ہم بنیادی طور پر گائوں سے تعلق رکھتے تھے۔ وہیں پلے بڑھے اور میٹرک تک تعلیم پائی۔ ہم دونوں بہنیں میٹرک سے آگے نہ پڑھ سکیں لیکن بھائی عالم کو علم حاصل کرنے کا جنون تھا، تبھی والد صاحب نے ان کے شوق کو دیکھتے ہوئے لاہور کالج میں داخلہ کرا دیا۔
عالم نے دل لگا کر پڑھا کیونکہ اسے احساس تھا کہ والد ایک سفید پوش ٹیچر ہیں اور گائوں میں تعلیمی سہولیات کا فقدان ہے۔ ایسے میں ان کی ناکامی سارے کنبے کی ناکامی ہو گی اور ان کی کامیابی سے ہم سب کی تقدیریں بھی بدل جائیں گی ہمارا اچھا مستقبل عالم بھائی کی شاندار کامیابی سے جڑا ہوا تھا۔ شبانہ روز کی بھائی کی محنت رنگ لائی، بہترین نمبروں سے ایم بی اے کر لیا۔ جلد ہی لاہور میں ایک بینک میں بطور آفیسر جاب مل گئی۔ اب تو بھائی کے ٹھاٹ ہو گئے۔ کہاں دیہات کی پسماندہ حیات اور کہاں لاہور شہر کی ایڈوانس زندگی، جہاں تعلیم کا معیار اعلیٰ اور طرز زندگی، بود و باش بھی ترقی یافتہ ثقافت کی مظہر تھی۔ اب بھائی نے شلوار قمیص پہننی چھوڑ دی۔ وہ گائوں آتے تو سوٹڈ بوٹڈ ہوتے اور سبھی لوگ ان سے ملنے اشتیاق سے آتے۔ وہ ہمارے خاندان کا فخر بن چکے تھے۔ خاص طور پر چاچا جان تو بھائی کی ترقی سے بہت خوش تھے کیونکہ ان کی بیٹی بچپن سے میرے بھائی سے منسوب تھی۔ چاچا جان کو مینا کا مستقبل خوشیوں بھرا نظر آرہا تھا۔ والد صاحب کی طرح ہمارے یہ چچا بھی دیہات کے ایک پرائمری بوائز اسکول میں ٹیچر تھے اور کم آمدنی میں سفید پوشی سے گزارا کرتے تھے۔ بھائی جب گھر آتے ، ہم ان کے ارد گرد اکٹھے ہو جاتے اور شہر کی باتیں پوچھتے ۔ میں خاص طور پر بڑے شوق سے لاہور کے بارے میں باتیں سنتی تھی۔ بھائی بتاتے تھے کہ آفس میں ان کے ساتھ بہت سی لڑکیاں کام کرتی ہیں اور وہ کافی ماڈرن اور فیشن ایبل ہیں ، وہ انہیں لاہور کی تتلیاں کہتے تھے جن کے لباس خوش نما اور طریقہ تہذیب یافتہ تھا۔ وہ ان کی تعریف کرتے تو دل چاہتا انہیں دیکھوں ، ان سے ملوں کہ وہ کیسی ہیں۔ میری چچازاد مینا جو عالم بھائی کی منگیتر تھی، جب آتی عالم بھائی کے بارے میں پوچھتی ۔ اگر وہ لاہور سے آئے ہوتے تو یہ بصد اشتیاق ہمارے یہاں آجاتی چھپ چھپ کر اپنے منگیتر کو دیکھتی۔ مینا گائوں میں پیدا ہوئی اور اب تک کبھی اپنے گائوں سے نہ نکلی تھی۔ اس نے صرف شہر کے بارے میں سنا تھا، کبھی سفر نہ کیا تھا۔ پڑھی لکھی بھی نہیں تھی، خوبصورت ضرور تھی لیکن ایسی خوبصورتی کس کام کی جب پہننے اوڑھنے کا سلیقہ ہی نہ ہو۔ عالم بھائی اپنی منگیتر سے شادی نہ کرنا چاہتے تھے۔ ان کے لئے یہ بات تکلیف دہ تھی کہ ان کی شریک حیات آن پڑھ وہ تو کسی اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی کو شریک زندگی بنانے کے خواب دیکھتے تھے۔ ایک روز جب والدہ نے شادی کا تذکرہ چھیڑا تو عالم بھائی نے کہا کہ انہیں اپنے ساتھ کام کرنے والی ایک لڑکی فاخرہ نامی پسند ہے اور وہ اس کے ساتھ شادی کرنا چاہتے ہیں۔
