Kala Jadu | Episode 68
مسعود اتفاقاً کالے جادو کے ایک ماہر بھوریا چرن کے چنگل میں پھنس گیا۔ وہ مسعود کو اپنا آلۂ کار بنانا چاہتا تھا لیکن اسے کسی قیمت پر یہ منظور نہیں تھا، نتیجتاً بھوریا اس کا دشمن بن گیا اور اس کی زندگی عذاب بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ حالات کی انہی سختیوں کے دوران کچھ خاص ہستیوں کی نظر مسعود کی جانب ہوئی جنہوں نے اسے روحانی طور پر اتنا طاقتور بنا دیا کہ وہ شیطانی طاقتوں کا مقابلہ کرسکے۔ اس طرح مسعود، بھوریا کے چنگل سے تو نکل آیا لیکن اسے جب بھی موقع ملتا، مسعود پر اپنا وار کر جاتا تھا۔ مسعود نے خدمت خلق کو اپنا مشن بنا لیا تھا کہ اس کی ملاقات ثریا نامی ایک بے سہارا لڑکی سے ہوئی جو بول نہیں سکتی تھی۔ مسعود کو اس سے محبت ہوگئی تھی لیکن حالات نے اسے ثریا سے دور کردیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ثریا کو اس حال تک پہنچانے والا بھوریا ہی تھا جو اس کے بھائی اکرام کو اپنا آلۂ کار بنانا چاہتا تھا۔ جب اکرام نے اس کی بات نہیں مانی تو اس نے ثریا کی زبان کاٹ دی تھی۔ اب دونوں بہن بھائی ایک دوسرے سے جدا لیکن ایک دوسرے کی تلاش میں تھے۔ مسعود نے جب انہیں ملانا چاہا تو معلوم ہوا کہ بھوریا، ثریا کو غائب کرچکا تھا۔ کچھ اشارے ملنے پر مسعود اس کی تلاش میں اکرام کے ہمراہ جوالا پور پہنچا لیکن وہاں ہندو مسلم فسادات ہو رہے تھے۔ ان فسادات کا ذمہ دار کالے جادو کا ایک ماہر گرج ناتھ تھا، وہ جوالا پور کو اپنا ٹھکانہ بنانا چاہتا تھا۔ مسعود اپنی تدبیروں سے جوالاپور کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ اس دوران اس کا مقابلہ گرج ناتھ سے ہوا جس میں مسعود نے اسے شکست دے دی۔ جوالا پور والے مسعود کے معتقد ہوگئے تھے جن میں ہندو بھی شامل تھے۔ ہندو ساہوکار مول چند کی پتنی مسعود سے اتنی متاثر ہوئی کہ اس نے اس کے سامنے اسلام قبول کرلیا۔ اب چونکہ وہ اپنے پتی کے گھر نہیں جاسکتی تھی لہٰذا مسعود کے سامنے اس کی رہائش کا مسئلہ تھا۔ وہ پریشان تھا کہ اس مسئلے کو کس طرح حل کرے۔
(اب آپ آگے پڑھیے)
٭…٭…٭
’’مگر… میں… کوئی تو جگہ ہو میرے لئے۔ کیا نیا دھرم مجھے پناہ نہیں دے گا؟‘‘ اس نے کہا۔
’’کیوں نہیں۔ تمہارے بارے میں ہم نے فیصلہ کرلیا ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’کنور ریاست علی کو تم جانتی ہو۔ بھرا پرا گھرانہ ہے ان کا، اور پھر جب انہیں یہ معلوم ہوگا کہ تم مسلمان ہوگئی ہو تو اتنا احترام ہوگا تمہارا ان کے گھرانے میں کہ تم سوچ بھی نہیں سکتیں۔ بعد میں ہم کوئی مناسب حل نکال لیں گے۔‘‘
’’نہیں، مہاراج نہیں۔ ایسا نہ کرو مہاراج۔ مجھے آپ کی پناہ چاہئے۔ میں ڈر کے مارے مر جائوں گی۔ آپ اسے پوری طرح نہیں جانتے مہاراج، آپ اسے پوری طرح نہیں جانتے۔ یہاں اس جگہ، بس اس جگہ میں محفوظ ہوں ورنہ جب اسے یہ پتہ چلے گا کہ میں…‘‘ وہ دونوں ہاتھوں سے چہرہ چھپا کر سسکنے لگی۔ بُری طرح خوفزدہ تھی بے چاری۔ میں نے پریشان نگاہوں سے اکرام کو دیکھا تو اکرام نے کہا۔
’’ٹھیک ہے مسعود بھائی۔ کچھ وقت گزر جانے دیں۔ آیئے چلیں۔‘‘ ٹھیک ہے عارفہ تم آرام کرو۔ میں نے تعجب سے اکرام کو دیکھا لیکن کچھ کہا نہیں، اور ہم وہاں سے واپس آ گئے۔ اکرام بولا۔ ’’تو پھر کیا ارادہ ہے، کیا فیصلہ کیا۔‘‘
’’اب تم ہی بتائو، کتنا وقت گزارنا چاہتے ہو۔ تمہارے ذہن میں کیا منصوبہ ہے۔‘‘
’’مم۔ میرے ذہن میں؟‘‘ اکرام حیرت سے بولا۔
’’تم نے اچانک اس کے پاس سے واپس آنے کا فیصلہ کرلیا۔ میں سمجھا تم نے کچھ سوچا ہے۔‘‘
’’میں نے فیصلہ کرلیا؟‘‘ وہ اور حیرت سے بولا۔
’’تم نے کہا تھا نا کہ کچھ وقت گزر جانے دیں۔ اور پھر تم نے کہا تھا کہ آیئے چلیں۔‘‘
’’مم… میں نے…!‘‘ اکرام پریشان ہوگیا۔ اچانک ہی میرے ذہن کو جھٹکا لگا۔ اکرام کے انداز سے پتہ چل رہا تھا کہ وہ اپنے کہے وہ الفاظ نہیں جانتا، کچھ سوچ کر میں نے پھر کہا۔
’’ایک بات اور بتائو اکرام…‘‘
’’جی مسعود بھائی؟‘‘ وہ پھولے ہوئے سانس کے ساتھ بولا۔
’’تم نے عارفہ کے یہاں قیام کی سفارش بھی کی تھی۔ کیا تم نے یہ بھی نہیں کہا تھا کہ وہ جو پرانا حجرہ پڑا ہے، صحن مسجد سے الگ تھلگ اگر آپ خاموشی سے اسے کچھ وقت کے لئے وہاں رہنے دیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘
’’خدا کی قسم مسعود بھائی۔ مجھے بالکل یاد نہیں ہے۔ نہ میں آپ کے سامنے بولنے کی جرأت کر سکتا ہوں۔ چہ جائیکہ کسی کی ایسی سفارش۔‘‘
’’تب سب ٹھیک ہے۔ بالکل ٹھیک ہے۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’لیکن مسعود بھائی۔‘‘
’’کچھ نہیں اکرام، میرا بھی یہی خیال ہے کہ ابھی عارفہ کو یہیں رہنے دیا جائے۔‘‘
مغرب کی نماز میں کنور صاحب بھی آئے تھے۔ نماز کے بعد کچھ دیر نشست رہی، پھر انہوں نے جوالاپور کے حالات بتائے۔
