’’ہم جانتے ہیں یہ ہو سکے گا سمجھے۔ گھر لٹیں گے سسروں کے۔ اور ہم نقصان پورا کریں گے۔‘‘ کنور صاحب پُرجوش لہجے میں بولے۔
’’آپ اچھی طرح جانتے ہیں کنور صاحب کہ یہ نفرت کا کھیل گرج ناتھ سیوک کا شروع کیا ہوا ہے۔‘‘
’’تو جوالا پور کے ہندو کس کے بل پر اچھل رہے ہیں۔ اسی کے نا…؟‘‘
نواب صاحب نے دانت نکالتے ہوئے کہا۔ وہ جارحانہ انداز میں بول رہے تھے لیکن میں نہایت حلیمی سے انہیں سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں نے کہا۔ ’’اور آپ یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کنور صاحب کہ گرج ناتھ سیوک کالے علوم کا ماہر ہے، وہ گندے علم والا ان لوگوں کو اپنی گھنائونی قوتوں سے متاثر کر کے یہ سارے عمل کرا رہا ہے۔ آپ کو اصل میں تفصیل نہیں معلوم۔ اس وقت گرج ناتھ نے جوالاپور کو اپنی گندگی کا مسکن بنانے کے لئے یہ ضروری سمجھا ہے کہ مسلمان یہاں سے دور ہٹ جائیں۔ دیکھئے کنور صاحب یہ تو ایک طے شدہ بات ہے کہ جس شہر کے کسی بھی گوشے میں اللہ کا نام خشوع و خضوع سے لیا جائے، وہاں گندے علم کی پرورش ناممکن ہے، ہندوئوں نے گرج ناتھ سیوک کے اشارے پر جو کچھ شروع کر رکھا ہے، وہ اچھا نہیں ہے لیکن اسے ختم کرنے کے لئے اگر کچھ سمجھداروں نے کوشش کی ہے تو آپ کو ان کوششوں کی پذیرائی کرنی چاہیے۔ میں آپ کو دعوے سے یہ تفصیل بتاتا ہوں کہ اس نے اپنے کالے علم کے دو پُتلے جوالا پور کے جوالا چوک کے درمیان زمین میں دفن کئے اور پھر جب لوگ ان پر سے گزرے تو ان کے دلوں میں نفرتیں بیدار ہوئیں اور یوں اس فساد کا آغاز ہوا… لیکن وہ پُتلے اب وہاں سے نکال کر پھینک دیئے گئے ہیں۔ چنانچہ ایک دم ہی ان کے اثرات ختم ہونے لگے ہیں۔ میرا خیال ہے اب کافی دن تک اس بات کا امکان نہیں ہے کہ مزید فساد ہو جب تک کہ وہ کوئی دوسری کوشش نہ کرے۔ میری رائے یہ ہے کنور صاحب کہ آپ مول چند کی پیشکش کو قبول کر لیں اور اس سے امن و امان کے سلسلے میں ضرور بات کریں۔‘‘
’’کہانی اچھی ہے میاں صاحب، لگتا ہے ہندوئوں سے کچھ لے دے کر تمہیں اس کام کے لئے آمادہ کیا گیا ہے۔ بہرحال جو کچھ بھی ہے لیکن ہم نے جو بات کہہ دی سو کہہ دی، مسلمانوں کا نقصان پورا کر دیا جائے جھگڑا ختم ہو جائے گا، نہیں تو پھر بات بہت آگے بڑھ جائے گی۔ ارے ایک بات ہو تو کہیں، گرج ناتھ سیوک کو ہم نے تو اپنے سر پر نہیں بٹھا لیا۔ کالے علم کا ماہر ہے، ہم پر آزمائے اپنا کالا علم، دیکھ لیں گے اسے۔ ان لوگوں کو ہی اس کے کالے علم کا شکار ہونا تھا، جائو ہماری زمین پر مندر بن گیا ہے جادو کا، توڑ دو بھائیو، زمین تو ہماری ہے، سارے ہندوئوں کو پتہ ہے، ارے ہماری زمین پر سے مندر ہٹا لو، چلو سارا جھگڑا ختم کر دیں گے، کیا سمجھے…‘‘
’’مندر توڑنے کی کوشش تو آپ لوگوں نے بھی کی تھی کنور صاحب، کیوں نہ توڑ دیا؟‘‘
’’دیکھو میاں گھر کے دروازے پر پہنچے ہو، عزت سے اندر بلا لیا ہے، اب جوتوں سمیت آنکھوں میں اترنے کی کوشش مت کرو، سمجھے، جائو چلو دوسری شرط رکھ دی ہے ہم نے، وہ مندر توڑ دو، ہم مول چند کی بات مان لیں گے۔‘‘
’’مول چند کی زمین پر بھی تو مسجد آباد ہو گئی ہے کنور صاحب۔‘‘ میں نے زیرلب مسکراتے ہوئے کہا۔
’’ہاں کہانی سنی تو ہے ہم نے بھی، دیکھیں گے ذرا وہاں بھی جا کر…‘‘
’’اور لوگ کہتے ہیں کہ اس مسجد سے اٹھنے والی اذان کی آوازیں جگہ جگہ سنی جا رہی ہیں…‘‘
’’ہم نے خود یہاں سنی ہیں۔‘‘ پہلی بار کنور صاحب کے ساتھ بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ایک نے بے اختیار کہہ دیا۔
کنور صاحب کہنے لگے۔
’’ٹھیک ہے یہ بات بھی ہے، ذرا انہی سے ملیں گے جن کی آواز اس مسجد سے ابھرتی ہے اور جن کے چرچے جوالا پور میں ہونے لگے ہیں۔ ان سے ملنے کے بعد یہ فیصلہ کریں گے کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔‘‘ میں نے کسی قدر مطمئن ہوتے ہوئے کہا۔
’’بہرحال کنور صاحب میں بڑی امیدیں لے کر آیا تھا آپ کے پاس، میرے خیال میں انسانی خون بہنے سے رکنا چاہیے، آپ جو کچھ بھی کریں جلد فیصلہ کر لیں۔ یہ بہتر ہو گا کہ امن کمیٹی بن جائے اور انسانی زندگی خطرات سے نکل آئے۔‘‘
’’دیکھیں گے۔ سوچیں گے۔‘‘ کنور صاحب نے کہا۔ پھر اپنے ایک ساتھی سے بولے۔ ’’اماں حق صاحب ذرا چلیں تو کسی وقت جان علی کی مسجد دیکھیں، کیا قصہ ہے؟‘‘
’’ضرور قبلہ۔ مگر سوچ لیجئے۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’مول چند کے باغ میں ہے وہ۔‘‘
’’تو پھر…اماں ڈرتے ہو۔ دس بیس لونڈے لے کر چلیں گے۔ کیا کرے گا وہ بنیا ہمارا۔‘‘