جب والدہ صاحبہ نے بیٹے کی خواہش سے والد صاحب کو آگاہ کیا تو وہ سخت برہم ہوئے۔ انہوں نے آنکھیں نکال لیں اور کہا کہ خبردار دوبارہ ایسی بات کی۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ میں نے عالم کو اس لئے نہیں پڑھایا تھا کہ وہ پڑھ لکھ کر ہمیں نکو ثابت کر دے۔ میں اپنے بھائی سے ناتا نہیں توڑوں گا۔ اگر عالم نے میری بات نہ مانی تو اسی سے ناتا ختم کر دوں گا۔ عالم نے دل پر پتھر رکھ لیا۔ والدین کے احسان کو فراموش کرنا لائق اولاد کے بس کی بات نہ تھی۔ انہوں نے اپنی خوشی کی قربانی دینا منظور کر لیا لیکن والد صاحب کے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا۔ دل پر پتھر رکھ کر عالم بھائی نے والدین کی خوشی پوری کر دی، مینا بیبی کو بیوی بنا کر شہر لے گئے۔ بینک کے ساتھیوں کو معلوم ہو گیا کہ عالم شاہ کی شادی ہو گئی ہے ، وہ سب پیچھے پڑ گئے کہ مٹھائی کھلائو اور دعوت بھی دی کہ بھابی کے ساتھ آپ کو شاندار ڈنر کرائیں گے … خاص طور پر بھائی کے ساتھ کام کرنے والی لڑکیوں نے بے حد اصرار کیا کہ ہم کو اپنی دلہن سے ملوایئے اور اپنے گھر بلایئے ، ان کی ہم بھی دعوت کریں گے۔ مینا حالانکہ سلیقہ مند اور بہت خوبصورت تھی مگر وہ ایک دیہاتی دوشیزہ تھی اور اسے شہر والوں کے ساتھ گفتگو ، اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے کے آداب نہ آتے تھے۔ اسی باعث بھائی بیوی کے بارے میں احساس کمتری کا شکار ہو رہے تھے۔ وہ مینا کو اپنی دفتری کولیگ لڑکیوں سے بھی نہیں ملوانا چاہتے تھے کہ کہیں وہ تمسخر اڑائیں اور ان کی سبکی ہو جائے۔ عالم بھائی نے مرد دوستوں کو ٹال دیا مگر کولیگ لڑکیاں نہ مانیں اور ایک دن گھر پہنچ گئیں۔ فاخرہ اور رابعہ نے اصرار کیا کہ ہوٹل میں ڈنر کرنا ہے۔ اب کوئی راہ فرار باقی نہ رہی۔ بھائی نے مینا بھابی سے کہا تیار ہو جائو ہم نے کھانا کھانے ہوٹل جانا ہے۔ مینا نے ان لڑکیوں کو سلام کیا اور پھر تیار ہونے کمرے میں چلی گئیں۔ اب بھائی گھبرا گھبرا کر بیوی کو ہدایت دے رہے تھے اور لڑکیوں کو ڈرائنگ روم میں بٹھا دیا تھا۔ جب مینا بھابی تیار ہو کر ڈرائنگ روم میں گئیں تو ان کی تیاری اور سنگھار دیہاتی طرز کا تھا۔ جھومر ، ٹکا اور لمبے آویزے اس پر تیز میک آپ اور بالوں میں پراندہ، سر پر عجب طرح سے دوپٹہ لیا ہوا،لباس شوخ و شنگ جیسے ایک دن کی دلہن ہوں۔ ایسی تیاری میں ہوٹل جانا واقعی عالم بھائی کے لئے سبکی کا باعث بنتا۔ لڑکیوں نے جب مینا کو اس روپ میں دیکھا تو ان کی ہنسی نکل گئی۔ وہ کسی طرح بھی ایک جوکر سے کم نہ لگ رہی تھیں۔ عجب حلیہ تو تھا ہی، اوپر سے میک آپ ایسا تھوپا تھا کہ اپنی دلہن کو اس حلیے میں دیکھ کر میرے بھائی کو سچ مچ پسینہ آ گیا۔ لڑکیوں کے چہرے پر تمسخر آمیز مسکراہٹ ان کو اور بخل کر رہی تھی۔ اشارے سے بیوی کو دوسرے کمرے میں بلایا اور کہا۔ مینا یہ تم نے کیسا حلیہ بنا لیا ہے، بالکل کارٹون نظر آرہی ہو۔ کیا ایسے حلیے میں تم اتنے بڑے ہوٹل میں چلو گی، جہاں اعلیٰ سوسائٹی کے پوش لوگ آتے ہیں، میری تو ناک کٹ جائے گی، لوگ کیا سوچیں گے ، کیسی گنوار بیوی بیاہ لایا ہے۔ وہاں سب موجود لوگوں کی ہنسی نکل جائے گی۔ یہاں تو صرف دو لڑکیاں ہی ہنس رہی ہیں۔ پھر میں کیا کروں؟ مینا نے معصومیت سے پوچھا… منہ دھو لو اور ہلکا سا میک آپ کرو۔ بھاری زیور اتار کر ہلکے پھلکے پہنو اور یہ زرق برق لباس بھی تبدیل کرو، خدارا جہالت کا جیتا جاگتا اشتہار بن کر نہ چلو۔
