کالے جادو کے ماہر بھوریا چرن سے ملاقات، مسعود کیلئے مشکلات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ثابت ہوئی۔ بھوریا اسے اپنا آلۂ کار بنانا چاہتا تھا لیکن مسعود کے انکار پر وہ اس کا بدترین دشمن بن گیا۔ اس نے مسعود کا جینا دوبھر کردیا تھا لیکن وہ ثابت قدمی سے حالات کا مقابلہ کررہا تھا۔ مسعود کی اسی خوبی نے چند برگزیدہ ہستیوں کو اس کی جانب متوجہ کردیا، انہوں نے بھوریا کے چنگل سے نکلنے میں اس کی مدد کی اور روحانی طور پر بھی اسے نوازا۔ مسعود خدمت خلق میں مصروف ہوگیا تھا لیکن بھوریا نے اب بھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑا تھا۔ اسی آنکھ مچولی کے دوران مسعود کی ملاقات ثریا سے ہوئی تو وہ اسے دل دے بیٹھا۔ ثریا قوتِ گویائی سے محروم ایک بے سہارا لڑکی تھی اور ایک ہندو گھرانے کی پناہ میں تھی۔ بعد کے حالات سے معلوم ہوا کہ وہ بھی بھوریا کے عتاب کا شکار ہوئی تھی۔ بھوریا نے ثریا کے بھائی اکرام کو اپنا الۂ کار بنانے کے چکر میں انہیں جدا کرکے اسے اس حال تک پہنچایا تھا۔ اس نے اکرام کو مسعود کے قتل پر مامور کردیا تھا لیکن حالات نے اسے مسعود کا احسان مند بنادیا اور وہ بھوریا کے خلاف اس کا ساتھی بن گیا۔ اس دوران بھوریا، ثریا کو غائب کرچکا تھا۔ مسعود کو کچھ اشارے ملے تو وہ اس کی تلاش میں اکرام کے ہمراہ جوالا پور جا پہنچا۔ یہاں آنے کے بعد اسے معلوم ہوا کہ شہر میں ہندو، مسلم فسادات جاری تھے۔ ان فسادات کا ذمہ دار کالے جادو کا ایک ماہر گرج ناتھ تھا جو جوالا پور کو اپنا ٹھکانہ بنانا چاہتا تھا۔ اس نے یہاں کالے جادو کے زور سے ایک مندر تعمیر کرلیا تھا لیکن ایک مسجد کی تعمیر نو میں رکاوٹ بنا ہوا تھا۔ جب مسعود نے مسجد کی تعمیر کا بیڑہ اٹھایا تو اس کام میں جنات نے اس کی مدد کی اور راتوں رات مسجد تعمیر ہوگئی۔ اس واقعے کے بعد جوالا پور کے لوگ مسعود کی جانب متوجہ ہوگئے، شہر کا ایک دولت مند شخص مول چند مدد کیلئے اس کے پاس پہنچا کیونکہ گرج ناتھ نے اس کی بیوی کو اپنے قابو میں کرلیا تھا۔
(اب آپ آگے پڑھیے)
’’مگر تم میری دھرم پتنی ہو۔‘‘
’’میرا دھرم اب صرف سیوک دھرم ہے۔‘‘
’’میرا اب تم سے کوئی ناتا نہیں رہا؟‘‘
’’سنسار کی نگاہوں میں جو ہے، سو ہے۔ تم چاہو تو اسے توڑ دو، چاہو بنا رہنے دو، یہ تمہاری مرضی ہے۔ ویسے میری مدد کیلئے آج ناتھ کے سیوک بن جائو، سب کچھ مل جائے گا تمہیں۔ مجھے اندازہ ہوگیا کہ اب سوریہ کرن وہ سوریہ نہیں رہی جو تھی۔ وہ بہت آگے نکل چکی تھی۔ اب تو اس سے بھی ڈرنا پڑے گا۔‘‘
’’کیا سوچنے لگے مول چند بابو؟‘‘ اس نے مجھے خاموش پا کر کہا۔
’’سوچ رہا ہوں کہ تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ میں تو سرکار سے اس بارے میں بات کرنے جارہا تھا۔‘‘
’’کیوں اپنے جیون پر کشٹ مول لیتے ہو؟ کچھ حاصل نہیں ہوگا اس سے تمہیں جو کہا جارہا ہے، وہی کرو۔ اس میں جیون سوارت ہوسکتا ہے، نہیں تو نقصان اٹھا جائو گے۔‘‘
’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔ دھمکیاں کیوں دے رہی ہو مگر آخر ایسی کیا بات ہے اس تعویذ کے اندر جس کی وجہ سے گرج ناتھ سیوک جیسا مہان کنور ریاست علی سے ڈرا ہوا ہے؟‘‘
’’دیکھو جو کام کہا جائے، بس اس کے بارے میں سوچو۔ کیا ہے، کیوں ہے، کیسے ہے، یہ ساری بیکار کی باتیں ہیں اور ان سے تمہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ میں نے دل ہی دل میں اسے بہت سی گالیاں دی تھیں۔ دھرم پتنی میری تھی اور بات ایسے کررہی تھی گرج ناتھ سیوک کے بارے میں جیسے اس سے جنم جنم کا رشتہ ہو۔ بہرطور میں نے وعدہ کرلیا مگر دل میں، میں نے سوچا کہ بھول کر بھی ایسا کوئی کام نہیں کروں گا۔ صاف صاف کہہ دوں گا کہ اس کوشش میں، میں کامیاب نہیں ہوسکا اور اس کے بعد میں خود ہی کنور ریاست علی کی حویلی پہنچ گیا۔ سلام دعا کی ان سے مگر کنور صاحب اپنے ہی رنگ میں مست تھے۔ کہنے لگے۔ ’’کہو لالہ جی، کیا خبر لے کر آئے ہو؟ آج کل تو تمہارے آدمی خوب بھاگ دوڑ کررہے ہیں مسلمانوں کے خلاف۔ سنا ہے بلوہ فساد کرانا چاہتے ہیں؟‘‘
’’نہیں کنور صاحب! اگر آپ کے دل میں یہ خیال ہے تو اسے دل سے نکال دیجئے لیکن کچھ ایسی باتیں ہوچکی ہیں جن سے صورت حال بگڑنے لگی ہے۔‘‘
’’چلی نا بننے والی چال، اپنی جان بھی بچا رہے ہو اور حرکتیں وہی کی وہی جاری ہیں۔ ٹھیک ہے بابو مول چند، جو کچھ ہورہا ہے، ہم بھی اس کا جواب اسی انداز میں دیں گے۔ یہ مت سوچنا کہ یہاں مسلمان، ہندوئوں سے ہلکے پڑ جائیں گے۔ تمہارے ہرکارے جو کچھ کررہے ہیں، ہم اس سے بھی نمٹ لیں گے۔‘‘
