Sunday, October 6, 2024

Kala Jadu | Episode 64

’’خوب، پھر کیا ہوا۔‘‘ میں نے دلچسپی سے پوچھا۔
’’کوئی بیس آدمی تھے۔ سب نے اپنے بارے میں بتا دیا۔ وہ بولا کہ مسلمان وہاں سے بھاگ جائیں، ہندو کھڑے رہیں۔ مسلمانوں نے بُرا مانا۔ کچھ چلے گئے اور جو نہ گئے ان پر شہد کی مکھیاں دوڑا دیں اس نے…‘‘
’’کیسے۔‘‘ میں نے پوچھا۔
’’میں تو وہاں نہیں تھا مہاراج۔ مگر لوگ کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے کہا کہ جہاں وہ کھڑے ہیں وہ زمین ہندوئوں کے باپ کی نہیں ہے، وہ نہیں جائیں گے۔ ہندو تو کچھ نہ بولے تھے مگر اس نے ہاتھ اُوپر کر کے مٹھی بند کی اور پھر اسے مسلمانوں کی طرف کر کے کھول دیا، شہد کی مکھیاں اس کی مٹھی سے نکلیں اور مسلمانوں کے چہروں سے چمٹ گئیں۔ خوب کاٹا، وہ چیختے ہوئے بھاگ گئے۔ تب اس نے ہنس کر کہا اب یہ اس بستی سے بھی بھاگ جائیں گے۔ جوالاپور بھوانی کال بنے گا۔ اس کا نام گرج ناتھ ہے اور وہ ہندو دھرم کا سیوک ہے۔ ہندوئوں کو جوالاپور میں رہنے کیلئے جگہ ملے گی اور ایک ایک مسلمان کو وہاں سے نکال دیا جائے گا۔ بھوانی کنڈ میں صرف گرج ناتھ سیوک کی حکومت ہوگی اور یہ علاقہ پورے ہندوستان سے الگ ہو جائے گا۔ یہاں کےرہنے والے ہندوستان کے بادشاہ کہلائیں گے۔ وہ اتنے دولت مند ہوں گے کہ سارے دیش میں ان کا مقابلہ نہیں کیا جاسکے گا، بس وہ گرج ناتھ سیوک کا ساتھ دیں اور مایامکنڈکی تعمیر میں حصہ لیں پھر اس نےزمین پر سے پتھر اُٹھا اُٹھا کر ان لوگوں میں بانٹے جو وہاں موجود تھے اور انہوں نے ان پتھروں کو سونے کے ڈلوں میں تبدیل ہوتے ہوئے دیکھا۔ سارے کے سارے نہال ہوگئے تھے۔ پھر بھلا اس کی پوجا کیوں نہ شروع ہو جاتی۔ وہ مہان اوتار مان لیا گیا، بستی میں عجیب سی سنسنی پھیل گئی۔ لوگوں نے بھی آ کر کہانیاں سنائیں۔
’’جن لوگوں کو سونے کے وہ ٹکڑے ملے تھے، میں نے انہیں بلاکر سونے کے ان ٹکڑوں کو دیکھا، سچ مچ کا سونا تھا مہاراج۔ مگر اس کی باتیں سن کر مجھے عجیب سا احساس ہوا تھا اور خطرہ محسوس ہورہا تھا کہ اب کوئی بُری بات ہونے والی ہے۔ خیر میری اتنی ہمت تو نہیں تھی کہ میں اس کے خلاف کچھ کہتا لیکن میں نے اس کے سامنے جانے سے گریز کیا۔ پھر مہاراج وہ اس مندر پر جا پہنچا، جو ٹوٹے مندر کے نام سے مشہور تھا۔ لوگ اس کے پیچھے پیچھے رہا کرتے تھے اور اس کے بڑے عقیدت مند ہو گئے تھے۔ ہر شخص اس کی سیوا کرنے میں لگا رہتا تھا تا کہ اسے کچھ مل جائے۔ آپ جانتے ہیں دولت کا لالچ کتنا بُراہوتا ہے۔ اس نے اپنے پیچھے لگےہوئے لوگوں سے کہا کہ پہلے مایا مکنڈ تعمیر ہو جائے پھر لوگ اس سے ملیں۔ اس سے پہلے وہ ان کے لئے کچھ نہیں کرے گا۔ ٹوٹا مندر کنور ریاست علی کی زمینوں پر تھا۔ کنور ریاست علی نے اپنے ہرکاروں کے ذریعے اسے وہاں سے نکلوا دیا اور کہہ دیا کہ وہ مندر بنانے کی اجازت نہیں دیں گے۔
وہ کنور ریاست علی سے تو کچھ نہ بولا، کسی نے اسے میرے بارے میں بتایا اور پاپی سیدھا میرے پاس آ گیا۔ مہاراج اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ نہ تو اوتار ہے نہ دیوتا نہ سادھو سنت، بس کالا جادو جانتا ہے اور اس کے بل پرکام کرتا ہے۔ اس نے مجھ سے کہا کہ میں مندر والی زمین خرید لوں اور وہاں مایا مکنڈ بنانے کی اجازت دے دوں۔ مہاراج بدنصیبی یہ ہوئی کہ جس سمے میں اس سے باتیں کر رہا تھا میری دھرم پتنی بھی وہاں پہنچ گئی۔ سوریہ کرن بہت سیدھی سادی عورت ہے، اس سے ایک دَم متاثر ہوگئی اور اس کی باتیں سننے لگی، پھر اس نے سفارش کی کہ میں کنور ریاست علی سے بات کر کے زمینیں خرید لوں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے میں بات کروں گا۔ مہاراج انسان ہوں ڈر گیا تھا۔ پھرمیں نے کنور ریاست علی سے بات کی تو انہوں نے اپنی عادت کے مطابق بڑی حقارت سے میری اس پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ میں نے تو ان سے کہا تھا کہ مندر کے نام پر زمین دے دیں اور اگر مفت نہ دیں تو اس کا مول لے لیں، کہنے لگے مول چند اپنے آپ کو بھی بیچ دو گے تو اس زمین کا مول نہیں دے پائو گے۔ وہی باتیں کیں انہوں نے مہاراج جو بُری لگنے والی تھیں، مجھے بھی بُری لگیں۔ میں نے خاموشی اختیار کرلی، چاہتا تو اس وقت بھی ان کی بات کا جواب دے سکتا تھا لیکن نتیجہ فساد کے علاوہ کچھ نہ ہوتا۔ ان کے بھی بہت آدمی ہیں۔ یہاں صرف مسلمانوں کا ہی نقصان نہیں ہو رہا۔ ہندو بھی اتنے ہی مارے جا رہے ہیں جتنے مسلمان۔ سو یہ جھگڑا چل رہا تھا کہ اچانک ہی لوگوں نے مجھے بتایا کہ مندر کسی پُراسرار قوت نے تعمیر کر دیا ہے اور وہ پورے کا پورا بن گیا ہے۔ اس میں کوئی دروازہ نہیں رکھا گیا چاروں طرف اُونچی اُونچی دیواریں ہیں۔ پھر میں نے اور بھی بہت سی باتیں سنیں مہاراج۔ کنور ریاست علی نے اپنے آدمیوں کو کدالیں لے کر بھیجا اور کوئی سو آدمی مندر پر کدالیں چلاتےرہے لیکن مندر کی مٹّی تک نہ اُکھاڑ سکے یہاں تک کہ تھک گئے۔ کنور ریاست علی نے وہاں بارود کے دھماکے بھی کرائے مگر مندر ٹس سے مس نہیں ہوا اور انہیں تسلیم کرنا پڑا کہ گرج ناتھ سیوک کوئی بہت بڑا رشی منی ہے۔ یہ جھگڑا چل رہا تھا کوئی سوا سال ہوگیا، حکومت اس سلسلے میں کچھ کرنا چاہتی ہے مگر نجانے کیا ہو جاتا ہے۔ اب سے تھوڑے دن پہلے شاید گرج ناتھ سیوک ہی نےلوگوں کو حکم دیا کہ وہ فساد کریں۔ میرے پاس بھی یہی حکم آیا اور مہاراج میں بھی مجبور ہوگیا، میرے آدمی بھی اس کے حکم کی تعمیل کرنے پر مجبور ہوگئے…‘‘ میں نے چونک کر بابو مول چند کو دیکھا تو وہ گردن جھکا کر بولا۔ ’’اس کا بھی کارن ہے مہاراج۔‘‘ مجھے ہنسی آ گئی۔ میں نے کہا۔ ’’تو چلو وہ بھی بتا دو بابو مول چند…‘‘
مول چند گردن جھکا کر کچھ سوچنے لگا۔ پھر بولا۔ ’’میری دھرم پتنی، سوریہ کرن۔ مہاراج اس پاپی نے میرے گھر پر اپنا منحوس سایہ ڈال کر مجھے قابو میں کرلیا…‘‘
’’کیسے؟‘‘ کہانی اور دلچسپ ہوگئی تھی۔
’’سوریہ کرن، بھگوان کی سوگند، ایک سیدھی سادی عورت تھی بالکل گھریلو اس نے میری آنکھوں کے اشاروں کے بغیر کبھی کچھ نہیں کیا تھا لیکن وہ آہستہ آہستہ بدلتی جا رہی تھی۔ میں آپ کو کیسے بتائوں۔ بس یوں سمجھ لیں کہ اس نے مجھ میں دلچسپی لینا چھوڑ دی تھی۔ میں کبھی اچانک اس کے کمرے میں چلا جاتا تو وہ چور سی بن جاتی۔ ایسے، جیسے مجھ سے کچھ چھپارہی ہو۔ میں نے ایک دن اس سے یہ بات کہی تو وہ بُری طرح بگڑ گئی۔ پہلی بار اس نے میرے سامنے گھر کی بہت سی چیزیں توڑ دیں۔ مجھے غصے سے زیادہ اچنبھا ہوا تھا مہاراج۔ وہ ایسی نہ تھی۔ میں خاموشی سے اس کی نگرانی کرنے لگا۔ کبھی کبھی اس کے بند کمرے سے کسی مرد کے بولنے کی آواز بھی سنائی دیتی تھی۔ میرے دستک دینے پر وہ دروازہ نہیں کھولتی تھی۔ ایک بار موقع پر میں نے دروازہ تڑوا دیا تو کمرے سے وہ اکیلی نکلی۔ ایک ایک کونا چھان مارا میں نے مگر چڑیا کا بچہ بھی نہیں نکلا۔ وہ تمسخرانہ نظروں سے مجھے دیکھتی رہی۔ وقت اسی طرح سے گزرتا رہا۔ جوالاپور کے حالات اچھے نہیں تھے۔ کنور صاحب یہ سمجھتے تھے کہ یہ سب کچھ میں نے تعصب میں کیا ہے۔ کئی بار ان کے آدمیوں نے میری تیار فصلیں اُجاڑیں، باغوں کو نقصان پہنچایا۔ انسان تو میں بھی ہوں۔ میں نے بھی جواب دیا۔ مگر معاملہ دُوسرا تھا۔ سوریہ کے رنگ ڈھنگ ہی بدل گئے تھے۔ وہ اپنی عمر سے کم کی باتیں کرنے لگی تھی۔ ایسے ایسے بنائو سنگھار کرتی کہ اس نے بھری جوانی میں کبھی نہ کئے تھے۔ تنگ آتا جارہا تھا میں ان حالات سے مگر کچھ کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی پھر ایک دن مہاراج، ایک دن…‘‘
مول چند خاموش ہوگیا۔ اس کے چہرے پر خوف کے سائے چھا گئے، سانس تیز تیز چلنے لگی جیسے
کوئی انتہائی خوفناک تصور اس کے ذہن میں جاگا ہو، کوئی بہت بھیانک خیال اس کے ذہن سے گزر رہا ہو۔ نہ صرف میں بلکہ اکرام بھی دم سادھے اس انوکھی داستان کو سن رہے تھے اور اس کے آگے بولنے کے منتظر تھے۔
مول چند کچھ دیر اسی کیفیت میں مبتلا رہا۔ پھر خود کو سنبھال کر بولا۔ ’’سوریہ کرن اس شام، سرشام ہی اپنے کمرے میں بند ہوگئی تھی۔ اس نے سب سے منع کردیا تھا کہ کوئی اس کے پاس نہ آئے۔ مجھے پتا چلا تو میں اندر گیا۔ مجھ سے بھی اس نے کہا کہ اس نے کل بھوگنا برت رکھا ہے اور چاند چمکے ہی وہ باہر نکلے گی اور سب سے پہلے چندرما کے درشن کرے گی۔ میرے لاکھ کہنے پر اس نے دروازہ نہیں کھولا تو میں بگڑ کر چلا آیا۔ مجھے بہت غصہ تھا۔ ساتھ ہی میں سوچ رہا تھا کہ بات بہت بگڑ گئی ہے، اب کچھ کرنا چاہیے۔ میں اوپر کے گھر میں چلا گیا اور غصے میں جاگتا رہا۔ گھر کے سارے لوگ سو چکے تھے اور چاروں طرف سناٹا پھیلا ہوا تھا۔ چاند آہستہ آہستہ نکل رہا تھا۔ اچانک میرے کانوں میں بیلوں کی گھنٹیاں بجنے کی آواز پڑی اور میں اپنی جگہ سے اٹھ کر منڈیر پر آگیا۔ رات کے اس سمے کس کے بیل کھل گئے؟ میں نے یہ سوچ کر منڈیری سے باہر جھانکا تھا مگر یہ دیکھ کر میں حیران رہ گیا مہاراج کہ وہ تو ایک رتھ تھا جس میں جوڑی جتی ہوئی تھی، بیلوں پر ساز سجے ہوئے تھے مگر کوئی رتھ بان اس پر موجود نہیں تھا۔ اسی سمے دروازہ کھلا اور سوریہ کرن سجی بنی باہر نکل کر رتھ میں بیٹھ گئی۔ بیل مڑ کر واپس چل پڑے۔ یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی نظر نہ آنے والا جوڑی ہانک رہا ہو۔ میری حیرت غصے میں بدل گئی۔ کچھ بھی تھا، وہ میری استری تھی۔ میں آندھی طوفان کی طرح نیچے اترا، بغلی حصے سے گھوڑا کھولا اور اس پر زین کسے بغیر بیٹھ کر چل پڑا۔ سوریہ کرن کے اطوار حد سے بگڑ گئے تھے، اب میں اسے معاف نہیں کرسکتا تھا۔ رتھ کافی آگے نکل گیا تھا اور اب بھی چلا جارہا تھا مگر میں فاصلے سے اس کا پیچھا کررہا تھا۔ میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ جاتی کہاں ہے اور مہاراج! میں نے رتھ کو کنور صاحب کی بغیا میں جاتے ہوئے دیکھا مگر جب وہ گرج ناتھ کے مایا کنڈل کے سامنے رکا تو میرے ہوش بگڑنے لگے۔ میں نے دور ہی گھوڑا روکا، کچھ سوچا اور پھر گھوڑے سے نیچے اتر آیا۔ گھوڑے کو میں نے وہیں رکنے کا اشارہ کیا اور دبے پائوں آگے بڑھ گیا۔ سوریہ کرن نیچے اتر آئی تھی، پھر وہ چھن چھن کرتی آگے بڑھی، میں بھی اس کا پیچھا کرنے لگا۔ میں نے سوچا سسری اندر کیسے جائے گی، مندر کا تو کوئی دروازہ ہی نہیں ہے مگر مہاراج! چاند کی پوری روشنی میں، میں نے دیکھا کہ وہ دیوار کے پاس پہنچی اور پوری کی پوری دیوار میں سما گئی جیسے کسی کھلے دروازے سے اندر داخل ہوگئی ہو۔ پہلے تو ڈر لگا۔ کسی اور کا معاملہ ہوتا تو وہاں سے بھاگ نکلتا مگر بات دھرم پتنی کی تھی۔ ہوسکتا ہے اس جگہ چور دروازہ ہو۔ آخر گرج ناتھ بھی تو کہیں نہ کہیں سے باہر آتا ہوگا؟ سو اس جگہ پر آنکھیں جمائے میں دیوار کے پاس پہنچ گیا۔ رتھ مڑ کر ایک طرف چلا گیا تھا۔ میں نے دیوار کو خوب ٹٹولا مگر مہاراج! کوئی ایسی جگہ نظر نہ آئی جہاں سے کوئی اندر گھس سکے۔ غصے سے کلستا ہوا میں پلٹا تو ایک دم میرے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ بھگوان کی سوگند کھا کر کہہ رہا ہوں مہاراج۔ اس راستے سے چل کر آیا تھا، اسی جگہ کھڑا تھا اور پھر بہت سی بار یہاں آیا تھا مگر وہ کھائی کبھی وہاں نہیں تھی جو اب دیکھی تھی۔ مجھے سنبھلنے کی مہلت بھی نہ ملی اور میں کھائی میں گرنے لگا۔ چیخا بھی تھا خوب زور سے۔ ایسا لگا تھا جیسے پاتال میں گر رہا ہوں۔ یہی خیال آیا تھا کہ اب پران گئے مگر بچ گیا۔ پھچاک کی آواز ہوئی اور بدبو کے مارے میری ناک سڑ گئی۔ کسی گندی کیچڑ کے جوہڑ میں گرا تھا۔ اسی وجہ سے ہاتھ، پائوں ٹوٹنے سے بچ گئے تھے۔ کچھ دیر تو ہوش ہی نہ آیا مگر جیون سب کو پیارا ہوتا ہے، جوہڑ بھی زیادہ چوڑا نہیں تھا۔ ہاتھ پائوں مار کر باہر نکل آیا۔ چاند اب بھی چمک رہا تھا اور وہ جگہ سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ عقل ہی ساتھ نہ دے پا رہی تھی۔ کنور ریاست علی کا باغ، بھورتی مندر اور یہ کھائی۔ ساری باتیں عجیب تھیں۔ گندہ جوہڑ پیچھے تھا پھر سامنے کچھ نظر آیا۔ کچھ لوگ تھے۔ انہوں نے ایک تخت بچھایا، اس پر قالین بچھایا گیا۔ دوسرے نیچے قالین بچھا رہے تھے۔ بہت سے لوگ آآ کر اس قالین پر بیٹھ رہے تھے۔ بیچ میں جگہ چھوڑ دی گئی تھی۔ پھر کنارے کنارے سازندے آکر بیٹھ گئے۔ اس کے بعد چار خوبصورت عورتیں زیوروں میں لدی ہوئی آئیں اور نیچے بیٹھ کر پیروں میں گھنگھرو باندھنے لگیں۔ پھر اچانک سارے کے سارے اٹھ کھڑے ہوئے اور مہاراج، میں نے دیکھا کہ وہ پاپی کالا جادوگر اوپری بدن سے ننگا، نچلے جسم پر کاریا کندی کی دھوتی منڈھے، سر پر سونے کا تاج پہنے، گلے میں ہیروں کی مالائیں ڈالے، اس سسری کا ہاتھ پکڑے، سینہ تانے چلا آرہا ہے اور وہ نرکھنی ایسے لجائی شرمائی اس کے ساتھ چل رہی ہے جیسے ابھی ابھی لگن منڈپ کے پھیرے پورے کرکے سیدھی آرہی ہو۔ دونوں آکر تخت پر بیٹھ گئے اور نچن ہاریاں کھڑی ہوگئیں۔ سازندوں نے ساز سنبھال لئے۔ جو کچھ تھا، اپنی جگہ تھا مگر اپنی استری کو یوں دیکھ کر ڈر، خوف من سے نکل گیا۔ غصے سے بدن کانپنے لگا اور میں دھاڑتا ہوا، اسے گالیاں بکتا ہوا آگے بڑھا۔ سازندوں کے ہاتھ رک گئے، نچن ہاریوں کے پائوں۔ سب کے سب مجھے دیکھنے لگے۔ گرج ناتھ مجھے دیکھ کر مسکرانے لگا۔
’’سوریہ کرن… کیوں آئی ہے یہاں؟ کیا کررہی ہے تو…!‘‘ میں غصے سے دھاڑتا ہوا بولا۔
’’کون سوریہ کرن، بابو مول چند! کس کی بات کررہے ہو؟‘‘ گرج ناتھ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’یہ… یہ میری دھرم پتنی ہے گرج مہاراج۔ یہ میری استری ہے۔‘‘
