سوتے ہوئے ذہن نے چند لمحوں میں کوئی فیصلہ کیا۔ لیکن پھر فوراً اپنی بات سمجھ میں آگئی۔ الفاظ ابھی تک میرے کانوں میں گونج رہے تھے میں نے جلدی سے آنکھیں بھینچ کر ذہن کو جھٹکا اور پھر مسجد کے دروازے کی جانب چل پڑا۔
بالکل درست بات تھی۔ باہر میں نے ایک بیل گاڑی دیکھی ایک آدمی بھی اس میں سوار تھا۔ میں جلدی سے آگے بڑھ کر بیل گاڑی کے نزدیک پہنچ گیا اور میں نے بیل گاڑی میں بیٹھے ہوئے شخص کو سلام کیا، جواب میں وعلیکم السلام سنائی دیا اور پھر اس شخص نے کہا۔
’’بیٹھ جائو، طلبی ہوئی ہے، چلو آ جائو دیر نہ کرو…‘‘ ایک عجیب سا تحکمانہ انداز تھا۔ ایک لمحے کے لئے تو ذہن سوچ میں ڈوبا رہا۔ پھر کسی احساس نے گاڑی میں لا بٹھایا۔ بیل گاڑی ہانکی جانے لگی تھی… اور میں اپنے ذہن سے نیند کے اثرات دُور کرنے کی کوششوں میں مصروف تھا۔ بار بار آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر بیل گاڑی چلانے والے کی صورت دیکھنا چاہی لیکن پتہ نہیں بینائی میں کوئی فرق آ گیا تھا یا پھر آنکھیں رات کی تاریکی کی وجہ سے صحیح صورت حال کا اندازہ نہیں لگا پا رہی تھیں۔ بیل گاڑی ہانکنے والے کے خدوخال ایک بار بھی واضح نہیں ہو سکے، سیدھا سادا سا معمولی سا لباس بدن پر تھا اور وہ اپنے کام سے کام رکھے ہوئے تھا۔ میں گہری سانس لے کر خاموش ہوگیا۔ؒ زیادہ تجسس بھی بہتر نہیں ہوتا، مدھم مدھم روشنیاں گھروں سے جھانک رہی تھیں اور رات کے اس پہر کا صحیح اندازہ ہو رہا تھا۔ انسان کی فطرت میں تجسس بے پناہ ہوتا ہے لیکن بعض اوقات ضرورت سے زیادہ تجسس بھی مسائل کا باعث بن جاتا ہے، جس غیرمتوقع انداز میں یہ سب کچھ ہوا تھا، اس نے کچھ دیر تک تو اپنے سحر میں جکڑے رکھا۔ پھر گزرتے ہوئے لمحات کے ساتھ میں نے اپنا ذہن آزاد چھوڑ دیا۔ جوالاپور کی روشنیاں پیچھے رہ گئیں، اب دونوں سمت کھیت تھے اور ان کے درمیان ایک پگڈنڈی پر یہ گاڑی چل رہی تھی، کوئی ڈیڑھ گھنٹے یہ سفر جاری رہا۔ بدن کو خوب جھٹکے لگے اور ہوش و حواس اب بالکل بیدار ہوگئے۔ گاڑی چلانے والا بالکل خاموش تھا، میں نے بھی خاموشی اختیار کئے رکھی۔ پھر کافی فاصلے پر درختوں کےجھنڈ نظر آئے اور ان کے درمیان مدھم مدھم روشنی، عجیب سی سفید روشنی۔ میں نے ایک گہری سانس لی۔ گاڑی کا رُخ اسی جانب تھا۔ کچھ دیر کے بعد وہ درختوں کے جھنڈ کے پاس پہنچ کر رُک گئی۔ لوگ محسوس ہو رہے تھے، سفید سفید سائے اِدھر سے اُدھر آ جا رہے تھے۔ میں بھی گاڑی سے نیچے اُتر آیا اور گاڑی والا میری رہنمائی کرتا ہوا درختوں کے جھنڈ کے بیچ لے گیا مجھے… یہاں ایک جگہ صاف ستھری کر کے اس پر قالین بچھایا گیا تھا اور میرے پہنچنے کے بعد وہاں گردش کرتے ہوئے تمام سائے گول دائرے کی شکل میں بیٹھ گئے۔ انہوں نے گردنیں جھکا لی تھیں۔ میں بھی آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتا ہوا ان کے درمیان پہنچنے کی کوشش کرنے لگا۔ تو اچانک ہی ایک شخص نے پیچھے سے میرے شانے پر ہاتھ رکھ کر مجھے روک دیا۔
’’نہیں یہ قطب اور اَبدالوں کی محفل ہے، تم ان کے درمیان نہ بیٹھو، تمہاری جگہ ان کے عقب میں ہے، خاموشی سے انہی کی مانند بیٹھ جائو۔‘‘ میں نے ان الفاظ پر غور کیا اور ہدایت کے مطابق بیٹھ گیا۔ قطب اور ابدال… میں نے دل ہی دل میں سوچا، بڑے مرتبے ہوتے ہیں۔ بھلا میرا ان کے درمیان کیا دخل، تاہم دوزانو بیٹھ کر گردن اسی انداز میں خم کر لی۔ آنکھیں خود بخود بند ہوگئیں اور یوں محسوس ہوا جیسے ان بند آنکھوں میں بہت سے مناظر روشن ہوگئے ہوں۔ میں نے ان تمام سایوں کو کھڑے ہوتے ہوئے دیکھا۔ مدھم مدھم آوازیں کانوں میں اُبھر رہی تھیں اور گفتگو کی جا رہی تھی۔ پھر چند افراد میری جانب متوجہ ہوئے اور ایک شخص نے مجھے بغور دیکھتے ہوئے کہا۔
