’’تم خورجے آئو گے مسعود۔ آئو تو ہمارے پاس ضرور آنا۔‘‘
گنگادھر نے نہ جانے کیا کیا کہا۔ میں کچھ نہیں سمجھ رہا تھا۔ بس سوچ رہا تھا کہ یہاں رُکنے سے کیا فائدہ۔ جانا ہے تو انتظار کیسا۔ ابھی چلا جائے۔ بیکار ہے رُکنا۔ کچھ نہیں ہے۔ یہ دُنیا میرے لیے نہیں ہے۔ سب کچھ چھن گیا ہے مجھ سے۔ سب کچھ چھن گیا ہے۔ بیکار ہے سب بیکار ہے وہیں سے پلٹا اور آگے بڑھ گیا۔ گنگادھر سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ میں اس طرح چل پڑوں گا۔ وہ یہی سمجھے ہوں گے کہ کہیں آس پاس جارہا ہوں۔ واپس جائوں گا۔ مگر میں چلتا رہا۔ بہت دُور نکل آیا۔ اتنا دُور کہ کوئی تلاش نہ کر سکے۔ مزار کے عقب میں پہنچ گیا۔ اس طرف کبھی نہیں آیا تھا۔ ایک گوشے میں پناہ لی۔ یہاں بھی ڈیرے جمے ہوئے تھے۔ خلقت ہر جگہ موجود تھی۔ ایک جگہ زمین پر لیٹ گیا۔ رونے کو جی چاہ رہا تھا، بلک بلک کر روتا رہا۔ ثریا یاد آ رہی تھی۔ سینے پر اس کے سر کا لمس، ہاتھ پر اس کی آنکھوں کا لمس زندہ تھا۔ بے کلی ساتھ نہیں چھوڑ رہی تھی۔ اُٹھا اور نماز پڑھنے کھڑا ہو گیا۔ ساری رات پڑھتا رہا۔ سورج نکل آیا۔ دُھوپ نکل آئی۔ دوپہر ہوگئی۔ اپنی جگہ بیٹھا رہا۔ پھر کسی نے شانہ ہلایا۔
’’میاں صاحب یہ لے لیجئے۔‘‘ آنکھیں کھول کر دیکھا۔ بینائی ساتھ نہ دے پا رہی تھی۔ دُھندلا نظر آ رہا تھا۔ چند خاکے سامنے کھڑے تھے۔
’’کیا ہے؟‘‘ بمشکل کہا۔
’’دال دلیا ہے میاں صاحب۔‘‘
’’شکریہ بھائی۔ حاجت نہیں ہے۔‘‘
’’لے لو میاں صاحب۔ غریب کا دل نہ توڑو۔‘‘
’’بھائی بہت شکریہ۔ ضرورت نہیں ہے۔‘‘
’’نہیں میاں صاحب۔ رات سے اسی طرح بیٹھے ہو۔ ہلے بھی نہیں ہو اپنی جگہ سے۔ انتڑیاں اینٹھ گئی ہوں گی ایمان کی قسم۔‘‘
’’ایں۔‘‘ میں نے چونک کر کہا۔
’’ہاں رات کو قوالیوں سے لوٹا تو دیکھا تھا تمہیں۔ تین بار آنکھ کھلی تو ایسے ہی دیکھا۔ صبح سے ایسے ہی بیٹھے ہو۔ لو میاں صاحب لے لو۔ ہم بھی مسلمان بھائی ہیں۔‘‘
’’جی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
’’لے لو میاں صاحب۔ تمہیں بابا شاہجہاں کا واسطہ۔ اماں اتنی خوشامد کر رہے ہیں مان لو۔ ہماری بھی خوشی ہو جائے گی۔‘‘
دل ڈُوبا ڈُوبا سا تھا۔ پیٹ بے شک خالی تھا لیکن کچھ کھانے کو جی نہیں چاہتا تھا لیکن وہ شخص اس طرح اصرار کر رہا تھا کہ مجبور ہوگیا۔ جو دیا کھانے لگا اور کچھ دیر کے بعد شکم سیر ہوگیا۔ اس نے پانی بھی پلایا تھا۔
’’ہمارے حق میں دُعائے خیر کرنا میاں صاحب۔ اٹھارہ سال ہوگئے تھے بیاہ کو، اولاد نہیں ہوئی تھی۔ بابا جی کے مزار پر منت مانی، بیٹا مل گیا اللہ کے فضل سے۔ منت پوری کرنے آئے تھے۔ لونڈے کا نام فضل الدین رکھا ہے۔ ہمارا نام کمال الدین پہلوان ہے۔ خورجے کے رہنے والے ہیں۔ نام ہے اپنا۔ ہماری دُعا سے خورجے کے اسٹیشن پر اُتر کر کمالے پہلوان کا اکھاڑہ پوچھ لو، سیدھے پہنچ جائو گے اور کوئی ضرورت ہو تو بتا دو۔‘‘
’’نہیں بھائی۔ تمہارا بہت بہت شکریہ۔‘‘
’’دُعا ضرور کرنا۔ بس چلتے ہیں۔‘‘ وہ سلام کر کے واپس مڑ گیا۔ میں نے اس کی آواز سنی۔ ’’اماں عمر چھوٹی ہے تو کیا۔ دیکھتے نہیں کتنے عبادت گزار ہیں۔ پہنچے ہوئے ایسے ہی ہوتے ہیں۔‘‘ اس کی آواز دُور ہوگئی۔ پیٹ بھرا تو آنکھوں میں کچھ روشنی جاگی۔ دل کو سنبھالنے لگا۔ کیا ہو رہا ہے یہ کیا ہو رہا ہے۔ دل اتنا بے اختیار کیوں ہوگیا تھا۔ ایک صورت آنکھوں میں بسی تو اتنا بے بس ہوگیا لیکن اس دل کو سنبھالنا تھا، اس دشت ویراں میں کسی کا بسیرا نہیں ہونا چاہئے۔ جو کیا گیا درست ہی تو ہے۔ ماں باپ، بہن بھائی کیلئے تو دل کو سمجھا لیا مگر اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ سارے کئے دھرے پر پانی پھر جائے گا۔ ثریا کیلئے دل میں صرف ہمدردی نہیں تھی۔ جس طرح بے اختیار ہوگیا تھا اس سے کچھ اور ہی احساس ہو رہا تھا۔
کراہتا ہوا اپنی جگہ سے اُٹھ گیا اور مزار شریف کی طرف چل پڑا۔ بابا صاحب کے قدموں میں ہی سکون مل سکتا تھا۔ چلتا رہا سوچتا رہا۔ گنگادھر نے سوچا ہوگا کہ خودغرض اور ناسپاس ہوں، بے مروت ہوں، ملے بغیر خاموشی سے چلا آیا۔ مگر ان سے رُخصت ہونے کے لمحات شاید کچھ اور زخم لگا دیتے۔ نہ جانے کس طرح بے اختیار ہو جاتا۔ کچھ اور گناہ ہو جاتے۔ اور … اور نہ جانے نہ جانے ثریا نے کیا سوچا ہوگا۔ رفتار تیز کر دی۔ جلد از جلد بابا جی کے قدموں میں پہنچ جانا چاہتا تھا۔ پہنچ گیا۔ بیٹھ گیا۔ آنکھیں بند کرلیں۔ دہائی دینے لگا۔ سکون مانگ رہا تھا۔ رفتہ رفتہ قرار آنے لگا۔ زائرین جوق در جوق آ رہے تھے۔ رات ہوگئی۔ خوب رات ہوگئی۔ قوالی جم گئی۔ لوگ مزار سے ہٹ گئے۔ ہارمونیم اور ڈھولک کی ملی جلی آوازوں کے ساتھ قوالوں کے سُر سنائی دینے لگے۔ کیا گا رہے تھے کچھ اندازہ نہیں تھا۔ ٹوٹا ٹوٹا تھا، خود پر سے اعتماد اُٹھ گیا تھا۔ سب