’’ارے تم کیا نمٹو گے کنور صاحب، آج تک ہم نے تمہاری عزت کی ہے مگر تمہارا منہ سیدھا ہی نہیں ہوتا۔ کتے کی دم کی طرح ٹیڑھے کے ٹیڑھے ہی ہو۔‘‘ میں نے کہا۔ اچانک ہی ایک منصوبہ میرے ذہن میں آگیا تھا۔ کنور صاحب کیلئے تو یہ الفاظ گویا بم کے دھماکے سے کم نہیں تھے، ہتھے سے اکھڑ گئے۔ مجھے چار آدمیوں کے ذریعے اٹھا کر حویلی سے باہر پھنکوا دیا اور خوب بے عزتی کی میری! میں خوش تھا اس بات پر مہاراج کہ وہ کام منٹوں میں ہوگیا جس کیلئے میں پریشان تھا۔ میں وہاں سے اٹھ کر چلا آیا۔ میری اس درگت سے ہندوئوں میں اشتعال پیدا ہوگیا تھا لیکن میں نے انہیں دھیرج رکھنے کیلئے کہا۔ گھر واپس آگیا اور میرا اندازہ ٹھیک نکلا۔ یہ خبر گرج ناتھ سیوک کو پہنچ چکی تھی۔
وہ سوریہ کرن کے ساتھ ہی میرے کمرے میں آیا اور مجھ سے ساری صورت حال کے بارے میں پوچھنے لگا تو میں نے کہا۔ ’’وہ کنور کا بچہ تو سیدھے منہ بات ہی نہیں کرتا۔ میں نے اس سے کہا کہ یہ کام دوسروں کا ہے، ہماری دوستی میں فرق نہیں آنا چاہئے تو مجھ پر بگڑ گیا۔ کہنے لگا۔ ’’او دال کھانے والے بنئے! میری اور تیری دوستی کیا معنی رکھتی ہے۔ اپنی اوقات بھول گیا؟‘‘ بس مجھے بھی غصہ آگیا اور اس کے بعد اس نے مجھے اپنی حویلی سے نکلوا دیا۔
’’چنتا مت کر مول چند بابو، چنتا مت کر، اب تجھے ایک اور کام کرنا ہے۔‘‘
’’وہ کیا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’بتاتا ہوں، بتا دوں گا۔‘‘ وہ بولا۔ ’’سن ری سوریہ کرن۔‘‘ وہ سوریہ کرن سے بولا۔ ’’آج رات کو تو اس کے ساتھ مایا مکنڈ آجانا۔ سورج چھپنے کے فوراً بعد تم دونوں کو مایا مکنڈ پہنچ جانا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر گرج ناتھ سیوک چلا گیا۔ سوریہ کرن نے اپنے کمرے میں داخل ہوکر کمرا بند کرلیا اور میں یہ سوچنے لگا کہ نجانے اب وہ پاپی جادوگر کیا کرنا چاہتا ہے۔ کنور ریاست علی خان سے لڑائی لے کر میں نے کم ازکم وہ خطرہ تو ٹال دیا تھا کہ دوست بنا کر مجھے ان کے بازو کا تعویذ حاصل کرنا پڑے۔
لیکن کنور ریاست علی خان صاحب بات نہیں سمجھے تھے۔ اب اس کا نتیجہ ادھر سے نہ جانے کیا ہو۔ شام سورج چھپتے ہی سوریہ کرن میرے پاس آگئی اور میں اس کے ساتھ چل پڑا۔ ریاست باغ میں داخل ہوکر میں اس مندر کے سامنے پہنچ گیا جس میں کوئی دروازہ نہیں تھا۔ میرا حلق خشک ہورہا تھا مہاراج! بڑا ڈر لگ رہا تھا مجھے، نہ جانے اب کیا ہو۔ کہیں اس جادوگر کو یہ پتا نہ لگ جائے کہ میں من سے اس کے ساتھ نہیں ہوں یا کنور صاحب کے بارے میں اس سےچال چلی گئی ہے اور پھر یہ طلسمی مندر۔
ایک دیوار کے سامنے پہنچ کر سوریہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور پھر ہم دونوں دیوار سے گزر کر اس طرح اندر آگئے جیسے وہ صاف دھویں کی دیوار ہو۔ کوئی رکاوٹ نہیں ہوئی تھی مگر مہاراج! اندر داخل ہوکر میری کھوپڑی چکرا گئی۔ کنور صاحب کا یہ باغ اتنا بڑا تو نہ تھا اور پھر مندر تو بہت ہی چھوٹا تھا لیکن اندر آکر مجھے ایسا لگا جیسے میں سیکڑوں بیگھے پر پھیلے ہوئے کسی عظیم الشان قلعے میں کھڑا ہوں۔ جہاں تک نظر کام کرتی تھی، پھول کھلے ہوئے تھے۔ ان کے بیچ سنہرے چمکتے ہوئے مجسمے کھڑے ہوئے تھے جنہیں قریب سے دیکھنے پر پتا چلا کہ سونے کے ٹھوس مجسمے ہیں۔ ان میں ہیرے جڑے ہوئے تھے۔ جگہ جگہ در بنے ہوئے تھے، ان پر بھی سونے کی پترکاری کی ہوئی تھی۔ عجیب مندر تھا بھگوان کی سوگند مہاراج وہاں سیکڑوں من سونا سجا ہوا تھا، کروڑوں کی مالیت کے ہیرے بھرے ہوئے تھے۔ وہ سچ مچ مایا کنڈ تھا۔ میری تو آنکھیں پھٹی رہ گئی تھیں۔ پھر وہیں مجھے گرج ناتھ ملا۔ راجہ بنا ہوا تھا داسیوں کے جھرمٹ میں۔ مجھے دیکھ کر سب کو ہٹا دیا اور پھر ایک در میں جا بیٹھا۔
’’بیٹھو مول چند بابو! وہ سسرا مسلمان بہت چالاک ہے مگر سیوک سے بچ کر کہاں جائے گا۔ بس اسی کا کانٹا ہے ورنہ سب ٹھیک ہوجاتا۔ اب تمہیں دوسرا کام کرنا ہے۔‘‘
’’حکم دیں مہاراج۔‘‘
’’جائو سوریہ، لے آئو۔‘‘ گرج ناتھ نے کہا۔ سوریہ کرن چلی گئی۔ پھر وہ واپس آئی تو اس کے ہاتھوں میں ایک تھالی تھی جو چاندی کی بنی ہوئی تھی۔ اس میں آٹے کے بنے ہوئے دو پتلے رکھے ہوئے تھے۔ گرج ناتھ انہیں دیکھ کر مسکرانے لگا۔ ’’یہ ہندو‘‘ اس نے ایک پتلا اٹھا کر کہا۔ ’’اور یہ مسلمان۔‘‘ اس نے دوسرے پتلے کو دیکھ کر کہا۔ پھر اس تھالی میں سے اس نے دو سوئیاں اٹھائیں اور بولا۔ ’’اور یہ ہیں نفرت کی سوئیاں۔ ایک اس کے دل میں، دوسری دوسرے کے دل میں۔‘‘ اس نے دونوں سوئیاں گندھے ہوئے آٹے کے پتلوں میں چبھو دیں۔ پھر مجھ سے بولا۔ ’’تم یہ دونوں پتلے لے جائو مول چند، اور انہیں جوالاپور کے چوک جوالا میں بیچوں بیچ گاڑھ دو، پھر دیکھو تماشا۔‘‘
