’’میں جانتا ہوں اکرام، تم ٹھیک کہتے ہو۔ میں تو طویل عرصے سے صبر کررہا ہوں اور اب بھی صبر کرتا رہوں گا۔ دیکھ لو شمسہ کے سامنے آج تک نہیں گیا۔ وہ پردے میں رہتی ہے، کس کس طرح دل نہیں تڑپتا اس کیلئے لیکن جائوں گا نہیں اس کے سامنے، بیکار ہے۔ ملیں گے تو سب ہی ملیں گے ورنہ کیا فائدہ۔ غم کی کچھ اور تحریریں رقم ہوجائیں گی، سینہ پھٹ جائے گا اس سے مل کر، جب وہ سب کے بارے میں پوچھے گی، میرے بارے میں پوچھے گی۔ ہمت نہیں کر پاتا اکرام، یقین کرو ہمت نہیں کر پاتا۔‘‘
اکرام نے گردن جھکا لی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔ بہت دیر تک وہ غم میں ڈوبا بیٹھا رہا۔ پھر اس نے کہا۔ ’’اسی لئے تو آپ سے ضد بھی نہیں کرتا حالانکہ ایک بہن کو اگر یہ پتا چل جائے کہ بچھڑا ہوا بھائی سامنے ہے تو کم ازکم ایک سہارا تو اسے حاصل ہوجائے گا۔‘‘
’’نہیں اکرام! میں اپنی تقدیر کے دروازے خود نہیں کھولنا چاہتا۔ بقول تمہارے جب یہ دروازے خودبخود کھلیں گے تب میں ان کے دوسری جانب جھانکوں گا ورنہ نہیں، نہ سہی۔‘‘ اکرام پھر خاموش ہوگیا تھا۔ بہت دیر تک یہ خاموشی طاری رہی۔ اب اکرام کو تقریباً ساری ہی باتیں معلوم ہوچکی تھیں۔ چنانچہ موضوع بدلنے کیلئے میں نے اس سے کہا۔ ’’ایک اور دلچسپ صورت حال سامنے آئی ہے اکرام۔‘‘
’’کیا بھیا؟‘‘
’’بھوریا چرن یہاں داخل ہوگیا ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘ اکرام دہشت سے اچھل پڑا۔
’’ہاں۔‘‘
’’مم… مگر کیسے… آپ کو کیسے پتا چلا مسعود بھائی؟‘‘ اس نے سوال کیا اور میں نے اسے شامی کی ساری کہانی سنا دی۔ اس کے بدن پر لرزہ طاری ہوگیا تھا۔ اس نے کہا۔ ’’اور یہ جگہ ایسی ہے کہ اس کا راستہ نہیں رک سکتا۔ میرا مطلب ہے یہ ایک جعلی خانقاہ ہے اور یہاں ہر ایک آجاسکتا ہے۔ کوئی روحانی تصور تو وابستہ ہے نہیں اس سے، یہ بات ہم جانتے ہیں مسعود بھائی۔ مم… مگر اب کیا کیا جائے؟ وہ کم بخت اس جگہ آگیا ہے، ہمارے راستے ضرور کاٹے گا۔‘‘
’’سامنا تو ہو اس بدبخت سے… اب تو وہ سامنے ٹکتا ہی نہیں ہے اکرام۔ بہرحال میں نے بطور تذکرہ تم سے کہہ دیا ہے، تم بھی ذرا ہوشیار رہنا۔ تمہاری طرف سے پریشان تھا۔ واپس آگئے، جی خوش ہوگیا ہے اور اطمینان بھی۔‘‘
’’مگر مجھے کوئی خوشی نہیں ہے مسعود بھائی۔ خیر چھوڑیئے ان باتوں کو، ذرا شمسہ بہن سے مل لوں، بچے تو ٹھیک ہیں نا؟‘‘
’’ہاں بالکل۔ مگر ذرہ برابر تذکرہ مت کرنا کسی بات کا۔ کیا سمجھے؟‘‘
’’ہاں! یہ تو سمجھتا ہوں۔ ظاہر ہے تذکرے کا کیا امکان ہے اور کہوں گا بھی تو کیا؟‘‘
کچھ دیر کے بعد اکرام میرے پاس سے چلا گیا اور میں آنکھیں بند کرکے سوچوں میں گم ہوگیا۔ وقت گزرتا رہا۔ بس اس بات پر حیرت تھی کہ اب عرضیوں کے جواب کیلئے مراقبہ کرتا تھا تو کوئی جواب نہیں ملتا تھا، کوئی رہنمائی نہیں ہوتی تھی۔ کوئی ایسی نشاندہی نہیں کی جاتی تھی جس کے تحت میں ان عرضیوں کا جواب لکھوں جبکہ اس سے پہلے ایسا ہوتا تھا اور مجھے بڑی آسانی ہوجاتی تھی لیکن اب سچی بات یہ ہے کہ ذہنی اختراع سے کام لے رہا تھا۔ عرضیاں لکھی جاتی تھیں۔ ان کے جو جواب سمجھ میں آتے تھے، دے دیتا تھا۔ ٹالنے والی بات ہوتی تھی لیکن حیرانی کی بات یہ تھی کہ معیار وہی چل رہا تھا۔ حاجت مند جب آتے تو ان کے ہاتھوں میں کچھ نہ کچھ ہوتا اور چہروں پر خوشی کے آثار۔ ایک بھی ایسا نہیں آیا تھا جس نے کہا ہو کہ اس کی مراد پوری نہیں ہوئی بلکہ اب تو رش بڑھتا ہی جارہا تھا۔ دور دراز کے لوگ آنے لگے تھے اور خانقاہ کے معاملات بہت بہتر انداز میں چل رہے تھے۔ فیضان کو چونکہ میں نے منع کردیا تھا کہ ابھی وہ کہیں آنے جانے کی بات نہ کرے، خاموشی سے وقت گزارتا رہے۔ شرمندہ شرمندہ سا ضرور نظر آتا تھا لیکن اس کے بعد اس نے یہ سب کچھ نہیں کیا تھا۔ بے چارہ نہایت عقیدت کے ساتھ فاتحہ خوانی وغیرہ بھی کرتا تھا اور عبادت گزاری بھی۔ اب کسی کو کیا بتایا جاتا کہ اس خانقاہ کی کہانی کیا ہے۔ بھوریا چرن کا شبہ بے شک ہوا تھا لیکن خاصا وقت گزر جانے کے باوجود کوئی ایسا عمل نہیں ہوا تھا جو تردد کا شکار کردے، البتہ دل کو اس بات کا یقین تھا کہ کچھ ہوا ضرور ہے۔ بھوریا چرن پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ اس نے کوئی نہ کوئی چکر چلایا ہوگا اور نجانے اس کے کیا نتائج سامنے آئیں۔ کیا کہا جاسکتا ہے، فیصلہ کرنا ناممکن ہی تھا۔ اس دن بھی منگل تھا اور منگل کو مرادیں مانگنے والے آیا کرتے تھے۔ ایک سیاہ رنگ کی بڑی سی گاڑی آئی تھی اور اس سے ایک بھاری بھرکم جسم کے مالک شیروانی، پائجامے میں ملبوس، وارنش کا پمپ پہنے ہوئے صاحب حیثیت آدمی معلوم ہوتے تھے۔ ہاتھوں میں انگشتریاں پڑی ہوئی تھیں، ساتھ میں تین چار ملازم قسم کے آدمی تھے۔ عقیدت سے خانقاہ پر پہنچے۔ ابھی وہ وقت نہیں ہوا تھا جب خانقاہ کے دروازے کھلتے تھے۔ شامی سے ملاقات کی اور کچھ معلومات حاصل کرنے لگے۔ اکرام معمول کے مطابق میرے پاس موجود تھا۔ اس نے انہیں دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’کوئی بڑی شخصیت معلوم ہوتی ہے۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’ویسے مسعود بھائی! انسان کو زندگی میں کوئی نہ کوئی سہارا درکار ہوتا ہے۔ وہ جو دولت میں کھیل کر بہت سے احساسات سے بے نیاز ہوجاتے ہیں، کسی نہ کسی لمحے روحانیت کا سہارا ضرور لیتے ہیں۔‘‘
میں نے اکرام کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ پھر عرضیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا اور ہم دونوں اپنے کام میں مصروف ہوگئے۔ مختلف لوگ مختلف باتیں کرتے رہے، یہاں تک کہ پھر ایک آواز سنائی دی۔
’’میں ایک گناہ گار انسان ہوں۔ یہ نہیں جانتا بابا صاحب کہ ایسی جگہوں کا طریقہ کار کیا ہوتا ہے لیکن بس ایک مشکل ہے میری، بہت بڑی مشکل ہے، اسے حل کردیجئے۔ پریشان ہوں۔ نام ہے میرا عزت بیگ اور دھام پور نگینہ میں رہتا ہوں۔ کاروبار بہت اچھا چل رہا ہے میرا، دولت کی ریل پیل ہے مگر وہ حویلی جس میں، میں رہتا ہوں، آسیب زدہ ہے۔ حویلی کے آسیب مجھے بہت پریشان کرتے ہیں۔ بیوی اور بچے زندگی سے عاجز ہیں۔ کئی بار حویلی چھوڑ چھوڑ کر مختلف جگہوں پر جاکر رہا لیکن جب کہیں اور جاتا ہوں تو گھر کا گھر بری طرح بیمار ہوجاتا ہے اور مجھے واپس اسی حویلی میں آنا پڑتا ہے۔ کچھ اسی قسم کے واقعات پیش آتے ہیں کہ میری بیوی مجھے واپس حویلی میں لانے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ یہاں آکر پریشانیاں تو بے شک ہوتی ہیں مگر بیماریاں دور ہوجاتی ہیں۔ میں عجیب مصیبت میں گرفتار ہوں۔ کچھ دن پہلے ایک اور بابا صاحب نے نشاندہی کی تھی کہ میری حویلی آسیب زدہ ہے اور مجھے اس کیلئے انتظام کرنا چاہئے۔ بابا صاحب! میں جو کچھ کہہ رہا ہوں، مجھے نہیں معلوم کہ اسے کون سن رہا ہے لیکن اگر میری مدد ہوسکتی ہے تو آپ میری مدد کیجئے۔ میرا کام بن گیا، مجھے سکون مل گیا تو میں اس خانقاہ کو سونے کا بنا دوں گا تاکہ جب عقیدت مند آئیں تو انہیں کوئی پریشانی نہ ہو۔ میری مدد کیجئے باباصاحب… جس طرح بھی ہوسکے میری مدد کیجئے۔ میں بہت دور سے آیا ہوں، آپ کے قدموں میں ہی رہوں گا جب تک کہ مجھے کوئی اشارہ نہ مل جائے۔‘‘
میں نے اس کا نام لکھ لیا۔ یونہی دل میں خیال آیا تھا کہ یہ وہی شخص ہوسکتا ہے جسے ہم نے سیاہ رنگ کی بڑی گاڑی سے اترتے دیکھا تھا مگر ساتھ ہی ساتھ ایک اور تصور بھی میرے ذہن میں ابھر آیا تھا اور میں اس پر غور کرنے لگا تھا۔ اگر یہ شخص اتنا دولت مند ہے اور اگر اس کا کام ہوجائے تو اس جعلی خانقاہ کو پختہ کروانے سے بھلا کسی کو کیا فائدہ حاصل ہوگا۔ اگر اس کے ذریعے شمسہ اور فیضان عالم کو کوئی فائدہ حاصل ہوجائے، اگر ان لوگوں کی زندگی میں کوئی تبدیلی آجائے تو کیا یہ اس سے بہتر نہیں رہے گا؟ بس یہ خیال دل میں پختہ ہوگیا۔ یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ شخص جمعرات تک یہیں قیام کرے گا۔ لوگوں نے اسے تفصیلات بتا دی ہوں گی۔ چنانچہ وقت باقی ہے، اس سے ملاقات کرکے معاملات طے کئے جاسکتے ہیں۔ یہ احساس میں نے ابھی اپنے دل ہی میں رکھا تھا۔
عرضیاں نمٹ گئیں، کام ختم ہوگیا۔ میں اور اکرام باہر نکل آئے۔ اکرام نے کہا۔ ’’شمسہ تم سے ملنا چاہتی ہے۔‘‘ میں ٹھٹھک گیا۔
’’کیوں؟‘‘
’’کوئی وجہ نہیں ہے۔ خوش ہے، مطمئن ہے۔ کہہ رہی تھی کہ وہ دوسرے بھیا کبھی نہیں آئے، ان سے ملنے کو جی چاہتا ہے۔‘‘
’’تم نے کیا کہا؟‘‘
’’میرے بجائے فیضان بول پڑا۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’اس نے کہا وہ درویش منش ہیں، یاد اللہ میں کھوئے رہتے ہیں۔ انہیں پریشان کرنا مناسب نہیں ہے۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’خاموش ہوگئی۔‘‘
’’یہی بہتر ہے۔‘‘
’’کب تک؟‘‘ اکرام نے پوچھا اور میں نے چونک کر اسے دیکھا۔
’’کیا کرسکتے ہیں؟‘‘