’’آج تو پورے شہر کی دُکانیں کھلی ہیں۔ کاروبار بھی ہوئے ہیں، اب پولیس اپنا کام کر رہی ہے۔‘‘
’’کیا…؟‘‘
’’جو پولیس کا کام ہوتا ہے۔ معلومات اور پھر پکڑا دھکڑی۔ میں نے کچھ لوگوں کو مقرر کر دیا ہے کہ مسلمانوں کا خیال رکھیں۔ دو وکیل بھی ضمانتوں کے لئے حاصل کرلئے ہیں۔ انصاف ہونا چاہئے۔ بلوہ ہوا ہے انفرادی جھگڑا تو نہیں ہے کہ کسی کو نامزد کیا جائے۔ مگر پولیس کے مفادات کے بارے میں سب جانتے ہیں۔‘‘
’’بھائی چارہ کمیٹی کیا کر رہی ہے؟‘‘
’’کام کر رہی ہے۔ ہندو، ہندوئوں کو سمجھا رہے ہیں کہ کسی مسلمان کا جھوٹا نام نہ لیا جائے اور اثر ہوا ہے۔ ویسے ایک بات اور ہوئی ہے۔‘‘
’’کیا…؟‘‘
’’بے چارے بابو مول چند پر سے ہندوئوں کا اعتماد اُٹھ گیا ہے۔ بعض کھلم کھلا کہہ رہے ہیں کہ وہ مسلمانوں کا پٹھو ہے۔‘‘
’’ہاں اسے سب سے زیادہ نقصانات اُٹھانے پڑے ہیں۔ بہرحال آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
’’آپ کے دم کی رونق رہنی چاہئے شاہ صاحب۔ ہمیں بس آپ کی ضرورت ہے…‘‘ کنور صاحب کو میں نے اس سے زیادہ کچھ نہیں بتایا تھا۔ اب ضرورت نہیں رہ گئی تھی کہ عارفہ کے بارے میں کچھ کہا جائے۔ جو کچھ اکرام کے ذریعہ کہلوایا گیا تھا، وہ میرے لئے باعث اطمینان تھا۔ اکرام دونوں بار جو کچھ بولا تھا، وہ نہ اس کی زبان تھی نہ اس کے الفاظ، کوئی اور ہی بولا تھا اس کی آواز میں۔‘‘
کنور ریاست چلے گئے۔ عشاء کے بعد مکمل فراغت تھی لیکن ساڑھے دس بجے ایک اور گل کھلا۔ اکرام نے بابو مول چند کومسجد کے دروازے میں کھڑے دیکھا تھا… وہ چونک کر اس کے پاس پہنچ گیا۔ میری نظر بھی اسی طرف اُٹھ گئی تھی… میں بھی جلدی سے آگے بڑھا اور اس کے پاس آ گیا۔ مول چند کے چہرے کے تاثرات نظر نہیں آ رہے تھے لیکن جس طرح وہ کھڑا ہوا تھا، اس سے احساس ہوتا تھا کہ اس کا وجود ریزہ ریزہ ہو گیا ہے۔ وہ غم و اندوہ میں ڈُوباہوا ہے۔ میں نے اسے آواز دی تو وہ ایک قدم آگے بڑھ کر بولا۔
’’شاہ صاحب، میں اندر آنا چاہتا ہوں۔‘‘ عجیب سی آواز تھی، بڑا پُردرد لہجہ تھا۔ اس کے علاوہ اس نے مجھے مہاراج کے بجائے شاہ صاحب کہہ کر پکارا تھا۔ یقیناً پہلی بار۔
’’آئو مول چند۔ میں تمہیں پہلے بھی اندر بلا چکا ہوں۔‘‘
’’ایسے نہیں شاہ صاحب۔ ایسے جیسے اسے یہاں جگہ ملی ہے۔‘‘
’’کسے؟‘‘
’’عارفہ کو…‘‘
’’کیا مطلب…؟‘‘
’’نہا دھو کر آیا ہوں۔ اسی ترکیب سے جو آپ نے اسے بتائی تھی۔‘‘
’’مول چند!‘‘ میں شدید حیرت کے عالم میں بولا۔
’’ہاں مہاراج، اکیلا رہ گیا ہوں بالکل اکیلا رہ گیا ہوں، اب تو کوئی بھی میرا ساتھی نہیں ہے، کسی پر بھروسہ نہیں کر سکتا مہاراج، آپ ہی اپنا لیجئے مجھے…‘‘
’’یعنی کہ تم، یعنی کہ تم…‘‘
’’آپ کے دھرم میں آنا چاہتا ہوں شاہ صاحب۔ بتایئے کیا کروں دھرم ڈھنڈورا پیٹ پیٹ کر، کس کے ساتھ جیوں، وہ بھی آپ کی ہوگئی جس سے جیون بھر کا ساتھ نبھانے کا وعدہ کیا تھا، آپ کے چرنوں میں آ گئی وہ شاہ صاحب، مجھے بھی تھوڑی سی جگہ دے دیجئے، سچ کہہ رہا ہوں جگہ چاہتا ہوں آپ کے چرنوں میں پورے خلوص کے ساتھ ان تمام جذبوں کے ساتھ جو انسان کے دل میں جاگتے ہیں اور اس طرح میں ایک بار پھر اس کے قریب ہو سکوں گا، بڑا پریم ہے مجھے اس سے، بات ہی ختم ہو جائے گی۔ اس کا من بھی صاف ہوجائے گا۔ سوچے گی وہ کہ اب نیا دھرم نیا کرم، نہ وہ وہ رہے گی اور نہ میں میں، لیکن یہ دھرم مجھے اس کا ساتھ دے دے گا، ساتھ دے دے گا مجھے اس کا…‘‘ مول چند کا لہجہ اس طرح ٹوٹا ہوا تھا کہ میرا دل بھی بھر آیا اور میں غمزدہ ہوگیا۔ میں نے آہستہ سے اس سے کہا۔
’’اندر آ جائو، اب تو تمہیں مول چند کہنے کو جی بھی نہیں چاہتا۔‘‘ مول چند میرے ساتھ اندر داخل ہوا لیکن نہ میں نے اور نہ ہی اکرام نے سوریہ کرن کو دیکھا تھا جو نجانے کس وقت اپنی جگہ سے نکل کر ہمارے عقب میں آ کھڑی ہوئی تھی، جیسے ہی مول چند نے آگے قدم رکھے اس نے ایک چیخ ماری اور روتی ہوئی مول چند سے لپٹ گئی۔ وہ مول چند کے قدموں سے اپنا چہرہ رگڑ رہی تھی اور اس کے حلق سے عجیب و غریب آوازیں نکل رہی تھیں۔ میں نے حیران نگاہوں سے اسے دیکھا، مول چند بھی ہکّا بکّا رہ گیا تھا۔ وہ جلدی سے اس کے قریب بیٹھ گیا اور زور زور سے چیخنے لگا۔
’’سوریہ، سوریہ، سوریہ کرن، ارے ارے سنبھال خود کو سوریہ، ارے کیا کر رہی ہے بائولی، اری سوریہ، ناں ناں عارفہ، عارفہ یہ یہ تو سن، سن تو سہی، میرا تیرا اب کوئی سمبندھ نہیں ہے، عارفہ عارفہ۔‘‘
