’’رکمنی بٹیا!‘‘
’’جی تائو جی!‘‘
’’مزار شریف پر جائے گی کیا؟‘‘
’’آپ بتایئے۔‘‘
’’تو تو دن میں ہو آئی ہے۔ میں چلا جائوں تھوڑی دیر کے لیے۔‘‘
’’ضرور چلے جائیں تائو جی۔‘‘
’’ٹھیک ہے تو اسے سنبھالو سب کے ساتھ ہی واپس آئوں گا۔‘‘
’’اوکے۔‘‘
’’کیا؟‘‘گنگا دھر جی آنکھیں نکال کر بولے۔ اور رکمنی ہنس پڑی پھر بولی ٹھیک ہے تائو جی آپ جایئے۔ گنگادھر جی اُٹھ کر باہر نکل گئے تھے، رکمنی میری طرف دیکھ کر بولی۔ ویسے آپ کو یہ ماحول برا نہ لگا ہوگا مسعود۔ بڑے دلچسپ ہیں تائو جی۔ دن رات بولتے رہتے ہیں مگر من کے بڑے اچھے اور سچے ہیں۔ جو جی میں آیا زبان سے نکال باہر کیا دل میں کچھ نہیں رہ جاتا۔ ایسے لوگ برے نہیں ہوتے۔
’’یقیناً۔‘‘ میں نے اعتراف کیا۔ اس کے بعد رکمنی نے بھی مجھ سے میرے دُشمن کے بارے میں وہی سوالات کئے جو گنگادھر جی نے کئے تھے۔ وہ بھی کوئی فیصلہ نہیں کر سکی۔ کسی بات پر مجھے ہنسی آئی تو وہ پھر چونک کر مجھے دیکھنے لگی پھر بولی۔ ’’ایک بات کہوں۔‘‘
’’جی، ضرور کہیئے۔‘‘
’’کم ہنسا کرو اور اکیلے میں ہنسا کرو۔‘‘
’’سمجھا نہیں۔‘‘
’’یوں تو آپ نے اپنا حلیہ بگاڑ رکھا ہے۔ نہ جانے یہ کیا ناٹک ہے آپ کا مگر ہنستے ہیں تو بڑے پیارے لگتے ہیں۔ ایسے کہ انسان دیکھتا رہ جائے، نظر لگ جائے گی کسی کی۔ ایک بات اور ان الفاظ کو کچھ اور نہ سمجھنا بڑے مان سے دیدی کہہ سکتے ہیں مجھے۔ ماتھر سے الگ نہیں ہیں میری نگاہ میں کیا سمجھے؟‘‘
’’جی۔‘‘ میں نے بادل ناخواستہ کہا۔
رکمنی کی بات پھر ادھوری رہ گئی۔ چھولداری کے باہر آوازیں اُبھریں۔ پہلے داخل ہونے والی پریما دیوی تھیں، مجھے دیکھا۔ رکمنی کو دیکھا پھر بولیں۔ ’’کہاں گئے تمہارے تائو؟‘‘
’’آپ کو نہیں ملے تائی جی۔‘‘
’’چلے گئے کیا؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ ماتھر، رام جی اور دھرما آ گئے۔ پریما دیوی نے ایک دونا آگے کرتے ہوئے کہا۔ ’’لو پرساد لے لو۔ اس کا بخار کیسا ہے؟‘‘
’’کچھ کم ہے۔‘‘
’’آج بھی یہیں رہے گا کیا؟‘‘
’’ہاں تائو جی یہی کہہ رہے ہیں۔‘‘ رکمنی شرارت سے بولی۔
’’ٹھیک ہے۔ دھرما، رام جی اس کا گدا کونے میں کرا دو۔ اور چلو کھانے پینے کا ڈول بتائو۔‘‘ ماتھر اور رکمنی نے حیرانی سے ایک دوسرے کی شکل دیکھی پھر رکمنی بولی۔
’’آپ تائو جی سے بات کرلیں تائی جی۔ آخر نیا مہمان کب تک ہمارے ساتھ رہے گا اور پھر ہماری تو کوئی ناتے داری بھی نہیں ہے اس سے۔‘‘
’’ارے تو ہم پر کونسا بوجھ ہے، جو بھگوان دے گا کھا لے گا اپنے بھاگ کا۔ کیسا لوہے کی طرح تپتا رہا ہے بے چارا دن بھر، اری ثریا… ارے یہ ثریا کہاں رہ گئی۔‘‘ میری نظریں دروازے کی طرف اُٹھ گئیں۔ اس کردار کو دیکھنے کا بڑا شوق تھا۔ ثریا اندر آ گئی، دُبلی پتلی جسامت کی دراز قامت لڑکی۔ عمر کوئی بیس اکیس سال، اُلجھے بال لیکن گھٹائوں کی طرح اُمنڈتے ہوئے۔ بڑی بڑی انتہائی حسین آنکھیں، خوف میں ڈوبی ہوئی۔ ہونٹوں پر قدرتی گلاب کھلے ہوئے۔ ایسے جاذب نقوش کہ دل کی حرکت بند ہونے لگے لیکن مجسم حسرت و یاس، سارے جہاں کا کرب خود میں سمیٹے ہوئے۔ چال میں بھٹکا بھٹکا پن۔ سادہ سی قمیض شلوار میں ملبوس۔
’’ثریا بٹیا۔ مہمان والی چادر بدل دے۔ صبح کو اسے دھو ڈالیو۔‘‘
’’ہرے رام۔ ہرے کرشن۔ ہرے رام۔‘‘ ماتھر منہ ہی منہ میں گنگنانے لگا۔ ثریا ایک طرف چلی گئی مگر میں غیر اختیاری طور پر اسے دیکھتا رہا۔ رکمنی نے کہا۔
’’دھرما۔ ایک برتن میں پانی گرم کر کے لے آئو۔ میں بینڈیج تبدیل کروں گی۔‘‘
’’جی رکمنی بٹیا‘‘ پریما دیوی چھولداری سے باہر نکل گئیں تو ماتھر آلتی پالتی مار کر میرے سامنے آ بیٹھا۔ اس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر ماتھے سے لگائے اور آنکھیں بند کر کے جے بھگوتی، جے پربھو کی گردان کرنے لگا۔
’’ماتھر بھیا کیا کر رہے ہو۔ تائی جی آ جائیں گی۔‘‘
’’ارے آنے دو۔ پربھو پدھارے ہیں ہماری کٹیا میں ایسے مہان پُرش دیکھے نہ سُنے۔ ارے ایک نظر میں پریم وتی دیوی کی کایا پلٹ دی انہوں نے۔ وہ جو چیونٹیوں کو ایک چٹکی آٹا نہ کھلاویں کہہ رہی ہیں کہ بھگوان دے گا کھا لے گا اپنے بھاگ کا۔ جے بھگوتی جے شنکر، جے بھگوتی! ماتھر پر شرارت سوار تھی۔ ثریا سوٹ کیس سے نئی چادر نکال لائی۔ مجھے سہارا دینے کیلئے دھرما اور رام جی آگے بڑھے لیکن میں خود ہی جلدی سے گدّے سے اُٹھ کھڑا ہوا۔ رکمنی زور سے چیخی۔