’’کچھ تو کرنا ہوگا۔ یہ جھوٹ کا گھر ہے۔ کب کیا ہوجائے، کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ کچھ نہ بھی ہو تو کیا اسے ہمیشہ یہاں رکھا جاسکتا ہے؟ یہ کوئی رہنے کی جگہ ہے؟ بچے ہیں اس کے، ان کا مستقبل ہے۔ اس طرح خانقاہ کی روٹیاں توڑ کر فیضان بھی نکما ہوجائے گا۔ ابھی لوہا گرم ہے۔ صحیح چوٹ لگ جائے تو صحیح شکل اختیار کرسکتا ہے۔ جتنی دیر ہوگی، اتنے ہی نقصان کا اندیشہ ہے۔‘‘
’’سوچنا پڑے گا۔‘‘
’’میں نے سوچا ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’پہلے تم اس سے مل لو۔ ایک خوشی تو حاصل ہو اسے۔ نہ جانے کب سے خوشیوں سے محروم ہے۔ اس کے بعد کوئی بہتر حل نکل آئے گا۔‘‘
’’اس کے بعد یہ کبھی نہ کہنا سمجھے اکرام۔‘‘ میں نے سرد لہجے میں کہا اور اکرام مجھے دیکھنے لگا۔ پھر گہری سانس لے کر بولا۔
’’ٹھیک ہے۔‘‘ مجھے اس کے لہجے میں نرمی نہیں محسوس ہوئی تھی، کچھ عجیب سا لہجہ تھا۔ دور سے میں نے سیاہ گاڑی والے صاحب کو دیکھا۔ ملازموں کے ساتھ بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔
’’وہ عزت بیگ ہیں؟‘‘
’’شاید…‘‘
’’آئو۔‘‘ میں نے کہا اور اکرام خاموشی سے میرے ساتھ چل پڑا۔ خانقاہ کی گہرائیوں میں انہوں نے ڈیرہ لگایا تھا۔ گاڑی بھی قریب کھڑی ہوئی تھی۔ ہر طرح کا انتظام کرکے آئے تھے۔ ہمیں دیکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔
’’حضور اگر ہمارے دسترخوان کو رونق بخشیں تو نوازش ہوگی۔‘‘
’’شکریہ۔ کھانا کھا چکے ہیں بلکہ اب افسوس ہو رہا ہے کہ جلدی آگئے۔ آپ براہ کرم کھانا کھایئے۔‘‘
’’یقین کیجئے کھانا کھا چکا ہوں۔ میں ان لوگوں کا ساتھ نباہ رہا تھا۔ آپ تشریف رکھئے۔ درویشوں کی چھت تقدیر والوں کو نصیب ہوتی ہے۔‘‘ ہم بیٹھ گئے۔
’’آپ کا اسم شریف؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’خاکسار کو عزت بیگ کہتے ہیں۔‘‘
’’کتنے عرصے سے آپ اس مشکل کا شکار ہیں؟‘‘
’’جی؟‘‘ مرزا صاحب چونک پڑے۔ اب وہ مجھے گھور رہے تھے۔ اکرام کے انداز میں ایک لمحے کیلئے بے چینی پیدا ہوئی تھی۔ پھر اس نے خود کو سنبھال لیا۔ یقیناً وہ میرے اس سوال پر حیران ہوا ہوگا کیونکہ یہ خلاف دستور بلکہ ایک طرح سے خطرناک تھا۔ مرزا صاحب بولے۔ ’’کوئی سات آٹھ ماہ ہوگئے۔‘‘
’’انہوں نے کوئی نقصان پہنچایا آپ کو؟‘‘ میں نے سوال کیا۔ سارے نوکر کھانا ختم کرکے ہماری طرف متوجہ ہوگئے تھے۔ مرزا صاحب کے منہ سے کچھ نہ نکل سکا۔
میں نے پھر پوچھا۔ ’’میرا مطلب ہے آپ کو ان کی موجودگی کا احساس کس طرح ہوا؟ کیا انہوں نے آپ کے اہل خاندان کو کوئی تکلیف پہنچائی جبکہ آپ ان کی وجہ سے حویلی چھوڑ کر کہیں اور منتقل ہوگئے اور وہاں بیماریوں کا شکار ہوگئے اور پھر حویلی پہنچے تو بیماریاں ختم ہوگئیں لیکن اس کے باوجود آپ ان سے خوف زدہ ہیں۔ اس خوف کی وجہ جاننا چاہتا ہوں۔‘‘ اچانک ہی مرزا عزت بیگ اپنی جگہ سے اٹھے اور انہوں نے میرے پائوں پکڑ لئے۔
’’سمجھ گیا حضور، سمجھ گیا۔ مجھے میرا گوہر مقصود مل گیا۔ حضور… میری مدد کیجئے، بڑی آس لے کر آیا ہوں آپ کے پاس۔ آپ کا یہ احسان میں زندگی بھر نہیں بھولوں گا۔ ہاں! حویلی میں میری بیوی اور میرے بچوں کو طرح طرح سے ستایا جاتا ہے۔ وہ خوف سے دیوانے ہوجاتے ہیں، مختلف حرکات کرتے ہیں۔ وہ اور میرے بچے دہشت سے سوکھے جارہے ہیں۔ دو نوجوان بیٹیاں ہیں میری۔ ایک بیٹا ہے، بیوی ہے۔ چاروں کے چاروں ان کی شرارتوں کا شکار رہتے ہیں۔ عجیب و غریب شرارتیں ہوا کرتی ہیں۔ میں خود بھی اپنے آپ کو لاکھ سنبھالے رکھوں مگر انسان ہوں۔ جب ایسے بعید از عقل واقعات ہوں گے تو بھلا بہادری کیسے دکھا سکوں گا۔ حضور جب آپ نے اس قدر کرم فرمائی کی ہے تو میری مشکل کو دور فرمایئے گا۔ آپ کا بے حد احسان ہوگا۔‘‘
’’عزت بیگ صاحب! آپ کا یہ دھام پور نگینہ یہاں سے کتنے فاصلے پر ہے؟‘‘
’’حضور کوئی ایک سو بیس کوس ہے۔‘‘
’’مجھے وہاں جانا ہوگا۔ یہی حکم ملا ہے مجھے۔‘‘ میں نے کہا۔ اکرام نے ایک بار پھر پھٹی پھٹی آنکھوں سے مجھے دیکھا لیکن اس طرح نہیں کہ کسی پر اظہار ہوجائے۔ عزت بیگ صاحب نے گردن خم کرکے کہا۔
’’بسر و چشم… بسر و چشم۔ اس کا مقصد ہے کہ میری تمنا پوری ہوگئی۔ حضور آپ تشریف لے چلئے، جو بھی خدمت ہوگی، کروں گا، جس طرح بھی حکم فرمائیں گے، جان و مال سے حاضر ہوں۔ آپ بس حکم کردیجئے۔‘‘
’’ہاں عزت بیگ! بہت کچھ قربان کرنا ہوگا آپ کو۔ زندگی کا صدقہ مال ہے۔ خاصے اخراجات کرنے پڑ جائیں گے آپ کو۔‘‘
’’بہت کچھ ہے میرے پاس، بچوں ہی کیلئے ہے۔ اگر ان کی مشکل حل ہوجائے تو بھلا مال و دولت کی کیا فکر لیکن آپ پہنچے ہوئے بزرگ ہیں۔ آپ نے میری مشکل اپنی زبان سے ادا فرما دی۔ میرے دل کو یقین ہے کہ جیسے ہی آپ کے قدم مبارک وہاں پہنچیں گے، شریر شیطان وہ جگہ چھوڑ بھاگیں گے۔ بس اب میں آپ کے پائوں نہیں چھوڑوں گا۔ حضور آپ کو میرے ساتھ چلنا ہوگا۔‘‘
