Wednesday, October 16, 2024

Kala Jadu | Episode 71

’’ٹھیک ہے سنو! اگر تم سچ کہہ رہے ہو تو خاموشی سے یہاں بیٹھ کر عرضیاں لکھا کرو، یہ لوگ تمہیں بتا دیں گے کہ عرضیاں کیسے لکھی جاتی ہیں۔ بعد میں بھروسے کے آدمی ثابت ہوئے تو بڑا مقام دیا جائے گا۔ دوسری صورت میں ہم تمہیں اس وقت تک نہیں چھوڑیں گے جب تک کہ تمہارے بارے میں تصدیق نہ ہو جائے کہ تم سی آئی ڈی کے آدمی نہیں ہو، بھوکے پیاسے مرو گے یہاں پر، تم اگر انسان بن کر رہنا چاہتے ہو تو یہاں تمہیں جو کام بتایا جائے اسے سرانجام دو۔ تین وقت کا کھانا، چائے، ناشتہ سب ملے گا اور تمہارا کام پسند آ گیا تو نوکری مستقل بھی ہو سکتی ہے، معاوضہ جو مانگو گے مل جائے گا اس کی فکر نہیں ہے۔‘‘
میں نے سنجیدہ نگاہوں سے اس بڑے بابا کو دیکھا جو بھورے شاہ کہلاتا تھا۔ فی الحال اس سے تعاون کے علاوہ اور کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ چنانچہ میں نے گردن خم کر کے کہا۔ ’’آپ کے ہر حکم کی تعمیل کی جائے گی۔‘‘
’’بس بس شامی تم ان کے انچارج ہو، ان دونوں کا خیال رکھو گے اور سنو میرے اصول جانتے ہو، شیر کی نظر رکھنا ان پر… لیکن کھانے پینے کی کوئی تکلیف نہ ہو اور جو آسانیاں کسی انسان کو دی جا سکتی ہیں وہ انہیں دی جائیں اور یہ اگر ان آسانیوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں تو جس چیز کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کریں، اس سے ان کو محروم کر دینا، میرا مطلب ہاتھ، پائوں اور آنکھیں ہیں۔‘‘
وہ شخص یہ کہہ کر تیزی سے واپس مڑا۔ بڑا پھرتیلا معلوم ہوتا تھا، باقی لوگوں کو اس کے پیچھے دوڑنا پڑتا تھا اور تھوڑی دیر کے بعد غار پھر خالی ہو گیا۔
پیلی روشنی میں غار کا ماحول بے حد پُراسرار نظر آ رہا تھا۔ اکرام بھی بالکل خاموش تھا مگر جب یہ خاموشی طویل ہو گئی تو میں نے اسے توڑا۔
’’کس سوچ میں ڈوبے ہوئے ہو اکرام۔‘‘
’’بڑے بابا۔‘‘ اکرام نے کہا اور ہنس پڑا۔
’’تمہیں اس کے وہ الفاظ یاد ہیں۔‘‘
’’کون سے؟‘‘
’’جب میں نے اسے پیر کہا تھا۔‘‘
’’ہاں یاد ہیں، ساری باتیں انوکھی ہیں اور مسعود بھائی یہ عرضیاں کیا ہیں؟‘‘
’’وہی لوگ بتائیں گے تو پتہ چلے گا۔‘‘
’’چلئے کیا فرق پڑتا ہے، تین وقت کے کھانے کا تو وعدہ کیا ہے۔‘‘ اکرام ہنستا ہوا بولا۔
میں سوچ میں ڈوبا رہا۔ ایک یقین دل کو تھا جہاں میرے قدم پہنچتے تھے، بے مقصد نہیں ہوتے تھے، روانہ ہونے سے قبل ہدایت کر دی جاتی تھی کہ جانا ہے۔ اس بار بھی ہدایات ملی تھیں اور جو کچھ کہا گیا تھا مجھے یاد تھا۔ چنانچہ اب یہاں آیا تھا۔ گو نئی اور انوکھی دنیا تھی مگر دلچسپی سے خالی نہیں تھی۔ نماز کے اوقات کی پریشانی کے علاوہ اور کوئی پریشانی نہیں تھی۔
دوسرے دن ان عرضیوں کے بارے میں معلوم ہوا۔ شامی کو ہمارا انچارج بنایا گیا تھا وہی ہمیں لے کر ایک اور غار میں پہنچا تھا۔ یہاں ایک موٹا قالین بچھا ہوا تھا جس پر دو ڈیسک رکھے ہوئے تھے۔ کاغذ، قلم کا معقول انتظام تھا۔ سامنے دیوار میں ایک لائوڈ اسپیکر لگا ہوا تھا۔ ہمیں قالین پر بٹھا دیا گیا۔ شامی بولا۔
’’دیکھو…شام چار بجے سے چھ بجے تک تمہیں اس لائوڈ اسپیکر سے آوازیں سنائی دیں گی، عورتوں کی آوازیں بھی ہوں گی، مردوں کی بھی… وہ اپنا نام، پتہ بتائیں گے، پھر منت مانیں گے، دل کی مرادیں بتائیں گے، جو کچھ وہ کہیں گے تمہیں اس میں سنائی دے گا، تم دونوں ان کے نام، پتے اور جو کچھ بھی وہ کہیں کاغذ پر لکھ لینا۔ ہر عرضی کو الگ الگ سنبھال کر رکھنا۔ ’’بڑابابا‘‘ انہیں دیکھے گا۔‘‘
’’ایک کام کرنا ہے تمہیں شامی۔‘‘
’’ہاں بولو…‘‘ اس نے کہا۔
’’کسی بھی قسم کی ایک گھڑی ہمیں چاہئے۔‘‘
کیوں…؟‘‘
نماز کے وقت کے لئے پریشانی ہوتی ہے۔ غار میں پتہ نہیں چلتا۔‘‘
’’مل جائے گی۔ اور کچھ…‘‘
’’وضو وغیرہ کے لئے پانی بھی درکار ہو گا۔‘‘
’’اس کا بندوبست بھی ہو جائے گا۔‘‘
’’بس تمہارا شکریہ…‘‘ میں نے کہا۔ ہمارا کام اسی دن سے شروع ہو گیا تھا۔ بات کچھ کچھ سمجھ میں آ رہی تھی۔ اکرام نے کہا۔ ’’کچھ سمجھے مسعود بھائی…!‘‘
’’ہاں اکرام، وہی تمام تر انسانی کمزوریاں اور ان سے فائدہ اٹھانے والے ان لوگوں نے بھورے شاہ کے نام پر ایک جعلی مزار بنا لیا ہے، لوگ منتیں مرادیں مانتے ہوں گے اور ان لوگوں کا کاروبار چل رہا ہو گا۔‘‘
