مسعود کی ملاقات کالے جادو کے ماہر بھوریاچرن سے کیا ہوئی، اس کی پوری زندگی گویا اندھیروں میں ڈوب گئی۔ بھوریا نے مسعود کو اپنا آلۂ کار بنانا چاہا لیکن اس کے انکار پر اس کا دشمن بن گیا۔ اس نے مسعود کو ذہنی اور جسمانی اذیتوں سے دوچار کرکے اسے تباہ و برباد کردیا تاہم اس کے انکار کو اقرار میں نہ بدل سکا۔ انہی حالات میں مسعود کچھ خاص ہستیوں کی نظر میں آیا اور ان کی مہربانیوں کے نتیجے میں شیطانی طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے لائق ہوگیا تاہم بھوریا اب بھی اس کے تعاقب میں تھا۔ مسعود کو خدمتِ خلق کا فریضہ سونپ دیا گیا تھا جسے وہ بخوبی نباہ رہا تھا۔ اسی دوران اس کی ملاقات ایک مظلوم لڑکی سے ہوئی جس کی زبان بھوریا نے اس لئے کاٹ ڈالی تھی کہ اس کے بھائی اکرام کو اپنے قابو میں کرکے اسے اپنا آلۂ کار بنا سکے۔ اس نے دونوں بہن بھائی کو ایک دوسرے سے جدا کردیا تھا۔ مسعود کو اس بے زبان لڑکی سے محبت ہوگئی لیکن حالات کے تحت وہ اس سے دور ہونے پر مجبور ہوگیا۔ پھر ثریا کا بھائی اکرام اسے مل گیا لیکن اب ثریا کا کوئی پتا نہیں تھا۔ وہ دونوں ثریا کی تلاش میں نکلے جبکہ اس دوران مسعود کا خدمتِ خلق مشن بھی جاری تھا۔ اتفاقاً وہ ایک ایسی خانقاہ تک جاپہنچے جسے ایک جعلی پیر بابا چلا رہا تھا۔ بعد میں اس نے اپنی کہانی سنائی تو معلوم ہوا کہ وہ حالات کا ستایا ہوا تھا اور مجبوراً اس نے یہ ڈھونگ رچا رکھا تھا۔ پھر اچانک پیر بابا کا ذہنی توازن خراب ہونے پر خانقاہ کا انتظام مسعود کو سنبھالنا پڑا۔ وہ کلامِ الہٰی کی مدد سے وہاں آنے والے سائلین کی مدد کرنے لگا۔ انہیں سائلین میں ایک روز مسعود کو اپنی بچھڑی ہوئی بہن شمسہ دکھائی دی جو اپنے ظالم شوہر کے خلاف فریاد اور اس کی سدھر جانے کی منّت لے کر وہاں آئی تھی۔ مسعود کچھ مصلحتوں کے تحت اس کا سامنا کرنا نہیں چاہتا تھا لیکن اکرام نے مسعود کو اس کی دادرسی پر مجبور کیا تو مسعود کو آگے بڑھنا ہی پڑا۔
(اب آپ آگے پڑھیے)
٭…٭…٭
’’کمینہ، کتا، میرے بچوں کو… میرے بچوں کو!‘‘ فیضان بے قابو ہو کر پھر اپنے دوست کی طرف دوڑا لیکن اکرام نے اسے کمر سے پکڑ لیا۔
’’وہ بے ہوش ہے۔ جذباتی ہونا بیکار ہے۔ اب یہ بتائو بھائی کہ آگے کیا کرنا ہے۔‘‘
’’یہ میرا بہت پرانا دوست تھا، بڑا مان تھا مجھے اس پر۔‘‘ فیضان نے کہا۔
’’اس کی اصلیت معلوم ہوگئی۔ افسوس کرنا بیکار ہے۔ تم دونوں جن راستوں کے راہی تھے وہ اچھے تو نہیں تھے۔‘‘
’’ہاں۔ احساس ہوگیا۔ آخر احساس ہو ہی گیا۔ مگر…‘‘ وہ خاموش ہوگیا۔ کچھ دیر کے بعد بولا۔ ’’یہیں کے رہنے والے ہو؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ اکرام نے جواب دیا۔
’’کچھ اور رحم کرو گے ہم پر، تین معصوم بچوں اور ایک مظلوم عورت پر۔‘‘ اس کی آواز میں عجیب سی پشیمانی تھی۔
’’مظلوم عورت پر۔ تو کیا وہ تمہاری بیوی نہیں ہے؟‘‘
’’ہے تو سہی۔ اللہ کے سامنے تو میں نے یہی اقرار کیا تھا کہ اس کا محافظ بنوں گا۔ مگر وعدہ پورا نہیں کیا میں نے۔ جو ہونا تھا وہ ہو چکا ہے، کیا کر سکتا ہوں۔ ظلم کئے ہیں میں نے اس پر۔ کاش آنکھ نہ کھلتی۔ اس سے بھی معافی نہیں مانگوں گا۔ جھوٹ سمجھے گی۔ کبھی یقین نہیں کرے گی۔ کوئی فائدہ بھی نہیں، کر کیا سکوں گا اس کے لئے۔ بیکار ہے۔ ارے ہاں اپنی بات لے بیٹھا۔ تم سے رحم کی بھیک مانگ رہا تھا، اپنی کہانی سُنانے لگا۔‘‘
’’بولو کیا چاہتے ہو؟‘‘
’’اس سے تو دُشمنی ہوگئی۔ اب اس کے ساتھ تو رہا نہیں جا سکتا، تھوڑی سی مدد کر دو۔ عارضی طور پر سر چھپانے کی جگہ دے دو، کچھ کمانے کی کوشش کروں گا، پھر یہاں سے کہیں اور نکل لوں گا۔ یہ مت سمجھنا کہ نیکی گلے پڑ گئی۔ مجبوری ہے، چھوٹے بچوں کا ساتھ ہے ورنہ کہیں اور نکل لیتا۔ بن سکتی ہے کوئی بات۔‘‘
’’کسی سرائے وغیرہ میں رہو گے؟‘‘ اکرام نے پوچھا۔
’’پیسے نہیں ہیں۔‘‘ فیضان نے جواب دیا۔ اسی وقت شمسہ واپس آ گئی۔ فیضان کو دیکھ کر خوفزدہ لہجے میں بولی۔
’’چھوٹا جاگ گیا تھا، سُلانے میں دیر ہوگئی۔‘‘ فیضان نے آنکھیں جھکا لی تھیں۔ شمسہ نے آگے بڑھ کر پوچھا۔ ’’درد ہو رہا ہے سر میں؟ گھائو گہرا ہے کیا؟‘‘
’’نہیں ٹھیک ہوں۔‘‘
’’چلو فیضان، کچھ سامان ہو تو اُٹھا لو۔‘‘ اکرام نے کہا۔ اس بات پر میں نے بھی چونک کر اکرام کو دیکھا تھا۔ اکرام نے سب کچھ خود سنبھال لیا تھا۔ میری ذہنی کیفیت جانتا تھا اور اس لئے پورے اعتماد کے ساتھ عمل کر رہا تھا۔ ویسے بھی وہ بہت جذباتی ہوگیا تھا۔ شمسہ کے سلسلے میں اور اس کی وجہ بھی میں جانتا تھا۔ وہ خود بھی تو گھائل تھا۔