’’ہے مول چند، ہے بابو جی، پورا پورا سمبندھ ہے، ہائے مجھے کیا ہوگیا۔ ہائے میں تو کہیں کی بھی نہ رہی، ہائے میں ٹھیک ہوگئی، بابوجی میں ٹھیک ہوگئی، تمہاری سوگند، بھگوان کی سوگند، ٹھیک ہوگئی میں، بھگوان کی سوگند میں ٹھیک ہوگئی۔ ہائے رام یہ سب کچھ کیا ہوگیا تھا مجھے، کیا ہوگیا تھا۔‘‘ میں اور اکرام پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہے تھے۔ سوگند، بھگوان، رام وہ ایک دَم بدلی بدلی نظر آنے لگی تھی۔ مول چند اسے بازو سے پکڑ کر سیدھا کرنے لگا۔ بڑی مشکل سے اس نے سوریہ کو سنبھالا، وہ وہیں بیٹھ گئی تھی۔ اس نے کہا۔
’’پاپوں کا گھڑا بھر چکا ہے میرا، بھر چکا ہے میرے پاپوں کا گھڑا، اب کب تک، کب تک جھوٹ بولتی رہوں، ہائے میرا اب بھی کوئی دوش نہیں ہے۔ میں اس پاپی کے پھندے میں ایسی پھنسی ہوں کہ، مگر سنئے، سنئے مہاراج، سنئے غور سے سنئے، ہوسکتا ہے ایسا سمے دوبارہ کبھی نہ آئے، بتانا چاہتی ہوں آپ کو کچھ بتانا چاہتی ہوں، سن لیجئے میری مہاراج، سن لیجئے، بھگوان آپ کا بھلا کرے گا۔‘‘
’’بھگوان نہیں عارفہ، اللہ کہو، اللہ…‘‘
’’کہوں گی، کہوں گی مگر اب سچے من سے کہوں گی، اب جو کچھ ہو گا سچّے من سے ہوگا۔ اب تک جو ہوتا رہا ہے وہ سچّے من سے نہیں ہوا۔ معاف کر دیں، معاف کر دیں، مجھے معاف کر دیں، شاہ صاحب مجھے معاف کر دیں، بڑی بھول ہوئی ہے۔ بڑا بُرا کام کیا ہے میں نے مگر آپ اللہ کی، بھگوان کی جس کی چاہیں سوگند لے لیں یا اس سے بڑی سوگند میں کسی اور کی نہیں کھا سکتی، اپنے بابو جی کی سوگند، اب میں جو کچھ کہہ رہی ہوں سچّے من سے کہہ رہی ہوں اور آپ اس پر پورا پورا یقین کریں گے، پورا وشواس کریں گے مجھ پر…‘‘ میرے سر میں کھجلی ہونے لگی تھی۔ عارفہ یا سوریہ کرن کے الفاظ کچھ اور ہی بتا رہے تھے، بات آہستہ آہستہ میری سمجھ میں آتی جا رہی تھی مگر انتہائی حیران کن؟ ناقابل یقین، خود مول چند بھی پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا، سوریہ کرن زار و قطار رو رہی تھی۔ پھر اس نے کہا۔
’’اس پاپی نے مجھے اپنے جال میں پھانس لیا تھا، میں ہوش میں ہو کر بھی بے ہوش تھی۔ سب سمجھتی تھی مگر کچھ نہیں کر سکتی تھی، اپنے پتی سے پریم کرتی تھی میں، مگر میرا کلیجہ اس کی مٹھی میں تھا، اس کے بس میں تھی میں، پھر جب جوالا چوک پر اس کا منہ کالا ہوا تو وہ ترکیبیں کرنے لگا اور اسی نے مجھ سے کہا کہ میں مسلمان ہونے کا ڈھونگ رچائوں اور یہ سب کچھ۔ مگر میرا پتی، میرا بابو جی، اس کا سفلی علم میرے بابوجی کے پریم کے آگے ہار گیا۔ میرا من ایک دَم صاف ہوگیا۔ بابو جی مسلمان ہونا چاہتے ہیں، میرے لئے تو مہاراج مجھے بھی اب سچّے من سے اللہ کی پناہ میں لے لو۔‘‘
اچانک ہی میرے بدن میں چنگاریاں دوڑ گئیں۔ اتنا شدید غصہ آیا مجھے کہ میرا دماغ تاریک ہوگیا۔ یہ سب کچھ مسجد میں ہو رہا ہے۔ اس نے مجھے اس طرح دھوکا دیا ہے، اللہ کے نام پر۔ میں نے سوریہ کرن کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’اس کے بعد، سن لے سوریہ کرن، اور تو بھی سن لے گرج ناتھ سیوک۔ اس کے بعد اگر دین کے نام پر کوئی فریب کیا گیا مجھ سے تو، پہلے میں ان دونوں سے اپنی جنگ کا آغاز کروں گا۔ زندہ جلا دوں گا ان دونوں کو۔ پھر تیرے مایا مکنڈل آئوں گا اور کسی پر رحم نہیں کروں گا۔ کوئی رحم نہیں کروں گا۔ سوریہ، مجھ سے جھوٹ مت بولنا، ایک ایک لفظ سچ بتائے گی تو… جو کہے گی سچ کہے گی۔ تو نے کلمہ پڑھا ہے میرے سامنے اور مرتد ہوئی ہے۔ تجھے قتل کرنا مجھ پر فرض ہے لیکن سنوں گا، تیری کہانی سنوں گا۔‘‘
’’نہیں شاہ صاحب۔ اب خدا کی قسم جس کا کلمہ میں نے پڑھا ہے جس نے مجھے میرا سنسار واپس کیا ہے، اس اللہ کی قسم، اس کے جال میں آ کر کلمہ پڑھا تھا۔ اب سچّے دل سے پڑھ رہی ہوں۔ بالکل سچّے دل سے، مجھے وہ میٹھے بول یاد ہیں۔ مجھے وہ سب کچھ یاد ہے۔ وہ کلمہ پڑھنے لگی۔ بار بار پڑھنے لگی۔ اس کی آواز میں تیقن تھا۔ کلمہ اس کے ہونٹوں پر سچ بن کر چمک رہا تھا اور بے اختیار بابو مول چند بھی کلمہ دُہرانے لگا۔ وہ دونوں آنکھیں بند کئے وجد میں کلمۂ طیبہ کا ورد کر رہے تھے اور میں اپنے گرد آہٹیں محسوس کر رہا تھا۔ انجانی آہٹیں جو مجھے احساس دلارہی تھیں کہ اس وقت میں اور اکرام ہی نہیں بلکہ دُوسرے گواہ بھی موجود ہیں۔ اس کا ثبوت وہ برتن تھا جو پہلے یہاں موجود نہیں تھا لیکن اب تھا اور اس میں کھجوریں بھری ہوئی تھیں۔ اکرام کی نگاہ بھی اس پر پڑی تھی اور اس نے کچھ بولنا چاہا تھا مگر میں نے اسے خاموش کر دیا۔ دونوں کی آنکھوں سے آنسوئوں کی برسات ہو رہی تھی، ان کے دل پگھل رہے تھے۔ نہ جانے کتنی دیر ہوگئی۔‘‘