’’آج توقف فرمایئے، کل ہم آپ کے ساتھ روانہ ہوجائیں گے۔ آپ مطمئن رہیں، ہر طرح کے آسیبوں کو وہ جگہ چھوڑنی پڑے گی۔‘‘
’’مجھے تو گویا نئی زندگی عطا فرما رہے ہیں آپ۔ آہ… جیسا سنا تھا، ویسے ہی پایا اس عظیم جگہ کو حضور۔ اب تو بیتاب ہوں کہ آپ کب میرے ساتھ چلیں۔ ویسے حضور! کا اسم شریف معلوم کرسکتا ہوں؟‘‘
’’مسعود ہے میرا نام۔‘‘
’’میں سمجھتا ہوں، یہ میرے لئے ساعت مسعود ہے کہ مجھے اس طرح آپ کی قدم بوسی حاصل ہوئی۔ کب تشریف لے چلیں گے، وقت بتا دیجئے؟‘‘
’’آج تو یہیں قیام فرمایئے۔ جیسا کہ میں نے کہا کل دن کو دس بجے ہم لوگ روانہ ہوجائیں گے۔ آپ کے پاس انتظام تو ہے؟‘‘
’’یہ سب میرے دوست احباب ہیں۔ یہ صاحب گاڑی چلاتے ہیں، یہ دوسری ضرورتیں پوری کرتے ہیں۔ آپ اطمینان فرمایئے گا، سفر میں آپ کو کوئی دقت نہیں ہوگی۔‘‘
’’ٹھیک ہے، اب اجازت دیجئے۔‘‘ میں اٹھ کھڑا ہوا۔
’’حضور! اگر کچھ…‘‘
’’نہیں عزت بیگ صاحب! اس وقت کوئی حاجت نہیں ہے۔ آپ آرام کیجئے۔‘‘ میں واپسی کیلئے پلٹا۔ اکرام بیگ بھی میرے ساتھ ساتھ چل پڑا تھا لیکن اس کی بے چینی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ اوپر پہنچتے ہی اس نے کہا۔
’’تو تو آپ اس کے ساتھ جارہے ہیں مسعود بھائی! مگر آپ نے اچانک ہی یہ فیصلہ کیسے کرلیا؟‘‘
’’جانا ہے اکرام مجھے اس کے ساتھ۔ ابھی تم نے شمسہ کے بارے میں مجھ سے بہت سی باتیں کی ہیں۔ اس سے ملوں گا اکرام تو دل کے زخم تازہ ہوجائیں گے، کلیجہ پھٹ جائے گا اور اس کے بعد سارے کام ادھورے رہ جائیں گے۔ وہ بہن ہے میری۔ انسان ہوں، خود پر قابو نہیں پاسکوں گا۔ بھلا میں اس کے آنسو دیکھ کر کیسے یہ بات برداشت کرسکتا ہوں کہ ماں، باپ کی تلاش کے بجائے کوئی اور کام کروں۔ تم خود سوچو اکرام! کیا ہوگا، سارے راستے بند ہوجائیں گے۔ کیا اس سے بہتر یہ نہیں ہے کہ میں اس کیلئے آسائشیں حاصل کرنے کی کوشش کروں۔ میں نے اپنے آپ کو ختم کرلیا ہے اکرام… بہت نقصان کرلیا ہے میں نے اپنا۔ اس کے نتیجے میں میری بہن کو ایک بہتر زندگی تو مل جائے۔ تم نے دیکھا میں نے اس سے خرچ کی بات کی ہے۔ یہ میں اپنی بہن کیلئے حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ صرف محبتیں ضرورتیں نہیں پوری کرسکتیں، کچھ نہ کچھ عملی طور پر بھی کرنا ہوگا۔‘‘ اکرام نے حیرت سے میری صورت دیکھتے ہوئے کہا۔
’’اس کا مطلب ہے مسعود بھائی کہ آپ عزت بیگ کا کام کرکے جو کچھ حاصل کریں گے، وہ شمسہ کیلئے ہوگا؟‘‘
’’ہاں…‘‘ میں نے ایک ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔ دل میں ایک اداس سی کیفیت پیدا ہوگئی تھی۔ میں جو کچھ کررہا تھا، اس کے نتائج مجھے معلوم تھے۔ یہ بھی دیکھنا تھا کہ عزت بیگ کے گھر میں جو شیطانی قوتیں رہائش پذیر ہیں، ان کے خلاف کوئی موثر عمل کر بھی سکوں گا یا نہیں۔ پہلے کی بات اور تھی۔ رہنمائی ہوتی تھی اور اقدامات کئے جاتے تھے لیکن اب تنہا بھگت رہا تھا۔ سب کچھ نہیں سمجھتا تھا کہ میری پہنچ کہاں تک ہوسکتی ہے۔ اکرام نے البتہ مطمئن لہجے میں کہا۔ ’’آپ یقین کیجئے آپ نے میرے دل میں بغاوت پیدا کردی تھی مسعود بھائی۔ میں سوچنے لگا تھا کہ شاید میں آئندہ آپ کا ساتھ نہ دے سکوں۔ شمسہ بہن کو میری ضرورت ہے لیکن آپ نے مجھے مشکل سے نکال لیا۔ اب میں بے حد پُرسکون ہوں۔ آپ تنہا ہی جائیں گے یا مجھے ساتھ چلنا ہوگا؟‘‘
’’نہیں، بھلا تمہارا ساتھ کس طرح ممکن ہے۔ یہاں شمسہ، فیضان اور بچے تنہا رہ جائیں گے۔ ہاں ایک بات میں تم سے کہے دیتا ہوں اکرام، وہ یہ کہ ان سب کا پورا پورا خیال رکھنا۔ ہوسکتا ہے مجھے کچھ زیادہ وقت لگ جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میری غیرموجودگی میں ان لوگوں کو کوئی نقصان پہنچ جائے۔ ایک بات اور تمہارے ذہن نشین کرانا چاہتا ہوں۔ بھوریا چرن کے آثار یہاں ملے ہیں لیکن اتنے عرصے میں نہ تو اس نے کچھ کیا اور نہ ہی کہیں دوبارہ کسی مکڑی کا وجود ظاہر ہوا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ خانقاہ جعلی ہے، اس لئے بھوریا چرن جیسی ناپاک روحیں یہاں آسکتی ہیں۔ تمہیں اس کی طرف سے بھی محتاط رہنا ہوگا۔‘‘