’’ویسے بڑے ظلم کا کام ہے مسعود بھائی… انسان اپنی مجبوریوں کے ہاتھوں بے بس ہو کر ایسی باتوں کا سہارا لیتا ہے اور جھوٹے دلاسوں میں کھو جاتا ہے۔ اب ظاہر ہے یہ لوگ انہیں بلانے تو نہیں جاتے ہوں گے، خود ہی یہاں یہ سب آتے ہیں اور ان چالاک انسانوں نے انہیں احمق بنانے کے لئے یہ سارا کھیل رچا رکھا ہے۔ کیا کہا جائے، غلطی کس کی ہے لیکن کیا آپ کا ضمیر اس چیز کو قبول کر لے گا۔‘‘میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’مجبوریوں کے بارے میں تم کیا کہہ سکتے ہو اکرام… اگر ہم یہ نہ کریں تو تمہارا کیا خیال ہے، یہ لوگ ہمیں آسانی سے چھوڑ دیں گے۔‘‘ اکرام ایک ٹھنڈی سانس لے کر خاموش ہو گیا۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ لازمی امر ہے جو لوگ یہاں آتے ہوں گے وہ مصیبتوں کے شکار ہوتے ہوں گے، مصیبتوں کا حل وہ انہی ذرائع سے چاہتے ہیں، یہ بھی ایمان کی کمزوری ہے۔ بزرگان دین صرف دعائیں ہی کر سکتے ہیں، ان کے لئے، اگر ان چھوٹے چھوٹے مسائل کا حل کسی طرح اگر میرے علم میں آ جائے تو میں اس چالاک شخص ہی کو سہی، یہ بتا دوں کہ انہیں کیا کرنا ہے۔ کیا اچھا ہو کہ اگر کسی طرح مشکل میں گھرے انسانوں کو ان کی مشکل کا حل مل سکے، بس ایک احساس دل میں آیا تھا۔
وقت ہو گیا۔ شامی نے مجھے گھڑی لا کر دے دی تھی اور ہمیں یہ احساس ہو رہا تھا کہ اگر ان لوگوں سے تعاون کیا جائے تو ان کا رویہ ہمارے ساتھ بہتر ہی رہے گا۔ وقت مقررہ پر شامی نے ہی آ کر مجھے ہوشیار کیا۔ کہنے لگا۔ ’’بس اب سے چند لمحات کے بعد آوازیں آنا شروع ہو جائیں گی۔ خبردار ہوشیاری سے اپنا کام سرانجام دینا۔‘‘
میں نے اکرام کو بھی ہوشیار کر دیا۔ دونوں آدمیوں کو اس لئے متعین کر دیا گیا تھا کہ اگر ایک سے سننے میں کچھ غلطی ہو جائے تو دوسرا اس غلطی کا ازالہ کر لے۔ لائوڈ اسپیکر پر کھرکھراہٹیں سنائی دینے لگیں۔ پھر رونے کی آواز ابھری۔ کوئی مرد ہی تھا، زاروقطار رو رہا تھا۔ میں اور اکرام اس آواز کو سننے لگے۔ پھر اس شخص کی رندھی ہوئی آواز ابھری۔
’’یادرویش، یاولی۔ اکیلا بیٹا ہے میرا، بڑی منتوں مرادوں سے پیدا ہوا تھا۔ بچا لو اسے ولی، بچا لو میرے بچے کو ولی… وہ ڈائن کھا گئی اسے… وہ ڈائن اسے کہیں کا نہیں چھوڑے گی۔ بچا لو اسے ولی، بچالو اسے… میرا نام شاکر علی ہے اور میں یہیں اسی بستی میں رہتا ہوں۔ ولی اکیلا بیٹا ہے میرا، شادی کر دی تھی میں نے اس کی۔ وہ پاپی عورت جو اس کی بیوی بن کر آئی تھی اسے کھا گئی، کہیں کا نہ چھوڑا اسے، نہ جانے کیا کیا تعویز گنڈے کرا دیئے ہیں اس کے لئے، سوکھتا جا رہا ہے اور اب پلنگ سے لگ گیا ہے۔ میرے بیٹے کا نام ناصر علی ہے۔ ولی رحم کر دو… وہ جادو کے زیراثر ہے، یہ جادو توڑ دو اس کا… میں… میں کسی کی دشمنی نہیں چاہتا۔ بس میرے بیٹے کی زندگی مجھے مل جائے ولی۔ اسے معاف کر دو اسے بچا لو۔‘‘ وہ شخص زاروقطار روتا رہا۔ پھر ایک اور آواز سنائی دی۔ ’’چلو وقت ہو گیا، وقت ختم ہو گیا ہے۔ تمہیں فوراً باہر نکل جانا ہے۔‘‘
’’میرا خیال رکھنا ولی، اگر میرا کام ہو گیا تو چادر چڑھائوں گا، لنگر کروں گا، مزار کے لئے دس ہزار روپے دوں گا۔ ولی میرا یہ کام کرا دو۔‘‘
’’جاؤ بھائی جاؤ، اب دوسرے کی باری ہے۔‘‘ میں نے اور اکرام نے شاکر علی کا نام اور اس کی مشکل لکھ لی تھی اور دل ہی دل میں مسکرا رہے تھے۔ اکرام نے مجھے دیکھا تھا۔ شانے ہلائے تھے۔ پھر ایک دوسری آواز سنائی دی۔
’’ہمارا نام پاروتی ہے بھورے مہاراج، بستی چنارپور کے رہنے والے ہیں ہم۔ کیتھورام نے کہا تھا کہ تم ہندو، مسلمان سب کے کام آئو ہو، ہمارا پتی بھوگندر ناتھ مایا جال میں پھنس گیا ہے۔ ایک سسری بیسوا اس کے پیچھے لگ گئی ہے، جان کو اٹک گئی ہے وہ اس کے۔ اس نے پتی چھین لیا ہے ہمارا۔ بھگوان کی سوگند بڑا پریم کرتا تھا ہم سے، پریم کر کے ہی شادی کی تھی اس نے ہم سے۔ مگر وہ نرکھنی اب اسے ہمارے پاس نہ آنے دیوے ہے، ہم ہتھیا کر لیں گے مہاراج۔ نہ چاہئے ہمیں دھن دولت، ٹکڑے کھا کر گزار لیں گے، ہم کو ہمارا پتی ہمیں دلوا دو… ہمارا پتی ہمیں دلوا دو… منہ مانگا دیں گے، جو مانگو گے دیں گے، دیا کرو ہم پر، مہاراج دیا کرو۔‘‘
’’چلو بہن، اب دوسرے کی باری ہے۔‘‘ آواز آئی۔
’’دیا کرو ہم پر مہاراج… دیا کرو…‘‘
بے بس لوگ، دکھ بھری کہانیاں، دل ٹکڑے ٹکڑے ہوتا ہے، سب مشکل کا شکار، کسی کی کوئی مشکل، کسی کی کوئی مشکل، کوئی بیس عرضیاں لکھی تھیں، کام ختم ہو گیا، وقت ختم ہو گیا تھا۔ میں نے اکرام سے پوچھا۔
