’’جو کبھی مول چند تھا…‘‘
’’کک کیا۔‘‘ کنور ریاست علی خان اچھل پڑے۔
’’ہاں خدا کے فضل سے وہ ایک ہفتے قبل مسلمان ہو چکا ہے، نہ صرف وہ بلکہ اس کی بیوی سوریہ کرن جو اب عارفہ کے نام سے جانی جاتی ہے۔‘‘ میں نے کنور ریاست علی خان کو ساری تفصیلات بتائیں اور وہ آنکھیں بند کر کے جھومنے لگے۔
’’میں تو اسے اپنی اور جوالا پور کی خوش بختی سمجھتا ہوں کہ اس وقت آپ اس بدبخت جادوگر کے مدمقابل ہیں جسے واقعی اگر موقع مل جاتا تو اس قسم کی وبائوں کے ذریعے وہ تو خدانخواستہ مسلمانوں تک کو اپنا دین چھوڑنے پر مجبور کر دیتا یا پھر انہیں جوالا پور سے بے دخل کر دیتا۔ بہرطور یہ بڑی خوشخبری ہے، میں اگر اجازت ہو تو عابد علی سے مل لوں…؟‘‘
’’ابھی نہیں، کچھ وقت کے لئے رک جایئے۔ بہرحال مستقبل میں آپ کو اس کی مدد کرنی ہے۔‘‘
’’دل و جان سے حاضر ہوں، نہ جانے کتنے عرصے سے میری اور اس کی مخاصمت چل رہی تھی۔ میں نے کبھی اس کو اپنا ہم پلہ قبول ہی نہیں کیا اور وہ اس بات پر بہت تلملاتا تھا… لیکن اب… اب تو میرا اور اس کا دین کا رشتہ ہو گیا ہے۔ اتنا ہی محترم ہے میرے لئے جتنا میرا اپنا کوئی سگا بھائی۔ بہرحال شاہ صاحب اللہ نے آپ کو جوالا پور کے لئے نہ جانے کیا بنا کر بھیجا ہے، کبھی کبھی تو اس بات سے خوفزدہ ہو جاتا ہوں کہ کہیں آپ یہاں سے جانے کا فیصلہ نہ کر لیں۔‘‘
’’میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ جانا تو مجھے ہے، جب اور جہاں کے لئے حکم ہو جائے، بھلا اس سلسلے میں کیا کیا جا سکتا ہے، یہ تو وہاں کی باتیں ہیں جہاں سے وہ ساری چیزیں عنایت ہوتی ہیں جو میرے تصور سے بھی باہر ہیں لیکن جو مجھے عزت بخشیں اور میرے ذریعے دوسروں کو فائدہ پہنچائیں۔ تاہم یہ کنور ریاست علی خان سے کہنے کی بات نہیں تھی، البتہ میں نے ان پر اپنا مقصد ظاہر کر دیا۔
’’کنور صاحب، گرج ناتھ سیوک بدستور موجود ہے اور اس کا خطرہ ابھی تک دور نہیں ہوا ہے۔‘‘
’’اس میں کوئی شک نہیں، آج ہی پنڈت دوارکا ناتھ جو بڑے اچھے آدمی ہیں، اس بارے میں گفتگو کر رہے تھے، کہنے لگے سفلی علوم کا ماہر اپنے بنائے ہوئے مندر میں خاموش نہیں بیٹھا ہو گا جس طرح وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر پیلی مکڑیوں کا بخار لایا تھا، اسی طرح اب وہ کسی نئی غلاظت کو مسلط کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہوگا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ شاہ صاحب سے کہیں کہ کوئی مستقل یا پائیدار حل نکالیں اس سفلی جادوگر کا، اسے فنا کر دیں کہ جوالا پور کے لوگوں کو اس سے نجات مل جائے۔‘‘
’’بہرحال ایسا کوئی دعویٰ تو میں بالکل نہیں کر سکتا کنور صاحب لیکن فیصلہ کر رہا ہوں کہ کل دوپہر بارہ بجے میں ذرا آپ کے باغ میں اس مایا مکنڈل کو بھی دیکھوں۔‘‘ کنور ریاست علی کا چہرہ ایک دم سے سرخ ہو گیا، چمکتی ہوئی آنکھوں سے مجھے دیکھ کر کہنے لگے… ’’آپ، آپ خود وہاں جائیں گے۔‘‘
’’ظاہر ہے اس شیطان کے گھر کو ذرا دیکھنا تو پڑے گا نا۔‘‘
’’تو میں سواری بھجوا دوں گا، میرے لائق اگر کوئی خدمت ہو تو مجھے ضرور ہدایت فرمایئے۔‘‘
’’نہیں کنور صاحب، البتہ مجھے ایک کدال درکار ہو گی اور آپ وہ کدال مجھے فراہم کیجئے گا۔‘‘
’’میں خود آپ کے ساتھ چلوں گا، مجھے ہدایت دیجئے۔ اللہ کے کرم سے میں ڈرتا نہیں ہوں کسی سے، طویل عرصے پہلے کی بات ہے کہ ایک بزرگ نے مجھے ایک تعویذ دیا تھا اور کہا تھا کہ ہر آفت سے محفوظ رہوں گا، درحقیقت وہ بزرگ میری والدہ کو اپنی بیٹی کی مانند چاہتے تھے اور انہی کی درخواست پر انہوں نے یہ تعویذ مجھے لکھ کر دیا تھا۔ خدا کے فضل و کرم سے اس وقت سے اب تک ہر آفت سے محفوظ رہا ہوں اور مجھے پورا پورا تحفظ حاصل ہے کلام الٰہی کا، آپ اطمینان رکھئے، مجھے کوئی گزند نہیں پہنچے گی۔‘‘
’’پھر بھی کنور صاحب میرے نقطہ نظر سے آپ کا جانا مناسب نہیں ہے۔‘‘
’’جیسا آپ پسند فرمائیں، کدال لے کر خود ہی باغ کے دروازے پر حاضر ہوں گا۔‘‘ میں نے اس بات سے انکار نہیں کیا۔ بہرطور اس کے بعد وقت گزرتا رہا۔ اکرام ذرا سنسنی کا شکار تھا اور کئی بار دبی زبان سے اس کا اظہار کر چکا تھا کہ کل کے سلسلے میں وہ میرے لئے تشویش زدہ رہے گا۔ میری واپسی کب تک ہو جائے گی وغیرہ۔ میں نے اسے تسلیاں دے کر کہا کہ اکرام میری جگہ مسجد تم سنبھالو گے۔ ظاہر ہے اس طلسم کدے میں جس کی ہلکی ہلکی معلومات مجھے عابد علی سے مل چکی ہیں، میں زیادہ وقت رکنا پسند نہیں کروں گا۔ جونہی میرا کام ختم ہوا یا اللہ کا جو حکم ہوا یا تو میں واپس آ جائوں گا ورنہ تم صبر کر لینا اور میرے لئے دعائے مغفرت کرنا۔