اکرام نے سنسنی خیز نگاہوں سے مجھے دیکھا لیکن منہ سے کچھ نہ بولا۔ میں مرزا عزت بیگ کے ساتھ جانے کے منصوبے کے بارے میں سوچتا رہا۔ نجانے کیسے وسوسے، نجانے کیسے کیسے خیالات میرے ذہن میں جاگزیں تھے لیکن یہ فیصلہ اٹل تھا کہ مجھے عزت بیگ کے ساتھ دھام پور نگینہ جانا ہے اور بالآخر دوسرے دن میں عزت بیگ کے ساتھ چل پڑا۔ وہ بڑے احترام کے ساتھ مجھے اپنی قیمتی گاڑی میں بٹھا کر لے چلا۔ راستے طویل تھے لیکن خوش اسلوبی سے طے ہوگئے۔ اچھا خاصا شہر تھا۔ شام کے کوئی ساڑھے چار بجے تھے جب ہم مرزا عزت بیگ کی حویلی میں داخل ہوئے۔ وسیع و عریض عمارت تھی لیکن بڑے پھاٹک سے داخل ہوتے ہی احساس ہوا کہ حویلی آسیب زدہ ہے۔ اس کی ویرانی چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ یہاں غیرانسانی مخلوق کا قبضہ ہے۔ احاطے میں بے شمار درخت تھے لیکن ان کے پتے سوکھے ہوئے تھے۔ گھاس کے لان تھے لیکن پیلی اور جلی ہوئی گھاس کے۔ حویلی کا بیرونی حصہ بھی بدنما تھا۔ سامنے ایک اور کار کھڑی نظر آرہی تھی۔ کار کی آواز سن کر ایک ملازم اندر سے نکل آیا۔ کار رکتے ہی ڈرائیور اور دوسرے ملازم آگئے۔ عزت بیگ نے خود اپنے ہاتھوں سے میرے لئے دروازہ کھولا تھا۔ میں نے ایک نگاہ پھر حویلی کے بیرونی حصے پر ڈالی۔
’’آپ کے ہاں کتنے ملازم ہیں مرزا صاحب۔‘‘
’’کافی ہیں۔ میرا مطلب ہے چھ، سات مرد اور چار، پانچ خواتین۔ ہر ایک کے سپرد مختلف ذمہ داریاں ہیں۔‘‘
’’مالی نہیں ہے؟‘‘
’’ہے۔ شاید آپ یہ اجڑے ہوئے درخت اور سوکھی ہوئی گھاس دیکھ کر یہ بات کہہ رہے ہیں؟‘‘
’’جی…‘‘
’’کچھ عرصہ قبل یہ درخت سرسبز تھے، یہ گھاس آنکھوں کو بہار دیتی تھی لیکن سات، آٹھ ماہ سے اس پر بھی خزاں آگئی۔ درخت سوکھ گئے، گھاس جھلس گئی حالانکہ مالی نے اس پر جان توڑ کوشش کی۔‘‘
’’یہ سلسلہ کتنے عرصہ قبل شروع ہوا ہے؟‘‘
’’آپ اسے دس ماہ کے عرصے کی بات سمجھ لیں۔ تشریف لایئے۔ آپ عمارت کا یہ بیرونی حصہ دیکھ رہے ہیں؟‘‘
’’جی…‘‘
’’اس پر کوئی تین ماہ قبل رنگ کرایا ہے میں نے۔ تین ماہ میں یہ پھر ایسا ہوگیا ہے۔‘‘
’’اور اندر کی کیا کیفیت ہے؟‘‘
’’تشریف لایئے۔‘‘ مرزا صاحب نے کہا اور میں صدر دروازے سے اندر داخل ہوگیا مگر بڑے ہال میں قدم رکھتے ہی مجھے میرے سوال کا جواب مل گیا تھا۔ انتہائی نرم سرخ رنگ کا قالین بچھا ہوا تھا۔ وکٹورین طرز کے قدیم اسٹائل کے مگر بالکل نئے جیسے صوفے پڑے ہوئے تھے، دیواروں پر سرخ پردے لٹکے ہوئے تھے۔ رنگ و روغن بالکل درست تھا۔
’’گویا اندر کا ماحول ٹھیک ہے؟‘‘
’’آپ خود دیکھ لیجئے، یہ بیرونی حصہ ہے، اندر سے تمام حویلی بالکل درست ہے۔ شاہ بابا آپ اندر تشریف لے چلئے، بے شمار آراستہ کمرے ہیں یہاں، آپ جہاں پسند کریں، قیام کریں۔‘‘
’’کوئی بھی جگہ دے دیجئے۔ چند روز کا قیام ہے، اس میں کیا تکلف۔‘‘ میں نے جواب دیا۔ بڑے ہال کے دروازے کے دوسری طرف ایک چوڑی راہداری تھی جس میں دو رویہ کمروں کی قطار تھی۔ میں نے ایک دروازے کی طرف اشارہ کردیا۔ مرزا صاحب نے خود دروازہ کھولا تھا۔ نہایت نفیس خواب گاہ تھی، تمام ضروریات سے آراستہ۔ ’’یہ کسی کے استعمال میں ہے؟‘‘
’’قطعی نہیں۔ خاصے کمرے ہیں اس حویلی میں۔ پانچ میں ملازم رہتے ہیں، دو میں ہم، باقی خالی ہیں۔‘‘
’’تو پھر یہ میرے لئے درست ہے۔‘‘
’’بہت بہتر، جائزہ لے لیجئے، کسی شے کی کمی ہو تو فرما دیجئے گا۔‘‘
’’ملازم بھی اندر ہی رہتے ہیں؟‘‘ میں نے کمرے میں داخل ہوکر سوال کیا۔
’’کیا بتائیں شاہ صاحب! سارا نظام ہی الٹ پلٹ گیا ہے۔ ملازموں کی رہائشگاہیں عقبی حصے میں ہیں لیکن ہم نے ان سے ساتھ ہی رہنے کی درخواست کی ہے۔ یہ لوگ ہمارے سب سے وفادار ساتھی ہیں۔ یوں سمجھ لیں پشتنی۔ پہلے ملازموں کی تعداد زیادہ تھی لیکن جو نئے تھے، وہ سب بھاگ گئے۔‘‘
’’خوف زدہ ہوکر؟‘‘
’’جی ہاں! ہم سب نے اپنے کمرے برابر برابر رکھے ہیں اور سب ایک دوسرے کی خبرگیری رکھتے ہیں۔‘‘
’’جی۔‘‘ میں نے گہری سانس لے کر کہا۔
’’یہ زندگی گزار رہے ہیں ہم لوگ۔ آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیجئے۔ اچھا شاہ صاحب! سفر کی تھکن ہوگئی ہوگی، آرام کیجئے گا۔ چائے کس وقت پئیں گے؟‘‘
’’ایک گھنٹے کے بعد بھجوا دیجئے گا۔‘‘
’’مناسب، اجازت… ذرا اہل خانہ کو آپ کی آمد کی خوشخبری سنا دوں۔‘‘ مرزا صاحب باہر نکل گئے۔ ان کے جانے کے بعد میں نے ایک بار پھر اس کمرے کا جائزہ لیا۔ فرش پر قیمتی قالین بچھا ہوا تھا، انتہائی موٹے گدے کی مسہری تھی۔ دیوار پر تصویر لگی ہوئی تھی جس میں ایک معمر شخص تلوار لئے کھڑا ہوا تھا۔ ایک گوشے میں مصنوعی درخت رکھا تھا جس میں شاخیں نکلی ہوئی تھیں اور ان شاخوں پر خوش رنگ مصنوعی پرندے بیٹھے ہوئے تھے۔ غرض نفیس ماحول تھا۔ دروازے کے عقب میں ایک کھڑکی تھی جس پر پردہ پڑا ہوا تھا۔