’’اکرام تم نے سب کے دکھ لکھ لئے۔‘‘
’’ہاں مسعود بھیا۔‘‘
’’اگر تم سے یہ عرضیاں مانگی نہ جائیں تو انہیں محفوظ رکھنا۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘
’’ہم وہاں سے نکل کر اپنی رہائش گاہ آ گئے۔ پھر رات کے کھانے سے فراغت ہوئی تھی کہ بھورے شاہ آ گیا۔ شامی اور دو اور آدمی اس کے ساتھ تھے۔ مٹی کے تیل کے کچھ لیمپ بھی ساتھ لائے گئے تھے جنہیں روشن کر کے رکھ دیا گیا تھا۔ بھورے شاہ کا موڈ بہت اچھا تھا۔ مجھے دیکھ کر بولا۔ ’’کہئے دولہا میاں عرضیاں لکھیں؟‘‘
’’آپ کے حکم کی تعمیل ہوئی ہے۔‘‘ میں نے ادب سے کہا اور عرضیاں نکال کر اس کی طرف بڑھا دیں۔ وہ قہقہہ مار کر ہنس پڑا تھا۔
’’واہ… یہ خوب رہی…‘‘
’’کیا مطلب… میں سمجھا نہیں۔‘‘
’’ارے بھائی، ہم پڑھ سکتے تو لکھ بھی لیتے، کیوں تکلیف دیتے، پڑھ کر سنائو۔‘‘ اس نے کہا اور میں اسے عرضیاں پڑھ کر سنانے لگا۔ اس نے آنکھیں بند کر لی تھیں اور خاموشی سے ساری عرضیاں سننے لگا تھا۔ میں نے آخری عرضی بھی پڑھ کر سنا دی۔ وہ کچھ دیر خاموش رہا پھر بولا۔ ’’شامی او شامی…‘‘
’’جی بڑے بابا…‘‘
’’آدمی تو کام کے لگتے ہیں۔‘‘
’’اچھے لوگ ہیں بڑے بابا، نمازی پرہیزگار بھی ہیں۔‘‘
’’خیال رکھنا ان کو کوئی تکلیف نہ ہونے دینا۔‘‘
’’جی بڑے بابا۔‘‘ شامی نے کہا اور پھر وہ عرضیاں لے کر چلا گیا۔ میں نے یا اکرام نے اس وقت کچھ نہیں پوچھا تھا لیکن دوسرے دن جب شامی ملا تو میں نے اس سے پوچھ لیا۔ ’’آج کس وقت عرضیاں لکھنی ہیں شامی۔‘‘
’’دو دن کے بعد… آج منگل ہے…اب جمعرات کو لکھنا ہوں گی، پیر کو فیصلے سنائے جاتے ہیں۔‘‘
’’فیصلے…!‘‘
’’ہاں بڑے بابا فیصلے لکھواتا ہے، یہ کام بھی تمہیں کرنا ہو گا اتوار کو۔‘‘ میں ٹھنڈی سانس لے کر خاموش ہو گیا۔ اکرام، صابر انسان تھا، میرے ساتھ ہر حال میں خوش رہتا تھا۔ اس دوران میں نے تہجد میں مراقبہ بھی کیا اور اپنے لئے حل مانگا مگر خاموشی رہی تھی۔ جمعرات کو پھر بیس عرضیاں لکھیں اور ہر اتوار کو بھورے شاہ صبح صبح میرے پاس آ بیٹھتا۔
’’مسعود نام ہے تیرا رے بھائی۔‘‘
’’ہاں…!‘‘
’’چل بیٹھ جا… منگل کی عرضیوں کے جواب لکھنے ہیں۔‘‘
’’جی شاہ صاحب۔‘‘
’’نا بھائی نا… اللہ کے واسطے ایسی کوئی بات مت کہہ میاں، سب ہمیں بڑے بابا کہتے ہیں، تو بھی بڑے بابا کہہ… یہ شاہ، ولی اور درویش تو اللہ کے نیک بندے ہوتے ہیں، تو ہم جیسے شیطان کو ان سے کہاں ملا رہا ہے۔ بس بڑا بابا کہہ کر کام چلا لیا کر۔‘‘
میں نے ایک بار پھر حیران نگاہوں سے بھورے شاہ کو دیکھا۔ یہ آدمی واقعی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ ایک لمحے اس نے آنکھیں بند رکھیں اور اس کے بعد بولا۔ ہاں پہلی عرضی کیا ہے۔
پہلی عرضی شاکر علی کی تھی جس کا بیٹا ناصر علی مصیبت کا شکار تھا اور بقول شاکر علی کے اس کی بیوی نے اس پر جادو کرا دیا تھا۔ بھورے شاہ ہنس پڑا۔
عورت کا جادو تو ویسے ہی سر چڑھ کر بولتا ہے۔ بڑے میاں کو اپنی بہو سے اختلاف ہو گا۔ یہ کہانی تو ہر گھر میں چل رہی ہے۔ چلو ٹھیک ہے، لکھ دو اس کے آگے کہ سات تعویذ دیئے جائیں گے اور ساتھ فلیتے الگ سے جلانے کے لئے، پڑیا بنا کر رکھنی ہے۔ میں نے اس کی ہدایت کے مطابق اس عرضی پر یہ نوٹ لکھ دیا۔
’’پڑھ کر سنائو۔‘‘ وہ بولا… اور میں نے عرضی پر لکھی ہوئی تفصیلات اسے پڑھ کر سنا دیں۔ دفعتاً اس نے چونک کر مجھے دیکھا اور پھر کہنے لگا۔
’’ارے ہاں اے مسعود بھائی، یہ کام بھی یار تو ہی کر لیجیو، دیکھ سال چھ مہینے یہاں کام کر لے، تو ہمیں سمجھ جائے گا، ہم تجھے سمجھ جائیں گے، پھر ایک لمبی رقم ہم سے لے لیجیو اور یہاں سے دو سو کوس دور چلا جائیو، وعدہ کرتے ہیں خطرہ مول لے لیں گے اور تجھے آزادی دے دیں گے۔ ٹھیک ہے۔‘‘ اس نے بغور مجھے دیکھتے ہوئے پوچھا اور میں گردن ہلانے لگا۔
’’جیسا آپ کا حکم بڑے بابا۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’یہ ہوئی نا بات… اچھا چل آگے کی عرضی پڑھ۔‘‘
یہ دوسری عرضی پاروتی کی تھی جس کا پتی بھوگندر ناتھ کسی بیسوا کے چکر میں پڑ گیا تھا۔ عرضی سنتے ہی بھورے شاہ ہنس پڑا۔