میرا دل کانپ اٹھا تھا مہاراج، مگر مجھ میں ہمت نہیں تھی کہ اب اس سے منہ موڑوں۔ امبھا چرن میرے ساتھ بھیجا گیا اور میں نے آدھی رات کو وہ دونوں پُتلے زمین میں گاڑ دیئے۔ پھر مہاراج تین دن تک لوگ ان نفرت کے پُتلوں سے گزرے اور چوتھے دن اس چوک میں پہلا فساد ہوا۔ وہ جگہ خون میں نہا گئی اور اس کے بعد سے اب تک فساد جاری ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔ امبھا چرن روز رات کو جاکر وہاں انسانی خون ڈالتا ہے۔ وہ جگہ ہمیشہ خون میں ڈوبی رہتی ہے جہاں پُتلے دبے ہوئے ہیں۔ دونوں طرف کے لوگ مر رہے ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے مہاراج کہ اس مسجد سے اذان کی آواز بلند ہوئی ہے۔ رام بھروسے میرا آدمی ہے، یہ بھی دوسروں کے ساتھ جھگڑے میں تھا مگر اس نے واپس جاکر مجھے یہاں کی کہانی سنائی اور مہاراج میں ہمت کرکے یہاں آگیا۔‘‘
پوری کہانی سننے کے بعد میں نے کہا۔ ’’اب تم کیا چاہتے ہو مول چند؟‘‘
’’بھگوان کی سوگند مہاراج، آپ یہ مسجد پورے باغ پر بنا لیں۔ میں خوشی سے کہتا ہوں سسری دھرتی کون سی کسی کے ساتھ جائے گی مگر کوئی اپائے کرو، انسان بچ جائیں، یہ دیوانگی ختم ہوجائے۔ ہندو ہوں یا مسلمان، ہیں تو انسان، برسوں کے ساتھ رہنے والے۔ ایسے دشمن ہوگئے ایک دوسرے کے اسے روکئے مہاراج۔‘‘
’’تم اچھے انسان ہو مول چند۔ اِن شاء اللہ یہاں فساد بند ہو جائے گا۔‘‘
’’میرے لئے کوئی حکم ہو تو بتایئے؟‘‘
’’نہیں۔ خاموشی سے اپنا کام جاری رکھو۔‘‘
’’ایک بات اور کہنا چاہتا ہوں مہاراج۔‘‘
’’ہوں… کہو۔‘‘
’’ہوسکتا ہے دھرم کے دیوانے دوبارہ یہاں کوئی حرکت کرنے آئیں۔ آپ اسے میرا کام نہ سمجھیں۔ میں کھل کر یہ بات نہیں کہہ سکتا کہ میرے من میں کیا ہے مگر آپ سے کہہ چکا ہوں کہ آپ چاہیں تو میرے اس پورے باغ کو مسجد بنا لیں، مجھے اعتراض نہ ہوگا۔‘‘
’’میں سمجھتا ہوں مول چند۔‘‘
’’پھر میں چلتا ہوں مہاراج۔‘‘
’’جائو اور اطمینان رکھو، تمہارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔‘‘ اس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر ماتھے سے لگائے۔ رام بھروسے نے بھی ایسا ہی کیا اور پھر وہ چلے گئے۔ اکرام کسی پتھر کے بت کی مانند ساکت تھا۔ میں نے مسکرا کر اسے دیکھا، پھر کہا۔ ’’کیا بات ہے اکرام، کچھ بولو گے نہیں؟‘‘
’’یہ سب کچھ کتنا عجیب ہے۔‘‘
’’ہاں! دنیا کی کہانیاں ہیں، ایسی ہی ہوتی ہیں اور ایسا ہی ہوتا ہے۔ چلو ٹھیک ہے کام جاری ہے، آگے بڑھ رہا ہے۔ تم گھبرائے تو نہیں ہو؟‘‘
’’بالکل نہیں مسعود بھیا۔‘‘
’’اندر تعمیر کا سامان پڑا ہے، وہاں سے دو کدالیں اٹھا لاؤ۔ جا کر لے آؤ۔‘‘ میں نے کہا اور اکرام چلا گیا۔ پھر کدالیں لے کر آگیا۔
’’یہ میں نے پہلے نہیں دیکھی تھیں۔‘‘ وہ حیرت سے بولا۔
’’آؤ چلیں۔‘‘ میں نے ایک کدال سنبھال کر آگے بڑھتے ہوئے کہا۔ اکرام بھی میرے ساتھ چل پڑا۔ وہی ویرانی اور ہیبت ناک سناٹا۔ اکرام خوفزدہ تھا مگر ہمت کئے ہوئے تھا۔ اسے خوف تھا کہ کسی طرف سے چھپا ہوا کوئی ہندوؤں کا غول نہ نکل آئے۔ بمشکل اس نے کہا۔
’’ہم کہاں چل رہے ہیں مسعود بھیا؟‘‘
’’جوالا چوک۔ یہاں سے ہم زمین کھود کر پہلے وہ نفرت کے پُتلے نکالیں گے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
میں نے اکرام کے چہرے پر اس جواب کے نتائج نہیں دیکھے تھے۔ وہ مجھ پر اندھا اعتماد کرنے لگا تھا لیکن انسان تھا اور ایسے حالات سے خوفزدہ ہو جانا انسانی فطرت کے عین مطابق تھا۔ یعنی اس وقت صورت حال یہ تھی کہ جوالاپور کے رہنے والے ہندو، مسلمان ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ کب کہاں سے گھات لگائے ہوئے درندے نکل کر حملہ آور ہو جائیں۔ دن کی روشنی تک میں لوگ گھروں سے باہر نہیں نکل رہے تھے۔ یہ تو رات کے ہولناک سناٹے تھے۔ ہم چلتے رہے۔ ایک آدھ بار پولیس گاڑی کی روشنی نظر آئی تو آڑ میں ہو گئے۔ پتہ نہیں اکرام پر کیا بیت رہی تھی۔ ہم جوالا چوک پہنچ گئے۔ چاروں طرف ویران سناٹا پھیلا ہوا تھا۔ کسی ذی رُوح کا پتہ نہیں تھا۔ میں مدھم قدرتی روشنی میں زمین دیکھتا آگے بڑھتا رہا اور پھر وہ جگہ بالکل صاف نظر آ گئی جہاں خون کے چکتے جمے ہوئے تھے۔ جادو کے پتلوں کو غسل خونیں دیا جاتا تھا اور نہ جانے کہاں کہاں سے یہ خون حاصل کیا جاتا رہا ہوگا۔
’’یہ…یہ وہ جگہ ہے نا۔‘‘ دفعتاً اکرام کے منہ سے نکلا۔