’’آگے ایسا کہو گے تو مارے جائو گے۔ یہ تمہاری دھرم پتنی نہیں، کنسا بھوانی ہے۔ امر بھوانی… جے کنسا سروپا۔‘‘ اس نے کہا۔ پھر وہاں موجود لوگوں سے بولا۔ ’’کنٹھ سبھا میں یہ کالا چور کیسے گھس آیا؟ تم سارے کے سارے سسرو اندھے ہوگئے؟ سبھا خراب کردی اس نے، مار بھگائو اسے…‘‘ اور مہاراج وہ سب مجھ پر پل پڑے۔ خوب مارا مجھے… گھسیٹتے ہوئے بہت دور تک لائے اور پھر ایک جگہ ڈال دیا۔ اس کے بعد سب چلے گئے۔ یہ وہی جگہ تھی مہاراج جہاں میرا گھوڑا کھڑا ہوا تھا۔ سامنے ہی مایا مکنڈ نظر آرہا تھا۔ ویسے کا ویسا، دروازے کے بغیر۔ میں کراہتا ہوا اٹھا، گھوڑے کے پاس پہنچا تو وہ مجھے دیکھ کر ڈر گیا اور ہنہناتا ہوا سرپٹ ہولیا۔ یہ نئی بپتا پڑی تھی۔ غصہ تھا، تکلیف تھی۔ گرتا پڑتا گھر کو چل پڑا۔ نہ جانے کتنے گھنٹوں میں گھر پہنچا تھا۔ بھگوان کا شکر تھا کہ کوئی جاگتا نہ ملا۔ گھر میں آکر اشنان کیا۔ گندے بدبو بھرے کپڑوں کی گٹھری بنا کر دیوار سے دوسری طرف اچھال دی اور پھر اپنی چوٹوں کو سہلاتا ہوا کمرے کی طرف چل پڑا۔ سوریہ کرن کے بارے میں اب فیصلہ کرنا تھا، جو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا، وہ بہت زیادہ تھا۔ اس کے بعد فیصلہ کرنا تھا، کوئی ٹھوس فیصلہ کرنا تھا مگر مہاراج! دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو اسے پلنگ پر سوتے پایا۔ بھیجہ ہل کر رہ گیا۔ وہ گھر کے عام کپڑے پہنے کروٹ لئے گہری نیند سو رہی تھی۔ لگتا ہی نہ تھا کہ گھر سے نکلی ہے۔ چہرہ بھی بنائو سنگھار سے صاف تھا، کہیں سے بھی پتا نہیں چلتا تھا کہ وہ گھر سے باہر نکلی ہے۔ مجھ پر بے ہوشی طاری ہونے لگی۔ پاگلوں کی طرح اسے دیکھتا رہا۔ یہ کیا تھا؟ کس جال میں پھنس گیا تھا میں۔ اسے یہاں سے نکلتے ہوئے دیکھا تھا میں نے اور پھر وہ کالی سبھا میں بھی نظر آئی تھی۔ مجھے اتنا بڑا
دھوکا تو نہیں ہوسکتا تھا۔ پھر خیال آیا کہ یہ سب گرج ناتھ کے جال ہیں، اس کا کالا جادو ہے اور میری دھرم پتنی نردوش ہے۔ وہ بے چاری کالے جال میں پھنس گئی ہے مگر اب کیا کروں، اسے کیسے بچائوں؟
صبح کو وہ بالکل ٹھیک تھی مگر میرا بدن درد کررہا تھا۔ میرا چہرہ دیکھ کر بولی۔ ’’جی خراب ہے کچھ…؟‘‘
’’ہاں!‘‘
’’کیا بات ہے؟‘‘
’’کل تم نے بھوگنا برت رکھا تھا؟‘‘
’’ہاں۔!‘‘
’’چندرما دیکھ کر برت توڑا تھا؟‘‘
’’ایں…؟‘‘ وہ سوچ میں ڈوب گئی۔ اس کے چہرے پر حیرت کے آثار پھیل گئے۔ پھر وہ الجھے ہوئے انداز میں بولی۔ ’’کہاں برت توڑا تھا میں نے… چاند نکلنے کے انتظار میں لیٹی، پھر سو گئی۔ ہائے رام! میرا برت تو بیکار گیا۔‘‘ اس کا لہجہ افسوس بھرا تھا۔
’’رات کو نہیں جاگیں…؟‘‘
’’کہاں جاگی… اور… اور… ارے تم نے دروازہ کیسے کھولا اندر سے؟‘‘
’’تم نے نہیں کھولا تھا…؟‘‘
’’بالکل نہیں… میں تو سو گئی تھی۔‘‘ میں خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔ پھر میں نے اچانک کہا۔ ’’یہ برت کیوں رکھا تم نے؟‘‘
اس نے میری بات کا جواب نہیں دیا تو میں نے پھر اس سے یہی سوال کیا۔ وہ کچھ دیر کے بعد بولی۔ ’’تمہیں نہیں بتا سکتی۔‘‘
’’بتائو۔‘‘
’’نہیں… یہ مشکل ہے۔‘‘
’’کیا گرج ناتھ کے کہنے سے؟‘‘ میں نے غصے سے پوچھا اور وہ چمک کر کھڑی ہوگئی۔
’’گرو دیو کا نام کیسے لے رہے ہو تم؟‘‘
’’گرو دیو… وہ تمہارے گرو دیو کیسے ہوگئے؟‘‘
’’اس گھر میں ان کا نام عزت سے لینا ناتھ، یہ میں تم سے کہے دیتی ہوں۔‘‘ اس نے سرد لہجے میں کہا۔
’’کیا تم اس سے ملتی رہی ہو…؟‘‘
’’میں جو کچھ کرتی ہوں، میں جانتی ہوں۔ مگر جو کچھ میں نے کیا ہے، اس کا الٹا نہ ہو۔‘‘
’’کیا بکواس کرتی ہو؟ وہ تمہارے لیے مجھ سے بڑا ہوگیا۔ وہ گندے دھرم والا… اور پھر تم نے اسے گرو بنانے کی آگیا کس سے لی؟‘‘
’’دیکھو بابو مول چند! میں تمہاری پتنی ہوں، باندی نہیں۔ تم صرف پتی رہو، پرمیشور نہ بنو۔ آخری بار کہہ رہی ہوں گرو جی کا نام عزت سے لو۔‘‘ اس کی آنکھیں سرخ ہوگئیں۔
’’لگتا ہے دماغ خراب ہوگیا ہے تمہارا۔ وہ چاہتی ہو جو میں نے کبھی نہیں کیا۔‘‘ میں نے کہا اور وہ مجھے گھورنے لگی۔ اس کی سرخ آنکھیں بے حد بھیانک لگ رہی تھیں۔ پھر وہ مسکرائی اور بولی۔