‘‘ اکرام پریشان ہوا تو میں نے اسے صبر و رضا کی تلقین کی اور کہا کہ ہر چیز منجانب اللہ ہوتی ہے، جو ہو جائے اسے سچے مسلمان کی طرح اللہ کا حکم سمجھ کر قبول کر لینا چاہئے۔ غرض یہ کہ میں نے اسے ہر طرح سے تسلیاں دیں اور پھر اپنے آپ کو بھی مضبوط کر لیا اور مقررہ وقت پر مسجد سے باہر نکل آیا۔ اکرام کو دوسری ضروری ہدایات میں نے دے دی تھیں۔ کنور ریاست علی خان صاحب بھی میرے سلسلے میں ہر لمحہ مستعد رہتے تھے لیکن ذرا سی الجھن اس وقت پیش آئی جب ان کے باغ میں داخل ہوا، بہت سے افراد کے ساتھ وہاں موجود تھے۔ یہ بھی خدا کا شکر تھا کہ انہوں نے باقاعدہ اعلان نہ کرا دیا تھا ورنہ شاید مجھے باغ تک پہنچنا بھی نصیب نہ ہوتا، ویسے بھی بچ بچ کر ایسے راستوں سے آیا تھا جہاں لوگوں کی نگاہ مجھ پر نہ پڑے۔ عقیدت مند بہت سے تھے لیکن مجھے یہ عقیدت درکار نہیں تھی، جو صلہ مجھے مل سکتا تھا وہ تو مل ہی رہا تھا۔ کنور ریاست علی خان صاحب ایک نئی کدال لئے ہوئے خود کھڑے تھے، مجھے تمام لوگوں نے سلام کیا اور میں نے ان سے مصافحے کئے۔ کنور صاحب نے کدال مجھے پیش کر دی۔ میں نے ہنس کر کہا۔
’’آپ نے تو اس چیز کو ایک تقریب کی حیثیت دے دی کنور صاحب۔ بہتر یہ تھا کہ یہ بندوبست بھی میں خود ہی کر لیتا۔‘‘
’’میں کیا کروں آپ یقین فرمایئے صرف زاہد میاں سے ذکر کیا تھا کہ بات ان چند افراد تک پہنچ گئی۔ ایسی منت و سماجت کی انہوں نے کہ میں تو انکار نہیں کر سکا۔ بہرحال معذرت خواہ ہوں اگر آپ کو اس سے ذہنی تکلیف ہوئی۔‘‘
’’اب آپ لوگ آرام کیجئے اور مجھے قسمت آزمائی کرنے دیجئے۔‘‘
’’آپ بسم اللہ کیجئے۔ ہم یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔‘‘
بہرحال ان بے چاروں سے کیا کہتا۔ ظاہر ہے عقیدت ابل رہی تھی ان کے دلوں میں۔ کوئی سختی تو کر نہیں سکتا تھا۔ مجھے اپنے کام سے غرض تھی، خودستائی کا تو تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ میں نے وہ مندر گہری نگاہوں سے دیکھا جس کے بارے میں لاتعداد کہانیاں میرے علم میں آ چکی تھیں، عجیب و غریب قسم کی پتھریلی اینٹوں سے بنا ہوا تھٓا اور دیکھنے ہی میں بے حد مضبوط نظر آتا تھا۔ عقب میں کون ہے اور کس نگاہ سے مجھے دیکھ رہا ہے، اب یہ سارا تصور ذہن سے نکال دیا تھا۔ جانتا تھا کہ ایک بار پھر سفلی علم کے ایک ماہر کا سامنا ہے اور مجھے تمام تر توجہ اس کی جانب دینی ہے۔
مندر کی ایک دیوار کے قریب پہنچ کر رکا۔ بسم اللہ کہہ کر کدال اٹھائی اور پہلی کدال اس دیوار پر ماری۔ کدال بری طرح اچٹ گئی تھی جیسے کسی نے اسے پیچھے دھکیل دیا ہو یا جیسے وہ کسی ایسی ربڑ پر پڑی ہو جو اپنے اوپر پڑنے والی ہر شے کو اسی قوت سے واپس کر دینے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ میں نے کدال کو سنبھال لیا اور دانت بھینچ کر دوبارہ قسمت آزمائی کی۔ کدال کو جھٹکا تو ویسا ہی لگا تھا جیسے پہلے لگا تھا لیکن اس بار میں نے اپنے ہاتھوں میں ایسی لچک رکھی تھی کہ وہ اس قوت سے واپس نہ آئے اور پھر کچھ اور بھی ہوا تھا۔ کدال کا نوکیلا سرا کسی چیز میں اٹکا تھا اور پتھر کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ٹوٹ کر نیچے گر پڑا تھا۔ میری ہمت بڑھ گئی اور پھر میں نے مسلسل کدال اسی نشان پر مارنا شروع کر دی۔ اب وہ نشان گہرائی اختیار کرتا جا رہا تھا اور میری ہمت بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ میں نے مسلسل کوششوں سے ایک اچھا خاصا گڑھا پیدا کر لیا۔ پسینے میں تر ہو گیا تھا، اپنی محنت کا صلہ سامنے دیکھ کر کسی تھکن کا احساس نہیں ہو رہا تھا۔ میں مسلسل کدالیں برساتا رہا اور پہلا سوراخ اس دیوار میں نمودار ہو گیا بس یہیں سے دیوار کمزور ہو گئی اور میں اس کے نچلے حصوں پر طاقت آزمائی کرتا رہا۔ ہر کدال بسم اللہ پڑھ کر مار رہا تھا اور اس کا صلہ مجھے مل رہا تھا یہاں تک کہ اتنا بڑا سوراخ ہو گیا کہ میں اس سے اندر داخل ہو سکوں۔ میں نے سوراخ پر ہاتھ پھیر کر دیکھا اور پھر کدال ایک جانب پھینک دی اور اپنا سر سوراخ سے داخل کر دیا۔ ہاتھوں کے زور سے میں اپنے جسم کو اندر لے گیا اور چند لمحات کے بعد میرے پائوں دوسری جانب ٹک گئے تھے لیکن اس سے پہلے کہ میں سامنے دیکھتا، دفعتاً ہی شعلوں کا ایک طوفان آیا۔ اس تیز ہوا کے ساتھ کہ کانوں کے پردے پھٹنے لگے۔ میں نے سنبھل کر سامنے دیکھا۔ تین عظیم الشان مجسمے جو نہایت ہیبت ناک شکلیں اختیار کئے ہوئے تھے، میرے عین سامنے ایستادہ تھے اور ان کے منہ سے شعلوں کے مرغولے ابل رہے تھے۔ شعلوں کا یہ طوفان مجھے تین سمت سے اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے تھا، میں ساکت ہو گیا اور میں نے درود پاک کا ورد شروع کر دیا۔ شعلے مجھ تک نہیں پہنچ پا رہے تھے لیکن ان کی تپش مجھے اچھی طرح محسوس ہو رہی تھی۔ میں ہمت کر کے آگے بڑھا اور ان بتوں کے قریب پہنچ گیا۔ سب سے سامنے والے بت کے منہ پر میں نے اپنی ہتھیلی رکھ دی ہر خدشے سے بے نیاز ہو کر اور مجھے اس میں خاطرخواہ کامیابی حاصل ہوئی۔ اس کے منہ سے شعلے نکلنا بند ہو گئے تھے لیکن دوسرے بتوں نے اپنی گردنیں گھما لی تھیں اور میرے جسم سے شعلے ٹکرا رہے تھے لیکن تپش کے باوجود یہ بھی ایک دلچسپ بات تھی کہ نہ تو میرے لباس میں آگ لگی تھی اور نہ یہ شعلے میرے جسم پر پڑ کر جلن کا احساس پیدا کر رہے تھے۔ ایک طریقہ کار کامیاب ہوا تھا۔ چنانچہ میں نے ایک ایک کر کے ان دونوں بتوں کے منہ پر بھی ہاتھ رکھے اور شعلوں کی لپکتی زبانیں اندر چلی گئیں۔ تب میں نے ان کے درمیان سے نکل کر دوسرا منظر دیکھا۔ عظیم الشان ہال بنا ہوا تھا۔ اس میں قبر کے کتبوں کی مانند بت نصب تھے۔ چھوٹے بڑے، ننگ دھڑنگ ہیبت ناک شکلوں والے لیکن ان کی آنکھیں انسانی آنکھوں کی مانند چمک رہی تھیں، وہ سو فیصدی پتھر کے بت تھے۔ بس ان کے چہروں پر انسانی آنکھیں موجود تھیں جو گول گول اِدھر سے اُدھر گھوم رہی تھیں اور گردش کر رہی تھیں۔ بے شمار آنکھیں مجھ پر ٹکی ہوئی تھیں، میں نے دو قدم آگے بڑھائے تو بتوں کے ہاتھ بھی ہلنے لگے… پھر مزید چند قدم آگے بڑھا تو ان کے درمیان پہنچ گیا اور وہ اپنی جگہ چھوڑنے لگے۔ پھر کہیں سے ایک چیخ کی آواز ابھری اور اس کے بعد چیخوں کا طوفان آ گیا۔ چاروں طرف سے وہ بت شور مچا رہے تھے اور اب ان میں بھاگنے دوڑنے کی صلاحیتیں بھی پیدا ہو گئی تھیں۔ اس ہیبت ناک منظر نے بلاشبہ جسم کے رونگٹے کھڑے کر دیئے تھے۔ میں اس خوفناک افراتفری کو دہشت بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا اور میری آنکھیں ان بھاگتے دوڑتے جسموں پر جمی ہوئی تھیں جو عجیب افراتفری کے عالم میں ایک دوسرے کو دھکیل دھکیل کر آگے بڑھ رہے تھے اور پھر ان سب نے ایک طرف کھڑے ہو کر اپنے ہاتھ پھیلائے اور بھرّا مار کر میری جانب دوڑ پڑے۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں۔ درود شریف میرا محافظ تھا۔ اللہ کے اس کلام سے مجھے اب تک جو کچھ حاصل ہوا تھا، اسے میں اتنی ہی عقیدت سے محسوس کرتا تھا جتنی میرے دل میں ہونی چاہئے تھی۔ بھاگنے والے مجھ تک پہنچے اور ہوا کے جھونکے کی مانند مجھ سے گزر کر دوسری جانب نکل گئے۔ ایک لمحے تک میں آنکھیں بند کئے رہا۔ وہ شور اچانک ہی معدوم ہو گیا تھا اور شور کے ایک دم ختم ہو جانے سے جو سناٹا پیدا ہوا تھا وہ بری طرح میرے ذہن کو متاثر کر رہا تھا۔ صحیح معنوں میں اس شور سے کانوں کے پردے نہیں پھٹ رہے تھے بلکہ اس سناٹے نے میرے ذہن میں ہلچل پیدا کر دی تھی لیکن رفتہ رفتہ یہ کیفیت بھی بحال ہونے لگی۔ مجھے کامیابیوں پر کامیابیاں حاصل ہو رہی تھیں اور یہ میری توقع سے مختلف نہیں تھیں۔ میں نے آنکھیں کھول کر چاروں طرف دیکھا۔ اب یہ پورا ہال نما حصہ سنسان اور سپاٹ تھا۔ وہ تینوں مجسمے بھی غائب ہو چکے تھے جو آگ اگل رہے تھے۔ وہ دروازہ بھی نظر نہیں آ رہا تھا جس سے میں اندر داخل ہوا تھا۔ چاروں طرف ایک ہیبت ناک سکوت طاری تھا۔ میں آہستہ آہستہ چند قدم آگے بڑھا۔ پھر ایک اور قدم آگے رکھا تو یوں محسوس ہوا جیسے پائوں زمین میں دھنسنے لگا ہو، میں گرتے گرتے بچا تھا۔ گرنے سے بچنے کے لئے میں نے ہاتھوں کا سہارا لیا تو یوں محسوس ہوا جیسے زمین گندھے ہوئے آٹے کی طرح نرم ہو، میں پھرتی سے سیدھا کھڑا ہو گیا لیکن میرے پائوں ٹخنوں ٹخنوں تک زمین میں دھنس گئے۔ میں اچھل کر پیچھے کی سمت آیا جہاں سے گزر کر یہاں تک پہنچا تھا لیکن اب یہ زمین بھی بالکل ویسی ہی تھی۔ مجھے حیرانی ہوئی تھی ایک لمحے کے لئے لیکن دوسرے لمحے یہ حیرانی ذہن سے مٹ گئی، جو کچھ بھی نہ ہو جاتا کم تھا۔ اب یہ پورا ہال ایک نرم مٹی کا بنا ہوا ہال تھا جس میں جہاں بھی پائوں رکھتا وہاں مٹی دھنسنے لگتی تھی۔ میں بار بار اچھل کر اپنی جگہ تبدیل کرتا رہا تاکہ میرے پائوں اس سے زیادہ زمین میں نہ دھنسیں لیکن یہ احساس ہو رہا تھا کہ اگر ایک منٹ بھی کسی ایک جگہ کھڑا رہا تو شاید اس نرم مٹی میں دفن ہی ہو جائوں۔ پریشانی کے کچھ لمحات پیدا ہو گئے تھے میرے لئے، میں نے لمبی لمبی چھلانگیں بھی لگائیں لیکن کسی بھی جگہ اپنے پائوں نہ جما سکا۔ پھر اچانک ہی میرے بدن میں ایک پھریری سی اٹھی اور اس بار جب میں ابھر کر زمین پر گرا تو اس خوداعتمادی کے ساتھ کہ اب میرے پائوں زمین میں نہیں دھنسیں گے اور خدا نے اس خوداعتمادی کی بھی لاج رکھی۔ میرے پائوں واقعی اس نرم زمین پر ٹک گئے تھے۔ چند لمحات، میں اسی جگہ کھڑا رہا۔ دفعتاً ہی میری نظر سامنے کی سمت اٹھ گئی۔ وہ گندھے ہوئے آٹے جیسی زمین ایک جگہ سے گومڑے کی شکل میں بلند ہو رہی تھی اور یہ گومڑا ابھرتا ہی چلا جا رہا تھا، پھر اس کا اوپری حصہ پھٹا اور اس میں سے ایک انسانی سر نمودار ہوا۔ بدہئیت اور بدنما، میں اسے دیکھ چکا تھا۔ یہ گرج ناتھ سیوک تھا جو زمین پھاڑ کر برآمد ہوا تھا۔ آہستہ آہستہ اس طرح ہلے بغیر اوپر ابھرتا آ رہا تھا جیسے کسی مشینی عمل کے ذریعے اوپر ابھر رہا ہو۔ یہاں تک کہ وہ پوری طرح میرے سامنے آ کھڑا ہوا۔ اس کی آنکھیں غضب ناک تھیں۔ منہ وحشت سے پھٹا ہوا تھا اور چہرہ لال بھبوکا ہو رہا تھا۔ اس نے غرا کر کہا۔
’’مایا مکنڈ میں آیا ہے پاپی، ہتھیارے، مایا مکنڈ میں آیا ہے، جا نہیں سکے گا واپس۔ اب دیکھوں گا تجھے، اب دیکھوں گا کون سی مہان شکتی ہے تیرے پاس۔‘‘ میں نے مسکراتی نگاہوں سے گرج ناتھ کو دیکھا۔ پھر کہا۔
’’تیرے اس مکنڈل کے راستے میرے لئے تو کھل گئے گرج ناتھ۔ میرے راستے تو نہ رک سکے۔‘‘
’’ارے یہ کون سی بڑی بات ہے۔ بس اسی پر اِترا رہا ہے تو…!‘‘
’’تیری کنتا بھوانی بھی جوالا چوک پر استھان نہیں کر سکی تھی۔‘‘ میں نے کہا۔
’’بس۔ اسی پر تو نے خود کو مہان سمجھ لیا۔‘‘
’’تیرے بیر بھی بھاگ گئے۔‘‘ میں مسلسل اس کا مذاق اُڑا رہا تھا۔
’’چنتا مت کر۔ سارے حساب چکتے ہو جائیں گے آج۔‘‘
’’تو کیا چاہتا ہے گرج ناتھ۔ یہاں جوالاپور میں تو کیا چاہتا ہے۔‘‘
’’اکھنڈ بھوانی۔ اکھنڈ بھوانی بنانا چاہتا ہوں اسے۔ یہاں سب بھوانی داس ہوں گے۔ سونے کا جوالاپور ہو گا۔ یہی بات ہے میرے من میں۔ نہیں میاں جی۔ تم کچھ بھی کر لو… چلے گی نہیں تمہاری۔‘‘
’’ٹھیک ہے پھر وار کر گرج ناتھ۔ میں تیری قوت دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا اور اچانک وہ جس طرح ابھرا تھا اسی طرح زمین میں غروب ہو گیا۔ لیکن میں نے زمین کو عجیب انداز میں متحرک دیکھا، وہ برق رفتاری سے زمین کھودتا ہوا ایک لکیر کی شکل میں آگے بڑھا اور عین میرے سامنے ابھر آیا لیکن میں تیار تھا۔ جیسے ہی اس کا سر زمین پھاڑ کر برآمد ہوا، میں نے ایک زوردار مکا اس کے سر پر رسید کر دیا۔ وہ پھر زمین میں گم ہو گیا اور زمین کے نیچے بھونچال آ گیا۔ وسیع و عریض ہال میں ابھری ہوئی لکیریں اِدھر سے اُدھر دوڑ رہی تھیں اور میں گھوم گھوم کر اسے دیکھ رہا تھا۔ دوسری بار وہ پھر میرے بالکل قریب ابھرا۔ اس بار میری لات اس کے منہ پر پڑی تھی۔ وہ پھر زمین میں گم ہو کر ساکت ہو گیا پھر مجھ سے دس گز کے فاصلے پر اچانک زمین پھٹی… لیکن اس بار وہ انسانی شکل میں نمودار نہیں ہوا تھا۔ یہ انتہائی ہیبت ناک شکل کا غیرانسانی وجود تھا جس کے درجنوں ہاتھ پائوں تھے۔ بڑے بڑے اوپر کو اٹھے ہوئے کان، گیند کے برابر گول گول سرخ آنکھیں تھیں۔ لمبے لمبے دانت منہ سے باہر نکلے ہوئے تھے۔ اس نے مجھے گھورتے ہوئے انسانی آواز میں ایک عجیب سے اشلوک پڑھے۔
’’شننت شورانن پربھاگو تریان۔ ات ماتنترا سردھا سدھات۔‘‘ اس کے ساتھ ہی اس کے سارے ہاتھ بلند ہو گئے اور میں نے دیکھا اس کے تمام ہاتھوں میں کوئی نہ کوئی ہتھیار آ گیا۔ کسی میں تیزدھار کی انیوں والا سات کونوں کا ستارہ، کسی میں مڑا ہوا خنجر، کسی میں تلوار، کسی میں ترشول، کسی میں چھوٹا سا نیزہ۔ وہ لاتعداد ہتھیاروں سے مسلح ہو گیا، پھر وہ ایک ایک قدم آگے بڑھنے لگا۔ اس کی گول سرخ آنکھیں مجھے گھور رہی تھیں۔
’’بسم اللہ۔‘‘ میں نے خود بھی سنبھل کر کہا۔ مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ اب وہ مجھ پر براہ راست حملہ آور ہو گا لیکن میرے منہ سے لفظ ’’بسم اللہ‘‘ نکلتے ہی پٹاخے جیسی ایک آواز بلند ہوئی اور اچانک ہی زنجیروں جیسی کھنکھناہٹ ابھری، ساتھ ہی ایک تیز چنگھاڑ۔ وہ جھک کر اپنے پیروں کو دیکھنے لگا۔ اس کے اس طرح دیکھنے سے ہی میری نگاہ اس کے پیروں پر پڑی۔ میں نے دیکھا کہ اس کے پیروں میں لوہے کے دو بڑے بڑے حلقے آ گھسے تھے جن میں موٹی زنجیریں تھیں جو اسی زمین میں دفن تھیں۔ وہ بری طرح اچھلنے کودنے لگا۔ شاید وہ خود کو ان حلقوں سے آزاد کرا رہا تھا۔ اسی کوشش میں وہ ایک بار زور سے اُچھلا تو زمین پر گر پڑا۔ اٹھنے کی کوشش کی لیکن شاید وہ زنجیریں اور تنگ ہو گئیں۔ اس کے حلق سے کسی درندے جیسی غراہٹیں نکلنے لگیں۔ وہ زور زور سے چنگھاڑنے لگا۔ سارے ہتھیار ایک ایک کر کے ہاتھوں سے گر گئے۔ وہ الٹا اپنی مصیبت میں گرفتار ہو گیا تھا۔ تمام ہاتھوں سے وہ ان فولادی حلقوں کے جوڑ کھولنے کی کوشش کر رہا تھا اور اب اس کے پیروں سے خون رسنے لگا تھا۔ وہ تھکتا جا رہا تھا اور میں بالکل خاموش کھڑا دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا۔ پھر وہ چند لمحات کے لئے زمین پر لیٹ کر ساکت ہو گیا۔ اس وقت اسے اس کی شکست کا احساس دلانا غرور کے الفاظ ہو سکتے تھے، اس لئے میں نے اس سے کچھ نہ کہا۔ کچھ دیر ساکت رہ کر وہ پھر اٹھا اور بیٹھ گیا۔ وہ کراہ رہا تھا۔ پھر اس کے منہ سے آواز نکلی۔