’’ہاں۔ ٹھیک سمجھے ہو۔ سب سے پہلے ہمیں یہاں سے نفرت کے ان پتلوں کو نکالنا ہے۔‘‘ میں نے کہا اور کدال سیدھی کر لی۔ پھر میں نے پہلی کدال زمین پر ماری تھی کہ چھن کی آواز آئی اور اکرام کی گھگھی بندھ گئی۔ نہ جانے کہاں سے ایک عورت اور ایک مرد نمودار ہو گئے تھے۔ ان کے چہرے بھیانک سیاہ تھے۔ سرخ زبان باہر لٹکی ہوئی تھی۔ انہوں نے دونوں ہاتھ سامنے کئے ہوئے تھے۔ اکرام تو کانپنے لگا مگر میں نے پُرسکون نظروں سے انہیں دیکھا۔
’’تو تمہاری ڈیوٹی یہاں ہے۔‘‘ میں نے کہا اور وہ بھیانک آواز میں اپنا جسم توڑنے مروڑنے لگے۔ ان کے جسم کے اعضاء خوفناک شکلیں پیش کرنے لگے۔ کبھی ان کی آنکھیں حلقوں سے ایک ایک فٹ آگے نکل آتیں، کبھی ناک لمبی ہو جاتی، کبھی ہونٹ ٹھوڑی سے نیچے لٹک جاتا اور لمبے دانت نظر آنے لگتے۔ وہ یہ حرکتیں کرتے ہوئے ڈرانے والے انداز میں آگے بڑھ رہے تھے، تب میں نے دوبارہ کہا۔
’’رمبھا چرن، نتھیا اور گرج ناتھ کے پالتو کتو! بھاگ جائو یہاں سے ورنہ خاک ہو جائو گے۔‘‘ میں نے دونوں ہاتھ سیدھے کئے تو وہ رک گئے۔ اچانک ہی دونوں زمین پر لیٹ گئے، پھر لڑھکتے ہوئے دور چلے گئے اور نگاہوں سے اوجھل ہو گئے۔ میں نے دوبارہ کدال زمین پر چلائی تو پھر وہ چھن چھن کرتے ہوئے آ گئے اور ہمارے جسموں پر جھپٹے مارتے ہوئے دور نکل گئے۔ میں نے اکرام کو دیکھ کر کہا۔
’’چلو اکرام شروع ہو جائو۔ یہ مکھیاں تو ایسے ہی بھنبھناتی رہیں گی۔ آئو جلدی کرو۔‘‘ اکرام کیا اچھے اچھوں کے ہوش خراب ہو جاتے جو حرکتیں یہ لوگ کر رہے تھے۔ اس بار پھر وہ نگاہوں سے اوجھل ہو گئے تھے۔ اکرام خود کو سنبھالنے کی کوشش کر رہا تھا مگر کدال اس کے ہاتھوں میں لرز رہی تھی۔ ’’بسم اللہ کر کے شروع ہو جائو۔‘‘ میں نے اسے جگہ دے کر کہا۔ اکرام نے کدال بلند کی اور پھر ایک گھٹی گھٹی آواز نکال کر رک گیا۔ میں نے بھی دیکھ لیا۔ نتھیا اچانک زمین پر اس جگہ نمودار ہو گئی جہاں کدال کی ضرب لگنے والی تھی۔ اس نے دونوں ہاتھ اٹھا کر اکرام سے رکنے کی درخواست کی تھی۔ میری کدال اوپر اٹھی تو رمبھا چرن نے اسے پیچھے سے پکڑ لیا۔ میں نے ایک زوردار جھٹکا دیا تو اچھل کر سامنے آ گیا اور لٹو کی طرح گھومنے لگا۔
’’ٹھیک ہے۔ اب پہلے تمہارا کام کرنا پڑے گا۔ آئو ذرا دیکھوں تمہیں۔‘‘ میں نے کہا اور بسم اللہ پڑھ کر درود شریف پڑھنا شروع کر دیا، جو میں نے درود پاک کا آغاز کیا ،دفعتاً وہ اٹھ بھاگے۔ بھاگتے ہوئے وہ چیخ رہے تھے۔
’’دوڑو اے دوڑو مسلے آ گئے۔ آگئے رے آ گئے مسلے آ گئے۔‘‘ اس کے بعد وہ واپس نہیں پلٹے۔ مگر کچھ گھروں میں روشنیاں ہو گئی تھیں۔
’’چلو اکرام… اب نہیں آئیں گے وہ۔‘‘
میں نے کہا اور زمین پر کدال چلانے لگا۔ اکرام یہاں بھی بدروحوں کی ناکامی دیکھ چکا تھا اور اسے اطمینان ہو گیا تھا۔ چنانچہ وہ بھی مصروف ہو گیا۔ وہ دونوں نہ جانے کہاں تک چیختے ہوئے گئے تھے۔ لوگ جاگ بھی گئے تھے مگر کوئی دیوانگی میں باہر نہیں نکلا اور ہم دونوں اپنا کام کرتے رہے۔ ویسے بھی ہمیں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی، پتلے زیادہ گہرے نہیں گاڑے گئے تھے۔ تھوڑی سی کوشش سے ہی وہ ہمیں نظر آ گئے۔ آگ کی طرح دہک رہے تھے۔ میں نے کدال کی نوک ہی سے انہیں باہر کھینچ لیا اور پھر ان پر تھوک دیا۔ تھوک کی چھینٹیں ان پر پڑیں تو ایسی ہی آوازیں ابھریں جیسے جلتے لوہے پر پانی سے پیدا ہوتی ہیں۔ میں نے دوبارہ ان پر تھوکا تو دونوں پُتلے اچھل کر بھاگے مگر میں نے لپک کر ان میں سے ایک پر پائوں رکھ دیا اور دوسرے پر کدال پھینک ماری۔ دونوں پچک گئے۔ میں نے پائوں کے نیچے موجود پُتلے کو بری طرح مسل دیا اور وہ ریزہ ریزہ ہو گیا۔ پھر آگے بڑھ کر دوسرے کا بھی یہی حشر کیا اور پھر اکرام سے کہا کہ ان کے ٹکڑے جمع کرے۔ اکرام کی ہمت بحال ہو گئی تھی۔ اس نے ان پُتلوں کا ملغوبہ سمیٹا۔ اب وہ بالکل ٹھنڈے ہو گئے تھے، پھر ہم وہاں سے چل پڑے۔ رخ باغ کی طرف تھا۔ راستے میں کوئی مزاحمت نہیں ہوئی اور ہم باغ میں داخل ہو گئے۔ باغ کے ایک گوشے میں پُتلوں کا ملغوبہ زمین پر ڈال کر اس میں آگ روشن کر دی۔ چند لمحوں میں وہ جل کر خاکستر ہو گئے۔ تب ہم مسجد واپس آ گئے۔ اکرام خاموشی سے اپنی مخصوص جگہ جا لیٹا تھا۔
دوسرا دن معمول کے مطابق تھا۔ صبح، دوپہر پھر شام ہو گئی۔ مغرب ہونے میں دیر باقی تھی کہ مسجد کے بڑے دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے خود دروازہ کھولا تھا۔ مول چند تھا۔ مجھے دیکھ کر اس نے دونوں ہاتھ جوڑ دیئے اور بولا۔ ’’سلام مہاراج۔‘‘
’’کیسے ہو مول چند؟‘‘
’’دیا ہے بھگوان کی۔ ہمارے آنے کا برا تو نہیں مانے مہاراج۔‘‘
’’نہیں بھئی برا کیوں مانتا۔‘‘ میں نے مسکرا کر کہا۔