کچھ جانے کے بعد سب کچھ کھونے کا خوف دل میں بیدار ہوگیا تھا۔ تھک گیا تو اُٹھ گیا۔ ایک پرسکون گوشہ تلاش کیا۔ لیٹ گیا۔ نیم غشی سی طاری تھی۔ سو جانا چاہتا تھا۔ بڑی مشکل سے نیند آئی۔ صبح کو جاگا۔ حالت کسی قدر بہتر ہوگئی تھی۔ جیب میں ہاتھ ڈالا تو چار روپے موجود تھے۔ بڑا کھرا حساب کتاب تھا، جن دنوں گنگادھر جی کے ذمے کھا رہا تھا۔ وظیفہ نہیں ملا تھا مگر آج چار روپے موجود تھے۔ ایک دم دل میں خوشی جاگ اُٹھی۔ وظیفہ ملا ہے اس سے یہ اندازہ ہوا کہ ناخوشی نہیں ہے۔ قابل معافی ہوں، بروقت سنبھل گیا ہوں۔ حکم ماننے والوں میں تصور کیا گیا ہوں۔
’’باباجی ناشتہ کرو گے؟‘‘
’’نہیں بھائی فقیر نہیں ہوں۔‘‘ جواب دیا۔ اپنی جگہ سے اُٹھا چائے ڈبل روٹی خریدی، ناشتہ کیا۔ کل بارہ آنے خرچ ہوئے تھے۔ دن آسانی سے گزرے گا کوئی اور حکم نہیں ملا تھا۔ جب تک دُوسرا حکم نہ ملے۔ یہیں رہنا ہے کوئی کام نہیں سونپا گیا تھا۔ رہنمائی ضرور ہوگی یقین تھا۔ دن گزرا، کوئی شام کے پانچ بجے ہوں گے آس پاس لوگ موجود تھے۔ سب اپنے اپنے مشاغل میں لگے ہوئے تھے۔ اچانک عقب میں ایک سایہ سا محسوس ہوا، پلٹ بھی نہیں پایا تھا کہ ذہن پر دھماکہ سا ہوا۔ ایک آواز سنائی دی۔ کچھ سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ دُوسرا دھماکہ ہوا۔ کوئی شے دوسری بار سر پر لگی تھی۔ ایک دم شور مچا کچھ لوگ دوڑے۔ میں بادل ناخواستہ اُٹھ کھڑا ہوا۔ تب میں نے اسے دیکھا۔ نوجوان آدمی تھا۔ ہاتھ میں چری ہوئی لکڑی کا بڑا سا کندہ تھا، آنکھوں میں خون اُترا ہوا تھا۔ اس نے تیسری بار اس کے کندے سے میرے سر کا نشانہ بنایا۔ اس سے پہلے بھی شاید اس نے دو بار مجھ پر اس لکڑی سے بھرپور وار کیا تھا مگر اللہ کو بچانا مقصود تھا۔ دونوں وار خالی گئے تھے۔ تیسرا وار ان لوگوں نے روک لیا جو میری مدد کو پہنچے تھے۔ ایک آواز اُبھری۔
’’ابے پیچھے سے وار کرتا ہے بزدل کی اولاد۔ لکڑی پھینک دے بھوتنی والے، نئیں تو قینچی لگا کر گچی اُتار دیں گے۔ زندگی بھر گردن سیدھی نہیں کر سکے گا۔ ابے کمالے پہلوان کی قینچی ہے۔ ایرے غیرے کی نہیں۔‘‘ آواز بھی پہچان لی تھی، صورت بھی۔ کمال الدین پہلوان خورجے والے تھے۔ مجھے کھانا کھلا چکے تھے مگر یہ نوجوان کون ہے۔ میں نے کمال الدین پہلوان کے شکنجے میں پھنسے نوجوان کو دیکھا۔ انوں نے اس کی دونوں بغلوں میں ہاتھ ڈال کر گردن پر ہاتھ جما رکھے تھے اور نوجوان بے بس ہو گیا تھا۔ مگر یہ شکل، یہ صورت جانی پہچانی تھی۔ اسے پہلے بھی کہیں دیکھا تھا مگر کہاں؟
’’ابے گدُّا ابھی تک نہیں گرایا، کام کر ہی دیں تیرا کیا۔‘‘ کمالے پہلوان نے کہا۔ پھر برابر کھڑے ہوئے شخص سے بولا۔ ’’اماں چمن بھائی گدُّا
لے لو اس کے ہاتھ سے ورنہ میرے کو غصہ آ رہا ہے۔‘‘ دُوسرے آدمی نے نوجوان کے ہاتھ سے لکڑی چھین لی اور کمالے پہلوان نے نوجوان کو جھٹکا دے کر چھوڑ دیا۔ وہ اوندھے منہ گرا تھا اوراس کے بعد سیدھا نہیں ہوا تھا۔ ’’جان ہوتی نہیں سسروں میں اور خون خرابہ کرنے نکل پڑتے ہیں۔‘‘ پھر کمالے پہلوان نے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’میاں صاحب تم سے کیا دُشمنی ہوگئی اس کی۔ تم تو بڑے اللہ والے ہو؟‘‘
’’اللہ جانے۔‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔
’’اماں دیکھو چمن میاں، کیا ہوگیا اسے۔ منکا تو نہیں ٹوٹ گیا کہیں۔‘‘ پہلوان نے کہا۔ لکڑی چھیننے والے صاحب آگے بڑھ کر اوندھے پڑے ہوئے نوجوان کو سیدھا کرنے لگے مگر بجلی سی چمک گئی۔ نوجوان سیدھا ہوتے ہی اُچھلا اور اُٹھ کر بری طرح بھاگا۔
’’پکڑ لو۔‘‘ چمن میاں چیخے، مگر میں نے ان کا راستہ روک لیا۔
’’جانے دیجئے۔ بھاگ گیا۔ بھاگ جانے دیجئے۔‘‘
’’ہاں چھوڑو چمن میاں۔ مگر جھگڑا کیا تھا میاں صاحب؟‘‘
’’عرض کیا نا اللہ ہی جانتا ہے۔‘‘