’’نہ تم قطب ہو اور نہ ابدال… اور یہی تجویز کیا گیا ہے تمہارے لئے کہ ابھی رکنیت اختیار کئے رہو، ایک کارکن کی قدر و قیمت بھی بہت ہوتی ہے اور جو تجویز کیا جائے وہی زیادہ بہتر کہ ترک دُنیا کے لئے بہت کچھ ترک کرنا پڑتا ہے لیکن بُرا نہیں کہ دُنیا سے تمہارا تعلق رہے۔ ہاں جو ذمہ داریاں سونپی جائیں ان کی انجام دہی کےبعد ہی منزل مل سکتی ہے۔ سو ذمہ داریاں نبھانے کے لئے ابھی بہت کچھ ہے، وقت مختصر نہیں ہوتا، سوچ مختصر ہوتی ہے، عمل طویل اور عمل طویل سے گزرے بغیر کچھ نہیں ملتا۔ لیکن ترک دُنیا کرنا چاہو تو آرزو کرنا اور نہ چاہو تو نقصان نہیں، تمہارا واسطہ چند افراد سے ہے اور جہاں سے ابتدا ہوئی وہاں واپسی لازم ہوگی اور اس کےبعد چھوڑنا چاہو گے تو قبول کیا جائے گا، وہ بھی فیصلے کے بعد اور عمل کی گنتی گن کر… چنانچہ تمہارے لئے طے پایا کہ جہاں ذمہ داریاں سونپی جا رہی ہیں وہاں تمہاری بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ وہ جو تم سے زیر ہوئے بے شک لیکن وہ ابھی حیات ہے، تمہیں اس کا پیچھا کرنا ہے، سات کھونٹے گاڑے ہیں اس نے اور یہ ساتوں کھونٹے اُکھاڑنے ہیں تمہیں کہ ذمہ داریاں تم پر سے کم کر دی گئی تھیں جو پورنیاں تم نے اپنی حماقت سے خود پر چڑھا رکھی تھیں، وہ ایک گندی رُوح کا شکار ہوگئیں اور تم خوش قسمتی سے اپنے وقت کی طوالت کو کم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ لیکن وقت مختصر نہیں ہوتا اور تمہیں اس طوالت سے گزرنا ہے۔ وہ سات کھونٹے رفتہ رفتہ تمہارے سامنے آئیں گے اور یہ تمہارا فرض ہوگا کہ انہیں اکھاڑ پھینکو، بڑی بڑی باتیں ہی نہیں چھوٹے چھوٹے کام بھی ہوتے ہیں اور صرف بڑے ہی کاموں کی طرف توجہ دینا بالکل غیرمناسب۔ سو یوں کرو کہ چل پڑو اور اسے ساتھ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، کم از کم اس وقت تک جب تک کہ ایک شیطان اس کا پیچھا کر رہا ہے، تمہیں اس کی مدد کرنی ہے۔ اسے بچائے رکھو اور جو چھوٹے چھوٹے ضرورت مند تم تک پہنچیں ان کی ضرورت میں کام آئو لیکن خاموشی سب سے بہتر ہوتی ہے اور تمہیں ہر کام خاموشی ہی سے کرنا ہے۔ خبردار کسی ستائش سے نڈھال نہ ہو جانا کہ وہیں سے برائیوں کا آغاز ہوتا ہے۔ ہاں دلوں کو رکھنا بھی ایک عبادت ہے، اس سے گریز نہ کرنا اور جو دل میں آئے اسے زندہ رکھو، ابھی تمہیں قتل کی اجازت نہیں ملی ہے، اس کے لئے تو بڑے مدارج طے کرنا ہوتے ہیں، بس اتنی ہی ذمہ داریاں تھیں تمہاری۔ واپسی میں وہ جگہ چھوڑ دو اور ضروری نہیں ہے کہ تم اس کا اعلان کرو کہ لوگ معصوم ہوتے ہیں اور عقیدت وسیع، لیکن اس میں کچھ برائیاں بھی شامل ہو جاتی ہیں اور تمہیں اس سے گریز کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ بس اب واپسی اور نہ سمجھ پائے ہو تو سمجھا دیا جائے گا کہ ابھی طالب علم ہو اور علم کے سمندر سے ایک قطرہ بھی حاصل نہیں کر سکے، تاہم جو فرض پورا کر رہے ہو، اس کا صلہ ضرور ملتا ہے، سو ملے گا۔ بس اب جاگ جائو۔‘‘
مجھے زوردار جھٹکا لگا اور یوں محسوس ہوا جیسے اچانک ہی بلندی سے نیچے گرپڑا ہوں۔ اسی طرح دوزانو بیٹھا ہوا تھا لیکن آنکھوں کے سامنے نہ وہ جھنڈ تھا اور نہ وہ روشنی اور نہ ہی اَبدالوں کی محفل بلکہ جہاں مسجد میں سویا تھا وہی جگہ تھی اور کچھ فاصلے پر اکرام نظر آ رہا تھا۔ کچھ دیر دل و دماغ سنبھالتا رہا۔ دوبارہ آنکھیں بند کر لیں اور ذہن میں وہ ہدایات تازہ کرنے لگا جو دی گئی تھیں۔ یہاں سے روانہ ہونا تھا۔ فیصلہ کیا کہ فجر کی نماز سے فراغت حاصل ہوتے ہی سفر کا آغاز کر دوں گا۔ فجر کی اذان دی تو اکرام جاگ گیا۔ کچھ دیر کے بعد نمازی آنے شروع ہوگئے، نماز پڑھی اور پھر اکرام کو صورت حال سے آگاہ کرنا ضروری سمجھا۔
’’اکرام یہاں سے چلنا ہے۔‘‘
’’کہاں مسعود بھائی؟‘‘
’’اللہ کی زمین وسیع ہے۔‘‘
’’بے شک لیکن کب؟‘‘
’’اب سے چند لمحات کے بعد۔‘‘
’’اوہ ، تیاریاں کروں؟‘‘
’’تیاریاں کیا کرنی ہیں۔ بس اُٹھیں گے اور چل پڑیں گے۔‘‘
’’ان لوگوں کو اطلاع نہیں دیں گے۔‘‘
’’مناسب نہیں ہے اکرام۔ ان کی محبتیں بے پایاں ہیں۔ میں انہیں نہ سنبھال پائوں گا۔‘‘
’’یہ تو درست ہے۔‘‘ اکرام نے کہا۔ نمازی ایک ایک کر کے چلے گئے اور میں اکرام کے ساتھ خاموشی سے باہر نکل آیا۔ پھر ایک سمت اختیار کر کے ہم تیز رفتاری سے چل پڑے۔ ذہن آزاد چھوڑ دیا تھا، رفتار تیز تھی چلتے رہے دوپہر ہوگئی۔ دُھوپ چلچلا رہی تھی۔ گرمی کے مارے بدن جلا جا رہا تھا۔ ایسی شدید پیاس لگ رہی تھی کہ چکر آنے گے تھے۔ پھر یک بیک اکرام نے کہا۔