’’بھگوان کی سوگند، بتا نہیں سکتا آپ کو کہ مجھے کیا ہو گیا ہے۔ بڑا من لگ گیا ہے آپ سے…‘‘
’’یہ تمہاری محبت ہے۔ کہو جوالاپور کے کیا حالات جا رہے ہیں؟‘‘
’’ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں آپ سے؟‘‘
’’پوچھو۔‘‘
’’جوالاپور چوک کی زمین کھدی ہوئی ہے، دوسرے اس بارے میں نہیں جانتے، پر میں جانتا ہوں کہ وہاں کیا تھا۔ آپ نے مہاراج… کیا آپ نے۔‘‘ وہ سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھنے لگا۔
میں نے ایک لمحے کے لئے کچھ سوچا، پھر کہا۔ ’’ہاں مول چند تم نے اس نفرت کی وجہ مجھے بتا دی تھی اور سب سے پہلا کام یہی ضروری تھا کہ نفرت کی وجہ ختم کی جائے۔ میں نے وہ دونوں جادو کے پُتلے نکال کر خاکستر کر دیئے ہیں اور اب ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔‘‘
مول چند کے چہرے پر خوشی کے تاثرات پھیل گئے۔ اس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر گردن ہلاتے ہوئے کہا۔ ’’جے ہو مہاراج کی۔ بھگوان کی سوگند، میرا خیال سیدھا اسی طرف گیا تھا اور مجھے یاد آ گیا تھا کہ میں نے مہاراج کو ان پُتلوں کے بارے میں بتایا تھا۔ یہ کام مہاراج ہی کا ہو سکتا ہے۔ ہوا یوں مہاراج کہ اٹھارہ آدمیوں پر بنی ہوئی ایک کمیٹی میرے پاس آئی، اچھے اچھے لوگ شامل ہیں اس میں، سمجھدار ہیں، جوالاپور کے رئیسوں میں سے بھی ہیں، کاروباری ہیں۔ سارے کے سارے ہندو تھے۔ میرے سامنے آئے اور کہنے لگے کہ مول چند مہاراج آخر یہ قتل و غارت گری کب تک ہوتی رہے گی۔ مسلمان بھی مر رہے ہیں، ہندو بھی مر رہے ہیں، فائدہ کسی کو نہیں ہے، کیوں نہ ایک بھائی چارہ کمیٹی بنائی جائے اور اس سلسلے میں بات کی جائے، اب یہ لڑائی ختم ہو جانی چاہئے، جہاں تک بات گرج ناتھ سیوک کی ہے تو مہاراج گرج ناتھ خود جو من چاہے کرے، بھوانی کنڈ بنائے، جوالاپور کو مایا مکنڈ بنا دے، ہمیں کیا۔ ہم کیوں لڑیں آپس میں اور جہاں تک مسلمانوں کے جوالاپور سے نکال باہر کرنے کا سوال ہے تو مہاراج نے دیکھ لیا کہ اگر مسلمان جوالاپور میں نہ رہے تو ہندو ہی کتنے بچیں گے۔ برابر کی چوٹ جاری ہے چار ہم ان کے مارتے ہیں تو پانچ وہ ہمارے مار دیتے ہیں۔ کیا اس طرح مسلمانوں کو جوالاپور سے ختم کیا جا سکے گا۔ بات تو یہ ہوتی کہ ہمارا کوئی نقصان نہیں ہوتا۔‘‘ میں نے فوراً ہی بات اچک لی اور کہا۔
’’یہ تو تم لوگوں کی سوچنے کی بات ہے، میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ میں اگر باہر نکل کر تم سے یہ بات کہتا تو تم لوگ یہی کہتے کہ میں بزدل ہوں اور مسلمانوں کے ڈر سے ان سے سمجھوتہ کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’بات ڈر، خوف یا بزدلی کی نہیں ہے مہاراج مول چند، آپ ہمیں یہ بتایئے کہ اب تک کتنے ہندو مرے ہیں اور کتنے مسلمان۔ یہ جھگڑا تو لمبا ہی چلے گا۔ سرکار تک کچھ نہیں کر پا رہی، پولیس والے ادھر جاتے ہیں تو ادھر سے حملہ ہوتا ہے، نقصان ان کا بھی ہوتا ہے اور ہمارا بھی ہوتا ہے۔ بہت سے گھر برباد ہو گئے ہیں مہاراج۔ اب یہ دھندا ختم ہو جانا چاہیے۔‘‘
’’تو پھر تم جیسا کہو بھائیو! میں تیار ہوں۔ میں نے کب اس بات سے انکار کیا ہے۔‘‘
’’ہونا کیا چاہیے مہاراج۔ ہم اسی لئے آپ کے پاس جمع ہو کر آئے ہیں۔‘‘
’’پہلے یہ بتائو کہ جو بھائی چارہ کمیٹی تم نے بنائی ہے، کیا تمہاری بات دوسرے بھی مانیں گے۔‘‘
’’ارے سسرے کیسے نہیں مانیں گے۔ بھلا لڑنے بھڑنے میں کوئی فائدہ ہو رہا ہے کسی کا۔ سارے کام دھندے چوپٹ پڑے ہوئے ہیں، گھروں میں فاقوں کی نوبت آ گئی ہے اور پھر اگر جو نہیں مانے لگا اس سے ہم منوائیں گے ڈنڈوں کے زور پر۔ پولیس بھی ہمارا ساتھ دے گی، کون چاہتا ہے کہ فسادات ہوتے رہیں۔‘‘
تو پھر اب تمہاری کیا رائے ہے مکھیا سنگھ۔‘‘ میں نے ان میں سے ایک بڑے آدمی سے پوچھا۔
’’کنور ریاست علی سے بات کئے بنا بات نہیں بن سکتی۔ جس طرح سے ہندو آپ کی بات مان رہے ہیں مول چند مہاراج، اسی طرح مسلمان کنور ریاست علی صاحب کی بات مان رہے ہیں بلکہ اُڑتی اُڑتی خبر تو ہم نے یہ سنی ہے کہ کنور ریاست علی نے چوری چھپے بڑا اسلحہ منگوایا ہے اور اب وہ ہندوئوں کے خلاف استعمال ہو گا۔ رام رام رام مہاراج اتنے مریں گے کہ سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ آپ ریاست علی کی ٹکر کے آدمی ہیں، آپ ان سے بات کریں اور یہ فیصلہ کر لیں کہ اب آپس میں جھگڑے بند کر دیئے جائیں۔ مل بیٹھ کر سمجھوتہ کر لیا جائے، ایک کمیٹی ادھر سے بنی ہے، ایک کمیٹی کنور ریاست علی خان بنائیں۔ تب ہی بات نمٹ سکتی ہے۔‘‘