’’تمہیں نہیں معلوم؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’عجیب بات ہے حالانکہ لکڑی اس نے ایسی تاک کر ماری تھی کہ اگر پڑ جاتی کہیں تو کتر گئے تھے قسم اللہ کی۔ کمال ہے لوگ اللہ والوں کو بھی نہیں چھوڑتے۔‘‘
جمع ہونے والے منتشر ہوگئے۔ مگر میرا ذہن بری طرح اُلجھ گیا۔ وہ رات یاد آئی جی مجھ پر خنجر سے حملہ ہوا تھا۔ کیا اس رات بھی حملہ آور یہی نوجوان تھا۔ وہ حملہ بھی جان لیوا تھا۔ اگر گنگادھر جی شور نہ مچاتے تو سوتے میں دوسرا وار ضرور کارگر ہو جاتا۔ اس وقت بھی اس نے اپنی دانست میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ کیوں آخر کیوں…؟ اس کی آنکھوں میں نفرت تھی۔ خون تھا۔ جیسے وہ مجھے ہر قیمت پر ختم کر دینا چاہتا ہو۔ اور اس کا چہرہ۔ وہ چہرہ دیکھا دیکھا کیوں لگ رہا تھا۔ کہاں دیکھا تھا میں نے اسے؟ کچھ یاد نہیں آیا۔ ذہن اس طرف سے ہٹا لیا۔ خود بھی وہاں سے ہٹ گیا۔
رات ہوگئی، حملہ آور بھاگ گیا تھا۔ وہ پھر کوشش کرے گا۔ زندگی ہوئی تو پھر اللہ بچنے کے اسباب پیدا کر دے گا اور اگر موت اسی طرح کسی کے ہاتھوں لکھی ہے تو کیا بری ہے، البتہ کھا پی کر لیٹا تو ذہن متضاد خیالات میں اُلجھا ہوا تھا۔ ثریا کی یاد دل میں کسکی، پھر اس نوجوان کا چہرہ آنکھوں میں اٹک گیا۔ اچانک کچھ مناظر اُجاگر ہوئے یہ کونسی جگہ ہے۔ غالباً کالی کنڈ تھا۔ مہاوتی کا کالی کنڈ…! مہاوتی ہاتھ میں خنجر لیے آگے بڑھ رہی تھی اور کالی کے مجسمے کے قریب کوئی گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھا تھا پھر بھوریا چرن نظر آیا۔
’’لنگڑی پورنی… سسری کچوندی ہے نری… اے چھورا… ہوش ٹھکانے آئے تیرے۔ اُٹھ کھڑا ہو… یہ اماوس کی رات پیدا ہوا ہے اور پائل ہے… میرے پاس سے بھاگا ہوا ہے یہ … اسے تلاش کرتے ہوئے یہاں آ گئے۔‘‘
دماغ کو اتنے زور کا جھٹکا لگا کہ پورا بدن ہل گیا۔ ایک دم اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ دل سینہ توڑ کر باہر نکلنے کیلئے بے تاب تھا۔ پہچان لیا تھا میں نے اسے۔ اچھی طرح پہچان لیا تھا۔ وہی نوجوان تھا جسے میں نے کالی کنڈ میں مہاوتی کا قیدی دیکھا تھا اور بھوریا چرن اسے وہاں سے لے گیا تھا۔
’’کمنڈل میں مکڑیاں بھری ہوئی تھیں۔ پیلی پیلی بے شمار مکڑیاں۔‘‘ ماتھر نے یہی کہا تھا۔ وہ بھوریا چرن ہی تھا۔ وہ یہاں موجود ہے۔ سب کچھ سمجھ میں آ گیا۔ میں نے اُٹھ کر پاگلوں کی طرح دوڑنا شروع کر دیا۔ رُخ مزار کی طرف تھا۔ پیروں میں کسی طاقتور گھوڑے جیسی قوت آ گئی تھی اور میں قلانچیں بھر رہا تھا۔ مزار پر قوالیاں ہو رہی تھیں۔ لوگ قوالوں کے گرد جمع تھے میں مزار مبارک کے پاس جا پہنچا۔ بے چین نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ قرب و جوار میں کوئی موجود نہیں تھا۔ سب قوالیوں میں مگن تھے۔ میں نے ایک ایسے ستون کی آڑ میں جگہ بنا لی جہاں سے مزار پر نظر رکھی جا سکے۔ مزار شریف کے عقب میں طاق بنے ہوئے تھے۔ میری نگاہوں نے ان طاقوں کا طواف کیا۔ تمام طاق خالی تھے۔ دل میں بہت کچھ تھا۔ یہاں آ کر سکون ہوا تھا۔ وقت سے پہلے آ گیا تھا۔ یقیناً وقت سے پہلے آ گیا تھا۔ سب کچھ سمجھ میں آ گیا تھا۔ سانسیں درست کرتا رہا۔ رات گزر گئی صبح ہوگئی۔ اپنی جگہ سے نہیں ہٹا۔ ایک لمحہ نہیں ہٹنا چاہتا تھا۔ انتظار کروں گا خواہ کتنا ہی وقت گزر جائے۔ شام ہوگئی۔ بھوکا پیاسا تھا مگر فکر نہیں تھی عادت تھی، کوئی پریشانی نہیں تھی بس نگرانی کر رہا تھا۔ وقت آ گیا۔ میرا خیال دُرست نکلا۔
مغرب کا وقت تھا۔ نمازیوں نے کچھ فاصلے پر صفیں بنا لیں تھیں۔ ایک شخص اذان کہہ رہا تھا۔ میں نے اس جگہ نماز ادا کی اور پھر آخری رکعت کے بعد سلام پھیرا ہی تھا کہ میں نے اسے آتے ہوئے دیکھا۔ سفید رنگ کی ملگجی چادر اوڑھے ہوئے۔ شبہے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ اکثر ایسے لوگ مزار پر آتے تھے، لیکن میرے دل نے کہا کہ انتظار ختم ہوگیا ہے عمل کا وقت آ گیا ہے۔ اس کا پورا جسم چادر میں ڈھکا ہوا تھا۔ ہاتھ بھی چادر کے اندر تھے۔ مزار مقدس کے عقب میں پہنچ کر اس نے اِدھر اُدھر دیکھا، میں نے اسے اچھی طرح پہچان لیا تھا۔ میں اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا ہوا۔ میں نے کسی بھوکے عقاب کی مانند پرتول لیے اور پھر جونہی اس نے اپنا ایک ہاتھ چادر سے باہر نکالا۔ میرے حلق سے ایک غضب ناک چیخ نکل گئی۔ میں برق کی طرح اس کی طرف لپکا۔ اس نے مجھے دیکھ لیا۔ پہچان لیا اور پھر ایک سمت چھلانگ لگا دی۔ وہ اپنا عمل مکمل نہیں کر سکا تھا۔ سامنے کی سمت بھاگنے کے بجائے وہ مزار کے عقبی حصے ک طرف دوڑا تھا۔ ایک پتلی سی جگہ مزار کے عقب میں جانے کیلئے بنی ہوئی تھی۔ پیچھے ایک چھوٹا سا احاطہ تھا چونکہ مزار ایک بلند ٹیلے پر بنا ہوا تھا، اس لئے احاطے کے بعد ڈھلان پھیلے ہوئے تھے۔ اس سمت بلندی تک آنے کیلئے سیڑھیاں نہیں بنائی گئی تھیں تاکہ لوگ اس طرف سے نہ آ سکیں۔ احاطے میں کوئی دروازہ بھی نہیں تھا۔ اس نے گردن گھما کر مجھے دیکھا۔ پھر اُچھل کر احاطے کی دیوار پر چڑھ گیا۔ پلک جھپکتے وہ دُوسری طرف ڈھلان میں کود گیا۔ میں جس جگہ تک پہنچا تھا۔ وہیں سے احاطے کی دیوار پر چڑھ گیا اور وہاں سے میں نے اسے ڈھلان میں لڑھکتے ہوئے دیکھا۔ بدحواسی کے عالم میں نیچے کودتے ہوئے وہ اپنا توازن نہیں قائم رکھ سکا تھا اور بری طرح گرا تھا۔ لیکن میں نے اس کی طرح بدحواسی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ مناسب جگہ دیکھ کر نیچے کودا اور تیزی سے اس کے عقب میں اُترنے لگا۔ دوسرے لوگوں کو اس بھاگ دوڑ کے بارے میں کوئی اندازہ نہیں ہوا تھا۔ اس لیے کوئی ہماری طرف متوجہ نہیں تھا۔ میں قدم جما کر نیچے اُترتا رہا اور اس کے ساتھ ساتھ دامن میں پہنچ گیا۔ وہ جس طرح گرا تھا اس سے مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ بری طرح زخمی ہو جائے گا۔ ایسا ہی ہوا تھا۔ ٹیلے کے دامن میں پہنچ کر وہ ساکت ہوگیا مگر میں نے اس پر توجہ دینے کے بجائے اس کے ہاتھوں کی طرف دیکھا۔ اس کے ہاتھ خالی تھے اور اس سے کچھ فاصلے پر وہی منحوس گڈا پڑا ہوا تھا۔ وہی گڈا جو میری تباہی کا باعث بنا تھا۔ بھوریا چرن کا وہ ناپاک پتلا جسے وہ مزار مقدس پر پہنچانا چاہتا تھا۔ ناقابل شکست سفلی قوتوں کے حصول کے لئے۔ خدا کا احسان تھا کہ اسے ایک بار پھرناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ میں نے شدت غضب سے دانت بھینچ کر اس پتلے کی طرف دیکھا۔ میں اس کے ناپاک وجود کو فنا کر دینا چاہتا تھا لیکن وہ میرے ارادے سے واقف ہوگیا۔ دوسرے لمحے اس ننھے سے پتلے نے اپنی جگہ سے چھلانگ لگا دی۔ وہ بہت تیزی سے بھاگ رہا تھا مگر میں بھی کسی گھوڑی کی رفتار سے اس کا پیچھا کرنے لگا۔ میں نے بھاگتے بھاگتے جھک کر ایک پتھر اُٹھایا ار نشانہ لے کر اس پر دے مارا،
ٹھیک لگا اور وہ اُچھل کر گرا۔
لیکن نیچے گرتے ہی وہ بری طرح لوٹنے لگا۔ میں یہی سمجھا کہ اس کے شدید چوٹ لگی ہے لیکن لوٹتے لوٹتے اس کا حجم گھٹنے لگا اور چشم زدن میں اس نے پیلے رنگ کی ایک بدشکل مکڑی کا رُوپ دھار لیا اور پھر تیزی سے رینگتا ہوا وہ قریب کی چٹان کے ایک ننھے سے سوراخ میں داخل ہوگیا تب میں اس کی شیطنیت سمجھا۔ میں سوراخ کے قریب پہنچ گیا۔ نیچے جھک کر میں نے سوراخ میں اُنگلی داخل کر دی مگر سوراخ بہت گہرا تھا۔ مجھ پر دیوانگی طارری تھی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کچھ فاصلے پر پڑا ہوا ایک وزنی پتھر اُٹھا کر میں اس سوراخ میں مارنے لگا۔ میں ہر قیمت پر اسے باہر نکالنا چاہتا تھا مگر اس پتھر کی ضربیں چٹان پر اثرانداز نہ ہو سکیں اور میرے ہاتھ میں دبا پتھر ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ اس ناکامی پر مجھے شدید جھنجھلاہٹ ہو رہی تھی۔ آہ کاش کچھ ہو سکتا۔ کیا کروں۔ اس سوراخ کے قریب آگ جلا دوں مگر کیسے، کوئی چیز نہیں تھی۔ پھر اتنا ضرور کیا میں نے کہ ٹوٹے پتھروں کے ٹکڑے سوراخ کے منہ پر رکھ کر اسے مضبوطی سے بند کر دیا اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔
آس پاس کوئی نہیں تھا۔ کسی نے اس بھاگ دوڑ پر توجہ نہیں دی تھی۔ کوئی سمجھ ہی نہیں پایا ہوگا کہ کیا ہو رہا ہے۔ میں سوراخ کو گھورتا رہا۔ بھوریا چرن کو باہر نکالنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ اور پھر کمبخت پراسرار شیطانی علوم کا ماہر ہے، نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچا ہوگا۔ وہ تو صرف میری پہنچ سے نکلنے کیلئے اس نے سوراخ کی پناہ حاصل کی تھی ورنہ اور بھی بہت کچھ کر سکتا تھا۔ پھر مجھے اس شخص کا خیال آیا جسے اس نے اپنے ناپاک ارادوں کی تکمیل کاذریعہ بنایا تھا۔ وہ زخمی ہوگیا تھا۔ پلٹ کر نگاہ دوڑائی تو اسے وہیں ساکت پایا۔ میں پلٹ کر اس کی طرف چل پڑا اور چند لمحات کے بعد اس کے قریب پہنچ گیا۔