فیضان نے فوراً اس کی ہدایت پر عمل کیا۔ ٹین کا ایک صندوق اور کپڑوں کی پوٹلی۔ یہ اثاثہ تھا ان کا۔ شمسہ نے پوٹلی شانے سے لٹکائی اور فیضان سے بولی۔ ’’ایک بچّے کو اُٹھا لوگے؟‘‘ فیضان خاموشی سے اس کے پیچھے چل پڑا۔ اس کے پیچھے اکرام اور پھر میں۔ فیضان نے ایک بچّے کو اُٹھایا تو اکرام نے فوراً اپنی گود میں لے لیا۔ شمسہ نے دُوسرے بچّے کو اُٹھایا تو میں نے ہاتھ پھیلا دیئے۔ نرم ننھا سا وجود میری آغوش میں آیا تو محبت کے سوتے کھل گئے۔ بھانجا تھا میرا، ماموں تھا میں اس کا۔ اپنی خوشبو آ رہی تھی اس کے بدن سے، میں نے اسے بھینچ لیا۔ تیسرے بچّے کو فیضان نے اُٹھا لیا۔ اکرام نے صندوق بھی ہاتھ میں لٹکا لیا تھا۔ اسی طرح ہم گھر سے باہر نکل آئے۔ میں جانتا تھا کہ اکرام نے انہیں خانقاہ لے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے عمدہ جگہ ہو بھی نہیں سکتی تھی۔ خانقاہ کا رُخ کرتے ہوئے شمسہ چونکی تھی اور پھر میں نے اسے آنکھیں پھاڑ کر اکرام کو اور خود کو دیکھتے ہوئے پایا تھا۔ مجھے علم تھا کہ اکرام نے اس کی مالی مدد بھی کی ہے۔ ہو سکتا ہے شمسہ اسے پہچانتی ہو لیکن اوّل تو رات اور پھر اس حادثے کی بدحواسی نے اسے اکرام پر غور نہ کرنے دیا ہو۔ مگر اب راستہ طے کرتے ہوئے وہ بار بار ہمیں دیکھ رہی تھی۔
ہم خانقاہ پہنچ گئے۔ میں انہیں اپنی رہائش گاہ میں لے گیا تھا۔ اکرام نے کہا۔ ’’فیضان بھائی۔ آپ اور بہن یہاں آرام سے رہیں۔ اطمینان رکھیں، سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
’’یہ مزار ہے کس بزرگ کا؟‘‘ فیضان نے کہا۔
’’جو کچھ بھی ہے، آپ کو یہاں تکلیف نہیں ہوگی۔‘‘ ہم دونوں انہیں چھوڑ کر باہر نکل آئے۔ ایک کھلی جگہ پتھر پر بیٹھ گئے۔ تاحد نگاہ پُراسرار رات بکھری ہوئی تھی۔ انوکھی کہانیوں کی امین۔ اکرام نے کہا۔ ’’کیسی عجیب کہانی ہے اب آپ کیا سوچ رہے ہیں مسعود بھائی۔‘‘
’’پتہ نہیں اکرام۔‘‘
’’میری کسی بات کو فریب نہ سمجھیں مسعود بھائی۔ میری زندگی کا مقصد، میرا مسلک ثریا کی تلاش تھا۔ وہ مجھے شمسہ کی شکل میں مل گئی ہے۔ اگر وہ ثریا نہیں ہے تو کیا ہوا شمسہ تو ہے۔ بلکہ شمسہ کا مل جانا میرے لئے بڑی ڈھارس کا باعث ہے، جس طرح تقدیر نے مجھے شمسہ دے دی، اسی طرح ثریا بھی ضرور مل جائے گی، میرا ایمان ہے۔ اسے تلاش کرنے کے لیے میں کوئی جدوجہد نہیں کروں گا۔ ہاں انتظار ضرور کروں گا کسی ایسے لمحے کا جو ثریا کو میرے سامنے لے آئے۔ آپ کا مشن الگ ہے اور میں اس میں کوئی مداخلت نہیں کروں گا۔ آپ جس طرح چاہیں اپنا مشن جاری رکھ سکتے ہیں مگر میں اب شمسہ کی خدمت کروں گا۔ اس کی محرومیاں دُور کروں گا۔‘‘ اکرام سخت جذباتی ہو رہا تھا۔ میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
’’کچھ بولیں گے نہیں مسعود بھائی۔‘‘
’’کیا کہوں اکرام؟‘‘
’’میں نے آج پہلی بار کئی کام آپ کی مرضی کے خلاف کر ڈالے ہیں۔ میرا مطلب ہے آپ سے پوچھے بغیر۔‘‘
’’میں نے تمہیں اپنا محکوم کبھی نہیں سمجھا۔‘‘
’’اس عمل سے آپ ناراض تو نہیں ہیں۔‘‘
’’وہ میری بہن ہے اکرام۔ اسے سہارا دیا ہے تم نے۔‘‘ میں نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
’’شکریہ بھیّا، میرا حوصلہ بڑھ گیا ہے۔ میں اس کے لئے سب کچھ کروں گا، جو بن پڑے گا، کروں گا۔‘‘
’’میں ایک درخواست کروں گا تم سے اکرام۔‘‘
’’حکم دیں مسعود بھائی۔‘‘
’’اسے میرے بارے میں کچھ نہ بتانا۔‘‘
’’اوہ‘‘ اکرام آہستہ سے بولا۔ کچھ دیر سوچتا رہا، پھر بولا۔ ’’ٹھیک ہے حالانکہ میں نے سوچا تھا کہ… کہ… خیر آپ جو بہتر سمجھیں۔ ٹھیک ہے میں نہیں بتائوں گا۔‘‘
’’جائو آرام کرو۔ کہیں بھی پڑ رہنا، خانقاہ وسیع ہے۔‘‘ اکرام کچھ دیر خاموش بیٹھا رہا۔ پھر وہاں سے اُٹھ کر ایک طرف چل پڑا۔ میرے دل و دماغ پر شدید بوجھ تھا۔ سخت ہیجان کا شکار ہو رہا تھا۔ شمسہ کو کلیجے میں بھر لینے کو جی چاہ رہا تھا۔ رُواں رُواں چیخ رہا تھا، سارے بدن میں جوار بھاٹے اُٹھ رہے تھے۔ مگر خوف کا شکار تھا۔ پتہ نہیں میرا یہ عمل مجھے کیا سزا دے۔
ابھی اجازت نہیں تھی، ابھی صبر کرنا تھا۔ اکرام کے الفاظ نے جذباتی کر دیا تھا اور میں شمسہ کے پاس پہنچ گیا تھا مگر یہ ضروری تھا۔ بروقت پہنچے تھے ہم لوگ۔ نہ جانے کیاہو جاتا، نہ جانے وہ منحوس شخص میری شمسہ کے ساتھ کیا سلوک کرتا۔ بے چینی عروج کو پہنچی تو آنکھیں بند کر کے مراقبہ کرنے لگا۔ اس وقت مجھے شمسہ کے لئے رہنمائی درکار تھی۔ آہ میں انہی کی محبت سے مغلوب ہو رہا تھا۔ مگر کوئی اشارہ نہیں ملا۔ کچھ نہیں ہوا۔ ایسا ہوتا تھا۔ بعض اوقات چھوٹی سی بات کے لئے اشارے مل جاتے تھے اور بعض اوقات کچھ نہیں پتہ چلتا تھا۔ گویا معاملہ میری صوابدید پر ہے۔ تاہم اس فیصلے پر اٹل تھا کہ شمسہ پر خود کو ظاہر نہیں کروں گا۔ باقی رات بھی سوچتے ہوئے گزری تھی۔ فیضان اب بہتری کی طرف مائل ہے۔ اس کے بارے میں کسی حد تک معلومات حاصل ہوگئی تھیں۔ انہیں ایک نامعلوم مستقبل کے سپرد نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کچھ کرنا ہوگا ان کے لئے، مگر کیا۔