’’پھر بھی کافر ہے، ہوشیار رہنا ضروری ہے۔‘‘
’’اماں چھوڑیئے حق صاحب۔ اس طرح ڈرے تو جی لیے اس دنیا میں۔ ہاں بھائی میاں اور کوئی خدمت ہمارے لیے۔‘‘
’’نہایت شکریہ۔ یہی عرض لے کر حاضر ہوا تھا۔ اجازت مرحمت فرمایئے۔ اٹھو اکرام۔‘‘ میں اٹھ کھڑا ہوا۔
’’بیٹھو بیٹھو۔ کچھ کھا پی کر جائو۔ آتے ہی ایسی باتیں شروع کر دیں جنہوں نے جان جلا دی۔ اپنی باتیں ہو ہی نہیں سکیں۔ یہاں کس کے پاس آئے تھے۔ کوئی رشتہ داری ہے؟‘‘
’’ہاں۔ جوالاپور کے تمام مسلمانوں سے رشتہ ہے۔ سب کی بہتری اور سلامتی کی دعائیں کرتا ہوں۔ اللہ حافظ…‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا اور واپسی کے لئے پلٹ پڑا۔ کنور صاحب دیکھتے رہ گئے تھے۔ باہر نکل آیا۔ حویلی سے باہر نکلا اور پھر اکرام کے ساتھ مول چند کے باغ کی طرف چل پڑا۔ اکرام خاموش تھا۔ کچھ فاصلے پر آ کر اس نے کہا۔ ’’بڑا ناگوار اثر چھوڑا ہے اس شخص نے ذہن پر۔‘‘
’’ہاں۔ خود پرستی کا شکار ہے۔‘‘
’’بداخلاق بھی ہے۔‘‘
’’ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔‘‘
’’مانے گا نہیں۔‘‘
’’مان جائے گا۔‘‘
’’لگتا تو نہیں ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہو جائے گا اکرام میاں، فکر مت کرو۔‘‘
’’آپ نے اس کے تعویذ کے بارے میں کچھ اندازہ لگایا۔ اکرام نے کہا اور میں چونک کر اسے دیکھنے لگا۔ مجھے ہنسی آ گئی۔
’’واہ اکرام میاں۔ اب تو تم بھی ان باتوں پر بڑی گہرائی سے سوچنے لگے ہو اور ان پر غور کرنے لگے ہو۔‘‘
’’صحبت صالح جو مل گئی ہے۔‘‘ اکرام نے بھی مسکرا کر کہا۔
’’ایسی باتیں نہ کیا کرو اکرام میاں۔‘‘ میں نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔
’’کیوں۔ غلط کہا ہے میں نے۔ ویسے تعویذ والی بات رہ گئی۔‘‘
’’کسی بزرگ نے نظر کرم کر دی ہو گی۔ کالے سحر کا عمل بے شک سخت ہوتا ہے کیونکہ اس میں شیطان شریک ہوتا ہے لیکن اللہ کے کلام سے ٹکرانے کی قوت کائنات میں کسی کو حاصل نہیں۔‘‘
’’شاید کنور صاحب اسی پر اکڑتے ہیں۔‘‘
’’یہ اس کی خوبی ہے۔‘‘
’’تعویذ کی؟‘‘
’’نہیں کنور کی۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’عقیدے کی پختگی بڑی چیز ہوتی ہے اور بعض اوقات اس کے نتائج بے حد اہم نکل آتے ہیں اور پھر کیوں نہ ہو، عقیدہ ہی تو ایمان ہے۔ اگر وہ کسی مرد خدا کے دیئے ہوئے تعویذ پر اتنا عقیدہ رکھتا ہے تو یقین کرو اسے کبھی مایوسی نہ ہو گی، تمہیں پوری کہانی پر غور کرنا چاہیے۔‘‘
’’مثلاً؟‘‘
’’بھئی مول چند نے تمہارے سامنے سنائی تھی۔‘‘
’’کہانی تو مجھے یاد ہے لیکن تم کون سے پہلو کی طرف اشارہ کر رہے ہو، اس کا اندازہ نہیں ہو سکا۔‘‘
’’تمہارے سوال ہی کی طرف اشارہ کر رہا ہوں۔‘‘
’’یعنی تعویذ؟‘‘
’’ہاں! گرج ناتھ سیوک نے جادو کا مندر تعمیر کر ڈالا جسے کنور کے لاتعداد آدمی گھن چلا کر نہیں توڑ سکے۔ اس کے علاوہ مول چند نے اور بھی کہانیاں سنائیں جیسے سوریہ کرن کا معاملہ۔ اس سے کیا تاثر ظاہر ہوتا ہے۔‘‘
’’یہی کہ وہ کالے جادو کا ماہر شخص بے حد خطرناک ہے۔‘‘
’’بے شک۔ اور وہ کالے جادو کا ماہر کنور ریاست علی خان کے اس تعویز سے خوفزدہ ہے۔ وہ اسے خود نہیں حاصل کر سکتا اور اس کے لیے مول چند کی مدد حاصل کرنا چاہتا تھا۔ وہ اس سے خوفزدہ ہے۔ اس کا بس اس کے بغیر ریاست علی خان پر نہیں چل سکتا۔‘‘
’’سمجھ گیا۔‘‘ اکرام نے گردن ہلاتے ہوئے کہا۔ پھر بولا۔ ’’مگر وہ مغرور شخص مجھے پسند نہیں آیا۔ اس کے اندر جو خودسری ہے وہ اسے ضرور نقصان پہنچائے گی چاہے اسے کتنے ہی تعویذوں کا سہارا حاصل ہو۔‘‘
’’نہیں اکرام، بے ضرر آدمی ہے۔ میرا مطلب ہے ان حالات سے متاثر ہو کر انتقام لینے پر تل گیا ہے لیکن سمجھ جائے گا، ایسے لوگ ذہن کے کچے ہوتے ہیں، جو دماغ کے بجائے دل سے سوچتے ہیں، ایک بات اس کے دل کو لگ گئی، سو سمجھ لو کہ لگ گئی۔‘‘
’’مول چند کو کیا جواب دیں گے؟‘‘ اکرام نے سوال کیا اور مجھے پھر ہنسی آ گئی۔
’’اس سے کہیں گے کہ کنور ریاست علی مان گئے ہیں، دوبارہ کمیٹی لے کر ان کے پاس جائو، وہ تم سے تعاون کریں گے۔‘‘ میں نے پورے اعتماد کے ساتھ کہا اور اکرام چونک کر میری صورت دیکھنے لگا۔ پھر بولا۔ ’’لل۔ لیکن کیسے آخر کیسے… میرا مطلب ہے کہ مول چند۔‘‘ اکرام بات پوری نہیں کر پا رہا تھا۔