’’بس بس اس کے آگے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، لال پینسل سے نشان مار دے، اس کا کام ہو گیا۔‘‘ میں نے چونک کر اسے دیکھا تو اس نے دوسرا قہقہہ لگایا اور بولا۔ ’’ڈاکو سنتو خان نے اس کے گھر کا پورا پورا صفایا کر لیا ہے، بے چاری کو دھن دولت نہیں چاہئے تھی، پتی چاہئے تھا، سو بھیا پتی اب کہاں جائے گا۔ بیسوا کا کام تو یہی ہے کہ مال لے اور چھوڑ دے۔ سنتو خان نے بے چاری کی مشکل حل کر دی۔ اب اس بیسوا کو دینے کے لئے اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے، ٹکڑے ٹکڑے کو محتاج ہو گیا ہے، چھٹی ہوئی، من کی مراد پوری ہو گئی اس عورت کی، چل آب آگے کی عرضی پڑھ۔‘‘
اور اس کے بعد دوسری عرضیاں پڑھنے لگا اور وہ ان پر اپنے تبصرے اور ہدایات لکھواتا رہا۔ یہ کام ختم ہو گیا تو وہ اٹھ گیا۔ شامی پاس ہی موجود تھا۔ اس نے کہا۔
’’شامی، مسعود کو ہر طرح کی آسائشیں ملنی چاہئیں، کوئی تکلیف نہ ہو اسے، خیال رکھنا…‘‘ بہت سے لوگوں کو تعویذ دینے تھے، کچھ لوگوں کے لئے اس نے الٹی سیدھی جڑی بوٹیاں تجویز کی تھیں، حکمت کی کچھ دوائیں بھی لکھی تھیں۔ غرض سارے کا سارا کھیل دھوکا دہی پر مبنی تھا لیکن سنتو خان والی بات میری سمجھ میں نہیں آئی تھی کہ سنتو خان نے پاروتی کے گھر ڈاکا ڈالا اور اس کے سارے گھر کا صفایا کر دیا۔ اس طرح اس کا مسئلہ حل ہو گیا۔ بہرحال ابھی اس بارے میں کچھ معلومات حاصل کرنے کا وقت نہیں آیا تھا لیکن جب ان سب کے لئے تعویذ اور جڑی بوٹیاں لکھنے کے لئے بیٹھا تو میرے ہاتھ پر سحر طاری ہو گیا۔ جو کچھ اس نے بتایا تھا، وہ نہ لکھا، تعویذوں میں بسم اللہ لکھا اور فلیتوں میں شیطان پر لعنت کے الفاظ میرے قلم سے خودبخود درج ہو گئے اور انہی چیزوں کو میں نے پڑیوں کی شکل میں ہر عرضی کے ساتھ رکھ دیا۔ ایک انوکھا لیکن دلچسپ کام تھا اور اکرام میرے ساتھ ان کاموں میں شریک تھا۔
دس دن پندرہ دن، پھر تقریباً ڈیڑھ ماہ گزر گیا۔
صبر و سکون سے ہم نے سارا وقت گزارا تھا۔ عبادت الہٰی سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے۔ ہمارا تمام وقت اسی طرح گزر جاتا تھا۔ اکرام کے چہرے پر شکن بھی نہیں آئی تھی۔ اس نے بھی اس ماحول کو قبول کر لیا تھا۔ ان لوگوں کو ہم پر مکمل اعتماد ہو گیا تھا، اس لئے اب کبھی کبھی ہمیں غار سے باہر بھی لے آیا جاتا تھا لیکن یہ سورج ڈھلنے کے بعد ہوتا تھا۔ پہلی بار جب شامی کھلے آسمان کے نیچے لایا تو میں نے اس سے پوچھ لیا۔
’’کیا آج کل شیر یہاں جھاڑو دینے نہیں آ رہے۔‘‘ میری بات سن کر شامی ہنس پڑا۔
’’کیوں ملنا چاہتے ہو شیروں سے؟‘‘
’’کیا مطلب۔‘‘
’’یہاں بیٹھو، ملائے دیتا ہوں۔‘‘ وہ ہمیں بٹھا کر ایک طرف چلا گیا اور پھر چند ہی لمحات کے بعد ہم نے شیر کے دھاڑنے کی آواز سنی۔ اکرام تو اچھل کر کھڑا ہو گیا تھا۔ میں بھی حیرانی سے اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ شیر تو کہیں نظر نہیں آیا مگر اس کے دھٓاڑنے کی آواز کئی بار سنائی دی۔ پھر شامی واپس آ گیا۔ اس نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’ملے شیر سے۔‘‘
’’تو یہ ہے خانقاہ کا شیر۔‘‘
’’سارا کھیل ایک جیسا ہے۔ مگر تم اس دنیا کو دیکھو، کیسی انوکھی ہے یہ دنیا۔ کسی بیوپاری کے پاس چلے جائو، تمہارے بدن کی کھال اتار لے گا، وہ چکر دے گا تمہیں کہ گھن چکر بن جائو گے۔ ڈاکٹر کے پاس چلے جائو انسانی ہمدردی سے ہٹ کر وہ تمہاری مالی حیثیت کا جائزہ لے گا، تمہاری بیماری کو آسمان پر پہنچا دے گا۔ وکیل، سرکاری افسر، ہر شعبے کا انسان اپنی دولت کے دروازے کھولے رکھتا ہے۔ اسے اپنے فن میں مہارت حاصل ہے، وہ ذہین ہے، چالاک ہے، دوسروں کو احمق بنانا جانتا ہے لیکن اتنی ہی خوشی سے وہ یہاں احمق بننے آ جاتا ہے۔ منتیں مرادیں مانگتا ہے۔ کسی کا تُکا لگ جاتا ہے، جس کا کام نہیں ہوتا وہ اسے تقدیر سمجھتا ہے۔ اس کی عقیدت کم نہیں ہوتی، جس طرح وہ اپنا کام کرتا ہے اسی طرح ہم بھی اپنا کام کرتے ہیں، آج کل ہر چیز پبلسٹی سے ہوتی ہے۔ ہمارا پبلسٹی کا شعبہ بھی سرگرم رہتا ہے اور ہم اپنی پروڈکٹ کی پوری پبلسٹی کرتے ہیں۔‘‘
’’پبلسٹی کا شعبہ؟‘‘
’’ہاں۔ ہمارے ملازم۔ ہمارے نمائندے اسی شہر میں نہیں، آس پاس کی متعدد بستیوں میں بکھرے ہوئے ہیں، سب کو تنخواہیں ملتی ہیں، وہ بھورے شاہ کی کرامتوں کی کہانیاں سناتے ہیں۔ شعبدہ گری کرتے ہیں۔ مختلف طریقے ہوتے ہیں اس کے، کوئی اچانک پاگل ہو جاتا ہے، ننگ دھڑنگ سڑکوں پر پھرتا ہے، لوگوں کو پتھر مارتا ہے، ہمارے چند نمائندے اسے پکڑ کر یہاں لے آتے ہیں۔ یہاں اسے دعائیں دی جاتی ہیں، تعویذ دیئے جاتے ہیں اور اس کا علاج ہوتا ہے۔ کچھ دن میں وہ بھلا چنگا ہو کر چلا جاتا ہے اور لوگ بھورے شاہ پر عقیدت کے پھول برساتے ہیں۔ کاروبار حیات کے رنگ ایسے ہی بدل گئے ہیں دوست۔ اسی طرح خانقاہ کا شیر ہے۔ شیروں کی اقسام میں اس کا اضافہ بھی کر لو، جنگل کا شیر، قالین کا شیر، خانقاہ کا شیر۔‘‘ شامی قہقہے لگانے لگا۔