’’گزری رات بھول گئے مول چند جی۔ برے سمے کو اتنی جلدی نہیں بھولنا چاہیے۔‘‘ اور مہاراج میرے بدن میں چنگاریاں بھر گئیں۔ وہ روشنی میں آگئی۔ رات کو وہ گھر سے گئی تھی اور پھر واپس آگئی تھی۔ وہ معصوم نہیں ہے، وہ بہت گہری ہے۔ وہ سب کچھ جانتی ہے لیکن گزری رات بے حد بھیانک تھی۔ میں ابھی تک بدن کی دکھن محسوس کررہا تھا۔ اسے اور کچھ کہنے کی ہمت نہ پڑی۔ میں اس کے کمرے سے نکل آیا مگر مہاراج میں بہت پریشان تھا۔ میرا تو گھر ہی لٹ گیا تھا۔ بھگوان نے جو کچھ بھی دیا تھا، مزے سے گزر رہی تھی، پتنی سے پریم بھی تھا۔ یہ کیا ہورہا تھا؟ پھر مہاراج! ہر رات یہی ہونے لگا۔ رات گئے رتھ آتا، وہ جاتی پھر نہ جانے کب واپس آتی۔ دوبارہ اس کا پیچھا کرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ حالات خراب سے خراب تر ہوتے گئے مہاراج۔ سوریہ کرن سے میرے سارے رشتے ختم ہوگئے تھے۔ اس کے کہنے سے میں نے اپنا کمرہ بھی الگ کرلیا تھا۔ میں بھسم ہوا جارہا تھا مگر بے بس تھا ،کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا اس کا۔ سوریہ کرن ہاتھ سے نکل گئ تھی۔ ادھر گرج ناتھ کے ہاتھ اور پھیلنے لگے۔ اب وہ جوالاپور میں مندر سے باہر بھی نظر آنے لگا تھا۔ وہ کیسے باہر آتا تھا، کسی کو نہیں معلوم تھا۔ رادھے چرن بزاز ہے۔ جوالا پور میں اس کا کپڑے کا سب سے بڑا کاروبار ہے، سو کھڈیاں چلتی ہیں اس کی اور اس کی بنائی ہوئی کھادی پورے ہندوستان میں مانی جاتی ہے۔ اس کا بیٹا امبھا چرن بیمار ہوگیا اور پھر ایک دن وہ چل بسا۔ رادھے چرن تو پاگل ہوگیا۔ امبھا اس کا اکلوتا تھا، جوان تھا۔ رادھے چرن آتم ہتھیا کرنے پر تل گیا، تب کہیں سے گرج ناتھ نمودار ہوگیا۔ امبھا چرن کی ارتھی تیار کی جارہی تھی۔ وہ ارتھی کے پاس آکھڑا ہوا اور اس نے کہا۔ ’’تجھے بیٹے کا جیون چاہیے رادھے چرن۔ بول اس کا جیون چاہیے تجھے…؟‘‘
رادھے چرن نے گرج ناتھ کے پائوں پکڑ لئے۔ ’’مل جائے گا تجھے تیرا بیٹا۔ جیتا مل جائے گا مگر ہمارا چیلا بنانا پڑے گا اسے۔ پھر وہ تیرا نہیں، ہمارا ہوگا۔ بول منظور ہے تجھے؟‘‘
’’منظور ہے مہاراج، مجھے منظور ہے۔ مجھے میرے بیٹے کا جیون دے دو اور کچھ نہیں چاہیے مجھے۔ بس میں اس کا جیون چاہتا ہوں۔‘‘
’’بھاگ جائو، پھر سارے کے سارے بھاگ جائو یہاں سے۔ جائو سب یہاں سے باہر بھاگ جائو۔‘‘ سب باہر نکل گئے اور تھوڑی دیر کے بعد گرج ناتھ بھی باہر نکل آیا۔ امبھا چرن اس کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ بہت سے لوگ ڈر کے یہاں سے بھاگ گئے، باقی گرج ناتھ کے چرنوں میں گر پڑے۔ بہت بڑا چمتکار تھا۔ اس نے بڑا چمتکار اور کیا ہوتا۔ امبھا چرن ہٹاکٹا ہوگیا۔ گرج ناتھ کے بارے میں ملے جلے تاثرات تھے۔ دوسرا واقعہ ٹھاکر کیداری ناتھ کا تھا۔ ان کے بیٹے کی پتنی نتھیا بڑی سندر تھی مگر اسے سوتے میں چلنے کی بیماری تھی۔ ایک رات وہ سوتے سوتے چل پڑی اور جوالاپور کے سب سے گہرے کنویں میں گر پڑی۔ صبح کو پنساریوں نے اس کی لاش کا پتا دیا۔ کہرام مچ گیا۔ نتھیا مر چکی تھی۔ پوری بستی کے کاروبار بند ہوگئے۔ کیا ہندو، کیا مسلمان، سب دکھ میں ڈوبے ہوئے تھے۔ گرج ناتھ آیا، ہنستا ہوا اس کمرے میں گھس گیا جہاں اس کی ارتھی رکھی ہوئی تھی، پھر نتھیا کے ساتھ باہر نکل آیا مگر دونوں جینے والے گرج ناتھ کے چیلے بن گئے تھے۔ ان کے ماتا پتا اور سرپرست خوش تو تھے کہ انہیں جیون مل گیا تھا مگر ایک طرح سے وہ اپنے گھروں سے دور ہوگئے تھے۔ امبھا چرن، رادھے چرن کے کسی کام کا نہیں رہا تھا۔ گھر سے باہر نکل جاتا۔ نجانے کہاں کہاں مارا مارا پھرتا۔ وہ تو خیر مرد تھا لیکن نتھیا جو کچھ کررہی تھی، وہ سب کیلئے پریشان کن بات تھی۔ ٹھاکر کیداری ناتھ کی عزت دو کوڑی کی ہوگئی تھی۔ ان کا بیٹا جوالاپور چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ وہ یہ کیسے برداشت کرسکتا تھا کہ اس کی سندر پتنی راتوں کو گھر سے غائب رہے اور سارے جوالاپور میں تلاش کرنے کے باوجود نہ ملے۔ خوب ہارسنگھار کرے، گھر واپس آئے تو ایسے جھومتی ہوئی جیسے نشہ کرلیا ہو۔ یہ دونوں ہمیشہ گرج ناتھ کے گن گاتے رہتے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ سوامی ہری داس جو سال کے سال جوالاپور آتے تھے، اس سال بھی جوالا پور پہنچے۔ کیداری ناتھ کے ہاں ہی ٹھہرتے تھے۔ گھر کے دروازے سے اندر داخل ہوئے تو الٹے پائوں واپس پلٹ گئے۔ حیرت سے کیداری ناتھ کو دیکھا اور بولے۔ ’’کیداری! یہ گھر میں تو نے کیا بسا لیا…؟‘‘
’’کیوں مہاراج! خیریت تو ہے۔‘‘
’’یہ گندگی تیرے گھر میں کہاں سے آگئی کیداری؟‘‘
’’کون سی گندگی مہاراج؟‘‘ ہری داس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ دوبارہ گھر میں واپس آئے، سارے کونے کھدروں کو چھانتے پھرے اور اس کے بعد ایک ایک سے ملے، یہاں تک کہ نتھیا سامنے آئی تو ہری داس کو دیکھ کر اس کی حالت خراب ہوگئی۔ الٹے پائوں گھر سے بھاگ گئی۔ ہری داس، کیداری ناتھ سے بولے۔ ’’یہ تو تیرے بیٹے کی بہو ہے ناں! نتھیا ہی ہے ناں یہ…؟‘‘