’’بھئی کنور سے بات ہو گی ہماری۔ وہ آئے گا مسجد میں ہم سے ملاقات کرنے، اسے سمجھا بجھا دیں گے، اپنا گھر تھا، اس کی چمک دمک تھی، کمزور انسان کے اندر غرور پیدا ہو ہی جاتا ہے۔ وہاں نہیں مانا ہماری بات، اللہ کے گھر میں آ کر تو مان لے گا۔‘‘ اکرام نے کوئی جواب نہیں دیا۔ بہت بڑا دعویٰ کر دیا تھا میں نے… لیکن اکرام کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی کہ وہ اس سے انحراف کرے۔ مول چند کے باغ پہنچ گئے یا مسجد میں آ گئے اور اس کے معمولات میں مصروف ہو گئے۔ مغرب کی نماز پڑھی، دیئے جلا دیئے اور میرا انتظار کرنے لگے۔ نماز ختم ہوئی، آدھے گھنٹے سے زیادہ نہیں گزرا تھا کہ مسجد کے دروازے پر دستک ہوئی اور میں نے اکرام کو اشارہ کیا۔ اکرام نے دروازہ کھولا اور سلام و دعا کی آوازیں ابھریں۔ میں بھی سامنے آ گیا تھا۔ باہر کافی افراد تھے اور سب سے آگے کنور ریاست علی خان اپنے ان چاروں گرگوں کے ساتھ۔ میں نے انہیں اندر آنے کی دعوت دی، تمام ہی لوگ جوتے اتار کر اندر آ گئے تھے۔ کنور ریاست علی خان اور ان کے چاروں ساتھیوں کی آنکھیں حیرت سے پھٹی ہوئی تھیں، وہ عجیب سی کیفیت کا شکار نظر آ رہے تھے… پھر انہوں نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’آپ… آپ… آپ؟‘‘
’’تشریف لایئے کنور صاحب، میں آپ کا انتظار کر رہا تھا۔‘‘ کنور ریاست علی خان نے بڑی عقیدت سے جھک کر مجھ سے مصافحہ کیا اور کہنے لگے۔
’’حضور آپ نے تو… آپ نے تو ہمیں سمندر میں ڈبو دیا۔ بخدا کتنی ندامت ہو رہی ہے۔ بخدا کیا ہم یہ داغ اپنی پیشانی سے دھو سکیں گے، وہ آپ تھے جو خود چل کر ہمارے سامنے آئے تھے۔ میاں عبدالحق، غفور احمد آپ دونوں نے بالکل درست کہا تھا، ہم ہی کور چشم تھے جو اس نیک روح کو نہ پہچان سکے۔ حضور بڑی داستانیں سن رہے ہیں آپ کے بارے میں، تو حملہ ہوا تھا اس مسجد پر، راتوں رات یہ تعمیر ہوئی تھی اور آپ نے اس میں اذان دی تھی، اس غلطی کو معاف بھی کیا جا سکتا ہے کیا… میاں ہمیں احساس شرمندگی ہے، گردن خم ہے ہماری آپ کے سامنے…‘‘ کنور ریاست علی خان ایک دم موم ہو گئے تھے۔ میں نے ان کے بازو پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
’’بخدا نہ مجھے آپ سے کوئی شکایت ہے اور نہ اس شکایت کا کوئی جواز، اب آپ مجھے کانٹوں میں گھسیٹ رہے ہیں، تشریف رکھئے، خانہ خدا میں تو ہر شخص کی گنجائش ہے لیکن بس ایک عرض ہے جو آپ سے کرنا چاہوں گا…‘‘ تمام لوگ صحن مسجد میں بیٹھ گئے… اور میں ان کے سامنے بیٹھ گیا۔
کنور کی گردن عقیدت سے جھکی ہوئی تھی۔
’’آپ نے دیکھا کنور صاحب۔ یہ مول چند کا باغ ہے۔ اس میں مسجد تعمیر ہوئی ہے مگر خانہ خدا کا دروازہ بند تھا۔ آپ کے تعاون سے میں یہ دروازہ کھولنا چاہتا ہوں۔ ہر نمازی کے لیے۔‘‘
’’مول چند کے سینے پر سانپ لوٹ رہے ہوں گے یہ سن کر…‘‘ کنور صاحب نے کہا۔
’’نہیں کنور صاحب۔ وہ کہتا ہے کہ اس پورے باغ کے گرد مسجد کا احاطہ تعمیر کر لیا جائے، وہ اسے مسجد کی نذر کرتا ہے۔‘‘
’’مول چند…؟‘‘
’’ہاں خانہ خدا میں جھوٹ کا گزر نہیں۔‘‘ میں نے کہا اور کنور ریاست علی کا چہرہ بدل گیا۔ ان پر ان الفاظ کا بے حد اثر ہوا تھا۔ بمشکل انہوں نے کہا۔
’’مول چند نے یہ کہا ہے تو اس سے جھگڑا ہمیشہ کے لیے ختم۔ اس نے پہلی بار اپنے لیے عزت کا مقام پیدا کیا ہے۔ آپ کے سامنے اقرار کر رہا ہوں۔ میری طرف سے اس سے دشمنی کا دروازہ بند ہو گیا… اور حضور قبلہ… یہ افراد جو میرے ساتھ آئے ہیں اور میں خود یہاں سے بابو مول چند کے گھر جائیں گے۔ میں اس سے کہوں گا کہ یہ میری بھائی چارہ کمیٹی ہے۔ میں جوالاپور کے ہندوئوں کے ساتھ امن چاہتا ہوں۔ اس نے اتنی بڑی بات کہی ہے تو میں اسے ضرور گلے لگائوں گا۔‘‘
’’جزاک اللہ۔‘‘ میں نے مسرور لہجے میں کہا۔
’’مگر حضور… آپ نے مجھے معاف کر دیا۔ میں نے شیطان کے بہکائے میں آ کر اپنے دروازے پر آپ کی توہین کی۔ اس کی معافی چاہتا ہوں۔‘‘
’’بخدا مجھے یا اکرام میاں کو اس کا کوئی احساس نہیں۔‘‘
’’بے حد شکریہ۔ میں عشاء کی نماز یہاں پڑھتا لیکن اس سے پہلے میں بابو مول چند کے پاس جانا چاہتا ہوں تاکہ اس نیک عمل کا آغاز ہو جائے۔‘‘
’’ضرور کنور صاحب۔ نیک کام میں دیر نہیں ہونی چاہیے۔ وہ سب احترام سے رخصت ہو گئے۔ اکرام عقیدت بھری نظروں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ پھر اس نے کہا۔
’’اور تم نے جو کہا تھا وہ ہو گیا مسعود بھائی۔‘‘
’’ہاں۔ بفضل تعالیٰ اب امن قائم ہو جائے گا اور اس کے بعد… اس کے بعد ہم اطمینان سے گرج ناتھ کی مشکیں کس سکیں گے۔‘‘ میں نے پُرخیال لہجے میں کہا۔
دلچسپ واقعات تھے۔ لُطف آ رہا تھا۔ سب کچھ بھول کر اب ان واقعات میں دلچسپی لے رہا تھا۔ ابھی تو بہت سے مراحل تھے جن سے گزرنا تھا۔ اکرام بھی اب بہت سنبھل گیا تھا۔ ویسے اس نے ایک اچھا ساتھی ہونے کا ثبوت دیا تھا اور کسی لمحہ میرے لیے تکلیف دہ نہیں ثابت ہوا تھا۔