’’شامی۔ یہ بھورے بابا کیا ہے؟‘‘
’’آدمی ہے۔ مکمل آدمی ہے۔ اپنے فن کا استاد۔‘‘
’’وہ کس قسم کا آدمی ہے؟‘‘
’’میرے خیال میں اس دور کا ایک کامیاب آدمی۔‘‘
’’تمہاری تعلیم کیا ہے؟‘‘ میں نے اچانک پوچھا۔
’’ارے۔ یہ بھورے شاہ سے اچانک مجھ پر کیوں آ گئے؟‘‘
’’تمہاری باتیں سن کر۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’تمہاری گفتگو بتاتی ہے کہ تم کافی پڑھے لکھے آدمی ہو مگر عرضیاں تم مجھ سے لکھواتے ہو۔ کیوں؟‘‘
شامی ہنس پڑا، پھر بولا۔ ’’کہاں کی باتیں کر رہے ہو دوست۔ جو تعلیم اسکولوں میں دی جاتی ہے وہ کس کے پاس ہوتی ہے۔ اصل معلم وقت ہے، وہی سب کچھ سکھاتا ہے۔ وہی میرا استاد ہے۔ اسی کی سکھائی ہوئی باتیں دہرا رہا ہوں میں۔ لکھنا پڑھنا بالکل نہیں جانتا۔‘‘
’’بھورے بابا بھی عجیب سا انسان ہے۔‘‘
’’کس لحاظ سے؟‘‘
’’وہ جو کچھ کر رہا ہے، خود ہی شدت سے اس کی نفی کرتا ہے۔ میں نے اسے جب بھی شاہ یا درویش کہا، وہ جیسے تڑپ سا گیا۔ اس نے شدت سے مجھے اس کے لئے منع کیا۔‘‘
’’ضمیر تو ہر شخص کا ہوتا ہے نا، اور ضمیر اگر زندہ ہوتا ہے تو سچ بولتا ہے…سچ سنتا ہے۔‘‘
’’مگر ضمیر کے خلاف عمل تو ضمیر کو قتل کر دیتا ہے۔‘‘
’’بعض اوقات ایسے دوراہے آ جاتے ہیں جہاں انسان کو کسی ایک کے قتل کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ بھورے بابا کے سامنے بھی ایسا ہی ایک دوراہا آگیا تھا۔ اگر وہ ضمیر کو قتل نہ کرتا تو اسے خود قتل ہونا پڑتا۔ مگر اسے زندہ رہنا تھا اپنے لئے نہیں، کسی اور کے لئے۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ میں نے دلچسپی سے پوچھا۔
’’اب تم مجھے قتل کروانا چاہتے ہو۔ بھورے بابا کے بارے میں اتنی بات بھی تم سے ہو گئی ہے جب کہ برسوں سے یہاں رہنے والے بھی اس کے بارے میں اتنا نہیں جانتے۔‘‘ شامی نے کہا۔
’’لیکن شامی۔‘‘
’’بس بس بابا بس۔ مجھے زندہ رہنے دو۔‘‘ شامی نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔ پھر بولا۔ ’’چلو۔ چلو۔ زیادہ وقت ہو گیا ہے۔ کہیں شیر نہ آ جائے۔‘‘ وہ ہنس پڑا۔
ہم غار میں آئے۔ اکرام نے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’کوئی بہت ہی پُراسرار کہانی چل رہی ہے مسعود بھائی۔ بڑا انوکھا کردار ہے اس بھورے شاہ کا۔‘‘
’’ہاں۔‘‘ میں نے گہری سانس لے کر کہا۔
مزید کچھ دن گزر گئے۔ معمولات جاری تھے۔ ایک رات اچانک بھورے شاہ عجیب سی کیفیت میں ہمارے غار میں گھس آیا۔ وہ تنہا تھا۔ اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ بال بکھرے ہوئے تھے۔ بہت منتشر معلوم ہوتا تھا۔ ہمیں خاموشی سے گھورتا رہا۔ پھر اس کی آواز سانپ کی پھنکار کی مانند سنائی دی۔
’’تم کون ہو۔ مجھے اپنے بارے میں سچ سچ بتائو۔ کون ہو تم۔ اور سچ نہ بولے تو۔ تو۔ تو!‘‘ اس کے دانت بھنچ گئے اور آنکھیں خون اُگلنے لگیں۔
میں نے پریشان نظروں سے بھورے شاہ کو دیکھا۔ اس کی اس کیفیت کا صحیح اندازہ نہیں ہوپا رہا تھا۔ تاہم میں نے حلیمی سے کہا۔
’’کوئی غلطی ہوگئی بڑے بابا؟‘‘ میرے اس سوال پر وہ سانپ کی طرح بل کھانے لگا۔ بڑے اضطراب کا اظہار ہو رہا تھا اس کی کیفیت سے۔ اس نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے خود ہی دوبارہ نرم لہجے میں پوچھا۔
’’ہم جس دن سے یہاں آئے ہیں بڑے بابا! آپ ہی کا نمک کھایا ہے اور یہی کوشش کرتے رہے ہیں کہ کوئی کام آپ کی مرضی کے خلاف نہ ہو۔ اگر کہیں سے ہمارے بارے میں آپ کو کوئی غلط اطلاع ملی ہے تو ہم آج بھی آپ سے وہی سب کچھ کہیں گے جو پہلے کہہ چکے ہیں یعنی مسافر ہیں اور آوارہ گردی کرتے ہوئے ادھر نکل آئے تھے اور اس کے بعد سے یہیں موجود ہیں۔ ہمارا تعلق کسی سے نہیں ہے بڑے بابا! جہاں سے بھی آپ کو کوئی غلط اطلاع ملی ہے، آپ یقین کرلیں کہ وہ غلط ہے۔‘‘