’’ارے ارے سورما جی۔ زیادہ بہادری نہ دکھائیں زخم کھل جائے گا چکر آجائے گا گر پڑیں گے۔‘‘
’’نہ زخم کھلے گا نہ چکرآئیں گے۔ آپ بالکل فکر نہ کریں رکمنی جی۔‘‘
’’بالکل ٹھیک کہا مہاراج نے۔ جے بھولے ناتھ، آپ جو کچھ کہیں گے ہم مانیں گے پربھو، ہماری تائی جی نے آج جو کچھ آپ کیلئے کہہ دیا وہ ہم نے جیون بھر ان کے منہ سے نہ سُنا۔ آج پہلی بار جے بھگوتی۔‘‘
’’دھرما۔ ارے رام جی۔ کام ہوگیا اندر کا۔ اب باہر بھی آجائو۔‘‘ باہر سے پریما دیوی کی آواز سنائی دی۔
’’جائو جائو۔ اندر کے کام ہم کرلیں گے۔‘‘ رکمنی نے کہا۔ ثریا نے چادر بچھا دی اور پرانی چادر لے کر باہر نکل گئی۔ میں نے دوبارہ اس پر نظر نہیں ڈالی۔ یہ گناہ تھا لیکن نہ جانے کیا ہورہا تھا۔ یہ چہرہ میری آنکھوں میں بس گیا تھا۔ ایک ایک نقش اَزبر ہوگیا تھا۔
رکمنی نے ماتھر کو میرا نام بتا دیا تھا۔ چنانچہ وہ مجھے مسعود مہاراج کہہ کر مخاطب کررہا تھا۔ بڑے ہنس مکھ لوگ تھے کافی حد تک معلوم ہوگیا تھا ان کے بارے میں، ثریا کے بارے میں بعد میں یہی سوچا میں نے کہ وہ ان کے ہاں نوکری کرتی ہوگی۔ اس خیال سے دل میں عزت بھی ہوگئی ان لوگوں کیلئے۔ اوّل تو وہ بابا شاہجہان کے اتنے عقیدت مند تھے کہ ہر سال عرس میں آتے تھے۔ دوم انہوں نے یہ جاننے کے باوجود کہ میں مسلمان ہوں، مجھ سے احتراز نہیں کیا اور پھر کشادہ دلی کی یہ انتہا کہ ایک مسلمان لڑکی کو نوکر رکھا ہوا تھا۔
گنگا دھر مہاراج آ گئے۔ بگڑ کر بولے۔ ’’تم لوگوں نے انتظار بھی نہیں کیا میرا؟‘‘
’’جتنا انتظار کرنے کو کہا تھا اتنا کر لیا۔ کیا تمہارے لیے بیٹھے رہتے وہاں۔‘‘ پریما دیوی بولیں۔
’’پھیرے کرنے کیلئے تو پانچ سال بیٹھی رہی تھی۔ یہاں گھنٹہ بھر بھی انتظار نہ کیا۔‘‘
’’ارے وہی تو ایک غلطی ہوئی تھی جو آج تک بھگت رہی ہوں۔‘‘
’’تو بھگت رہی ہے کہ میں؟‘‘
’’تم کیا بھگت رہے ہو۔ ایک میرے ہی ماتا پتا بھولے تھے کہ آنکھیں بند کر لیں بعد میں سب نے کہا کہ بھاگ پھوڑ دیئے بیٹی کے۔‘‘
’’کسی ایک کہنے والے کا نام تو بتا ذرا۔‘‘
’’تائو جی، تائی جی، مہمان کا تو خیال کریں کیا سوچے گا وہ اپنے دل میں۔‘‘ رکمنی بولی۔
’’ارے ثریا۔ ثریا چندو، مسعود جی تیرے دھرم کے ہیں بیٹا۔ تو ان کے لیے کچھ پکا لے۔ ان کی مہمانداری تیرے سپرد۔ رکمنی تو بتا کیا کھلائے گی اپنے مریض کو؟‘‘ پریما دیوی چونک کر بولیں۔
’’ایں۔‘‘ گنگادھر جی چونک کر بولے۔
’’تائی جی دلیہ مل جائے یا کھچڑی، ہلکی غذا ہو تو اچھا ہے۔‘‘
’’دلیہ تو ہے۔ لو ان کے لئے برتن بازار سے منگوا لو، نہیں تو دیر ہو جائے گی۔‘‘ پریما دیوی نے پلو سے پیسے نکال کر دھرما کو دیئے۔
’’جے بھگوتی۔‘‘ ماتھر گردن پٹختا ہوا بولا۔ گنگا دھر جی بھاڑ سا منہ کھولے کھڑے تھے پھر وہ آہستہ سے بولے۔ ’’رکمنی۔ یہ تیری تائی ہے نا؟‘‘
’’رات ہوئی۔ سب نے کھانا کھا لیا۔ سب مجھ سے باتیں کر چکے تھے لیکن میں نے ثریا کو بالکل خاموش پایا تھا۔ اس نے کسی سے ایک بار بھی بات نہیں کی تھی۔ حالانکہ ان لوگوں کے انداز میں اس کےلیے
محبت اور اپنائیت تھی لیکن وہ اُداس ملول اور خاموش تھی۔‘‘
’’دُوسرا اور تیسرا دن بھی گزر گیا یہ سب بہت اچھے تھے۔ بڑے سادہ لوح اور محبت کرنے والے۔ میرے ساتھ بہترین سلوک کیا انہوں نے لیکن ثریا بہت پراسرار تھی، خاموش اور بے سکون۔ نہ جانے کیوں۔ میں نے اسے راتوں کو مضطرب دیکھا تھا۔ مگر وہ بولتی بھی تو نہیں تھی۔ کئی بار میں نے براہ راست اس کا نام لے کر اس سے اپنے کام کرائے تھے۔ وہ بڑی خوش دلی سے میرے کام کر دیتی تھی لیکن اب تک میں نے اس کی آواز ایک بار بھی نہیں سنی تھی۔
رکمنی نے بینڈیج کھول کر میرا زخم دیکھا اور خوش ہو کر فخریہ انداز میں بولی۔ ’’دیکھیں تائو جی ہماری ڈاکٹری۔ تین دن میں زخم بھر دیا ہم نے۔ کوئی کر کے تو دکھا دے۔‘‘
’’یہ تو ہم مانتےہیں رکمنی دیوی۔‘‘
’’اب میں باہر جا سکتا ہوں رکمنی بہن۔‘‘ میں نے پوچھا۔