’’وہ، وہ مسعود بھائی۔ وہ۔‘‘ میں نے اس کے اشارے پر نگاہ دوڑائی۔ بہت دُور گہرائیوں میں کچھ درخت نظر آ رہے تھے۔ میں نے اُدھر رُخ کرنے سے احتراز نہیں کیا۔ لیکن کافی فاصلہ طے کرنا پڑا تھا۔ خدا کی قدرت کا تماشا نظر آیا۔ درحقیقت اسے چشمۂ حیات کہا جا سکتا تھا۔ بے آب و گیاہ چٹانوں میں انسان سے اللہ کی محبت کا جیتا جاگتا ثبوت تھا۔ ایک چٹان سے چشمہ َرس رہا تھا اور پتھریلی شفاف گہرائیوں میں ننھی سی جھیل ہلکورے لے رہی تھی۔ پانی اتنا شفاف تھا کہ تہہ کے پتھر تک نظر آ رہے تھے۔ ساتھ میں تاڑ کے درخت اُگے ہوئے تھے۔ پیلے پکے تاڑ کے پھل دُور دُور تک زمین پر بکھرے ہوئے تھے۔ اکرام نے سوالیہ نگاہوں سے مجھے دیکھا۔
’’اللہ کی ملکیت ہے اور ہمیں اجازت ہے۔‘‘ پانی پیا، تاڑ کے پھل کھائے اور آرام کرنے لیٹ گئے۔ چشمے کے پانی سے چھو کر چلنے والی ہوائوں نے پلکیں جوڑ دیں اور سورج ڈھلے تک سوتے رہے۔ اکرام نے بدحواسی سے مجھے جگایا تھا۔
’’کیا ہوا؟‘‘
’’عصر کی نماز نکل گئی۔‘‘
’’وقت ہے؟‘‘
’’میرا خیال ہے کہ نہیں ہے۔‘‘
’’قضا پڑھ لیتے ہیں۔ اللہ معاف فرمائے۔‘‘ عصر کی اور کچھ دیر کے بعد مغرب کی نماز پڑھی۔ پھر سفر کے لئے تیار ہوگئے۔ پانی پیا اور چل پڑے دن کا سفر رہ گیا تھا، اس لئے کسر پوری کی اور آدھی رات تک سفر جاری رکھا۔ اس طرح چار دن سفر میں گزر گئے۔ پانچویں رات بھی ایک دشت میں قیام کیا تھا، لیکن یہاں سے کوئی میل بھر کے فاصلے پر روشنی نظر آئی اور میں نے اکرام کو ادھر متوجہ کیا۔ اکرام نے ایک درخت پر چڑھ کر دُور تک دیکھا پھر نیچے آ کر بولا۔
’’پوری آبادی ہے اور کوئی اچھا خاصا شہر ہے۔‘‘
’’کیسے اندازہ ہوا…؟‘‘
’’وہ جو روشنی سامنے نظر آ رہی ہے کس قدر بلندی پر ہے۔ اس کے پس منظر میں بہت سی روشنیاں جل رہی تھیں۔ آسمان پر دن کا عکس یہاں سے بھی محسوس کیا جاسکتا ہے۔‘‘
’’گویا ہماری منزل۔‘‘
’’یہیں آنا تھا ہمیں؟‘‘
’’شاید۔‘‘ میں نے پُرخیال انداز میں کہا۔ ’’پھر اکرام سے پوچھا کہ آگے بڑھنے کی ہمت ہے۔‘‘
’’کیوں نہیں مسعود بھائی۔‘‘
’’آئو پھر اس پھیلی روشنی میں قیام کرتے ہیں۔ دیکھیں وہاں کیا ہے۔‘‘ ہم چل پڑے۔ روشنی ایک خانقاہ کے چراغ کی تھی جو طاق میں جل رہا تھا۔ پہاڑی پتھروں کو چن کر ایک بلند کمرہ جیسا بنایا گیا تھا جس کا دروازہ بند تھا۔ انہیں پتھروں کا ایک قدم آدم دیواروں والا احاطہ بنایا گیا تھا جس میں کسی انسان کا پتہ نہیں تھا البتہ کچھ اور چیزیں یہاں موجود تھیں مثلاً ایک سمت پتھروں ہی کو چن کر ایک چبوترا سا بنایا گیا تھا۔ دُوسری سمت چند مٹکے رکھے ہوئے تھے جن میں پینے کا پانی تھا کیونکہ گلاس اور پانی نکالنے والا برتن بھی وہاں موجود تھا، احاطے کی وسعت اچھی خاصی تھی۔ چند درخت بھی لگے ہوئے تھے جن کی چھائوں زمین پر پھیلی ہوئی تھی۔ اُوپر کچھ جھنڈے جیسے بھی لگے ہوئے تھے جن سے یہ اظہار ہوتا تھا کہ یہ خانقاہ کسی کا مزار بھی ہے مگر مکمل ویرانی چھائی ہوئی تھی۔ کوئی یہاں موجود نہیں تھا یا اگر کوئی ہوگا تو پھر اس وسیع و عریض کمرے کے اندر ہوگا، ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں تھی۔ ہم تو روشنی دیکھ کر چلے آئے تھے اور اکرام کے بیان کے مطابق دُوسری سمت ایک وسیع و عریض آبادی پھیلی ہوئی تھی۔ مدھم مدھم روشنیاں اس آبادی میں زندگی کا پتہ دیتی تھیں۔ یہ جگہ خاصی الگ تھلگ تھی اور کسی پہاڑی کٹائو کی بلندی پر واقع تھی، بستی نیچے کی سمت آباد تھی۔ میں نے ایک گہری سانس لے کر اکرام کو دیکھا اور کہا۔ ’’اکرام اچھی جگہ ہے۔ کیا خیال ہے؟‘‘
’’ہاں مسعود بھائی آپ کے کہنے کے مطابق اللہ کی وسیع و عریض زمین پر ہر جگہ اچھی ہے۔‘‘
’’تو بس پھر یہیں قیام کرنا زیادہ مناسب ہوگا۔ آئو وہ گوشہ اپنا لیں، درختوں کی پناہ میں پہنچ جائیں۔‘‘ اکرام نے حسب عادت گردن ہلا دی اور ہم نے ایک صاف ستھری جگہ ڈیرہ ڈال لیا، وقت گزرتا رہا، سونے کی کوشش کر رہے تھے۔ نجانے رات کا کون سا پہر تھا کہ اچانک کچھ آہٹیں محسوس ہوئیں اور اکرام اُٹھ کر بیٹھ گیا۔
’’کوئی آ رہا ہے بھیّا۔‘‘ اس نے کہا۔
’’آنے دو، خدا کے بندے ہی ہوں گے۔‘‘ میں لاپروائی سے بولا۔
’’معلوم کیا جائے کون سی جگہ ہے؟‘‘