میں نے وہاں بیٹھ کر اس کے زخموں کو دیکھا۔ نیچے گرنے کی وجہ سے جگہ جگہ سے بدن چھل گیا تھا۔ کپڑے خون میں ڈُوب گئے تھے۔ سر میں بھی چوٹ لگی تھی اور پیشانی سے خون بہہ رہا تھا۔ اپنے لباس سے کچھ پٹیاں پھاڑ کر میں نے اس کے زخموں پر باندھیں۔ ابھی اس کام سے فارغ بھی نہیں ہوا تھا کہ اُوپر سے کچھ آوازیں سنائی دیں۔ شاید کسی نے ادھر دیکھ لیا تھا۔ چند افراد سنبھل سنبھل کر نیچے اُترنے لگے۔
’’کیا ہوا… کیا ہوگیا۔‘‘ بہت سی آوازیں سنائی دیں۔
’’گر پڑا ہے۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’غلطی سے اس طرف آ گیا تھا…!‘‘ میں اس کے سوا اور کیا کہہ سکتا تھا۔
’’ہڈّیاں ٹوٹ گئی ہیں کیا۔‘‘
’’پتہ نہیں۔‘‘
’’ہٹو… میں دیکھتا ہوں۔‘‘ ایک شخص نے کہا اور لڑکے کے قریب بیٹھ کر اس کا بدن ٹٹولنے لگا۔ اس کے ہاتھ ماہرانہ انداز میں لڑکے کے بدن کو ٹٹول رہے تھے۔ پھر وہ بولا۔
’’نہیں ہڈّی نہیں ٹوٹی۔‘‘
’’تمہارا کون ہے یہ…؟‘‘
’’بھائی ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’ادھر آ کیسے گیا تھا…؟‘‘
’’دماغی توازن خراب ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔ اور بہت سے انسانوں کی ہمدردیاں حاصل ہوگئیں۔ میں نے جھوٹ نہیں بولا تھا۔ وہ مذہب کے رشتے سے میرا بھائی تھا اور اسی مشکل کا شکار ہوا تھا جس سے میں عرصہ دراز سے گزر رہا تھا۔ اس کے علاوہ وہ بھوریا چرن کے طلسم کا شکار تھا اور اس کا ذہن اس کے قبضے میں نہیں تھا۔
سب ہمدردی کا اظہار کرنے لگے۔ بے ہوش نوجوان کو اُٹھایا گیا اور ایک لمبا چکر کاٹ کر وہاں سے دُور مزار شریف کے سامنے والے حصے میں لے آیا گیا، اس کے تمام زخم دیکھ کر ان پر پٹیاں کی گئیں جس شخص نے اس کی ہڈّیاں دیکھی تھیں وہ ہڈّیوں کا علاج کرنے والا ایک پہلوان تھا۔ اس نے اپنے طور پر نوجوان کی دیکھ بھال کی اور دوائیں اور پتے وغیرہ اس کے زخموں پر کس دیئے۔ اسی اثنا وہ ہوش میں آ گیا۔ مجھے دیکھ کر اس کے انداز میں وحشت اُبھری لیکن میں نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر بڑی نرمی اورشفقت سے کہا۔
’’آرام سے لیٹے رہو۔ تمہارے چوٹیں لگی ہیں۔ شاباش، کوئی فکر مت کرو… سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اس کے بدن پر کپکپی طاری ہوگئی تھی۔ میں نے لوگوں سے درخواست کی کہ وہ میرے بھائی کو تنہا چھوڑ دیں ان کی مہربانیوں کا شکریہ۔ ایک ایک کر کے لوگ چلے گئے اور میں نوجوان کا جائزہ لینے لگا۔ اس کی ذہنی کیفیت کے بارے میں اندازہ لگا رہا تھا کہ وہ کس کیفیت میں ہے۔ آیا اس وقت بھی بھوریا چرن کے سحر کا شکار ہے یا آزاد ہے۔ اس کا جسم مسلسل کپکپا رہا تھا۔ ’’سردی لگ رہی ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔ وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر مجھے دیکھنے لگا۔ منہ سے کچھ نہ بولا۔ ’’کچھ کھائو گے۔‘‘ میں نے پھر سوال کیا۔
’’مار دو… مار دو۔‘‘ تم ہی مجھے مار دو… خدا کیلئے… خدا کے لیے مجھے اس اَذیت سے نجات دلا دو۔ خدا کے لیے، خدا کے لیے مجھ پر رحم کرو… مجھے مار دو مجھے ہلاک کر دو۔ ’’تمہارا بھلا ہوگا۔ ثواب ہوگا تمہیں۔ مجھے مار دو۔‘‘ وہ کپکپاتی آواز میں ہولے ہولے رو رہا تھا۔ حد سے زیادہ سہمے ہوئے انسان کی مانند جسے کسی سے ہمدردی کی توقع نہ ہو، جسے کہیں سے زندگی کی اُمید نہ ہو۔
میں محبت بھرے انداز میں اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ میں نے نرم اور شفیق لہجے میں کہا۔ ’’اگر تمہیں یاد ہے کہ اس رات تم نے خنجر سے حملہ کر کے مجھے شدید زخمی کر دیا تھا تو میں تمہیں بتاتا ہوں کہ ان دونوں حملوں کیلئے میں نے خلوص دل سے تمہیں معاف کر دیا ہے۔ مجھے تم سے کوئی شکایت نہیں ہے اور میں تم سے کوئی بدلہ نہیں لوں گا۔ مکمل اطمینان رکھو۔ دُوسری بات یہ کہ کسی کی زندگی لینے سے کبھی ثواب نہیں ملے گا۔ کیا تم مسلمان ہو؟‘‘
’’ہاں، ہاں میں ایک مسلمان کا بیٹا ہوں مگر، مگر…‘‘ وہ رُک کر ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگا۔
’’کلمۂ طیبہ یاد ہے؟‘‘