’’کہاں باہر؟‘‘
’’مزار پر۔‘‘
’’ہوں۔ آہستہ آہستہ جا سکتے ہیں آپ۔ ابھی تیز چلنا منع ہے۔ اس کے علاوہ بھیڑ میں اس جگہ گھسنا منع ہے جہاں دھکم پیل کا امکان ہو۔ کسی طرح کی بھاگ دوڑ کی اجازت نہیں ہے۔‘‘
’’خیال رکھوں گا۔‘‘
’’دھرما یا رام جی آپ کے ساتھ جائیں گے۔‘‘
’’میں چلا جائوں گا، مجھ سے زیادہ کون خیال رکھے گا۔‘‘ گنگا دھرجی بولے۔
’’یہ اجازت اس لیے دے دی گئی ہے کہ آپ کا دل گھبرا گیا ہوگا۔ ورنہ ابھی دو چار دن اور اجازت نہ ملتی۔‘‘ رکمنی بولی۔
’’بے حد شکریہ۔‘‘ میں نے کہا یہ سچ تھا ان لوگوں کی محبت کی وجہ سے میں نے ان کے احکامات مان لیے تھے ورنہ میں تو نہ جانے کیسے کیسے گھائو کھا چکا تھا۔ یہ معمولی زخم میرے لیے کیا حیثیت رکھتا تھا لیکن یہ سب کچھ ایسا تھا کہ مجھ سے روگردانی نہیں کی جا رہی تھی۔ گنگارام جی کے ساتھ باہر نکل آیا اور مزار شریف کی طرف چل پڑا۔ خوب چہل پہل تھی۔ میلہ سا لگا ہوا تھا۔ نئے نئے زائرین آ گئے تھے۔ مزار شریف کے پاس بھی خوب رونق تھی۔ رکمنی نے احتیاط کی ہدایت کی تھی لیکن حقیقتاً مجھے نہ تو کمزوری محسوس ہو رہی تھی اور نہ ہی زخم میں تکلیف تھی۔ اطمینان سے مزار کے احاطے میں پہنچ گیا۔
’’آپ اندر جاتے ہیں گنگا دھرجی؟‘‘
’’کیوں نہیں، شاہجہاں بابا کے چرن چھونے جاتے ہیں۔‘‘
’’میں فاتحہ پڑھنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’تو چلو تم فاتحہ پڑھ لینا۔ ہم چرن چھو لیں گے۔‘‘ جوتے اُتارے اور عقیدت سے مزار شریف کے احاطے میں پہنچ گئے۔ بہت سے لوگ موجود تھے۔ پھول اور چادریں چڑھائی جا رہی تھیں۔ مرد عورت بچّے سبھی موجود تھے۔ میں ایک گوشے میں جا کھڑا ہوا اور آنکھیں بند کر کے فاتحہ خوانی کرنے لگا۔ کچھ دیر بعدفراغت ہوئی تو میں نے گنگادھر کی تلاش میں اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں۔ پہلی ہی نظر نے چونکا دیا۔ کچھ فاصلے پر ثریا نظر آئی تھی۔ تنہا سوگوار دونوں ہاتھ بلند کئے دُعا مانگ رہی تھی۔ آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ سفید دھاریں اُمنڈی آ رہی تھیں۔ رُخسار جل تھل ہو رہے تھے۔ ایسا کرب سمٹا ہوا تھا اس کے چہرے پر کہ دیکھنے والے کا کلیجہ ہل جائے۔
میں پتھرا گیا۔ دل جیسے بند بند ہوگیا تھا۔ بدن میں رعشہ سا آ گیا تھا۔ آگے بڑھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ وہیں سے اسے دیکھتا رہا۔ عجیب سی کیفیت ہوگئی تھی۔ دل پھڑپھڑا رہا تھا۔ خواہش ہو رہی تھی کہ آگے بڑھوں اور … اور اس کا سارا کرب خود میں سمو لوں۔ اسے ہر دُکھ سے آزاد کر دوں لیکن ایک قدم آگے نہ بڑھا سکا۔ تبھی گنگادھر میرے پاس آ گئے۔
’’دُعا پڑھ لی پوت؟‘‘
’’ایں…‘‘ میں نے چونک کر کہا۔
’’دُعا پڑھ لی؟‘‘
’’ہاں!‘‘ میں نے کھوئے ہوئے انداز میں کہا۔
’’رُکو گے یہاں یا چلو گے۔‘‘
’’گنگا جی۔ وہ… وہ۔‘‘ میں نے اشارہ کیا اور گنگادھر میرے اشارے پر اس طرف دیکھنے لگے۔ ثریا آنسو خشک کر رہی تھی پھر وہ پلٹ کر تیزی سے چل پڑی۔
’’ثریا کی کہہ رہے ہو؟‘‘
’’ہاں!‘‘
’’دُعا پڑھنے آئی ہوگی۔ آتی رہتی ہے کوئی منادی تھوڑی ہے اسے۔‘‘
’’آیئے چلیں۔‘‘ میں نے تھکے تھکے لہجے میں کہا۔ ’’ثریا کون ہے گنگاجی؟ آپ نے مجھے سب کے بارے میں بتا دیا اس کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ وہ آپ کے ہاں نوکری کرتی ہے۔‘‘
’’ارے رام، رام۔ نا بیرا وہ تو ہمارے لیے رکمنی جیسی ہے۔‘‘
’’کون ہے وہ؟‘‘
’’سچی بات یہ ہے بیرا کہ اس کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم ہی نہیں ہے۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’رکمنی کے اسپتال میں داخل تھی۔ کسی پاپی نے اس کی زبان کاٹ دی تھی۔ اُنگلیوں کے پور بھی کاٹ دیئے تھے۔ رکمنی کے ڈاکٹروں نے بتایا کہ وہ لاوارث ہے، کوئی خبر گیری کرنے والا نہیں ہے۔ اُنگلیوں کے پوروں کا تو علاج ہوگیا مگر زبان ٹھیک نہ ہو سکی۔‘‘
’’گونگی ہے وہ؟‘‘ میں نے بے اختیار پوچھا
’’تو اور کیا تم نے اسے بولتے سنا ہے کبھی؟‘‘
’’پھر کیا ہوا۔‘‘