’’اکرام پانی لائو… کنویں کا پانی لائو۔‘‘ میں نے کہا اور اکرام میری ہدایت پر کنویں سے پانی لے آیا۔ ’’عابد علی پانی پی لو۔ میں تم سے کہہ رہا ہوں بابو عابد علی۔ یہ تمہارا اسلامی نام ہے۔ پانی پی لو…‘‘ میں نے کہا اور مول چند نے پانی لے لیا۔ ’’بسم اللہ کہو۔‘‘ میں نے کہا اور اس نے احترام سے گلاس میرے ہاتھ سے لے لیا۔ بسم اللہ کہہ کر اس نے گلاس ہونٹوں سے لگا لیا اور آدھا پانی پی کر وہ رُک گیا۔ اس نے وہ پانی عارفہ کی طرف بڑھایا تو میں نے اسے روک دیا… ’’نہیں… تم دونوں ایک دوسرے کے لئے نامحرم ہو، غیر ہو اور تمہارا کوئی رشتہ نہیں ہے لیکن گھبرائو نہیں۔ میں ناقص العقل ہوں، جو کچھ میری سمجھ میں آ رہا ہے وہ کر رہا ہوں۔ میں اسی وقت اسلامی طرز پر تمہارا نکاح کئے دیتا ہوں۔ اس طرح تم دونوں مسلمان میاں بیوی بن جائو گے۔ کہو تم تیار ہو؟‘‘
’’ہاں شاہ صاحب۔‘‘ دونوں نے بیک وقت کہا۔ اکرام کو گواہ بنا کر میں نے آیات اللہ کے سائے میں دونوں کا نکاح پڑھایا اور وہ یکجا ہوگئے۔ میں نے کھجوریں تقسیم کر دیں، اور پھر میں نے کہا۔
’’مجھے بے حد مسرت ہے عابد علی۔ اللہ نے اس طرح تم دونوں کو اسلام کی سعادت عطا فرمائی۔ اس طرح بہت سی مشکلات کے دروازے بند ہوگئے۔‘‘
’’یہی منو کا منا لے کرآیا تھا شاہ صاحب!‘‘
’’آرزو کہو آرزو… خیر اب اس کے بعد جو دُشواریاں پیدا ہوں گی، ان کا کیا کرو گے؟‘‘
’’دین کی روشنی میں سب کا مقابلہ کروں گا۔ اس کے ساتھ آپ کی رہنمائی درکار ہے۔‘‘
’’دونوں اپنی آرام گاہ میں، میرا مطلب ہے اپنے گھر جائو۔ ایسی جگہ منتخب کر لو جہاں عبادت بھی کر سکو یا آج رات میرے ساتھ نماز پڑھو اور ضروری باتیں سمجھ لو۔ پھر اس وقت تک جب تک مناسب موقع نہ آ جائے، اپنے مسلمان ہونے کا اظہار نہ کرو…‘‘
’’اللہ کے دین سے زیادہ اب مجھے کچھ عزیز نہیں ہے۔ اگر اس کے لئے جوالاپور بھی چھوڑنا پڑا تو چھوڑ دوں گا، کسی ایسی جگہ اپنی کٹیا بنا لوں گا جہاں مجھے کوئی نہ جانتا ہو۔‘‘ عابد علی بولا۔
’’اِن شاء اللہ اس کی ضرورت نہیں پیش آئے گی۔ سمجھداری سے حالات کا جائزہ لو، وقت خود عمل متعین کرے گا۔‘‘ پھر یہ رات ان لوگوں کو ضروری ارکان سمجھاتے اور یاد کراتے گزری۔ فجر سے پہلے میں نے انہیں روانہ کر دیا۔ جاتے ہوئے عابد علی نے کہا۔ ’’اس سے خطرہ رہے گا شاہ صاحب۔‘‘
’’درود پاک کا ورد یاد رکھنا۔ کچھ نہ بگڑے گا…!‘‘ دونوں عقیدت سے گردن ہلا کر چلے گئے۔ رات بھر کی تھکن تھی لیکن دل سرور میں ڈُوبا ہوا تھا۔ نماز فجر کے لئے تیاریاں کرتے رہے۔ پھر اس سے فراغت ہوگئی۔ ایک دن دو دن تقریباً سات دن گزر گئے۔ عارفہ اور عابد علی بھی پُرسکون تھے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ حالات بالکل پُرسکون ہیں۔ کاروبار جاری ہو چکے ہیں۔ گرج ناتھ کی طرف سے کوئی ردعمل نہیں ہوا۔ لیکن اس شام مغرب کی نماز میں پوری مسجد بھری ہوئی تھی۔ آج نمازی خصوصیت سے زیادہ تعداد میں آئے تھے۔ کنور ریاست بھی خاص طور سے مغرب کی نماز میں پابندی سے آتے تھے۔ نماز سے فراغت کے بعد کنور صاحب نے کہا۔ ’’حضور شاہ صاحب۔ کیا بات ہے آپ کے کانوں تک پہنچ گئی ہے۔‘‘
’’خیریت کنور صاحب، کون سی بات؟‘‘
’’شیطان پھر جاگ گیا ہے۔‘‘
’’سیوک۔‘‘
’’جی… ملعون سیوک۔‘‘
’’نہیں مجھے کچھ نہیں معلوم؟‘‘
’’دوپہر بارہ بجے جوالا چوک پر آ کھڑا ہوا اور اس نے یہاں کچھ اعلانات کئے ہیں۔‘‘
’’خوب، کیا؟‘‘
’’کہا ہے ہندوئو اور مسلمانو۔ جوالاپور اکھنڈ بھوانی بن کر رہے گا۔ اب بات ہندوئوں کی ہے نہ مسلمانوں کی۔‘‘ دونوں کو جوالاپور خالی کرنا پڑے گا۔ اب صرف یہاں کالی شکتی کے پجاری رہیں گے۔ جسے بھوانی کال کا پجاری بننا ہے، وہ مایا مکنڈ کے ساتھ رکھے ہوئے مٹکے سے گدھے کا پیشاب پیئے۔ اس مٹکے میں رکھے ہوئے پانی میں گدھوں کا پیشاب شامل ہے جو پینے والے کو کنتا بھوانی کا داس بنا دے گا۔ جو یہ پانی نہ پیئے گا اس پر مصیبت نازل ہوگی۔ اگر اسے مصیبت سے چھٹکارا پانا ہے تو وہ جوالاپور سے بھاگ جائے۔ ورنہ اپنا کیا بھگتے گا۔ کئی بار اس نے یہ اعلان کیا اور پھر ایک کالے گدھے پر بیٹھ کر واپس چلا گیا۔ لوگوں نے مایامکنڈل تک اس کا پیچھا کیا۔ وہ اس میں داخل ہوگیا۔
’’اوہ… خوب۔‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔
’’یہ سب آپ سے ہدایت حاصل کرنے آئے ہیں۔‘‘
’’اللہ تعالیٰ مدد کرے گا۔ صبر و سکون سے کام لیجئے۔ ہندوئوں کا کیا حال ہے۔‘‘
’’سخت سراسیمگی پھیل گئی ہے، بہت سے ہندو گھرانوں نے اور چند مسلمان گھرانوں نے رختِ سفر باندھ لیا ہے۔‘‘
’’باقی…؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’مسلمان آپ سے راہنمائی کے منتظر ہیں۔‘‘
’’انتظار کیجئے۔ پردئہ غیب سے امداد ہوگی۔ ہم سب کا ایمان ہے۔ مجھے حالات سے باخبر رکھئے۔‘‘
’’بہتر ہے۔ ویسے سب لوگ پریشان ہوگئے ہیں کہ جانے بدبخت کیا ارادہ رکھتا ہے۔‘‘ اس سے زیادہ نہ وہ کچھ کہہ سکے، نہ میں نے انہیں کوئی آس دلائی لیکن دُوسرے ہی دن سے گرج ناتھ سیوک کی طرف سے عمل شروع ہوگیا۔ فجر کی نماز میں تو کوئی خاص بات پتہ نہیں چل سکی لیکن ظہر کی نماز میں بتایا گیا کہ رات بارہ بجے کے بعد سے بھورتی مندر کی طرف سے مٹھ بلند ہو رہے ہیں۔ جادو کی ہانڈیاں فضائوں میں پرواز کر رہی ہیں اور ہر جگہ گر رہی ہیں۔ جوالا چوک پر چار ہانڈیاں پھوٹی ہیں۔ اس کے علاوہ کھیتوں اور کھلیانوں میں بھی مٹھ گرے ہیں، ابھی تک کوئی ردعمل تو ظاہر نہیں ہوا۔ شام کو کنور صاحب نے بتایا کہ ان کے گھر پر ایک مٹھ گرا ہے۔