’’اگر آپ لوگ یہ چاہتے ہیں تو میں کنور ریاست علی خان کے پاس جانے کو تیار ہوں۔‘‘
’’ہم تو یہی چاہتے ہیں مہاراج مگر آپ کا کیا خیال ہے کیا کنور ریاست علی خان یہ بات مان جائیں گے۔‘‘
’’بھئی کوشش تو کرنی چاہیے۔‘‘
’’ہاں، ٹھیک ہے تو پھر کل صبح کنور ریاست علی خان کے پاس چلا جائے اور مہاراج یہ بات طے ہو گئی ہے۔ وہ لوگ تو یہ کہہ سن کر چلے گئے ہیں مگر میں نے سوچا کہ آپ کی آشیرواد لے لوں۔ آپ سے پوچھ لوں کہ یہ ٹھیک رہے گا یا نہیں۔‘‘
’’بالکل ٹھیک رہے گا۔ تم یہ نیک قدم ضرور اٹھائو مول چند اور کنور ریاست علی کے پاس چلے جائو، اس سے بات کرو۔‘‘
’’ٹھیک ہے مہاراج۔ پر جب یہ کمیٹی بنی اور لوگ ہمارے پاس آئے اور چلے گئے تو میں سب سے پہلے جوالا چوک پہنچا، وہاں جا کر میں نے وہ زمین دیکھی جہاں پُتلے میرے ہی ہاتھوں گڑے تھے۔ زمین کھدی ہوئی ملی مہاراج اور میرے من میں سیدھی بات یہی آئی کہ مہاراج کی کرپا ہو گئی، بس عقیدت میں چلا آیا ہوں۔‘‘
’’تمہارا بہت بہت شکریہ مول چند، انسانی خون تو ویسے بھی نہیں بہنا چاہیے، چاہے وہ ہندو کا ہو یا مسلمان کا، ہے تو وہ انسان ہی، تم جائو اور اب یہ ضروری ہو گیا ہے۔ مجھے آ کر خبر دینا کہ ریاست علی خان سے کیا بات ہوئی؟‘‘
’’ٹھیک ہے مہاراج اجازت دیں۔‘‘ مول چند چلا گیا اور میں واپس آ گیا۔ واقعی یہ ایک دلچسپ بات ہوئی تھی اور اب اس میں کوئی شک و شبہ نہیں تھا کہ مجھے جوالاپور کی بشارت بے مقصد نہیں ہوئی تھی۔ میرا اعتماد تو اب آسمان سے اونچا ہو گیا تھا، کوئی مسئلہ باقی نہیں رہا تھا۔ رہنمائی ہوتی تھی جہاں کچھ بتانا ضروری ہوتا تھا وہاں بتا دیا جاتا تھا۔ ہر طرح کی اعانت ہوتی تھی یہاں تک کہ میرے کھانے پینے تک کا بندوبست کر دیا جاتا تھا۔
صحیح معنوں میں مجھے بڑا مرتبہ دیا گیا تھا۔ شکرگزاری میرے رگ و پے میں رچی ہوئی تھی مگر اپنا تجزیہ کرنے کا جب بھی وقت ملتا بڑی شرمندگی ہوتی تھی۔ میں خود کو کسی قابل نہیں بنا سکا تھا۔ میں جانتا تھا کہ دل کے زخموں پر کھرنڈ آ گئی ہے، نیچے زخم ہرے ہیں۔ جب بھی یادوں کی ہوا چلتی، یہ زخم کسکنے لگتے اور اب تو اس کسک میں ایک اور کسک شامل ہو گئی تھی یعنی ثریا۔ نہیں بھول سکا تھا اسے۔ نہیں بھول پا رہا تھا، اس کے تصور کو خود سے بھی چھپاتا تھا، دل میں خیال آ جاتا تھا تو خود سے شرمندہ ہو جاتا تھا۔ وہاں سے مجھے اس قدر بلندیاں بخشی گئی ہیں اور یہاں میں اتنا ہی پست انسان ہوں۔ اپنی محبتوں، اپنی چاہتوں کے جال میں جکڑا ہوا ہوں۔ دنیا مجھے اسی طرح سمیٹے ہوئے ہے۔ سب یاد آتے تھے، سب پکارنے لگتے تھے اس وقت جب یادوں کی ہوا چلتی اور یہ لمحات میرے لیے بڑے جاں گسل ہوتے تھے جب میں خود سے چھپتا تھا۔ اکرام کی صورت میں ثریا کے نقوش جھلکتے تھے اور کبھی کبھی تو میں اسے دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتا تھا۔ پھر یاد آ گیا تھا، وہ سب کچھ پھر یاد آ گیا تھا۔ نہ جانے اکرام کو بھی وہی موضوع کیوں سوجھ گیا۔
’’بڑے دلچسپ واقعات ہیں مسعود بھائی۔ آپ کے خیال میں کیا کنور صاحب مان جائیں گے۔‘‘
’’اللہ جانے۔ دیکھنا پڑے گا۔‘‘
’’میرے خیال میں مان جائیں گے کیونکہ نفرت ختم ہو چکی ہے۔‘‘ اکرام نے کہا۔ پھر بولا۔ ’’جوالاپور میں کب تک رکیں گے بھیا؟‘‘
’’کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ کیوں پوچھ رہے ہو؟‘‘
’’نہیں کوئی وجہ نہیں ہے بس ایسے ہی۔ ویسے یہ مسجد بڑی پُرسکون ہے۔ پہلے مجھے یہاں خوف محسوس ہوا تھا، اب، اب یوں لگتا ہے جیسے یہاں جتنے لوگ بھی ہیں، دوست اور محبت کرنے والے ہیں۔ اور بھیا ایک بات کہوں۔ دل سے کہہ رہا ہوں۔‘‘
’’ضرور کہو۔‘‘
’’میں نے ثریا کا بھی صبر کر لیا ہے بس ایک بے بس بھائی کی طرح، ہر نماز کے بعد اس کے لیے دعا کرتا ہوں، اپنے اللہ سے کہتا ہوں کہ میں کیا اور میری اوقات کیا بلکہ میں نے تو اپنی اوقات دیکھ لی۔ ایک لمحے بہن کا محافظ نہیں بن سکا۔ مجھ مجبور بے کس کی کیا مجال ہے کہ میں اس کے کسی بندے کی حفاظت کر سکوں۔ اپنے بندوں کی محافظ اللہ کی ذات ہے۔ بس دعا کرتا ہوں کہ اللہ میری ثریا کو اپنی پناہ میں لے لے اور اس شیطان مردود کے ستم سے اسے بچائے۔ بھیا تمہاری صحبت میں مجھے یہ درس ملا ہے حالانکہ اللہ نے تمہیں بزرگی بخشی ہے، تم بہت سوں کے مسائل حل کر سکتے ہو لیکن میں جانتا ہوں کہ تم نے اپنے کنبے کو اللہ کی رضا پر چھوڑ دیا ہے۔‘‘
روح بے قرار ہو گئی تھی۔ ہاں ایسا ہی ہے۔ ایک ہی سہارا تو ہوتا ہے انسان کے پاس۔ میرے پاس بھی بس وہی سہارا تھا مگر میں تو ان کے لیے دعا بھی نہیں کرتا تھا۔ وہ یاد آ جاتے تھے اور یہ یاد ممنوع تھی میرے لیے…!