’’ٹھیک ہوگئی تو رکمنی اسے ساتھ لے آئی۔ اپنے گھر رکھ لیا ہم نے اسے۔ سنسار میں اس کا کوئی نہیں ہے اور اب تو وہ گھر کی سی ہوگئی ہے۔ ہماری طرف سے کوئی تکلیف نہیں ہوتی اسے۔ مگر…‘‘
’’مگر کیا؟‘‘
’’بے چین ہے۔ بے سکون ہے۔ نہ ہنستی ہے نہ مسکراتی ہے۔ حالانکہ سارے چھورے اسے ہنسانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر وہ ہنسنے کے بجائے رو پڑتی ہے، کوئی گہرا گھائو ہے من میں۔ آخر کسی نہ کسی نے تو اس کے ساتھ یہ سلوک کیا ہوگا۔ راتوں کو جاگتی رہتی ہے۔ کبھی کہیں بیٹھے بیٹھے تاریکیوں کو گھورتی رہتی ہے۔ کبھی رات رات بھر نماز پڑھتی رہتی ہے۔ گھنٹوں سجدے میں پڑی رہتی ہے۔‘‘
’’گنگارام جی بتا رہے تھے اور میرے بدن میں سرد لہریں دوڑ رہی تھیں۔ آج انکشاف ہوا تھا کہ وہ گونگی ہے۔ کون ہے وہ، کیا کہانی ہے اس کی… کیا مجھے علم نہیں ہو سکتا۔ اچانک ایک خیال آیا اور میں نے کہا۔
’’ان کا نام کیسے معلوم ہوا آپ کو؟‘‘
’’اس کےپاس ایک رومال تھا جس کے کونے پر تارکشی سے اس کا نام کڑھا ہوا تھا۔ اس نے اس پر اُنگلی رکھ کر اپنے سینے پر اشارہ کر کے بتایا تھا کہ یہ اس کا نام ہے۔‘‘ گنگاجی نے کہا اور پھر چونک کر بولے۔ ’’ارے یہ دھرما اور رام جی کیسے بھاگے بھاگے آ رہے ہیں۔ کوئی بات ہوگئی کیا؟ میں نے بھی ان کے اشارے پر دیکھا۔ دونوں بری طرح گھبرائے ہوئے لگ رہے تھے۔ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں طرف دیکھ رہے تھے۔۔‘‘
’’ضرور کچھ ہوگیا۔‘‘ گنگا دھر ان کی طرف لپکے۔ میں بھی تیز تیز قدموں سے ان کے پیچھے چل پڑا۔ نہ جانے کیا ہوگیا تھا۔
دھرما اور رام جی تو گنگا دھرجی کو نہیں دیکھ سکے تھے لیکن ہم ہی ان کے قریب پہنچ گئے۔ گنگاجی قریب پہنچ کر دھاڑے۔ ’’ارے او بیل کے دیدے والوں کہاں اونٹ کی طرح منہ اُٹھائے اُٹھائے پھر رہے ہو۔‘‘ دونوں اُچھل پڑے ایک ساتھ پلٹے اور پھر ایک ساتھ بولے۔ ’’گنگاجی وہ… وہ سادھو مہاراج۔‘‘
’’جٹا دھاری…‘‘ دھرما بولا۔
’’کالا کمنڈل ہاتھ میں لیے۔‘‘ رام جی نے کہا۔
’’گلے میں مالائیں اور…‘‘ دھرما آگے بولنا چاہتا تھا کہ گنگا دھرجی غصّے سے لال پیلے ہونے لگے۔ انہوں نے غرّا کر کہا۔
’’سسرو جوتی اُتاروں گا اور بیس ماروں گا سر پر… ارے بھجن گا رہے ہو کیا تم دونوں۔ ایک آدمی بات کیوں نہیں بتاتا۔‘‘
’’میں بتاتا ہوں گنگاجی۔‘‘ رام جی بولا۔ ’’ہم سب بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک دَم ایک سادھو مہاراج منڈوے میں گھس آئے۔ ماتھر جی نے غصّے سے کہا کہ وہ منہ اُٹھائے اندر کیوں گھس آئے تو سادھو مہاراج نے گھور کر انہیں دیکھا اور اپنا کمنڈل آئے بڑھا کر بولے۔ ’’اسے دیکھ بالکا۔‘‘ اور مہاراج اچانک ماتھر جی چیخ کر پیچھے ہٹ گئے۔ پتہ نہیں انہیں اس میں کیا نظر آیا جبکہ کمنڈل میں کچھ نہیں تھا۔‘‘
’’تمہیں کیسے پتہ چلا کہ کمنڈل میں کچھ نہیں تھا۔‘‘
گنگادھر نے پوچھا۔
’’بعد میں انہوں نے کمنڈل پھر لٹکا لیا اور وہ اُلٹا ہوگیا۔ کوئی چیز ہوتی تو اس سے گرتی نا۔‘‘
’’ارے تو آگے تو بولو رام جی۔ بک بک لگائے ہوئے ہو۔‘‘
’’سنت مہاراج نے دیوی جی سے کہا کہ کل صبح یہاں سے گھوڑی آگے بڑھا دیں۔ نہیں تو نقصان کی ذمے دار خود ہوں گی۔‘‘
’’گھوڑی آگے بڑھا دیں…؟‘‘
’’مطلب یہ تھا کہ سالم نگر سے چلے جائیں۔‘‘
’’کہاں چلے جائیں…؟‘‘
’’یہ نہیں بتایا۔‘‘
’’دھت تیرے کی۔ ارے آگے تو بولو بھگوان کے داس۔‘‘
’’بس آگے کیا بولیں۔ دھمکیاں دیں اور چلے گئے۔‘‘
’’تو پھر تم یہاں کیوں آ گئے…؟‘‘
’’پریما دیوی بہت پریشان ہیں۔ انہوں نے ہم سے کہا کہ آپ کو تلاش کر کے فوراً واپس بلا لائیں۔‘‘
’’کچھ سمجھ میں نہیں آئی۔ آئو مسعود چلیں۔‘‘ اور ہم واپس چل پڑے کچھ دیر کے بعد چھولداری پر پہنچ گئے۔ پریما دیوی کا منہ اُترا ہوا تھا۔
’’نکل چلو جلدی۔ نہیں تو کچھ ہو جائے گا۔ تمہیں بتایا ان لوگوں نے۔‘‘ وہ بولیں۔
’’ہاں بتا دیا۔ مگر بات کیا تھی تو نے پوچھا نہیں بھاگوان۔‘‘
’’خود ہوتے تو پوچھ کر دیکھ لیتے۔‘‘ پریما دیوی نے کہا۔
’’کیوں… کیا تیرے میکے سے آئے تھے…؟‘‘
’’نہیں سسرال سے آئے تھے۔ ورنہ ایسے نہ ہوتے۔‘‘
’’کیسے…؟‘‘ گنگادھرجی نے کہا