میں ایک آرام کرسی پر بیٹھ گیا۔ ذہن میں بے شمار خیالات آنے لگے۔ اس بار میں لالچ کے تحت یہاں آیا ہوں۔ ماحول کا جائزہ ظاہر کررہا ہے کہ بات کافی ٹیڑھی ہے۔ کامیاب ہوسکوں گا یا نہیں۔ میرے یہاں رہنے کا انداز وہی تھا جس طرح جادو، ٹونوں کے عامل کاروباری دوروں پر نکلتے ہیں۔ دیکھیں کیا ہوتا ہے۔
دیر تک سوچوں میں گم رہا پھر کچھ اکتاہٹ سی محسوس ہوئی تو اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑکی کا پردہ سرکایا اور چٹخنی کھول دی۔ کھڑکی کا پٹ کھولا ہی تھا کہ عقب سے شی شی کی آواز ابھری، پھر جملہ سنائی دیا۔
’’اے… اے… ہش ہش۔ کھڑکی مت کھولو، پرندے اُڑ جائیں گے۔‘‘ میں نے بے اختیار پلٹ کر دیکھا۔ کوئی موجود نہیں تھا، دروازہ بند تھا۔ یہ آواز کہاں سے آئی؟ ابھی اسی تجسس میں تھا کہ اچانک پروں کی پھڑپھڑاہٹ سنائی دی اور میں نے برق رفتاری سے پلٹ کر دیکھا۔ مصنوعی درخت کے نقلی پرندے تمام شاخوں سے پھڑپھڑا کے بلند ہورہے تھے، پھر انہوں نے کھڑکی کی سیدھ اختیار کی اور ایک دوسرے کے پیچھے کھلی کھڑکی سے باہر نکل گئے۔ ابھی حیرت سے منہ کھولے یہ ناقابل یقین منظر دیکھ رہا تھا کہ تلوار بردار بوڑھے شخص کی تصویر کے فریم سے پیچ کھلنے کی آواز سنائی دی۔ فریم خالی ہوگیا تھا اور اس میں نظر آنے والا بوڑھا تلوار سمیت نیچے کھڑا تھا۔
’’منع کیا تھا کہ کھڑکی مت کھولو۔ اڑا دیئے سارے پرندے، اب مشکل سے ہاتھ آئیں گے۔‘‘ اس کی منمناتی
آواز سنائی دی اور دوسرے لمحے اس نے کھڑکی کی طرف دوڑ لگا دی۔ پھر وہ لمبی لمبی لمبی چھلانگ لگا کر کھڑکی سے باہر نکل گیا۔
میں اپنی جگہ ساکت کھڑا رہ گیا۔ نگاہوں کے سامنے خالی درخت، خالی فریم اور کھلی کھڑکی تھی۔ چند لمحات حیران کھڑا رہا۔ پھر کھڑکی سے باہر جھانکا۔ باہر خاموش اور سنسان رات پھیلتی جا رہی تھی۔ میں نے گہری سانس لے کر کھڑکی بند کر دی۔ یہ عمل کسی انسان کے دل کی حرکت بند کر دینے کے لئے کافی تھا۔ اس کے نتیجے میں دیکھنے والے کی حالت خراب ہوسکتی تھی لیکن میری نہیں۔ یہ سب کچھ میرے لئے ایک لمحے کی حیرت تو بن سکتا تھا، خوف نہیں۔ چنانچہ میں واپس آ کر مسہری پر بیٹھ گیا۔ مرزا عزت بیگ کی بات کا یقین تو حویلی میں داخل ہوتے ہی ہو گیا تھا۔ تصدیق اب ہوگئی تھی۔ مجھے اب یہ سوچنا تھا کہ مجھے ان ناپاک رُوحوں کے خلاف کیا عمل کرنا چاہیے۔ ذہن پر ایک طرح کا جنون سوار تھا۔ یہ احساس بھی تھا کہ میں زیرعتاب نہ سہی، کم از کم ناپسندیدہ نگاہوں سے دیکھا جا رہا ہوں۔ ہو سکتا ہے مجھے اس حویلی میں کامیابی حاصل نہ ہو لیکن اس کے باوجود میں کچھ کرنا چاہتا تھا۔ دل میں ایک سکون تھا، ایک فریاد تھی جو نہ الفاظ بن سکتی تھی، نہ جامع سوچ۔ بس ایک رویا رویا سا احساس تھا جیسے کسی اپنے نے بے اعتنائی کی ہو۔ جیسے کسی من چاہے نے ناکردہ گناہ کی سزا دی ہو۔ بہت دیر اسی طرح گزر گئی۔ پھر مسہری پر لیٹ گیا۔ آنکھیں بند کر لیں۔ جو کچھ ہو چکا تھا، وہ کچھ نہیں تھا میرے لئے۔ میں بھلا اس سے کیا خوفزدہ ہوتا۔ بند آنکھوں میں نیند نے بسیرا کر لیا۔ شاید سفر کی تھکن نے نڈھال کر دیا تھا۔ پھر دروازے پر دستک ہوئی اور میں چونک پڑا۔ آنکھیں پھاڑ کر دروازے کی طرف دیکھا۔
’’کون ہے، آ جائو۔‘‘ ملازم چائے لایا تھا۔ اس نے برتن میرے سامنے رکھ دیئے۔
’’مرزا صاحب کہاں ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’کون مرزا؟‘‘ ملازم حیرت سے بولا۔
’’مرزا عزت بیگ؟‘‘ میں نے اس سے زیادہ حیرت سے کہا۔
’’کون مرزا عزت بیگ۔‘‘ ملازم نے اسی انداز میں کہا اور میں چونک پڑا۔ میں نے گھور کر اسے دیکھا تو اچانک ہی میرے دماغ کو شدید جھٹکا لگا۔ ملازم کی صورت جانی پہچانی تھی۔ وہ نادر حسین کی ہو بہو تصویر تھا۔ میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔
’’نن۔ نادر حسین۔ تم…‘‘
’’کون نادر حسین۔ نہ جانے کس کس کا نام لے رہے ہو۔ بات ہی اُلٹی ہو رہی ہے، ہم تو چلے…‘‘ ملازم دروازے کی طرف بڑھا تو میں اس کی طرف لپکا۔