’’میرا خیال ہے مناسب نہیں ہے، صبح سورج نکلے گا خودبخود پتہ چل جائے گا جو کوئی بھی ہے نجانے کس مقصد کے تحت آیا ہے۔‘‘ اکرام خاموش ہوگیا اور ہم انتظار کرتے رہے۔ پھر یکے بعد دیگرے اُوپر آنے والی سیڑھیوں سے چند سر اُبھرے۔ مدھم روشنی میں ان کے خدوخال تو واضح نہیں ہو سکے تھے، آنے والوں کی تعداد غالباً سات تھی، کوئی سامان اُٹھائے ہوئے آ رہے تھے۔ خانقاہ کے دروازے کے بغلی حصے سے گزرتے ہوئے وہ غالباً خانقاہ کے عقب میں چلے گئے۔ ہم خاموشی سے بیٹھے انہیں دیکھتے رہے تھے، نجانے کیا سامان لدا ہوا تھا ان کے شانوں پر۔ ہمارا خیال تھا کہ شاید وہ واپس آئیں، انتظار کرتے رہے، لیکن کوئی واپس نہیں آیا اور پھر آہستہ آہستہ آنکھوں میں نیند رینگ آئی اور ہم دونوں ہی سوگئے۔
صبح کو معمول کے مطابق آنکھ کھل گئی تھی۔ فجر کی نماز کا وقت قریب آ رہا تھا۔
’’نماز پڑھ لیں اکرام۔‘‘
’’ہاں مسعود بھیّا۔‘‘
وضو کا انتظام تھا۔ نماز پڑھی اور پھر وہاں سے آگے بڑھ آئے۔ بڑا سہانا وقت تھا۔ آسمان سے نور برس رہا تھا۔ تاحد نگاہ خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ ہم دونوں اس سمت آ کھڑے ہوئے، یہاں سے گہرائیوں میں بکھرا شہر نظر آ رہا تھا۔
’’نہ جانے کون سا شہر ہے؟‘‘
’’معلوم ہو جائے گا لیکن وسیع ہے اور خوبصورت ہے۔‘‘
’’اوہ۔ وہ دیکھئے۔‘‘ اچانک اکرام نے اشارہ کیا۔ دو آدمی جو خانقاہ کے بغلی گوشے سے ٹہلتے ہوئے باہر آئے تھے۔ ہم ان سے زیادہ دُور نہ تھے۔ پھر انہوں نے ہمیں دیکھ لیا۔ دونوں ٹھٹک گئے۔ پھر تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے ہمارے پاس آ گئے۔ جوان آدمی تھے، چہروں اور آنکھوں میں زندگی تھی اور کسی قدر شبہے کے آثار۔
’’کیا کر رہے ہو یہاں۔‘‘ ان میں سے ایک نے سخت لہجے میں کہا۔
’’ارے بھائی نہ سلام نہ دُعا۔ عجیب سوال کیا ہے تم نے۔‘‘ میں نے مسکرا کر کہا۔
’’اتنی صبح یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘
’’نماز سے فارغ ہوئے ہیں اور حسن خداوندی دیکھ رہے ہیں۔‘‘
’’نماز سے فارغ ہوئے ہو۔‘‘ دُوسرے نے کسی قدر حیرت سے کہا۔
’’کیا رات کو یہاں رہے ہو۔‘‘ پہلا بولا۔
’’ہاں۔ مسافر ہیں۔ سفر کر رہے تھے۔ روشنی دیکھ کر اِدھر آ گئے اور پھر یہاں پڑ رہے۔‘‘
’’کہاں تھے؟‘‘
’’اس درخت کے نیچے۔‘‘
’’کہاں سے آئے ہو۔‘‘
’’جوالاپور سے۔‘‘
’’اس خانقاہ کے بارے میں کیا جانتے ہو؟‘‘
’’ابھی تو کچھ بھی نہیں۔ تم پہلے انسان نظر آئے ہو۔ تم سے یہاں کے بارے میں پوچھنا چاہتے ہیں۔‘‘
دونوں نے ایک دُوسرے کی شکل دیکھی۔ پھر ایک بولا۔ ’’بڑی غلطی کی ہے تم نے یہاں رات گزار کر۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔
’’یہ بہت خطرناک جگہ ہے۔‘‘
’’مگر ہمیں تو… ہمارا خیال تو تھا کہ یہ کسی بزرگ کا مزار ہے۔ یہ جھنڈا اور یہ…‘‘
’’وہ تو ٹھیک ہے۔ یہ بھورے شاہ کا مزار ہے۔ لیکن۔‘‘
’’لیکن کیا؟‘‘
’’بے وقوفو۔ یہاں مغرب کے بعد کسی کا آنا منع ہے۔‘‘ مغرب سے پہلے پہلے لوگ چلے جاتے ہیں کیونکہ اس کے بعد یہاں شیر آ جاتے ہیں
’’شیر؟‘‘
’’ہاں۔ بھورے شاہ کے غلام۔ احاطے کی صفائی کرتے ہیں۔ بھورے شاہ کے دربار میں حاضری دیتے ہیں ہم لوگوں نے خود دیکھا ہے۔ ایسے میں اگر یہاں انسان موجود ہوں تو تم خود سوچو کیا ہو سکتا ہے۔‘‘
’’کیا ہو سکتا ہے۔‘‘ میں نے حیرانی سے کہا۔
’’خوش نصیب ہو بچ گئے۔ ورنہ پتہ چل جاتا کہ کیا ہوتا ہے۔‘‘ دُوسرا ہنس پڑا۔
’’شیروں نے کسی کو ہلاک کیا ہے کیا۔‘‘
’’لوگ تمہاری طرح بے وقوف نہیں ہیں۔ دُھوپ چڑھے منتیں، مرادیں مانگنے آتے ہیں اور دُھوپ ڈھلے چلے جاتے ہیں۔ کوئی ہو تو شیر اسے ہلاک کریں۔ آئندہ یہاں نہ رُکنا۔‘‘
’’آپ لوگ کون ہیں؟‘‘
’’ہم خدّام ہیں بھورے شاہ کے۔‘‘
’’شیروں نے آپ کو نقصان نہیں پہنچایا؟‘‘
’’ہم تو اندر رہتے ہیں۔ مگر تم بحث کیوں کر رہے ہو۔‘‘ دُوسرا تیز لہجے میں بولا۔
’’اس لئے کہ ہمیں تم سے اختلاف ہے۔‘‘
’’کیسا اختلاف۔‘‘
’’شیر اگر یہاں آتے ہیں تو عقیدت مند بن کر۔ اس وقت وہ شیر نہ ہوتے ہوں گے بزرگ کے خادم ہوتے ہوں گے۔ وہ کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ یہ تمہاری خام خیالی ہے۔ ویسے یہ شہر کون سا ہے۔‘‘