’’آنکھیں چیپڑ بھری ہوئی۔ دانت پیلے، گنجی کھوپڑی، سوکھا بدن، چہرے سے بُھتنے لگ رہے تھے پورے۔‘‘ پریما دیوی نے کہا اور گنگا رام جی جھینپ کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگے پھر بولے۔ ’’زبان بہت لمبی ہوگئی ہے تیری۔ تھوڑی سی کاٹنی پڑے گی… ہیں۔‘‘
’’وہ بھی کاٹ لینا۔ مگر بسترا سمیٹو۔‘‘
’’اری چپ بیٹھ، تو بائولی ہوگئی ہے تو کیا سب بائولے ہوگئے ہیں۔ رکمنی بٹیا تو بتا کون تھا وہ…؟‘‘
’’عجیب سا تھا تائو۔ صورت سے واقعی شیطان نظر آتا تھا۔‘‘
’’ارے نا بٹیا نا… ایسے نہیں کہتے حلیہ تو سادھوئوں جیسا تھا۔ ارے ہاں ماتھر بیٹا… تو نے اس کے کمنڈل میں کیا دیکھا تھا…؟‘‘
’’ایں… ہاں تائو جی… اس کا کمنڈل مکڑیوں سے بھرا ہوا تھا۔ پیلی پیلی زندہ بجبجاتی ہوئی مکڑیاں۔ رام رام…‘‘ ماتھر نے کراہیت سے ناک سکوڑتے ہوئے کہا۔ مگر میں چونک پڑا۔
’’مکڑیاں…؟‘‘
’’ہاں مسعود بھیّا۔ ابھی تک من اُلٹ رہا ہے۔‘‘ ماتھر سینہ ملتا ہوا بولا۔
’’بڑی عجیب بات ہے۔ مگر تم لوگوں سے بھولے سے بھی عقل کا کوئی کام نہیں ہوتا۔ ارے جب ہمیں بلایا تھا تو انہیں روک لیتے کسی طرح بہلا پھسلا کر۔ ہم بھی ملتے ان سے پوچھتے کہ مہاراج یہاں سے جانے کو کیوں کہہ رہے ہو۔ کوئی بھول ہوئی ہے ہم سے، کوئی کشٹ پڑنے والا ہے ہم پر… آخر تمہاری اس چتائونی کا کارن کیا ہے۔ مگر تم لوگوں کو اتنی عقل ہو تب نا۔‘‘
’’عقل تو سب تمہارے حصے میں آگئی۔ ہم میں کہاں سے ہوگی۔ ارے وہ تو خود ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے۔ یواں آئے اور یوں چلے گئے۔ چلو یہاں سے ورنہ کچھ ضرور ہو جائے گا۔‘‘ پریما دیوی بولیں۔
’’یوں آئے… یوں چلے گئے اور اب ہم چلیں یہاں سے۔ عرس ختم ہونے سے پہلے کوئی نہیں جائے گا۔ سادھو سنتوں کی سیوا کرنی چاہئے۔ مگر تو نے سوچا ہوگا خرچہ ہوگا۔‘‘ گنگاجی نے منہ بگاڑ کر کہا۔ پھر خاموش ہو کر ثریا کو دیکھنے لگے جو جھجھکتی ہوئی اندر داخل ہوئی تھی۔
’’دیکھو، میں کہتی ہوں چلنا اچھا ہوگا۔ کہیں کچھ اور نہ ہو جائے۔‘‘
’’تیرے کہنے سے کیا ہوتا ہے۔ دوبارہ ملیں گے وہ مہاراج تو ان سے پوچھ لیں گے۔‘‘
وہ باتیں کر رہے تھے مگر میرا ذہن کہیں اور تھا۔ مکڑیاں، پیلی پیلی مکڑیاں، بھوریا چرن کا نشان تھیں اور جو حلیہ بتایا گیا تھا وہ بھی اس کے علاوہ اور کسی کا نہیں تھا۔ لیکن وہ ناپاک جادوگر یہاں… اور … پھر اس کا اس جگہ آنا۔ یقیناً وہ میری یہاں موجودگی سے واقف ہوگا۔ کیا اس نے میری وجہ سے ان لوگوں کو یہاں سے جانے کو کہا ہے۔ پریما دیوی اور گنگادھرجی حسب عادت لڑ رہے تھے۔ رکمنی نے کہا۔
’’حد ہے تائو جی… آپ لوگوں میں تو جنم جنم کا بیر ہے۔ بس کوئی بات مل جائے لڑنے کیلئے۔‘‘
’’ہاں سارا دوش میرا ہوتا ہے۔ اس سادہ تری کو کوئی کچھ نہیں کہتا۔ اری ثریا تو چائے کا پانی چڑھا جا کر… اس عورت نے تو بھیجہ پگھلا کر رکھ دیا ہے۔‘‘
’’ہم واپس چلیں گے بس…!‘‘ پریما دیوی نے کہا۔
’’اکیلی چلی جائو… ہم میں سے کوئی نہیں جائے گا۔ کہہ دیا ہم نے۔‘‘ گنگادھر نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔
’’اکیلی ہی چلی جائو۔‘‘
’’سیدھی میکے جانا۔ میرے گھر میں وہ رہے گا جو میری مرضی پر چلتا ہو۔‘‘ بات آگے بڑھنے لگی تھی۔ ماتھر گنگادھر کو چھولداری سے باہر لے گیا۔ رکمنی نے مجھے دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا۔
’’پسند آئے ہمارے تائو اور تائی۔ ساری باتیں کرلیں گے مگر ایک دوسرے کے بنا پل بھر نہیں جی سکیں گے۔ ارے آپ ہی ہنس دیں۔ رُت بدل جائے گی۔‘‘
’’بات سوچنے کی ہے رکمنی جی…!‘‘ میں نے کہا۔
’’ہاں ہے تو… خود میری سمجھ میں بھی کچھ نہیں آیا۔‘‘
’’میرے خیال میں گنگارام جی کو مان لینا چاہئے۔ کوئی بات بلاوجہ نہیں ہوتی آخر اس سادھو کے آنے کا کوئی مقصد تو ضرور ہوگا۔‘‘
’’یہی تو میں کہتی ہوں۔ مگر… دیکھ لیا تم لوگوں نے۔ کیا سلوک ہوتا ہے میرے ساتھ۔‘‘ پریما دیوی بسورتے ہوئے بولیں۔
’’آپ چنتا نہ کریں ہم تائو جی کو سمجھائیں گے۔‘‘