’’ہاں مہاراج۔‘‘ کیداری ناتھ نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا۔
’’آگے بول، آگے کیداری ناتھ۔‘‘
’’اس بیچاری کے ساتھ بری ہوگئی تھی۔ مہاراج! آپ کو یہ تو پتا ہے کہ راتوں کو سوتے میں یہ چلنے کی عادی تھی۔‘‘ کیداری ناتھ نے پورا واقعہ ہری داس کو سنایا تو ہری داس سوچ میں ڈوب گئے۔ پھر انہوں نے آہستہ سے کہا۔ ’’کیداری ناتھ! یہ نتھیا نہیں ہے۔‘‘
’’نہیں


میری بہو ہی ہے۔‘‘
’’نہیں کیداری ناتھ! تیری بہو تو کنویں میں گر کر مرچکی تھی، اب تو اس کے شریر میں ایک گندی آتما رہتی ہے۔ تم اسے بیر کہہ سکتے ہو گرج ناتھ کا۔ وہ گرج بابو کا بیر ہے جو نتھیا کے شریر میں داخل ہوگیا ہے اور اسی کے بل پر اس کا شریر قائم ہے۔‘‘ کیداری ناتھ تو بھک سے رہ گیا تھا۔ نتھیا کی بہت سی حرکتیں اس کے علم میں تھیں جن سے ہری داس کے بیان کی تصدیق ہوتی تھی۔ پھر جب اس نے امبھا چرن کے بارے میں بتایا تو ٹھاکر ہری داس رادھے چرن کے گھر بھی گئے اور گھر کے دروازے کے قریب پہنچتے ہی بولے۔ ’’وہی بات ہے، وہی بات ہے۔ نہیں بھئی! تم لوگ اپنے آپ کو بھی دھوکا دے رہے ہو اور بستی جوالاپور کو بھی۔ ایک گندی آتما آگئی ہے یہاں جو کالے جادو کی ماہر ہے۔ اس نے اپنے بیر انسانوں کے شریر میں اتار دیئے ہیں۔ پتا نہیں سسرا کیا چاہتا ہے؟‘‘
’’اگر یہ سچ ہے مہاراج تو پھر تو کوئی بڑی بات بھی ہوسکتی ہے، آپ کچھ اپائے کریں۔‘‘
سوامی ہری داس سوچتے رہے۔ پھر انہوں نے بستی کے ایک ویران سے علاقے میں دھونی رمائی اور تین دن تک وہیں بیٹھے رہے۔ سب لوگ ان کی خبرگیری کررہے تھے ۔ جوالا پور میں ان کی بڑی عزت تھی۔ ہر سال آتے تھےاور لوگوں کو اچھی اچھی باتیں بتاتے تھے۔ سب ہی ان کے عقیدت مندوں میں سے تھے۔ تیسرے دن جب ان کی دھونی ختم ہوئی تو وہ چپ چاپ اٹھے اور بستی جوالاپور سے نکل گئے۔ پھر کسی نے انہیں جوالاپور میں نہیں دیکھا تھا مگر جو بات وہ چھوڑ گئے تھے، وہ لوگوں میں گشت کررہی تھی۔ کچھ نے ان کی بات کو سچ مانا، کچھ نے جھوٹ۔ بات آئی گئی ہوگئی۔ پھر ایک دن امبھا چرن نے جوالاپور کے چوک میں کھڑے ہوکر ایک ایسی اشتعال انگیز تقریر کی جو پہلے کسی کے دماغ میں نہیں آئی تھی۔ اس نے کہا۔ جوالاپور کے ہندوئو! تم لوگوں کو معلوم نہیں کہ تمہارے درمیان کتنا مہان پرش آگیا ہے، تمہاری تقدیریں بدلنے والی ہیں، وہ تمہارے لئے دولت کے انبار لگا دے گا۔ جوالاپور درحقیقت اکھنڈ ہندو استھان بنے گا اور سارا ہندوستان اس کے پیچھے ہوگا۔ تم لوگوں نے گرج ناتھ کو سمجھا نہیں ہے۔ بھوانی کنڈ کو پھیلائو، کنور ریاست علی سے اس کا باغ چھین لو، اس پورے باغ کے گرد چار دیواری بنوا دو اور اس کا ایک راستہ بنا دو تاکہ تم مایا مکنڈ کی سیوا کرسکو، اس کے درشن کرسکو، وہ بہت بڑا استھان ہے اور گرج ناتھ سیوک جی تمہارے جوالاپور کو تمہارے لئے سورگ بنا دینا چاہتے ہیں۔ یہی تقریر نتھیا نے بھی کی۔ لوگوں نے سنا، مسلمانوں کے خلاف ان دونوں نے باقاعدہ پروپیگنڈا شروع کر دیا اور بات کنور ریاست علی خان تک پہنچ گئی۔ ریاست علی خان نے فوری طور پر ردعمل کا اظہار کیا۔ مسلمانوں کا ایک بہت بڑا جلسہ ہوا جس میں ریاست علی خان نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ جوالاپور کے ہندو سرکشی کررہے ہیں، مسلمان اپنے اپنے ہتھیار سنبھال لیں۔ وہ سرکار سے رجوع کررہے ہیں۔ لیکن اگر سرکار سے رجوع کرنے کے باوجود جوالاپور میں کوئی ڈھنگ کی بات نہ ہوئی تو جوالا پور کے مسلمان، ہندوئوں کو خود منہ توڑ جواب دیں گے۔ جوالاپور کے سمجھداروں نے آپس میں بیٹھ کر اس سلسلے میں بات چیت کی۔ کنور ریاست علی خان کو اور مجھے آمنے سامنے کیا گیا۔ میں نے کنور ریاست علی خان سے کہا کہ یہ چند لوگوں کا کام ہے۔ سارے جوالاپور کے ہندو ایسی سوچ نہیں رکھتے تو کنور صاحب نے کہا کہ اگر میں جوالاپور سے ہمدردی رکھتا ہوں تو جا کر حکومت سے بات کروں اور کہوں کہ ان سرکشوں کی سرکشی دبانے کیلئے فوری اقدامات کئے جائیں۔ ابھی تک مسلمانوں نے ایسی کوئی تقریر نہیں کی ہے لیکن جوابی کارروائی کی جاسکتی ہے۔ میں نے سب کے سامنے وعدہ کیا کہ میں پہلے تو ان لوگوں کو سمجھائوں گا جو ایسی باتیں کرتے پھر رہے ہیں اور اگر یہ سمجھنے سے باز نہ آئے تو پھر سرکار کو درخواست دوں گا۔ میں نے جو وعدہ کیا تھا، وہ سچے من سے کیا تھا لیکن اس رات جب میں اپنے الگ کمرے میں سو رہا تھا، میرے کمرے کے دروازے پر آہٹیں ہوئیں اور پھر میں نے اپنی دھرم پتنی اور گرج ناتھ سیوک کو اندر آتے ہوئے دیکھا۔ گرج ناتھ سیوک لال لال آنکھوں سے مجھے گھور رہا تھا۔ پھر اس نے کہا۔ ’’تو تم ہندو استھان بنانے سے روک رہے ہو جوالا پور کو۔ تم ہمارا ساتھ نہیں دو گے؟‘‘
