو کیسے جانے ہے۔‘‘
’’آپ نے اسے رام جی کہہ کر پکارا تھا۔‘‘ میں نے ہنس کر کہا۔ اس وقت ایک خوبصورت لڑکی جس نے سفید ساری باندھی ہوئی تھی۔ دراز قامت اور شوخ مسکراتا ہوا چہرہ تھا۔ ہاتھ میں دُودھ کا گلاس اور بسکٹوں کا پیکٹ لیے اندر آ گئی۔
گنگا جی نے آہستہ سے کہا۔ ’’اری رکمنی بٹیا یہ تو ہمارے پورے کٹم کو جانے ہے۔‘‘
’’کیسے۔‘‘ رکمنی میرے پاس بیٹھ کر بولی۔
’’سب کا نام لے کر بتا رہا ہے۔ اچھا اس بٹیا کا نام بتا۔‘‘ گنگا جی سے معصومیت سے رکمنی کی طرف اشارہ کر کے کہا اور مجھے پھر ہنسی آ گئی۔ رکمنی نے غور سے مجھ دیکھا، دیکھتی رہی پھر خود بھی ہنس دی۔ اور بولی۔ ’’کیا قصہ ہے۔‘‘
’’کچھ نہیں رکمنی جی۔ گنگا جی اس بات پر حیران ہیں کہ میں سب کے نام کیسے جانتا ہوں حالانکہ وہ بار بار آپ کو رکمنی کہہ کر پکار رہے ہیں اور اب مجھ سے آپ کا نام پوچھ رہے ہیں۔‘‘
’’تائو جی بہت سادہ لوح ہیں، بہت معصوم، چلو تھوڑے سے اُٹھو یہ چائے اور دُودھ ملا ہوا ہے نہ خالص دُودھ ہے نہ چائے۔ کچھ بسکٹ کھا لو اس کے ساتھ پھر تمہیں دوا دوں گی۔ خالی پیٹ دوا نہیں دی جا سکتی…‘‘
’’آپ کو بہت تکلیف ہو رہی ہے میری وجہ سے، ویسے میں اب بالکل ٹھیک ہوں۔‘‘
’’ مجھے پتا ہے، صرف ایک سو چار بخار ہے آپ کو۔ چلئے اٹھئے بھوک نہیں لگی کیا؟‘‘
’’اوہو، بخار آگیا مجھے۔ تعجب ہے۔‘‘ میں نے اُٹھ کر دُودھ اور بسکٹ لے لیے۔ باقی لوگ چھولداری میں نہیں نظر آرہے تھے۔ کئی بسکٹ کھانے کے بعد میں نے دُودھ نما چائے پی لی۔ ایک بار پھر ان لوگوں کا شکریہ ادا کیا اور پھر رکمنی سے پوچھا…! کیا وقت ہوگیا رکمنی دیوی…!‘‘
’’چار بجکر بیس منٹ ہوئے ہیں۔‘‘ رکمنی نے اپنی کلائی پر بندھی چھوٹی سی گھڑی میں وقت دیکھ کر کہا۔
’’جی۔‘‘ میں نے حیرانی سے کہا۔
’’ہاں۔ آپ پورے سولہ گھنٹے سوتے رہے ہیں انجکشن کے اثر سے نہیں بخار کی غفلت سے۔‘‘
’’اوہ۔‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔
’’اوکے، دوائیں لے آئوں آپ کیلئے۔‘‘ رکمنی گلاس اور بسکٹ سنبھال کر اُٹھ گئی۔ گنگاجی نے کہا۔ ’’میں بات کر لوں اس سے ڈاکٹرنی صاحبہ؟‘‘
’’ضرور تائو جی۔‘‘ وہ باہر نکلتے ہوئی بولی۔ اور گنگاجی میری طرف متوجہ ہوگئے۔
’’تو بڑا گیانی ہے بھائی تجھے سب کے نام معلوم ہوگئے۔ ہم ٹھہرے بدھو کے بدھو، تو نے سن ہی لیا ہماری بٹیا کے منہ سے۔ ہمیں تیرا نام نہیں معلوم۔‘‘
’’میرا نام مسعود ہے گنگاجی۔‘‘
’’مسلمان ہے؟‘‘
’’الحمد للہ!‘‘
’’تیرا دُشمن کون تھا؟‘‘
’’میں بالکل نہیں جانتا۔‘‘
’’دُشمنی چل رہی ہے کسی سے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔
’’پھر کوئی اُچکا ہوگا۔ سسرا جان لینے پر تل گیا تھا۔ وہ تو ہم نے دیکھ کر شور مچا دیا نہیں تو پاپی دوسرا وار کرتا۔‘‘