’’ارے جسے بھگوان نہ سمجھا سکا اسے کون سمجھائے گا۔‘‘ پریما دیوی نے بدستور بسورتے ہوئے کہا۔ اتنی دیر میں ثریا چائے لے کر آ گئی۔ میری نگاہیں بے اختیار اس کے چہرے کی طرف اُٹھ گئیں۔ وہ میرے سامنے ٹرے لے کر آ گئی جس میں تین پیالے رکھے ہوئے تھے۔ مجھ سے نگاہیں ملیں تو وہ کپکپا سی گئی جس کا احساس پیالوں سے چائے چھلکنے سے ہوا تھا۔ میں نے اپنا پیالہ اُٹھا لیا۔ ثریا نے پریما دیوی اور رکمنی کو چائے دی اور کسی قدر لڑکھڑاتی ہوئی باہر نکل گئی۔
’’میں باہر جائوں رکمنی جی…!‘‘
’’ہاں ضرور… میں بھی آ رہی ہوں۔‘‘ رکمنی نے کہا اور میں پیالہ سنبھالے ہوئے باہر نکل آیا۔ کچھ فاصلے پر ماتھر، دھرما اور رام جی گنگادھرجی کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ گنگادھر پرجوش لہجے میں کہہ رہے تھے۔
’’چلے جاتے مگر ہم بھی ہٹ کے پکے ہیں۔ اب تو عرس کے ختم ہونے کے بعد ہی جائیں گے۔‘‘
’’عرس بھی ختم ہونے والا ہے گنگاجی۔‘‘ میں نے اُٹھتے ہوئے کہا۔
’’دیکھ رے بھائی۔ تو آیا ہے اندر سے۔ کان بھرے ہوں گے تیرے، گنگاجی اگر ضدی نہ ہوتے تو آج نہ جانے کیا ہوتے۔ اب تو عرس ختم ہونے کے بعد ہی جائیں گے۔ کوئی بھیج کے تو دیکھ لے ہمیں۔‘‘ ایسا لہجہ تھا گنگارام کا کہ اس کے بعد کچھ کہنے کی گنجائش نہیں رہی۔ پریما دیوی نے بھی ساری کوششیں کرلیں مگر گنگادھر ٹس سے مس نہ ہوئے۔ سب ہار گئے۔
رات ہوگئی۔ کھانا وغیرہ کھایا گیا۔ ماتھر اور رکمنی خوب شرارتیں کرتے تھے۔ وہ شرارتیں کرتے رہے۔ پریما دیوی کو گنگادھر سے لڑاتے رہے میں بھی ہنس رہا تھا۔ کھانے وغیرہ سے فراغت حاصل کر کے دیر تک باتیں ہوئیں مکڑیوں والے سادھو کے بارے میں قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں۔ وہ لوگ طرح طرح کی باتیں کر رہے تھے لیکن میرے ذہن میں کچھ اور ہی خیال تھا۔ میری چھٹی حس بتا رہی تھی کہ وہ سادھو بھوریا چرن کے سوا کوئی نہیں تھا۔ کمبخت نے میرا پیچھا نہیں چھوڑا تھا۔ ہو سکتا ہے مجھ پر حملہ بھی اسی کی کوئی سازش ہو۔ اب وہ میری موت کے سوا اور کیا چاہتا تھا۔ مہاوتی اور اس کی باتیں میں سن چکا تھا۔ اس کے کہنے کے مطابق میری وجہ سے کالا علم خطرے میں پڑ گیا تھا۔ وہ لوگ اپنے طور پر باتیں کرتے رہے اور میں بھوریا کے بارے میں سوچتا رہا۔ سب سونے لیٹ گئے۔ میں اُلجھا ہوا تھا۔ کسی قدر بے چین تھا۔ کچھ
کے بعد میں اُٹھا اور چھولداری سے باہر نکل آیا۔ دھرما اور رام جی باہر گہری نیند سو رہے تھے۔ میں وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ مزار شریف پر قوالیاں ہو رہی تھیں۔ قوالوں کی آواز ہوا کے دوش پر آ رہی تھی۔ سو جانے کو جی نہ چاہا فاصلہ کافی تھا۔ پھر بھی کافی دُور نکل آیا اور بے مقصد گھومتا رہا۔ بھوریا چرن اگر یہاں موجود ہے تو میرے سامنے نہیں آئے گا۔ نہ جانے ان لوگوں کو یہاں سے بھگانے کا کیا مقصد ہے۔ ہو سکتا ہے اس کی وجہ میں ہی ہوں۔ مگر بات کچھ سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ کوئی ایک گھنٹہ بے مقصد گھومتا رہا پھر واپس چل پڑا۔ چھولداری سے کچھ فاصلے پر تھا کہ کسی سائے کو متحرک دیکھا اور ایک دَم ساکت ہوگیا۔ کون ہے؟ میں نے گھاس پر نگاہیں جما دیں پھر اسے پہچان لیا۔ ثریا تھی۔ نماز پڑھ رہی تھی۔ یہ آخر کون ہے، کس کے ظلم کا شکار ہوگئی ہے۔ قدم خودبخود آگے بڑھ گئے اور اس سے کچھ فاصلے پر پہنچ کر اسے دیکھنے لگا۔ وہ دو زانو بیٹھ گی۔ دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے اور دیر تک اسی عالم میں رہی پھرمیں نے اس کی سسکیاں سُنیں۔ وہ بری طرح سسک رہی تھی۔ میرا دل پگھلنے لگا۔ اس کا درد سینے میں محسوس ہو رہا تھا۔ دل بری طرح اس کی طرف کھنچ رہا تھا۔ وہ ہاتھ اُٹھائے سسکتی رہی۔ میں بے اختیار ہو کر اس کے قریب جا کھڑا ہوا۔ اسے جب میری موجودگی کا احساس ہوا تو وہ ایک دَم سہم کر اُٹھ کھڑی ہوئی۔ اس کے انداز میں وحشت تھی۔
’’نہیں ثریا۔ ڈرو نہیں۔ میں مسعود ہوں۔‘‘
اس نے گھبرائی ہوئی نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھا۔ میں ایک قدم اور آگے بڑھ آیا۔ ’’میں تمہارے لیے بے حد افسردہ ہوں ثریا۔ کاش میں تمہاری کوئی مدد کر سکتا۔ میں… میری سمجھ میں نہیں آتا کیا کہوں۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ تمہیں کیا دُکھ ہے۔ ثریا میرا دل چاہتا ہے کہ تمہارے تمام دُکھ دُور کر دوں۔ میں نے تمہیں مزار پر بھی دیکھا تھا۔ تمہارے بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم مجھے۔ نہ جانے کون ظالم تھے جنہوں نے تمہارے ساتھ یہ سلوک کیا۔ کاش مجھے ان کے بارے میں معلوم ہو جائے۔‘‘