دُوسرے دن سورج چڑھے، مسجد کے دروازے پر دستک ہوئی۔ میں اور اکرام باہر آئے تو کنور ریاست اور مول چند کو کھڑے پایا۔ کنور صاحب نے سلام کیا اور مول چند نے دونوں ہاتھ جوڑ کر پیشانی سے لگا دیئے۔
’’تم دونوں کو ساتھ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ہے مجھے۔‘‘ میں نے مسکرا کر کہا۔
’’برسوں سے دلوں پر لدا بوجھ اُتر گیا مہاراج۔ آپ کے چرنوں کا یہاں آنا ہمارے لیے تو بڑا بھاگوان رہا۔‘‘ مول چند نے عقیدت سے کہا۔
’’دُوسروں کو بھی ایسے ہی ملا دو۔‘‘
’’آپ کا آشیرواد لینے آئے ہیں۔‘‘
’’میری دُعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔ مجھے خبر دیتے رہنا۔‘‘ میں نے کہا۔
’’ہم تو آپ ہی کی رہنمائی کے طالب رہیں گے شاہ صاحب، ہمیں اجازت دیں کہ آپ کےپاس حاضری دی جاتی رہے۔‘‘ کنور ریاست نے کہا۔
’’ہاں ہاں۔ کیوں نہیں۔ تم لوگ جب چاہو آ سکتے ہو۔‘‘
’’مسجد کے دروازے کھول دیں مہاراج۔ نمازیوں کو نماز کیلئے بلائیں۔ اب یہ میرا نہیں آپ کا باغ ہے۔‘‘ مول چند بولا۔
’’وہ بھی کھل جائیں گے مول چند۔ ویسے میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’حکم مہاراج۔‘‘
’’تمہارا تعلق ہندو دھرم سے ہے۔ ہندو دھرم کی اپنی روایات ہیں، یہ کالا دھرم تو نہیں ہے جبکہ گرج ناتھ کالے دھرم کا پرچار کر رہا ہے۔ جوالاپور کے ہندو اپنا دھرم چھوڑ کر کالے دھرم کے پیروکار کیوں بن رہے ہیں۔ تم نے ان سے پوچھا کہ وہ کالے دھرم کو کیوں اپنا رہے ہیں؟‘‘
مول چند سوچ میں ڈُوب گیا۔ کچھ دیر کے بعد اس نے کہا۔ ’’میں انہیں سمجھائوں گا مہاراج…‘‘
’’ہاں یہ بات انہیں بتائو۔ بہت ضروری ہے۔‘‘
وہ لوگ چلے گئے۔ اب میرے دل میں ایک اور خیال آیا۔ اکرام کو میں نے ساتھ نہیں لیا کیونکہ یہ مناسب نہیں تھا لیکن اس دن پہلی بار میں نے مسجد کے اس عقبی ویران گوشے کا رُخ کیا جس کے بارے میں میرا خیال تھا کہ ادھر آبادی ہے۔ وہیں سے ہمارے لیے کھانا پک کر آتا تھا۔ وہیں سے ہماری ضرورتیں پوری ہوتی تھی۔ میں آہستہ آہستہ اس سمت پہنچ گیا۔ سُرخ اینٹوں کا ایک دَر بنا ہوا تھا جس میں دروازہ لگا ہوا تھا۔ میں اس دروازے کے پاس پہنچ گیا۔
’’کیا میں اندر آ سکتا ہوں۔‘‘ میں نے مدھم آواز میں کہا۔ چند لمحات تک کوئی آواز نہ سُنائی دی مگر پھر ہلکی ہلکی آہٹیں اُبھریں اور بند دروازہ کھل گیا۔ خوشبو کے کئی جھونکے آئے۔ میری نظر سامنے اُٹھ گئی۔ تھوڑا سا کچا راستہ تھا، اس کے بعد تین سیڑھیاں تھیں۔ اُوپر ایک وسیع دالان نما جگہ تھی جہاں تین قبریں نظر آ رہی تھیں، ان پر گلاب کے تازہ پھول پڑے ہوئے تھے۔ ایک سمت اگردان سے ہلکا ہلکا دُھواں نکل رہا تھا جس سے بڑی مسحورکن خوشبو اُٹھ رہی تھی۔ بائیں سمت تین دَر بنے ہوئے تھے جن کے دُوسری سمت تاریکی تھی۔ میں آگے بڑھا۔ سیڑھیوں سے نیچے جوتے اُتارے اور پھر قبروں کے قریب پہنچ کر دوزانو بیٹھ گیا۔ فاتحہ پڑھی۔ چند لمحات خاموشی اختیار کی، پھر آہستہ سے اُٹھ گیا۔ اسی وقت عقب سے آواز آئی۔
’’السلام علیکم۔‘‘ چونک کر پلٹا تو ایک عمر رسیدہ شخص کو بیٹھے ہوئے پایا۔ جواب دیا تو وہ فوراً بولے۔
’’بیٹھو۔‘‘ میں دوبارہ بیٹھ گیا۔ ’’کہو کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی یہاں۔‘‘ انہوں نے پوچھا۔
’’عنایات کا شکرگزار ہوں۔‘‘ میں نے کہا۔
’’فرض میزبانی تھا۔‘‘ وہ بولے۔
’’ایک اجازت لینے حاضر ہوا تھا۔‘‘
’’کہو؟‘‘
’’کیا نمازیوں کیلئے مسجد کا دروازہ کھولا جا سکتا ہے؟‘‘
بزرگ نے عجیب سی نگاہوں سے مجھے دیکھا۔ پھر بولے… ’’خانۂ خدا پر کسی کی آمد کی پابندی لگانا بھلا ہمارے لیے کیسے ممکن ہے، مسجد نمازیوں کے لیے ہی ہوتی ہے، بھلا نمازیوں پر اس کے دروازے کیسے بند کئے جا سکتے ہیں؟‘‘
’’میں یہی اجازت لینے حاضر ہوا تھا۔ طویل عرصے سے مسجد غیرآباد تھی اور آپ یہاں فروکش، یقیناً اب آپ کو زحمت ہوگی؟‘‘
’’میاں کیسی باتیں کرتے ہو، ہم کہہ چکے ہیں کہ خانۂ خدا کے دروازے بھلا عبادت گزاروں پر کیسے بند کئے جا سکتے ہیں، رہی ہماری بات تو ہمارا یہ حجرہ الگ تھلگ ہے، ہم ذرا اسے اور محفوظ کرلیں گے، اس میں اجازت کی ضرورت نہیں، ویسے عزیزی تمہیں کچھ تکلیفیں ہوتی ہوں گی یہاں جن کے لیے معذرات خواہ ہیں۔‘‘
’’نہیں محترم میں خود آپ کی عنایات کا شکرگزار ہوں میرے لیے کوئی رہنمائی فرمایئے؟‘‘
’’اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تمہیں تمہارے مقاصد میں کامیاب کرے۔‘‘ بزرگ نے جواب دیا۔ میں ایک بار پھر جنبش کر کے اُٹھا تو بزرگ خود بھی اُٹھ گئے کہنے لگے۔