میں نے ہمت کی اور گرج ناتھ سیوک سے کہا۔ ’’مہاراج! ہاتھ جوڑتا ہوں، آپ کے سامنے کچھ بھی نہیں ہوں میں، آپ کی شکتی کے سامنے لیکن مجھے ایک بات بتا دیجئے۔ ہندو، مسلمانوں کا ٹکرائو ہوگا تو نتیجہ کیا نکلے گا؟ لاتعداد ہندو مارے جائیں گے، لاتعداد مسلمان مارے جائیں گے اور نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلے گا۔‘‘
’’بک بک مت کر۔ تجھ سے زیادہ تو تیری پتنی سمجھدار ہے۔ وہ جوالاپور کو بھوانی کنڈ بنانے پر آمادہ ہے۔ ارے بائولے! تو ہمیں کیا سمجھتا ہے، ابھی تو نے دیکھا ہی کیا ہے۔ گرج ناتھ ہے ہمارا نام، کون سا بھید نہیں جانتے ہم۔ یہ محل تیرے پرکھوں کا ہے نا، یہ حویلی تیرے باپ دادا نے بنائی ہے نا۔ بول کیا وہ تجھے بتا گئے ہیں کہ اس حویلی کے نیچے ایک تہ خانہ چھپا ہوا ہے اور اس تہ خانے میں ایک عظیم الشان خزانہ ہے۔ اتنا بڑا خزانہ کہ تو سارے جنم بھی دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹتا رہے، تب بھی اتنا نہ کما پائے۔ ارے یہ ہم جانتے ہیں اور یہی نہیں جوالاپور میں ہی نہیں، آس پاس کی زمینوں میں جتنے خزانے دفن ہیں، ہماری نگاہوں کے سامنے ہیں۔ ہم سے کوئی کیا ٹکرائے گا…آ ہم تجھے دکھائیں وہ خزانہ جو تجھے معلوم نہیں ہے، اس کے بعد تجھ سے دوسری باتیں کریں گے۔‘‘
اور مہاراج اس کے بعد وہ میرا ہاتھ پکڑ کر باہر نکل آیا۔ میں نے اب بھی اس سے لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’دیکھو گرج ناتھ مہاراج! اس دن سے میں تمہارے آڑے نہیں آیا، تم نے میری دھرم پتنی پر قبضہ جما لیا، تم نے میرا سنسار مجھ سے چھین لیا۔ میں کچھ نہیں بولا مگر مہاراج یہ سب کچھ اچھا نہیں ہے۔ بہت سے بچے یتیم ہوجائیں گے، بہت سی عورتیں ودھوا ہوجائیں گی۔ ایسا نہ کرو۔ مجھے یقین نہ تھا کہ وہ واقعی مجھے کسی ایسے خزانے تک لے جائے گا بلکہ میں یہی سوچ رہا تھا کہ اب میں کسی بڑی مصیبت میں گرفتار ہونے والا ہوں، لیکن حویلی ہی کے ایک ایسے حصے میں جو پرانا بنا ہوا تھا اور اب کھنڈر کی شکل میں پڑا ہوا تھا، وہ ایک چھوٹے سے دروازے سے اندر لے گیا۔ اندر گھس کر میری دھرم پتنی سوریہ کرن نے ایک مشعل روشن کرلی اور اس کے بعد گرج ناتھ سیوک نے ایک دیوار میں کچھ ٹٹول کر ایک دروازہ دریافت کیا جسے میں نے واقعی پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ہم اس دروازے سے اندر داخل ہوگئے۔ لمبی سی سرنگ تھی۔ ناگوں کی سی پھنکار سنائی دے رہی تھی اور میرا شریر خوف سے کانپ رہا تھا۔ میں اپنے جیون کے انت کا یقین کرچکا تھا لیکن لمبی سرنگ کا خاتمہ ایک بڑے سے چوکور کمرے پر ہوا جو لال اینٹوں ہی سے بنا ہوا تھا اور سیکڑوں سال پرانا معلوم ہوتا تھا۔ اس کمرے میں لکڑی کے بڑے بڑے صندوق رکھے ہوئے تھے جن کی لکڑی کے رنگ سے ان کے پرانے ہونے کا اندازہ ہوتا تھا۔ مشعل کی روشنی میں کمرے کا ماحول بڑا بھیانک نظر آرہا تھا۔ گرج ناتھ سیوک نے ایک صندوق کھول دیا اور پورا کمرا بھک سے روشن ہوگیا۔ سفید، نیلی، ہری، پیلی، لال روشنیوں کی کرنیں پورے کمرے کو منور کرنے لگیں۔ یہ ہیرے جڑے زیورات تھے جن کی بناوٹ اتنی پرانی تھی کہ اب ایسی بناوٹ کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ سونے کے یہ زیورات، گول گول گنیاں اور نجانے کیا کیا۔ یہ سب کچھ دیکھ کر مجھ پر بے ہوشی طاری ہونے لگی۔ مہاراج! دولت اس سنسار کی سب سے بڑی چیز ہے اور میرے سامنے سچ مچ اتنی
موجود تھی کہ میں خواب میں بھی اسے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ میں نے سپنوں میں بھی نہیں سوچا تھا اس کے بارے میں۔ گرج ناتھ سیوک نے کہا۔
’’یہ تیری ہے اور یہی کیا بلکہ یوں سمجھ لے کہ دھرتی کے اندر اتنا کچھ چھپا ہوا ہے کہ تو دیکھے تو حیران رہ جائے۔ ہم تجھے بھی یہ سب کچھ دکھا دیں گے۔ تیری دھرم پتنی تو ہمارے ساتھ دھرتی کی گہرائیوں میں سفر کرتی ہے۔ ہم نے اسے مہان بنا دیا ہے۔ وہ اکیلی ہی چاہے تو بہت کچھ کرسکتی ہے مگر اب وہ سمے آگیا ہے جب تجھے ہمارا یہ کام کرنا ہے۔ ہم تجھے مجبور نہ کرتے لیکن جو وعدہ تو کرکے آیا ہے، وہ تیرے پریوار کیلئے بڑا خراب ہوگا اور ہم نہیں چاہتے کہ سوریہ کرن کے من کو دکھ پہنچے۔ سوسن تو کچھ نہیں بولے گا اس سلسلے میں، نہ کسی کو سمجھائے گا، نہ کہیں باہر جائے گا بلکہ تو اب ہمارے لئے کام کرے گا۔ جوالاپور کا بہت بڑا آدمی بننے کیلئے اب تجھے ہمارے کام کرنے ہوں گے اور جو کام ہم تجھ سے لینا چاہتے ہیں، وہ تجھے بتائے دیتے ہیں۔ کیا سمجھا۔ اب ہندو مسلمانوں کی بات آگے بڑھ جانی چاہیے اور تو چنتا مت کر، ہم ان سارے سسروں سے نمٹ لیں گے، ٹھیک کردیں گے ایک ایک کو۔ جو مارے جائیں گے، وہ تو مارے جائیں گے، باقی جوالاپور چھوڑ کر بھاگ جائیں گے اور پھر جوالاپور بنے گا اکھنڈ ہندو جاتی۔ اکھنڈ بھوانی استھان، کیا سمجھا؟ وہ قہقہے لگانے لگا لیکن مجھ پر خزانے کا سحر طاری تھا۔ اس بھنڈار میں اتنا کچھ تھا کہ میری عقل ٹھکانے نہیں رہی تھی۔ وہ ہاتھ پکڑے مجھے وہاں سے باہر نکال لایا اور اس کے بعد میری دھرم پتنی سے بولا۔ ’’ہم جارہے ہیں سوریہ! ہمارے بعد تو اس بائولے کو سمجھانا۔ یہ کام اب تیرے سپرد ہے۔‘‘
بہت مہان بننے کی کوشش نہیں کررہا مہاراج۔ انسان تھا، انسان ہوں اور انسان رہوں گا۔ وہ خزانہ دیکھ کر مجھ پر ایسی بدحواسی طاری ہوگئی تھی کہ میری سوچنے، سمجھنے کی قوت ہی ختم ہوگئی تھی۔ سوریہ کرن مجھے اپنے کمرے میں لے آئی۔ بڑے پریم سے مجھے بٹھایا۔ بہت عرصے کے بعد اس نےمیرے اتنے قریب آکر مجھ سے بات چیت کی کہ میرا دل ڈانواں ڈول ہونے لگا۔ بولی۔ ’’سچ یہ ہے کہ مہاراج گرج ناتھ اتنے بڑے آدمی ہیں کہ ہم تم سوچ بھی نہیں سکتے۔ ان کے پاس مہان شکتی ہے اور وہ جو چاہے کر سکتے ہیں۔ یہ تو میری اور تمہاری خوش قسمتی ہے کہ انہوں نے پہلے مجھے اور اب تمہیں اپنا سیوک چن لیا۔ یقین کرو ہم سنسار کے امیر ترین لوگ بن جائیں گے۔ جوالاپور میں رہنے والا ہر ہندو اتنی دولت حاصل کرلے گا کہ شہر کے شہر خرید سکے۔ مہاراج مجھے دھرتی کے سینے میں نجانے کتنی دور دور تک کا سفر کرا لائے ہیں۔ انہوں نے کھنڈروں میں اور زمینوں میں چھپے ہوئے ایسے ایسے خزانے دکھائے ہیں مجھے کہ تم دیکھو تو تمہاری آنکھوں کی روشنی چلی جائے۔ وہ یہ سارے خزانے اکٹھے کرکے اکھنڈ بھوانی مکنڈ میں لانا چاہتے ہیں۔ جوالاپور کے بھاگ جاگ رہے ہیں تو پھر تم ہندو جاتی ہوکر ہندوئوں کیلئے کام کیوں نہیں کرتے؟‘‘ میں نے بے بسی سے کہا۔
’’مگر انسانوں کا جیون بھی تو کوئی حیثیت رکھتا ہے۔ جب لڑائی ہوگی تو کیا ہندو نہ مارے جائیں گے مسلمانوں کے ہاتھوں؟‘‘
’’دیکھو جو کچھ ہونا ہوگا، وہ تو ہوکر رہے گا مگر تم کیوں اپنے جیون کو روگ لگاتے ہو۔ تم وہی کرو جو گرج ناتھ بھگوان کہتے ہیں۔‘‘
’’مجھے کرنا کیا ہوگا؟‘‘
’’سب سے پہلے تمہیں ایک کام کرنا ہوگا۔ وہ جو مسلمان نواب ہیں نا، ارے میں اس کنور ریاست علی کی بات کررہی ہوں، تم اس سے گٹھ جوڑ کرو، میل ملاپ بڑھائو۔ اس کے بازو پر ایک تعویذ بندھا ہوا ہے، وہ تعویذ اسے کسی مسلمان جوگی نے دیا تھا۔ وہ تعویذ اسے سنسار کی ہر آفت سے محفوظ رکھتا ہے۔ اگر وہ اس کے ہاتھ پر نہ ہوتا تو اب تک تو اس کا کریاکرم ہوچکا ہوتا۔ تم اس سے اس بارے میں بات چیت کرو کہ تم امبھا چرن اور نتھیا کے بیانوں کے خلاف کام کررہے ہو اور ہندوئوں کو اپنا ہم آواز بنا رہے ہو۔ اس سلسلے میں تمہیں کنور ریاست علی کی مدد درکار ہوگی۔ اس سے کہو کہ پرانی رنجشیں بھلا کر پھر سے نئی دوستی کی جائے۔ جیسے بھی بن پڑے، اسے جھیل پر نہانے لے جائو اور جب وہ جھیل میں اترے تو اس کے بازو سے تعویذ کھول لو یا پھر اسے اس کے گھر میں یا پھر کہیں اور بلا کر نشے کی کوئی ایسی چیز دے دو کہ وہ بے ہوش ہوجائے اور پھر اس کا تعویذ اتار لو۔ یہ کام تمہیں جیسے تمہارا من کہے، کرنا ہے۔ تمہارا بس اتنا ہی کام ہے باقی کا ہم کرلیں گے۔‘‘
میں حیرت سے سوریہ کرن کو دیکھنے لگا۔ مجھے اس بات پر حیرت تھی کہ وہ گرج ناتھ سیوک کے کاموں سے کتنی واقف ہوچکی ہے۔ ایک طرح سے مجھ سے تو وہ ہٹ ہی چکی تھی۔ سارا کچھ تھا مہاراج… مجھے خزانوں کا لالچ دیا گیا تھا مگر انسانوں کا جیون کھونے کو میرا من نہیں مانتا تھا اور پھر یہ بات بھی بڑی عجیب لگی تھی مجھے کہ وہ ریاست علی کے کسی تعویذ سے خوف زدہ تھا اور اس کے خلاف کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ اس طرح کچھ امید بندھی تھی مہاراج کہ کوئی ایسی چیز ہے جو اسے اس کے کالے کرتوتوں سے روک سکتی ہے۔ دل میں، میں نے سوچ لیا کہ یہ کام میں کبھی نہیں کروں گا مگر چالاکی سے کام لینا چاہتا تھا۔ چنانچہ میں نے سوریہ کرن سے کہا۔
’’یہ ساری باتیں تو اپنی جگہ سوریہ… مگر تمہیں کیا ہوگیا ہے؟‘‘
’’کیوں۔ مجھے کیا ہوگیا؟‘‘
’’تم تو مجھ سے بالکل ہٹ گئی ہو۔‘‘
’’جو گرج ناتھ کے سیوک ہوتے ہیں، وہ کسی اور کے کچھ نہیں ہوتے۔‘‘ اس نے صاف گوئی سے کام لیا۔ (جاری ہے)

Latest Posts

Related POSTS