پھر دو دن کے اندر انتہائی ہیبت پھیل گئی۔ کوئی سو گھرانوں میں ایک انوکھی وبا کے بارے میں اطلاع ملی۔ ان گھرانوں کے دو دو، تین تین افراد اچانک شدید بخار میں مبتلا ہوگئے اور ان کے جسموں سے پیلا پسینہ پانی کی طرح بہہ رہا ہے۔ ان کے جسم دیکھتے ہی دیکھتے لاغر ہوتے جا رہے ہیں۔ اسپتال اور پرائیویٹ کلینک مریضوں سے بھرتے جا رہے ہیں اور ڈاکٹر صاحبان سر کھجا رہے ہیں کہ مرض کیا ہے اور علاج کیا ہے؟ مزید دو دن کےبعد خبر ملی کہ مرض کی وجہ دریافت ہوگئی ہے۔ یہ بخار چھوٹی چھوٹی مکڑیوں کے کاٹنے سے پھیل رہا ہے۔ یہ ننھی مکڑیاں اب ہر گھر میں نظر آ رہی ہیں۔ وہ اس طرح کاٹتی ہیں کہ کوئی تکلیف نہیں ہوتی مگر کچھ ہی دیر کے بعد بخار چڑھ آتا ہے…‘‘
’’پیلی مکڑیاں…!‘‘ اس خبر نے مجھے چونکا دیا۔ ’’بھوریاچرن…‘‘ میرے منہ سے نکلا…! لیکن لیکن…‘‘
بھوریا چرن اس مسئلے میں کیسے آ گیا۔ گرج ناتھ سیوک تو بالکل ہی الگ شخصیت کا مالک تھا۔ وہ تو خود کالے جادو کا ماہر تھا۔ اس کا بھوریا چرن سے کیا تعلق۔ اس دوران مجھے ان لوگوں کے بارے میں بہت کچھ معلوم ہو چکا تھا۔ ان کے الگ الگ گروہ ہوتے ہیں۔ ہندو دھرم لاتعداد دیویوں اور دیوتائوں کا مرکب ہے۔ ان میں ان کے عقیدے کے مطابق اچھے کرموں والے بھی ہوتے ہیں اور برے لوگ بھی۔ سارا نظام ناقابل یقین عمل اور جادو ٹونوں پر مشتمل ہے۔ کوئی کالی دیوی کا پجاری ہے تو کوئی بھوانی ماتا کا۔ کوئی گودرو دھن کو گردھاری مانتا ہے تو کوئی لونا چماری کا داس۔ سب کے پنتھ الگ الگ ہوتے ہیں۔ انہی میں سے کچھ اچھے عمل کو اُلٹ کر اسے کالے جادو میں بدل لیتے ہیں اور اس کے بعد ان کے دیوی دیوتا وہ نہیں ہوتے بلکہ سب کا مسلک شیطان سے جا ملتا ہے۔ کوئی کالکا کا سیوک ہوتا ہے تو کوئی لونا پنتھی کا۔ ہو سکتا ہے گرج ناتھ کا مسلک یا نشان مکڑی ہو یا ہو سکتا ہے وہ اسی ملعون سے رابطہ رکھتا ہو۔
دل میں ایک نیا تصور پیدا ہوا تھا۔ اگر گرج ناتھ کا کسی طرح بھوریا چرن سے تعلق ہے تو اس پر ہاتھ ڈالنا ضروری ہے تاکہ بھوریا چرن کا پتہ مل سکے اور بھوریا چرن کا پتہ ملے تو بےچاری ثریا کے بارے میں کچھ معلوم ہو۔ اکرام میرے ساتھ تھا لیکن مایوسی کے عالم میں۔ وہ اپنی بہن کی تلاش کے وسائل نہیں رکھتا تھا لیکن اس کا دل اس آرزو سے کب خالی ہو گا۔
عشاء کی نماز میں مسجد کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ لوگ باغ میں بھی موجود تھے۔ خلاف معمول کنور ریاست علی بھی آئے تھے۔ مجھے احساس ہو گیا تھا کہ اتنی تعداد کیسے آئی ہے۔ نماز سے فراغت کے بعد کنور ریاست علی نے کہا۔
’’حضور شاہ صاحب۔ جوالاپور کے مسلمان سخت پریشان ہیں، رفتہ رفتہ پیلی مکڑیوں کی پھیلائی ہوئی بیماری ہر گھر تک پہنچ رہی ہے۔ مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے سب ہی اس کا شکار ہو رہے ہیں۔ ان کے جسموں کا گوشت خشک ہو رہا ہے۔ ہر گھر سے آہ و بکا کی آوازیں ابھر رہی ہیں۔ اس طرح گرج ناتھ سیوک کو کامیابی حاصل ہو رہی ہے۔ مسلمان مر جانا گوارہ کرتے ہیں لیکن گندا پانی پینے کو تیار نہیں ہوں گے لیکن بچوں کی بیماری نے سب کو نڈھال کر دیا ہے جب کہ بعض ہندوئوں نے نہ چاہنے کے باوجود بھوانی مکنڈل کے مٹکے سے غلیظ پانی پی لیا اور اس کا ردعمل حیرت ناک ہوا۔
’’کیا…؟‘‘ میں نے بے اختیار پوچھا۔
’’وہ صحت یاب ہو گئے۔‘‘
’’ایسے لوگ کتنے ہوں گے؟‘‘
’’کوئی دس پندرہ گھرانے۔ حضور شاہ صاحب یہ سب پریشان ہیں اور بحالت مجبوری جوالاپور چھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں مگر اس طرح اس ناپاک کا مقصد پورا ہو جائے گا۔‘‘
’’ایسا ہرگز نہیں ہو گا۔‘‘ میں نے کرب سے کہا۔
’’شاہ صاحب۔ میری بیوی اور منجھلا لڑکا بھی اس بخار میں مبتلا ہو چکے ہیں۔‘‘ کنور صاحب نے کہا۔
’’کنور صاحب۔ رات بھر انتظار کر لیجئے۔ کل صبح کی نماز میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو یہاں آنے کی دعوت دیجئے۔ اِن شاء اللہ کوئی حل نکل آئے گا۔’’
’’حضور شاہ صاحب۔ ایک اور اطلاع بھی ملی ہے۔‘‘ ایک دوسرے آدمی نے کہا۔
’’کیا…؟‘‘
’’جادو کی ہانڈیاں جہاں جہاں گر کر پھوٹی ہیں وہاں کھیتوں اور کھلیانوں میں پیلی مکڑیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ وہ اناج کھا رہی ہیں اور انہوں نے ٹڈی دل کی طرح اناج کی صفائی شروع کر دی ہے۔ مزید سبزیوں میں بدبو آنے لگی ہے اور وہ سڑنا شروع ہو گئی ہیں۔‘‘
’’کل صبح تک انتظار کریں آپ لوگ۔‘‘ میں نے کہا۔
نمازی سست قدموں سے