’’میں خلوص دل سے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں گنگاجی۔‘‘
’’ارے نا بیرا بھگوان کو تیری جان بچانی تھی۔ ہمیں کارن بنا دیا اور پھر بہت بڑی سرکار دوارے آیا ہے تو۔ گھائو ضرور لگ گیا مگر بابا جی کسی کو ایسے مرنے دیتے۔ اس پاپی کو ضرور سزا ملے گی جس نے تجھے بابا جی کے در پر گھائل کیا۔ زیارت کو آیا ہے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’اکیلا ہے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’کہاں رہتا ہے؟‘‘ میں نے جواب میں اپنے شہر کا نام بتایا۔
’’بڑی دُور سے آیا ہے۔ مگر بابا شاہجہاں کے دوارے تو نہ جانے کہاں کہاں سے لوگ آتے ہیں اور ہم تو پرکھوں سے بابا جی کے داس ہیں۔ سال کے سال آتے ہیں عرس میں اور سال بھر کے لیے شانتی لے جاتے ہیں۔‘‘
’’آپ ہندو ہو کر اتنی عقیدت رکھتے ہیں باباجی سے؟‘‘
’’ارے بیٹا سارے کھیل سنسار کے ہیں۔ کون کہاں سے آتا ہے کہاں چلا جاتا ہے یہ کوئی اور ہی جانتا ہے، روتے ہوئے آتے ہیں کراہتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔ ہندو کہہ لو، سکھ کہہ لو، عیسائی کہہ لو، مسلمان کہہ لو۔ یہ ساری باتیں بس کہنے کیلئے ہوتی ہیں۔‘‘
’’بہت بڑے ہیں آپ گنگاجی، صرف انسان ہیں آپ! آپ کا پورا نام کیا ہے؟‘‘
’’تو بتا گیانی تو جانیں۔‘‘ گنگاجی نے مسکرا کر کہا۔
’’میں نے جتنا سنا ہے اتنا ہی جانتا ہوں۔‘‘
’’ہیں آ گیا نا راستے پر۔ ہمارا نام گنگا دھر ہے، پتا کا نام مرلی دھر تھا ہماری دھرم پتنی کا نام پریم وتی ہے۔ پریما دیوی کہتے ہیں سب اسے۔ ہری مرچ کے کھیت میں اُگی تھی۔ کیا ہوئی ہری مرچ۔ ہمیں پرلے سرے کا گدھا سمجھتی ہے۔ مہا کنجوس ہے دانے دانے پر جان دیتی ہے۔ دونوں بچّے ماتھر اور رکمنی ہمارے سور گباشی بھائی کے بچّے ہیں۔ پتی پتنی ریل گاڑی کے حادثے میں مارے گئے تھے۔ تب سے بچوں کو ہم نے پالا پوسا، پڑھایا، لکھایا۔ رکمنی ڈاکٹر بن چکی ہے اور اسپتال میں نوکر ہوگئی ہے۔ ماتھر انجینئرنگ کا امتحان پاس کر چکا ہے نوکری ڈھونڈ رہا ہے۔ منت مانگنے آیا ہے بابا شاہجہاں کے مزار پر۔ رام جی پرانے نوکر ہیں، ہم سب عزت کرتے ہیں ان کی۔ دھرمے بھی کوئی چھ سال سے نوکری کرتا ہے۔ سب سمجھ میں آ گیا یا کچھ رہ گیا؟‘‘
’’کچھ رہ گیا گنگاجی۔‘‘
’’کیا؟‘‘ گنگا جی غرّا کر بولے۔
’’آپ کہاں رہتے ہیں؟‘‘
’’ایں… ہاں۔ سچی مچی رہ گیا۔‘‘ گنگاجی مسکرا کر بولے۔ ’’خورجے کے رہنے والے ہیں ہم لوگ۔‘‘
’’اور بھی کچھ رہ گیا گنگاجی؟‘‘
’’وہ کیا؟‘‘
’’ثریا کون ہے؟‘‘ میں نے پوچھا اور گنگا دھر کی آنکھیں پھر پھٹ گئیں۔
وہ مجھے گھورنے لگے پھر بولے۔ ’’بڑا بکٹ لگے ہے بھائی تو… اب کہہ دے کہ ثریا کا نام بھی لیا تھا ہم نے۔‘‘