’’عازم آباد۔ تم یہ بھی نہیں جانتے۔‘‘
’’ہاں۔ معلوم نہیں تھا۔‘‘
’’چلو ٹھیک ہے اب معلوم ہوگیا۔ شام ہونے سے پہلے یہاں سے بھاگ جانا۔‘‘ وہ آگے بڑھ گئے۔ میں نے مسکرا کر اکرام کو دیکھا۔
’’کیا کہتے ہو اکرام؟’‘‘
’’عجیب سی باتیں ہیں۔ مگر ہمیں کیا۔‘‘
’’نہیں اکرام۔ اب یہی ہمارا ٹھکانہ ہے۔ جب تک۔‘‘ میں نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔ اکرام نے چونک کر مجھے دیکھا اور خاموش ہوگیا۔
عقیدت مندوں نے آنا شروع کر دیا تھا۔ پھول، ہار چادریں۔ خانقاہ کا دروازہ کھل گیا تھا۔ ہم نے بھی اندر موجود مزار کی زیارت کی ایک وسیع قبر بنی ہوئی تھی جو پھولوں اور چادروں سے ڈھکی ہوئی تھی۔ دوپہر کے بعد سے رش بڑھ گیا۔ کچھ خوانچے والے بھی آ گئے۔ میری جیب میں آٹھ روپے موجود تھے۔ جوالاپور سے نکل آئے تھے اس لئے خرچ پھر ملنے لگا تھا۔ جو کچھ ملا خرید کر پیٹ بھر لیا۔ یوں پورا دن گزر گیا۔ سرشام لوگوں نے واپسی شروع کر دی۔ کچھ گھبراہٹ سی پائی جاتی تھی۔ غالباً اسی روایت کا نتیجہ تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے انسان غائب ہوگئے، سورج چھپ گیا۔ ہم نے پرانا ٹھکانہ سنبھال لیا۔ خانقاہ کا دروازہ بند ہوگیا، چراغ روشن ہوگیا۔ اب اکرام بھی اس ماحول سے پوری دلچسپی لے رہا تھا۔ رات کو اچانک وہ دونوں آ گئے۔ پورے احاطے کا چکر لگا کر ہماری طرف آئے تھے۔
’’ارے تم… تم ابھی تک یہاں موجود ہو۔‘‘
’’ہاں بھائی۔ ابھی کچھ وقت یہاں گزاریں گے۔‘‘
’’اور ہم نے جو کچھ کہا تھا۔‘‘
’’اللہ مالک ہے۔‘‘
دونوں کچھ سوچتے رہے۔ پھر واپس پلٹ گئے۔ لیکن کچھ دیر کے بعد وہ پھر آئے ایک کے ہاتھ میں کھانے کے برتن تھے۔
’’خانقاہ کے مہمان بنے ہو تو لو کھانا کھائو۔‘‘
’’جزاک اللہ۔‘‘ میں نے انحراف نہ کیا۔ وہ کھانا رکھ کر چلے گئے اور ہم کھانے میں مصروف ہوگئے۔ پانی کے برتن بھی تھے۔ عمدہ کھانا تھا خوب ڈٹ کر کھایا۔ پھر پانی پیا۔ لیکن اچانک۔ پانی پیتے ہی سر بُری طرح چکرانے لگا۔ عجیب سی کیفیت ہوگئی تھی۔ ہر شے گھومتی محسوس ہو رہی تھی اکرام لمبا ہوگیا۔ میں نے اسے آواز دینا چاہی لیکن زبان ساتھ نہ دے سکی اور پھر میں بھی دُنیا و مافیہا سے بے خبر ہوگیا۔
غالباً صبح ہو گئی تھی۔ کچھ رخنوں سے دھوپ کی لکیریں زمین کرید رہی تھیں اور دن کی وجہ سے اردگرد کا ماحول خوب روشن ہو گیا تھا۔ میری نگاہوں نے اطراف کا جائزہ لیا۔ بدن کے نیچے کھردرا سنگی فرش بھورے رنگ کی ناہموار دیواریں تھیں، جن رخنوں سے روشنی کی لکیریں جھانک رہی تھیں، وہ بے ترتیب تھیں یعنی روشن دان نہیں تھے بلکہ باریک باریک درزیں پڑی ہوئی تھیں۔ صاف ظاہر ہو جاتا تھا کہ کوئی پہاڑی غار ہے۔ نگاہوں نے اپنا کام پورا کیا تو دوسرے احساسات جاگے اور ان میں پہلا احساس یہ تھا کہ ہاتھ پائوں نہایت مضبوطی سے کس کر باندھ دیئے گئے ہیں اور اس طرح کہ یہ بندشیں کھولی نہ جا سکیں۔ فوراً ہی اکرام کا خیال آیا، دیواریں اور چھت تو دیکھ لی تھی۔ فرش پر اکرام کے تصور سے نظر دوڑائی تو وہ ایک دیوار ہی سے لگا بیٹھا ہوا نظر آیا۔ مجھ سے پہلے جاگ گیا تھا۔ مگر جاگنے کی بات کہاں، اسے تو بے ہوشی کے بعد ہوش کا نام دیا جا سکتا تھا۔ اکرام کی صورت دیکھتے ہوئے میں نے گزرے لمحات پر نظر دوڑائی اور صاف ظاہر ہو گیا کہ جو کھانا ہمیں دیا گیا تھا اس میں کوئی خواب آور شے ملی ہوئی تھی۔ کچھ اور پیچھے ذہن دوڑایا تو وہ لوگ یاد آئے جنہوں نے کھانا دیا تھا۔ ہمارے بارے میں ان کے سوالات کرنے کا انداز مشکوک تھا اور اس کے بعد غالباً انہوں نے ہمارے بارے میں فیصلہ کیا تھا اور اسی فیصلے کے تحت ہمیں خانقاہ کا مہمان بنایا گیا تھا۔ لیکن کیوں آخر کیوں۔ اکرام بھی یقیناً بے ہوش زمین پر پڑا ہوا ہو گا اور کھسک کھسک کر اس نے دیوار کی پشت پناہی حاصل کی ہوگی۔ میں نے بھی اپنے ہاتھوں اور پیروں کو جنبش دے کر دیکھا اور مجھے احساس ہوا کہ میں کھسک کر اکرام کے پاس پہنچ سکتا ہوں۔ سو میں نے اس پر عمل کر ڈالا اور چند لمحات کے بعد اس دیوار سے جا لگا۔ اکرام ساکت بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی صورت دیکھ کر مجھے ہنسی آ گئی اور وہ حیران ہو کر مجھے دیکھنے لگا۔