’’سنو تو نادر حسین۔ سنو تو۔‘‘ مگر ملازم نے دروازے سے باہر چھلانگ لگا دی۔ میں برق رفتاری سے دروازے سے باہر نکلا اور اِدھر اُدھر نظریں دوڑانے لگا۔ تاحدِ نگاہ خاموشی اور سنّاٹے کا راج تھا۔ کچھ دیر حیران کھڑا رہا۔ پھر ٹھنڈی سانس لے کر واپس اندر آ گیا۔ بہت عجیب، بہت پُراسرار واقعات تھے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ وہ نادر حسین ہی تھا۔ آواز تک وہی تھی۔ اب احساس ہو رہا تھا مگر بالکل بدلا ہوا۔ پہچانا ہی نہیں جا رہا تھا۔ چائے کے برتنوں پر نظر ڈالی تو پھر ششدر رہ گیا۔ چائے دانی، شکر دانی اور دُودھ کا برتن تھا۔ لیکن چائے نام کی کوئی شے نہیں تھی البتہ برتنوں کے درمیان ایک چمکدار خنجر رکھا ہوا تھا۔ کوئی دس انچ کا پھل تھا، اس کا اور اس پر نہایت خوبصورتی سے درودپاک کندہ کیا گیا تھا۔ دل کو ایک دھکا سا لگا۔ ہاتھ بے اختیار آگے بڑھے اور بڑی عقیدت سے وہ خنجر میں نے ہاتھ میں اُٹھا لیا۔ درود پاک پڑھا۔ دل روشن ہوگیا۔ اک دم سے سارے بوجھ دل سے ہٹ گئے۔ سب کچھ غلط ہوسکتا ہے، ہر چیز فریب ہوسکتی ہے لیکن یہ کسی طور دھوکا نہیں ہو سکتا۔ آنکھیں بھر آئیں۔ اچانک تنہائی دُور ہوگئی۔ اچانک بے کسی کا احساس ختم ہوگیا۔ اسی وقت دروازے پر آہٹ سُنائی دی اور میں نے جلدی سے اس متاع بے بہا کو سینے کے قریب چھپا لیا۔
’’آ سکتا ہوں۔‘‘ دروازے سے عزت بیگ کی آواز سنائی دی۔
’’تشریف لایئے۔‘‘
’’نورچشمی قدسیہ بانو بھی ساتھ ہیں۔ آئو بیٹی…‘‘ ایک پیکر شباب اندر آ گئی۔ سادہ لباس مگر حسن سادہ بھی نہایت پُرکار… ’’قدسیہ نام ہے اس کا… بڑی بیٹی ہے میری شاہ بابا۔ آپ کے قدموں میں آئی ہے۔‘‘ عزت بیگ نے کہا۔ پھر چائے کے برتنوں کو دیکھ کربولے۔ ’’چائے پی لی کیا۔ مگر وہ احمق تو کچھ اور ہی کہہ رہا تھا۔‘‘
’’کون؟‘‘ میں نے پُراعتماد لہجے میں کہا۔ نگاہ قدسیہ پر پڑی۔ وہ بڑی میٹھی نگاہوں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔
’’شرفو ہے اس کا نام۔ کہہ رہا تھا کہ چائے لے کر جا رہا تھا کہ کسی نے برتن ہاتھ سے چھین لئے۔ ابھی ابھی تو خبر دی ہے اس نے، ادھر ہی آ رہا تھا۔‘‘
’’ٹھیک کہہ رہا تھا۔ برتن آئے تو ہیں مگر چائے سے خالی ہیں۔‘‘ میں نے برتنوں کی طرف اشارہ کر کے کہا۔
’’دیکھ لیا آپ نے۔ یہ ہوتا ہے یہاں دن رات اور تو کوئی واقعہ نہیں پیش آیا؟‘‘ مرزا صاحب نے کہا۔
’’کوئی خاص نہیں۔ بس اس پیڑ کے پرندے اُڑ گئے۔ اس فریم میں جو تھا، وہ ان پرندوں کو پکڑنے نکل گیا۔‘‘ میں نے کہا اور مرزا عزت بیگ عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھنے لگا۔ پھر ایک ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔
’’چلئے اچھا ہوا آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ یہی ہوتا ہے ان بچوں کے ساتھ۔ آپ تو دل کے مضبوط ہیں۔ ایسے واقعات بہت دیکھے ہوں گے آپ نے مگر یہ بچّے۔ یہ تو ڈرتے ہی ہیں کیوں قدسیہ…‘‘ مرزا صاحب نے بیٹی کی طرف دیکھا اور میری نظر دوبارہ اس کی طرف اُٹھ گئی۔ وہ ان باتوں سے بے نیاز صرف مجھے دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں چمک تھی اور اس کا چہرہ۔ اس کا چہرہ بھی جانا پہچانا لگا۔ کہاں دیکھا ہے یہ چہرہ۔ پھر مجھے وہ پورنیاں یاد آ گئیں جو بھوریا چرن کے ایک عمل کے تحت مجھ پر مسلط ہو گئی تھیں۔ یہ چہرہ ان جیسا تھا۔ میں چونک سا پڑا تھا۔
’’میں خود چائے لے کر آتا ہوں۔‘‘ مرزا عزت بیگ اپنی جگہ سے اُٹھے تو میں نے انہیں روک دیا۔
’’نہیں مرزا صاحب۔ اب ضرورت نہیں محسوس ہو رہی۔‘‘
’’شاہ صاحب۔ ناراض ہوگئے ہیں کیا۔‘‘
’’ارے بالکل نہیں۔ اس میں ناراضگی کی کیا بات ہے۔‘‘ میں نے جلدی سے کہا۔
’’میں آپ کو بتا چکا ہوں۔ آپ نے چند لمحے یہاں گزارے ہیں، مجھے دیکھئے۔ مسلسل ان حالات سے گزر رہا ہوں۔ میری بیوی، میری بچیاں ہر لمحہ خوف کا شکار رہتی ہیں۔ میں یہاں رہنے پر مجبور ہوں۔ زندگی مسلسل عذاب بن کر گزر رہی ہے۔‘‘ مرزا عزت بیگ کی آواز بھرّا گئی۔ پھر وہ اُٹھ گیا۔ ’’چائے لاتا ہوں۔‘‘ اب میں اسے نہیں روک سکا تھا۔ وہ باہر نکل گیا۔ اس کی بیٹی بیٹھی رہ گئی تھی۔ میری نگاہ اس پر پڑی تو وہ پہلے کی مانند مجھے دیکھ رہی تھی۔
’’آپ لوگ بہت خوفزدہ رہتے ہیں اس گھر سے؟‘‘
’’نہیں تو…‘‘ وہ جیسے میرے سوال کی منتظر تھی۔
’’کیا مطلب؟‘‘ میں نے چونک کر کہا۔
’’مطلب… مطلب تو کچھ بھی نہیں۔‘‘ اس نے کہا اور ہنس پڑی۔ ’’مگر آپ کے والد تو یہی کہہ رہے تھے آپ کے سامنے…‘‘
’’والد… کون والد؟‘‘ اس نے پھر اسی انداز میں کہا اور میں بوکھلا گیا۔
’’مرزا صاحب کی بات کر رہا ہوں۔‘‘
’’اپنی بات نہیں کرو گے۔‘‘ وہ دلآویز انداز میں بولی۔
’’آپ کا مطلب کیا ہے قدسیہ؟‘‘