قریب سے میں اسے دیکھ سکتا تھا۔ اس کے رُخساروں پر آنسوئوں کی دھاریں بہہ رہی تھیں۔ میں اس کے بالکل قریب آ گیا۔ ’’مجھے بتائو ثریا کیا کروں میں تمہارے لیے۔‘‘ وہ روتی آنکھوں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں عجیب سی کیفیت تھی۔ پھر اس کا سر آہستہ آہستہ جھکا۔ اس نے اپنی پیشانی میرے سینے سے ٹکا دی۔ دل پھٹنے لگا۔ ایک دَم خواہش پیدا ہوئی کہ اسے سینے میں چھپا لوں، کچھ بھی نہیں تھا میں اس کا۔ پہلی بار براہ راست مخاطب ہوا تھا۔ مگر اس طرح میرے سینے سے سر ٹکانے میں بڑی اپنائیت تھی۔ نہ جانے اس کے دل میں کیا ہے۔ مگر میرے ہاتھ نہ اُٹھ سکے۔ وہ اپنی آنکھیں میرے سینے سے رگڑتی رہی پھر ایک دم چونکی گردن اُٹھا کر مجھے دیکھا۔
’’ثریا… تم لکھنا پڑھنا جانتی ہو۔‘‘ اس نے آہستہ آہستہ اثبات میں گردن ہلائی۔ ’’تم نے لکھ کر کسی کو اپنے بارے میں کچھ نہیں بتایا؟‘‘ اس نے نفی میں گردن ہلا دی۔ ’’کیوں…؟‘‘ میں نے پوچھا… اور اس نے اپنے دونوں ہاتھ اُٹھا کر سامنے کر دیئے۔ ’’ہاں مجھے معلوم ہے۔ گنگادھرنے مجھے بتایا تھا کہ تمہاری اُنگلیاں بھی کاٹ دی گئی تھیں۔ کیا اس لیے کہ تم کسی کو لکھ کر کچھ نہ بتا سکو۔‘‘ اس نے پھر ہاں میں گردن ہلائی۔ ’’مگر اب تو تمہاری اُنگلیاں ٹھیک ہیں۔ اب تو تم بتا سکتی ہو۔‘‘ وہ مجھے خاموشی سے دیکھتی رہی۔ پھر زور زور سے نفی میں گردن ہلانے لگی۔ ’’کیوں… خود پر ظلم کرنے والوں سے ڈرتی ہو؟‘‘ اس نے گردن جھکا لی۔ ’’انہیں جانتی ہو تم…؟‘‘ میں نے پوچھا۔ اور اس نے انکار کر دیا۔ ’’اوہ…‘‘ میں آہستہ سے بولا۔ کچھ دیر خاموش رہا۔ پھر میں نے کہا۔ ’’تمہیں ایک کام کرنا ہوگا ثریا۔ کل میں تمہیں لکھنے کا سامان فراہم کروں گا۔ تم پر جو بیتی ہے وہ لکھ کر مجھے بتا دینا۔ ثریا مجھ پر بھروسہ کرو۔ میں تمہارے لیے کچھ کرنا چاہتا ہوں۔ میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ تمہارے دُکھ دُور کر کے رہوں گا۔‘‘ وہ سیاہ چمکدار آنکھوں سے مجھے دیکھتی رہی۔ پھر اس نے آگے بڑھ کر میرا ہاتھ پکڑا اسے آنکھوں سے لگایا اور تیزی سے مڑ کر چھولداری میں چلی گئی۔
میرے ہاتھ کی پشت میں آگ لگ گئی تھی۔ اس کی آنکھوں کی جلن جیسے میرے ہاتھ سے چپک گئی تھی۔ میں اپنا ہاتھ پکڑ کر مسلنے لگا۔ ایک انوکھی لذت پوشیدہ تھی اس جلن میں۔ دُنیا سے بے خبر ہوگیا تھا۔ پتھرا گیا تھا۔ دل کی دھڑکن بری طرح بے ترتیب ہوگئی تھی۔ ایک بالکل اجنبی احساس جاگا تھا سینے میں۔ اس سے پہلے کبھی یہ کیفیت نہیں ہوئی تھی۔ کون ہے۔ نہ جانے کون ہے۔ خاموش تھی۔ ساکن تھی۔ میری طرف متوجہ بھی نہیں تھی۔ یہ اچانک کیا ہوگیا۔ کیا ان چند دنوں میں اس کے سینے میں کوئی جذبہ جاگا تھا۔ کونسا جذبہ تھا وہ۔ اس نے اپنا سر میرے سینے سے لگایا تھا۔ کیا مجھے اس کے بارے میں پتہ چل سکتا ہے۔ کیا اس کے بارے میں میری رہنمائی ہو سکتی ہے۔ خیال ہی نہیں آیا تھا اس بات کا۔ یہ خیال بھی نہیں آیا تھا کہ خود پر حملہ کرانے والے کے بارے میں کلام الٰہی سے رہنمائی حاصل کروں۔ کوئی حرج تو نہیں ہے اس میں۔ خود سے سوال کیا اور پھر آنکھوں میں اس کا چہرہ اُبھر آیا۔ نہ جانے کتنی دیر اس کے بارے میں سوچتارہا۔ دل مچل رہا تھا اس کے لئے۔ آرزو کر رہا تھا کہ وہ دوبارہ باہر آ جائے۔ اسے زبان مل جائے وہ مجھ سے باتیں کرے۔ آہ شاید اس بار کوئی اور ہی جذبہ جاگا تھا سینے میں۔ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ وہ میرے دل کی گہرائیوں میں اُتر گئی تھی۔ ہاں ایسا ہوگیا تھا۔ ایک انوکھی بے کلی طاری ہوگئی۔ ایک گوشہ منتخب کیا، وہاں بیٹھ گیا۔ درود شریف کا ورد کیا۔ آنکھیں بند کرلیں۔ دل سے آواز اُبھری۔