’’کیا سوچ رہے ہو؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’بس یہی تمام سب کچھ اور ایک اور بات بھی سوچ رہا ہوں۔‘‘
’’وہ کیا؟‘‘
’’مسعود بھائی اگر انسان کو زندگی میں کوئی ایسا دکھ نہ مل جائے جو اس کے دل کو داغدار کرتا رہے تو سچی بات یہ ہے کہ یہ زندگی جو میں گزار رہا ہوں یا اگر آپ مجھ سے اتفاق کریں تو ہم گزار رہے ہیں، بری نہیں ہے۔‘‘
’’ارے انوکھی بات کہی تم نے اکرام۔ یعنی یہ زندگی جو ہم گزار رہے ہیں، تمہیں پسند ہے؟‘‘
’’ہاں اب پسند آ گئی ہے، کم از کم اس میں لمحہ لمحہ تبدیلیاں تو ہیں، تجسس تو ہے، انفرادیت ہے، خطرہ ہے، بلکہ میں تو اب یہ سوچ رہا ہوں کہ جو لوگ ایک لگی بندھی زندگی گزارتے ہیں، گھر سے دفتر یا پھر دکان یا کھیت یا کسی بھی جگہ جہاں سے انہیں رزق حاصل ہوتا ہے اور اس کے بعد واپس گھر، یکسانیت ہوتی ہے اس زندگی میں، اور یہ زندگی جس میں کچھ وقت میں نے گزارا ہے، توقع کے برعکس ہے۔ اس میں یہ نہیں ہوتا کہ دکان پر جانا ہے، سامان بیچنا ہے، واپس آ جانا ہے، دفتر جانا ہے، فائلوں میں وقت گزاری کرنی ہے، گھر کا رخ کرنا ہے بلکہ اس میں پتہ نہیں ہوتا کہ آگے کیا ہو گا اور جب کچھ ہو جاتا ہے تو وہ لطف دیتا ہے۔‘‘
’’بڑے فلسفی بنے ہوئے ہو اس وقت۔ ہاتھ پائوں نہیں دکھ رہے۔‘‘
’’دکھ رہے ہیں لیکن لطف آ رہا ہے یہ سوچ کر کہ ہوا کیا ہے اور وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے ہمارے ساتھ یہ سلوک کیا ہے اور یہ کون سی جگہ ہے۔‘‘ اکرام کے لہجے میں درحقیقت ذرا بھی خوف کا احساس نہیں تھا اور ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ اس معاملے میں دلچسپی لے رہا ہے۔ میں نے ایک سمت کچھ آہٹیں سن کر کہا۔ ’’لو بتانے والے آ گئے۔‘‘
بتانے والے دو افراد تھے، دراز قامت، گیروا رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے، بہترین جسامت کے حامل اور کرخت چہروں والے، ایک دروازے سے اندر آئے تھے اور ہمارے پاس آ کھڑے ہوئے تھے، دونوں کڑی نگاہوں سے ہمیں گھورنے لگے۔ میں نے کہا۔
’’بھائی باقی تو جو کچھ ہے وہ آپ بہتر جانتے ہیں البتہ ایک زیادتی ضرور ہوئی ہے ہمارے ساتھ۔ فجر کی نماز قضا کرا دی آپ نے اور اب تو سورج اتنا نکل آیا ہے کہ۔ کہ۔‘‘
’’زیادہ شریف بننے کی کوشش مت کرو۔ جو کچھ تم سے پوچھا جائے اس کا جواب دو ورنہ نتیجہ یہ ہو گا کہ زندگی بھر کے لئے اپاہج ہو جائو گے۔ سڑکوں پر گھسٹتے پھرو گے، دوستانہ مشورہ ہے تمہارے لئے کہ تم سے جو کچھ پوچھا جائے بالکل سچ اور صاف بیان کر دو۔‘‘
’’ٹھیک ہے ہم وعدہ کرتے ہیں کہ جھوٹ نہیں بولیں گے۔ لیکن آپ لوگ بھی وعدہ کریں کہ ہمارے کہے کو سچ سمجھیں گے۔‘‘
’’اس کا تو پتہ چل جائے گا، زیادہ چالاک بننے کی کوشش مت کرنا۔‘‘
’’چلئے یہ بھی وعدہ ہے کہ زیادہ چالاک بننے کی کوشش نہیں کریں گے۔‘‘
’’تو پھر یہ بتائو تم لوگ کون ہو؟‘‘
’’خدا کے فضل سے انسان ہیں، مسلمان ہیں، مسافر ہیں، بس نہ اس سے کچھ آگے ہیں، نہ کچھ پیچھے ہیں۔‘‘
’’ایک جملہ
بھول گئے۔‘‘ ان میں سے ایک نے زہریلے انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔
’’بھلا وہ کیا؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’سی آئی ڈی والے ہیں۔‘‘ وہ شخص بولا اور مجھے ہنسی آ گئی۔ میں نے کہا۔ ’’ارے نہیں بھائی ایسی کوئی بات نہیں ہے، بس مسافر ہیں اور یہ جانے بغیر اس طرف نکل آئے تھے کہ یہ کون سا شہر ہے، یہیں آ کر پتہ چلا۔ جنگل کی جانب سے ادھر پہنچے تھے، خانقاہ کا پہلا چراغ نظر آیا، سو اسی جانب چل پڑے۔ اس سے پہلے کبھی نہ اس شہر میں آئے، نہ بھورے شاہ کے مزار پر۔‘‘
’’بکواس مت کرو، جھوٹ بول رہے ہو۔ تمہارا تعلق سی آئی ڈی سے ہے؟‘‘
’’ہم نے تو وعدہ کیا تھا کہ جھوٹ نہیں بولیں گے، سو جھوٹ نہیں بولے لیکن آپ اپنے وعدے پر پورے نہیں اتر سکے۔ اب اس کے بعد آپ کو آزادی ہے کہ جس طرح چاہیں ہمارے بارے میں تصدیق کریں۔ جھوٹ نکلے تو قابل سزا ہوں گے ہم اور سچ نکلے تو ہمیں رہائی دے دیجئے۔‘‘
’’رہائی کی بات کر رہے ہو۔ یہاں سے زندہ نہیں جا سکو گے تم سمجھے۔‘‘