’’جے پدم شنکھا۔ جے پدما پدم ہاری۔ جے شنکھ شنکھاری۔ تیرا داس ہار رہا ہے۔ ایک ملچھ کے ہاتھوں ہار رہا ہے۔ میرے کرنت سماپت ہو گئے ہیں۔ اب مجھے تیری ساگتا چاہئے۔ پدم شنکھا۔ پدم شنکھا۔ شنکھ شنکھاری۔‘‘ ساتھ ہی اس نے ایک ہاتھ میں دبا سنکھ منہ سے لگا کر پھونکنا شروع کر دیا۔ سنکھ کی بھیانک آواز ابھرنے لگی اور اچانک مایا کنڈ کے اس ہال کی چھت میں گڑگڑاہٹ ہونے لگی۔ چند پتھر نیچے گرے لیکن مجھ سے دور… اور اس کے ساتھ ہوائوں میں شور، سنسناہٹ سنائی دینے لگی۔ گردوغبار کا ایک مرغولہ چھت میں ہونے والے سوراخ سے نیچے اتر رہا تھا۔
گہرا مٹیالا غبار گرج ناتھ سیوک سے کوئی دو گز کے فاصلے پر جمع ہونے لگا۔ مجھ سے اس کا زیادہ فاصلہ تھا۔ میں دلچسپی سے اُسے دیکھ رہا تھا۔ پھر اس میں سے ایک انسانی بدن نکل آیا اور میں نے ہونٹ بھینچ کر گردن ہلائی۔ بھوری مکڑیوں کے حوالے سے ہی میں سمجھ گیا تھا کہ گرج ناتھ سیوک کا تعلق کسی نہ کسی طرح بھوریا چرن سے ہے اور اب مفلوج ہو کر اس نے پدم شنکھا کو پکارا تھا۔ اس وقت بھی مجھے اس کا خیال آیا تھا اور بھوریا چرن آ گیا تھا لیکن اس کا رُخ گرج ناتھ ہی کی طرف تھا۔
’’جے شنکھا۔‘‘ گرج ناتھ نے مسرور لہجے میں کہا۔
’’کیا ہوا رے تجھے۔ یہ کیا ہے گرجے؟‘‘ بھوریا چرن کی آواز اُبھری۔
’’پیچھے دیکھ شنکھا۔ پیچھے دیکھ۔‘‘ گرج ناتھ نے کہا اور بھوریا چرن چونک کر پلٹا۔ اس نے حیرت بھری نظروں سے مجھے دیکھا اور پھر جو کچھ ہوا اس کی مجھے اُمید نہیں تھی۔ بھورے مٹیالے غبار کا وہ مرغولہ جو شنکھا کی سواری تھا اسی جگہ ٹھہرا ہوا تھا جہاں سے بھوریا چرن نمودار ہوا تھا۔ بھوریا چرن نے اس میں چھلانگ لگا دی اور مرغولہ ایک تیز جھکڑ کی شکل اختیار کر کے اچانک ایک زنّاٹے کے ساتھ اُوپر اُٹھا اور چھت کے سوراخ سے باہر نکل گیا۔ بھوریا چرن اس طرح دُم دبا کر بھاگ جائے گا میں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ ماحول صاف ہوگیا، تب میں نے گرج ناتھ کو دیکھا اس کی آنکھیں چڑھتی جا رہی تھیں۔ پھر وہ چند لمحات تڑپا اور پھر ساکت ہوگیا۔ اس کے ساکت ہوتے ہی ایک سنسناہٹ سی اُبھرنے لگی… میں نے مایا مکنڈل کے در و دیوار لرزتے ہوئے دیکھے۔ ان سے مٹی جھڑنے لگی تھی۔ مجھے اندازہ ہوگیا کہ یہ طلسمی عمارت زمین بوس ہو رہی ہے۔ اب یہاں سے نکل جانا ضروری ہے۔ چنانچہ میں نے باہر کا رُخ کیا اور کچھ لمحات کے بعد میں باہر نکل آیا۔ مگر باہر کا منظر دیکھ کر میں مبہوت ہوگیا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے سارا جوالاپور کنور ریاست علی خاں کے باغ کے سامنے جمع ہوگیا ہو۔ کیا ہندو کیا مسلمان سب وہاں جمع تھے اور لطف کی بات یہ تھی کہ خاموش کھڑے تھے۔ مایا مکنڈل کے سامنے کی دیوار سب سے پہلے گری تھی اور جونہی میں برآمد ہوا، اچانک فضا میں آواز اُبھری۔
’’نعرئہ تکبیر…‘‘
’’اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبر۔‘‘
مسلمان جوش سے دیوانے ہوگئے تھے۔ ہندو خاموش کھڑے ہوئے تھے ۔میرے باہر آتے ہی مندر کا ایک ایک حصہ گرنے لگا اور لمحوں میں پوری عمارت زمین بوس ہوگئی۔ یہ کالے جادو کی شکست تھی۔ ہندوئوں کے ایک ٹولے نے جس کی رہنمائی پنڈت رام اوتار کر رہے تھے آگے بڑھ کر ’’مہاراج کی جے، مہاراج کی جے، کے نعرے لگانا شروع کر دیئے۔ پنڈت رام اوتار نے کہا۔
’’خاموش ہو جائو بھائیو۔ خاموش ہو جائو۔ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔‘‘ سب خاموش ہوگئے۔ ’’جوالاپور کے باسیو۔ ہندو اور مسلمانو! جوالاپور انسانوں کی بستی ہے۔ پرکھوں سے ہم یہاں رہتے آئے ہیں۔ ہمارے درمیان دھرم کا نہ سہی بھائی چارے کا رشتہ تو ہے۔ یہ بھی سب جانتے ہیں کہ وہ پاپی کالے دھرم والا نہ ہندو تھا نہ مسلمان۔ وہ تو شیطان کا پجاری تھا اور جو کچھ کیا تھا اس نے، شیطانی عمل تھا۔ ہم کالے جادو کے اَثر میں آ گئے تھے۔ جان علی کی مسجد والے مولوی صاحب نے اس کی شکتی ختم کر کے صرف مسلمانوں ہی کا نہیں ہندوئوں کا بھی بھلا کیاہے۔ ہم ہندو بھی ان کا احسان مانتے ہیں اور ان کی جے جے کار ہمیں بھی کرنے دو…‘‘
’’مسجد والے مہاراج کی جے۔ مسجد والے مہاراج کی جے۔‘‘ ہندو نعرے لگانے لگے۔ میں ساکت کھڑا تھا۔ میں یہ سب کچھ نہیں چاہتا تھا۔ مگر جوش میں ڈوبے لوگوں کو میں کیسے روک سکتا تھا۔ اسی وقت لوگ کسی کو راستہ دینے لگے۔ کچھ دیر کے بعد ہجوم میں سے کنور ریاست علی خاں آگے آ گئے۔ انہیں دیکھ کر کچھ اطمینان ہوا تھا۔