واپس چل پڑے۔ کنور ریاست علی رکے رہے تھے۔ جب وہ تنہا رہ گئے تو بری طرح رو پڑے۔
’’ارے ارے کنور صاحب۔‘‘
’’شاہ صاحب۔ بڑا سینہ تان کر ساری آفتوں کا مقابلہ کرتا رہا ہوں مگر اب ہمت پست ہونے لگی ہے۔ جو بچہ بیمار ہوا ہے وہ میرا سب سے چہیتا بچہ ہے۔ بچپن میں بیمار پڑ گیا تھا تو پورے ہندوستان کے مزارات پر لئے لئے پھرا تھا، بڑی منتیں مرادیں مانی تھیں، پھر کہیں جا کر خدا نے اسے صحت عطا فرمائی۔ ایک ایک لمحہ پھونک پھونک کر قدم رکھتا رہا ہوں، بڑا کمزور بچہ ہے شاہ صاحب، میری ساری ہمت پست ہوئی جا رہی ہے، خدا کے لئے مجھے سہارا دیجئے۔ میں… میں شاید اس دکھ کو برداشت نہ کر سکوں۔‘‘
’’حوصلہ رکھئے کنور صاحب، یقیناً اللہ تعالیٰ ہماری مدد کرے گا، کچھ نہ کچھ ہو جائے گا۔ ہاں ذرا ایک بات تو اور بتایئے۔ کیا تازہ تازہ کسی موت کی اطلاع ملی ہے آپ کو۔ میرا مطلب ہے اس بخار سے…‘‘
’’نہیں، ابھی تک کوئی نئی اطلاع نہیں ملی۔‘‘
’’اللہ تعالیٰ رحم فرمائے گا، آپ صبح فجر کی نماز میں ضرور تشریف لایئے گا۔‘‘
اکرام بھی ان باتوں کو سن رہا تھا اور اتنا ہی متفکر نظر آتا تھا جتنا کہ میں… کنور ریاست علی کے چلے جانے کے بعد تشویش زدہ لہجے میں بولا۔
’’اس طرح سب کچھ مٹی میں مل رہا ہے، بات ہندوئوں اور مسلمانوں کی نہیں، انسانوں کی ہے مسعود بھائی۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ ہندوئوں نے بھی بڑی عقیدت سے ہمارا ساتھ دیا ہے۔ جو لوگ مشکل کا شکار ہو کر بھٹک گئے ہیں وہ اپنی جگہ۔ لیکن آپ دیکھ لیجئے کہ رفتہ رفتہ بہت سے لوگ اس ناپاک غلاظت کو پینے پر آمادہ ہو جائیں گے جو انہیں صحت دے رہی ہے۔‘‘
’’ہاں اکرام مجھے اندازہ ہے۔‘‘ میں نے مختصراً کہا اور ایسا انداز اختیار کیا کہ اکرام اس کے بعد کچھ پوچھنے کی جرات نہ کر سکا لیکن میرے دل میں بھی ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہو رہی تھی اور اب ضروری تھا کہ میں رہنمائی طلب کروں۔ اگر کچھ نہ بن پائے تو کم از کم صبح ہونے سے قبل جوالاپور چھوڑ دوں تاکہ ان لوگوں سے شرمندگی نہ ہو جنہیں میں نے صبح کی آس دلائی تھی۔
وضو کر کے مراقبہ کرنے بیٹھ گیا۔ درود پاک کا ورد کرتا رہا اور یہی میرا سب سے بڑا سہارا تھا۔ مجھے ہمیشہ یہیں سے رہنمائی ملی تھی۔ دعا بھی کر رہا تھا کہ بار الہٰا جو منصب تو نے مجھے عنایت کیا ہے اس کی لاج رکھ، چوروں کی طرح منہ چھپا کر بھاگ جائوں گا تو نہ جانے کتنے ایمان متزلزل ہو جائیں گے۔ میں تو تیرے ہی نام کے ساتھ ہر شخص سے کوئی وعدہ کرتا ہوں۔ تیری عنایتوں کی وجہ سے جو تو نے اب تک مجھ گناہ گار پر کی ہیں، انسانوں کی بھلائی کے لئے تجھ سے دعا مانگ رہا ہوں۔ میری مدد کرنا۔ یہ سلسلہ آدھی رات سے زیادہ تک جاری رہا۔ میں آنکھیں بند کئے اپنے آپ میں گم ہو گیا۔ اب کوئی احساس نہیں تھا۔ ہونٹ ہل رہے تھے، ذہن سو چکا تھا، آنکھیں نہ جانے کہاں کہاں بھٹک رہی تھیں… پھر میں نے ایک منظر دیکھا… وہ کنواں جو اس وقت بھی وہاں موجود تھا، جب میں یہاں آیا تھا، میری نگاہوں کے سامنے آ گیا۔ میں نے دیکھا کہ میرے اطراف میں پیلی پیلی مکڑیاں بج بجا رہی ہیں۔ زمین ان سے بھری ہوئی ہے اور وہ اِدھر سے اُدھر دوڑتی پھر رہی ہیں۔ اکرام کنویں میں ڈول ڈال کر پانی نکال رہا ہے… پھر اچانک ہی اکرام نے یہ دیکھا کہ مکڑیاں کنویں کی منڈیر پر چڑھنے لگی ہیں تو اس نے پانی کا بھرا ہوا ڈول مکڑیوں پر بہا دیا… اور اس کا ردعمل بڑا ہی عجیب ہوا۔ وہ مکڑیاں پھول پھول کر کپا ہو گئیں اور اس کے بعد پانی ہی کی طرح زمین پر بہہ گئیں، جہاں جہاں تک پانی کے قطرے پہنچے وہاں مکڑیوں کا صفایا ہو گیا اور دوسری مکڑیاں اس صاف جگہ کی طرف رخ کرنے کی ہمت نہ کر سکیں۔ اکرام نے تین چار ڈول پانی بہایا اور پیلی مکڑیوں کا کھیت ختم ہو گیا۔ باقی جو بچیں وہ بری طرح بھاگ نکلیں اور اسی وقت میرے ذہن کو شدید جھٹکا لگا۔ میں چونک پڑا اور میں نے اپنے اطراف میں بکھرے ہوئے گہرے سناٹے کو دیکھا۔
اکرام کی یہ خوبی تھی کہ اگر میں جاگتا تھا تو وہ بھی جاگتا تھا۔ شاذ ہی ایسا ہوتا کہ وہ بے خیالی میں سو گیا ہو ورنہ وہ میرا پورا پورا ساتھ دیتا تھا، اس وقت بھی وہ مجھ سے کافی فاصلے پر دوزانو بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے سرخوشی کے عالم میں اسے آواز دی اور وہ اس طرح ہڑبڑا کر اٹھ گیا جیسے پائوں میں سانپ نے کاٹ لیا ہو۔
میری خوشی بھری آواز کو اس نے محسوس کیا اور میرے قریب آ کر بولا… ’’کیا ہوا، کیا ہو گیا مسعود بھائی…؟‘‘