مول چند کو واقعی مجھ سے عقیدت ہو گئی تھی۔ دوسرے دن دوپہر ڈھائی بجے میرے پاس آ گیا۔ اس کی دستک سے میں سمجھ گیا تھا کہ وہی ہو سکتا ہے، چہرہ کسی قدر اترا ہوا تھا۔ مجھے دیکھ کر افسردگی سے ہاتھ ماتھے پر رکھ دیئے۔
’’کہو مول چند۔ خیریت ہے!‘‘
’’خیریت نہیں ہے مہاراج۔‘‘
’’کیوں کیا ہوا؟‘‘
’’کنور ریاست کے پاس گئے تھے ہم لوگ۔‘‘
’’پھر…‘‘
’’وہ نہیں مان رہے۔‘‘
’’کیا کہہ رہے ہیں؟‘‘
’’میری بڑی بے عزتی کی انہوں نے۔ کہا دال بھاجی کھانے والے ہندو، شیردل مسلمانوں کا کیا مقابلہ کریں گے۔ ابھی لڑائی چلنے دو، نتیجہ سامنے آنے والا ہے۔ میرے ساتھ کے دوسرے تو بگڑ گئے مگر میں نے خود کو سنبھالے رکھا۔ میں نے کہا مجھے اور گالیاں دے لیں مہاراج مگر انسانوں کا خون بہنے سے روکیں۔‘‘
’’کیا کہا انہوں نے…‘‘
’’کہا انسانوں کے خون کی بات نہ کرو۔ ہندوئوں کے خون کی بات کرو۔ شاید تمہیں پتہ چل گیا ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ہمیں تو بس یہی پتہ چلا مہاراج کہ کنور ریاست نے اسلحہ منگایا ہے۔ اب پتہ چلا ہے کہ کہیں سے کچھ آدمی بھی آ رہے ہیں جوالا پور کے ہندوئوں سے مقابلہ کرنے۔ کنور صاحب پورا پورا بدلہ لینے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔‘‘
’’ہوں۔ آخری بات کیا ہوئی؟‘‘
’’کہنے لگے مسلمانوں کا نقصان پورا کر دو۔ ہر زندگی کی قیمت ادا کر دو ورنہ تمہیں بتائیں گے کہ جوالاپور ہندوئوں سے خالی ہوتا ہے یا مسلمانوں سے۔ بس یہ آخری بات تھی۔‘‘
’’گویا وہ نہیں مانے۔‘‘
’’یہی بات ہے مہاراج۔‘‘ مول چند نے افسردگی سے کہا۔ پھر بولا۔ ’’سارے کئے دھرے پر پانی پھر رہا ہے مہاراج۔ ہمارے ساتھ جو گئے تھے اب وہ افسوس کر رہے ہیں، ان سے غلطی ہو گئی ہے۔ ریاست علی خان شاید اسے ہماری کمزوری سمجھ رہے ہیں۔ ان کے دماغ پلٹتے جا رہے ہیں مہاراج۔‘‘
’’کیا کرنا چاہتے ہیں وہ؟‘‘
’’بس ابھی سوچ رہے ہیں۔ بات کچھ بگڑتی نظر آ رہی ہے۔‘‘
’’نہیں بگڑے گی۔ فکر مت کرو، بندگان خدا کا خون بہانے کا حق کسی کو نہیں ہے، ریاست علی خان کو بھی نہیں ہے۔ انہیں بھائی چارہ کمیٹی سے اتفاق کرنا پڑے گا۔‘‘
’’مگر کیسے مہاراج؟‘‘
’’ذرا ان کی رہائش گاہ کا پتہ بتائو۔‘‘ میں نے کہا اور مول چند نے مجھے پتہ سمجھا دیا۔ پھر بولا۔ ’’آپ جائیں گے مہاراج…؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ میں نے بڑے یقین سے کہا۔
’’آپ حکم دیں تو ہم بھی چلیں۔‘‘
’’نہیں مول چند۔ تم اپنے گھر جائو۔ میں تمہاری توہین نہیں چاہتا۔ ریاست علی خان اگر ایسے آدمی ہیں تو دوبارہ تمہیں دیکھ کر سوچیں گے کہ تم ان سے ڈر گئے ہو۔‘‘
’’ٹھیک ہے مہاراج۔‘‘ مول چند نے کہا اور پھر وہ چلا گیا۔ اکرام نے کہا۔
’’کنور صاحب بہت مغرور معلوم ہوتے ہیؒں۔‘‘
’’ٹھیک ہو جائیں گے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’پھر کیا ارادہ ہے؟‘‘
’’عصر کے بعد چلیں گے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔ نماز عصر سے فارغ ہو کر میں نے اکرام کو ساتھ لیا اور مسجد سے باہر نکل گیا۔ راستہ طے کرتے ہوئے اک ذرا سی تبدیلی یہ نظر آئی کہ اب سڑکوں پر اکا دکا لوگ چلتے پھرتے نظر آ رہے تھے جب کہ اب سے پہلے جوالا پور، شہر خموشاں لگتا تھا۔ کنور ریاست علی خان کی حویلی پہنچ گئے۔ قلعہ بنا رکھا تھا انہوں نے حویلی کو۔ طرز تعمیر بھی قلعے جیسی تھی۔ دروازے پر دو مسلح آدمی کھڑے تھے مگر دروازہ کھلا تھا۔
’’جی۔ فرمایئے؟‘‘ انہوں نے مجھے گھور کر پوچھا۔
’’کنور ریاست علی خان سے ملنا ہے۔‘‘
’’ہندو ہیں یا مسلمان؟‘‘
’’الحمدللہ ہم دونوں مسلمان ہیں۔‘‘
’’جائو۔ کنور صاحب کے پاس لے جائو۔‘‘ ایک پہریدار نے دوسرے سے کہا۔ دوسرا میرے قریب آ کر بولا۔ ’’تلاشی دو۔‘‘
’’کیسی تلاشی؟‘‘ اکرام بولا۔
’’ہاتھ اوپر اٹھا دو۔ دیکھنا ہے کہ تمہارے پاس ہتھیار تو نہیں ہیں۔‘‘