دُوسری صبح شامی میرے پاس آ گیا۔ ’’وہ مسعود بھائی۔ آپ کے کچھ مہمان آئے ہیں۔‘‘
’’ہاں شامی؟‘‘
’’میں آپ سے ملنے گیا تھا مگر وہاں ایک خاتون اور چند بچوں کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔‘‘
’’وہ کچھ دن یہاں رہیں گے شامی۔‘‘
’’ٹھیک ہے مجھے ان کیلئے ہدایات دیدیں۔‘‘
’’ان کی ضرورتیں پوری کرنی ہیں۔ میرے اُوپر تمہارا احسان ہوگا۔‘‘ میں نے سماجت سے کہا۔
’’کیسی باتیں کررہے ہیں مسعود بھائی۔ اندھے تو نہیں ہیں سب لوگ، ہم جانتے ہیں کہ یہاں تمہارے دَم کا ظہور ہے۔ بڑا بابا تو نہ جانے کہاں گم ہوگیا۔ اسے تلاش کرنے کی ہر کوشش ناکام ہوگئی ہے۔ تم نے بس یہ کہہ دیا کہ وہ تمہارے مہمان ہیں، تو سب ٹھیک ہوگیا۔ ہمارا فرض ہے ان کی دیکھ بھال کرنا۔ تم اطمینان رکھو۔‘‘
’’شکریہ شامی۔‘‘ وہاں سے اُٹھ کر خانقاہ میں جا بیٹھا۔ ناشتہ وغیرہ وہیں کر لیا تھا۔ پھر اکرام آ گیا۔
’’شمسہ نے مجھے پہچان لیا ہے مسعود بھائی۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’وہ… آپ نے کچھ پیسے دیئے تھے نا مجھے۔ میں نے خود اسے دیئے تھے، صبح کو مجھے دیکھ کر حیران ہوگئی۔ بہت معصوم ہے وہ… فیضان کے سامنے ہی بول پڑی کہ بھیّا تم وہی ہو جس نے مجھے پیسے دیئے تھے۔‘‘
’’مجھے تو نہیں پوچھا تھا؟‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔
’’پوچھا تھا۔‘‘
’’کیا کہا تھا۔‘‘
’’کہنے لگی دُوسرے بھیّا کہاں ہیں۔‘‘
’’تم نے کیا جواب دیا۔‘‘
’’میں نے کہا۔ وہ کہیں گئے ہیں، کسی بھی وقت واپس آ جائیں گے۔‘‘
’’فیضان کا کیا حال ہے؟‘‘
’’سخت شرمندہ نظر آتا ہے۔ بالکل خاموش ہے، ایک لفظ منہ سے نہیں نکالا اس نے میرے سامنے۔‘‘
’’شمسہ سے کہنا، پردہ نشین لڑکیوں کی طرح اندر رہے، کسی کے سامنے نہ آئے۔‘‘
’’ٹھیک ہے، کہہ دوں گا۔‘‘
’’اس کے بچوں کے کیا نام ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا اور اکرام مجھے ان کے نام بتانے لگا۔ وہ عجیب سی کیفیت کا شکار نظر آ رہا تھا۔ بہرصورت میں نے بڑے ضبط سے کام لیا۔ شمسہ مجھ سے چند قدم کے فاصلے پر تھی۔ دل تو چاہتا تھا کہ اسے ایک لمحہ نگاہوں سے اوجھل نہ ہونے دوں۔ مگر رات کے بعد میں نے اسے دوبارہ نہیں دیکھا تھا۔
شام کو فیضان باہر نکل آیا۔ میں نے اسے مغرب کی نماز پڑھتے دیکھا تھا اور مجھے خوشی ہوئی تھی۔ انسان اللہ کے حضور سربسجود ہو جائے تو برائیاں مرجھا جاتی ہیں۔ اسے خوف ہوتا ہے کہ وہ سر جھکا کر اسے اپنی برائیوں کا کیا جواب دے گا۔ میں اس کے پاس تو نہیں گیا مگر جب شمسہ کے بچّے باہر نکل آئے تو میں خود کو باز نہ رکھ سکا۔ یہ میری بہن کے بچّے تھے۔ میں ان کا ماموں تھا۔ سگا ماموں… میں بے اختیار ہو کر ان کے پاس پہنچ گیا۔ فیضان نے مجھے پہچان لیا۔
’’آپ آ گئے شاہ صاحب۔‘‘
’’کہو کیا حال ہے فیضان میاں؟‘‘
’’حضور سخت زخمی ہوں۔ اپنے زخموں کیلئے مرہم چاہتا ہوں۔‘‘ فیضان سے سسکتی ہوئی آواز میں کہا۔
’’اللہ تمہیں سکون عطا فرمائے۔‘‘ میں نے بچوں سے کھیلتے ہوئے کہا۔
’’دل و دماغ میں سخت ہیجان برپا ہے۔ نہ جانے کیا کیا کہنا چاہتا ہوں مگر کس سے کہوں۔ کیسے دل ہلکا کروں۔ کوئی ہے جو مجھ پر یقین کر لے۔‘‘
’’شمسہ تمہاری بیوی ہے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’نظر ملانے کے قابل نہیں ہوں اس سے، جو کچھ میں نے اس کے ساتھ کیا ہے اللہ اسے کبھی معاف نہیں کرے گا۔‘‘
’’اگر تم شمسہ کے مجرم ہو تو اس سے معافی مانگ لو، اس نے تمہیں معاف کر دیا تو اللہ تعالیٰ تمہیں ضرور معاف کر دے گا۔‘‘
’’بہت شرمندہ ہوں میں اس سے، اس کی شخصیت تباہ کر دی ہے میں نے، بہت ذہین بہت سمجھ دار، بڑی زیرک اور معاملہ فہم تھی۔ اتنا ستایا میں نے اسے کہ اپنی اہلیت کھو بیٹھی۔ تیسرے درجے کی عورت بن گئی وہ۔ سب کچھ اس کے دل میں ہے۔ مجھ سے زیادہ اور کون جانتا ہے اسے۔‘‘ فیضان کی سسکیاں اُبھرنے لگیں۔
’’وہ کیا کہتی ہے۔‘‘
’’اب کچھ نہیں کہتی۔ بہت کچھ کہہ چکی ہے مگر… اس وقت میں نے سُنا نہیں تھا شاہ صاحب۔ میرے کان بند تھے۔‘‘
’’مجھے اپنے ماضی کے بارے میں کچھ بتائو گے فیضان۔‘‘