’’ہماری رہنمائی ہو گئی اکرام۔ ہماری رہنمائی ہو گئی، یہاں جو بھی جگہ ہے وہ بھر دو اس پانی سے۔‘‘ اکرام حیران نگاہوں سے میرا منہ تک رہا تھا۔ میں نے اس کا شانہ جھنجوڑتے ہوئے کہا۔ ’’اس کنویں کا پانی جوالاپور کے چپے چپے میں پھیلا دو، ہر گھر میں پہنچا دو۔ ہندو ہو یا مسلمان، جانور ہو یا کھیت کھلیان، ہر جگہ اس پانی کو پہنچا دو۔ اِن شاء اللہ تعالیٰ گرج ناتھ سیوک کو ایک بار پھر اپنا منہ کالا کرنا پڑے گا۔ آہ اکرام میرا جی چاہتا ہے کہ میں فوراً ہی یہ عمل شروع کر دوں۔ چلو ایسا تو کرو جتنے برتن ہیں وہ اس پانی سے بھر لو۔ صبح کو اس کنویں پر لاتعداد انسانوں کی یلغار ہوگی۔
اکرام نے عقیدت مندانہ نگاہوں سے مجھے دیکھا۔ اس کے انداز سے یہ محسوس ہوتا تھا کہ جو کچھ میں نے کہا ہے، اسے اس کا پورا پورا یقین ہے اور اس کے بعد ہم مسجد میں وہ تمام جگہیں جہاں پانی ذخیرہ کیا جا سکتا تھا، بھرتے رہے یہاں تک کہ روشنی کی کرنوں نے فجر کے وقت کا اعلان کیا اور ابھی اذان بھی نہیں ہوئی تھی کہ لوگوں نے آنا شروع کر دیا۔ میں نے تحمل سے کام لیا۔ میری ہدایت کے مطابق اس وقت رات سے بھی زیادہ افراد موجود تھے اور بڑے بے چین نظر آ رہے تھے۔ میں پرسکون تھا اور یہ سکون اس بات کی ضمانت تھا کہ جو چیز مجھے عطا کی گئی ہے اس پر مکمل بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔
فجر کی نماز پڑھائی، لوگ منتظر نگاہوں سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ تب میں نے کہا۔ ’’خوشخبری دیتا ہوں آپ لوگوں کو۔ اللہ تعالیٰ نے آپ پر اپنا کرم فرمایا ہے۔ گندی قوتیں کلام الٰہی کے ایک بول کے سامنے اس طرح فنا ہو جاتی ہیں کہ ان کا نشان بھی نہیں رہتا۔ اس بدبخت نے جو گندگی یہاں پھیلائی ہے اس کا حل دریافت ہو گیا ہے، کنور ریاست علی صاحب آپ کو بڑی تنظیم کے ساتھ کام کرنا ہو گا، مجھے اس وقت بے شمار کارکنوں کی ضرورت ہے۔‘‘
کنور صاحب پُرجوش انداز یں آگے بڑھے اور مجھ سے بولے۔ ’’اس وقت جتنے افراد یہاں موجود ہیں شاہ صاحب، وہ سب میرے کارکن ہیں، آپ حکم فرمائیں۔‘‘
’’صحن مسجد کے اس کنویں کا پانی اس مرض کے لئے تریاق ہے جو غلاظت سے پھیلایا گیا ہے، جو بھی اسے استعمال کرے گا وہ شفا پائے گا اور کسی بھی قیمت پر اسے دوبارہ وہ مرض نہیں ہو گا۔ میرا وعدہ ہے… اس پانی کو کھیتوں، کھلیانوں میں چھڑک دیجئے۔ ان تمام سبزیوں پر ڈال دیجئے جو سڑنے لگی ہیں، بچوں کو، عورتوں کو، مردوں کو سب کو پلایئے اور جو بے دین اسے قبول کرے اسے بھی دے دیجئے۔ غرض یہ کہ اس میں مذہب کی تفریق نہیں ہے بلکہ انسانیت کا معاملہ ہے اور ہر انسان کی زندگی کے لئے یہ پانی تریاق ہے۔ اب آپ اسے نکلوانے کا بندوبست کیجئے۔ برتنوں وغیرہ کی ضرورت بھی ہو گی اسے لے جانے کے لئے۔ بسم اللہ کر کے اپنے کام کا آغاز کر دیجئے گا۔ یہ چند برتن جو یہاں بھرے ہوئے موجود ہیں یا یہ پانی کی چھوٹی سی ٹنکی جو ہم نے بھر دی ہے، پہلے خالی کر لی جائے، بسم اللہ کیجئے۔‘‘
اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ لوگوں نے بھرپور عقیدت کے ساتھ سارے انتظامات کئے۔
بڑی بے ترتیبی پھیل جاتی اگر کنور ریاست علی اس سلسلے میں باقاعدہ منظم پیمانے پر کام نہ کراتے۔ لوگوں کو مسجد سے کافی دور پہنچا دیا گیا۔ ہر شخص کو ہدایت کی گئی کہ وہ برتن لے کر آئے، پانی اس تک پہنچ جائے گا۔ لائنیں لگ گئیں، ڈول سے پانی نکالنے والوں کے ہاتھ شل ہو گئے، ڈیوٹیاں بدلتی رہیں اور صبح سے لے کر دوپہر تک اتنا پانی کنویں سے نکالا گیا کہ یقین نہ آئے… لیکن یہ بھی ایک بابرکت بات تھی کہ کنویں کا پانی کسی طور ختم ہونے کو نہیں آ رہا تھا۔ مسلمان تو مسلمان، ہندو بھی برتن لے کر دوڑ پڑے تھے اور اس وقت مول چند کا باغ انسانوں کے لئے ایک سمندر جیسی شکل اختیار کر چکا تھا۔ ہر شخص برتن لئے وہاں موجود تھا اور کنور ریاست علی درجنوں لائنیں لگوا کر لوگوں کو برق رفتاری سے پانی فراہم کر رہے تھے۔ حالانکہ ابھی تک کسی کی شفایابی کی اطلاع نہیں ملی تھی… لیکن اس عقیدت کے ساتھ تو ہر وہ کام ہو سکتا ہے جس کا تصور بھی ذہن میں نہ آ سکے۔ مجھے اب اس کے ردعمل کا انتظار تھا۔ یہ ایمان تو تھا میرا کہ جو کچھ مجھے عطا کیا گیا ہے اس میں کہیں بھی کوئی کھوٹ نہیں اور یہ صرف ایک تصور نہیں ہو گا کیونکہ بارہا اس کا تجربہ کر چکا تھا… غرض یہ کہ پورا دن اسی ہنگامے میں گزر گیا۔ جوالاپور کا کون شخص تھا جو یہاں نہ پہنچا ہو، رات گئے تک یہ سلسلہ جاری رہا اور آدھی رات کے قریب غالباً تمام جوالاپور میں پانی پہنچ گیا، پھر بھی چند افراد نے اجازت چاہی کہ اگر وہ رات میں بھی یہ پانی نکالیں تو کوئی ہرج تو نہیں ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ جب تک جوالاپور میں رہنے والا ایک ایک شخص شفایاب نہ ہو جائے، پانی حاصل کرتے رہیں۔ اِن شاء اللہ تعالیٰ کنویں کے پانی میں کمی نہیں ہوگی۔