’’تقدیر، موت کے لئے وقت اور جگہ متعین کرتی ہے اگر باری تعالیٰ نے یہی جگہ ہماری موت کے لئے منتخب فرمائی ہے تو آپ بھی ہمیں معاف کرنا چاہیں تو نہ کر پائیں گے۔ موت برحق ہے، بھائی بھلا اس سے کیا خوفزدہ ہونا۔‘‘
’’دیکھو ابھی تمہارے ساتھ کوئی سختی نہیں کی جا رہی۔ تمہارا فیصلہ بابا بھورے شاہ کریں گے، وہ موجود نہیں ہیں، آ جائیں گے تو تمہارے بارے میں انہیں بتا دیا جائے گا۔ البتہ ایک بات ہم ضرور بتا دیتے ہیں۔ ہمیں فوراً پتہ چل جائے گا کہ تمہارا تعلق سی آئی ڈی یا پولیس سے ہے یا نہیں اور بابا بھورے شاہ کا ایک اصول ہے کہ اگر وہ کسی کے ساتھ مہربانی کرنا چاہیں اور اس کے باوجود وہ ان سے جھوٹ بولے تو پھر وہ اسے زندہ نہیں چھوڑتے۔ اپاہج کر دیتے ہیں، تمہاری زبان کاٹ دی جائے گی یا ہاتھ پائوں توڑ دیئے جائیں گے اور اس کے بعد تمہیں مزار سے دور پھنکوا دیا جائے گا۔ تم یہ نہیں کہہ پائو گے کسی سے کہ تمہارے ساتھ یہ سلوک کس نے کیا۔‘‘
’’خیر اس بات کو چھوڑیئے۔ لیکن کیا آپ یہ بات بتائیں گے ہمیں کہ مزار پر سی آئی ڈی والوں کا کیا کام ہو سکتا ہے یا پھر یہ کہ آپ کو شبہ کیسے ہوا ہم پر کہ ہم سی آئی ڈی والے ہیں، یہاں بھلا کون کیا کھوج کرنے آ سکتا ہے۔ یہ تو روحانیت کا معاملہ ہے۔ یہاں لوگ نیکیوں کے لئے تو آ سکتے ہیں، بھلا سی آئی ڈی والے یہاں کیا پتہ چلانے آئے ہیں؟‘‘
’’میں نے کہا نا، چالاک بننے کی کوشش نہ کرو سمجھے، تمہارے ہاتھ کھول دیئے جائیں گے حالانکہ اصولی طور پر کھولے نہیں جانے چاہئیں، پیر بندھے رہیں گے تاکہ تم بھاگ نہ سکو۔ یہ بھی ایک حماقت کی بات ہے کیونکہ پیر تم اپنے ہاتھوں سے کھول سکتے ہو لیکن یہاں تمہیں ہمارے حکم کی تعمیل کرنا ہو گی، پیروں کی رسی کھلی پائی گئی تو تمہارے ہاتھ توڑ دیئے جائیں گے سمجھے، جب تک بابا بھورے شاہ تمہارے بارے میں فیصلہ نہ کر دے اسی جگہ بندھے رہو گے۔ ہاتھ اس لئے کھولے جا رہے ہیں کہ اپنے چھوٹے موٹے کام کر سکو۔ ابھی تھوڑی دیر میں تمہارے لئے ناشتہ پہنچ جائے گا۔ کھانا پینا اور یہیں لوٹیں لگانا۔ خبردار یہاں سے باہر نکلنے کا وہی ایک دروازہ ہے، دروازے کے آگے ایک چھوٹی سی سرنگ ہے اور اس سرنگ کے دوسرے حصے پر زبردست پہرہ موجود ہے۔ پہرے دار یہ نہیں پوچھیں گے کہ تم سرنگ کے دہانے تک کیسے پہنچے اور کیوں پہنچے، انہیں جو ہدایت ملی ہے اس پر عمل کریں گے۔ بس اتنی ہی بات کرنی تھی تم سے، چلو رسیاں کھول دو۔‘‘
ہمارے ہاتھوں کی رسیاں کھول دی گئیں۔ میں نے گردن خم کر کے کہا۔ ’’بہت بہت شکریہ بھائی۔ ہم سے آپ کو شکایت نہیں ہو گی۔‘‘
’’کیا کیا نام ہیں تمہارے؟‘‘
’’میرا نام مسعود احمد ہے اور یہ اکرام علی ہے۔‘‘
’’اور تعلق تمہارا جوالاپور سے ہے؟‘‘
’’ہاں جوالا پور سے بھی ہے۔‘‘ ان دونوں نے میرے اس ’’بھی‘‘ پر کوئی توجہ نہیں دی تھی۔ خاموشی سے کھولی ہوئی رسیاں اٹھا کر باہر نکل گئے تھے۔ میں اور اکرام اپنی کلائیاں مسل رہے تھے جن پر بندھے ہونے کی وجہ سے خاصے گہرے نشانات پڑ گئے تھے۔ اکرام کے بارے میں، میں نے یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ اب اس کے اندر بے حد پختگی پیدا ہو گئی ہے اور وہ کسی بھی قسم کے حالات سے گھبراتا نہیں ہے۔ کلائیوں کی سوزش جب ختم ہو گئی تو اکرام نے مجھ سے کہا۔ ’’کیا نتیجہ اخذ کرتے ہیں مسعود بھائی؟‘‘
’’ابھی اس پر غور ہی نہیں کیا اکرام۔‘‘
’’مجھے تو کچھ اور لگتا ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’یہ خانقاہ ڈھونگ ہے اور ہو سکتا ہے یہ قبر بھی جھوٹی قبر ہو۔ ایسی داستانیں اکثر سنی ہیں۔ اس قسم کے جعلی مزارات بنا لئے جاتے ہیں اور وہاں بیٹھ کر بہت سی برائیاں کی جاتی ہیں۔ معصوم اور سادہ لوح انسانوں کو جال میں پھانس کر ان سے چڑھاوے وصول کئے جاتے ہیں۔ آپ یقین کیجئے مجھے تو اسی وقت شبہ ہوا تھا جب ہمیں شیر کی کہانی سنائی گئی تھی۔ بلاشبہ بزرگان دین کا ایک مرتبہ ہوتا ہے اور وہاں نہ جانے کیا کیا ہوتا ہے لیکن اس طرح اس کی پبلسٹی نہیں ہوتی اور پھر آپ ان لوگوں کو بھی نہیں بھول سکے ہوں گے جنہیں ہم نے رات کی تاریکی میں سامان اٹھا کر آتے ہوئے دیکھا تھا۔ کچھ چکر ضرور چل رہا ہے۔ یہاں کوئی جرم ہو رہا ہے۔‘‘