’’دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں شاہ صاحب۔ اللہ کے نام کا بول بالا ہوا۔‘‘
’’مگر یہ سب کنور صاحب…‘‘
’’بخدا کسی کو کچھ بتایا نہیں گیا۔ رفتہ رفتہ آپ کے یہاں آنے کی خبر پھیلتی گئی۔‘‘
’’یہ سب نہیں ہونا چاہئے۔ یہ غیرمناسب ہے۔ صرف اللہ کا شکر ادا کیا جائے۔ میں کیا میری اوقات کیا…‘‘
’’بے شک مانتا ہوں لیکن ان لوگوں کی عقیدت کا کیا کریں گے آپ انسان تو بہت ہی کمزور اور معصوم شخصیت کا مالک ہے، آپ دیکھئے مسجد کے کنویں کے پانی سے نہ صرف مسلمانوں بلکہ ہندوئوں کو بھی اتنا ہی فائدہ پہنچا ہے اور بات وہی انسانیت والی آ جاتی ہے۔ بے شک دین دھرم بہت بڑا مقام رکھتے ہیں لیکن انسانی کمزوریوں کو بھی تو کسی طرح نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ مقام اللہ تعالیٰ ہی نے آپ
کو بخشا ہے کہ اس وقت یہ لوگ اپنی عقیدت کا اظہار کررہے ہیں۔ خدا کے فضل سے آپ نے جوالاپور کے آسمان سے کالی نحوست کا نشان مٹا دیا ہے، بڑا کشت و خون ہوا ہے، یہاں دیوانگی طاری ہوگئی تھی لوگوں پر لیکن میرا خیال ہے کہ اب یہاں ایک نئی زندگی کا آغاز ہوگا اور مسعود شاہ صاحب خدا آپ کو طویل عمر عطا کرے بھلا جوالاپور والے آپ کو نظرانداز کر سکتے ہیں۔‘‘
’’مم… مگر میں کیا کروں، یہاں تو بڑا ہجوم ہے مجھے یہاں سے نکالئے کنور صاحب۔‘‘
’’آپ کی ایک آواز ان لوگوں کو منتشر کر دے گی۔ میری التجا ہے کہ ان سے کچھ الفاظ کہہ دیجئے، میں اعلان کئے دیتا ہوں۔‘‘
’’کیا کہوں میں ان سے؟‘‘
’’کچھ بھی جو آپ کا ذہن قبول کر لے۔ میں خود بھی اتنا ہی پُرجوش ہو رہا ہوں۔‘‘کنور ریاست علی کپکپاتے ہوئے لہجے میں بولے۔ بہرحال یہاں سے نجات حاصل کرنا تھی۔ میں نے آگے بڑھ کر دونوں ہاتھ اُٹھائے اور لوگ اس طرح خاموش ہوگئے کہ سوئی گرنے کی آواز بھی سنائی دے جائے۔ میں نے کہا۔
’’جوالاپور کے رہنے والو! ہندو اور مسلمانو! آپ سب لوگوں کو کالے جادو کے ایک ماہر کے تسلط سے نجات مبارک ہو اور باقی ہر شخص کو میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ قصور کسی کا نہیں تھا، شیطان کو بہرطور قوتیں عطا کی گئی ہیں اور وہ اپنے شیطانی عمل کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ جیسا پنڈت رام اوتار نے کہا کہ کالا دھرم نہ ہندوئوں کا ہے نہ مسلمانوں کا، وہ اور ہی تھا اور آپ لوگوں نے بھی دیکھ لیا کہ ایک وقت ایسا آیا جب اس نے نہ ہندو کی پروا کی، نہ مسلمان کی بلکہ کالے علم سے سبھی کو نقصان پہنچایا۔ اللہ کے کلام میں جو برکت ہے اس کا سہارا لے کر میں نے اللہ کے نام کے ساتھ اس سے جنگ کی اور نتیجے میں وہ ہلاک ہوگیا، آپ سب اطمینان رکھئے اب وہ آپ کو پریشان کرنے کے لئے دوبارہ اس دُنیا میں نہیں آسکے گا۔ اگر آپ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ میں نے آپ کی کچھ خدمت کی ہے تو اس کا صلہ مجھے اس طرح دیجئے کہ بھائی چارے کی فضا پیدا کر کے اپنی اپنی زندگی گزاریئے۔ مسلمان اپنے مذہب کے مطابق عبادت کریں، ہندو اپنے مذہب کے مطابق اور مل جل کر رہیں۔ بس یہی عرض کرنا چاہتا تھا میں آپ سے۔ اب براہ کرم اپنے اپنے گھروں کو جایئے اور نئے انسانوں کی طرح اپنی زندگی گزاریئے، بس اب جایئے میری التجا ہے کہ آپ لوگ اب منتشر ہو جایئے۔‘‘ مجمع برق رفتاری سے چھٹنے لگا۔ کنور ریاست علی خاں مسکراتی نگاہوں سے مجھے دیکھ رہے تھے، لوگ آہستہ آہستہ چلے گئے اور پھر میں بھی کنور ریاست علی خاں کے ساتھ آگے بڑھ گیا۔ کنور صاحب کہنے لگے۔
’’میں تو ان لمحوں کو کوستا ہوں جب آپ میرے پاس آئے تھے اور میں نے آپ کی ناقدری کی تھی۔ پتہ نہیں آپ اور خدا مجھے معاف کریں گے یا نہیں۔‘‘
’’کیا اب بھی اس کی گنجائش ہے کنور صاحب، ہمارے آپ کے درمیان تو بڑی دوستی ہوگئی ہے؟‘‘ میں نے ان کے ساتھ چلتے ہوئے مسکرا کر کہا اور کنور صاحب نے عقیدت سے جھک کر میرے ہاتھ چوم لیے۔
’’لفظ دوستی تو مجھے آسمان میں بلند کرنے کے لئے کافی ہے، مجھے تو اگر آپ خادم کی حیثیت سے بھی قبول کرلیں تو اس سے زیادہ خوشی کی بات اور کوئی نہیں ہوگی۔‘‘
’’جذباتی نہ ہوں کنور صاحب، کچھ ذمّےداریاں اللہ کے حکم سے بندوں کے سپرد بھی کر دی جاتی ہیں اور مجھے یہ اعزاز بخشا گیا تھا کہ یہاں اس گندے علم والے کے خلاف جنگ کروں، بس اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوں میں اور اگر آپ نے اپنی عقیدت کے سہارے مجھے ضرورت سے زیادہ اعزازات بخشے تو آپ یقین فرمایئے میرے لئے تکلیف دہ ہوں گے، بس انسانوں ہی کی مانند میرے ساتھ سلوک کیجئے، آپ کی محبت اتنی ہی کافی ہے میرے لئے۔‘‘