’’آپ سُن لیں گے شاہ صاحب۔ وعدہ کریں آپ سُن لیں گے۔ آپ مجھے ذلیل کریں گے، خوب ذلیل کریں گے۔ شاہ صاحب، آپ لوگوں نے، آپ نے اور اکرام بھائی نے میری بیوی کی عزت بچائی۔ وہ پاکباز عورت ہے۔ ایک شرابی ایک بدکار انسان ہونے کے باوجود میں اس پر ہر الزام لگانا چاہتا تھا، ہر طرح اسے ذلیل کرنا چاہتا تھا۔ مگر میں اس پر کبھی بدکاری کا الزام نہیں لگا سکا، اتنی ہی پاکیزہ ہے وہ۔ اس کی رگوں میں دوڑنے والا خون ایسے نیک انسان کا خون ہے کہ… کہ اس کی بے حرمتی پر اللہ مجھے کبھی معاف نہیں کرے گا۔‘‘
’’شکریہ فیضان۔‘‘ میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا۔ مگر فیضان جذبات میں اس قدر ڈُوبا ہوا تھا کہ اس نے میرے ان جملوں پر غور نہیں کیا۔ وہ بولا۔
’’بُرے لوگوں کا ساتھ رہا میرا۔ اچھائی پہ نظر ہی نہ گئی۔ یہ بڑا دربار ہے۔ میں سمجھتا ہوں مجھے یہاں جگہ بلاوجہ نہیں ملی ہے۔ شاید میرے گناہوں کا کفارہ ہو جائے۔‘‘ فیضان ڈرتے ہوئے بولا۔
’’ابا کیوں رو رہے ہیں۔‘‘ شمسہ کے بڑے بچّے نے منہ بسورتے ہوئے پوچھا۔
’’کچھ نہیں بیٹے۔ اب یہ ہمیشہ ہنسیں گے، اکرام۔‘‘ میں نے دُور سے گزرتے ہوئے اکرام کو آواز دی۔
’’جی بھائی۔‘‘ اکرام قریب آ گیا۔ اس نے جان بوجھ کر میرا نام لینے سے گریز کیا تھا اور نہ وہ مجھے خالی بھائی کبھی نہ کہتا تھا۔
’’بچوں کو ان کی ماں کے پاس پہنچا دو۔‘‘
’’جی۔‘‘ اکرام بچوں کو لے کر چلا گیا۔ فیضان نے پھر گردن خم کرلی تھی۔ کچھ دیر وہ سوچتا رہا، پھر بولا۔
’’میں سہارنپور میں رہتا تھا۔ ماں باپ مر چکے تھے۔ چار بھائی تھے ہم لوگ۔ تین شادی شدہ تھے۔ میں سب سے چھوٹا تھا۔ بھائیوں کے رحم و کرم پر تھا۔ بھائی مجھ سے بے نیاز تھے۔ احساس محرومی نے مجھے میرے دوستوں کا راہی بنا دیا تھا۔ برائی کی طرف قدم بڑھائو تو دوستوں کی کمی نہیں ہوتی۔ بہت سے بُرے دوست مل گئے تھے مجھے۔ بھاوجیں ہر طرح ذلیل کرتی رہتی تھیں۔ میں نے ایک دن بڑی بھابی سے کہا۔ بھابی میری شادی کر دیں۔‘‘
’’خوب… بیوی کو کہاں رکھو گے۔‘‘
’’یہ گھر میرا نہیں ہے کیا؟‘‘
’’آئینہ دیکھا ہے کبھی۔‘‘
’’کیوں۔‘‘
’’صاف صاف سُنو گے۔‘‘ بھابی بہت تیز طرار تھیں۔
’’اب تو سننا بہت ضروری ہے۔‘‘ میں نے بھی بھاری لہجے میں کہا۔
’’کتنے عرصہ سے کھا رہے ہو ہمارے سر پر… کیا خرچ ہے تہمارا۔‘‘
’’میرا خرچ تو بڑے بھیّا اُٹھاتے ہیں۔‘‘
’’کچھ شرم آئی ہے کبھی۔‘‘
’’آخر کیوں۔‘‘
’’سُنو فیضان غور سے سنو۔ تمہارے تینوں بھائیوں میں سے کوئی تمہارا خرچ اُٹھانے کیلئے تیار نہیں ہے اور کیوں اُٹھائیں وہ تمہارا خرچ، جوان ہو، تندرست ہو، یہ بات ہم سب کے درمیان ہو چکی ہے۔ اس مکان میں تمہارا حصہ تھا۔ آج تک تمہارا خرچ اس میں سے اُٹھایا جا رہا ہے۔ وہ حساب بھی برابر ہو چکا ہے، سمجھ میں آ گیا۔‘‘
بھابی کی بات مجھے بہت بُری لگی۔ مگر میں اس بات پر ناراض نہیں ہوا بلکہ میں نے سنجیدگی سے سوچا۔ واقعی میں بہت پست ہوگیا ہوں۔ میں نے ایک دم خود کو بدل دیا۔ نوکری کی، دوسرے کام کرنے لگا۔ تیز چالاک تھا میں۔ پیسے کمانا مشکل نہ ہوا۔ میں نے اپنی حیثیت بدل لی۔ بھائی بھی خوش تھے۔ بھاوجیں بھی، انہیں بھی بہت کچھ دیتا تھا۔ پرانے دوستوں کو چھوڑ کر، ہر بُری عادت چھوڑ کر مجھے بہت تکلیف ہوئی تھی لیکن میں سب کچھ برداشت کر رہا تھا۔ ایک اچھا انسان بننا چاہتا تھا میں۔ پھر میں نے شمسہ کو دیکھا۔ یہ لوگ نئے نئے ہمارے محلّے میں آ کر رہے تھے۔ شمسہ مجھے بھا گئی۔ اس کے والد صاحب کا نام محفوظ احمد تھا۔ ایک اور صاحب ان کے ساتھ رہتے تھے جن کا نام ریاض احمد تھا۔ کس قدر پریشان حال تھے وہ لوگ مگر شریف تھے۔ بڑی آرزوئوں کے ساتھ میں نے اپنی بھابیوں کو شمسہ کے گھر رشتہ لے کر بھیجا۔ وہاں سے جواب ملا کہ ہم سوچ کر جواب دیں گے۔ میں انتظار کرتا رہا مگر وہاں سے کوئی جواب نہیں ملا۔ ایک بار پھر میں نے بھابیوں سے کہا تو میری منجھلی بھابی نے مجھ پرطنز کرتے ہوئے کہا۔
’’بے کار ہے فیضان، تمہاری شہرت دُور دُور تک ہے۔ کون جان بوجھ کر مکھی نگلے گا۔‘‘
’’اب میں ٹھیک ہو چکا ہوں بھابی۔‘‘
’’ہونہہ… ٹھیک ہو چکے ہو دیکھ لینا جو جواب ملے گا دیکھ لینا۔‘‘
’’اگر ایسا ہوا تو اچھا نہیں ہوگا بھابی۔‘‘
’’کہا نا خود دیکھ لینا۔‘‘
میری بھابی دوبارہ محفوظ احمد صاحب کے گھر گئیں مگر جواب واقعی منجھلی بھابی کے خیال کے مطابق تھا۔ محفوظ احمد صاحب نے کہا کہ تصدیق کرنے سے پتہ چلا ہے کہ لڑکے کا چال چلن اچھا نہیں ہے، اس لیے ہم معذرت خواہ ہیں۔ بھابیوں نے میرا خوب مذاق اُڑایا اور میں جل کر کباب ہوگیا۔ میں خود ان لوگوں سے ملا۔ اپنا نام بتا کر میں نے کہا کہ بیشک میں نے کچھ وقت غلط لوگوں کے ساتھ گزارا ہے لیکن اب میں محنت کر کے روزی کما رہا ہوں۔ میری ذات سے انہیں یا ان کی بیٹی کو کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی۔ مگر شمسہ کے ماموں نے صاف انکار کر دیا۔ میری منت سماجت پر کوئی توجہ نہیں دی اور میرا دماغ پھر اُلٹ گیا۔ میں نے شمسہ کو اپنے چند دوستوں کی مدد سے اغوا کر لیا اور اسے لے کر سہارنپور سے دہلی آ گیا۔ پھر الٰہ آباد پہنچا اور وہاں اس سے نکاح کر لیا مگر ان لوگوں کی ضد نے مجھے پھر انہیں راستوں پر لا ڈالا تھا۔ اس کے بعد میں شمسہ سے انصاف نہیں کر سکا۔ اسے دیکھ کر مجھے اپنی توہین کا احساس ہوتا تھا۔ لیکن شمسہ…‘‘