بھائی کے لہجے کی تلخی کو نئی دلہن نے اپنے نازک دل پر کٹاری کی طرح محسوس کیا۔ آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے اور سخت توہین محسوس کرتے ہوئے انہوں نے لباس بدلنے سے انکار کر دیا بلکہ پارٹی میں جانے سے انکاری ہوئیں اور بستر پر گر کر سسکیاں بھرنے لگیں۔ عالم بھائی سخت پریشان اور برہم بھی ہوئے۔ انہوں نے بیوی کی طبیعت خراب ہونے کا بہانہ کر کے اپنی آفس کی لڑکیوں سے معذرت کر لی۔ وہ بھی سمجھدار تھیں، سمجھ گئیں کہ ان پڑھ بیوی شہری زندگی کا سلیقہ نہیں جانتی، فی الحال ان کے قدم سے قدم ملا کر نہیں چل سکتی۔ وہ تو چلی گئیں مگر عالم بھائی غصے میں تپے تھے ، وہ بیوی پر برسنے اور گرجنے لگے۔ چیخ چیخ کر بولے شہر میں رہنے کے لئے شہریوں جیسے طور اطوار اپنانے ہوں گے ورنہ واپس گائوں چلی جائو اور پھر کبھی مت آنا۔ ابا نے بھی مجھے کسی اجڈ کے پلے باندھ دیا ہے جس کو بات کرنے تک کی تمیز نہیں ہے۔ بھائی کو تو اس بات کا دکھ تھا کہ جب ان کی یہ کولیگ دفتر جا کر سب کو ان کی بیوی کے بارے میں بتائیں گی تو ان کی کس قدر سبکی ہو گی۔ مینا بھابی کو بھائی کی ان الجھنوں سے کیا مطلب۔ وہ تو نئی دلہن تھی اور شوہر کے چونچلے چاہتی تھی۔ باپ کو بلوالیا کہ مجھے یہاں سے لے جائو۔ عالم میری بے عزتی کرتے ہیں۔ بھائی نے اگلے دن چھٹی لی اور روتی دھوتی نئی نویلی دلہن کو گائوں چھوڑ کر چلے گئے۔ کچھ دنوں بعد فاخرہ نے عالم بھائی کے دل کو ٹولا کیونکہ یہ اب بہت اداس رہنے لگے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ زبردستی والد نے اس ان پڑھ دیہاتی لڑکی سے شادی کرائی ہے چونکہ ان کے بھائی کی بیٹی ہے اور بچپن سے منسوب کیا گیا تھا لیکن میں اس شادی سے خوش نہیں ہوں، میرے تو دل کی کلی مرجھا کر رہ گئی ہے۔ فاخرہ نے کہا کہ اگر تم چاہو تو میں تم سے شادی کا بندھن باندھنے پر تیار ہوں، بشرطیکہ اپنی بیوی کو طلاق دے دو۔ عالم نے جواب دیا۔ طلاق میں نہیں دے سکتا ، اگر ویسے تم چاہو تو تم سے شادی کر سکتا ہوں۔ جب عالم کا کمزور پہلو سمجھ لیا، وہ ان پر التفات کرنے لگی اور غم بانٹنے کو روز شام کو ان کے ساتھ سیر و تفریح کو بھی جاتی۔ یوں رفتہ رفتہ بھائی اس کے شکنجے میں پھنس گئے اور دونوں نے اپنی مرضی کی شادی لاہور میں کر لی جس کی خبر بھائی نے ہم کو نہ ہونے دی۔ شروع میں دونوں نے شادی کے خوب مزے لئے لیکن جلد ہی فاخرہ کو اندازہ ہو گیا کہ عالم بے شک پڑھ لکھ گیا ہے لیکن اس کا ذہن اب بھی دیہاتی ہے۔ وہ فاخرہ کو بہت زیادہ آزادی نہ دیتا اور دوسرے کولیگ کے ساتھ ہنسنے بولنے سے بے چین ہوتا تھا۔ فاخرہ ایسی پابندیوں کی عادی نہ تھی بلکہ ان پابندیوں کو وہ حقارت کی نگاہ سے دیکھتی تھی۔ عالم بھائی خود کو نہ بدل سکے اور نہ ہی فاخرہ نے لچک دکھائی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں میں فاصلے بڑھنے لگے۔ وہ لباس بھی نیم عریاں سا پہنتی اور دفتر آتی تو مرد اسے معنی خیز نظروں سے تکتے ، تب بھائی کو غصہ آتا، گھر آکر سمجھاتے کہ مناسب لباس پہنا کرو، اس قدر چست اور نیم عریاں لباس کو میں نہیں برداشت کر سکتا۔ تم کو پہلے یہ سب کیوں دکھائی نہ دیا، اب کس لئے اعتراض کرتے ہو۔ میں تو پہلے بھی فیشن کرتی تھی، اس وقت میرا یہی فیشن تم کو اچھا لگتا تھا، اب تم کو اس پر اعتراض ہے۔ میں جیسی ہوں ویسی رہوں گی۔ اگر تم کو نہیں قبول، مجھے آزاد کر دو لیکن میں تمہاری دیہاتی سوچ کی خاطر اپنی شخصیت کو نہیں مٹا سکتی۔
کافی دنوں تک اس قسم کی لڑائیاں چلتی رہیں، بالآخر ان لڑائیوں کا نتیجہ طلاق کی صورت میں برآمد ہوا۔ اس وقت تک عالم سے فاخرہ کو ایک بیٹی پیدا ہو چکی تھی۔ جب بیٹی دو برس کی تھی، ان دونوں کے بیچ طلاق واقع ہو گئی اور عالم نے بیٹی فاخرہ سے طلب کر لی۔ اس نے بھی بیٹی کو باپ کے حوالے کر دیا کیونکہ وہ اس کے پالنے کی ذمہ داری نہیں لینا چاہتی تھی۔ اس عرصہ میں وہ بینک کے ایک اور اعلیٰ افسر کی منظور نظر بن چکی تھی۔ پس طلاق کی عدت کو پورا کرتے ہی اس نے اس افسر سے شادی کر لی اور بہتر زندگی کی طرف چلی گئی۔ عالم نے اپنا تبادلہ اپنے گائوں کے نزدیک ایک شہر میں کرا لیا اور بیٹی کو گھر لے آئے۔ مینا بھابی روٹھ کر اپنے میکے چلی گئی تھیں۔ امی ابو سے کہا کہ میری بیوی کو منا لائیے تا کہ ننھی سارہ کی پرورش کر سکے۔ والدین نے مینا کو منایا اور جا کر گھر لے آئے ۔ اب بھائی کو اپنی دیہاتی بیوی کی قدر و منزلت معلوم ہو گئی اور اسے دل سے قبول کر لیا کیونکہ وہ ان کی ننھی منی بچی کو پیار کرتی اور اسے دل سے لگا لیا تھا۔
آج بھائی عالم اور مینا بھابی خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔ میری اس بھابی میں سو گن ہیں۔ خدا نے چار بچے دیئے ہیں مگر سارہ کو سب سے بڑھ کر چاہتی ہیں۔ کبھی اسے یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ وہ ان کی سوتیلی بیٹی ہے اور اس کو انہوں نے جنم نہیں دیا تھا۔ اب تو وہ بہت تہذیب یافتہ خاتون ہیں۔ رفتہ رفتہ شہری اور پڑھے لکھے لوگوں جیسے طور طریقے سیکھ لئے ہیں۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ ان پڑھ دیہاتی یا اجڈ خاتون ہیں۔ سچ ہے اگر شوہر صحیح معنوں میں تعلیم یافتہ ہو تو آن پڑھ بیوی کو بھی سوجھ بوجھ سے پڑھے لکھے لوگوں جیسے رنگ ڈھنگ سکھا دیتا ہے۔ انسان ایک دم تو اپنا طر ز زندگی نہیں بدلتا۔ اچھی سوسائٹی میں رہ کر رفتہ رفتہ ہی اس کی شخصیت میں بدلاؤ اور نکھار آتا ہے۔ اصل بات تو وفا اور خلوص کی ہوتی ہے جس سے ازدواجی زندگی میں احترام آتا ہے اور زندگی کامیاب گزرتی ہے۔