’’دیکھ لو بھائی۔ جلدی کرو…‘‘ میں نے بیزاری سے کہا۔ پھر وہ شخص ہمیں اندر لے گیا۔ سامنے کے حصے سے گزر کر اندرونی حصے میں داخل ہوئے۔ پھر ایک خوبصورت کھلے حصے میں نکل آئے جہاں سرخ اینٹوں کا فرش تھا، گملے سجے ہوئے تھے، ان میں طرح طرح کے پھول مہک رہے تھے۔ درمیان میں کنور صاحب باریک ململ کا کرتا اور لٹھے کا پائجامہ زیب تن کئے ایک خاص قسم کی آرام کرسی پر نیم دراز تھے۔ سامنے پیچوان رکھا ہوا تھا جس سے خمیرے کی خوشبو اڑ رہی تھی۔ سرخ و سفید چہرے اور اچھی صحت کے مالک روایتی قسم کے نواب نظر آ رہے تھے۔ سرکنڈے سے بنی میز پر خاصدان رکھا ہوا تھا اور کنور صاحب کے ہونٹوں پر پان کی دھڑی نظر آ رہی تھی۔ آس پاس بہت سے مونڈھے پڑے ہوئے تھے جن میں سے چار پر چار افراد بیٹھے تھے، باقی خالی تھے۔ ویسے حویلی میں خوب چہل پہل تھی اور یہاں تک آتے ہوئے کوئی بیس پچیس افراد نظر آئے تھے۔ کنور صاحب نے ہمیں دیکھ کر کسی خاص ردعمل کا اظہار نہیں کیا البتہ سوالیہ نظروں سے ادھر دیکھتے رہے۔ یہاں تک کہ پہریدار ہمیں لے کر ان کے قریب پہنچ گیا۔ میں نے بہ آواز بلند سلام کیا جس کا جواب ملا۔ اس کے فوراً بعد پہریدار نے کہا۔
’’قدم بوسی کے لیے حاضر ہوئے ہیں یہ دو حضرات۔ حکم کے مطابق حاضر خدمت کیا۔‘‘
’’جائو…‘‘ کنور صاحب نے الٹے ہاتھ سے اشارہ کیا اور پہریدار سر جھکا کر چلا گیا۔ کنور صاحب سوالیہ نظروں سے ہمیں دیکھنے لگے۔
’’سبحان اللہ۔ لگتا ہے دربار اکبری میں آ گئے بلکہ حاضری کی اجازت عطا کر کے وہاں بھی شاید مہمانوں کی کچھ پذیرائی کی جاتی ہو۔ بس اتنا فرق محسوس ہوتا ہے۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ میرے الفاظ کو محسوس کر لیا، سمجھ لیا گیا۔ ناگواری کے اثرات نمودار ہوئے۔ پھر نخوت بھرے لہجے میں کہا گیا۔
’’مونڈھے گھسیٹو اور بیٹھ جائو۔‘‘
’’چلو اکرام، بیٹھ جائو۔‘‘ میں نے گہری سانس لے کر کہا اور ہم دونوں بیٹھ گئے۔
’’کون ہو اور کیوں آئے ہو؟‘‘ کنور صاحب نے کہا۔
’’بندگانِ خدا ہیں اور بندگانِ خدا کی جان بخشی کرانے آئے ہیں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’کیا مطلب؟‘‘
’’جوالا پور میں داخل ہوئے تو عجیب حال دیکھا۔ ملال ہوا۔ جو بھی مر رہا ہے انسان ہے، چاہے کوئی مذہب ہو اس کا۔ آپ صاحب اقتدار ہیں۔ بہتری تلاش کیجئے۔‘‘
’’جوالاپور میں کہاں سے داخل ہوئے۔ یہاں کے رہنے والے نہیں ہو کیا؟‘‘ کنور صاحب نے پوچھا۔
’’ہاں۔ کہیں اور سے آئے تھے۔ اسٹیشن پر اترے تو پتہ چلا کہ یہاں تو کشت و خون کا بازار گرم ہے۔‘‘
’’بازار تو اب گرم ہو گا۔ ذرا آگے دیکھنا۔ ہوا کھسک رہی ہے لالوں کی، اب ناک رگڑنے آ رہے ہیں وفد لے کر، بھائی چارہ کمیٹیاں بنا بنا کر، ایک دو روز کی بات ہے پھر شروع ہو گا کھیل۔‘‘ کنور صاحب نے بے رحمی سے کہا۔
’’نتیجہ کیا ہو گا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’یہاں نہ گھڑدوڑ نہ میدان جو ہو گا سامنے آ جائے گا۔ مگر تم بہت پریشان لگ رہے ہو۔ یہاں پھنس گئے ہو تو تمہارے باہر نکلنے کا بندوبست کیا جا سکتا ہے۔ آئے کہاں سے ہو اور جوالاپور کس کام سے آئے تھے؟‘‘
’’جو کھیل آپ شروع کریں گے کنور صاحب، اس میں ایک بھی مسلمان کی جان نہیں جائے گی؟‘‘ میں نے ان کا سوال نظرانداز کر کے کہا۔
’’کوشش تو پوری پوری کریں گے کہ ایسا نہ ہو… مگر بنّے جب دو مرغے لڑیں گے تو زخم تو آئیں گے۔‘‘
’’انسانوں کی بات کر رہا ہوں کنور صاحب۔‘‘ میں نے کسی قدر غصیلے لہجے میں کہا۔
’’اماں تو تم کیوں دبلے ہو رہے ہو شہر کے اندیشے سے۔ تمہارے بال بچے بھی ساتھ ہیں کیا؟‘‘
’’اس لیے کنور صاحب کہ آپ نے اپنی حویلی کو قلعہ بنا لیا ہے۔ آپ ان کے بارے میں نہیں سوچ رہے جو مر رہے ہیں۔ راتوں کو جاگ رہے ہیں۔ فاقہ کشی کر رہے ہیں۔‘‘
’’لڑائی ہم نے تو شروع نہیں کی۔‘‘
’’آپ جوالا پور کے رئیس ہیں۔ آپ پر فرض عائد ہوتا ہے کہ آپ اپنے لوگوں کی مدد کریں۔‘‘
’’کیا کریں۔ وہ کتے کا پلا جوالا پور کو مسلمانوں سے خالی کرا کے اسے بھوانی کنڈ بنانا چاہتا ہے۔ بنانے دیں اسے؟‘‘
’’مگر وہ لوگ اپنی غلطی کا احساس کر کے آپ کے پاس آئے تھے۔‘‘
’’ہم نے کہہ دیا نقصان پورا کریں مسلمانوں کا، مان جائیں گے۔‘‘
’’آپ جانتے ہیں یہ نہیں ہو سکے گا۔‘‘
(جاری ہے)