وہ اس طرح کانپ رہا تھا جیسے سردی سے بخار چڑھ رہا ہو لیکن اس نے غلط نہیں کہا تھا۔ بے شمار ننھی ننھی سُرخ چنگاریاں ٹمٹماتی نظر آ رہی تھیں۔ وہ زمین پر رینگتی اس سمت بڑھ رہی تھیں۔ میرے منہ سے حیران سے لہجے میں نکلا۔ ’’یہ کیا ہے؟‘‘
’’پیلے رنگ کی زہریلی مکڑیاں۔ یہ… یہ سب میرےپورے بدن سے چمٹ جائیں گی، اور … اور میرے… آہ…سوئیاں۔ میرا گلا بند ہو جاتا ہے۔ آواز… آواز نہیں نکلتی۔ یہ میرا خون پیتی ہیں۔ آہ بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ دیکھ لو۔ بس اب…‘‘ وہ نڈھال ہونے لگا۔
بے اختیار میرے منہ سے درود شریف جاری ہوگیا۔ صرف تین بار درود شریف پڑھ کر میں نے اُنگلی سے زمین پر ایک وسیع دائرہ بنا دیا۔ وہ میری طرف متوجہ نہیں تھا، پتھرائی ہوئی آنکھوں سے ان مکڑیوں کو دیکھ رہا تھا۔
’’اب وہ تمہارے قریب نہیں آئیں گی۔‘‘ میں نے پُریقین آواز میں کہا۔
’’کوئی نہیں۔ کوئی نہیں روک سکتا انہیں۔ وہ… آہ دیکھو وہ آ گئیں۔‘‘
’’وہ آگے نہیں آئیں گی اکرام۔ جہاں تک وہ پہنچی ہیں وہاں سے آگے نہیں آئیں گی۔ دیکھ لو وہ میرے بنائے ہوئے حصارکو عبور نہیں کر پا رہیں۔ دیکھا…!‘‘ مکڑیاں رُک گئی تھیں وہ ایک دائرے کی شکل میں پھیل گئی تھیں اور حصار کی لکیر کو واقعی عبور نہیں کر رہی تھیں حالانکہ ان میں سخت اضطراب پایا جاتا تھا۔ وہ اندر گھس آنے کے لیے بے چین تھیں۔
’’یہ تو واقعی رُک گئیں۔‘‘ اکرام کے منہ سے نکلا۔ ’’اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا۔‘‘
’’تمہیں ان کاحشر دکھائوں۔‘‘ میں نے بے خیالی کے عالم میں کہا۔ پھر میرے ہونٹ دائرے کی شکل میں سکڑ گئے اور میرے ہونٹوں سے ہوا خارج ہونے لگی۔ حالانکہ ہونٹوں سے خارج ہونے والی ہوا تھی ہی کتنی لیکن جہاں ہوا لگی تھی وہاں کی مکڑیاں روئی کے گالوں کی طرح اُڑ گئی تھیں۔ میں نے رُخ بدل کر پھونک ماری اور مکڑیوں کی صفیں اُکھڑ گئیں۔ باقی مکڑیاں سہم کر بھاگنے لگیں اور میں
ان پر پھونکیں مارتا رہا۔ پھر وہاں کسی مکڑی کا نشان بھی نہیں رہ گیا تھا اور اچانک ہی مجھے ایک عجیب سا خیال آیا۔ بہت انوکھا خیال۔ مکڑیوں کو دیکھ کر حصار بنانے کا خیال میرے دل میں نہیں آیا تھا بلکہ اچانک ہی سوچے سمجھے بغیر میرے ہونٹوں سے درود پاک جاری ہو گیا تھا۔ اس میں میری کسی سوچی سمجھی کوشش کا دخل نہیں تھا۔ اس کے بعد میں نے پھونکیں مار کر ان مکڑیوں کو اُڑا دیا تھا۔ ایسا بھی جان بوجھ کر نہیں کیا تھا۔ یہ خودبخود ہوا تھا اور اس سے ایک نتیجہ اخذ ہو رہا تھا۔ میری رہنمائی ہو رہی تھی خدا کےفضل سے۔ مجھے جو کرنا ہوتا تھا وہ مجھ سے خودبخود سرزد ہو جاتا تھا۔ اگر یہ نہ ہوتا تو میں زخمی ہونے کے بعد خود پر حملہ کرنے والے کے بارے میں جاننے کی کوشش ضرور کرتا اور ممکن تھا کہ مجھے اس کے بارے میں معلوم بھی ہوجاتا لیکن مجھے اس کی اجازت نہیں تھی، میری اپنی ذات کا معاملہ تھا۔ جب وقت آیا تو سب کچھ منکشف ہوگیا۔ آہ یہ تو بڑا احسان ہے اس ذات باری کا۔ دل کو خوشی ہوئی تھی۔
’’مسعود بھائی۔‘‘ اکرام کی لرزتی ہوئی آواز اُبھری اور میں چونک کر اسے دیکھنے لگا۔ وہ پھر خوف زدہ ہو گیا۔
’’کہو…!‘‘ میں نے بھاری لہجے میں کہا۔
’’آپ نے۔ آپ نے خود مجھے اجازت دی تھی۔‘‘
’’کیسی اجازت؟‘‘
’’آپ نے کہا تھا کہ … کہ میں آپ کے چھوٹے بھائی کی مانند ہوں۔ اس لیے میرے منہ سے مسعود بھائی نکل گیا۔‘‘ وہ پژمردہ لہجے میں بولا۔
’’تو پھر…؟‘‘ میں حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔
’’آپ میرے مسعود بھائی کہنے سے ناراض ہوئے ہیں نا…!‘‘
’’پاگل ہو تم…؟‘‘ میں مسکرا کر بولا۔
’’آپ ناراض نہیں ہوئے؟‘‘
’’یہ ناراض ہونے کی بات ہے بھلا۔‘‘
’’آپ نے میری مجبوری پر یقین کرلیا۔‘‘ وہ کسی قدر خوش نظر آنے لگا۔
’’ہاں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو تمہارے ساتھ میرا رویہ مختلف ہوتا۔‘‘
’’خدا کی قسم مسعود بھائی، خدا کی قسم، میں ایک شیطان کے زیراثر تھا۔ میں یہ سب کچھ نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن… لیکن…‘‘ وہ سسکی لے کر بولا۔
’’میں جانتا ہوں اکرام مجھے معلوم ہے۔‘‘