’’ہاتھ جوڑتا ہوں، تمہارے سامنے، ہاتھ جوڑتا ہوں، تمہارے قدموں میں سر رکھتا ہوں۔ خدا کے لئے، خدا کے لئے ایک بے چین روح کو اور زیادہ بے چین مت کرو۔ دیکھو اگر خدا نے تمہیں عزت سے نوازا ہے، اگر اس نے تمہیں اپنی پناہ میں لے رکھا ہے تو کسی انسان کے ساتھ بدسلوکی مت کرو۔ ایک ایسا جلتا سلگتا انسان تمہارے سامنے ہے جس کے اندر آگ دہک رہی ہے جو زندگی ہی میں جہنم پا گیا ہے، جو جہنم سے گزر رہا ہے، اسے اور جہنمی نہ بنائو۔ خدا کے لئے تمہارے ہاتھ جوڑتا ہوں۔ تمہارے قدموں میں سر رکھتا ہوں۔ مجھے اپنے بارے میں بتا دو۔ دیکھو انسان ہوں، ساری برائیوں کے باوجود انسان ہوں۔ اپنے آپ کو گناہوں کی دلدل میں اس قدر ڈوبا ہوا محسوس کرتا ہوں کہ مجھے اس کائنات میں خود سے زیادہ گناہگار اور کوئی نظر نہیں آتا۔ خدا کے لئے مجھے اور گناہوں کی دلدل میں نہ دھکیلو۔ مجھ میں اب قوت برداشت نہیں ہے۔‘‘ اس کی آواز لرز گئی اور آخر میں سسکیوں میں تبدیل ہوگئی۔
اکرام نے حیرت سے مجھے دیکھا۔ میں خود ہی ابھی تک کچھ سمجھ نہیں پایا تھا۔ آگے بڑھا اور اس کے شانے پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔
’’نہیں بڑے بابا۔ میں… میں تمہارا نمک خوار ہوں۔ یہ سب کچھ نہیں چاہتا میں۔ مجھے بس وہ بات بتا دو جس کی بناء پر تمہیں مجھ پر شک ہوا ہے۔‘‘
’’بات بتا دوں۔ میں نے تمہارے ساتھ بدسلوکی کی ہے حالانکہ تم وہ نہیں ہو جو نظر آتے ہو۔ مجھے یقین آگیا ہے کہ تم بہت کچھ ہو۔ میں نے تمہیں جاگتی آنکھوں سے تو نہیں دیکھا لیکن سوتی آنکھوں نے مجھے تمہاری تفصیل بتا دی ہے۔ آہ! کیا بتائوں تمہیں، کن لمحات سے گزر رہا ہوں میں۔ مجھے احساس ہو رہا ہے کہ مجھے زندگی بھر گناہ کرنے کے لئے ہی پیدا کیا گیا ہے۔ کوئی ایک تو نیک کام کرلیتا جو روح کی تاریکیوں میں کسی سفید نقطے کی طرح روشن ہوجاتا۔ بڑی بے حرمتی ہوئی ہے میرے ہاتھوں تمہاری۔ قید کر رکھا ہے میں نے تمہیں، دھمکیاں دی ہیں اور… اور کیا کروں، مزاج ہی ایسا بن گیا ہے۔ اپنی اس بے چینی کو بھی صحیح الفاظ نہیں دے سکتا۔ جاہل مطلق ہوں میں۔ چنانچہ جو کچھ کہتا ہوں، اپنی دیوانگی میں کہتا ہوں۔ جس دن سے تم یہاں آئے ہو، نہ جانے کیا ہو رہا ہے، نہ جانے کیا ہوگیا ہے۔ میں تو لوگوں کے ساتھ فریب کرتا تھا، انہیں غلط دلاسے دیتا تھا، الٹی سیدھی
جڑی بوٹیاں بتا دیا کرتا تھا لیکن جب سے تم نے جواب لکھنے شروع کئے ہیں، جسے دیکھو فائدہ ہورہا ہے، سب کی مرادیں پوری ہورہی ہیں، سارے کام سیدھے ہورہے ہیں۔ وہ سب اتنی نذریں لے کر آرہے ہیں میرے پاس کہ میں خود حیران رہ گیا ہوں اور جو خواب میں نے دیکھے ہیں، ان خوابوں نے مجھے لرزا کر رکھ دیا ہے۔ آہ! میں پاگل ہوگیا ہوں اور اب یہ سوچ رہا ہوں کہ جو کچھ مجھ سے ہوگیا ہے، اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ بابا دیکھو، دیکھو بابا خدا کے لئے بڑا بابا میں نہیں ہوں۔ بڑا بابا تم ہو تم، جو اس طرح یہاں اجنبیوں کی طرح آئے۔ اس خانقاہ میں آکر ٹھہر گئے اور اس کے بعد تم نے لوگوں کو فائدے پہنچانا شروع کردیئے۔ میرے نام سے ہو رہا ہے یہ سب کچھ۔ اللہ کے واسطے مجھے اپنی حقیقت سے آشنا کردو۔ دن رات تمہارے قدموں میں پڑا رہوں گا۔ جب تک سر نہیں اٹھائوں گا تمہارے پیروں سے جب تک تم اپنے منہ سے یہ نہ کہو گے کہ تم نے مجھے معاف کردیا ہے۔ ان تمام گستاخیوں پر جو میں نے تمہارے ساتھ کی ہیں۔ آہ! مجھ گناہگار کو اور کتنے گناہوں سے دوچار ہونا پڑے گا۔ میں بابا صاحب! ایک مضطرب دل کا مالک ہوں۔ وہ دل جس سے سکون کا گزر نہیں ہے۔ جو کچھ دل میں آتا ہے، کر ڈالتا ہوں سمجھے۔ ڈاکے بھی ڈالتا ہوں میں، ڈاکو سنتو خان کی حیثیت سے میرا نام ان علاقوں میں گونج رہا ہے۔
راتوں کو میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ خانقاہ سے نکلتا ہوں، بستیوں میں لوٹ مار کرتا ہوں، خونریزی نہیں کرتا میں، کیونکہ انسانی زندگی کو لینے کا حق مجھے نہیں ہے لیکن لوگوں کو قلاش ضرور کردیتا ہوں اور یہاں بھی میں ڈاکا زنی کرتا ہوں لوگوں کی جیبوں پر، ان کی معصوم آرزوئوں کو جھوٹے دلاسے دے کر انہیں حسرتوں کا شکار کردیتا ہوں۔ جس کا کام نہیں بنتا، وہ اسے اپنی تقدیر سمجھ لیتا ہے اور جس کا کام بن جاتا ہے، وہ چڑھاوے چڑھاتا ہے اس جعلی خانقاہ پر، اس جھوٹی قبر پر جس میں کچھ نہیں ہے، سوائے اس مشینی عمل کے جو ان کی آرزوئیں تم تک پہنچاتا ہے۔ بابا صاحب! میں یہ گناہ کرتا ہوں اور بابا صاحب میں یہ سب کچھ کرکے خوش نہیں ہوں لیکن کیا کروں، میرے ماضی نے مجھے یہ صورت دی ہے بابا صاحب۔ میری یہ صورت اسی دنیا نے بنائی ہے۔ میرا قصور نہیں ہے۔ میں جب بھی تنہائی میں بیٹھتا ہوں، اپنا حساب کرتا ہوں تو اپنے آپ کو بے قصور سمجھتا ہوں لیکن بابا صاحب! پھر وہ سکون کہاں ہے جو انسانوں کے دلوں کو میسر ہوتا ہے۔ یہ سب جو میرے ساتھی ہیں، یہ سب سکون سے کھاتے ہیں، پیتے ہیں، آرام کی نیند سو جاتے ہیں لیکن میں نیندوں سے محروم ہوں۔ میرے کانوں میں وہ معصوم آہیں اور سسکیاں گونجتی رہتی ہیں جو میرے ذریعے مصیبت کا شکار ہونے والوں کی ہوتی ہیں۔ بابا صاحب! میں یہ سب کچھ کررہا ہوں لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں اپنے لئے کیا کروں۔ آہ! مجھے … مجھے سہارا دیجئے، مجھے مدد چاہئے، مجھے مدد چاہئے۔‘‘ وہ بلک بلک کر رونے لگا۔ اس طرح رو رہا تھا وہ کہ میرا دل موم ہوا جارہا تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ شخص ہے کیا چیز… جو کچھ کہہ رہا ہے، اس کی شخصیت اس سے بالکل مختلف ہے لیکن انداز بتاتا ہے کہ وہ اپنی ذات میں ٹکڑے ٹکڑے ہے۔ کیوں… آخر کیوں۔ اس کے علاوہ اس نے جو انکشاف کیا تھا، اس نے مجھے لرزا کر رکھ دیا تھا۔ وہ رات مجھے یاد آگئی تھی جب ہم یہاں پہلی بار آئے تھے اور رات کی تاریکی میں ہم نے کچھ لوگوں کو سامان سے لدے پھندے یہاں آتے ہوئے دیکھا تھا۔ ڈاکو سنتو خان! گویا… گویا یہ جگہ باقاعدہ جرائم کا اڈہ ہے اور اس کا سربراہ یہ شخص ہے لیکن یہ بلکتا ہوا آدمی قابل رحم تھا۔ اس کے اندر احساس گناہ تھا۔ ایک گناہگار کو سزا دینا اللہ کا کام ہے لیکن ایک بلکتے ہوئے انسان کو دلاسہ دینا ہر اس شخص کا فرض ہے جو اس کے سامنے موجود ہو اور اگر ایک برا انسان کسی کی کوششوں سے اچھے راستے پر آسکے تو پھر یہ ایک فرض بن جاتا ہے۔ میں نے ایک لمحے سوچا پھر اکرام سے کہا۔
’’اکرام! پانی لائو۔‘‘ اکرام نے فوراً ہی میرے حکم کی تعمیل کی۔ اب میرا دل اس شخص کی جانب راغب ہوگیا تھا اور جو کچھ میرے بس میں تھا، وہ میں اس کے لئے کرنا چاہتا تھا۔ اکرام کا لایا ہوا پانی میں نے اسے اپنے ہاتھ سے پلایا اور اس کی پشت پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔
’’دوست! دنیا میں کوئی کچھ نہیں ہوتا۔ بس یوں سمجھ لو، ہر شخص کی کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ تم نے اپنا دکھ مجھ سے کہا، میں اسے سن کر تمہیں دلاسہ دینا چاہتا ہوں۔ بہت سی باتیں ہوں گی اس دوران۔ لیکن… لیکن اس وقت جب تم اپنے دل کی ساری بھڑاس میرے سامنے نکال دو گے، مجھے اپنی زندگی کے ایک ایک لمحے سے آشنا کردو گے۔ میں اس کے بعد تمہارے لئے دعائیں ہی کرسکتا ہوں کہ اللہ تمہیں ان نیک راستوں پر لے آئے جن سے تم دور ہوگئے ہو۔ توبہ کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں اور اس کے لئے ہمیں صاف الفاظ میں ہدایت کر دی گئی ہے کہ کبھی رحمت ایزدی سے ناامید نہ ہوا جائے۔ چنانچہ تم جو کوئی بھی ہو، اگر تمہارا دل گوارا کرے تو اپنے دل کو میرے سامنے خالی کردو، میں خلوص دل سے تمہارے لئے دعائیں کروں گا حالانکہ مجھ ناچیز کی حیثیت ہی کیا لیکن اللہ تعالیٰ کبھی کبھی اپنے ان بندوں کی سن لیتا ہے جو خلوص سے کچھ مانگتے ہیں۔ مجھے بتائو کون ہو تم، تمہاری کہانی کیا ہے، کوئی بات راز نہ رکھنا۔ اب تو میری سمجھ میں یہ بھی نہیں آتا کہ تمہیں کس نام سے پکاروں۔ بھورے شاہ کہوں، سنتو خان کہوں یا بڑے بابا کہوں؟‘‘
’’نہ میں بھورے شاہ ہوں، نہ سنتو خان ہوں، نہ بڑا بابا ہوں۔ میرا نام نادر ہے۔ نادر حسین، یہ میرا اصل نام ہے۔ بابا صاحب! میں کسی زمانے میں صرف نادر حسین تھا۔ ایک معصوم دیہاتی، ایک ایسے گھرانے کا فرد جس کے بارے میں لوگ کچھ نہیں کہتے تھے کیونکہ وہ گھرانہ قابل ذکر ہی نہیں تھا۔ میرا باپ کسان تھا، ماں تھی، دو بہنیں تھیں۔ ایک چھوٹی ایک بڑی۔ یہ کنبہ تھا ہمارا۔ میرا باپ اس کنبے کی پرورش کرتا تھا، میں بھی حسب توفیق اس کا ہاتھ بٹاتا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ میرے باپ کو سانپ نے کاٹ لیا۔ کھیتوں پر کام کررہا تھا کہ سانپ نے اس کی پنڈلی میں کاٹ لیا۔ زہر چڑھ گیا۔ اس کی پنڈلی پر بند باندھ کر زہر کو آگے بڑھنے سے تو روک دیا گیا لیکن اس کی ٹانگ کا علاج نہیں ہوسکا۔