’’لیا تھا۔‘‘ مجھے بے اختیار ہنسی آ گئی۔ رکمنی دوبارہ اندر داخل ہوئی تھی، ٹھٹھک کر رُکی … ایک لمحے مجھے دیکھا پھر آگے آ گئی۔
’’کس بات پر ہنسا جا رہا ہے۔ نام کیا ہے تمہارا؟‘‘ اس نے دوبارہ میرے قریب بیٹھ کر کہا۔
’’یہ ثریا کو بھی جانتا ہے۔ رات کو گھائل ہوا تھا۔ سب کے نام سن لیے تھے اس نے اور پھر تو نے اسے بے ہوش کر دیا مگر پھر بھی یہ سنتا رہا۔ اب ثریا کے بارے میں پوچھ رہا ہے۔‘‘ گنگا دھرجی نے مخصوص انداز میں کہا۔
’’واقعی ثریا کا نام کہاں سے سن لیا تم نے؟‘‘ رکمنی بولی۔
’’رات کو گنگاجی نے یہ نام لے کر دُودھ منگوایا تھا۔‘‘ میں بدستور ہنستا ہوا بولا اور رکمنی بھی ہنس پڑی۔
’’ہاں تائو جی آپ نے دُودھ تو ثریا ہی سے منگوایا تھا۔ لو یہ گولیاں کھا لو یہ پانی پکڑو۔ نام نہیں بتایا تم نے؟‘‘
’’مسعود۔‘‘ میں نے جواب دیا اور گولیاں اس کے ہاتھ سے لے لیں۔ گولیاں معدے میں اُتار کر میں نے پانی کا گلاس واپس کر دیا پھر کہا۔ ’’گنگا دھرجی اب مجھے اجازت دیں گے؟‘‘
’’لام پر جانا ہے؟‘‘ وہ بولے۔
’’نہیں لیکن جانا تو ہے۔‘‘
’’اچار نہیں ڈالیں گے ہم تمہارا۔ اچھے ہو جائو تو چلے جانا۔ کیسا برا سمے آ گیا ہے رکمنی، اگر ہم مسلمان ہوتے تو یہ یہاں ضرور رُک جاتا۔ سوچ رہا ہوگا ہمارے ہاں کھائے پیئے گا تو دھرم بھرشٹ ہو جائے گا۔ ارے بھائی ثریا ہے ہمارے پاس، تیرے دھرم کی ہے وہی دو روٹی پکا دے گی تیرے لیے مت کھانا ہمار ہاتھ کا۔ سالن کسی مسلمان کی دُکان سے منگوا لینا، یہاں کیا کمی ہے اتنی جلدی تو نہ بھاگ۔‘‘
’’آپ مجھے اتنا گرا ہوا نہ سمجھیں گنگاجی۔ آپ کی محبت اور احسان کا تو میں صلہ بھی نہیں دے سکتا۔ لیکن مجھے احساس ہے کہ آپ سب کو میری وجہ سے تکلیف ہو رہی ہے۔‘‘
’’ارے تو ہمیں ہو رہی ہے تکلیف، تجھے تو نہیں ہو رہی۔‘‘
’’تائو جی۔ ان کے کان بہت لمبے ہیں سب کچھ سن لیا ہے تو تائی جی کی باتیں بھی سن لی ہوں گی۔ لیکن مسٹر مسعود آپ
کے ابھی یہاں سے جانے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ آپ کا زخم گہرا ہے، چلیں گے پھریں گے تو خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔ خون بہہ جانے کی وجہ سے آپ کمزور بھی ہوگئے ہیں۔ اسی لیے آپ کو بخار چڑھ گیا ہے۔ میں آپ کی ڈاکٹر ہوں اور ابھی آپ کو کہیں جانے کی اجازت نہیں دے سکتی۔‘‘
’’ہیں… اب بول۔‘‘ گنگا دھر خوش ہو کر بولے۔
’’ٹھیک ہے۔ آپ سوچ لیں آپ کو کیسی پریشانی ہوگی۔‘‘
’’اگر آپ کے خیال میں ہماری پریشانی صرف تائی جی ہیں تو ہم آپ سے درخواست کریں گے کہ آپ ہماری طرح انہیں انجوائے کریں۔‘‘
’’بہتر ہے۔‘‘ میں نے گہری سانس لے کر کہا۔
(جاری ہے)