’’میں نے اسے پہلی بار ناکام دیکھا ہے۔ یہ شیطان مکڑیاں میری آنکھوں کےسامنے کئی زندہ انسانوں کو پلک جھپکتے ہڈّیوں کا پنجر بنا چکی ہیں۔ یہ اس کے اشارے پر عمل کرتی ہیں۔ اگر وہ انہیں حکم دیتا ہے کہ انسانی گوشت کھا جائو تو یہ مکڑیاں اسے نوچ نوچ کر کھا جاتی ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ کسی کا خون پی لو تو… آہ… میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے مسعود بھائی۔ انسانی جسم میں خون کا ایک قطرہ باقی نہیں رہتا اور یہ پیلی سے سُرخ ہو جاتی ہیں۔ ان کا حجم بڑھ جاتا ہے۔ یہ خون پی کر پھول جاتی ہیں۔ میں اس سے ذرا بھی انحراف کرتا تھا تو یہ مکڑیاں میرے بدن میں اپنے ڈنک چبھوتی تھیں اور… آہ… آہ۔‘‘ وہ کراہنے لگا۔
’’اب یہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔‘‘ میں نے کہا۔
’’میں نے دیکھ لیا ہے۔ مجھے اپنی پناہ میں لے لیں مسعود بھائی۔ آپ اللہ والے ہیں خدا کے لیے مجھے اپنی پناہ میں لے لیں۔‘‘ اس نے گڑگڑاتے ہوئے کہا۔
’’نہیں بھائی۔ بُری بات ہے توبہ کرو۔ اللہ کے سوا کسی سے پناہ نہ مانگو۔ کسی میں کسی کو پناہ دینے کی قوت نہیں ہے سوائے اللہ کے۔‘‘
’’میں تھک گیا ہوں۔ آہ میں اس سے بچنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’اپنے دل سے اس کا خوف بالکل نکال دو۔ اب وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ آئو یہاں سے چلتے ہیں، آئو۔‘‘ میں نےاسے دلاسہ دیا اور پھر اسے ساتھ لے کر مزار سے بہت دُور نکل آیا۔ اتفاق سے وہاں پہنچ گیا تھا جہاں گنگا دھرجی کی چھولداری لگی ہوئی تھی۔ وہ جگہ خالی تھی صرف چند نشان نظر آ رہے تھے۔ میرے قدم وہیں رُک گئے اور پھر میں وہیں بیٹھ گیا۔ میں نے اکرام کو دیکھا۔ اس کا چہرہ خوف سے سفید ہو رہا تھا۔ وہ بولا۔ ’’اب میں کیا کروں مسعود بھائی…؟‘‘
’’یہیں آرام کرو…!‘‘
’’آپ، آپ اب سو جائیں گے اور اگر وہ آ گیا تو… تو مجھے زندہ نہیں چھوڑے گا!‘‘
’’میں تمہارے گرد حصار بنائے دیتا ہوں۔ انشاء اللہ تمہارا کچھ نہیں بگڑے گا۔ نماز آتی ہے تمہیں؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’نماز پڑھا کرو۔ ہر بلا تم سے دُور رہے گی۔ ٹھہرو پہلے میں تمہارے گرد حصار بنا دوں۔ میں نے درود پاک کا تحفظ اپنے اور اس کے لیے حاصل کیا اور پھر پورے اعتماد کے ساتھ حصار میں بیٹھ گیا۔ مجھے خوش دلی سے اپنے بارے میں کچھ بتائو گے اکرام احمد…؟‘‘
’’آپ حکم دیں گے تو ضرور بتائوں گا۔‘‘
’’حکم نہیں۔ اگر تمہارا دل چاہے تو… ورنہ کوئی مجبوری نہیں ہے۔‘‘
’’میرا دل چاہتا ہے۔ کیونکہ، کیونکہ میں نے اس کے طلسم میں گرفتار ہو کر دو بار آپ کی جان لینے کی کوشش کی ہے۔‘‘
’’میں نے تمہیں بے گناہ قرار دیا ہے۔‘‘
’’شکریہ مسعود بھائی۔ آپ نے مجھ پر اعتبار کرلیا ورنہ آپ کی جگہ اور کوئی ہوتا تو نہ جانے میرا کیا حال کرتا۔ اپنا نام بتا چکا ہوں۔ میں نے اور میری بہن نے بچپن ہی سے دُکھ اُٹھائے ہیں۔ بڑی انوکھی کہانی ہے میری۔ میں بستی جوناپوری کا رہنے والا ہوں۔ میرے والد نظام احمد مرحوم ایک مسجد کے پیش امام تھے۔ اپنے اُصولوں میں بہت سخت تھے وہ۔ پھر گھروالوں کے ساتھ بھی ان کا یہی سلوک تھا۔ ہولی کے موقع پر کسی ہندو نے ان پر رنگ پھینک دیا۔ انہوں نے اسے اتنا مارا کہ وہ مر گیا۔ والد صاحب گرفتار ہوگئے اور انہیں موت کی سزا ہوگئی۔ ان کی موت کے بعد ہم بے سہارا ہوگئے۔ ہمارے جینے کا اور کوئی سہارا نہیں تھا۔ ماں، والد صاحب کی گرفتاری کے بعد سے ہی بیمار رہنے لگی تھیں۔ فاقہ کشی اور بے کسی کی زندگی گزرنے لگی اور ہم بستی کےہندوئوں کی نفرت کا الگ شکار تھے۔ رشتے کے ایک ماموں بھٹنڈہ میں رہتے تھے مجبور ہو کر ہم بھرسنڈہ چلے گئے۔‘‘
’’کہاں؟‘‘ میں نے چونک کر پوچھا۔ بھٹنڈہ کے نام کے ساتھ مجھے مہاوتی یاد آ گئی تھی مگر پھر یہ بھی یاد آ گیا کہ عالم استغراق میں اس نوجوان کو میں نے مہاوتی کی قید میں دیکھا تھا۔
’’بھٹنڈہ …‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’ہوں۔ پھر؟‘‘