’’جب تک یہاں قیام ہے مسعود میاں، کوئی ضرورت ہو تو بلاتکلیف کہہ دینا، ہمیں تو غم ہے کہ صحیح طور پر میزبانی نہ کر سکے۔‘‘ میں نے کچھ اور کلمات کہے جن سے شکرگزاری جھلکتی تھی اور اس کے بعد خاموشی سے وہاں سے پلٹ آیا، کچھ دیکھنا کچھ سوچنا مناسب نہیں تھا۔ بات تو پہلے ہی سمجھ میں آ گئی تھی۔ اکرام کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دی اور اس سے کہا کہ مسجد کا دروازہ کھول دے۔ حالات میں کوئی نمایاں تبدیلی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ سامنے کا علاقہ مسلسل سنسان تھا، لیکن اب نہ تو گولیاں چلنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں اور نا ہی کوئی ’’ہاہاکار‘‘ کانوں تک پہنچتی تھی۔ ایک عجیب سا سکوت چھایا ہوا تھا… لیکن میرے نمائندے مجھ سے مسلسل رابطہ رکھے ہوئے تھے۔ مول چند نے آ کر بتایا کہ حالات بالکل پرسکون ہیں۔ کسی محلے میں کوئی فساد نہیں ہوا ہے۔ امن کمیٹیوں نے ہندوئوں اور مسلمانوں کو بھائی چارے کا سبق دیا ہے اور اس کا نتیجہ کم از کم یہ تو نکلا ہے کہ کسی نے کسی پر کوئی حملہ نہیں کیا۔ پورے جوالاپور میں کسی ایسے واقعے کی اطلاع نہیں ملی۔ یہ بات بڑی دل خوش کن تھی اور میں بڑا مطمئن تھا۔ نمازیوں نے ابھی تک جان علی کی مسجد کا رُخ نہیں کیا تھا۔ شاید ڈر یا خوف تھا… لیکن اس شام مغرب کی نماز میں کنور ریاست علی پندرہ بیس افراد کے ساتھ پہنچے تھے۔ میں اذان سے فارغ ہوا تھا کہ میں نے ان لوگوں کو اندر داخل ہوتے ہوئے دیکھا۔ وضو کرنے بیٹھ گئے، خاموشی سے پہلے مغرب کی نماز پڑھی، اس کے بعد مجھ سے سلام دُعا کی پھر کنور ریاست علی نے مجھے صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے کہا۔
’’حضور قبلہ شاہ صاحب، یہ چار دن تو بڑے پُرسکون گزرے ہیں، گو ابھی جوالاپور کے بازاروں میں دُکانیں وغیرہ نہیں کھلی ہیں اور لوگ آزادانہ طور پر سڑکوں اور گلیوں میں آتے جاتے ہوئے ہچکچا رہے ہیں لیکن بفضل تعالیٰ کوئی حادثہ وغیرہ نہیں ہوا اور حالات پُرسکون ہیں… لیکن آج شام کو پانچ بجے گرج ناتھ سیوک کے کچھ نمائندے ہندو محلوں میں ایک اعلان کرتے پھر رہے ہیں۔‘‘
’’کیسا اعلان ہے؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’عجیب و غریب اعلان ہے، ان کا کہنا ہے کہ دیوی بھوانی جوالا چوک پر استھان کرے گی اور رات ٹھیک بارہ بجے جب چاند ٹیکا ٹیک آسمان کے بیچ پہنچے گا، بھوانی دیوی جوالا چوک پر براجمان ہوگی اور اس کے چرنوں میں دُنبے کی قربانی دی جائے گی جسے وہ لوگ اپنی زبان میں بلی کہتے ہیں، ہندوئوں کو دعوت دی گئی ہے کہ بھوانی کا استھان دیکھیں اور دُنبے کی قربانی میں حصہ لیں۔ ہندوئوں میں ایک بار پھر کھلبلی مچ گئی ہے اور کاناپھوسیاں ہو رہی ہیں۔‘‘
’’آج رات بارہ بجے…‘‘ میں نے سوال کیا…!
’’جی شاہ صاحب…‘‘
’’آپ نے مول چند کو یہ بات بتائی؟‘‘
’’بات تو سب ہی کوپتہ چل گئی ہے۔‘‘
’’میرا مطلب ہے مول چند تو آپ کے پاس نہیں پہنچا؟‘‘
’’نہیں…‘‘
’’تو پھر آپ کا کیا ارادہ ہے؟‘‘
’’مداخلت کی جا سکتی ہے شاہ صاحب، پتہ نہیں یہ کیا چکر ہے، لیکن آپ کی اجازت کے بغیر نہیں۔ میرے پاس ساٹھ بندوقیں ہیں اور انہیں چلانے والے بھی موجود ہیں، کارتوسوں کا ذخیرہ ہے، اگر آپ حکم دیں تو جوالا چوک پر ایک بھی ہندو کو نہ پہنچنے دیا جائے۔‘‘ کنور ریاست علی نے کہا اور میں نے ہنس کر ہاتھ اُٹھا دیا۔
’’نہیں کنور صاحب، خون بہانے کا مقصد تو پورا ہو جائے گا گرج ناتھ کا۔ اگر ہم نے وہاں ایک بھی ہندو کا خون بہایا… ایسا نہ کریں انہیں نفرت کی بجائے محبت دیں۔ آپ دیکھ لیجئے، سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
’’بھلا کس کافر کو خوشی ہے کہ کسی انسان کا خون بہائے لیکن یہ تعصب بڑھنا نہیں چاہئے شاہ صاحب، ورنہ ایک ایک مسلمان کٹ مرے گا، ہندوئوں کا تسلط نہیں ہونے دے گا جوالاپور پر۔ یہ میں آپ سے عرض کئے دے رہا ہوں۔‘‘
’’نہیں ہوگا کنور صاحب، کوئی تسلط نہیں ہوگا کسی پر، آپ مطمئن رہیں، اللہ نے چاہا تو سب ٹھیک ہو جائے گا، آپ لوگ بالکل الگ تھلک رہیں اس معاملے سے، بلکہ چاہیں تو مسلمان بھی تماشا دیکھیں، آپ اطمینان رکھئے وہاں بھی کوئی فساد نہیں ہوگا۔‘‘
’’آپ نے کہا… میں نے خلوص جان سے تسلیم کیا، بس یہی اطلاع دینے حاضر ہوا تھا۔ اجازت چاہتا ہوں۔ ریاست علی چلے گئے، اکرام نے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔ گویا معاملہ ابھی سرد نہیں ہوا مسعود بھیّا…؟‘‘