ہمارے پاس نہ تو پیسے تھے نہ وہ ذرائع کہ ہم کسی اچھی جگہ باپ کا علاج کرا سکتے۔ بس میونسپلٹی کے ڈاکٹر نے میرے باپ کی ٹانگ کاٹ دی اور اس طرح ہمارے ہاں ان مصائب کا آغاز ہوگیا جو انسانی زندگی کو کہیں سے کہیں لے جاتے ہیں۔ فاقے شروع ہوگئے ہمارے گھر میں… میرا باپ، چوہدری کے کھیتوں پر کام کرتا تھا مگر چوہدری نے مجھے اس کی جگہ نوکر نہیں رکھا۔ اس کے دل میں برائی آگئی تھی۔ میری بہن کو دیکھ لیا تھا اس نے۔ نوجوان تھی، خوبصورت تھی۔ میری ماں فریاد لے کر گئی تھی اس کے پاس۔ بدنگاہ چوہدری نے ایک منصوبہ تیار کیا۔ وہ اپنی بیوی سے بہت ڈرتا تھا۔ اس کے خلاف کچھ نہیں کرسکتا تھا مگر چوہدری نے اسے شیشے میں اتار لیا۔ وہ بانجھ تھی، اولاد نہیں ہوتی تھی اس کے ہاں۔ ایک دن وہ ہمارے گھر آگئی۔ میری ماں سے اس نے کہا۔
’’تمہاری پریشانی دیکھی نہیں جاتی۔ ایک خیال لے کر آئی ہوں تمہارے پاس۔‘‘
’’حکم دیں بیگم صاحبہ۔‘‘ میری ماں نے کہا۔
’’تمہیں پتا ہے کہ میرے ہاں اولاد نہیں ہوتی۔‘‘
’’اللہ کرم کرے گا بیگم صاحبہ۔‘‘
’’میں نے چوہدری صاحب کو بڑی مشکل سے تیار کیا ہے۔ ایک راستہ ہے میرے سامنے، تمہاری بڑی بیٹی شمو ہے نا؟‘‘
’’ہاں…‘‘ میری ماں نے لرز کر کہا۔
’’اس کا نکاح چوہدری صاحب سے کردو… حق مہر میں ہم ایک باغ اور دس بیگھے زمین دیں گے۔ تمہارے بھی دلدر دور ہوجائیں گے۔ یہ کام بالکل خاموشی سے ہوگا، کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوگی۔ شمو میرے پاس رہے گی۔ بولو کیا کہتی ہو؟‘‘
’’نکاح…‘‘ میری ماں نے دہشت سے کہا۔
’’ایک اولاد پیدا ہوجائے اس سے تو چوہدری صاحب خاموشی سے اسے طلاق دے دیں گے۔ جو اسے دیا ہوگا سب، تمہارا بچہ میرا کہلائے گا۔ بعد میں تم شمو کا بیاہ کردینا، کس کو پتا چلے گا۔‘‘
’’کیا کہہ رہی ہو بیگم صاحبہ…‘‘ میری ماں بمشکل بولی۔
میں نے بھی سن لیا تھا۔ خون کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگا تھا میرے وجود میں، پاگل ہوگیا تھا میں۔ آگے بڑھ کر میں نے بیگم صاحبہ سے کہا۔
’’فوراً گھر سے نکل جائو بیگم صاحبہ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے آدمی تمہاری لاش لینے آئیں۔‘‘
’’تو ایسی کون سی بری بات کہہ دی میں نے…آئے ہائے ایک تو احسان کررہے ہیں۔ چلو ٹھیک ہے بھوکے مرو گے تو خود آئو گے۔‘‘
خون کے سارے گھونٹ سینے میں اتار لئے میں نے، اپنا لہو خود چاٹ لیا۔ معذور باپ، بے کس ماں، جوان بہنوں کا میرے سوا کوئی سہارا نہیں تھا۔ ان کے لئے مجھے زندہ رہنا تھا، صبر کرنا تھا، میں نے صبر کرلیا۔ ہم نے کسی سے کچھ نہیں کہا۔ پیٹ بھرنے کا سہارا چاہئے تھا۔ سب کو پالنا تھا، سب کچھ بھلا دینا تھا۔ کوشش کی کچھ کامیابی حاصل ہوگئی۔ راجہ خان لوہار کے ہاں نوکری مل گئی۔ بھٹی کا پنکھا چلانے کی، گھن چلانے کی۔ روٹیوں کا سہارا ہوگیا۔ راجہ خان بہت برا آدمی تھا۔ جوا کھیلتا تھا، تاڑی پیتا تھا۔ چار، چھ دن کام کرکے کما لیا۔ چار، چھ دن بیٹھ کے کھا لیا۔ مجھے بھی کچھ نہ کچھ مل جاتا تھا۔ اس کے گھر میں بھی آنا جانا تھا۔ اس کی بیوی رشیدہ بڑی نیک عورت تھی۔ نمازی، پرہیزگار، شوہر کی برائیوں کو چھپانے والی۔ بے اولاد تھی۔ مجھے بھائی کی حیثیت دینے لگی۔ وہ میری مدد بھی کرتی تھی۔ خود اچھے گھر کی تھی۔ ماں باپ بھی لیتے دیتے رہتے تھے۔ برے وقت کے لئے پیسے بچاتی تھی کیونکہ شوہر ناقابل بھروسا تھا۔ ان پیسوں میں سے وہ میری مدد کرتی تھی۔ میری مجبوریوں نے مجھے اس کی مدد لینے پر آمادہ کردیا تھا مگر بدکار راجہ نے ان باتوں کو دوسری نگاہوں سے دیکھا اور ایک دن تاڑی کے نشے میں اس نے اپنی بیوی کو مار مار کر زخمی کردیا۔ میں معمول کے مطابق بھٹی پہنچا تھا۔ راجہ تو موجود نہیں تھا مگر رشیدہ کے پورے چہرے پر نیل پڑے ہوئے تھے۔ زخمی سر پر پٹی کسی ہوئی تھی۔
’’ارے، یہ کیا ہوا؟‘‘
’’کچھ نہیں، تو جا اپنا کام کر۔‘‘
’’مارا ہے راجہ بھیا نے؟‘‘
’’نادر… تو اپنا کام کر… تجھے کیا ان باتوں سے، جا بھٹی سلگا، نہیں تو راجہ بگڑے گا۔‘‘
’’کیوں مارا ہے اس نے تجھے؟‘‘ میں نے دلسوزی سے کہا۔
’’شوہر ہے وہ میرا۔ میں جانوں، وہ جانے… تو بلاوجہ بیچ میں آرہا ہے۔‘‘ میں نے افسردگی سے گردن جھکا لی۔ پھر آہستہ سے کہا۔
’’بھائی بھی تو کہتی ہے تو مجھے رشیدہ۔ مگر… میں غیرت مند بھائی کہاں ہوں، میں تو خود تجھ سے پیسے لیتا ہوں۔‘‘ میرے ان الفاظ پر وہ تڑپ گئی۔ آگے بڑھی اور میرا سر سینے سے لگا لیا۔
’’یہ پیسوں کا ذکر تو بیچ میں کیوں لے آیا رے۔ ایسی بیکار باتیں مت کیا کر۔‘‘ اور پھر اس کا چہرہ دہشت سے سفید گیا۔ وہ سہمی ہوئی آنکھوں سے دروازے کو دیکھ رہی تھی۔ (جاری ہے)

Latest Posts

Related POSTS