فیضان خاموش ہوگیا۔ یہ میرے گھر کی کہانی تھی۔ ان سب کی کہانی تھی جن کیلئے میرا دل خون کے آنسو روتا تھا۔
بہت دیر تک خاموشی طاری رہی، پھر تجسس نے سر اُبھارا۔ میں نے کہا۔
’’شمسہ کے والدین پھر تو نہیں ملے فیضان۔‘‘
’’میں تو اپنے بھائیوں سے بھی نہیں ملا۔ ان بیچاروں سے بھلا کیا ملتا۔‘‘
’’تمہارا خاندان سہارنپور ہی میں آباد ہے۔‘‘
’’ہاں۔ وہیں پیدا ہوئے ہم لوگ۔ دادا، پردادا بھی وہیں کے ہیں۔‘‘
’’اور شمسہ کے اہل خاندان۔‘‘
’’وہ کہیں اور سے آ کر آباد ہوئے تھے۔‘‘ فیضان نے جواب دیا۔ فیضان کو کرید کرید کر میں اس دور کا تعین کرنے لگا جب ماموں ریاض مجھے تھانے میں ملے تھے اور انہوں نے مجھے شمسہ کے بارے میں بتایا تھا۔ یہ پتہ چلانا چاہتا تھا کہ کیا وہ لوگ اب بھی وہیں رہتے ہیں۔ فیضان اس بارے میں کچھ نہیں بتا سکا البتہ میں نے اس سے اس کے گھر کا پتہ پوچھ لیا تھا۔
دُوسرا دن عرضیوں کا دن تھا۔ دو دنوں کیلئے تیاریاں ہوتی تھیں۔ خاص خیال رکھا جاتا تھا، باقی دن عام ہوتے تھے حالانکہ خانقاہ کے عقیدت مند عام دنوں میں بھی آجاتے تھے۔ ان پر روک ٹوک نہیں تھی۔ لیکن وہ عام دنوں میں اس جھوٹی قبر پر نہیں جا سکتے تھے۔ بس منگل کو عرضیوں کیلئے اور جمعرات کو ان کے جواب کیلئے وہ اندر جاتے تھے۔ اس ڈھونگ پر میرا دل لرزتا تھا۔ مگر یہ میں نے نہیں رچایا تھا۔ اس کا سلسلہ تو بہت پہلے سے چل رہا تھا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ جس نے اس سلسلے کا آغاز کیا تھا وہ مرتبہ پا چکا تھا اور بڑائی حاصل کر کے نہ جانے کہاں چلا گیا تھا۔ ہم لکیر پیٹ رہے تھے۔ ایک بار اکرام سے اس سلسلے میں بات ہوئی تھی اور اس نے مجھے بہت سہارا دیا تھا۔
’’یہ سب کچھ جو ہم کررہے ہیں اکرام… کیا یہ بہتر ہے؟‘‘
’’کیا مسعود بھیّا۔‘‘
’’ہمیں معلوم ہے کہ یہ سب فریب ہے، نہ یہ کسی کا مزار ہے نہ اس کی کوئی اور اہمیت ہے۔ لوگ اس کے بارے میں توقعات لے کر آتے ہیں اور ہم انہیں جھوٹے سہارے دیتے ہیں۔‘‘
’’وہ سہارے جھوٹے تو نہیں ہوتے بھیّا۔ انہیں فائدہ پہنچتا ہے جو کچھ آپ جانتے ہیں، انہیں بتا دیتے ہیں۔ سب ہی کہہ رہے ہیں کہ جب سے آپ خانقاہ میں آئے ہیں، ضرورت مندوں کو سب کچھ حاصل ہو رہا ہے۔ آپ کے یہاں آنے سے تو فریب کا سلسلہ ختم ہوا ہے اور حاجت مندوں کی اصل ضروریات پوری ہو رہی ہیں۔ بھیّا یہ کم ہے کہ لوگوں کو ڈاکو سنتو خاں سے نجات مل گئی ہے۔ آپ خود بتایئے کیا یہ گناہ ہے۔‘‘
’’مگر وہ ایک جھوٹی آس لے کر آتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر وہ … عام حیثیت سے آتے تو۔‘‘
’’یہ ایک دُکان حکمت ہے بھیّا۔ آپ کسی بھی جگہ یہ دُکان کھول لیتے، اس کی حیثیت اس سے الگ نہ ہوتی۔ وہاں پھر لوگ کھل کر دل کی ہر بات نہ بتاتے۔ روحانی تعلق کچھ اور ہوتا ہے اور کسی اپنے جیسے سے دل کی بات کر لینے کا مسئلہ کچھ اور۔‘‘
’’ہمیں اس فریب سے روزی حاصل ہوتی ہے۔‘‘
’’یہاں وہی کچھ لے کر آتا ہے جسے فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ آپ خود سوچیں اس طرح بہت سوں کو رزق حاصل ہو رہا ہے۔ پہلے یہ لوگ ڈاکا زنی کرتے تھے۔‘‘
میں ٹھنڈی سانس لے کر خاموش ہوگیا۔
عرضیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا اور میں انہیں لکھتا رہا۔ معمول میں کوئی فرق نہیں تھا۔ لیکن بدھ کی رات میرے لئے بڑی کٹھن تھی۔ اس رات مجھے شدید کرب سے گزرنا پڑا۔ عموماً میں ہر عرضی کیلئے مراقبہ کرتا تھا اور میری رہنمائی ہو جاتی تھی۔ لیکن اس رات… اس رات کچھ نہ ہوا۔ سپاٹ اور سنسان رات۔ میرے تمام رابطے ٹوٹ گئے تھے۔ مجھے کوئی اشارہ نہیں ملا تھا اور میرا دل پنکھے کی طرح لرزنے لگا تھا۔ آہ یہ ناپسندیدگی کا اظہار ہے۔ خاموشی کا احساس دلایا جا رہا ہے۔ نافرمانی کا مجرم قرار دیا جا رہا ہے مجھے۔ وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ آخر وہی ہوگیا۔ میں بار بار کوشش کرتا رہا لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔ یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔ مجھ پر عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی تھی۔ دل و دماغ سُن ہوگئے تھے۔ ہر احساس ختم ہوگیا تھا۔ معمولات جاری ہوگئے۔ شمسہ کے بچّے میرے پاس آ گئے، ان میں ایک واقعی میرا ہم شکل تھا۔ میرا بچپن بالکل ایسا ہی تھا اور کیا کروں۔ اور کیا کر سکتا ہوں، وہ میرے پاس ہے۔ میری رہائش گاہ میں ہے مگر وہ نہیں جانتی کہ اس کا برسوں سے بچھڑا ہوا بھائی اس کے اتنا قریب ہے اور میں نے دوبارہ اس کی صورت نہیں دیکھی تھی کہ کہیں محبت عود کر نہ آئے، کہیں سب کچھ کھو نہ بیٹھوں اور کیا کروں… اور کیا کروں؟‘‘