اور یہی ہوا… دوسرے دن صبح ہی کی نماز میں خوشیوں بھرے نعروں سے پتہ چلا کہ جس بچے، عورت، مرد، بوڑھے کو پانی پلایا گیا، اس کا حلیہ ہی تبدیل ہو گیا اور اب چاروں طرف عقیدت مندی کا یہ عالم ہے کہ کیا ہندو، کیا مسلمان، سارے کے سارے یہ پانی حاصل کرنے کے لئے چڑھ دوڑے ہیں۔ رفتہ رفتہ پھر ہجوم بڑھ گیا اور یہ سلسلہ تقریباً چار دن تک جاری رہا۔ ان چار دنوں میں… میں اور اکرام بھی مصروف رہے تھے اور کوئی دوسری بات سوچنے کا موقع ہی نہیں ملا تھا۔
پانچواں دن تھا، جوالاپور میں ایک بار پھر سکون کی لہر دوڑ گئی تھی۔ عابد علی یعنی سابق مول چند اکثر میرے پاس آتا رہتا تھا اور مجھے تفصیلات بتاتا رہتا تھا۔ اس نے بتایا تھا کہ اس نے اپنے گھر سے سارے دیوی، دیوتائوں کے بت ہٹا دیئے ہیں، سارے ملازم نکال دیئے ہیں لیکن ابھی اس سلسلے میں کوئی چرچا نہیں ہوا کیونکہ لوگ اپنی ہی مصیبت کا شکار تھے، انہیں بظاہر کوئی مشکل نہیں ہے۔ عابد علی نے کہا۔
’’شاہ صاحب میں چاہتا ہوں کہ باقاعدہ اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دوں اور اس کے بعد اس کا ردعمل بھی دیکھ لوں، یہ مناسب وقت ہے ورنہ ہو سکتا ہے جب لوگوں کی مصیبتیں ٹل جائیں تو ان کے عقیدے میں کمی آ جائے۔‘‘
’’باقاعدہ اعلان کرنا چاہو یا نہ کرنا چاہو عابد علی لیکن اپنے حلقے میں یہ کہنا شروع کر دو کہ تم مسلمان ہو گئے ہو، ردعمل تو خود ہی معلوم ہو جائے گا۔
اس نے میری ہدایت پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا۔ پانچویں رات کو… یعنی اسی دن کی رات جس دن عابد علی نے مجھ سے ملاقات کی تھی، اکرام نے کہا۔
’’مسعود بھائی ایک خیال میرے ذہن میں بار بار آرہا ہے۔‘‘
’’کیا…؟‘‘
’’اس کم بخت ملعون کی جرات چند لمحوں کے لئے ختم ہو گئی ہے۔ شکست تو اسے جوالا چوک پر بھی ہوئی تھی، جب اس کا جادو کا بت وہاں ایستادہ نہ ہونے دیا گیا تھا… لیکن اس کے بعد اس نے عمل کیا۔ یقیناً سفلی عمل کے ذریعے اس نے وہ گندی وبا پھیلائی ہو گی… اور اب جب کہ اس کا حل دریافت ہو گیا اور ایک بار پھر امن و سکون پھیل گیا تو آپ کے خیال میں وہ کیا کسی نئی کوشش میں مصروف نہیں ہو گا؟‘‘
’’میں نے اس خیال کو نظرانداز نہیں کیا ہے اکرام اور اس کے بارے میں سوچتا رہا ہوں۔‘‘
’’یوں تو جوالاپور والے بے چارے بے شمار حادثات کا شکار ہو چکے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں یہ سلسلہ اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتا جب تک کہ گرج ناتھ سیوک کو کوئی ایسا سبق نہ مل جائے کہ وہ جوالاپور چھوڑ بھاگے۔‘‘
’’ہوں، تم نے ٹھیک کہا اکرام۔ اس کے لئے کچھ سوچنا ہی پڑے گا بلکہ میرا خیال ہے کل کا دن میں اس کے لئے مخصوص کئے دیتا ہوں۔‘‘
’’کس کے لئے، کیا کریں گے آپ…؟‘‘
’’ذرا اس بھوانی مندر کی سیر کر لی جائے۔ ذرا دیکھیں تو سہی اس میں کیا کیا ہے…؟‘‘
’’آپ کو اس بات کا علم ہے کہ اس میں کوئی دروازہ نہیں بنایا گیا…‘‘
’’اگر اللہ کا حکم ہوا اور کوئی بہتری پیدا کرنی ہوئی اسے تو دروازے ہی دروازے بن جائیں گے اس میں اکرام…‘‘
’’ہاں یہ سچ ہے اور سمجھتا ہوں نہایت ضروری بھی کہ اس کے لئے کچھ کیجئے گا۔ کب جائیں گے آپ وہاں…؟‘‘
’’ایسی جگہوں پر جانے کے لئے دوپہر کا وقت مناسب رہتا ہے۔ میرا خیال ہے ٹھیک بارہ بجے مجھے وہاں پہنچ جانا چاہئے۔‘‘
’’میں بھی آپ کے ساتھ چلوں گا۔‘‘ میں نے مسکرا کر گردن ہلائی اور کہا… ’’نہیں اکرام۔ ہر جگہ جانے کے لئے ضد نہیں کیا کرتے۔ میں تنہا ہی جائوں گا۔‘‘
اکرام فوراً ہی خاموش ہو گیا۔ یہ اس کی عادت تھی کہ ضد کبھی نہیں کرتا تھا۔ اس رات کنور ریاست علی خان صاحب سے بھی اس موضوع پر بات ہوئی۔ ریاست علی کا تو چہرہ مجھے دیکھ کر فرط مسرت سے کھل اٹھتا تھا، بڑی عقیدت سے کہنے لگے۔
’’آپ بھی عجیب ہیں شاہ صاحب، اس وقت یوں سمجھ لیجئے کہ جوالا پور کا ایک ایک شخص آپ کا پرستار ہے، آپ پر عقیدت سے جان نچھاور کرنے کے لئے تیار۔ ہر شخص اپنا سب کچھ دینے کے لئے آمادہ ہے بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ ہندوئوں پر اس کا خاص طور سے اثر ہوا ہے۔ مول چند نے اپنا باغ تو آپ کو دے ہی دیا تھا جیسا کہ اس نے کہا… لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر آپ جوالا پور کے ہندوئوں کو حکم دیں کہ اس باغ کے گرد ایک عمارت تعمیر کر دی جائے تو شاید وہ مول چند سے دوبارہ یہ باغ خریدنے پر آمادہ ہو جائیں اور اپنی جیب سے اس کی رقم ادا کریں۔‘‘
’’کنور صاحب اب وہ وقت آ گیا ہے کہ میں آپ کو ایک خوشخبری سنا دوں۔ ابھی تک تو میں نے اس بات کو صیغہ راز میں رکھا ہے… لیکن مستقبل میں آپ کو عابد علی کی مدد کرنا ہو گی، ہو سکتا ہے اپنے مسائل سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بعد ان لامذہبوں کو پھر سے اپنا مذہب یاد آ جائے۔ بھولے تو وہ اب بھی نہیں ہیں اپنے مذہب کو لیکن خیر مسئلہ عابد علی کا ہے۔‘‘
’’کون عابد علی؟‘‘ (جاری ہے)