’’سرد ہو بھی کیسے سکتا ہے۔ گرج ناتھ سیوک کی ان تین چار دنوں کی خاموشی ہی میرے لیے حیران کن تھی۔ اس نے کیسے برداشت کر لیا اس بات کو کہ فسادات بند ہو جائیں۔ ویسے اسے پتہ تو چل گیا ہو گا کہ نفرت کے وہ پُتلے وہاں سے نکال پھینکے گئے ہیں۔ وہ دونوں ہرکارے یقیناً وہاں پہنچ کر اسے سب کچھ بتا چکے ہوں گے جو اس وقت ہمارے قریب آئے تھے جب ہم نے جوالا چوک سے پُتلے نکال پھینکے تھے۔‘‘ میں نے اکرام سے کہا۔ ’’رات کو اس وقت بھی ہم جوالاچوک پر پہنچیں گے، جب یہ سارا کھیل ہوگا۔‘‘ اکرام نے آنکھیں بند کر کے گردن ہلا دی۔ ہم تقریباً پونے گیارہ بجے مسجد کے دروازے سے باہر نکل آئے، چاروں طرف ہو کا عالم تھا۔ میں اور اکرام فاصلے طے کرتے ہوئے بالآخر جوالا چوک پہنچ گئے یہاں البتہ خاموشی نہیں تھی۔ عقیدت مند ہندو بہت پہلے سے وہاں جمع ہونا شروع ہوگئے تھے اور اس وقت بھی جب صرف گیارہ بجے تھے وہاں اچھا خاصا رش تھا لیکن میں نے مسلمانوں کو بھی دیکھا، ذرا فاصلے پر کھڑے ہوئے تھے۔ کوئی کسی کے کام میں مداخلت نہیں کر رہا تھا۔ البتہ کچھ شرپسندوں کے چہروں پر شرارت کے آثار نظر آ رہے تھے۔ میں خود بھی خاموشی سے ان لوگوں میں شامل ہوگیا اور ایک جگہ رُک کر صورت حال کا جائزہ لینے لگا۔ اچانک ہی مول چند کوئی پندرہ
آدمیوں کے ساتھ جو ہاتھوں میں بندوقیں لیے ہوئے تھے، وہاں پہنچ گیا اور ٹھیک اس جگہ پہنچنے کے بعد جہاں پُتلے گڑے ہوئے تھے۔ اس نے کھڑے ہو کر اپنے تمام بندوق بردار ساتھوں کو نیم دائرے کی شکل میں پھیلا دیا اور پھر بولا۔
’’بھائیو، تم لوگ مجھے جانتےہو گے، میں بابو مول چند ہوں، برسوں سے جوالاپور میں ہندو دھرم کی خدمت کر رہا ہوں، تم لوگ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں دھرم سیوک نہیں ہوں۔ میں تم میں سے ایک ہوں اور تمہیں اپنے من کی ایک بات بتانا چاہتا ہوں، کیا تم سنو گے؟‘‘
’’ضرور کہو بابو مول چند… ہمیں تم پراعتماد ہے، ہم تم پر بھروسہ کرتے ہیں۔‘‘ بہت سے لوگوں نے کہا… مگر کچھ آوازیں ایسی بھی آئیں۔
’’بابو مول چند تم غدار ہو، تم بک چکے ہو، تم ڈرپوک ہو، تم کنور ریاست علی سے ڈر گئے ہو۔‘‘ مول چند گرج کر بولا۔
’’کون ماں کا لال ہے وہ جو یہ جملے کہہ رہا ہے، پیٹھ پیچھے چھپ کر جو من چاہے کہہ دو۔ ارے سامنے آئو پاپیو، مجھے غدار کہہ کر تم اپنے باپ کو گالی دے رہے ہو، کون سی غداری کی ہے میں نے، ارے بے وقوفو کالے جادو کے پھیر میں آ کر تم انسان سے شیطان بن گئے ہو، ذرا بتائو تو سہی مجھے مہاراج۔ ہے کوئی یہاں، کوئی پنڈت، کوئی دھرم سیوک، بھوانی دیوی تو ہماری بھی دیوی ہے، اسے کالے جادو والوں نے کیسے اپنا بنا لیا، وہ گرج ناتھ سیوک جو جوالاپور کو مسلمانوں سے پاک کر کے اپنے کالے دھرم کی بنیاد رکھنا چاہتا ہے، کیا ہندو دھرم سے ہے، کیا تمہارا دھرم کالا ہے۔ بولو، بے وقوفو، بھوانی مکنڈ، مایا کنڈ اور ایسے ہی دُوسرے نام دے کر کیا تمہیں کالے جادو والا نہیں بنایا جا رہا۔ کنتا بھوانی تو ہماری بھی دیوی ہے، بھلا اس پر کالے دھرم کی چھاپ کیسے لگائی جا سکتی ہے۔ میں کہتا ہوں تمہارا اپنا ایک دھرم ہے، ہمارے ریت رواج ہیں، تم ان سب کو بھول کر کالے دھرم کے پجاری بننے جا رہے ہو۔ گندی کیچڑ کھائو گے، غلیظ پانی پیو گے، اور اس کے بعد اپنے آپ کو ہندو کہو گے۔ ارے کالے دھرم والوں کا تو کوئی دھرم ہی نہیں ہوتا۔ ان کے دھرم میں تو لوٹا چماری، بھیروں اور شیروں ہوتے ہیں۔ بھلا ان کا ہندو دھرم سے کیا تعلق، سارے کے سارے اپنا دھرم چھوڑنے پر تُل گئے ہو۔ آخر کس لئے… تم سب کالے جادو کے اَثر میں آگئے ہو، بے وقوفوں کی سی باتیں مت کرو، گرج ناتھ سیوک کالا جادوگر ہے، وہ تم سب کو اُلّو بنا رہا ہے۔ بڑی مشکل سے بھائی چارہ قائم ہوا ہے، اگر بھوانی دیوی یہاں استھان کرتی ہے تو ہمیں اعتراض نہیں اور نہ ہی ہمارے مسلمان بھائیوں کو ہوگا، یہ تو مندر اور مسجد کا معاملہ ہے، لیکن اگر کوئی ایسا کالادھرم یہاں استھان کرتا ہے جو یہاں کے جوالاپور کے رہنے والوں کو نقصان پہنچا سکے، تو ہم اس کا مقابلہ کریں گے ہم اسے یہاں استھان نہیں کرنے دیں گے۔‘‘