’’ماموں خود غریب آدمی تھے بال بچوں والے تھے۔ ہمارے ساتھ مہربانی سے پیش آئے مگر ہمارے لیے کچھ کر نہ سکے۔ ماں کا انتقال ہوگیا۔ کچھ عرصہ کے بعد ماموں بھی مر گئے اور میں محنت مزدوری کر کے اپنی بہن کا پیٹ بھرنے لگا۔ بھرسنڈہ ماموں کی وجہ سے آیا تھا۔ نہ وہ رہے نہ ماں رہی، چنانچہ میں بہن کو لے کر جوناپوری واپس آ گیا۔ یہاں زندگی کچھ بہتر گزرنے لگی مگر بہن کا خیال دل میں چٹکیاں لیتارہتا تھا۔ وہ اب میری ذمّے داری تھی اور اس کے مستقبل کے لیے میں پریشان رہتا تھا مگر کچھ نہیں بن پا رہا تھا۔ وقت گزرتا رہا مگر میرے حالات خراب تر ہوتے گئے۔ جہاں نوکری کرتا تھا، وہاں کچھ دوست بن گئے تھے۔ یہ جوا اور سٹّہ کھیلتے تھے۔ انہوں نے مجھے بھی سٹّہ کھیلنے کی لت لگا دی اور میں باقاعدہ سٹّہ کھیلنے لگا۔ کبھی تھوڑا بہت جیت بھی جاتا تھا مگر اس طرح کہ بعد میں سب برابر ہو جاتا تھا۔ دیوان لال میرا دوست تھا، وہ سٹّے کا نمبر معلوم کرنے کے لیے جنتر منتر کرتا رہتا تھا۔ جوگیوں، سنیاسیوں اور سادھو سنتوں کے پھیرمیں پڑا رہتا تھا۔ ایک دن شمشان گھاٹ پر ایک سادھو دھونی رمائے نظر آ گیا۔ بڑا بدشکل آدمی تھا۔ دیوان لال وہاں جا کر بیٹھ گیا۔
سادھو مہاراج کی آنکھیں بند تھیں اور وہ کوئی منتر پڑھ رہے تھے۔ تھوڑے فاصلے پر ایک نئی جلی ہوئی چتا موجود تھی۔ جس میں بہت سی انسانی ہڈیاں نظر آ رہی تھیں، سادھو مہاراج کچھ دیر تک منتر پڑھتے رہے۔ پھر انہوں نے بند مٹھی کھولی اور چتا کی طرف ہاتھ اُٹھا دیا۔ ہم نے دیکھا کہ جلا ہوا مردہ جس کی ہڈیاں بکھری ہوئی تھیں،
ہڈّیاں سمیٹ کر اُٹھنے لگا اور پھر چتا سے نکل کر سادھومہاراج کےسامنے پہنچ گیا۔ دیوان لال تو دہشت سے چیخ مار کر بھاگ گیا تھا لیکن میرے اعصاب شل ہوگئے تھے۔ میں وہاں سے بھاگنے کی کوشش میں کامیاب نہ ہو سکا اور وہیں بیٹھا تھر تھر کانپنے لگا لیکن دیوان لال کی چیخ پر سادھو مہاراج چونک پڑے اور انہوں نے بھاگتے ہوئے دیوان لال کو دیکھا۔ پھر ان کی نظریں مجھ پر آ کر ٹک گئیں۔ ان کی آنکھوں میں شدید غصّے کے آثار تھے اور وہ بری طرح سُرخ ہو رہی تھیں، لیکن رفتہ رفتہ میں نے محسوس کیا کہ ان کی آنکھوں کا غصّہ ختم ہوتا جا رہا ہے اور ان کے چہرے پر حیرت کے آثار بکھر گئے ہیں۔ پھر ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی اور انہوں نے سیدھا ہاتھ اُٹھا کر سامنے کھڑے ہوئے مؤدب مردے کو اشارہ کیا اور بولے۔ ’’جا، بھاگ جا، بھاگ جا۔‘‘ اور مردہ خاموشی سے واپس جاکر اپنی چتا میں لیٹ گیا۔ سادھو مہاراج دلچسپی کی نگاہوں سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ پھرانہوں نے کہا۔
’’کیا باتن ہے بالکا، کیسے آ بیٹھا میرے پاس اور کون تھا وہ کم دلا جو بھاگ گیا…‘‘ میرے منہ سے خوف کے مارے آواز نہیں نکل پا رہی تھی، بمشکل تمام میں نے ہاتھ اُٹھائے اور انہیں جوڑ کر عاجزی سے بولا۔
’’معافی چاہتا ہوں سادھو مہاراج معافی چاہتا ہوں۔ وہ کم بخت دیوان لال مجھے اپنے ساتھ لے آیا تھا ورنہ… ورنہ میں آپ کو پریشان نہ کرتا…‘‘
’’نہیں نہیں کوئی بات نہیں، کوئی بات نہیں۔ سٹّے کا نمبر معلوم کرنے آیا ہے نا…؟‘‘
’’جی جی… جی مہاراج‘‘
’’دولت کمانا چاہتا ہے ایں… دولت کمانا چاہتا ہے۔‘‘ سادھو مہاراج ہنستے ہوئے بولے۔ میری ہمت بندھ گئی، وہ مجھ سے مہربانی سے پیش آرہے تھے، میں نے گردن جھکا کر کہا…
’’بہت غریب آدمی ہوں مہاراج۔ اگر آپ مہربانی کر دیں تو میری مشکل دُور ہو سکتی ہے۔‘‘
’’مشکل تو ہماری بھی دُور ہو سکتی ہے بالک، چل ٹھیک ہے نام کیا ہے تیرا…؟‘‘
’’اکرام احمد۔‘‘ میں نے جواب دیا اور سادھو مہاراج کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ بڑی مکروہ اور خوفناک ہنسی تھی ان کی، مجھے بے حد ڈر لگا لیکن میں نے خود کو سنبھالے رکھا۔ ہو سکتا ہے دیوان لال کی تقدیر میں دولت نہ ہو اور میرا کام بن جائے، ایسے لاتعداد واقعات سنے تھےمیں نے۔ اور اس وقت سادھو مہاراج کی نرمی یہی بتا رہی تھی کہ میرا کام بننے والا ہے۔ ان کی ہنسی کی وجہ اس وقت میری سمجھ میں بالکل نہیں آئی تھی۔ انہوں نے کہا۔
’’سات اور نو کھیل لے، جا سات اور نو کھیل لے، اور یہ لے پیسے، تیرے پاس تو بہت تھوڑے پیسے ہوں گے۔ یہ سارے پیسے سات اور نو پر لگا دے، جا چل بھاگ جا۔ یاد رکھنا ہمیں، یاد رکھنا…‘‘
میں نے اپنے دل میں بے پناہ خوشی محسوس کی، سادھو مہاراج نے مجھے مٹھی بھر کے چاندی کے روپے دیئے تھے، جنہیں میں نے بڑی عقیدت سے قبول کر لیا تھا۔ اتنے روپے سچی بات یہ ہے کہ سالہا سال سے نہیں دیکھے تھے میں نے، سٹّے کا نمبر نہ بھی لگاتا تو یہ روپے ہی میرے لیے بہت دن تک کام دے سکتے تھے۔ وہاں سے پلٹا، خوشی سے قدم بوجھل ہو رہے تھے، بنواری لال کی دُکان پہ آ کر میں نے سات اور نو کے نمبر لگا دیئے، سارے روپے لگا دیئے اور وہ بھی جو اپنے پاس موجودتھے۔ اس خیال کےتحت کہ شاید میرا کام بن ہی جائے۔(جاری ہے)