کچھ دیر کے بعد ہم مسجد آ گئے۔ کنور صاحب نے کہا۔ ’’حضور چند لمحات لے سکتا ہوں۔‘‘
’’ہاں ہاں تشریف لایئے فرمایئے۔‘‘
اکرام اندر موجود تھا اور اس بے چارے کو ساری صورت حال شاید معلوم بھی نہیں تھی، وہ ہمارا انتظار ہی کر رہا تھا، کنور ریاست علی کہنے لگے۔ ’’حضور مجھے یہ گستاخی کرنی تو نہیں چاہئے لیکن جو دل کو لگی ہے اسے زبان تک لائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ آپ جوالاپور میں طویل عرصے قیام فرمائیں؟ میں کسی قدر اُلجھی ہوئی نگاہوں سے کنور ریاست علی کو دیکھنے لگا، پھر میں نے کہا۔‘‘
’’کنور صاحب، جوالاپور میں انسان ایک مشکل کا شکار تھے۔ میری خدمات یہاں کام آئیں، نہیں کہہ سکتا کہ آئندہ کہاں جائوں، براہ کرم مجھ سے کوئی وعدہ نہ لیجئے، ابھی یہاں مقیم ہوں، کبھی چلا جائوں خاموشی سے تو اسے میری بے وفائی تصور نہ فرمایئے گا اور نہ ہی وعدہ شکنی، بس یوں سمجھ لیجئے کہ مجھے کوئی ذمّے داری سونپی گئی تھی۔‘‘
کنور صاحب نے عقیدت سے گردن ہلائی اور بولے۔ ’’میں سمجھتا ہوں لیکن حضور ابھی تک مجھے کسی خدمت کا موقع عطا نہیں کیا گیا۔‘‘
’’اس کا تصور بھی نہ کیجئے۔ میں نے آپ سے عرض کر دیا تھا کہ میری ضرورتیں اللہ کے حکم سے پوری ہو رہی ہیں، ہاں اگر کہیں کوئی مشکل پیش آئی تو وعدہ کرتا ہوں کہ آپ ہی کو زحمت دوں گا۔‘‘
’’اس کے لئے میں انتہائی شکرگزار ہوں۔‘‘ کنور ریاست علی چلے گئے تو اکرام متجسس انداز میں میرے سامنے آ گیا۔
’’کیا ہوا مسعود بھائی؟‘‘
’’اللہ کے حکم سے وہ شیطان فنا ہوگیا۔‘‘ میں نے جواب دیا اور اکرام خوشی سے لرز گیا۔
’’زندہ باد، زندہ باد مجھے تو پہلے ہی یقین تھا، تو وہ بالکل ختم ہوگیا۔‘‘
’’ہاں اور کنور صاحب کے باغ میں وہ بھوانی کنڈ جو بن رہا تھا، وہ بھی زمین بوس ہوگیا۔‘‘
’’اللہ تعالیٰ آپ کو مسلسل کامیابیاں عطا فرمائے۔‘‘
پھر ہم معمولات میں مصروف ہوگئے، لوگوں کی عقیدت انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ وہ جو شاید کم ہی نماز پڑھتے ہوں گے، یہاں باقاعدہ نماز پڑھنے آنے لگے اور میری درخواست پر وہی بزرگ جنہوں نے روزِ اوّل تمام افراد کی امامت کی تھی، امامت کرتے رہے۔
دو تین دن تک کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا جو قابل ذکر ہو، میں منتظر تھا کہ اب دیکھئے مجھے یہاں سے کب اور کہاں روانگی کا حکم ملتا ہے۔ رفتہ رفتہ باتیں سمجھ میں آتی جا رہی تھیں، جو ہدایت مجھے ملنا ہوتی تھی، اس کا ذریعہ کسی نہ کسی شکل میں نکل آتا تھا۔ جیسے جوالاپور آنا اس سے پہلے کے چند واقعات، غرضیکہ کام اسی انداز میں چل رہا تھا۔ تیسرے دن البتہ ایک دلچسپ صورت حال پیش آئی۔ کوئی ساٹھ ستّر افراد باغ کے کنارے پہنچ گئے۔ وہ مسجد کے قریب نہیں آئے تھے بلکہ انہوں نے اپنا ٹھکانہ الگ بنایا تھا، پنڈت رام اوتار ان کی رہنمائی کرتے ہوئے یہاں تک آئے تھے اور انہوں نے اسحاق احمد نامی ایک شخص کا سہارا لیا تھا، پتہ نہیں کیوں یہ مسئلہ کنور ریاست کو نہیں پیش کیا گیا تھا۔ اسحاق مسجد میں داخل ہوا، مجھے سلام کیا اور کہا۔ ’’حضور، کچھ لوگ آپ سے ملنا چاہتے ہیں، پنڈت رام اوتار کی رہنمائی میں وہ یہاں آئے ہیں، کیا آپ انہیں شرفِ ملاقات بخشیں گے ۔ میرا نام اسحاق احمد ہے۔‘‘
’’آئو اسحاق احمد، اگر انہیں مجھ سے کوئی کام ہے تو ضرور چلتا ہوں۔‘‘
میں ان ساٹھ ستّر افراد کے درمیان پہنچ گیا، سبھی نے ہاتھ جوڑ کر ماتھے سے لگا لئے تھے، پنڈت رام اوتار بھی آگے بڑھ آئے تھے۔
’’معافی چاہتا ہوں مہاراج آپ کو پریشان کیا، مگر ان لوگوں کی پریشانی بھی بہت بڑی ہے۔ یہ آپ سے مدد مانگنے آئے ہیں۔‘‘
’’ہاں ہاں کہئے پنڈت جی، کیا حکم ہے میرے لئے؟‘‘
’’مہاراج یہ سب بڑی پریشانی میں پڑ گئے ہیں۔ بات اصل میں یہ ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے حالات سے گھبرا کر مایا مکنڈل کے سامنے رکھے ہوئے مٹکے سے وہ پانی پی لیا تھا جو ناپاک تھا، انہیں فوراً ہی آرام مل گیا تھا لیکن اب بات یوں ہو گئی ہے کہ ہندوئوں نے انہیں اپنے دھرم سے نکال دیا ہے اور کہہ دیا ہے کہ یہ کالے دھرم والے ہیں، انہیں جوالاپور چھوڑنا ہوگا۔ کوئی بھی ان کے ساتھ رعایت کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اس وقت بے چارے پریشانی میں سوجھ بوجھ کھو بیٹھے تھے لیکن اب کیفیت یہ ہے کہ لوگ انہیں اچھوت بنا کر چھوڑے ہوئے ہیں اور ہر طرح کی کوششیں ناکام ہوگئی ہیں ان کی، اب یہ آپ سے مدد مانگنے آئے ہیں، دوسری صورت میں انہیں جوالاپور چھوڑنا ہوگا، پنچایت نے یہی فیصلہ کیا ہے۔ آپ اگر ان کی کوئی مدد کر سکتے ہیں مہاراج تو کر دیجئے۔‘‘ دفعتہً ہی میرے دل میں ایک خیال آیا، عابد علی اور عارفہ یاد آ گئے تھے۔ بہرطور اس نیکی سے گریز نہیں کر سکتا تھا، میں نے پنڈت رام اوتار سے کہا۔ ’’آپ ہندو دھرم کے ایک محافظ ہیں پنڈت جی، آپ ان کی سفارش کیجئے ان لوگوں سے جو انہیں ہندو دھرم سے نکال پھینکنا چاہتے ہیں۔ آپ انہیں بتایئے کہ انسانی کمزوری نے انہیں مجبور کر دیا تھا ورنہ شاید یہ ایسا نہ کرتے۔‘‘