معمول جاری رکھنا تھا۔ عرضیوں کے جواب لکھنے۔ جو سمجھ میں آیا لکھتا رہا۔ شام کو یہ سارے جواب ضرورت مندوں کو پہنچائے۔ طریقہ وہی تھا جو نادر حسین نے ایجاد کیا تھا۔ پھر شمسہ کی آواز سُنائی دی۔
’’سائیں بابا۔ ولی تیرے صدقے واری۔ بگڑی بن گئی
میری تیری دُعا سے۔ میرا گھر والا ٹھیک ہوگیا۔ تیرے خزانے وسیع ہیں ولی۔ تیرے ہاتھ بھرے ہوئے ہیں۔ ہم ہوس کے بندے ہیں، مانگنا ہمارا کام ہے۔ دینا تیرا… گھر بچھڑ گیا ہے میرا۔ ماں باپ بھائی۔ سب ہیں ولی۔ دل تڑپتا ہے ان کیلئے۔ بگڑی بنا دے سائیں۔ ایک بار ملا دے سب سے۔ ایک بار صورت دکھا دے۔ تیرے واری ولی۔ تیرے صدقے سائیں۔‘‘
میں نے آنکھیں بند کرلیں۔ میں شمسہ کا کرب محسوس کر رہا تھا۔ اس کے دل کی چیخیں سُن رہا تھا۔ پھر وہ چلی گئی۔ میرا ذہنی سکوت ختم نہیں ہوا تھا۔
ملاقاتیوں کا وقت ختم ہوگیا۔ شام کو باہر نکلا تو فیضان سے ملاقات ہوگئی۔ مغرب کی نماز پڑھ کر آیا تھا۔ میرے پاس آ گیا۔
’’کیا بات ہے فیضان؟‘‘
’’کچھ نہیں شاہ صاحب۔ میں یونہی قدموں میں بیٹھنے چلا آیا کچھ پوچھنا چاہتا تھا۔‘‘
’’کہو۔‘‘ میں نے کہا۔
’’شاہ صاحب بہت دن ہوگئے مزار کی روٹیاں کھاتے ہوئے۔‘‘
’’کوئی تکلیف ہے۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’بتائو۔‘‘
’’شاہ صاحب۔ یہاں مجھے غیرت کا درس ملا ہے۔ یہاں میری کھوئی ہوئی انسانیت مجھے واپس ملی ہے۔ شاہ صاحب کچھ کرنا چاہتا ہوں۔ محنت مزدوری کر کے اپنے بچوں کا پیٹ بھرنا چاہتا ہوں۔ ہاتھ پائوں باندھ کر نہیں بیٹھنا چاہتا۔‘‘
’’مجھے بتائو، میں کیا کر سکتا ہوں۔ یہاں سے جانے کے خواہشمند ہو۔‘‘
’’یہاں جو سکون حاصل ہوا ہے مجھے، شاید دُنیا میں کہیں اور نہ ملے۔ میرا کوئی اور ٹھکانہ بھی نہیں ہے۔ دراصل باہر محنت کیلئے نکلنا چاہتا تھا۔ اتنا کر لوں کہ بیوی بچوں کو لے کر اس شہر سے چلا جائوں۔ اس وقت تک ہمیں یہاں رہنے کی اجازت مل جائے میں یہی چاہتا ہوں۔‘‘
’’تمہیں کسی نے کچھ کہا ہے۔‘‘
’’نہیں شاہ صاحب، میرے دل میں خود یہ خیال آیا ہے۔‘‘
’’اور تو کوئی بات نہیں ہے؟‘‘
’’نہیں شاہ صاحب۔‘‘
’’تو پھر اس وقت تک یہاں رہو جب تک میں تمہیں جانے کی اجازت نہ دے دوں۔ تمہارے یہاں رہنے سے کسی کو کوئی تکلیف نہیں ہے۔ کوئی احساس ذہن پر طاری نہ ہونے دو۔ ہاں ممکن ہو سکے تو پانچوں وقت نماز پڑھ لیا کرو۔‘‘
’’بہتر ہے شاہ صاحب۔‘‘
’’یہ میری درخواست ہے تم سے۔‘‘ میں نے کہا۔ فیضان نے گردن جھکالی تھی۔ کچھ دیر کے بعد وہ چلا گیا۔ میرے دل و دماغ پر وہی سحر طاری تھا۔ یہ رات بھی گزر گئی۔ دُوسرے دن کوئی گیارہ بجے کے وقت میں نے اکرام کو بلا کر کہا۔ ’’اکرام میں تمہیں کہیں بھیجنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’کہاں مسعود بھائی۔‘‘
’’سہارنپور… ایک پتہ دے رہا ہوں، وہاں جا کر معلوم کرو کہ محفوظ احمد، ریاض احمد وغیرہ یہاں رہتے ہیں یا نہیں۔ بس یہ معلومات کر کے آنا ہے۔‘‘ اکرام اُچھل پڑا۔ پھر کسی قدر مسرور لہجے میں بولا۔ ’’محفوظ احمد تو آپ کے والد کا نام ہے۔‘‘
’’ہاں… فیضان سے پتہ چلا ہے۔ میں ان کے بارے میں معلوم کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’آج ہی چلا جاتا ہوں۔‘‘
’’تیاریاں کرلو۔ واپسی بھی جلدی ہونی چاہئے اور سنو، صرف معلومات کر کے آنا ہے، کسی کو ساتھ نہ لے آنا، سختی سے تاکید کر رہا ہوں۔‘‘
’’بالکل ٹھیک ہے۔‘‘ اکرام نے کہا۔ مجھ سے زیادہ وہ بے چین ہوگیا تھا۔ دوپہر کے بعد وہ چلا گیا۔ میرا دل دھڑک رہا تھا۔ اعصاب جیسے اینٹھ کر رہ گئے تھے۔ سکرات کا سا عالم طاری تھا لیکن شام کو یہ جمود ٹوٹ گیا۔ شامی میرے پاس آیا تھا۔ اس نے ایک نہایت خوبصورت مخمل کی ڈبیہ میرے سامنے کرتےہوئے کہا۔ ’’اسے دیکھئے مسعود بھائی۔‘‘
’’کیا ہے یہ؟‘‘
’’ایک عجیب واقعہ ہوا ہے۔ پچھلی شام عقیدت مندوں میں ایک دُبلا پتلا سوکھا سا آدمی بھی آیا تھا۔ اس نے خانقاہ میں یہ ڈبیہ نذرانے کے طور پر پیش کرتے ہوئے کہا کہ اسے قبول کیا جائے۔ لوگ ایسی چیزیں بھی دے جاتے ہیں۔ میں نے یہ ڈبیہ طاق میں رکھی اور بھول گیا۔ ابھی تھوڑی دیر قبل اندر گیا تو یہ مجھے نظر آئی۔ میں نے اسے کھول کر دیکھا تو اُچھل پڑا۔ اس میں پیلے رنگ کی ایک بہت خوفناک مکڑی بیٹھی ہوئی تھی۔ ڈبیہ میرے ہاتھ سے گر گئی اور مکڑی برق رفتاری سے لمبے لمبے قدم اُٹھاتی ہوئی قبر کے پتھروں میں گھس گئی۔ حیرت کی بات یہ ہے مسعود بھائی کہ جس آدمی نے یہ ڈبیہ دی تھی، اس کی آنکھیں بالکل اس مکڑی جیسی تھیں۔‘‘