’’قدسیہ، کون قدسیہ۔ سنو، ایک بات بتائوں تمہیں۔ میرا کمرہ اس کمرے کی آخری قطار کے دُوسری طرف ہے۔ تمہیں اس سے سرخ روشنی جلتی نظر آئے گی۔ جب رات ڈھلے، جب چاند آدھے آسمان پر آ جائے تم میرے پاس آ جانا۔ باٹ تکوں گی۔ دروازہ کھلا رکھوں گی… آنا ضرور…‘‘ وہ اُٹھ گئی۔ میں اسے نہ روک سکا تھا۔ دروازے پر رُک کر اس نے گردن گھمائی مجھے دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں سُرخ روشنی چمک رہی تھی۔ وہ مسکرائی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی یہ مسکراہٹ ہوش چھین لینے والی تھی۔ پھر وہ باہر نکل گئی۔
میں چکرا کر رہ گیا تھا۔ یہ سب کچھ مجھے بہت عجیب لگا تھا۔ نہ جانے کیوں اس میں مایوسی کا احساس بیدار ہونے لگا تھا۔ میں دولت کے لالچ میں عزت بیگ کے ساتھ آ گیا تھا۔ یہ سوچ کر آ گیا تھا کہ اگر اس کا کام ہو جائے تو جو کچھ اس سے ملے گا، اسے شمسہ کے حوالے کر دوں گا۔ فیضان اس سے ایک نئی زندگی کا آغاز کرے گا اور میرے دل کو یہ سکون ہو جائے گا کہ میری بہن اچھی زندگی گزار رہی ہے۔ لیکن یہ سب کچھ بہت عجیب لگ رہا تھا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ سب کچھ نہیں ہو سکے گا، جو میں چاہتا ہوں۔ گناہ بے لذت سا ہوتا جا رہا تھا، حالانکہ مرزا عزت بیگ بتا چکا تھا کہ آسیب یہاں ہنگامہ آرائیاں کر رہے ہیں اور یہ سب کچھ ان کے تابع ہے۔ مجھے یہی محسوس ہو رہا تھا، اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ رہا تھا لیکن بس مایوسی کا ایک احساس خودبخود میرے دل میں پیدا ہوتا جا رہا تھا۔
کچھ دیر کے بعد عزت بیگ واپس آ گیا۔ چائے کے برتن وہ اپنے ہاتھوں میں اُٹھائے ہوئے تھا۔ اس نے وہ برتن میرے سامنے رکھے اور پھر اِدھر اُدھر دیکھتا ہوا بولا۔ ’’ارے یہ قدسیہ کہاں چلی گئی؟‘‘
’’پتہ نہیں، بس اُٹھ کر چلی گئیں۔‘‘ میں نے کہا۔ مرزا عزت بیگ نے ٹھنڈی سانس لی اور آہستہ سے بولا۔
’’وہ سب آسیب زدہ ہیں۔ یہ گھر مکمل طور پر آسیب زدہ ہے، ہم یہاں سے کہیں جاتے ہیں تو بیماریاں شروع ہو جاتی ہیں۔ جسمانی طور پر ہم اسی گھر میں تندرست رہتے ہیں لیکن ذہنی طور پر۔ آپ کو خود اندازہ ہوگیا ہوگا شاہ صاحب، سب کی یہی کیفیت ہے اور میرا دماغ چٹختا رہتا ہے، آپ چائے پیجئے…‘‘
’’نہیں مرزا صاحب آپ یقین کیجئے بالکل حاجت نہیں ہے۔ میں تو منع کر رہا تھا آپ کو، آپ نے خود ہی زحمت کر ڈالی۔ بہرحال مرزا صاحب میں اس پورے گھر کا جائزہ لوں گا، رات ہو چکی ہے، آپ اپنے مشاغل جاری رکھئے۔ آپ کے اہل خاندان سے بھی ملاقات کروں گا اور ان سے بھی جو یہاں آپ کو پریشان کئے ہوئے ہیں۔‘‘
’’شاہ صاحب بات اتنی ہی نہیں ہے کہ آپ ہماری مدد کریں گے بلکہ یوں سمجھ لیجئے کہ چند انسانی زندگیاں اس وقت آپ کے رحم و کرم پر ہیں اور آپ کی کاوشیں انہیں نئی زندگی سے روشناس کرا سکتی ہیں۔ ورنہ سچی بات یہ ہے کہ ہم نیم جان ہو گئے ہیں۔ آپ چائے پی لیتے تو اچھا تھا۔ حالانکہ وقت واقعی کافی ہوگیا ہے۔ رات کے کھانے میں بھی دیر نہیں رہ گئی۔ شاہ صاحب آپ یہ فرمایئے کب سے کام شروع کریں گے؟‘‘
’’آج ہی رات سے مرزا صاحب…‘‘
’’میرے لائق خدمت بتایئے؟‘‘
’’نہیں آپ اپنے کمروں میں محدود ہو جائیں۔ ہاں ذرا ملازمین کو بھی ہدایت کر دیجئے گا کہ میری کارروائیوں میں روک ٹوک نہ کریں۔‘‘
’’کہاں شاہ صاحب۔ بس رات کا کھانا تو جلدی کھا لیا جاتا ہے ہمارے ہاں اور اس کے بعد یہ بے چارے بچّے، یہ کچھ ملازم بس روایتی طور پر اپنی وفاداریاں نباہ رہے ہیں، اپنے اپنے کمروں میں جا گھسیں گے۔ سب ہی خوفزدہ ہیں۔ میں نے انہیں نجانے کن کن الفاظ میں تسلّیاں دی ہیں اور کہا ہے کہ یہ مصیبت دُور ہو جائے گی۔ آپ اطمینان سے اپنا کام کیجئے گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔ آپ مطمئن رہیں۔‘‘
مرزا عزت بیگ خود ہی چائے کے برتن لے کر چلا گیا تھا اور میں ایک ٹھنڈی سانس لے کر گہری سوچوں میں گم ہوگیا تھا۔ بہت دیر تک خیالات میں ڈوبا رہا اور اس کے بعد ذہن اس خنجر کی جانب متوجہ ہوگیا جو میرے لباس میں محفوظ تھا۔ میں نے اِدھر اُدھر دیکھ کر خنجر اپنے لباس سے نکالا اور اس پر کنداں درود پاک کا جائزہ لینے لگا۔ بہت حسین خنجر تھا اور اس کے بارے میں ایک لمحہ بھی یہ سوچنا کہ اس میں کوئی ایسی ویسی بات ہے، میرے لئے گناہ عظیم تھا۔ درود پاک اس کا مکمل ضامن تھا اور اس کے علاوہ کوئی اور ضمانت مجھے جیتے جی درکار نہیں تھی۔ پہلے دل کی جو کیفیت تھی اب نہیں رہی تھی۔ اب تو بڑا اعتماد ہوگیا تھا اور یہ بھی یقین تھا کہ وہ مقصد جو میرے دل میں ہے پورا ہو یا نہ ہو، لیکن کم از کم یہاں میری زبردست معرکہ آرائی رہے گی اور اس کا نتیجہ بہتر ہی نکلے گا۔ (جاری ہے)