’’میں ہی کیا، بڑے بڑے لوگ یہ باتیں ایک دوسرے سے کر چکے ہیں مہاراج، مگر کوئی ماننے کے لئے تیار نہیں ہے، شاید آپ کی بات مان لیں۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ انہیں وہ مقام کبھی نہیں مل سکے گا جو یہ کھو چکے ہیں۔‘‘ میں نے ان سب کی طرف دیکھا اور کہا۔
’’کیا آپ کے بال بچّے بھی آپ سے اختلاف رکھتے ہیں؟‘‘
’’نہیں مہاراج، ان بے چاروں کے لئے ہی تو ہم نے یہ سب کچھ کیا تھا۔ بس مت ماری گئی تھی، تقدیر کو یہ سب کچھ کرنا تھا ہمارے ساتھ، سو ہوگیا، اب ہمارا اپنے دھرم میں کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔‘‘
’’تو پھر پنڈت رام اوتار جی آپ مجھے اجازت دیجئے کہ میں وہ کہوں جو میرے دل میں ہے؟‘‘
’’ارے رام رام، ہم اجازت دیں گے آپ کو مہاراج…‘‘ پنڈت رام اوتار نے کہا۔
’’میں انہیں اپنے دین میں خوش آمدید کہوں گا۔ اگر یہ محسوس کرتے ہیں کہ اب ان کا اپنے دھرم میں کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ اگر یہ چاہتے ہیں کہ جوالاپور ہی میں رہیں اور انسانوں کی طرح رہیں تو پھر میں انہیں مسلمان ہونے کی دعوت دیتا ہوں۔‘‘
رام اوتار نے محبت سے مجھے دیکھا۔ دیر تک سوچتا رہا پھر کسی قدر ہچکچاتے ہوئے بولا۔ ’’کچھ پوچھنا چاہتے ہیں مہاراج۔‘‘
’’ضرور رام اوتار…‘‘
’’مہاراج۔ ان کے شریر گندے ہو چکے ہیں۔ یہ ادھرمی ہو چکے ہیں، کالے جادو کی گند اِن کے شریر میں دوڑ رہی ہے۔ کیا آپ کا دھرم اس کے باوجود انہیں سوئیکار کرے گا۔‘‘
میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ میں نے کہا۔ ’’ہاں رام اوتار جی۔ اس کی وجوہ ہیں۔‘‘
’’ہم جاننا چاہتے ہیں۔‘‘
’’انسانی وجود تو مٹی ہے رام اوتار جی۔ مٹی سے بنا، مٹی میں جا ملا۔ اس میں ہے کیا۔ گندگی ہی گندگی۔ صرف رُوح ہے جو اسے پاک صاف رکھتی ہے۔ رُوح نکل جائے دو دن رکھ کر دیکھ لو، پاس کھڑے نہ رہ سکو گے۔ اسلام رُوح کا دین ہے۔ اس میں رُوح کی پاکی کو اوّل مقام دیا گیا ہے۔ اگر رُوح پاک ہے تو جسم بھی پاک ہے۔ پھر ہمارا دین رام اوتار جی انسانی کمزوریوں کو بھرپور تحفظ دیتا ہے۔ گناہ کی معافی ہے۔ غلطیوں کے لئے عفو ہے۔ سچّے دل سے انحراف گناہ کر لو۔ معافی کا امکان ہے۔ مقصد یہ کہ ہمارے دین کا معاملہ رُوح کی سچائی سے ہے۔ اگر یہ سچّے دِل سے کلمہ پڑھ لیں تو عام مسلمانوں میں اور ان میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گا۔‘‘
’’ہم مسلمان ہونا چاہتےہیں۔ ہم اپنے بچوں کے ساتھ مسلمان ہونا چاہتے ہیں۔‘‘ وہ سب بول پڑے۔
’’ٹھیک ہے مہاراج۔ ان کا بھی یہ پرکھوں کا ٹھکانہ ہے۔ پھر جو آپ کہہ رہے ہیں اس سے تو کوئی اختلاف نہیں کرے گا۔ کیا ہندو کیا مسلمان سب آپ کو مانتے ہیں۔‘‘
’’تو پھر تیاریاں کیجئے۔ میں چاہتا ہوں کوئی اختلافی مسئلہ نہ پیدا ہو۔‘‘
’’آپ جو حکم دیں مہاراج وہی ہم کریں۔‘‘ رام اوتار بولے۔
’’اب یہ ذمّے داری آپ ہم پر چھوڑ دیں رام اوتار جی۔‘‘ میں نے کہا اور وہ تیار ہوگئے۔ اتنی بڑی سعادت حاصل ہو رہی تھی مجھے۔ میں لاچار گناہ گار بھلا یہ حیثیت کہاں رکھتا تھا لیکن اللہ نے مجھے یہ مقام عطا فرمایا تھا۔ کنور ریاست علی خاں کو بلا بھیجا۔ وہ تو تھے ہی میرے دیوانے، ایک تقریب ہی منا ڈالی انہوں نے۔ دیگیں چڑھوا دیں۔ تمام گھرانوں کو باغ میں بلوا لیا۔ سب کا کھانا کیا۔ ہندو خاموش تھے کسی نے اعتراض نہیں کیا تھا لیکن کوئی شریک بھی نہیں ہوا تھا۔ اس موقع سے فائدہ اُٹھا کر سابق مول چند اور موجودہ عابد علی نے بھی مع اپنی بیوی سب کے سامنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا اور یہ مقدس رسم بخیر و خوبی سرانجام پا گئی۔ کنور صاحب بھی بے حد خوش تھے۔ انہوں نے ان نومسلم گھرانوں کےسارے مسائل نبھانے کا وعدہ کرلیا تھا۔
اسی رات، رات کے کوئی دو بجے تھے۔ کچھ عجیب سی تھکن سوار تھی۔ گہری نیند سو گیا تھا۔ اچانک کسی نے پائوں پکڑ کر زور سے ہلایا اور میں چونک کر جاگ گیا۔
’’باہر کوئی بلا رہا ہے۔‘‘ آواز سنائی دی اور میں ہڑبڑا کر اُٹھ گیا۔ کچھ فاصلے پر اکرام سو رہا تھا۔ جگانے والا نظر نہیں آیا۔ البتہ کچھ فاصلے پر ایک سایہ سا محسوس ہوا جو آگے بڑھ رہا تھا۔ الفاظ بھی سنے تھے میں نے، پائوں پر لمس کا احساس بھی تھا۔ (جاری ہے)