مناسب نہیں ہے۔ نافرمانی کے راستے اپنا رہا ہے۔ کیا تجھے اجازت ہے کہ اپنے نفس کی خواہشات پوری کرے۔ اپنے لیے کچھ کرے۔ اگر کسی کیلئے تیرے دل میں آگ اُبھرے تو وہ تیرے ماں باپ بہن بھائی ہوں کہ… وہ اوّل ہیں۔ ان سے گریز کر کے اپنی خواہشوں کی طرف لپک رہا ہے۔ پھر بھٹک رہا ہے۔
پورے بدن پر لرزہ طاری ہوگیا۔ آنکھیں خوف سے کھل گئیں۔ دل اُچھل رہا تھا۔ خود کو سنبھالے نہ سنبھال پا رہا تھا۔ اچانک کانوں میں ایک چیخ اُبھری۔
’’آگ۔‘‘ دماغ بھک سے اُڑ گیا۔ آواز اندر سے آئی تھی۔ پھر فوراً ہی نتھنوں سے کپڑا جلنے کی بو ٹکرائی اور چھولداری سے آوازیں بلند ہونے لگیں۔ ’’آگ لگ گئی۔ آگ ارے اُٹھو۔ دھرما، رام جی۔ ماتھر۔ ارے اُٹھو۔ آگ… آگ۔‘‘ آواز پریما دیوی کی تھی۔
اعصاب پر قابو پانا مشکل ہوگیا۔ ایک طرف دل میں اُبھرنے والی آواز، دُوسری طرف پریما دیوی کی چیخیں۔ عجیب اعصاب شکن ماحول پیدا ہوگیا تھا۔ اندر مدھم لیمپ ہمیشہ جلتا رہتا تھا۔ اس وقت بھی روشنی تھی۔ دھرما اور رام جی بدحواس ہو کر اندر بھاگے۔ میں بھی خود کو کسی نہ کسی طرح سنبھال کر اندر داخل ہوگیا۔ عجیب منظر تھا۔ آگ کا ایک شعلہ بھی نہیں تھا لیکن آگ لگی ہوئی تھی۔ بالکل ایسے جیسے جلی ہوئی ماچس کی تیلی سلگتی ہے۔ یہ آگ ہر طرف تھی۔ گدے جل رہے تھے۔ سوٹ کیس پگھل رہے تھے۔ بدبو پھیل رہی تھی لیکن شعلہ نہ تھا۔ سب دہشت سے آنکھیں پھاڑے یہ آگ دیکھ رہے تھے اور کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔
’’بجھائو۔ ارے بجھائو۔ ہائے سب جل گیا۔ ارے سب جل گیا۔‘‘ پریما دیوی چیخیں۔
’’تو نے آواز بند نہ کی تو تیری منڈیا پکڑ کر اسی سوٹ کیس پر رکھ دوں گا۔ آس پاس کے لوگوں کو جمع کرےگی کیا۔‘‘
’’ارے کر لو ظلم، جتنا من چاہے کر لو۔ ہائے سب جل گیا۔ ارے آگ تو بجھا دو۔ سب کھڑے
دیکھ رہے ہو۔‘‘
سب کو جیسے ہوش آ گیا۔ رام جی، ماتھر اور دھرما پانی لینے دوڑے اور پھر ہر چیز پر پانی اُنڈیل دیا گیا۔ آگ بجھ گئی۔ مگر سچ مچ سب تباہ ہو گیا تھا۔ گدّے جل گئے، سوٹ کیسوں میں رکھے کپڑے جل گئے۔ شکر تھا چھولداری بچ گئی تھی۔ پریما دیوی رونے لگیں۔
’’دیکھا نتیجہ ضد کا۔ دیکھ لیا۔ نہ جائو۔ جمے رہو یہاں۔ جل مرو سب کے سب۔ بھسم ہو جائو میرا کیا ہے۔ ارے ایسی آگ دیکھی نہ سنی۔ دیکھو یہ دیکھو ہر چیز جل گئی۔ ارے اب بھی سوچو گے کیا۔ اب بھی سوچو گے۔ ارے رام جی۔ دھرما رے۔ ارے چل بھیّا۔ میکے میں پہنچا دے مجھے۔ ارے آگے ناتھ نہ پیچھے پگا۔ اکیلی جی لوں گی۔ ہائے سب جل گیا۔ میری ساڑھیاں بچوں کے کپڑے۔ اور ضد کرو۔‘‘
’’رام رام رام۔ بھیّا عورت ہے کہ بھونپو، رُکے بغیر بولے جا رہی ہے۔ کیا دُشمنی ہے آخر ان سادھو مہاراج سے ہماری۔ ارے کوئی کارن تو بتائے، ایسے ہی چل پڑیں۔‘‘ گنگا جی بولے۔
’’گیانی مہاراج۔ اے گیانی مہاراج۔ تم پوچھتے رہو دُشمنی دوستی۔ چلو رے بچو۔ چلو سب کو مروا دیں گے۔‘‘
’’تو کترنی کو لگام دے گی کہ نہیں۔ تم بھی تو کچھ بولو رے۔ مگر یہ بولنے دے تب نا۔‘‘
’’چلنا چاہئے تائو جی۔ ایسی آگ دیکھی نا سُنی۔‘‘
’’ٹھیک ہے رہے مہان آتما۔ ٹھیک ہے صبح ہوتے ہی چلے جائیں گے۔ بس سورج نکل آنے دو۔‘‘ گنگادھر نے ہاتھ جوڑ کر سر سے اُوپر کرتے ہوئے کہا۔ میں خاموشی سے ثریا کو دیکھ رہا تھا۔ خاموش کھڑی تھی۔ میرا دل اس کی طرف کھنچ رہا تھا۔ رو رہا تھا اس کیلئے۔ تڑپ رہا تھا، سسک رہا تھا۔ کیا ہوگیا ہے مجھے۔ کیا ہوگیا ہے۔ سب کچھ چھنا جا رہا ہے۔ سرکشی کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ سب کچھ فراموش کرنا تھا۔ سب کچھ بھول جانا تھا۔ آنکھوں میں نمی اُتری ہوئی تھی۔
گنگادھر جی باہر نکل گئے۔ میں بھی ان کے ساتھ باہر نکل گیا۔ گنگادھر نہ جانے کیا بڑبڑا رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر بولے۔ ’’تو ہمارے ساتھ چلے گا پوت۔‘‘
’’میں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’تو کہاں جائے گا، تجھے کیا چنتا۔‘‘
’’ہاں میں یہاں رُکوں گا۔‘‘
’’اچھے بھگائے جارہےہیں ہم۔ ارے کیا بگاڑ رہے تھے کسی کا۔ جانا تو تھا آرام سے جاتے۔ چلو ٹھیک ہے جو بابا کی مرضی۔‘‘ اندر اُٹھا پٹخ ہو رہی تھی۔ ویسے میں دیکھ چکا تھا سارا سامان جل چکا تھا، بے چاروں کو یہ نقصان میری وجہ سے اُٹھانا پڑا تھا۔ (جاری ہے)