دفعتہً ہی ایک عجیب سا شور مچا اور لوگ گردنیں گھما گھما کر دیکھنے لگے۔ مول چند نے کچھ اور بھی کہا تھا۔ لیکن اس کی آواز اس شور کی آواز میں دَب گئی۔ میری نظریں بھی سامنے کی سمت اُٹھ گئیں، تب میں نے ایک عجیب و غریب منظر دیکھا۔ پورے دعوے اور اعتماد کے ساتھ کہا جا سکتا تھا کہ وہ پتھر ہی کا مجسمہ ہے اور اس میں گوشت پوست کی کوئی رَمق نہیں ہے۔ اس کے پورے جسم سے مدھم مدھم آگ نکل رہی تھی اور یہ پتھر کا مجسمہ جس کی لمبائی کوئی نو فٹ تھی اور جس کی جسمانی ساخت عجیب و غریب، آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتا ہوا جوالا چوک کی جانب آ رہا تھا۔ اس کے چہرے پر بڑے بھیانک تاثرات تھے۔ لوگ خوفزدہ ہو کر کائی کی طرح چھٹ گئے اور مجسمہ آگے بڑھتا ہوا جوالا چوک کے عین درمیان آ کھڑا ہوا۔ لوگ خشک ہونٹوں پر زبان پھیر رہے تھے۔ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہے تھے۔ میں بھی اس کا جائزہ لے رہا تھا اور دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ گندے علوم کے بہت سے مظاہرے دیکھے ہیں میں نے۔ کالے جادو کے ماہر گندے عمل کرتے ہیں لیکن زیادہ تر چھپ کر، اس طرح ایک پوری آبادی کے سامنے خود کو ظاہر کرنے والا پہلا ہی دیکھا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ گرج ناتھ سیوک زیادہ قوت رکھتا ہے۔ اپنی معلومات کے مطابق میں نے سوچا کہ کیا وہ کھنڈولا ہے۔ ممکن ہے ایسا ہو۔ پھر میں نے دُوسری بات سوچی اور میرے دل سے دُعا نکلی۔
’’رب العزت، عزت و ذلت تیرے رحم و کرم کی بات ہے۔ یہاں کوئی ڈھکا چھپا معاملہ نہیں ہے۔ بے چارے مول چند نے زندگی دائو پر لگا کر آج گرج ناتھ کے خلاف کچھ کہا ہے۔ اس کے خلاف اتنا کچھ کہہ کر اس نے اس کا غضب مول لے لیا ہے۔ اس نے مجھ پر تکیہ کیا ہے اور بات یہاں صرف میری عزت اور مول چند کی زندگی کی نہیں ہے۔ تیرے بے شمار بندگان خطرے میں ہیں۔ اس شیطانی طاقت کے خلاف مجھے تیری مدد درکار ہے ورنہ میں کیا ہوں، یہ تو خود جانتا ہے، اس وقت بہت سے عوامل یکجا ہو گئے ہیں۔ اندر سے ایک دَم سکون کا سا احساس اُبھرا۔ یوں لگا جیسے کسی نے دل پر ہاتھ رکھ دیا ہو۔
جادو کا مجسمہ چند لمحات شُعاعیں بکھیرتا رہا۔ پھر آہستہ آہستہ سرد ہوگیا اور اب وہ صرف پتھر کا مجسمہ تھا۔ چند عقیدت مند ہندوئوں نے نعرے لگائے۔ وہ کنتا بھوانی کی جے جے کار کررہے تھے۔ اچانک ہی پھر غلغلہ سا اُٹھا اور جے بھوانی، جے مایا مکنڈل کی آوازیں آنے لگیں۔ میری نظریں پھر اسی طرف اُٹھ گئیں۔ ایک لمحے میں اندازہ ہوگیا کہ گرج ناتھ سیوک خود آیا ہے۔ اس کے چاروں طرف بیر اُچھل کود رہے تھے اور وہ ان کے بیچوں بیچ تھا۔ گرج ناتھ کو ماننے والوں نے پھر نعرہ لگایا۔ ’’جے سیوک مہاراج۔‘‘
’’جے سیوک بھوانی۔‘‘
’’جے بھوانی۔‘‘ گرج ناتھ نے اس نعرے کا جواب دیا۔ اور پھر وہ سامنے آ گیا۔ ایک کالامینڈھا اس کے ساتھ تھا۔ نہایت تنومند لمبے لمبے سینگوں والا۔ اس کے گلے میں مالائیں پڑی ہوئی تھیں اور وہ اس طرح جھوم رہا تھا۔ جیسے اسے نشہ پلا دیا گیا ہو۔ اس کی زنجیر سیوک نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی۔ گرج ناتھ بھوانی کے مجسّمے کے پاس آ کھڑا ہوا۔ اس نے پھر نعرہ لگایا۔
’’جے بھوانی جے مایا مکنڈل۔‘‘ جوالا پور کے دھرم داسیو مجھے جانتے ہو۔ میں گرج ناتھ سیوک ہوں، جوالاپور کے ہندو دھرم والوں کا سیوک، میں جوالاپور میں مایا مکنڈل کا بنانے والا ہوں اور تمہیں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ یہ سب کچھ میں اپنے لئے نہیں کر رہا، تمہارے لیے کر رہا ہوں۔ ہاں صرف تمہارے لیے اور اس کے لیے میں نے جوالاپور کا چنائو کیا ہے، ایسے ہی نہیں، وجہ ہے اس کی، کیا سمجھے۔ اس کی وجہ ہے، پہلے بھی تمہیں بتا چکا ہوں کہ میں جوالاپور کو، پورے بھارت ورش میں ایک ایسی آبادی بنانا چاہتا ہوں، جہاں کے لوگوں کو باقی دیش والے دیکھیں تو جلن سے کلیجہ پکڑ کر رہ جائیں، جوالاپور کے گھر جیسے سونے کے گھر ہوں گے۔ مایا تمہارے چرنوں میں لوٹے گی اور یہ سب کچھ میں تمہیں دوں گا، بھوانی کنڈل کے زیراثر… جوالاپور کے ہندو دھرم والو، میں نے تم سے کہا تھا کہ ایک پکا بھوانی مکنڈل بنانے کے لیے ضروری ہے کہ یہاں کے ملیچھوں کا خاتمہ کر دیا جائے، ایک بھی مسلمان جوالاپور میں نہ رہے، یہ میرا نہیں تمہارا کام تھا۔ تمہیں سرانجام دینا تھا۔ لیکن میں نے دیکھا تم نے کوشش تو کی۔ مگر ناکام کوشش، کوئی کامیابی تمہیں نہ مل سکی اور بھلا کامیابی کیسے ملتی، جبکہ خود تمہارے بیچ غدار موجود ہیں اور انہوں نے اپنے ہی بھائیوں کی گردن کاٹی ہے جوالاپور کے دلیر واسیو، یہ ملیچھ جہاں بھی رہتے ہیں، دھرتی کو ناپاک کرتے ہیں۔ ہماری گئو ماتا کا خون بہاتے ہیں، اسے کاٹ کر کھا جاتے ہیں۔ جانوروں کا گوشت یہ بڑے آرام سے کھا پی لیتے ہیں، جبکہ ایک پورا بھوانی مکنڈل بننے کے لیے ضروری ہے کہ ایسی باتیں نہ ہونے پائیں اور بھوانی مکنڈل ملیچھوں سے پاک ہو۔ میں نے گہری نظروں سے سب کچھ دیکھا ہے، مجھے پتہ ہے کہ ہمارے بیچ غدار کون کون ہے۔ مگر ہم غدار کو ماریں گے نہیں۔ اس کی غداری اپنی موت آپ مر جائے گی جب بھوانی مکنڈل بن جائے گا۔ تو میں تم سے کہہ رہا تھا کہ غداری کر کے ہمارا کام روک دیا گیا ہے۔ ورنہ تھوڑے تھوڑے ہی کر کے سہی، سارے ملیچھ مارے جاتے، ارے سرکار ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی تھی، یہ سارے انتظامات تو میں نے کر لیے تھے۔ ایک طرف وہ کنور ریاست ہے جو زور لگائے ہوئے ہے، میں تو یہ دیکھ رہا تھا کہ تم لوگ کیا کرتے ہو، جب چاہوں اسے بھسم کر کے رکھ دوں گا، آگ لگا دوں اس کی حویلی میں۔
مگر میں نہیں کرنا چاہتا تھا یہ کام، یہ کام تم ہی کرو گے، کیونکہ یہ تمہارا ہی کام ہے اور یہ ضروری بھی ہے۔ اب آ جاتے ہیں ہم ان غدّاروں پر، نام نہیں لوں گا کسی کا۔ وہ ملیچھوں سے رابطہ قائم کئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ایک ایسا کام کیا ہے اس جوالا چوک میں، جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس کی وجہ سے ہمارا کام رُک گیا ہے۔ سُنا ہے یہاں ایک مہا آتما بھی آئی ہے جس نے بابو مول چند کے باغ پر قبضہ جما لیا ہے اور وہاں کی پرانی مسجد میں اذان دیتی ہے، نماز پڑھتی ہے، ارے کسی جگہ بند ہو کر یہ سارے کام کرنا تو بچوں جیسی بات ہے، ہمت ہے تو کبھی گرج ناتھ سیوک کے سامنے آئے وہ… اور ہندو دھرم کا سیوک اسے یہ بتائے کہ مہانتا کیا ہوتی ہے۔ گھر میں تو کتا بھی شیر ہوتا ہے۔ میں تم لوگوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جو بھائی چارہ کمیٹیاں بنی ہیں، سب ڈھونگ ہے، مسلمانوں نے ہمیشہ ہی ہندوستان میں ہندوئوں کی کھوپڑیاں توڑی ہیں اور کبھی انہیں سر نہیں اُٹھانے دیا۔ میں جانتا ہوں کہ تم میں سے کچھ لوگ ان مسلمانوں کی ساری کارروائیوں کے بارے میں اچھی طرح جانتے ہیں۔ ہم جوالاپور سے یہ تحریک شروع کرتے ہیں اور اس کے بعد دیکھیں گے کہ اپنے دھرم رکھشا کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں۔ دولت سب کے پاس ہونی چاہئے اور اس کے بل پر بہت سے کام ہو جاتے ہیں۔ کسی کی باتوں میں نہ آئو، کسی کی نہ سنو، اپنا کام آہستہ آہستہ جاری رکھو۔ میں نے اب ایک اور فیصلہ کیا ہے، وہ یہ کہ اپنے بیروں کو تمہاری مدد پر لگائوں گا، اس طرح تمہیں بزدلی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ میں نے اسی لیے بھوانی ماتا کو تمہارے بیچ بھیج دیا ہے اور اب بھوانی ماتا خود تمہاری رکھشا کرے گی۔ تمہیں جب بھی کوئی مشکل پیش آئے، اس کے چرنوں میں چلے آنا، یہ تمہیں طاقت دے گی اور تمہارے لیے صحیح راستے منتخب کرے گی۔ جوالاپور کے لوگو، کسی غدّار کے پھیر میں مت آنا، ملیچھ ہمارے دوست یا ہمارے بھائی ہو ہی نہیں سکتے، یہ صرف ہمارے دُشمن ہیں اور جب بھی موقع ملے گا، یہ تم پر وار کریں گے، ان سے ہوشیار رہنا، اپنا کام جاری رکھو، ان کا خون بہاتے رہو، تمہاری منزل تمہارے سامنے آ جائے گی۔ جے بھوانی، جے بھوانی، اس نے ایک بیر کو اشارہ کیا اور وہ ایک چنڈول لیے سامنے آ گیا۔ گرج ناتھ سیوک نے چنڈول میں ہاتھ ڈال کر مٹھی بھر اشرفیاں اُٹھائیں اور سونے کی اشرفیاں بھوانی کے مجسّمے پر اُچھال دیں، اس کے بعد وہ چنڈول میں ہاتھ ڈال ڈال کر سونے کی اشرفیاں اُچھالتا رہا اور اچھا خاصا ہنگامہ برپا ہوگیا۔ لوگ یہ اشرفیاں لوٹ رہے تھے۔ اب ان میں کون ہندو تھا کون مسلمان۔ اس کا اندازہ لگانا مشکل تھا، سب لوٹ مار میں لگے ہوئے تھے، پھر چنڈول خالی ہوگیا تو گرج ناتھ سیوک نے کہا۔
’’بس اب پیچھے ہٹ جائو۔ ہم بھوانی ماتا کے چرنوں میں اس مینڈھے کی بَلی دے رہے ہیں۔ بھوانی ماتا کے چرنوں کو پہلے جاندار کا خون دے کر ہم اسے اَمر کر دیں گے اور اس کے بعد تم لوگوں کے لیے کوئی مشکل نہ رہے گی۔‘‘
لوگ پیچھیے ہٹ گئے۔ شراب کے نشے میں جھومتے ہئوے مینڈھے کو زنجیر سے آزاد کر دیا گیا۔ چار آدمی جن کے ہاتھوں میں نیزے تھے، جن کی اَنیاں چاندنی میں سونے کی مانند چمک رہی تھیں، چاروں سمت کھڑے ہوگئے۔ مینڈھا سر جھکائے کھڑا ہوا تھا۔ دفعتہً ہی گرج ناتھ سیوک نے دونوں ہاتھ بلند کئے اور ان چاروں بلم والوں نے بلم سیدھے کر کے مینڈھے پردے مارے۔ میں مینڈھے کو دیکھ رہا تھا۔ گرج ناتھ سیوک کو پہلے ہی مرحلے پر ناکامی سے دوچار ہونا چاہئے تھا ورنہ یہاں سے اس کی بات لوگوں کے دلوں میں بیٹھ جاتی اور شاید اس کے بعد مسلمانوں کے خلاف ایسے فسادات ہوتے جو اب تک جوالاپور میں نہیں ہوئے تھے۔ (جاری ہے)