’’پیلی مکڑی۔‘‘ میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔
میں اچھل کر کھڑا ہو گیا۔ میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔’’کہاں ہے کہاں گئی؟‘‘
’’مکڑی…‘‘ شامی نے پوچھا۔
’’ہاں! آئو جلدی آئو۔‘‘ میں نے تیزی سے خانقاہ کی طرف دوڑتے ہوئے کہا۔ شامی حیران حیران سا میرے پیچھے دوڑا۔ ظاہر ہے وہ میری بدحواسی کیا سمجھتا مگر میرا دل دھک دھک کرنے لگا تھا۔ پیلی مکڑی کے نام سے میرا دل لرز گیا تھا۔ مجھ سے زیادہ اس بارے میں کون جان سکتا تھا۔ شامی نے میرے ساتھ دوڑتے ہوئے کچھ کہا تھا مگر میرے کانوں میں کوئی آواز نہیں آرہی تھی۔
اندر اندھیرا تھا۔ بس وہ مدھم چراغ روشن تھا جو عموماً وہاں روشن رہتا تھا۔ اس مدھم روشنی میں بھلا کیا نظر آتا۔ پھر بھی میں جعلی قبر کے پاس بیٹھ کر آنکھیں پھاڑنے لگا۔ شامی میرے قریب موجود تھا۔ کچھ سوچ کر اس نے اوپر رکھا چراغ اُتارا اور میرے قریب کردیا۔
’’بیکار ہے شامی۔ وہ… وہ اب یہاں کہاں ہوگا۔‘‘ میرے منہ سے نکلا۔
’’کون؟‘‘ شامی نے پوچھا۔ میں نے اسے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ دیر تک میں وہاں بیٹھا رہا۔ شامی نے ہی مجھے آواز دی۔ ’’مسعود بھائی… مسعود بھائی۔‘‘
’’کیا بتائوں شامی۔‘‘
’’وہ سب کچھ تھا تو عجیب مگر میں نے غور نہیں کیا تھا۔ لوگ چڑھاوے چڑھاتے ہی ہیں۔ بہت سے عقیدت مند سونے کے چھلے، زنجیریں چادر میں پرو کر قبر پر ڈال جاتے ہیں۔ وہ ڈبیہ بھی میں نے ایسی ہی سمجھی تھی مگر اس کے بعد اس میں سے مکڑی نکلی۔ اس سے زیادہ آپ کی یہ کیفیت پریشان کن ہے۔ ایسی کیا خاص بات تھی اس مکڑی میں جس نے آپ کو اتنا پریشان کردیا؟‘‘
’’پیلی مکڑی نحوست کا نشان ہوتی ہے شامی۔ سخت نحوست کا نشان اور وہ نحوست یہاں آچکی ہے۔‘‘
’’تو پھر، اب کیا ہوگا؟‘‘ شامی کی آواز میں بھی خوف بیدار ہوگیا۔
’’پیلی مکڑی جہاں کہیں نظر آئے، اسے فوراً مار دینا، صرف پیلی مکڑی کو۔‘‘
’’ٹھیک ہے کل دن کی روشنی میں ہم سب اسے تلاش کریں گے مگر وہ آدمی کون تھا؟ اس کی آنکھیں بڑی عجیب تھیں، بالکل کسی مکڑی کی مانند۔‘‘
’’پتا نہیں کون تھا۔‘‘ میں نے گہری سانس لے کر کہا۔ شامی دیر تک میرے پاس بیٹھا نہ جانے کیا کیا کہتا رہا مگر میری حالت بہتر نہ تھی۔ مجھے احساس ہورہا تھا کہ بات پھر بگڑ گئی ہے۔ میرے قدموں میں لغزش آگئی ہے۔ مجھے ایک بار پھر تنہائیوں سے واسطہ پڑا ہے۔ اکرام بھی موجود نہیں ہے جو کچھ سہارا ہو۔ یہ بے چارے لوگ میرے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ ان سے کیا کہوں، کیسے دل کا بوجھ ہلکا کروں۔
’’آرام نہیں کریں گے مسعود بھائی؟‘‘
’’ہاں… بس یہیں رہوں گا۔ تم جائو۔‘‘ شامی چلا گیا۔ اس نے اداس نگاہوں سے چاروں طرف دیکھا۔ بالکل اکیلا رہ گیا ہوں۔ میں کیا کروں، انسان تو ہوں، ہوش و حواس میں ہوں۔ مجھ سے میرے حواس کیوں نہیں چھین لئے جاتے۔ کتنا جبر کروں دل پر، کیسے اس پیار کو کھرچ کر پھینک دوں جو خون میں رچا ہوا ہے۔ بہن ہے وہ میری… ماں جائی ہے۔ فریاد کرتی ہوئی آئی تھی، نیم دیوانی ہورہی تھی۔ ایک انسان کی قسم سے کیسے باز رہ جاتا۔ کتنا تو روکا تھا خود کو۔ خون جوش مار گیا اور پھر اگر اس کی مدد کو نہ جاتا تو وہ کس طرح تباہ ہوجاتی۔ کون تھا اس کا پرسان حال… اس کے بعد سے مسلسل جبر کررہا ہوں۔ دوبارہ اس کی صورت نہیں دیکھی۔ اس کے بچے سامنے آتے ہیں، ان میں سے ایک میں میرا بچپن سمایا ہوا ہے۔ ہوبہو میرا نقش ہے وہ۔ میں اس کا ماموں ہوں اور کتنا جبر کروں خود پر اور کتنا جبر کروں۔ انسان ہوں، مجھ سے میرے ہوش کیوں نہیں چھین لئے جاتے۔ مجھے وہ مقام کیوں نہیں دے دیا جاتا جو نادر حسین کو مل گیا؟ آہ… آہ… آہ! میں تڑپنے لگا۔ پورا وجود انگارہ بن گیا۔ صدیاں بیت گئیں خوشیوں سے دور ہوئے۔ خوف بس ایک خوف۔ رہنمائی کرو، میری رہنمائی کرو۔
آج آنکھوں سے آنسو نہیں بہے تھے۔ سنا گیا ہے کہ آنسو توبہ کی قبولیت کا پتا دیتے ہیں۔ دل کا گداز رہنما ہوتا ہے مگر آنکھیں خشک تھیں، سینہ جل رہا تھا۔ رات گزر گئی، کوئی خیال دل سے نہ گزرا، کوئی ہدایت نہ ملی۔ صبح کو سینہ پتھرا گیا، سوچوں سے چھٹکارا مل گیا۔ اس کے بعد کے معمول وہی رہے۔ دوسرا دن اور کئی دن گزر گئے۔ اکرام کا بے چینی سے انتظار کررہا تھا لیکن ایک بات پر حیرت ہوئی عرضیوں کا سلسلہ جاری تھا۔ ان کے نتائج بھی سامنے آتے رہتے تھے۔ اس عالم میں بھی جو ہدایات دی تھیں، ان کے نتائج اچھے نکلے تھے۔ ایک حاجت مند آیا۔