’’اللہ بہتر جانتا ہے۔ اگر ہمارے سپرد اس جرم کی بیخ کنی کی گئی ہے تو اپنا فرض ضرور پورا کریں گے۔‘‘
’’آئندہ ارادہ کیا ہے؟‘‘ اکرام نے پوچھا اور میں مسکرا دیا۔ میں نے کہا۔ ’’ارادہ یہ ہے کہ پائوں کی رسی کھولنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ دیکھتے ہیں کہ یہ بھورے شاہ صاحب۔ ارے ہاں ایک بات تو بتائو۔ یہ مزار بھورے شاہ ہی کا تو ہے اور وہ کہہ گئے ہیں کہ بھورے شاہ آ کر فیصلہ کریں گے۔ گویا صاحب مزار زندہ ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے۔‘‘
’’جلدبازی میں کہہ گئے ہیں شاید۔ ویسے اب ہم ان کے قبضے میں ہیں، ہم سے انہیں خطرہ بھی تو نہیں ہوگا۔‘‘
ہم دونوں خاموش ہو گئے۔ اپنے اپنے طور پر سوچ رہے تھے۔ پھر ہمیں ناشتہ دے دیا گیا۔ مکئی کے آٹے کی موٹی موٹی روٹیاں اور ان پر مکھن کے لوندے رکھے ہوئے، ساتھ ہی چھاچھ کے دو بڑے بڑے گلاس۔ ناشتہ تو واقعی بہت عمدہ تھا، لطف دے گیا۔ بڑے عرصے کے بعد ایسی کوئی چیز کھائی تھی۔ اکرام بھی پوری طرح لطف اندوز ہوا۔ البتہ اس نے کہا۔ ’’ناشتہ بہترین ہے لیکن اسے ہضم کرنے کے لئے تھوڑی سی چہل قدمی ہونی چاہئے تھی۔‘‘
’’نہیں۔ ایسے ہی سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
غالباً وہاں دوپہر کے کھانے کا رواج نہیں تھا یا پھر میزبانوں نے زحمت اٹھانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ چنانچہ دوپہر یونہی گزر گئی۔ ویسے بھی ناشتہ دیر ہضم تھا۔ شام کو پانچ بجے کے قریب ہی بھوک لگی تھی۔ ساڑھے چھ بجے غار میں کوئی روشنی لے کر پہنچ گیا۔ دیئے تھے جو شاید سرسوں کے تیل سے جلائے گئے تھے۔ دیئے غاروں کے ابھرے ہوئے پتھروں پر رکھ دیئے گئے۔ اوپر سے روشنی بخشنے والے چراغ تاریک ہو گئے تھے اور اب یہ سرسوں کے تیل کی روشنی والے چراغ، غار کی دیواروں کو مدھم سی پیلاہٹوں کا شکار کر چکے تھے۔ آنے والے وہیں کھڑے ہو گئے اور کچھ دیر کے بعد ایک شخص اسی دروازے کے اندر داخل ہوا۔ یہ بھی اچھے تن و توش کا مالک تھا۔ اس کے ساتھ آنے والے مشعلیں اٹھائے ہوئے تھے۔
سیاہ لمبے لبادے میں ملبوس شخص جس کے بال شانوں سے نیچے تک بکھرے ہوئے تھے، ہمارے سامنے پہنچ گیا۔ دو آدمیوں نے ہماری بغلوں میں ہاتھ ڈال کر ہمیں کھڑا کر دیا تھا۔ غار میں چھ سات افراد موجود تھے۔ آنے والے نے مشعل، مشعل بردار کے ہاتھ سے اپنے ہاتھ میں لی اور ہمارے چہرے کے قریب کر کے ہمیں غور سے دیکھنے لگا۔ پھر اس نے کہا۔
’’اور تم کہتے ہو تمہارا تعلق سی آئی ڈی سے نہیں ہے۔‘‘
’’نہیں پیر صاحب۔ ہم تو غریب مسافر ہیں جو ادھر سے گزرتے ہوئے اس مزار کو پناہ گاہ سمجھتے ہوئے ادھر آ گئے۔‘‘
’’میں پیر نہیں ہوں، خبردار جو اس کے بعد تم نے مجھے پیر کہا۔ میں تو ایک گناہ گار انسان ہوں، بدترین کردار کا مالک، ایک ذلیل ترین انسان… اس کے بعد مجھے پیر یا بزرگ کہہ کر مخاطب مت کرنا۔ یہ لوگ مجھے بابا بھورے شاہ کہتے ہیں۔ میں وہ بھی نہیں ہوں۔ یہ نام میں نے مجبوراً قبول کیا ہے مگر چھوڑو… تمہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہئے۔ تم سے کہا گیا تھا کہ رات کو مزار پر رکنے کی کوشش مت کرنا۔ تم نے حکم کی تعمیل کیوں نہیں کی؟‘‘
’’ہمارا یہاں اس شہر میں نہ کوئی شناسا ہے، نہ کوئی ٹھکانہ، کچھ وقت یہاں گزارتے، اپنا کھاتے پیتے، پھر یہاں سے آگے بڑھ جاتے بلکہ کسی مزار پر قیام تو آپ یوں سمجھ لیجئے کہ ہمارا محبوب مشغلہ ہے۔ بس یونہی آوارہ گرد پھرتے ہیں، کبھی کہیں جا پڑتے ہیں، کبھی کہیں، نہ کوئی گھر ہے نہ بار ہے۔ اس سے پہلے بھی ہم نے کہا تھا کہ اگر جھوٹ نکلے تو آپ اپنے اصولوں کے مطابق عمل کیجئے، ہم اسے اپنی تقدیر سمجھ لیں گے۔‘‘
’’عجیب لیچڑ آدمی ہو تم لوگ، پڑھے لکھے ہو؟‘‘
’’جی تھوڑے بہت۔‘‘
’’شامی اگر یہ پڑھے لکھے ہیں تو کیوں نہ انہیں عرضیاں لکھنے پر لگا لیں۔ بھاگ تو سکیں گے نہیں۔ اندازہ لگائیں گے ان کے بارے میں۔ غلط لوگ نکلے تو ہمارا کیا بگاڑ لیں گے۔ عرضی لکھنے والوں کی بڑی پریشانی ہوتی ہے اور سب سے زیادہ مشکل مجھے اسی کام میں پیش آتی ہے۔‘‘
’’جو حکم بڑے بابا۔ جیسا آپ کہو۔‘‘ جس شخص کو شامی کے نام سے مخاطب کیا گیا تھا، اس نے کہا۔ (جاری ہے)