’’شاہ بابا! اللہ مرتبہ بڑھائے شاہ بابا۔ مقدمہ جیت گیا۔ میرا سب کچھ مل گیا مجھے شاہ بابا! ہمیں نئی زندگی مل گئی ورنہ پورے گھرانے کو مرنا پڑتا۔ ہمیں نئی زندگی ملی ہے شاہ بابا۔ یہ نذرانہ ہے۔ جو بھی ضرورت مند آئے، اسے دے دیں۔‘‘ اس نے پچاس ہزار روپے شامی کو دیئے تھے۔
یہ رقم تقسیم ہوگئی مگر اس دن میرے ذہن میں ایک خیال آیا تھا شمسہ کیلئے کچھ کرنا چاہئے۔ فیضان اب درست ہوگیا تھا۔ وہ نماز پڑھتا تھا، باقی وقت بچوں پر صرف کرتا تھا۔ محنت کرکے زندگی گزارنا چاہتا تھا۔ اگر کوئی ایسا ذریعہ ہو، جہاں کہ وہ ایک بہتر زندگی حاصل کرلے۔ کوئی دولت مند شخص اس کیلئے کچھ کردے تو، یہ ہوسکتا تھا۔ ایسے کسی شخص کو تلاش کیا جاسکتا تھا۔ بہت غور کیا تھا میں نے اس بات پر۔ پھر ایک شام اکرام آگیا۔ اسے دیکھ کر میرا دل بری طرح دھڑک اٹھا تھا مگر اکرام کے چہرے پر کوئی خوشی نہیں تھی۔
’’کیا ہوا اکرام؟‘‘
’’کچھ ہوا نہیں مسعود بھائی۔‘‘
’’پہیلیاں نہ بجھائو۔‘‘ میں نے زور سے کہا۔
’’دونوں پتے درست تھے۔ فیضان عالم کا خاندان وہیں آباد ہے۔ اس کے ہاں کوئی خاص بات نہیں ہے مگر محفوظ احمد کو تو اب لوگ بھول گئے ہیں۔ ان کی بیٹی کا اغوا ہوا تھا۔ اس کے کوئی سات ماہ بعد وہ لوگ وہاں سے چلے گئے تھے۔ کہاں، یہ کوئی نہیں جانتا۔‘‘
’’فیضان کے خاندان والوں سے ملے تھے؟‘‘ میں نے صبر وسکون سے کہا۔ ’’کیا کہتے ہیں وہ اس بارے میں؟‘‘
’’فیضان ہی کو برابھلا کہہ رہے تھے۔ اسے بدکردار، اوباش اور آوارہ کہہ رہے تھے۔ اغوا کے واقعے سے خود کو لاتعلق ظاہر کررہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ اب ان کا اپنے بھائی سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔‘‘
’’کوئی نشاندہی نہیں کرسکے محفوظ احمد کی؟‘‘
’’نہیں…‘‘
’’چلو ٹھیک ہے، یہی بہتر ہوگا۔‘‘ میں نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔
’’ہر کام وقت پر ہوتا ہے مسعود بھائی۔ جس طرح ہمیں شمسہ ملی ہے، اسی طرح وہ لوگ بھی مل جائیں گے۔‘‘
’’ہاں… شاید!‘‘
’’شاید نہیں۔ یقیناً اسی طرح مسعود بھائی جیسے مجھے ثریا کے مل جانے کا یقین ہے۔‘‘
میں نے چونک کر اکرام کو دیکھا۔ اس کے چہرے پر آفاقی سکون تھا۔ معاً مجھے خیال گزرا کہ اکرام بھی عظمت کا ثبوت دے رہا ہے۔ اس نے صبر و شکر کرلیا ہے۔ وہ ثریا کا نام بھی نہیں لیتا۔ وہ ان تمام مسائل میں خود کو ضم کرلیتا ہے جو سامنے آتے ہیں۔ وہ مجھ سے زیادہ باظرف ہے۔ شاید نادرحسین کا عقیدہ بھی مجھ سے زیادہ پختہ تھا۔ وہ اس معیار پر پورا اترتا تھا جس کے تحت اسے جذب کا مقام مل گیا اور اب اکرام کے چہرے پر اس لمحے جو کچھ نظر آیا تھا، اس نے نجانے کیوں ذہن میں یہ تصور پیدا کر دیا تھا کہ اس معصوم شخص کو بھی کچھ ملنے والا ہے۔ اس کے عقیدے کی پختگی، اس کا نیک عمل یہی ظاہر کرتا تھا۔ کیا ہی دلچسپ بات ہے اِدھر سے اُدھر دوڑتے رہو، سارا جہان کھنگال مارو۔ جو تلاش کررہے ہو، وہ صرف تمہاری آنکھوں کے تل کی اوٹ ہے۔ اس تل کے عقب میں اگر کچھ نظر آجائے تو ہاتھ بڑھا کر اٹھایا جاسکتا ہے لیکن تل کا سامنے سے ہٹنا ضروری ہے۔ مجھے ہنسی آگئی۔ اکرام نے چونک کر مجھے دیکھا اور خشک ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگا۔ پھر سہمی سہمی آواز میں بولا۔ ’’مسعود بھائی۔‘‘
میں نے اس کے لہجے پر چونک کر اسے دیکھا اور دوبارہ ہنس پڑا۔ وہ پھر اسی انداز میں بولا۔ ’’مسعود بھائی! خدا کیلئے ذہن کو قابو میں رکھئے۔ دیکھئے اللہ کی ذات پر پورا پورا بھروسا رکھئے۔ کیا آپ یہ کہہ سکتے تھے کہ شمسہ اس طرح آپ کے سامنے آجائے گی۔ نہ صرف آپ کے سامنے آجائے گی بلکہ آپ صحیح وقت پر اس کا ہاتھ پکڑیں گے، اسے سہارا دیں گے۔ کہاں تھی وہ، کچھ معلوم تھا آپ کو۔ یہ تو امی اور ابو بھی نہیں جانتے تھے کہ وہ کہاں ہے لیکن اللہ نے ذریعہ بنایا۔ اب کم ازکم وہ آپ کے سامنے تو ہے۔ تو آپ اس بات سے مایوس کیوں ہیں؟ امی اور ابو، محمود یا ماموں ریاض آپ کو ضرور ملیں گے۔ آپ یقین رکھیں۔ آپ اپنے آپ کو پوری طرح قابو میں رکھئے۔‘‘
’’نہیں میرے دوست، نہیں میرے بھائی… کیا اس ہنسی کو تو میری ذہنی خرابی سمجھ رہا ہے؟ نہیں اکرام! ایسا نہیں ہے۔ بس کچھ خیالات ذہن میں آئے تھے کہ ہنسی نکل گئی۔‘‘
’’مجھے تو ڈرا ہی دیا آپ نے۔ دراصل میں خود بھی سہما ہوا واپس آیا تھا۔ سوچ رہا تھا کہ نجانے اس انکشاف سے آپ کے دل پر کیا بیتے گی لیکن اب بھی یہی کہوں گا کہ اللہ کے حکم کا انتظار کیجئے۔ سب کچھ معمول کے مطابق ہوتا ہے، وقت سے پہلے کچھ نہیں ہوتا۔‘‘
(جاری ہے)